Desi kimchi Episode 1

دیسی کمچی۔۔ 
قسط نمبر ایک
منظر پہلا۔۔۔۔ 
Desi kimchi seoul korea based urdu web travel novel,urdu novel, shayari, urdu kahanian, best urdu books, romantic urdu novels, best urdu novels, urdu books, latest complete urdu novels, new novels in urdu, urdu novels online, new romantic urdu novels, latest urdu novels, urdu books online, best urdu romantic novels, online reading urdu novels, complete urdu novels, novel urdu books, urdu novels websites, urdu digest novel, fiction best urdu novels, popular urdu novels, new complete urdu novels, interesting urdu novels, read urdu novels, latest urdu romantic novels, new best novels in urdu, new urdu books, urdu novels com, new novels in urdu complete, new novels in urdu romantic, latest best urdu novels, good urdu books, online urdu digest, latest urdu complete novels,


نا پھی ٹھام نمیئول نا ماجیک ما چھمیول۔۔
غیر فہم الفاظ میں کوئی کان پر چیخا  تو میری پٹ سے آنکھیں کھلی تھیں۔۔ چند لمحے تو سمجھ نہ آیا کہاں کس دیار میں بیدار ہوئی ہوں۔۔ اپنی بڑی بڑی آنکھیں پٹپٹا کر بمشکل آنکھیں کھولیں تو احساس ہوا اپنے کمرے میں پڑی دھوپ سینک رہی ہوں۔۔ 
میرے پورے بیڈ پر کھڑکی سے چھن چھن کر آتی دھوپ میرا چہرا تک تپا چکی تھی۔
ابیہا کی بچی۔۔ 
جھلا کر اٹھتے ہی میں چلائی۔ منہ دھو کر کمرے میں تولیہ سے منہ پونچھتی آتی ابیہا دہل کر تولیہ ہی چھوڑ بیٹھی۔ 
کیا ہوا۔۔ دھڑ دھڑ کرتے دل کے ساتھ وہ ہونق سی ہوئی تھی۔۔ 
صبح صبح کیا شوق چڑھتا ہے سورج شاور لینے کا تمہیں ۔؟۔ میں جھلاتی اٹھ بیٹھی۔۔ 
کانوں میں ٹھنسی ہینڈ فری نکال کر بی ٹی ایس کو بھی تھوڑا آرام کرنے کا موقع دیا رات جانے کب گانے سنتے آنکھ لگ گئ پتہ نہیں بے چارے پوری رات لگا تار میرے موبائل کی بیٹری چوستے کانسرٹ کرتے رہے اور میں ایسی بے ہوش سوئی کہ صبح بھی انہی کے گانے سے آنکھ کھل پائی۔۔ 
میں اب بستر جھاڑتی چارجر ڈھونڈ رہی تھی پانچ فیصد بیٹری رہ گئ تھی۔۔ 
صرف سورج شاور نہیں لیا ہے پانی شاور بھی لیکر آئی ہوں۔۔  اور میڈم یہ صبح صبح نہیں ہے بارہ بج رہے ہیں ایک دنیا اپنا آدھا دن کام کاج کر کے گزار چکی جب موصوفہ کی سواری باد بہاری نندیا پور سے واپس آئی ہے۔۔ 
ابیہا نے جھک کر تولیہ اٹھاتے ہوئے خشمگیں نظروں سے مجھے گھورا ۔۔ 
موصوفہ طنزیات میں پی ایچ ڈی کر چکی ہیں ایسی ایسی تشبیہات اور استعارے استعمال کر کے زلیل کرتی ہے کہ زلیل ہونے والے کی اردو اچھی ہو جاتی ہے۔۔ میرے جیسی جسکو اچھا خاصا فخر تھا اردو اچھی ہونے پر اس سے مقابلے میں تھوڑا تھم کر ہی رہتی اور ابھی تو لڑائی کو اگے بڑھانا مناسب تھا بھی نہیں سو امن کی جھنڈی لہراتی میں ادھار رکھ گئ ۔۔ 
کیونکہ مجھے ابھی اسی سے چارجر چاہیئے تھا۔۔ 
سو قصدا اسکی تقریر نظر انداز کرتی مصالحت بھرے انداز میں بولی۔۔ 
یار تو اٹھا دیتیں نہ مجھے۔ 
میں اس سے نظریں چراتی اسکے بیڈ پر سے چپکے سے اسکی نظروں میں آئے بنا اسکا چارجر اٹھانے بڑھی۔۔
جنمن ، وی شوگا کوکی صبح سے کانوں میں چیخیں مار مار کر تمہیں اٹھا نہ سکے میری کیا مجال۔۔ آئی نیڈ یو گرل  سے میری اپنی آنکھ تک کھل گئ تم جانے کیا بھنگ لیکر سوتی ہو۔۔ 
ابیہا بھناتی کمرے کے ایک کونے میں رکھی دھلنے والے کپڑوں کی ٹوکری کی جانب بڑھی۔۔ 
رکو۔۔ میں نے اپنی جانب سے لمحے بھر کا توقف کیئے بغیر دونوں ہاتھ پھیلا کر اسےچیخ کر روکا مگر تب تک دیر ہو چکی تھی وہ ٹوکری کا ڈھکن اٹھا کر اس میں تولیہ ڈال چکی تھی۔۔ 
میں دانت پیس کر رہ گئ
اب اپنا رخ روشن کس سے پونچھو گی؟۔۔ میں دونوں ہاتھ کمر پر رکھے کڑے تیوروں سے گھور رہی تھی۔۔ 
تمہاری تولیہ سے اور کس سے۔۔ اس نے بھی ازلی اطمینان سے جواب دیا۔
میری تولیہ تو تمہارے چیخنے سے زمین پر گر گئ تھی اب دھوئے بغیر تو استعمال کرنے سے رہی۔ 
کہاں ہے تمہاری تولیہ؟۔۔ 
اپنے مخصوص طنزیہ انداز سے کہتی وہ میری جانب واپس مڑی تھی 
وہیں ہے جہاں تمہاری تولیہ ابھی ابھی گئ ہے
میں اطمینان سے بتاتی سوئچ بورڈ کی طرف بڑھی

کیا؟۔۔ تمہارے جیسی پھوہڑ لڑکی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔۔ ایک تولیہ تک تم دھو نہیں سکتی ہو۔۔ حد ہے واعظہ
ابیہا فل چارج ہو کر اب میرے قصیدے پڑھنے لگی تھی ۔۔ میں نے موبائل کو چارجنگ پر لگا کر کمرے کی کھلی کھڑکی سے باہر جھانکا۔۔ 
آج مطلع صاف تھا دور دور تک متوسط طبقے کی اونچی مگر بوسیدہ عمارتوں سے بیچ میں راستہ بناتی دھوپ نرم گرم سی ہمارے اس چھوٹے سے دو کمروں کے اپارٹمنٹ تک چھن چھن کر آتی اچھی لگ رہی تھی۔۔ شائد صرف مجھے۔۔ تیس یا شائد اکتیس درجہ حرارت کی یہ مئی کی  دھوپ اس شہر کے لوگوں کیلئے اچھی خاصی شدید گرمی میں شمارہوتی تھی۔
مگر میرے اور ابیہا کےلیئے یہ نعمت غیر مترقبہ تھی شدید ٹھنڈ اور برفباری سہتی ہم جب گرمی  کی امید بھی چھوڑ چکی تھیں تب موسم بدلا تھا ۔۔ ابھی بھی ٹھنڈ ہڈیوں میں اتنا جم چکی تھی کہ اتنی دیر سے دھوپ میں کھڑے رہ کر بھی گرمی نہ لگی تھی۔۔
یہ لو۔۔ 
ابیہا نیا تولیہ نکال کر میرے سر پر جما کر بولی
لو جائو نہا کر آئو اکٹھے ناشتہ کریں گے۔ 
محبت کا ایسا جارحانہ مظاہرہ بھی میری آنکھین نم کر گیا یہاں اسکے سوا میرا تھا ہی کون
گومو یو۔۔ 
میں کہہ دیتی اگر ابیہا کے انداز میں کڑختگی نہ ہوتی
جلدی بھوک سے مرنے لگی ہوں انتظار نہیں ہوگا مجھ سے۔۔ 
وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں مزید گھور نے کے چکر میں انکے اصل حجم سے دو گنی کر چکی تھی
ابیہا یہاں کے لوگ ایویں پلاسٹک سرجری کروا کر ڈبل آئی لڈ بنواتے تم انہیں یہ طریقہ کیوں نہیں سکھاتیں کہ اپنی معصوم روم میٹ کو گھور گھور کر اسکا خون خشک کر دیا کرو بڑی ہو جائیں گی آنکھیں۔۔  
آرام سے بولتے بولتے آخر میں میرا لہجہ تیز ہو گیا تھا ابیہا زرا متاثر نہ ہوئی مجھ سے زیادہ توانائی اور تیز لہجے کے ساتھ بولی۔۔
نہیں ہونگی کیونکہ دنیا میں اور کسی کی روم میٹ تمہارے جتنی ارریٹیٹنگ اور پھوہڑ نہیں ہوگی یہ اعزاز بلکہ یہ عزاب مجھے ملا ہے بس۔۔
کیا میں عزاب؟۔۔ 
میں غم و غصے سے چلائی
ہم دونوں کے درمیان تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ میرے موبائل کی بیٹری اٹھائیس فیصد ہو چکی ہے جیسے موبائل کو بجلی کی ضرورت پڑتی توانائی حاصل کرنے کیلیئے میں اور ابیہا لڑائی کرکے خود کو چارج کرتے ہیں کیونکہ اپنے اپنے گھر سے دور دیس اجنبی ملک اجنبی زبان کے ساتھ بس ہم ایک دوسرے سے ہی شناسا ہیں کیمو ( اسکا کوریائی نام یہاں چھے مہینے گزار کر بھی یاد نہ ہو پایا ہمیں) یونیورسٹی کی پاکستانی اسکالر شپ پر گئی طالبائیں جو علم حاصل کرنے چین کے پڑوس کوریا جا پہنچی ہیں
اور گنگم اسکائر کی ایک بوسیدہ عمارت میں رہائش پزیر ہیں۔۔ 
ہق ہاہ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے 
#desikimchi


دوسرا منظر۔۔
جھاڑو لگاتے الف ویڈیو بنا رہی تھی۔۔ 
مائک کی طرح جھاڑو کا ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے ایک ہاتھ سے موبائل تھامے جزباتی انداز جیسے آنکھوں میں سمندر موجزن ہو ۔ مگر بارہ میگا پکسل فرنٹ کیم بھی آنکھوں کے ساحل سے آنسو کا ایک موتی بھی ڈھونڈ دکھانے میں ناکام تھا   
امی دیکھ رہی ہیں یہ۔۔ 
اس نے اپنے ارد گرد کا چم چم کرتا فرش دکھایا۔۔ 
 آپ ۔۔ قدر آئی آپکو کتنی معصوم بیٹی تھی میں۔۔ یہ ۔۔ یہ دیکھیں یہ میں ہی ہوں۔۔  
اب جانے آنسو کیوں نہیں آ پارہے تھے مگر اس نے جھاڑو جھنجھوڑ دی تھی۔۔ امی سامنے ہوتیں تو متاثر ہو جاتیں۔۔ 
صفائی جھاڑو پوچھا کرتی آپکی لاڈلی شہزادی جیسی بیٹی۔۔ انداز میں رقت در آئی۔۔ 
اور یہ دیکھیں ۔۔ کسی کی پھوہڑ بیٹیاں ۔۔ 
اس نے قطار میں بچھے بیڈوں پر کمبل میں گھسی نور اور عزہ پر کیمرے کا رخ کیا۔۔ 
خبردار جو میری ویڈیو بنائی الف کی بچی۔۔ 
عزہ نے کسمسما کر گردن باہر نکالی ہی تھی کہ الف کا موبائل گھماتا ہاتھ دکھائی دے گیا۔۔ سو فورا چیخ کر خبردار کرتی حفظ ماتقدم کے طور دوبارہ کمبل تان لیا۔۔ 
ہق ہاہ۔۔ دیکھ رہی ہیں نا آپ۔۔ یہ سب کام میرے زمے ہیں میری روم میٹ دونوں پڑی سو رہی ہیں یہ دیکھیں بارہ بج رہے۔۔ 
اب اس نے باقاعدہ وال کلاک کا شاٹ بنایا۔۔ کیا تھری سکسٹی ویڈیوز یو ٹیوبر بناتے ہونگے جو الف جادو جگا رہی تھی۔۔ 
عزہ نے چونک کر کمبل نیچے کیا۔۔
بارہ بج گئے۔  
کمبل کا نقاب کرتے اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کر مزید بڑی کر لیں تھیں۔۔ 
صبح نو بجے اٹھ کر نہار منہ بنا کھائے پیئے صفائی کرتی ہوں  دیکھیں  پورا کمرہ صاف کیا ۔۔ تھری سکسٹی اینگل پر گھماتے کمرے کا انتہائی کونہ دکھائی دے گیا تھا جہاں کرسی پر کپڑوں کا ڈھیر پڑا تھا ان تینوں کی باہر جانے آنے والی سینڈلیں بکھری پڑی تھیں اور میز جو عموما پڑھنے پڑھانے کے کام آتی ہے اس وقت ان تینوں کی آن لائن آج صبح ہی آئی ڈیلیوری کے تازہ شاپنگ بیگز سے لبا لب بھری تھی۔۔ 
یہ میں ابھی سمیٹنے ہی جا رہی تھی۔۔ 
اس نے گڑبڑا کر ویڈیو میں ریکارڈ کیا اور جلدی سے ریکارڈنگ بند کر دی۔۔ عزہ یہ جملہ نہ سہہ سکی تڑپ کر اٹھ بیٹھی۔۔ 
جھوٹی صبح نو بجے بے ہوش پڑی تھیں تم۔۔ یہ جو برباد کیئے ہیں نا پیسے تم نے اسکی ڈیلیوری کیلئے جو لڑکا آیا تھا دروازہ بجا بجا کر تھک گیا تمہاری آنکھ نہ کھلی اور پھر اس نے مجھے فون کیا ۔۔ ادھ کھلی آنکھوں سے نور کا دوپٹہ اوڑ ھ کر گئ یہ سب وصول کیا۔۔ 
عزہ کے کہنے پر الف تھوڑا سا کھسیائی تو کافی دیر سے یونہی کسمسا کسمسا کر کروٹ بدلتی نور کے کان کھڑے ہوئے۔۔
