Posts

Showing posts with the label hajoom e tanhai stories

سیاسی بچوں کی کہانی

سیاسی بچوں کی کہانی جناب آج ہم عوامی رائے آپکے سامنے لیکر آرہے ہیں ۔۔ جی جناب اس بار الیکشن کون جیتے گا؟ انصافین: اس الیکشن میں اس بار عمران خان پکا جیتے گا ۔ میں گنجوں کے سارے خاندان پر مزاحیہ خاکے بنائوں گا مسلم لیگ کے ہر بندے کا کچہ چٹھا کھولوں گا ان پر فیس بک ٹیوٹر پر مراسلے ڈال کر انکے پول کھولوں گا۔ یو ٹیوب پر ویڈیو بنوا کر ڈالوں گا۔ کہیں منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑوں گا گنجوں کو۔۔ دیکھنا عوام تھوکیں گے بھی نہیں ان پر اور صرف بلے پر مہر لگائیں گے۔ مسلم لیگی : اس الیکشن میں بھی ن لیگ جیتے گی۔ کیونکہ میں الیکشن والے دن باہر نکلوں گا اور شیر پر مہر لگا کر واپس آجائوں گا۔۔ نتیجہ : ملکی سیاست سے اگر آپکی دلچسپی صرف انصافی پراپیگنڈے پر مشتمل مراسلے پھیلانے تک ہے تو یقینا آپکو ہے ہی نہیں دلچسپی۔ # election2018 # pmln # votekoizatdo از قلم ہجوم تنہائی

بادل کہانی

بادل کہانی  ایک تھا بادل یونہی کسی گھر کے پاس سے گزر رہا تھا گھر کا مالک دروازہ کھلا چھوڑ گیا تھا  بادل اندر گیا کچن میں دیکھا چاۓ بنی پڑی تھی غٹا غٹ چڑھا گیا  باھر گیا برسنے لگا  لوگ حیران ہوۓ چاۓ برس رہی ہے سب کپ لے کر کھڑے ہو گیے گھر کا مالک بھی گزر رہا تھا سوچا میں گھر میں چاۓ بنانے کا که کر آیا ہوں بیوی نے بنا رکھی ہوگی وہ ہی پی لونگا گھر آیا تو دیکھا اسکا کپ خالی پڑا ہے اور پورا گھر پانی پانی ہو رہا بیوی پریشان کھڑی تھی اس نے بیوی سے کہا چاۓ ؟ بیوی نے کہا بنا دونگی مگر پہلے ذرا گھر کا پانی نکال دوں بادل سب گیلا کر گیا شوہر نے کہا اچھا میں سوتھ دیتا ہوں تم چاۓ بنا دو اور وائپر نکالا اور گھر سوتھنے لگا بیوی کچن میں گئی دیکھا دودھ ختم انتظار کرنے لگی کہ شوہر کام ختم کر لے پھر دودھ لانے بھیجے  نتیجہ : اگر بادل چاۓ برسا رہا ہو تو کپ لے کر کھڑے ہو جائیں گھر جا کے پینے کا شوق نہ پالیں گھر والوں کو اور بھی کام ہوتے ہیں چاۓ بنانے کے سوا از قلم ہجوم تنہائی

کون سب سے برا ہے؟

کون سب سے برا ؟ کہانی ایک تھا فلسفی۔۔ بہت برا ۔۔ اسکی سب سے بڑی برائی تھی وہ سوچتا تھا۔۔ ہر وقت لگاتار ۔۔ سوچ سوچ کر اسکے سر کےنبال جھڑ چکے تھے۔۔ وہ اپنے شاگردوں کو بھی یہی تلقین کرتا تھا۔۔ سوچو۔ اسکے سب شاگرد بھی سوچ سوچ کر گنجے ہو چلے تھے۔۔ ایک دن فلسفی نے سوچا مقابلہ کرائے اپنے شاگردوں میں کون سب سے زیادہ برا ہے۔۔یعنی اپنی خامیوں سے سب سے زیادہ واقف کون ہے۔۔اس نے اپنے شاگردوں کو جمع کیا اور کہا۔۔ اپنی تعریف کرو۔۔ اپنی خوبیوں کو بیان کرو تاکہ مجھے اندازہ ہو تم لوگوں میں سے کون سب سے زیادہ برا ہے۔۔ کسی شاگرد نے ہاتھ کھڑا نہ کیا۔۔ سب سر جھکا کر بیٹھ گئے۔۔ فلسفی انہیں دیکھتا رہا۔۔ کسی کو اپنی کوئی خوبی معلوم نہ تھی۔۔ اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔ تم سب میں سب سے زیادہ میں برا ہوں۔۔ شاگرد حیرت سے سر اٹھا کر فلسفی کو دیکھنے لگے۔۔ گنجا بوڑھا روتا ہوا فلسفی واقعی دیکھنے میں بہت برا لگ رہا تھا۔۔ پھر جس جس کے سر پر بال بچے تھےانہوں نے اس کو دیکھ کر برا سمجھا انہیں احساس ہوا وہ کتنے بہتر ہیں۔۔ اور جس جس کا سر سوچ سوچ کر صفا چٹ ہو چلا تھا انہوں نے اسے دیکھ کر رشک کیا انہیں یقین ہ...

