کالا کوا اور سفید بطخ کہانی
ایک تھا کالا کوا
اسے اپنے کالے ہونے پر بہت دکھ ہوتا تھا
وہ جہاں جاتا دھتکارا جاتا
کسی کے گھر کی چھت پر بیٹھتا تو گھر والے مہمان نہ آجائیں اس خوف سے مار بھگاتے
کسی بجلی کی تار پر بیٹھا ہوتا نیچے گزرتا کوئی انسان اسکی بٹ کی زد میں آ کر اسے گھورتا کوستا جاتا
ایسے ہی کہیں اڑتا جاتا بچے غلیل سے نشانے لگا کر اسے زخمی کر دیتے
غرض زندگی تنگ تھی اس پر
تنگ آ کر ندی کنارے آ جاتا دور دور تک پانی کو دیکھتا رہتا
پھر پانی پر تیرتی مخلوق کو
مخلوق بھی خوب سفید براق بطخ اس نے اتنا دیکھا اسے کہ اسے
سفید بطخ سے محبّت ہو گئی روز اڑتا آتا ندی کنارے بیٹھ کر بطخ کو قین قین کرتا دیکھتا رہتا
اکثر جوش میں آ کر کائیں کائیں بھی کرتا
بطخ اڑنا بھی جانتی تھی اسکی پرواز زیادہ بلند نہیں ہوتی تھی مگر اتنا اڑ لیتی کہ کوے کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی سوچتا تھا اسے اڑنا آتا مگر مجھے تیرنا نہیں آتا چلو اتنا فرق چل جاتا میں تھوڑا نیچی اڑان بھر لیا کرونگا وہ خوش فہمی پالتا
ہم ایک ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں وہ خوش ہو کر اسے اور تاڑتا
بطخ کو اسکا تاڑتے جانا پسند نہیں تھا مگر ہنہ کر کے شان سے گردن اکڑا کر تیرتی رہتی
کوے کو اسکی بے نیازی بھی بھاتی تھی اکثر سوچتا کاش وہ بھی سفید بطخ ہوتا ان دونوں کے بیچ اتنی دوریاں نہ ہوتیں دونوں اڑتے پھرتے تیرتے پھرتے
ایک دن کوا اسی طرح بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا کہ اچانک اسکے دیکھتے دیکھتے ہی بطخ ڈوبی اور ایک بڑے سے
جال میں پھنس گئی
کوا بھونچکا رہ گیا اڑ کر اسکے جال پر جا بیٹھا اور چونچیں مار مار کر جال کاٹنے کی کوشش کرنے لگا
بطخ بری طرح گھبرا چکی تھی مگر جال سے نکلنا اس کے بس سے باہر تھا
کوا چونچیں مار رہا تھا مگر اسکی چونچ چونچ تھی آری تھوڑی منہ کی جگہ لٹکا کر گھوم رہا تھا
رسی گھسی تو ضرور مگر کٹ نہیں رہی تھی کتنی دیر گزری
کوا بطخ کو تسلی دیتا میں بچا لونگا تمہیں بطخ زور زور سے روتی کوا تڑپ جاتا اور کوشش کرتا شومئی قسمت
ماہی گیرچلا آیا کشتی لے کے ا س نے جال بچھایا تو بڑی مچھلی پکڑنے کے لئے تھا مگر بطخ دیکھ کر اسکے منہ میں پانی بھر آیا
اس نے اس سنکی کوے کو جو بلا وجہ اسکے دوپہر کے کھانے کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا
ہسش کر کے اڑایا
بطخ بھی جال سے نکلنے کو بے تاب تھی کوے کو دیکھ کر اس نے حوصلہ پکڑا ہوا تھا مگر بد نصیب
ماہی گیر نے کوے کو خاصی بیزاری سے گھور کر دیکھا کشتی پر سے سوٹی اٹھائی اور مار بھگایا
کوا اڑ تو گیا مگر پھر اسی کشتی کے گرد چکراتا چیختا اڑتا رہا
بطخ خوب شور کر رہی تھی ماہی گر نے تنگ آ کر چھری اٹھا لی
کوے کے دل نے لمحہ بھر کو دھڑکنا ہی چھوڑ دیا
بطخ کی آخری چیخ بلند ہوئی کوا واپس اپنے مسکن کو لوٹ گیا
رات کو کوا بیٹھا بطخ کو سوچ رہا تھا اور رو رہا تھا
روتے روتے اس نے کہا کاش بطخ کوی ہوتی کالی ہوتی
کوئی کھاتا تو نہ اسے
کوا کالا ہوتا ہے مگر اڑ سکتا ہے ...
بطخ سفید ہوتی ہے اور اڑ سکتی ہے...
کوا کوئی نہیں کھاتا ...
بطخ سب کھاتے ہیں ...
نتیجہ : کالا کوا ہونا سفید بطخ ہونے سے بہتر ہے ...
از قلم ہجوم تنہائی
No comments:
Post a Comment