کیا کیا ہوا میرے دوپٹے کو؟۔۔ وہ کمبل اتارتی جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ اپنی چیزوں کے معاملے میں وہ اتنی ہی حساس تھی۔۔ 
سی ہون مانگنے آیا تھا اسے دے دیا۔۔ اب اگلے کانسرٹ میں وہ گلے میں ڈال کر گانا گائے گا۔۔ 
یہ شوشہ الف نے چھوڑا تھا۔۔ایکسو اسکا پسندیدہ بینڈ تھا اکثر دوران گفتگو انکا زکر کسی طرح نکال لینا اسکا پسندیدہ مشغلہ۔۔
کیا۔؟ اسکے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔۔ 
یقینا ابھئ وہ پوری طرح جاگی نہیں تھی۔۔ 
الف اور عزہ تاسف سے اسکا ردعمل دیکھ رہی تھیں۔۔ گھبرا کر کمبل الٹ پلٹ کرنے لگی بستر سے اتر کر تکیہ تک اٹھا کے دیکھ لیا ۔۔ روہانسی ہوئی ساتھ ساتھ بولے بھی جا رہی تھی۔۔ 
 کیوں دیا۔۔ اف میں نے اپنی ہر چیز کل سمیٹ دی تھی بس یہ ایک بلو دوپٹہ نئے سوٹ کا اوڑھے پھر رہی تھی وہی اٹھا کے دے دیا۔ رات کو اتار کر سرہانے رکھا تھا۔۔ تم لوگوں۔۔ 
الف کے بر عکس آنسو بس آیا ہی چاہتے تھے آنکھوں میں عزہ کے بیڈ پرکہتے کہتے نگاہ گئ تو عزہ کے تکئے پر نیلا دوپٹہ گول مول ہوا پڑا تھا۔  
تڑپ کر اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔۔ 
میرا نیا دوپٹہ۔۔۔ 
ہو گیا؟۔۔ عزہ نے ہاتھ اٹھا کر اس سے پوچھا ۔۔ 
اس نے نادیدہ آنسو اسی جارجٹ کے دوپٹے سے پونچھ کر اثبات میں سر ہلا دیا۔ 
ہون۔۔ عزہ فرصت سے اب الف کی طرف متوجہ ہوئی۔۔ 
تمہارے آن لائین منگوائے سامان لانے والا ڈیلیوری بوائے مجھے کیوں فون کر رہا تھا؟۔۔ 
عزہ کے دانت کچکچا کر پوچھنے پر الف کان کھجاتی دو قدم پیچھے ہوئی۔۔ 
وہ میں ۔ میرا فون تو سائیلنٹ پر ہوتا تو اسی لیئئے ادر کانٹیکٹ نمبر میں تمہارا نمبر لکھ دیا تھا۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔م۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیاا آ آ آ۔۔۔ 
تین اپارٹمنٹ تک آواز گئ ہوگی جو واعظہ چلائی تھی۔۔ 
آہستہ ۔۔ کان پھاڑو گی کیا میرے۔۔ 
ابیہا نے بند ہوتے کان سہلائے۔۔ 
تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ابیہا کی بچی۔۔ 
غسل خانے کے بند دروازے کے پیچھے واعظہ یقینا ابیہا کو کچا چبانے سے قاصر تھی ورنہ اب تک یہ کام کر چکی ہوتی۔۔ 
خیال ہی نہیں رہا اتنا تو فضول بولتی ہو زہن سے ہی نکل گیا باہر آکر بتانا۔۔ 
ابیہا نے بال جھٹک کر سکھاتے اطمینان سے اسی پر الزام دھرا۔۔
ابیہا خدا پوچھے تمہیں۔۔ اب میں کیا کروں۔۔ 
واعظہ روہانسی ہو چلی تھی۔۔ 
یار میرے نہاتے وقت پانی کم ہوا تھا ختم نہیں ۔۔ اور تم تھوڑا احتیاط سے پانی خرچ کرتیں نا ۔۔توتم بھی نہا لیتیں۔۔ ںلکوں میں آ تو رہا تھا پانی۔۔ 
ابیہا کو اسکی فکر بھی تھی دلگیری سے اسے ہی ٹوکا۔۔ 
میڈم لیکچر بند کرو۔۔ پانی بالکل ختم ہو چکا منہ پر صابن لگا ہوا ہے میرے  پانی کا انتظام کرو میری آنکھیں جل رہی ہیں  میری۔۔ 
واعظہ نے ٹٹول ٹٹول کر دروازہ کھولا ابیہا جھٹکے سے رخ موڑ گئ۔۔ 
صبر کرو باہر تو مت آئو۔۔ 
ابیہا کی بچی ڈرامہ بند کرو فریج سے پانی لا کر دے دو نہا نہیں رہی تھئ میں عقلمندی کی پہلے پانی دیکھ لیا کم آرہا تھا تو سوچا منہ ہی دھو لوں بس۔۔ اب منہ دھونے کو بھی ختم ہوا پڑا ہے پانی۔  
کیا وقت تھا جلتی آنکھوں کے ساتھ بھی اسے اپنی وکالت خود کرنی تھی سو تفصیل سے 
واعظہ نے صفائی پیش کی ۔ابیہا نے مڑ کر دیکھا تسلی ہوئی۔۔ 
بے چاری واقعی جھاگوں جھاگ منہ پر بھرے پانی کیلیئے دہائی دے رہی تھی۔۔ 
اچھا صبر کرو۔۔ لاتی ہوں۔۔ ابیہا مزے سے اپنا تولیہ مسہری پر اچھالتی پانی لینے باہر چلی آئی۔۔ 
عزہ آنکھیں مسلتی چھوٹے سے اوپن کچن کے کونے میں رکھے فریج کا دروازہ کھولے معائنہ کر رہی تھی۔ 
دو فٹ کا لائونج ڈیڑھ فٹ کا کچن ۔۔ دو قدم بے دھیانی سے اٹھا لو تو ٹکر یقینی ۔۔ ابیہا نے وہی کیا جو ہم پاکستانی کرتے۔۔ 
عزہ فریج کھولا ہوا ہے تو پانی کی بوتل ایک نکال کے دے دو۔۔ 
عزہ نے ایک بھوئیں اچکا کر اسے دیکھا پھر کندھے اچکا کر پانی کی بوتل نکال کر سلیب پر رکھ دی۔۔ 
گومو ویو۔  
ابیہا ہنگل میں شکر گزار ہوئی آگے بڑھ کر بوتل اٹھائی پلٹنے کو تھی کہ ٹھٹکی۔۔ 
بوتل بالکل خالی تھئ۔۔ 
دوسری دو نا جس میں پانی ہو۔۔ 
اس نے مڑ کر عزہ سے کہا عزہ دوسری بوتل سے اپنا گلاس بھر رہی تھی گلاس بھر کر خالی ہو جانے والی بوتل اسے اہتمام سے پکڑا دی۔۔ 
یہ بھی خالی ہے عزہ کوئی اور بوتل دو نا پانی چاہیئے۔  
ابیہا جھلائی تو عزہ کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔۔ 
کاٹ دار طنزیہ۔۔ مزے سے لہرا کر دونوں ہاتھوں سے کچن سنک کی جانب اشارہ کیا جہاں بقیہ تینوں بوتلیں خالی استراحت فرما رہی تھیں۔۔
ہاہ۔۔ 
ابیہا کے ہاتھوں سے طوطے اڑے۔۔ 
فریج سے پینے کے پانی کی بوتل نکالا کرو تو بھر کر واپس بھی رکھا کرو   ٹھنڈا پانی چاہیئے ہوتا ہے تم۔لوگوں کو بھرنے کی توفیق نہیں ہوتی کسی کو۔۔ 

ابیہا کی امی کچن کے بیچ میں چند لمحے کو خیالی تصور کے طور پر نمودار ہوکر چلائی تھیں۔۔ 
سوری امی۔۔ 
ابیہا کی آنکھوں میں شرمندگئ در آئی۔۔ 
امی؟۔ عزہ ٹھٹک گئ۔۔ 
ہایے بے چاری بچی ماں یاد آگئ۔۔ 
عزہ بھی تو اماں بن کر لگی تھی ڈانٹنے۔۔جملے وہی تھے جو ابیہا کو امی کا تصوراتی خاکہ کہتا دکھائی دیا تھا یہ الگ بات ادا عزہ کے منہ سے ہوئے تھے۔۔ 

کیا عزہ ہوجاتا ہے اسطرح فریج خالی ہو جاتا پانی کی بوتلیں ختم ہو جاتی ہیں ایسے ڈانٹنے کی کیا بات۔۔  عزہ کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھا۔۔ ابیہا نے بچوں کی طرح سر جھکا لیا تھا تھوڑی سینے سے جا لگی تھی۔۔ 
کوئی بات نہیں ابیہا ۔۔ آئندہ بھر دیا کرنا۔۔ 
آگے بڑھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دے ڈالی۔  
واعظہ مار ڈالے گی مجھے۔  
ابیہا نے سر اٹھا کر لرزتے ہوئے لہجے میں کہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نہیں بچوں گی۔۔ پکا مار دی جائوں گی۔۔ 
ایک ایک شاپر کھولتی اندر سے کپڑے نکالتی اور اپنے بیڈ پر پھینکتی زور زور سے سر ہلاتی  الف بس یہی ایک جملہ بول رہی تھی۔۔ 
بلکہ نہیں خود کشی کرلوں گی۔۔ مجھے خود کشی ہی کر لینی چاہیئے۔۔ 
دیکھ کر آرڈر نہیں کیئے تھے کیا؟۔۔ 
نور نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے اسکا آن لائین آرڈر سے آیا ٹاپ بیڈ سے اٹھا کر لہرایا۔۔ 
سلیو لیس بیک لیس اور فرنٹ بھی لیس ہی سمجھو وہ دو تین بالشت کا ٹاپ تھا۔۔ رنگ واقعی بے حد پیارا سا پیچ کلر تھا مگر۔۔۔ 
دیکھا تھا نا پارک بو ینگ نے پہنا تھا اسکے گھٹنوں سے بس زرا سا اونچا تھا اور اوپر سے وہ آف وائیٹ سا شرگ بھی پہنے تھی مجھے کیا پتہ تھا مجھے بس اندر کی شمیز ہی بھیج دیں گے اگر شرگ ساتھ نہیں تھا تو اس نے کیوں پہنا تھا؟۔۔ 
اس بار واقعی الف کی آنکھوں میں سمندر موجزن تھا اور پلکوں کے ساحل بھی بھیگ چلے تھے۔۔ مگر بجائے یہ دکھی منظر دیکھ کر نور آبدیدہ ہوتی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔  
احمق وہ پانچ فٹ کی بو ینگ اگر اسکے گھٹنے سے اوپر ٹاپ تھا تو میڈم آپ اس سے کئی انچ اونچی ہیں۔۔ 
آپکو عقل سے کام لینا چاہیئے تھا اگر اسکے گھٹنوں سے اونچا ہے تو تمہاری کمر تک بھی بمشکل آئے گا۔۔ 
وہ پیچ کلر والا۔ہی ٹاپ لہرا رہی تھی۔۔ 
کسی کا بھی اپر نہیں بھیجا سارے انر بھیج دیئے اگر نہیں بھیجنا تھا تو کیوں ماڈلز پہنے دھوکا دے رہی تھیں۔۔ میرے سارے پیسے لگ گئے ۔۔ 
وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر گھٹنوں میں منہ دے کر بیٹھ گئ ۔۔ اس پر رقت طاری ہونے لگی تھی۔  نور کو ترس آہی گیا ۔۔ ایک ٹاپ اٹھا کر اسکے پاس ہی گھٹنوں کے بل آبیٹھئ
ویسے اتنے برے بھی نہیں ہیں۔۔ پہن تو انہیں سکتی ہو۔۔ 
اس نے ٹاپ سیدھا کیا۔۔ 
کراپ ٹاپ وہ بھی بیک لیس۔۔ 
الف نے کھا جانے والی نظروں سے گھورا
بس اوپر سے کچھ اور بھی پہن لینا۔۔ 
نور نے ہونٹ بھینچ کر جملہ پورا کیا۔۔ 
میرے سارے پیسے لگ گئے۔۔ موسم بھی بدل گیا ہے ۔۔ میں نے اتنے شوق سے زندگی میں پہلی بار آن لائن شاپنگ کی تھئ۔۔ 
وہ اب سچ مچ رو دینے کو تھی۔۔ 
یار۔۔ یہاں پاکستان والی گرمی تھوڑی پڑتی بمشکل تیس پینتیس تک جاتا ٹمپریچر تم سردیوں والے کپڑے آرام سے پہن سکتی ہو بس اوپر سے سوئٹر مت پہننا۔۔ 
اپنی طرف سے نور نے بڑے خلوص سے مشورہ دیا تھا مگر الف کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگی۔۔ 
بے فکر رہو جون جولائی میں سوئٹر پہن کر گزارا کر لوں گی تم سے تمہارا ایک جوڑا بھی نہیں مانگوں گی خوش۔۔ 
چبا چبا کر بولی تو نور نے چوری پکڑے جانے والے انداز میں رخ بدلا پھر بات ہی بدل ڈالی۔۔ 
ہیئر ڈرائیر کدھر ہے نظر نہیں آرہا۔۔ 
کہتی اٹھ ہی کھڑی ہوئی۔۔ 
ہیئر ڈرائر کیا کرنا ہے تم نے؟۔ الف نے حیرت سے اسکے لمبے سوکھے بالوں کو دیکھا۔۔ جنہیں اس نے سلجھانے کی نیت سے کھولا تھا۔۔
کرنا تو کچھ نہیں تھا ایسے ہی اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اٹھتے کچھ نہ سوجھا تو ڈرائیر کا ہی پوچھ لیا یونہی موضوع بدل دینے کیلیئے۔۔ 
جواب کا انتظار کرتے کرتے تھک کر الف اپنے خریدے بلکہ پیسہ جھونک کر کر خریدے کپڑے تہہ کرنے لگی۔۔ 
ویسے ابھی ابیہا لیکر گئ ہے نہا کر نکلی ہے بال سکھانے ہوں گے۔۔ 
الف نے بتا بھئ دیا۔۔ 
یہ بات الف کی اچھی تھی کچھ پوچھ لو جواب ضرور دیتی تھی چاہے دس سال بعد دے۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچن کی سلیب پر آئیس کیوب کی ٹرے جگ میں ڈال کر ابیہا اسے نظروں سے پگھلا رہی تھی۔۔ تو ساتھ ساتھ برف کا جما پیالہ سلیب پر رکھ کر اس پر ہیئر ڈرائر ہاٹ پر کر کے عزہ پیالے کو سینک رہی تھی۔۔ 