دھتکارے کی کہانی

دھتکارے کی کہانی ایک تھا کوئی۔۔ دنیا کا مارا تھا۔۔ جہاں جاتا ٹھکرایا جاتا۔۔ جو ملتا دھتکار دیتا۔۔ کوئی اپنا قصور بھی آج تک نہ جان پایا تھا۔۔ کوئی روتا تھا۔۔ بلکتا تھا۔۔ آخر مجھ سے ہی سب کو نفرت کیوں۔۔ یونہی دنیا کی دھتکار سہتا ملول سا جا رہا تھا۔۔ دیکھا کسی کو دنیا سر آنکھوں پر بٹھا رہی تھی۔۔ پھول نچھاور کر رہی تھی۔۔ کسی کو سب نے قبول کیا تھا۔۔ کوئی دیکھ کر اداس ہوا۔۔ مجھے ہی کیوں دنیا دھتکار دیتی۔۔ مجھے ہی کیوں خلوص نہ مل سکا۔۔ مجھ سے ہی سب بے زار کیوں ہیں۔۔ مجھے آخر اتنا زلیل و خوار ہونے کے لیئے پیدا ہی کیوں کیا۔۔ اتارا ہی نہ ہوتا زمیں پر یا واپس بلا لیا ہوتا سوال عرش والے سے کیا تھا۔۔ جواب ایک زمین زاد دے گیا۔۔ گزرتے ہوئے اسکا شکوہ سن کر ہنس پڑا۔۔ تم بہت خو ش نصیب ہو۔۔جو  دنیا کی ٹھوکر پر ہو جسکو دنیا مل جاتی ہے اسکو عرش میں مقام نہیں ملا کرتا۔۔ نتیجہ: چھوڑ دنیا دیتی ہے شکوہ خدا سے ہوتا ہے۔۔ از قلم ہجوم تنہائی

ضرورت اور خواہش کہانی

ضرورت اور خواہش کہانی  ایک تھا کوئی اسے کسی کی ضرورت تھی اور اسکی کوئی خواہش بھی تھی  تڑپتا تھا نہ ضرورت کے بغیر رہا جاتا نہ خواہش کے پورا ہوئے بنا چین ملتا  تڑپتا رہا  ایک بار ایسا ہوا خواہش سے کم ملا  خوش ہونا چاہا مگر خواہش کی تسکین نہ ہو سکی ضرورت بھی ابھی پوری نہ ہوئی تھی  اسکی خواہش حسرت بننے لگی تب اسے ضرورت سے کہیں زیادہ عطا ہوا ضرورت پوری ہو گئی مگر ضرورت سے اضافی کا وہ کیا کرتا  بیچارگی سے سوچنے لگا  ضرورت پوری ہو بھی جائے مگر خواہش کا پورا نہ ہو سکنا خوش نہیں رہنے دیتا  نتیجہ : خواہش سے کم اور ضرورت سے زیادہ کا ملنا نہ ملنا برابر ہوتا ہے از قلم ہجوم تنہائی

ختم شد

اسکو بیاض قلم ہاتھ میں لے کر سوچتا دیکھا تو یونہی قریب جا کے پوچھا  کیا لکھتے ہو ؟  اس نے سر اٹھایا اور جو لکھا تھا دکھایا  اس بیاض کے پہلے صفحے پر لکھا تھا  ختم شد از قلم ہجوم تنہائی

