Posts

Showing posts with the label terrorism

درد کہانی ...

درد  کہانی ... ایک  بار  دو  درد  آپس میں  باتیں  کر  رہے  تھے ... دل  ٹوٹنے  کا  درد  اور  ہڈی  ٹوٹنے کا  درد  لڑنے  لگے   ہڈی  کا  درد  بولا  میں  زیادہ  محسوس  ہوتا  ہوں  نظر  بھی آتا  تمہارا  کیا  ہے  عادت  ہو  جاتی  ہے  اتنا  ٹوٹتے  ہو ... دل  کا  درد  بڑھ  گیا  کہہ  نہ  سکا  تمہیں  تو  ہمدردی  بھی  ملتی  درد  کم  بھی  ہو  جاتا ... دل  تو  نہ  جوڑتے  ہیں  نہ  ٹوٹنا  کم   ہوتے   نتیجہ : درد دل کا ہو یا ہڈی کا کوئی بانٹ نہیں سکتا  از قلم ہجوم تنہائی

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

پیار کہانی نمبر پانچ میں وہ اور کوا

پیار کہانی نمبر پانچ  میں وہ اور کوا  ایک تھا لڑکا  نہا دھو کر بالوں میں جیل شیل لگا کر تیار ہو کے ظاہر ہے کسی لڑکی سے ملنے جا رہا تھا  بائیک لہرا لہرا کر چلاتے ہوئے گنگنا بھی رہا تھا  اسکے اوپر سے کچھ کوے بھی اڑتے ہوئے کہیں جا رہے تھے  ترنگ میں آ کر اس نے پوچھا  سنو میں تو اپنی گرل فرنڈ سے ملنے جا رہا ہوں تم کہاں جا رہے ہو ؟ کوا جلدی میں تھا اڑتے اڑتے ہی بٹ کر گیا  پھر کوے تو پتا نہیں کہاں چلے گیے  اس لڑکے کو گھر واپس آنا پڑا اپنی گرل فرینڈ سے فون کر کے معزرت کر لی  کافی خفا ہوئی تھی وہ  گھر آیا تو نہا بھی لیا دوبارہ گندا بچہ تھوڑی تھا  نتیجہ : ڈیٹ پر جاتے ہوئے کوے سے کبھی نہیں پوچھنا چاہیے وہ کہاں جا رہا ہے  از قلم ہجوم تنہائی

سائنس دان کہانی

سائنس دان کہانی  ایک تھا سائنس دان ایک بار بیٹھا چا ۓ پی رہا تھا چینی کم لگی  چینی دان سے چمچ بھر کر چینی ڈال رہا تھا کہ دیکھا چینی میں چیونٹی ہے  اس نے اٹھا کر ایک طرف رکھ دی  جانے کیا سوجھی اسے دیکھنے لگا  چیونٹی چل نہیں پا رہی تھی صحیح طرح سے ... لنگڑی ہو گئی تھی اسے دکھ ہوا اس نے اسی وقت چیونٹی کو اٹھا کر اپنی تجربہ گاہ میں لا کر مصنوئی ٹانگ لگا دی  چیونٹی کے نیی ٹانگ تو لگ گئی مگر اسکے وزن سے زیادہ وزنی تھی سو وہ چل پھر نہ سکی مر گئی  سائنس دان نے سوچا میں نے تو اسکا بھلا کرنا چاہا تھا یہ تو بھوکی مر گئی  نتیجہ : ہر چیز میں سائنس لڑانا اچھی عادت نہیں ہے  از قلم ہجوم تنہائی

main main kahani بکرا کہانی

بکرا کہانی ایک تھا بکرا میں میں کرتا تھا ایک دن اسے ایک بھیڑیا کھا گیا نتیجہ : زندگی بھیڑیا ہے آپ بکرا میں میں کرنے سے کوئی فائدہ نہیں کچھ کر جاؤ تا کہ کہانی اتنی سی نہ رہ جایے از قلم ہجوم تنہائی

تھوک کہانی

تھوک کہانی  ایک بچے کو تھوکنے کی عادت تھی ہر وقت ہر جگہ پڑھتے کھاتے پیتے کسی سے بات کرتے سائیڈ پر تھوک دیتا تھا  ایک دن اس نے فیس بک استمعال کی استٹس اپ ڈیٹ کیا اور سکرین پر سٹیٹس کی جگہ پر کھنکارا اور تھوک دیا  نتیجہ : تھوکنے سے سٹیٹس گیلا نہیں ہوتا موبائل ہو جاتا  از قلم ہجوم تنہائی