پگھل تو رہی ہے برف۔۔ 
ابیہا نے عزہ سے زیادہ خود کو تسلی دی۔۔ 
مسکراہٹ دباتی بالوں کو کیچر میں سمیٹتی نور ادھرآئی تو مسکراہٹ بیچ میں ہی کہیں رہ گئی منہ حیرت سے تھوڑا اور کھل گیا۔۔ 
یہ کیا کر رہی ہو؟۔۔ برف سکھا رہی۔ہو؟۔۔ 
اتنی عقلمندی کی بات پر دونوں نے ہی اسے خراج تحسین پیش کرتی نظروں سے گھورا تھا۔۔
برف سکھا سکتا ہے بھلا کوئی؟ پگھلا رہے ہیں تاکہ تھوڑا پانی بن جائے۔۔ 
عزہ جھلائی۔۔ 
مگر کیوں۔ ؟ فریج سے پانی کی بوتل لے لو نا۔۔ 
نور کی حیرت دو چند ہوئی۔۔ 
اتنی عقل جو نہیں ہم میں۔  یہ ابیہا نے طنز کیا تھا۔۔
ارے تو مجھ سے لے لو تھوڑئ۔۔ 
نور کہتی فریج کی طرف بڑھی 
ابیہا نے وہیں اسے کان سے پکڑا
کل جب رات کو پانی پی رہی تھیں تو میں نے برتن دھوتے ہوئے تمہیں کیا کہا تھا؟ بوتلیں بھر کر رکھنا ۔۔ 
اوہو کان تو چھوڑو۔۔
اس نے سی کر کے کان چھڑایا۔۔
دو گھونٹ پیئے تھے بس میں نے بھری بوتل رکھی تھی واپس فریج میں۔۔ صرف میں تو پانی نہیں پیتی صرف میں کیوں بوتلیں بھر کر رکھا کروں۔۔ ؟۔۔ 
اسکے پاس دلیل تھی۔  مگرابیہا کے پاس کیا تھا۔  
اس سے بھی بڑی دلیل۔۔ 
کھانا بھی صرف میں نہیں کھاتی مگر برتن کل رات میں نے سب دھوئے تھے۔۔ 
فرضی آستین چڑھا کر وہ بولی تھی۔۔ 
تم نے برتن دھوئے تھے؟ یہ گلاس ڈسٹ بن میں پڑا ہوا یہ تمہارا کام ہے؟۔۔ 
عزہ نے چونک کر اپنی توپوں کا رخ بلکہ ہیئر ڈرائیر کا رخ بھی اسکی جانب موڑا۔ فلمی سین کی طرح ابیہا کی لٹیں اڑی تھیں۔۔ ابیہا سٹپٹائی۔۔ ابھئ کوئی جواب بن نہیں پڑا تھا الف زور زور سے بولتی چلی آئی۔۔ کوئی باتھ روم نہ جائے بھئ۔۔  
پانی نہیں آرہا باتھ روم میں شکر ہے میں نے پہلے چیک کر لیا۔
ہاں پتہ ہے۔۔ عزہ بد مزہ ہوکر سیدھی ہوئی اور دوبارہ ہیئر ڈرائیر سے برف پگھلانے لگی۔۔ 
یہ کیا کر رہی ہو ۔۔ سلیب کے ساتھ رکھے اسٹول پر ٹک کر 
الف نے بڑے اشتیاق سے پیالہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر اسکی ٹھنڈک محسوس کی۔۔ 
یہ پانی بنایا ہے۔عزہ منہ بنا کر بولی
اچھا ۔۔ الف نے برف پر پگھل کر تیرتے شفاف پانی کو دیکھا۔۔ 
فریج میں پانی ہی نہیں ہے اسی کو پگھلا کر پانی بنا رہی ہے۔۔ 
نور نے بتایا۔۔ الف نے ایک نظر تینوں کو باری باری دیکھا ۔۔ پھر لپک کر پیالہ منہ سےلگا کر غٹا غٹ پگھل جانے والا پانی پی گئی۔۔
رکو۔۔ تینوں اکٹھے چیخی تھیں مگر بے سود۔۔ 
الف نے پانی پی کر الحمدوللہ کہا۔۔ 
پانی پی لر پیالہ واپس رکھا تو تینوں اسکے عقب میں کسی کو دیکھتی ساکت کھڑی تھیں۔۔ 
کیا ہوا۔۔ بھوت دیکھ لیا کیا۔  
اس نے تجسس سے کہتے ہوئے رخ پھیر کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو منہ سے ہلکی سی چیخ ہی نکل گئ۔ 
سرخ آنکھوں سفید ماسک لگائے چہرے کے ساتھ واعظہ کسی چڑیل کی طرح ہی انکا خون پی جانے کو تیار کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔۔ 
تیسرا منظر۔۔
واعظہ  کچن سنک پر جھکی تھی ہتھیلیوں کا پیالہ بنا کر نور کے کسی بوتل سے الٹے گئے محلول کو جمع کر کے منہ پر چھپاکے مار مار کر چہرہ دھو رہی تھی۔۔ 
تبھی چہرے پرہلکی ہلکی چبھن سے واعظہ چونکی۔۔ 
یہ ہے کیا آخر۔۔ 
اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو چرر چرر کی آواز آئی جیسے پلیٹ کو کسی اچھے ڈش واشر سے دھو تو انگلی پھیرنے پر آواز آتی ہے۔۔ 
عروج کا اسٹر لائزر ہے۔۔
اس نے اطمینان سے جواب دیا تو واعظہ ابیہا کے تھمائےتولیہ سے چہرہ پونچھ رہی تھی وہیں تھم گئ۔۔ 
ابیہا کا منہ استعجاب کے مارے کھل سا گیا۔۔ 
الف جو رائس کیک کتر کتر چبا رہی تھی چبانا بھول کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔۔ 
عزہ کے ہاتھ سے نوڈلز کا بائو ل چھوٹتے چھوٹتے بچا۔
سب اسٹار پلس کے کسی ڈرامے کی طرح اپنے اپنے ردعمل دیئے ساکت کھڑی تھیں۔۔ 
نور نے ایک ایک کا چہرہ دیکھا پھر خالی ہوئی بوتل سنک کے کنارے رکھ کر کندھے اچکا کر بولی۔۔ 
اور کیا کرتی گھر میں ایک قطرہ پانی نہیں تھا اور واعظہ کا حال دیکھا تھا۔۔ اتنی دیر سے فیس واش منہ پر ملے کھڑی تھی کوئی اسکن انفیکشن ہو جاتا تو اب تو اسٹرلائز ہوگیا اسکا منہ کچھ نہیں ہوگا۔۔ 
اسکے اتنے جملے سن کر بھی سب یونہی جمی کھڑی تھیں۔۔ 
آننایگ ہاسے او۔۔ 
فلیٹ کا دروازہ کھولتے ہی فاطمہ نے زور دار آواز لگائی تھی۔ جوتے کے ریک پر جوتی اتارتی گھر والی چپل میں پائوں گھساتی وہ سیدھا کچن میں آئی تھی۔۔ 
ان سب کو ساکت کھڑے دیکھ کر چونکی۔۔ 
تم لوگوں کو کوئی جادو سے ساکت کر گیا ہے کیا؟۔۔ 
سوال اہم تھا۔۔ سب نے ہوش کی دنیا میں واپس آنا شروع کیا۔۔
کر جاتا بہتر تھا ۔۔ 
عزہ نے تھکے تھکے انداز میں نوڈلز کا بائول سلیب پر رکھا اور اسٹول گھسیٹ کر بیٹھ گئ۔۔ واعظہ تولیہ سے منہ تھپتھپاتی اپنے آپکو شانت کر نے لگی۔۔ 
ابیہا نے گہری سانس لیکر منہ بند کیا ۔۔ اور الف رائس کیک کی کتر کتر چبانے کی آواز دوبارہ گونجنے لگی۔۔ 
کیوں کیا ہوا۔
فاطمہ پرس کائونٹر پر دھرتی پوچھ رہی تھی۔۔ 
صبح سے پانی نہیں آرہا۔۔ جواب نور کی جانب سے آیا تھا۔۔
تو نوڈلز کیسے بنا لیئے۔۔ فاطمہ حیران ہوئی۔۔ 
پڑوس سے پانی کی بوتل مانگ کر لائی تھی ۔۔ 
عزہ نے کانٹے میں نوڈلز لپیٹ کر منہ میں رکھے۔۔ پھر خیال آیا تو زبان دانتوں تلے دبا لی ۔۔ اور واعظہ کو چور نظروں سے دیکھا مگر اسکا دھیان کہیں اور تھا بچت ہوگئ۔۔
تبھی سنک کے نلکے سے تیز دھار سے پانی آنا شروع ہوگیا۔۔ 
نور نے بھاگ کر نلکا بند کیا۔۔ 
بس اس نے میرا ہی چہرہ جلانا تھا۔۔ 
واعظہ روہانسی ہوئی۔۔ 
میں دیکھوں باتھ روم میں بھی کوئی نلکا کھلا نہ رہ گیا ہو۔۔ 
ابیہا اندر بھاگی۔۔ 
واعظہ تین چار دن کے پیاسے کی طرح سنک کہ طرف لپکی اور بھر بھر چھپاکے مار کر منہ دھویا۔۔
اب اسکا کیا کروں ؟ نور کو عروج کے اسٹرلائزر کی فکر ہوئی۔۔ 
بھر کے رکھ دو ۔ دیکھنے میں پانی ہی جیسا تو تھا۔۔ 
منہ پر پانی ڈالتی واعظہ نے مزاقا کہا تھا مگر نور کو خیال پسند آگیا۔۔ جھٹ واعظہ کے ہٹتے بوتل بھرنے لگی۔۔فاطمہ کو شدید بھوک کا احساس ہو رہا تھا جھٹ عزہ کے پیالے میں نیا کانٹا اٹھا کر نوڈلز لپیٹ کر منہ میں رکھا پھر برا سا منہ بنا لیا۔۔
اف پھیکا کھا رہی ہو ٹیسٹ میکر بھی ڈالا جاتا ہے نوڈلز میں ۔۔ 
فاطمہ نے چڑ کر کہا تو عزہ نے اطمینان سے اپنے کانٹے میں نوڈلز لپیٹے۔۔ 
بالکل لیکن اگر حلال نوڈلز ہوں۔۔ اس پیکٹ پر حلال کہیں نہیں لکھا تھا اور چکن ٹیسٹ میکر ڈال کر میں نے حرام لقمے تھوڑی کھانے تھے۔۔ 
اس نے واقعئ صبر شکر کر کے نوڈلز ٹونگ لیئے تھے۔  
مجھے شدید بھوک لگی ہوئی ہے ۔۔۔ فاطمہ نے بے چاری سی شکل بنائی۔۔ 
صبح ناشتہ بھی کرکے نہیں گئ تھی۔۔ 
ہم بھی صبح سے پانی نہ ہونے کے غم میں مبتلا ہیں ناشتہ تک نہیں کیا دو بجنے کو آگئے۔۔ 
نور نے مظلومیت سے وال کلاک کو دیکھتے رونا رویا۔۔
نوڈلز رکھے ہوئے ہیں ٹیسٹ میکر ڈالے بغیر نمک ڈال کر ابالو اور کھا لو۔۔ 
عزہ نے سادہ سا حل پیش کیا تو سب اسے با جماعت گھور کر رہ گئیں۔۔
ایسے کام چلائو کام تمہیں ہی مبارک ہوں۔۔ 
واعظہ نے کہا تو سب نے متفق انداز میں گردن ہلائی۔۔ 
پھر جائو باہر کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں جا کر لنچ کرو ۔۔ عزہ نے صریحا طنز کیا تھا۔۔ 
گڈ آئیڈیا۔ الف نے خوش ہو کر چٹکی بجائی۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب کچن کے بیرونی طرف بنی سلیب ٹیبل کے گرد اسٹول سجائے بیٹھی تھیں سب کے آگے ایک ایک بائول سوپ نوڈلز کا تھا جس میں ٹیسٹ میکر نہیں ڈالا گیا تھا سفید ابلے پانی میں نمک اور کالی مرچ میں تیرتے نوڈلز۔۔ سب کے چہرے ستے تھے مگر صبر شکر کر کے نگل رہی تھیں۔۔ عزہ چولہے پر پانی چڑھائے ان کو دیکھ کر مسکراہٹ دبا رہی تھی۔ اسے چائے بہت اچھی بنانی آتی تھی مگر چائے بنا کر پلانا اتنا ہی برا لگتا تھا سو سال میں ایک آدھ بار وہ چائے بنا کر پلانے کا احسان ان لوگوں پر کر ہی دیتی تھئ۔۔
واعظہ نے پانچویں بار نمک دانی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو فاطمہ نے اسکے ہاتھ پر چپت لگا کر نمک دانی چھین لی۔۔
بار بار نمک ڈالنے سے نمک چکن ٹیسٹ نہیں دینے لگے گا۔۔
یار بہت پھیکا ہے یہ۔۔ واعظہ نے بے چاری سی شکل بنا لی تھی۔۔ 
یار قسم سے قدر آرہی پاکستان کی دل سے۔۔ کیا یار گوشت ہی نہیں کھا سکتے جب سے کوریا آئے ہیں۔۔
نور کو بھی دل سے دکھ محسوس ہو رہا تھا پھیکے نوڈلز کھانے کا۔۔
بس کھانے پینے میں ہی پاکستان یاد آتا ہے سب کو۔۔ پچاس سالوں سے سب پاکستان کو کھا رہے ۔۔ پاکستان نہ ہو گیا بریانی کی دیگ ہو گیا   کیا۔۔۔۔۔ وہ بھی لنگر کی جسے دیکھو کھانے
یہ ابیہا تھی۔۔ 
کسی بھی بات میں اپنی مرضی کی بات نکال کر تقریر جھاڑ دینا کوئی اس سے سیکھے۔  
ابھی بھی کھانے کو کرپشن سے جوڑا اور شروع ہو گئی تھی۔۔ 
فاطمہ اور واعظہ نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر دونوں اکٹھی ہی ابیہا سے چمٹ گئیں ایک نے اسکے بازو پکڑے ایک نے کانٹے میں نوڈلز پرو کر اسکے منہ میں بھر دئیے۔۔ خود کو چھڑانے کی کوشش میں ابیہا کا منہ سرخ ہو چلا تھا اور منہ میں نوڈلز بھرے چلانے کی ناکام کوشش بھی کر رہی تھی۔۔ 
نور نے جلدی سے موبائل اٹھا کر تصویر بنا لی۔۔ 
یہ اسکا خفیہ مشغلہ تھا۔۔ ایسے بہت سے واقعات اسکے پاس تصویری شکل میں محفوظ تھے مگر ان میں سے کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی ابھی بھی الف اور عزہ سمیت سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھیں عزہ ابیہا کی مدد کو آئی تھی مگر ابھی تک اسے چھڑانے میں ناکام رہی تھی ۔۔ نور نے مزے سے تصویریں بنا کر موبائل ایک۔طرف رکھا اور نوڈلز ٹونگنے لگی۔ 