آنسو کہانی

آنسو کہانی  ایک بار کوئی دکھی ہوا بہت زیادہ دکھی ہوا اتنا دکھی ہوا کہ اسکو لگا اس سے زیادہ کبھی نہ کوئی دکھی ہوا  کسی کو کوئی دکھائی دیا دکھی اسے دیکھ کر دکھی کسی کو بھی دکھ ہوا پاس آیا اور بولا کوئی دکھی اتنا بھی ہو تا ہے کہ رو رو کر نہر بنا ڈالے ؟ کوئی بولا میں ہوں نا اتنا دکھی کسی نے کہا ٹھیک ہے پھر نہر بنا دو میں نے اپنی خوشیوں کی فصل کو پانی دینا ہے کوئی رونے لگا روتا گیا آج رویا کل رویا پرسوں رویا روز روتا چلا گیا روتا گیا مگر جتنا بھی روتا آنسو نہر نا بنا پاتے سوکھ جاتے کسی کے پاس آیا معزرت کرنے لگا میں ہوا تو بہت دکھی مگر اتنا بھی نا ہوا کہ رو رو کر نہر بنا پاتا معزرت تمہاری خوشیوں کی فصل سوکھ جایے گی کسی کو ہنسی آگئی کوئی رو رو کر نہر بنابھی دے تو کسی کی خوشیوں کی فصل سیراب نہیں ہو سکتی خیر تمہیں احساس دلانا تھا تم اتنے بھی دکھی نہیں ہو کوئی پھر دکھی ہو گیا میں تو دکھی بھی زیادہ نہیں ہو پایا یہ سوچ کر... نتیجہ : کوئی کسی کے لئے رو بھی لے تو کسی کو فرق نہیں پڑتا از قلم ہجوم تنہائی

آخری کی کہانی

 آخری کی کہانی۔۔ ایک تھا ننھا سا انڈہ ڈائنا سور کا تھا۔۔ ایکدن پھوٹ کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کھلا آسمان ہے دور دور تک چرند پرند مگر کوئی بھی اسکی۔نسل کا نہ تھا۔۔اسے جو دیکھتا منہ کھول کر دیکھتا جاتا۔۔ اسکو بھی حیرت ہوتی تھی آخر وہ اکیلا کیوں ہے۔۔ سارے جنگل میں اسکی دھوم مچی تھی۔۔ شیر سے بھی ذیادہ مشہور تھا۔۔ شیر کی بھی نسل کم ہو رہی تھی وہ بھی چڑتے کہ ہم سے زیادہ ایک معمولی ڈائنا سور مشہور ہے ۔ اسکے دیو ہیکل جثے سے سب شیر سے زیادہ خوف کھاتے تھے۔۔ مگر ڈائنا سور بے حد خوش اخلاق تھا۔۔ سب جانوروں سے ملتا حال احوال پوچھتا۔۔ اسکی ہاتھی سے بہت دوستی ہو گئ تھی اور زرافے سے بھی۔ کہ یہ دونوں جانور بھی اتنے ہی بڑے دیو ہیکل جثے کے مالک تھے کہ اس سے ڈرتے نہیں تھے۔ ان دونوں کے ساتھ رہ رہ کر ڈائنا سور بگی سبزی خور ہو گیا تھا۔۔ کبھی کسی جانور کا شکار نہیں کیا۔۔ خیر ایکدن ہاتھی کی طبیعت خراب ہوئی۔۔ بیماری سے کمزور ہوا۔۔ مناسب علاج معالجہ نہ ہو سکنے سے چند دن بیمار رہ کر مر گیا۔۔ یہ پہلی موت تھی جو ڈائنا سور نے دیکھی تھی۔۔ ہاتھی کی ہتھنی اور دو بچے تھے کہہ سکتے ہیں انکی نسل محفوظ تھی۔۔ ز...