چڑیا کے بچے

چڑیا کے بچے  ایک چڑیا کے تین بچے تھے  وہ سارا دن ادھر ادھر اڑتے ہوئے ان کے لئے دانا ڈنکا جمع کرتی تھی جب واپس آتی تو بچوں میں بانٹ دیتی تھی اسکے دو بچے بہت تیز تھے وہ جب دن چگاتی تو چھینا جھپٹی کر کے پہلے سے لے لیتے کبھی ایک جیت جاتا کبھی دوسرا  تیسرا ان میں ہمیشہ خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کرتا کبھی وہ کسی  کی پھرتی سے ہار جاتا کبھی کسی کی چالاکی سے چڑیا چاہتی تھی کہ تیسرا بھی کبھی اپنی قسمت ازمایے ایک بار ایسا ہوا کہ چڑیا دن میں دو بار دانہ لے آئ پہلی بار ہمیشہ کی طرح دونوں بچوں نے پہلے حصہ لے لیا وہ جب دوسری بار دانہ لے کر آئ تو تینوں سست پڑے تھے اسکو دیکھ کر بیتابی سے آگے بڑھنے والے دونو بچے اب شکم سیری کے نشے میں چور تھے اس بار تیسرے کو موقع ملا اور اس نے بلا مقابلہ سب سے پہلے وہ دانہ لے لیا  اگلی صبح وہ دوبارہ دانہ لینے جا رہی تھی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ کل اسکے پہلی بار دانہ جیت لینے والے بچے نے دانہ چگا نہیں تھا   اسکو بھوک نہیں تھی کیوں کہ وہ باقی دونوں بچوں کے ساتھ پہلی بار ہی انتظار کر کے اپنا حصہ لے چکا تھا دوسری بار کی اسے بھی...

موت اندھیرے سائے سی۔

موت اندھیرے سائے سی۔۔ مجھے ڈراتی ہے۔۔ خطرے دکھاتی ہے۔۔  مجھے بتاتی ہے۔۔  وہ دیکھو مغرب سے اٹھتے  لاوے کے بادل ہیں۔ یہ بادل تمہارے شہر پر برسیں گے۔۔ یہ آگ کی بارش ہے۔۔ برس جو اگر پائے گی۔۔ تو تجھے صرف جلائے گی۔۔ اگر تم ایسی بارش پائو۔۔ تو دور ہٹ جائو۔ چھپ جائو سائباں میں یا دور ہٹ جائو۔۔ دیکھو تماشا اس میں بھیگنے والوں کا۔۔ تپش سے پگھلتے جسموں ۔ ان سے بہتی خون کی آبشاروں کا۔۔ یا اگر کچھ کرنا ہو تو۔۔ کوئی آہنی چھتری لے آئو۔ نہیں وہ کھول جائے گی۔۔ جب بارش کی تپش بڑھ جائے گی۔۔ تم سمندر لے آنا۔۔ اس آگ کو بجھا جانا۔۔ ۔مگر سمندر کیسے لائو گے؟ وہ رک کر ہنستی ہے چھوڑو۔۔ تم ایسا کرو۔۔ ارے تم۔یہ کیا کرتے ہو۔۔ کسی پگھلتے نفس کو بچانے کیا آگ میں کود پڑتے ہو۔۔ تم مجنون ہوئے ہو کیا۔۔ تم نے تپتی برستی آگ کی بوندیں خود پر لے لیں؟ تم تو مررہے ہو ۔۔ یہ کس کو بچایا ہے؟ کیا جانتے بھی ہو اسے۔۔ موت حیران بھی ہوئی مگر۔۔ کیا تم یہ جانتے تھے ذی نفس۔۔ موت جو تم پر کھڑی ہنستی تھی۔۔ اب تم سے لپٹ کر روتی ہے۔۔ کہ تم جلتے رہے ۔۔ پگھلتے رہے مگر مر نہیں پائے۔۔ تم اپنے اس فعل سے امر ہوگئے از قلم ہجوم ت...