یار۔۔ واعظہ نے ابیہا کو چھوڑ پر پھولی سانسوں کو بحال کرنے کی ناکام کوشش کی۔۔ 
کل ہفتہ ہے سمندر کنارے چلیں؟۔۔ بڑے دن ہوگئے گھومے پھرے نہیں۔۔ 
خیال اچھا تھا۔۔ سب نے فورا تائید کی۔۔ 
ویک اینڈ اور ساحل سمندر۔۔ اس سے زیادہ بکواس خیال نہیں ہو سکتا۔۔ 
یہ نور تھی۔۔ 
سارا کوریا پہنچا ہوگا اور ہمیں خلائی مخلوق سمجھ کر تصویریں کھینچ کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دے گا۔۔ 
کالی وردی مین گھومتی خلائی مخلوق کیپشن کے ساتھ۔۔
نور نے کہا تو ہنس تو کوئی بھی نہ سکی مگر مایوس ہو چلی تھیں۔۔ 
یار واقعی۔  عزہ الف بھی متفق تھیں۔۔
فاطمہ اور واعظہ ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر رہ گئیں۔۔
یار تم۔لوگ بھی نا کیا ضروری ہے عبایا پہن کر جائو۔۔ کوریا میں ہو کسی کو کیا پتہ چلنا کہ۔۔ 
یہ واعظہ تھی ۔۔ بول گئی معاملے کی سنگینی کا خیال کیئے بغیر۔۔ 
آدھے ہی جملے میں جب نور کو کانٹا پٹخ کر عزہ کو دانت پیس کر اور الف کو تیوریاں چڑھا کر خود کو گھورتے پایا تو ادھورا چھوڑنا پڑا جملہ۔۔ 
میرا مطلب ۔۔ اس نے گڑبڑا کر تھوک نگلا۔۔ 
کوئی لمبا سا شرگ پہن لو ماسک پہن لو حجاب لو مگر کسی پرنٹڈ اسکارف کا لے لو کم ازکم پورے کالے عبایا والا سین تو نہیں بنے گا نا۔۔ 
اسکی وضاحت پر تینوں کے چہروں کا تنائو کم ہونا شروع ہوا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریض کی کیس ہسٹری والی فائل اٹھا کر چند لمحے اس نے عبارت پر نظر دوڑائی۔۔ پھر ٹھنڈی سانس بھرکر ساتھ کھڑی نرس کو فائل تھما دی۔۔ 
سب کچھ ہنگل میں تھا سر پر سے گزرا۔۔ اتنے عرصے یہاں رہ کر تھوڑی بہت ہنگل سمجھ آنی شروع ہو گئ تھی مگر پڑھنا اب بھی آسان نہیں ہوا تھا ۔نرس اسکی الجھن سمجھ کر اسکو بی پی وغیرہ کتنا ہے کیا دوا دی ہوئئ ہے کونسی دوا دینی ہے مریض کو کیا تکلیف تفصیل سے بتانے لگی۔۔ 
عروج ہمہ تن گوش تھی نرس حتی المقدور کوشش کر رہی تھی اسے انگریزی الفاظ کے استعمال سے بات سمجھانے کی۔۔ کچھ آیا کچھ اوپر سے گزرا۔ 
اپنے چہرے پر ماسک خوامخواہ میں برابر کرتی اسکی مریض پر نظر پڑی تو اسے جی جان سے اپنی جانب دیکھتا پا کر گڑ بڑا گئ۔۔ 
مریض کے چہرے سے  تنائو خوف کی ملی جلی کیفیت مترشح تھی۔۔ بھورے بالوں خشخشی سی بڑھی ہوئی شیو نیلی آنکھوں والا وہ خالص امریکی تیس پینتیس سال کا مرد تھا ۔۔ 
آر یو اوکے؟۔۔ 
عروج نے حسب عادت کالا اسکارف سر پر بلا وجہ ٹھیک کیا۔ یہ عادت اسے کوریا آکر ہی پڑی تھی۔۔ ممکمل عبایا نقاب کے ساتھ کرتی تھی۔۔ مگر ایک کالے برقعے میں لپٹی لپٹائی مخلوق کو اپنے درمیان دیکھ کر کورین جس طرح اسے مائی لو فرام این ادر اسٹار کے دو من جون کی بہن سمجھ کر گھورتے تھے اسے عبایا کی قربانی دینی پڑی تھی۔۔ اب لانگ شرگز اور اور آل کوٹ سے کام چلا لیتی تھی۔۔ اور اسکارف سے نقاب کرنے کی بجائے حجاب لیکر ڈسٹ الرجی سے بچنے والا ہلکا سبز ماسک پہن کر پھرتئ۔ اب گھورنا کم۔ہو گیا تھا مگر ابھی بھی یہ امریکی جیسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا لگ یہی رہا تھا کہ وہ اسے اسامہ بن لادن کی چھوٹی بہن ہی سمجھ رہا ہے۔  
آر یو مسلم۔۔ 
اس کے منہ سے سرسراتی سی آواز نکلی تھی۔۔ 
یس۔۔ عروج نے گہری سانس بھری۔۔ 
اب یقینا اسکا اگلا مطالبہ کسی دوسرے ڈاکٹر سے علاج کروانے کا ہی ہونا تھا۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باتھ روم میں رگڑ رگڑ کر ہاتھ دھوتے اسکا پارہ بری طرح چڑھ چکا تھا۔۔ 
عبایا اتار دیا۔۔ نقاب کرنا چھوڑ دیا۔۔ یہ میڈیکل ماسک پر آگئ میں حجاب کیلئے بھی کالے رنگ کی بجائے پھولوں والے رنگ برنگے اسکارف لینا شروع کر دئیے مگر تعصب کا وہی عالم ہے بھلا بتائو۔۔ 
ماسک نیچے کر کے وہ آئینے مین دیکھتی باقاعدہ غرائی تھی۔ 
آر یو مسلم۔۔ پوچھ ایسے رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو آر یو چڑیل۔۔ 
ہاں ہوں میں مسلم بلکہ ہوں چڑیل اور صرف امریکی خون پیتی ہوں احمق جاہل تنگ نظر آدمی۔۔ 
جوش جزبات میں آواز بلند ہوئی حلق کے بل اپنے عکس کو دیکھتئ چلائی تو ٹوائلٹ سے نکلتی لڑکی بری طرح گھبرا کر دروازے سے ہی جا لگی۔۔ 
تھر تھر کانپتی لڑکی اپنے عقب میں دکھائی دی تو وہ کھسیا کر مڑی۔ مسکرا کر پارہ نیچے کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی
آننیانگ ہاسے او۔۔
اس نے کوریائی انداز میں ہی آدھا جھک کر سلام کیا تھا۔  
آننیانگ۔۔ 
چندی آنکھوں والی اس نرس نے گھبرا ہٹ پر قابو پاتے ہوئے اپنے باب کٹ بالوں کو کانوں کے پیچھے کیا۔۔ چہرہ جانے کیوں تھپتھپا بیٹھی۔۔ پھر اپنی اسکرٹ پر ہاتھ پھیرتی بیسن کی جانب بڑھی۔۔
فل ٹونٹئ کھول کر ہاتھ دھوئے اور ہکا بکا کھڑی عروج کو الجھن سے دیکھتئ باہر نکلتی گئ۔۔ 
بال چھو لیئے چہرہ تھپتھپا لیا کپڑوں کو ہاتھ لگا لیا اب ہاتھ دھونے کی کیا ضرورت باقی رہ گئ تھی گندی لڑکی۔۔ جب ہر جگہ ہاتھ لگا چکنا تھا تو ہاتھ دھوتے کیوں ہوو و ۔۔ 
عمائمہ کی طرح چلا کر 
اسکے جاتے ہی عروج نے گھنیا کر جھر جھری سی لی۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
وہ سب ننھے منے سے لائونج میں بچھے کارپٹ پر آلتی پالتی مارے بیٹھی چائے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔۔کھا پی کر تھوڑی بہت توانائی آہی گئ تھئ۔۔ سو اس وقت انکی آوازوں سے پورا اپارٹمنٹ گونج رہا تھا۔۔
یار بیچ ڈن پھر؟۔۔ 
عزہ گھونٹ بھر کر کپ ایک طرف رکھتی پرجوش ہوئی
ہاں نا۔۔ واعظہ نے جھٹ تائید کی تھی
تم نے ویک اینڈ پر بھائی کے ہاں نہیں جانا؟۔۔ 
ابیہا نے یاد دلایا۔۔ 
فرض تھوڑی ویسے بھی بھابی کے ساتھ سارا دن گزارنا کوئی اتنا بھی خوشکن خیال نہیں۔۔ 
اس نے مزے سے کندھے اچکائے۔۔ 
تو پھر ڈن ہے ۔۔ کل سب صبح آٹھ بجے اٹھ جانا۔۔ 
ہمیں بیچ جانے پر بھی وقت لگے گا دو گھنٹے تو سیدھا سیدھا بس پر لگیں گے۔۔ 
نور نے چٹکی بجائئ۔۔ 
کپڑے وپڑے پریس کرلینا آج ہی۔۔ 
ابیہا نے ہدایت دی تو الف کپ ہونٹوں سے لگائے گھونٹ بھرنا بھول گئ۔ ۔۔میرے کپڑے۔۔ 
اسکا پھر دل بھر آیا اکتا کر کپ نیچے رکھ دیا۔۔
تم لوگ ویسے سب کی سب آج گھر میں کیوں ہو؟۔۔ خیریت؟۔۔ 
فاطمہ کو یاد آیا۔۔ وہ تو اپنے باس سے ٹھیک ٹھاک سن سنا کر آئی تھی۔۔ یہ سب تو مزے سے پھیکا ناشتہ اڑا رہی تھیں ۔۔۔
کورین فیسٹول چل رہا کوئی فضول سا۔۔ یونیورسٹی میں کیا کرنا تھا جا کر کلاس تو ہونی نہیں تھی ۔۔۔ 
الف نے بے زاریت سے بتایا۔۔ 
یہ وہی ہے نا جس نے بڑے شوق سے ہنبک خریدا تھا شروع شروع میں یہاں آئی تھی تو بڑے شوق سے ہر فضول سے فضول ایونٹ میں ہمیں زبردستی لیکر جاتی تھی اسکے پیچھے وہ فضول سات بیویوں والا اسٹیج ڈرامہ بھی دیکھا تھا 
نور کو اسکے سارے قصور بر وقت یاد آئے تھے۔۔ الف کھسیائی۔۔ 
تم نے کہاں دیکھا تھا میں نے دیکھا تھا تم تینوں تو سو گئیں تھیں انٹرویل تک پھر جاتے وقت ہی اٹھایا تھا میں نے۔۔ 
واعظہ نے کہا تو فاطمہ کو بھی اس منحوس دن کی یاد آئی۔۔ فورا بولی
پورا ڈرامہ ہنگل گٹ پٹ ایک لفظ پلے نہ پڑے اور یہ پوری آنکھیں کھولے اس آدھی بند آنکھوں والے کو تاڑ رہی تھی۔ 
ہاں تو تب تو نیا نیا تھا سب کچھ اب سال ہونے کو آیا ہے یہاں رہتے اب تو اکتاہٹ ہونی ہی تھی نا۔۔ 
الف کھسیائی تو تھئ مگر ڈھٹائی سے مسکرا کر کندھے اچکائے۔۔
واہ ایک سال میں اکتا گئیں کوریا سے؟۔۔ عزہ نےہنس کر مزاق اڑایا۔۔ 
سی ہون سے بھی اکتاہٹ ہوگئ ہوگی۔۔ اب تک تو میں لے لوں؟۔۔ ابیہا نے کہا تو الف کو پتنگے ہی تو لگ گئے۔۔
وہ کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا نہیں ہے اچھا نا اس سے میرا دل نہیں بھر سکتا۔۔ 
ہاتھ ہلا کر اس نے تقریر جھاڑی تھی۔۔ 
کیوں وہ بھی تو کوریا کا ہی ہے اس سے کیوں دل نہ بھرا ؟؟؟؟۔ نور بھی بحث میں شامل ہوئی۔۔ 
کوریا پورا ملک ہے سیہوں کوریا کیسے ہو سکتا۔ 
ابیہا الجھی۔۔ 
کوریا کا ہو نہ سہیون میر اہے میرا رہے گا۔  
الف نے اعلان کیا۔۔
افوہ کیا فضول بحث میں پڑے ہو تم لوگ۔۔ 
فاطمہ جھلائی۔
یار میں نے سوچا ہے تم سب عبایا کی بجائے لانگ شرگز پہن لو اور اسکارف لو مگر عروج کی طرح ماسک پہن لو کیسا۔۔ اس طرح لوگ تم لوگوں کو گھور گھور کر بھی نہیں دیکھیں گے
واعظہ کو اپنی الگ فکر لگی تھی۔۔ 
اتنا تم۔ہمیں عبایا نہ پہننے پر کنوینس کرتی ہو اتنا اگر انڈیا کو کشمیر چھوڑ دینے پر کنسوینس کرتیں تو وہ مان جاتا۔۔عزہ چڑی۔۔ 
ہاں انڈیا کشمیر دینے پر مان سکتا تم لوگ معمولی سی بات نہیں مان سکتیں ۔۔ بڑا اچھا لگتا جب سب گھور گھور کر دیکھتے کالی مخلوق کو۔ 
واعظہ نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۔ 
ہاں اچھا لگتا دور سے پتہ لگ جاتا مسلمان لڑکی ہوں
ورنہ یاد ہے تمہیں اس دن ریسٹورنٹ میں انڈین سمجھا وہ فرنچ لڑکا۔۔
عزہ کا لہجہ تیز ہو چلا۔تھا۔۔ 
اس بات کا یہاں کیا زکر ۔ مطلب کیا ہے تمہارا۔۔ 
واعظہ کی پیشانی پر بل پڑے۔
مطلب وہی ہے مجھے فخر ہے میں عبایا کرتی ہوں اور اگر تمہیں مجھے ساتھ لے جاتے شرم آرہی ٹھیک ہے جائو تم سب میں گھر میں ہی رہوں گی۔۔ 
عزہ سختی سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی
کیا وہی مطلب ہے ؟ میں عبایا نہیں کرتی تو کیا مسلمان نہیں لگتی یا مسلمان رہی ہی نہیں؟  
واعظہ کے سر سے لگی تلوے پر جابجھی۔۔ تنتناتی ہوئی اسکے سامنے آکھڑی ہوئی
جو مرضی سمجھو۔۔ 
عزہ کا بھی پارہ چڑھ چکا تھا اسے ایک طرف کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے میں چلی گئی۔۔ 