کمال کہانی

کمال کہانی ایک تھا کوئی۔۔ تھا تو بہت کچھ ۔۔ مگر دنیا نے اسے کبھی قابل توجہ نہ گردانا۔۔ بہت کمال کا تھا۔۔ اسے بنا رکے بنا گرے چلنا آتا تھا۔۔ وہ محو سفر رہتا تھا مگر سہج سہج کر چلتا تھا۔۔ یہ کافی کمال کی بات تھی۔۔ کوئی زندگی کے سفر میں کیسے بنا رکے گرے سہج سہج کر چل سکتا؟۔۔ مگر اسکے کمالات کو ہمیشہ کمتر جانا جاتا گیا۔۔ کوئی اپنی قدر قیمت جانتا تھا۔۔ مگر سب اسکو اسکے کمالات کو درخوراعتنا نہ گردانتے۔۔ سو وہ اداس دنیا پر نفرین بھیج کر ہجوم تنہائی میں جا بسا۔۔ کسی نے یونہی اس سے پوچھ ڈالا بھئ۔۔ کیا خود کو ضائع کرتے ہو کوئی کمال۔کیوں نہیں کر ڈالتے؟۔۔ کوئی سرد آہ بھر کر بولا۔۔ مجھے اڑنا نہیں آتا مجھے تیرنا بھی نہیں آتا میں سہج سہج چلتا ہوں تو سب کہتے ہیں اس میں کمال کیا ہے۔۔ کسی کو اسکی بات متاثر کر گئ۔۔ بولا مجھے سہج سہج کر چلنا نہیں آتا مجھے سکھائو۔۔ میں تو سیدھی راہ پر بھی ٹھوکر کھا جاتا ہوں۔۔ کوئی اٹھ کھڑا ہوا اسے سہج سہج کر چلنا سکھایا۔۔ یوں پہلی بار کسی کو کوئی اپنا پرستار بنا گیا۔۔ نتیجہ: انسان کیلیئے اڑنا تیرنا کمال نہیں انسان کیلیئے انسانیت کی راہ پر گر نہ پڑنا ...

pagal ki aik aur kahani... پاگل کی ایک اور کہانی

pagal ki aik aur kahani  logo ki nazar main woh pagal tha... sir jhukayay koi nadeeda nuqtay pe nazar jamayay ghanto betha rehy... pagal hua na... mujhe nahi laga tha... jantay hain q... us se bara pagal main tha... jo kae ghanto se use dekh reha tha... aur woh log b... jinho ne us pe ghor kia... wo kuch nahi ker reha tha... aur ap use kuch nahi kertay hue dekhtay jatay thay... pagal ap b tau huay na... Moral: jab samjh nahi ata tau keh detay hain us ne ajeeb likha tha... ajeeb tau main houn aap ajeeb nahi hue kia? پاگل کی ایک اور کہانی  لوگوں  کی  نظر  میں  وہ  پاگل  تھا ... سر  جھکایے  کوئی  نادیدہ  نقطے  پہ نظر  جمایے گھنٹوں  بیٹھا  رہے ... پاگل  ہوا  نا... مجھے  نہیں  لگا  تھا ... جانتے  ہیں  کیوں ... اس  سے  بڑا پاگل  میں  تھا ... جو  کئی گھنٹوں  سے  اسے  دیکھ  رہا  تھا ... اور  وہ...

روبوٹ۔۔افسانہ robot afsana

روبوٹ میرا شانہ ہلاتے ہوئے اس نے اپنے مخصوص انداز میں مجھے جگایا تھا۔۔ اٹھ جائیے صبح کے آٹھ بج گئے ہیں۔ اس نے کہتے ہوئے گرم گرم چائے کا مگ میری مسہری کے ساتھ میز پر رکھ دیا تھا۔۔ میں انگڑائی لیتا ہوا اٹھ بیٹھا۔۔ میرے کپڑے استری کر دیئے تھے۔۔ میں نے معمول کا سوال کیا حالانکہ اسکا جواب مجھے معلوم تھا۔۔ وہ کر چکا ہوگا۔۔ یہ اسکا روز کا  کام تھا رات سونے سے پہلے وہ یہ سب کام نپٹا دیتا تھا ہوں ۔۔ مختصر جواب ملا۔۔ میں مطمئن ہو کر اٹھ بیٹھا اور ہاتھ بڑھا کر چائے کا کپ اٹھا لیا اور چسکیاں لینے لگا۔۔ وہ ابھی بھی میرے سر پر کھڑا تھا اب سر پر سوار کیوں ہو جائو ناشتہ بنائو۔۔ مجھے اچھی خاصی چڑ آئی۔۔ پانچ سال ہونے کو آئے تھے اس روبوٹ کو مجھے گھر لائے آج بھی مجھے اسکو ہر بات نئے سرے سے سکھانی پڑتی تھی۔ ہر روبوٹ کی طرح اسکا دماغ تو تھا نہیں۔۔ یا یوں سمجھئے پچھلے پانچ سالوں سے میں جو جو اسکی یاد داشت کی چپ میں بھر رہا تھا اسکی بھی جگہ ختم ہو چکی تھی بس اب یونہی دھکا شروع ہو گیا تھا ۔ میرے چڑنے پر وہ روبوٹ پلٹ کر شائد باورچی خانے میں چلا گیا تھا۔۔ میں اطمینان سے اگلے پندر منٹ میں چائے پی کر موبائل ...