سیہون کا دیکھنا ایکدن انٹرویو لوں گی میں کب سے اپنے ڈاریکٹر کو کنوینس کر رہی ہوں میں۔  
الف بولی۔۔ 
پہلے ہنگل تو سیکھ لو کبھی نہیں آئے گا وہ تمہارے گٹ پٹ انگریزی والے پروگرام میں۔۔۔ نور نے چڑایا۔
زور دار چھناکے کی آواز سے تینوں چونک کر ساکت ہوئی تھیں۔۔ 
واعظہ نے سلیب سے کپ اٹھا کر پوری قوت سے زمین پر دے مارا تھا۔۔ 
کیا ہوا؟۔ 
ابیہا فورا اسکے پاس آئی تھی۔۔ 
سپاٹ چہرے کے ساتھ کپ کے ٹکڑوں پر نظر جمائے وہ دانت سختی سے دانتوں پر جما کر خود کو شانت کر رہی تھی۔۔ 
غصہ آگیا تھا اسلیئے اسے توڑ دیا ابھی صاف کر دیتی ہوں۔۔ 
چند لمحے لگے تھے اسے اپنے آپے میں واپس آنے میں۔۔ 
گہری سانس لیکر ابیہا کو مسکرا کر بتا رہی تھی پھر جھاڑو اٹھا کر صاف کرنے بھی بڑھ گئ۔۔ 
ہیں مگر۔۔ فاطمہ حیران سی اس سے پوچھنے بڑھی مگر ابیہا نے  اسے بازو سے تھام لیا۔۔فاطمہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو ابیہا نےا سے آنکھ کے اشارے سے ہی چپ رہنے کو کہا۔۔  ابیہا اور واعظہ بچپن کی سہیلیاں تھیں کب کہاں کتنا میٹر گھومتا دونوں ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔۔ 
واعظہ  اب تندہی سے اپنا پھیلاوا سمیٹ کر پوچھا لگا رہی تھی۔۔ 
یہ کیا تھا؟۔۔ 
الف اور نور حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھکی تھکی سی وہ کھانا کھانے کیفے میں آئی تھی۔۔ 
صبح سے ایک کے بعد ایک مریض بھگت کر اب یہ حال تھا کہ لگ رہا تھا کہ گردن کے اوپر اسکا نازک سا پیارا سا سر نہیں کوئی پانچ چھے کلو کا تربوز رکھا ہوا ہے۔۔ گردن سہلاتی ٹرے اٹھا کر وہ قطار میں سجے خوشبو اڑاتے گرم پکوانوں کے ڈونگوں کی طرف چلی آئی۔۔ 
فضا میں مصالحوں کی مہک رچی تھی۔۔ 
کھانے کا وقت تھا تو کافی لوگ کیفے میں موجود تھے اسے بھی قطار میں لگنا پڑا ۔۔ 
خدا خدا کر کے پہلی طشتری کا ڈھکن اٹھایا۔۔ 
ساسجز۔۔
وہ آگے بڑھی۔۔ سادے ابلے ہوئے چاول۔۔ 
اس نے وہی نکال لیئے۔۔ 
اس سے پیچھے کھڑی لڑکی نے کئی ساسجز پلیٹ میں رکھتے اس پر ترچھی سی نظر ڈالی تھی۔۔ 
اگلی ڈش۔۔ پورک بیلی سوپ۔۔ 
وہ ڈھکنا چھوڑ بیٹھی ۔۔ 
چھن کی آواز سے اسٹیل کے ڈونگے پر اسٹیل کا ڈھکن بجا۔۔ لمحہ بھر کو کھانا لیتے سبھی کےہاتھ رکے چونک کر اسے دیکھنے لگے۔۔
آئی ایم سوری۔۔ 
اس نے جھک کر معزرت کی۔۔ ابھی بھی ہنگل دماغ میں نہ آ سکی تھی۔۔ خیر سوری کا مطلب تو سب ہی سمجھتے تھے 
سب واپس اپنے اپنے کام میں مگن ہوئے
اگلی ڈش چکن اسٹیک۔۔ 
وہ صبر شکر کرتی سلاد والے حصے میں آگئ۔۔ 
ابلے انڈے کے ٹکڑے سجے گاجر مولی سلاد کے پتے۔  
دل بھر کر پلیٹ میں ڈال کر وہ اب کسی کونے کی تلاش میں تھی۔۔ 
دور ہال کی فرنچ ونڈو کے کونے میں لگی میز پر دو لڑکیاں بیٹھی تھیں۔۔ وہ وہیں چلی آئی۔۔ 
اسلام و علیکم ۔۔ اس نے سلام تو کیا تھا مگر کوریائی انداز میں جھک کر۔۔ یہ بھی مسلئہ جانے کب تک رہنے والا تھا کہ منہ پہلی دفعہ میں ہنگل نکلتی ہی نہیں تھی۔  
چندی آنکھوں والی دونوں لڑکیوں نے اچنبھے سے اسے دیکھا پھر جیسے بدمزہ سی ہوگئیں۔۔ 
ابھی عروج کرسی گھسیٹ کر بیٹھنے بھی نہ پائی تھی کہ دونوں کھٹاک سے اپنی اپنی کھانے کی ٹرے اٹھاتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔
عروج نے ٹھںڈی سانس لی۔۔ 
اسکا اسکارف پہنے ہونا میڈیکل ماسک پہننے کے باوجود بھی چیخ چیخ کر میں مسلمان ہوں بتا دیتا تھا۔  کورین تعصبی تو نہیں تھے مگر اس سے جھجک ضرور جاتے تھے ابھی بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔۔ 
اس نے تھوڑا سا رخ پھیر کر دیوار کی طرف منہ کیا ماسک ہونٹوں سے تھوڑا سا اوپر کرکے آڑ کرکے ابلے انڈے ابلے چاولوں پر رکھ کر کھانے لگی۔۔ 
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ۔۔
اسکے زہن میں یہی جملہ گھوم کر رہ گیا۔۔ 
کوریا میں بس بابر کا عیش ہی نصیب تھا۔۔ 
اپنی کھانے کی پلیٹ تیار کر کے وہ مناسب جگہ دیکھ کر بیٹھنا چاہ رہا تھا۔۔ ہر میز پر دو چار لوگ بیٹھے کھانے پینے کے ساتھ خوش گپیوں میں مگن تھے۔۔
دور اوور آل پہنے ایک لڑکی دیوار کی طرف چہرہ کرکے بیٹھی تھی۔۔ 
اسکی میز پر اسکے سوا کوئی نہ بیٹھا تھا وہ سیدھا اسی جانب بڑھا ۔۔ چند قدم ہی بڑھائے ہوں گے کہ ٹھٹک کر رکا۔۔
ڈاکٹر روج۔۔ جسکو آپ روز ملتے ہوں اسکو آپ دور سے پشت سے بھی پہچان سکتے اور روج کو تو وہ سو لڑکیوں میں بھی پہچان سکتا تھا۔۔ ایک پھیکی سی مسکراہٹ اسکے چہرے پر در آئی۔۔ آگے بڑھنے کی بجائے مڑ کر قریب ترین نشست گھسیٹ کر بیٹھ گیا ۔۔ 
یوں کہ روج کینجانب اب اسکی پشت تھی۔۔ 
انسان ہوں میں ۔۔ انسانوں کو تو نہیں کھاتی نا ۔۔ عروج کی آنکھیں بھر رہی تھی۔ 
ساتھ بیٹھ کر کھالیتیں تو کیا چلا جاتا انکا۔یوں اٹھ کر گئ ہیں جیسے میں اچھوت ہوں۔۔ 
وہ نوالے نگلتی آنسو بھی پی رہی تھی۔۔ تبھی اسکا فون بج اٹھا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار ویسے اتنا حساس ہونے کی ضرورت نہیں تھی واعظہ نے غلط نیت سے تو نہیں کہا تھا۔۔ ہمارے ساتھ ایسا کئی بار ہو چکا ہے پانچ لڑکیاں عبایا پہن کر اکٹھے گئ ہیں تو لوگوں نے ٹھیک ٹھاک بلی اینگ  کی ہے ہماری۔۔میں اور واعظہ اکٹھے گھومتے پھرتے کوئی غور سے دیکھتا بھی نہیں ہمیں۔۔
فاطمہ کا انداز ناصحانہ تھا عزہ نے خاصی ناپسندیدگی سے دیکھا۔۔ 
ٹھیک ہے تم لوگ جائو میں گھر میں ٹھیک ہوں۔۔ 
عزہ کا صاف فیصلہ تھا۔۔ 
وہ سب عزہ کے کمرے میں جمع تھیں۔۔ الف اپنی شاپنگ پھر کھول کر بیٹھی تھی کل جانے کیلیئے کپڑے چننے تھے۔۔ نور کپڑے استری کرتی انکی باتوں پر ہی کان لگائے تھی استری ایک طرف رکھتی مڑی۔۔ کمر پر ہاتھ رکھتئ چبا چبا کر بولی
لڑائی تمہاری اور واعظہ کی ہوئی ہے تم نہیں جا رہیں تو ٹھیک مگر میں تو جا رہی ہوں عبایا پہن کر ہی جائوں گی واعظہ کیا کرے گی؟ 
یک نہ شد دو شد ۔فاطمہ اور الف سر پکڑ کر رہ گئیں۔۔
اس نے کیا کرنا یہ عزہ اسے انڈین کہہ کر چلی گئ بجائے اسکے اس سے لڑتی کپ توڑ دیا اس نے اب شائد گلاس توڑ دے گی زیادہ سے زیادہ۔۔ 
الف نے معصومیت سے تجزیہ کیا۔  
فاطمہ اسے گھور کر رہ گئ۔۔ 
تو آخری فیصلہ تم دونوں کا؟۔۔ فاطمہ نے کھڑے ہوتے ہو ئے پوچھا۔۔ 
ہاں ۔۔ 
اگر جائوں گی تو عبایا میں جائوں گی ورنہ نہیں جائوں گی۔۔ 
عزہ نے ضدی پن سے کہا۔۔  تبھی تھکی تھکی سی عروج کمرے میں داخل ہوئی۔۔ 
اسلام علیکم ۔۔ ماسک نیچے کرتے ہوئے اس نے تھکے تھکے انداز میں ہی سلام کیا۔۔ 
یار عروج بھی تو ہے۔
فاطمہ کو دلیل سوجھی۔  
اوور آل کوٹ گلابی حجاب اور میڈیکل ماسک۔ ایکدم سے تو آئوٹ اینڈ آڈ نہیں لگنے لگتی یہ۔۔ ؟۔۔ 
فاطمہ نے کہا تو چاروں عروج کو ہی دیکھنے لگیں
اتنا کچھ کرکے بھی لگتی ہوں آج بھی ایک امریکی مریض مجھ سے ڈر گیا مسلم ہو؟۔۔ عروج پہلے ہی بھری بیٹھی تھی تپ کر بولی۔۔ 
کھانا کھانے گئ تو جہاں جا کر بیٹھ رہی تھی لوگ اٹھ اٹھ کر چلے جاتے وہاں سے۔۔ 
اس سے تو بہتر تھا عبایا ہی کرتی رہتی روز کپڑے تو استری نہ کرنے پڑتے۔۔ 
اوور آل کوٹ اتارتی وہ ساری بھڑاس نکال رہی تھی۔۔ 
آج کا دن ہی برا ہے۔۔ فاطمہ سر پکڑ کر رہ گئ۔۔ 
اف آپریشن کر کے آئی ہوں اس امریکی کو ہی اسٹروک پڑ رہے تھے ۔۔ مجھ سے علاج کروانے کو تیار نہ تھا خدا کا کرنا ایسا ہوا اسٹروک پڑ رہے تھے اسے فوری آپریشن کرنا پڑا ایمرجنسی میں میں نے ہی اسسسٹ کیا ڈاکٹر یانگ جو جو۔  بڑا مزا آیا۔۔ 
عروج پر جوش ہوئی۔۔ 
مریض کو تکلیف میں دیکھ کر۔۔ ؟۔ الف حیران ہوئی۔ 
ارے نہیں پاگل آپریشن ہوتے دیکھ کر ۔۔ سب کچھ جو بس کتابوں میں پڑھا تھا اسے حقیقت میں سامنے ہوتے دیکھنا اتنا مزے کا تجربہ تھا اتنا کچھ سیکھا میں نے۔۔ 
بولتے بولتے تالی کی طرح دونوں ہتھیلیاں جوڑ کر وہ بہت خوش ہوئی۔۔ تھی۔۔ آنکھیں میچ کر جھوم کر جب آنکھیں کھولیں تو کسی کو اپنی جانب متوجہ نہ پایا۔۔ اسکی میڈیکل ٹرمز والی تفصیل سننے میں کسی کو دلچسپی نہ تھئ۔۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مگن تھیں۔۔
الف دوبارہ ایک ایک جوڑا واپس ڈال رہی تھی نور عبایا استری کرکے کونےکھونٹی میں لٹکا کر اب اپنا جوڑا استری کرنے لگی تھی
عزہ موبائل میں لگی تھی فاطمہ جانے کیوں چپکے دے کھونٹی کے پاس جا کھڑی ہوئی تھی عروج نے تاسف سے ان کو دیکھا۔۔ 
مجھ سے سیکھنے والی ہوتیں تو آدھی ڈاکٹرنیاں بن چکی ہوتیں میرے ساتھ صحیح ہے  چراغ تلے اندھیرا۔۔ 
وہ کندھے اچکاتی اپنے بیڈ سائیڈ ٹیبل سے اسٹر لائزر کی بوتل اٹھا کر باتھ روم۔میں گھس گئ۔۔ باتھ روم کا دروازہ بند ہوتے ہی نور کی بے نیازی ختم ہوئی تھی۔۔ دزدیدہ نظروں دھڑ دھڑ کرتے دل کے ساتھ وہ اسکے اگلے ردعمل کا انتظار کر رہی تھی۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابیہا اور واعظہ ہفتہ وار سودا سلف لینے قریبی سپر مارکیٹ آئی تھیں۔۔ ٹرالی گھسیٹتے ایک ایک چیز اٹھاتے ہوئے اسکے اجزا پڑھ پڑھ کر ٹرالی میں رکھ رہی تھیں۔۔ 
حلال میٹ کے ٹیگ کے ساتھ گوشت کا پیکٹ اٹھاتے واعظہ شکایتی انداز میں ابیہا کو دوپہر میں گزری واردات بتا رہی تھی
یار عزہ خود کو سمجھتی کیا ہے عبایا کرتی ہے تو کیا اچھی مسلمان ہے؟ مجھے کہتی میں انڈین لگتی کیونکہ میں عبایا نہیں کرتی یہ کیا بات ہوئی میں عبایا نہیں کرتی تو کیا مسلمان نہیں رہی؟
عبایا نہ کرنے والے انڈین لگتے ؟ یہ بات مجھےآج پتہ چلی ہا ہا ہا۔۔
ابیہا کھل کر ہنسی تھئ۔۔ 
واعظہ اسکے ردعمل پر اسے گھور کر ہی رہ گئ۔۔ 
یار پھر تو میں بھی انڈین ہوں۔۔ 
وہ لمبا سا پیچ کلرکا  شرگ عبایا کی جگہ پہنے تھی پرنٹڈ نارنجی گلابی پھولوں والا حجاب لیکر اس نے ماسک پہن رکھا تھا کافی کول سی لگ رہی تھی ابھی بھی مزے سے شرگ کا دامن پکڑ کر گول گھوم کر اسے دکھایا۔۔
ابیہا زہر عورت ہو تم۔۔ 
واعظہ اسکی پرفارمنس دیکھ کر طنز سے تالی بجاتی اسے گھور کر ٹرالی آگے بڑھا لے گئ تو ابیہا سٹپٹا کر پیچھے بھاگی۔۔
ارے سنو تو۔۔ پتہ ہے جب میں میٹرک میں تھی نا تب جو گائون بنایا تھا نا میں نے وہ کوٹ جیسا تھا یہ بڑی بڑی جیبیں تھیں۔۔ 
اس نے ہاتھ پھیلا کر کچھ زیادہ ہی بڑی بڑی جیبوں کا اشارہ کیا۔۔ واعظہ رک کر دیکھنے لگی۔۔
تو؟۔۔ 
یاد ہے اسری وغیرہ مجھے تنگ کرتی تھیں بات کرتے کرتے جیب مین ہاتھ ڈال۔لیتی تھیں سخت برا لگتا تھا مجھے کتنی لڑائی ہوئی ہے ہماری اس بات پر۔۔ تم سمیت ان میں سے کوئی بھی گائون نہیں لیتی تھی۔۔ 
تو یہ بات کہاں سے یاد آگئ؟۔۔ 
واعظہ حیران ہوئی۔۔ 
وہ تم نے ابھی گائون والی بات کی نا تو۔۔اس پر۔۔ اب تم مجھے بتا رہی تھیں عزہ سے لڑائی ہوئی تو میں جانتی تو ہو ایسا ہی ہوتا میرے ساتھ ایکدم خالی کچھ آیا ہی نہیں زہن میں کیا بولوں تو یہ بول دیا۔ 
ابیہا معصومیت سے کہہ رہی تھی۔۔ 
واعظہ کو اسکے انداز پر ہنسی ہی آگئ۔۔ 
اسے ہنستے دیکھ کر ابیہا کی بھی جان میں جان آئی چپ ساتھ چل رہی تھی اسکے بار بار پوچھنے پر اس نے بتایا کی بات کیا بری لگی تھی۔۔ 
ابیہا تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔ واعظہ ہنستے ہنستے بولی۔  
یار ایویں برا مانا تم نے تم اور انڈین۔؟ کسی عقل کے اندھے کو ہی انڈین لگ سکتی ہو۔۔ دودھ جیسا تو رنگ ہے تمہارا اتنی گوری آج تک میں نے کوئی انڈین لڑکی نہیں دیکھی۔۔ 
ابیہا اسکے کندھے پر جھول ہی گئ۔  واعظہ کا موڈ ٹھیک ہوا ہی تھا کہ پیچھے سے کسی نے انہیں پکار لیا۔۔ 
آپ انڈین ہیں نا ؟۔۔ پلیز میری مدد کیجئے گا ۔۔ 
دونوں چونک کر مڑی تھیں۔۔ 
وہ دبلی پتلی سی پرنٹڈ شلوار قمیض میں ملبوس بڑی سی چادر سر تک اوڑے گلابی رنگت والی لڑکی چھوٹے سے بچے کو گود میں لیئے جھجکتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔۔

جی۔۔ دونوں کے منہ سے مری مری سی آواز نکلی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔

وہ مجھے حلال ہی سب چیزیں لینی تھیں انکے اجزا ء سب کورین میں ہی لکھے ہوئے تو مجھے سمجھ نہ آرہے تھے۔۔ آپ دونوں کا بہت شکریہ آپکی وجہ سے میں ساری شاپنگ آرام سے کر سکی۔۔ 
تینوں کائونٹر پر اپنا سامان رکھ کر بل بنوا رہی تھیں جب طوبی نے مڑ کر انکا شکریہ ادا کیا۔۔ اسکا بیٹا اب بے چین ہو کر ہمک رہا تھا۔۔ اسکو تھپکتی نرم سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے طوبی واقعی احسان مند تھئ۔۔ 
جی۔۔ 
اسکے پیارے سے دو ڈھائی سال کے بیٹے کو چمکارتی ابیہا ٹھٹکی تھی تو کریڈٹ کارڈ سیلز گرل کو تھماتی واعظہ بھی ٹھٹکی۔۔ دونوں نے باقاعدہ مڑ کر ایک دوسرے کو دیکھا پھر اپنی خریداری کی بھری ہوئئ ٹرالی کو۔۔ 
اب ہم غیر مسلم ملک میں ہیں یہ لوگ تو حلال حرام نہیں دیکھتے جانوروں کے اجزا ء بکثرت استعمال کرتے ہیں صابن ٹوتھ پیسٹ وغیرہ میں اب ہم تو نہیں ایسی چیزیں استعمال کر سکتے۔۔ میں وہاں موجود لڑکی سے یہی پوچھ رہی تھی کہ اس میں جانوروں کے اجزا ء شامل تو نہیں مگر عجیب جاہل لوگ ہیں یہاں کے کسی کو انگریزی ہی نہیں آتی۔۔ طوبی چڑ کر سیلز گرل کو گھورنے لگی۔۔ 
بس جھک جھک کر پتہ نہیں کیا کہے جا رہی تھی
خیر شکر ہے کوئی ہم زبان ملا ایک ہفتے سے تو حقیقتا منہ بند کر کے وقت گزر رہا میرا 
جی۔۔ ۔ابیہا اور واعظہ ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں۔۔ 
گومو ویو۔۔ 
سیلز گرل نے انکا سامان شاپر میں ڈال کر تھمایا اور پھر جھک کر بولی۔  
دیکھا یہ کیئے جا رہی بس۔۔ ایک دو بار تو میں جھکی مگر بچے کے ساتھ جھکنا آسان ہے بھلا۔۔ 
طوبی نے فورا نوٹ کیا باقاعدہ اشارہ کرکے بتایا۔۔ سیلز گرل کا رنگ فق ہو گیا۔۔ 
دے؟۔۔ وہ جواب طلب نظروں سے انہین دیکھنے لگی۔۔ 
تعریف کر رہی ہیں آپکی۔۔ 
سٹپٹا کر ابیہا نے ایک سال میں جتنی ٹوٹی پھوٹی ہنگل سیکھی جھاڑ دی۔۔ گومو وویو۔۔ 
سیلز گرل کی رنگت بحال ہوئی واعظہ مسکراہٹ دباتی شاپر اٹھانے لگی۔۔  
طوبی منہ بنا کر اپنا سامان کائونٹر پر رکھنے لگی۔۔ 
آپ سے مل کر خوشی ہوئی خدا حافظ۔۔ 
شاپر اٹھا کر ابیہا نے الوداعی کلمات ادا کرنے چاہے مگر طوبی مکمل طور پر سیلز گرل کی جانب متوجہ ہو گئ تھی۔۔ انکی جانب پشت کرکے وہ ٹرالی سے سامان اٹھا اٹھا کر کائونٹر پر دھر رہی تھی۔۔ 
چلو۔۔ واعظہ نے بازو پکڑ کر اسے گھمایا۔۔ دونوں ہنستی ہوئی باہر نکل آئیں۔۔ شام کے ساڑھے سات ہو رہے تھے۔۔ آسمان  پر اندھیرا چھا رہا تھا تو سیول روشنیوں سے جگمگا اٹھا تھا۔ یہ انکے گھر کے قریب ترین مارکیٹ تھی تو بھی دس منٹ کا پیدل کا راستہ تھا۔ ابیہا کا بس چلتا تویہاں بھی بس سے یا ٹیکسی کرکے آتی مگر واعظہ ساتھ ہوتی تو اسے اتنا تو  چلا ہی لیتی تھی۔  ابھی بھی انصاف سے سامان آدھے آدھے وزن کے ساتھ بانٹے ایک ہاتھ میں ایک ایک شاپر تھامے ایک ایک ہاتھ سکھی سہیلیوں کی طرح حمائل کیئے دھیرے دھیرے قدم اٹھا رہی تھیں۔۔ 
مارکیٹ میں لوگوں کا رش تو نہیں تھا مگر پھر بھی اپنے کام سے کام رکھتے لوگ آ جا رہے تھے۔۔ کسی کو کسی سے سروکار نہیں نہ دو لڑکیاں شپنگ بیگ تھامے انکیلئے کوئی انوکھا نظارہ تھیں کہ مڑ کر دیکھتے یا جملہ چست کر جاتے۔۔شرمندگئ کی بات تھی مگر پاکستان سے زیادہ آسانی اور آزادی کے ساتھ وہ پھر رہی تھیں۔۔ 
یار ویسے ہمارے ساتھ بھی یہی ہوتا تھا ایک سال پہلے ککھ سمجھ نہ ہمیں انکی آتی تھی نہ انہیں ہماری۔۔ ساتھ سے گزرتی چندی آنکھوں والی آنٹی کو تھکے تھکے قدم اٹھاتے بس اسٹاپ کی طرف بڑھتے دیکھتی ابیہا کو خیال آیا۔۔
اب کونسا ہم ہنگل کے ماہر ہو چکے ہیں۔۔ واعظہ ہنسی
ہاں ابھی بھی سمجھ ومجھ خاک پتھر ہی آتی ہے ہمیں۔۔ ابیہا نے تائید کی۔۔
یار ویسے لڑکی پیاری تھی گوری سی بچہ تو اسکا لگ ہی نہیں رہا تھا۔۔
ابیہا نے کہا تو واعظہ حیران رہ گئ۔
کیوں بچہ بھی اچھا خاصا گورا سا پیارا سا ہی تھا۔۔ 
واعظہ کے کہنے پر ابیہا سر پیٹنے والے انداز میں بولی
میرا مطلب چھوٹئ سی لگ رہی تھی شادی شدہ نہیں لگ رہی تھی۔۔ 
ہو سکتا ہے خالہ والہ ہو اس بچے کی ضروری تو نہیں ماں ہی گود میں لیکر پھرے بس۔۔ میں نہیں خاور بھائی کے بچوں کو شاپنگ پر لے کر جاتی۔۔ 
واعظہ کی اپنی منطق ہوتی تھی۔۔ 
اف۔۔ ابیہا نے سر ہی پکڑ لیا۔۔ 
یار ویسے ایک بات ہے۔ واعظہ کے دماغ کی گھنٹی بجی۔  
ہم نے کبھی اجزا دیکھ کر شاپنگ نہیں کی کیا پتہ ہم بھی جانوروں کےاجزا سے بنا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرتے رہے ہوں اور صابن۔۔ اور ہم نے تو اس لڑکی کو بھی بس اسکی لسٹ میں موجود چیزیں ٹرالی میں بھر دی تھیں۔ اجزا تو نہیں دیکھے تھے۔۔ 
واعظہ نے کہا تو ابیہا کے زہن میں وہ۔منظر تازہ ہو گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں ٹرالی گھسیٹتی اسکے پاس ہی چلی آئیں۔۔ 
جی کہیئے۔۔ واعظہ نے خیر مقدمی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا تھا 
اسلام و علیکم۔۔ 
اس نے بڑے تپاک سے سلام۔کیا ۔۔ 
وعلیکم السلام۔۔ دونوں نے کورس میں ہی جواب دیا تھا
وہ میں خریداری کرنا چاہ رہی تھی۔۔ ۔۔ 
اس نے اپنے  بے چین فطرت بیٹے کو ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر منتقل کرتے ہوئے معزرت خواہانہ انداز سے کہا 
حلال چیزیں درکار ہیں مجھے ۔ آپکو اسکارف پہنے دیکھا تو سوچا آپ سے مدد لے لوں۔۔ 
واعظہ کی مسکراہٹ پھیکی پڑی۔۔ 
جی کیوں نہیں حلال گوشت آپکو اسک کونے سے ملے گا۔۔ 
ابیہا نے اشارے سے گوشت والے حصے کا بتایا۔۔
اچھا۔۔ طوبی تھوڑی سی مایوس ہوئی تھی۔۔کافی بڑا اسٹور تھا اور گوشت والا حصہ بالکل ایک کونے پر اور وہ لوگ بیچ میں کھڑی تھیں۔تبھئ 
بچے نے اچانک ہی زور دار چیخ مار کر رونا شروع کر دیا تھا۔
آلے آلے۔۔ وہ اسے تھپک تھپک کر بہلانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ مگر بچے کی آواز بلند سے بلند ہوتی جا رہی تھئ۔۔ 
دھان پان سی لڑکی گپلو سا بچہ گود میں لیئے شاپنگ کم کر رہی تھی ہلکان زیادہ ہو رہی تھی
واعظہ کو ترس ہی آگیا۔۔
لائیں لسٹ ہم آپکی بھی چیزیں لے لیتے ہیں۔۔ 
اس نے آگے بڑھ کر اسکی ٹرالی تھام لی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔م
میں تو یہی سمجھی تھی کہ بچے کی وجہ سے پریشان ہے سو اسکی لسٹ کے مطابق چیزیں جمع کردیں ٹرالی میں حلال کے ٹیگ والا گوشت بھی لیا مجھے کیا پتہ تھا اسے ٹوتھ پیسٹ تک حلال ہی چاہیئے تھا۔۔ہم نے تو کبھی خود اپنی شاپنگ ایک ایک چیز کے اجزا ء پڑھ کے نہیں کی۔۔ ویسے انگلش میں بھی لکھے ہوتے ہیں اجزا۔۔ دیکھ لے گی گھر جا کر ۔۔ یہاں تو بچے کی وجہ سے شائد گھبرا گئ ہوگی
واعظہ کی بات میں د م تھا ۔
ہمیں بھی ویسے دیکھنا چاہیئے تھا۔۔ اسکی چیزوں میں بھی اور اپنی چیزوں میں بھی کہ حلال اجزا ہیں کہ نہیں۔۔ 
ابیہا نے کہا تو واعظہ چڑی
اب ہم۔لے چکے چیزیں واپس تھوڑی ہوںگی۔۔
پھر بھی ہم استعمال تو نہیں کریں نا ۔۔ 
ابیہا کی بھی بات میں وزن تھا۔۔
ٹھیک ہے یہاں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ایک ایک چیز نکال کر اسکے اجزا پڑھتے ہیں جو جو چیز حرام نکلے گی کسی ہوم لیس کے آگے رکھ کر ہاتھ جھاڑتے گھر چلیں گے ٹھیک۔۔ 
واعظہ نے کہا تو ابیہا ہنس پڑی۔۔ 
اب یہاں سڑ ک پر تھوڑئ بیٹھ سکتے ہم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
گنگنم اسکوائر کو جانے والی بس نمبر پچیس بس اسٹاپ پر آکر رکی تھی۔۔ 
چندی آنکھوں والے بس اسٹاپ پر انتظار کرتے مسافرمرد و عورتیں  بس میں سوار ہوتے ہوئے بھی مڑ مڑ کر بس اسٹاپ پر موجود بنچ پر بیٹھی دو غیر ملکی نقوش کی لڑکیوں دیکھ رہےتھے۔۔ اسلیئے نہیں کہ وہ غیر ملکی تھیں، اسلیئے بھی نہیں کہ وہ لڑکیاں تھیں۔۔ بلکہ اسلیئے کہ دونوں پیروں میں شاپنگ بیگ رکھے اپنی خریدی گئ ایک ایک چیزکو باہر نکال کراس کا ریپر پڑھ رہی تھیں بنچ کے  ایک جانب ڈھیر لگا ہوا تھا مسترد کی گئ اشیا کا جن میں ٹوتھ پیسٹ صابن شیمپو تک شامل تھا غیر مسترد کی گئی اشیا میں بس انڈے اور دودھ سے بنی چیزیں تھیں یا کچھ سبزیاں۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 یہ کوئی وقت ہے گھر آنے کا دس بج رہے ہیں؟۔۔ سات بجے کی گئ ہوئی ہو تم دونوں کہاں رہ گئ تھیں؟ 
دروازہ کھولتے ہی ابیہا کی امی چلائی تھیں۔۔
وہ میں۔۔۔ ابیہا گڑ بڑا اٹھئ۔۔ 
آوارہ گردی کر رہے تھے ہم دیر تو لگنی ہی تھی۔۔ 
واعظہ تھکے تھکے انداز میں فاطمہ کو ایک طرف دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ ابیہا نے دز دیدہ نظروں سے دیکھا تو امی کا ہیولہ فاطمہ کا روپ دھار چکا تھا۔۔
اف ۔ وہ اپنے سر پر ہاتھ مار کر رہ گئ۔۔ 
واعظہ لائونج میں کارپٹ پر سامان ڈھیر کرتی بمشکل د ولوگوں کے بیٹھنے کے قابل چھوٹے سے کائوچ پر جا گری تھی۔۔ آج تو چل چل کر حالت بری ہو گئ تھی۔۔ سر کےنیچے کشن گھساتی وہ کنپٹی مسل رہی تھی۔۔ 
ابیہا کی حالت بھی کم و بیش ایسی ہی تھی مگر ہمت کر کے کچن سے پانی کی بوتل اور گلاس اٹھا لائی بھر کر واعظہ کو تھمایا۔۔ غٹا غٹ چڑھا کر واعظہ کے حواس بحال ہوئے۔۔ فاطمہ وہیں قالین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ کر انکی لائی چیزیں دیکھنے لگی۔۔ 
میرا فیس واش لائی ہو۔۔ وہ شاپر کھول کھول کر دیکھ رہی تھی۔۔ ابیہا اور واعظہ نظر چرا گئیں۔۔ 
سب سو گئیں۔۔ 
واعظہ نے گھر میں پھیلی غیر معمولی خاموشی محسوس کر کے حیرانی سے پوچھا۔۔ 

فاطمہ شاپر خالی کر چکی تھی اب تسلی کیلئے دوبارہ ہر چیز الٹ پلٹ کر رہی تھی۔۔ ساتھ ساتھ جواب بھی دے رہی تھی۔۔ 
ہاں کھانا کھا کر سب لیٹ گئیں عروج تو تھکی ہوئی بہت ہوتی عزہ منہ تک چادر لپیٹے ہے دوپہر سےکھانا کھانے اٹھی تھی بس۔  الف کہہ رہی تھی مجھے کل نہیں جانا کہیں سو مجھے صبح نہ اٹھانا اور نور۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹے سے کمرے میں ایک ڈبل بیڈ ایک سنگل بیڈ بچھنے کے بعد بس چلنے پھرنے کی ہی جگہ بچی تھی۔۔ ڈبل بیڈ پر الف اور عروج بے خبر سو رہی تھیں عزہ کا بیڈ الگ تھا مگر وہ بھی سر تک چادر تانے بے خبر تھی۔۔ انکے پیتھیانے زمین پر فلور کشن پر آلتی پالتی مارے کمبل گرد تانے نور بیٹھی تھی۔۔ سامنے کوریائی طرز کی زمین سے بس تھوڑی سی اونچی پیڑھی نما میز دھری تھی عموما اس میز پر کھانا چن کر کوریائی بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں مگر یہاں یہ لیپ ٹاپ کی آرام گاہ کے طور پر استعمال ہو رہی تھی۔  سو لیپ ٹاپ چین سے اس پر دھرا نور کی جانب ہمہ تن گوش تھا۔۔ اسکرین پر عجیب و غریب لکیریں اور نقطے چل رہے تھے
ملگجے اندھیرے میں لیپ ٹاپ کی اسکرین سے نکلتی نیلگوں روشنی میں نور کا چہرہ دبے دبے جوش کو چھپانے کی کوشش میں سرخ ہوتا صاف دکھائی دے رہا تھا۔۔
جانے کیا کامیابی ملی تھی خوش ہو کر اسے زور سے تالی بجا بیٹھی خاصی اونچی آواز میں 
یس۔۔۔۔۔  بھی کہہ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
یس کی آواز باہر تک آئی تھی۔
پتہ لگ گیا مجھے کوئی نیا پنگا کر رہی ہے بیٹھی ہوئی۔۔ 
واعظہ سر ہلاتی اٹھ بیٹھی۔۔ 
اسکا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔ 
ابیہا متفق تھی۔۔ 
میرے فیس واش کا کیا ہوا تم لوگ نہیں لائیں؟۔۔ 
فاطمہ کو آخر اس تلخ حقیقت کو ماننا ہی پڑا کہ دو بار بھی دونوں شاپر خالی کر کے بھر کے بھی اسکا فیس واش نہیں نکلا ہے تو اسکا مطلب سادہ سا ہے نہیں آیا۔  
نہیں ملا؟۔۔ 
فاطمہ جواب طلب نظروں سے دیکھ رہی تھئ۔۔ 
نہیں ملا تو۔۔ 
ابیہا نے چور نظروں سے واعظہ کو دیکھا۔۔ 
پھر لیا کیوں نہیں پیسے نہیں بچے تھے؟۔۔ 
فاطمہ بےتاب ہوئی
نہیں پیسے تو تھے خریدا بھی۔۔ 
واعظہ نے کہتے ہوئے مدد طلب نظروں سے ابیہا کو دیکھا وہ دانستہ نظر چراتی پانی کی بوتل اٹھاتی کچن کی طرف بڑھ گئ۔۔ 
پھر کہاں گیا؟۔۔ 
فاطمہ زچ ہو گئ۔۔ 
اس نے کہا کسی غریب کو دے دیتے ہیں تو ہم انہیں  پل کے نیچے رہنے والے بے گھر افراد کو دے آئے۔۔ 
واعظہ نے ہاتھ سے ابیہا کی جانب  اشارا کر کے ہمت کرکے کہہ دیا۔۔ 
فریج کھول کر بوتل رکھتئ ابیہا سنٹ ہو کر بند کرنا بھول۔گئ۔۔ کہا تو اسی نے تھا مگر۔۔ 
کیا کیوں؟ اور فیس واش کون دیتا ہے چیریٹی میں؟ وہ بھی میرادے دیا۔۔ اگر دینا تھا تو اپنا دیتیں۔۔ 
فاطمہ ابیہا کی جانب گھوم گئ۔۔ 
وہ اپنا بھی دیا ہے۔۔ ابیہا گڑبڑائی۔۔ 
میرا بھی اور عروج اور نور کی نائیٹ کریم لوشن سب۔۔ ماسک بھی دے آئے ۔۔۔ کتنے یوآن کا بل تھا ۔۔ 
واعظہ نے دماغ پر زور ڈالا 
میں نے بل کی رسید  بھی چیریٹی میں دے دی نہ دیکھوں گی نا ہی پریشانی ہوگی خوامخواہ ۔ 
واعظہ نے ہاتھ جھاڑے۔۔
یہ ہو کیا رہا ہے۔۔چیریٹی کی کیوں سوجھی؟ بےگھر افراد کو کھانے پینے کی چیز دی جاتی فیس واش صابن تھوڑی۔۔  فاطمہ نے کہا تو ابیہا کو غلط موقع پر صحیح بات سوجھی
یار ویسے یہ سب چیزیں بھی دینی چاہیئیں ۔۔ بنیادی ضروریات ہیں یہ انکو بھی منہ ہاتھ دھونا ہوتا ہوگا نہانا وغیرہ کیا کرتے ہونگے؟۔۔ 
ابیہا نے کہا تو واعظہ کو اپنے کریڈٹ کارڈ کا غم زائل ہوتا محسوس ہوا۔۔
یہ تو صحیح کہہ رہی ہو۔۔ کتنا خو ش ہو گئے تھے چیزیں لیکر وہ لوگ۔۔ ۔واعظہ نے کہا تو ابیہا بھی ہاں میں ہاں ملانے لگی۔۔ ان دو بے وقوفوں میں فاطمہ کو اپنا آپ احمق لگنے لگا تھا۔  
اچانک  تم لوگوں میں حاتم طائی کی روح حلول کر گئ یے  کیا؟ 
فاطمہ روہانسی ہو چلی۔ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور فاطمہ ابیہا اور واعظہ  نورکی ہر فن مولا میز پر آلو کی ترکاری کا ڈونگہ رکھے ساتھ روٹیوں کی چنگیر رکھے کارپٹ پر آلتی پالتی مارے  بیٹھی تھیں۔۔ 
جب ہم پاکستان میں ہوتے تھے تو طشتری میں کھانا رکھ کر کھاتے تھے۔۔ 
اتنی گاڑی اردو میں طنز یقینا واعظہ ہی کر سکتی تھی۔۔۔ ابیہا نے جھٹ پاس سے موبائل۔اٹھا کر نوٹس کاآپشن کھول کر ٹائپ کیا۔۔
ت شین۔۔ ت ر ی۔۔ 
وہ حسب عادت بول۔کر ہجے کر رہی تھی۔۔ 
ط سے ہوتا طشتری۔۔ واعظہ نے ہونٹ بھینچ کر تصحیح کی۔۔ 
اوہ اچھا۔۔ شکریہ۔۔ ابیہا شکر گزار تھی جھٹ ت کاٹ ط لکھا۔۔ 
مطلب؟۔ ابیہا نے کہا تو واعظہ والے تاثرات فاطمہ کے چہرے پر بھی آ سجے۔۔ 
بہن کھانے کی میز پر پلیٹیں  ہی نہیں ہیں۔ یقینا پلیٹ کو ہی کہتےہیں طشتری۔۔ ابیہا کی آنکھوں میں جھانک کر وضاحت کی تو ابیہا بھی چونکی۔۔ میز پر ڈونگہ تھا روٹیوں کو کپڑے میں لپیٹ کر بڑے سے چھنے میں رکھا گیا تھا پانی کی بوتل اور ایک۔گلاس بھی قریب ہی کہیں تھا نہیں تھیں تو پلیٹیں نہیں تھیں۔۔ 
۔۔ نور بی بی۔۔ پلیٹیں کہاں ہیں؟۔۔ 
یہ ابیہا نے ہی پوچھا تھا۔۔ 
نور نے اطمینان سے روٹی نکال کر ڈونگے میں ہاتھ ڈال کر نوالہ بنایا 
وہ باقی سب تو کھا چکی ہیں ہم چاروں ہی ہیں ترکاری بھی تھوڑی سی ہی ہے پلیٹ کی کیا ضرورت اسی سے نوالے بنا لو ویسے بھی مل بانٹ کر کھانے سے محبت بڑھتی ہے۔  
پوری تقریر جھاڑ کر اس نے نوالہ منہ میں رکھ لیا۔۔ تینوں اسے ایک ٹک گھور رہی تھیں۔۔ 
یار کھا لو نا ایسے ہی۔۔ 
نور کے چہرے پر مسکینی چھائی۔۔ 
روٹیاں میں نے ڈالی ہیں ترکاری تم نے بنائی ابیہا نے کل برتن دھوئے تھے تو آج ۔۔۔۔ واعظہ پر سوچ انداز میں کہتی باری باری سب کی شکل دیکھ رہی تھی۔۔ سب نے اپنے مقررہ کام کیئے ہوئے تھے تو۔۔ 
برتن دھونے کی باری نور کی ہے جبھی۔۔ 
یہ جملہ تینوں اکٹھے بولی تھیں۔۔ 
نور کھسیا کر ہنسی۔۔ 
کتنی تیز ہے یہ۔۔ ابیہا کو رشک بھی آیا۔۔
کل اتنا ڈھیر برتنوں کا دھویا تھا میں نے مجھے نہ ایسا کوئی خیال آیا۔۔ 
ابیہا کو نیا دکھ لگ گیا۔۔ 
خبر دار جو اس سے کوئی سبق سیکھا۔۔ ایک ہی بہت ہے کافی ہے ہمارے لیئے۔۔
فاطمہ نے حقیقتا ہاتھ جوڑے ۔مجال ہے جو نور نے کوئی اثر لیا ہو مزے سے نوالے بنا رہی تھی۔۔
کھائو تم لوگ بھی ٹھنڈا ہو رہا کھانا۔۔ 
اف فکر بھی تھی نا معصوم بچی ۔۔ 
اپنی بڑی بڑی آنکھیں پٹپٹاتی دنیا جہا ں کی معصومیت ٹپکا رہی تھی۔۔ 
میں پلیٹیں لاتی ہوں۔۔ فاطمہ کہہ کر اٹھنے لگی تو واعظہ نے ہاتھ پکڑ کر روک دیا۔ 
چھوڑو ایسے ہی کھا لو واقعی ٹھنڈا ہو رہا کھانا۔۔ 
 گہری سانس لیتی تینوں بھی خدا کا نام لیکر شروع ہو گئیں۔۔ 
ہاں الف کیوں کہہ رہی تھی میں نہیں جا رہی مجھے مت اٹھانا۔۔ اسے کیا ہوا۔؟ 
واعظہ نے پوچھا تو فاطمہ ہنسی
اسکو قلق ہے کہ نیا اسکے پاس کوئی جوڑا نہیں جو شاپنگ اس نے کی اسے وہ پہن نہیں سکتی سو وہ نہیں جا رہی۔۔ فاطمہ نے کہا تو واعظہ نے لاپروائی سے کہا 
 صبح سب سے پہلے وہی تیار ہوگی دیکھنا۔۔۔
صبح کتنے بجے اٹھنا ہے؟۔ فاطمہ نے پوچھا تھا ۔ 
سات بجے تک نکلنا ہے۔۔ واعظہ نے کہا تو تینوں ہاتھ روک کر اسکے چہرے پر مزاق کی رمق تلاشنے لگیں۔۔ 
سنجیدہ ہوں واقعی صبح جلدی اٹھنا ہے۔۔ 
واعظہ کو سر اٹھائے بغیر بھی انکی نظریں اپنے چہرے پر مرکوز محسوس ہو گئ تھیں۔۔
مگر کیوں۔۔ اتنی صبح کیوں۔۔ 
نور نے احتجاج کیا۔۔ 
اعتراض فاطمہ کو بھی تھا مگر واعظہ نے کہا ہےتو کسی وجہ سے ہی کہا ہوگا سوچ کر چپ رہی
کیونکہ میں کہہ رہی۔۔ واعظہ نے اطمینان سے کہا۔  
نور کو اسکا یہ انداز چڑاتا تھا۔۔ ایکدم سرد میں جو کہہ رہی کرو۔۔ جیسا۔۔
آئی بڑی اماں۔۔ اس نے دل میں ہی سوچا پھر اٹھ کھڑی ہوئی
خیر جب بھی جانا ہو ایک بات بتا دوں عبایا پہن کر جائوں گی میں۔۔ نقاب بھی کروں گی پھر چاہے کسی کی ناک کٹے شان گھٹے۔۔ اور میں عزہ بھی نہیں کہ گھر بیٹھ جائوں میں نہیں جائوں گی تو کسی کو جانے بھی نہیں دوں گی سمجھیں۔۔۔ تو مجھے کوئی رعب نہ دے کہ جو میں کہہ رہی وہی ہوگا۔۔ بلکہ جو میں کہوں گی وہ ہوگا۔  
وہ ہاتھ اٹھا کر کہتی سیدھا سیدھا دھمکا رہی تھی۔۔ 
فاطمہ اور ابیہا حق دق اسکی شکل دیکھ رہی تھیں
اسے کیا ہوا بیٹھے بٹھائے ۔۔ 
واعظہ نے اطمینان سے اپنی روٹی ختم کی ہاتھ بڑھا کر کائوچ کے پاس رکھی تپائیپر رکھے ٹشو پیپر باکس سے ٹشو اٹھائے اور ہاتھ پونچھتی اٹھ کر نور کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔۔ 
ابیہا اور فاطمہ چوتھی جنگ عظیم کی تیاری ہوتے دیکھ کر بھونچکا تھیں گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔ واعظہ سنو۔۔ 
نور اسے جواب طلب نظروں سے دیکھ رہی تھی
کل کون کہاں کیسے کس حلیئے میں جائے گا کل دیکھیں گے۔۔۔۔ 
واعظہ اطمینان سے کہتے مسکرائی۔۔ اسکے کندھے پر بازو دراز کیا اور سیدھا شکنجے مین  گردن میں جکڑ کر جھکا لیا۔۔نور وہیں سارا ڈرامہ بھول گئ۔۔ واعظہ نے بات جاری رکھی 
 ابھی فی الحال کچن میں سنک پر جو برتن پڑے ہوئے انہیں دھو اور کم از کم میرے ساتھ یہ چالاکیاں مت مارا کرو بہت اچھی طرح جانتی ہوں تمہیں۔۔ جتنا مرضی لڑ لو کام کرنا ہی پڑے گا ؟ کام سے بھاگ رہی تھیں نا تم۔۔ 
خود کو چھڑاتی نور اب کھلکھلا رہی تھی۔۔ 
ارے بابا چھوڑو مزاق کر رہی تھی نا ابھی دھوئوں گی میں برتن اور کون دھوئے گا۔۔ 
وہ پھڑ پھڑا رہی تھی مگر واعظہ کا ابھی چھوڑنے کا ارادہ نہیں تھا ابیہا اور فاطمہ انکے جنگ و جدل پر اطمینان کا سانس لیتی برتن سمیٹنے لگیں
چائے بنا رہی ہوں  پیو گی؟۔۔ ابیہا نے پوچھا تو واعظہ نور کر چھوڑتی اثبات میں سر ہلانے لگی۔۔ 
نور گردن سہلاتی بڑبڑا ئی
رہنے دو نا چائے پھر چار کپ جمع ہو جائیں گے۔۔ 
آواز دھیمی تھی مگر اتنی ضرور تھی کہ تینوں سن لیں تینوں نے گھورا تو ڈھٹائی سے ہنس کر بولی
میرا مطلب چار کپ ہونگے نا میں بھی توپیوںگی۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھے بجے کا الارم بجا تو ابیہا کو ایسا لگا جیسے ابھی آنکھ بند ہوئی تھی اور الارم بج اٹھا۔۔ 
کسمسا کر موبائل اٹھا کر بند کیا ۔۔ فاطمہ بے خبر سوئی ہوئی تھئ۔۔ اسکی نیند پر رشک کرتی اٹھ بیٹھی۔۔ وہ اور فاطمہ ڈبل بیڈ پر سوتی تھیں۔ واعظہ کا ایک طرف سنگل بیڈ ڈالا ہوا تھا جس اس وقت خالی تھا۔۔ 
اس نے چونک کر کمرے میں ڈھونڈا کمرے میں بھی نہیں تھی۔۔ 
وہ کمبل ایک۔طرف کرتی اٹھی تو سرد ہوا سے کپکپا سے گئ۔۔ 
یہ مئی چل رہا ہے یہاں۔۔ اس نے بےزاری سے سوچا ۔۔ 
وہ سویٹ پینٹ( پسینہ آور پینٹ) اور اپر میں ملبوس تھی پھر بھی موسم کی خنکئ احوال پوچھ گئ تھئ۔۔فاطمہ کو ہلانے کو ہاتھ بڑھایا مگر پھر رک گئ ابھی اٹھانے کا مطلب بیٹھے بٹھائے باتھ روم کی ایک اور سواری بڑھانا تھا سو دبے پائوں چلتی تیزی سے باتھ روم میں گھس گئ۔۔ پانچ سات منٹ بعد واپسی پر بھی فاطمہ کی قابل رشک نیند ٹوٹی نہ تھی۔۔ 
تولیئے سے چہرہ تھپتھپاتی اسے جھک کر ہلایا۔۔ 
اٹھ جائو چھے بج گئے ہمیں سات تک نکلنا ہے۔۔ 
فاطمہ کے کانوں میں جیسے کسی نے صور ہی تو پھونک دیا۔ 
کیا؟ تو پانچ بجے اٹھانا تھا ایک گھنٹے میں سات لڑکیاں کیسے تیار ہو سکتی ہیں؟۔۔۔ 
اس نے آنکھ کھولتے ہی حیرانی سے چیخ ماری تھی۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈبل روٹی انڈے ملک شیکس لا کر اس نے کچن کائونٹر پر ڈھیر کر دئیے۔۔ سفر کیلئے بھی کچھ چیزیں خرید لی تھیں سو اب تنقیدی نظروں سے دیکھ رہی تھی کچھ رہ تو نہیں گیا۔۔ مطمئن ہو کر دیگچی اٹھا کر چائے کیلئے پانی بھرنے لگی۔۔ چائے کا پانی چڑھا کر فرائینگ پین اٹھا رہی تھی۔۔ جب ابیہا بال سمیٹتی چلی آئی۔۔ 
تم کب اٹھیں واعظہ۔۔ وہ بھونچکا ہی تو رہ گئ سوا چھے بجے باہر کا بھی چکر لگا آئی۔۔ 
میں سوئی ہی نہیں۔۔ 
واعظہ نے مصروف سے انداز میں ہی جواب دیا۔۔ 
کیوں یار ۔۔ تم۔۔ 
ابیہا کو اسکی فکر ہوئی واعظہ نے مڑ کر تادیبی نظر سے دیکھا تو باقی جملہ منہ میں ہی روک کر بات پلٹ گئ۔۔ 
عزہ وغیرہ میں سے کوئی نہیں اٹھا؟ مجھے نہیں لگتا سات بجے تک ہم نکل پائیں گے۔۔ 
ابیہا نے کہا تو واعظہ ہنس دی۔۔ 
انہیں جگا کر باہر گئ تھی تم سمیت سب کے پاس پینتالیس منٹ ہیں اپنا اپنا بیگ تیار کرو کم از کم دو جوڑے رکھو ۔۔ اور پینتالیس منٹ میں ناشتہ بھی کر چکنا ہے یاد رہے۔۔ 
واعظہ نے کہا تو ابیہا پریشان ہو کر گھڑی دیکھنے لگی۔۔ 
واقعی؟۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
واعظہ نے بھی یہاں آکر لازمی ملٹری سروس توو جوائن نہیں کر لی تھی؟ 
برش کرتے ہوئے نور کو خیال آیا۔۔ 
الف جو اسکے ساتھ ہی منہ میں پیسٹ بھرے بیسن پر جھکی تھی چونکی۔۔ 
ایک سال سے یہاں ہیں اگر ملٹری سروس کر رہی ہوتی تو ہمارے ساتھ تھوڑی رہ رہی ہوتی۔۔ 
جھاگ تھوک کر اس نے جواب دینا ضروری سمجھا تھا
طنز کر رہی تھی میں۔۔ نور بھنائی۔۔
تم دونوں جو بھی کر رہی ہو باہر آکر کرو ۔۔ 
عزہ آکر بولی۔۔ 
کیوں۔۔ دونوں کورس میں گھورنے لگیں
کیونکہ تم لوگ باہر جا کر برش کر سکتی ہو مجھے جو کرنا وہ میں یہیں کر سکتی بس۔۔ 
عزہ نے چبا چبا کر بولتے وضاحت کی بلکہ ہاتھ پکڑ کر دونوں کو باہر بھی نکال دیا۔۔ 
یہ غنڈہ گردی ہے عزہ۔۔ نور بھنائی
غنڈی گردی۔۔ ہتھیلی تھوڑی کے نیچے جما کر جھاگ بھرے منہ سے بھی الف نے تصحیح ضروری سمجھی۔۔
دونوں منہ اونچا کر کے جھاگ کو نیچے گرنے سے بچا رہی تھیں 
دوسرا باتھ روم

دونوں کو خیال بھی اکٹھے آیا۔۔ ایک دوسرے سے سبقت کے جانے کے چکر میں اکٹھے بھاگی تھیں۔ دونوں کا رخ ابیہا وغیرہ کے کمرے کا تھا اندھا دھند گرتی پڑتی 
دوسرے کمرے سے نکلتی فاطمہ سے بری طرح ٹکرا بھی گئیں۔
کدھر؟۔۔ 
فاطمہ جو تولیہ سے منہ تھپتھپا رہی تھی اچانک حملے کیلیئے تیار نہ تھی دروازہ تھام کر بمشکل خود کو زمیں بوس ہونے سے بچایا۔  اور گھور کر بولی۔۔ 
عروج ہے اس والے باتھ روم۔میں ۔۔ 
دونوں اسے نظر انداز کرتی سیدھا باتھ روم کے بند دروازے سے جا ٹکرائیں۔۔ 
فاطمہ نے پیچھے سے آواز لگا کر مطلع کیا تھا۔۔ 
دونوں کی تیزیاں غارت ہوئیں مرے مرے قدموں سے واپس آئیں۔۔ 
ابیہا نور کی میز کارپٹ پر رکھے آلتی پالتی مار کر بیٹھی واعظہ کے ساتھ ناشتہ اڑا رہی تھی۔۔ ڈبل روٹی اور ہری مرچوں والا گرما گرم بھاپ اڑاتا آملیٹ۔۔ 
بیس منٹ رہ گئے ہیں بس تم لوگوں کے پاس جلدی کرو۔۔ 
فاطمہ خود تو منہ ہاتھ دھو چکی تھی سو مزے سے لقمہ دیتی انکے پاس ںاشتہ کرنے آبیٹھی۔۔ 
دونوں اسے گھورتی کچن سنک کی طرف بڑھیں
ہم ویسے جا کہاں رہے ہیں واعظہ؟۔۔ سیول میں تو سمندر ہے ہی نہیں۔۔
بریڈ کا نوالہ بناتی ابیہا کو اب خیال آیا تھا۔۔
جیجو آئی لیںڈ۔ ابھی واعظہ نے اتنا کہہ کر ڈرامائی انداز میں وقفہ لیا تھا کہ
الف اور نور حیرت کے جھٹکے سے مڑ کر پورا منہ کھول بیٹھیں۔۔
جھاگ فوارے کی طرح انکے منہ سے نکلا تھا۔۔ 
یہ تینوں ان سے فاصلے پر بیٹھی تھیں سو بس اتنی بچت ہوگئ کہ انکے اوپر انکی حیرانی کا فوارہ نہ آیا ورنہ کثر نہیں چھوڑی تھی انہوں
کیا واقعی۔۔ 
الف پرجوش ہو کر ہتھیلی سے منہ صاف کرتی بولی۔۔
پورا جملہ سن لو۔۔ 
واعظہ نے منہ بنایا۔۔ 
جیجو آئی لینڈ نہیں جا رہے گیونگ پو ہے جا رہے ہیں۔۔ 
 واعظہ کے سوا سب کے ارمانوں پر اوس آگری۔۔ 
وہاں ؟۔۔ بہت رش ہوگا یار۔۔ 
فاطمہ نے کہا تو ابیہا نے بھی تائید کی۔۔ 
ہاں یار جیجو آئی لینڈ ہی چلتے ہیں۔۔ 
جیجو آئی لینڈ جانا کوئی لالا جی کا گھر نہیں ہم سب اپنی ساری بچت بھی لگا دیں تو بھی نہیں جا سکتے 
سو اوقات کے مطابق اپنی لینڈ کروزر میں تم لوگوں کو بس یہیں تک لے جا سکتی۔۔
ہم لینڈ کروزر میں جائیں گے۔۔ 
سب دوبارہ پرجوش ہوئیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔م۔۔۔ممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سات بجنے میں پانچ منٹ پر سب جانے کو تیار کھڑی تھیں۔۔ 
واعظہ نے قطار میں کھڑی لڑکیوں کا جائزہ لیا۔۔
عزہ پورا کالا عبایا اسکارف سے نقاب تک کرکے نک سک سے تیار کھڑی تھئ۔۔ عبایا کے نیچے سے جینز اور جاگرز جھانک رہے تھے۔۔کندھوں پر کالا بیگ جس میں یقینا اسکے کپڑے وغیرہ ہونگے 
عروج ۔۔ پنک کلر کی لانگ فراک اور جینز کے اوپر لمبا سا ڈھیلا ڈھالا شرگ پنک اورسفید پرنٹڈ حجاب چہرے پر ہلکا سبز ماسک۔۔ ایک کندھے پر بیگ ۔۔ 
اسے بچوں کی طرح بیگ لینا پسند نہیں تھا
نور پوری ڈھکی چھپی جینز کا عبایا ۔۔ نقاب گلے میں لٹکا ڈی ایس یل آر جوگرز جینز کی پینٹ۔۔ دونوں کندھو ں پر بیگ کی اسٹریپ بالکل اسکول جانے کو تیار کھڑئ تھئ
واعظہ نے نظر دوڑا کر آگے نگاہ کی پھر چونکی۔۔ 
جینز کا عبایا۔۔ 
حیرت سے بڑ بڑائی تو فاطمہ جو اسکے ساتھ ہی کھڑی تھئ کان میں منمنائی۔۔ 
یار اسکا عبایا کل چھپا تو دیا تھا کم از کم ایک عبایا والی تو کم ہو یہ نجانے کہاں سے جینز کا نکال لائی ہے۔۔ 
چلو۔۔ یہ ایک نیا جھگڑا شروع ہونے والا تھا واعظہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔۔ 
اگلی باری الف کی تھی۔۔ 
فل بلیک عبایا نقاب نہیں تھا بیگ گود میں ایسے پکڑ رکھا تھا جیسے بچہ اٹھایا ہو۔۔ مگر ۔۔ 
ایک منٹ۔۔ واعظہ نے حقیقتا کان سے پکڑا۔۔ 
تم نے کب سے عبایا لینا شروع کر دیا؟۔۔ 
وہ بھی میرا۔  
نور نے بھی اپنا عبایا پہچان کر پنجے تیز کیئے۔۔ 
فاطمہ بے ساختہ دو قدم پیچھے ہوئی۔۔ 
تمہارا نہیں ہے۔فاطمہ کا ہے۔۔ ۔ الف بلبلائئ۔۔ 
نور نے گھور کر فاطمہ کو دیکھا۔۔ 
جو گرے کلر کی جینز ٹاپ میں ملبوس تھی کندھے تک بال کھول رکھے تھے گلے میں گرے ہی پیارا سا اسکارف ڈال رکھا تھا۔۔ فاطمہ کا عبایا؟۔ سوال ہی جواب تھا اس بات کا۔۔
کان تو چھوڑو واعظہ ۔۔ اتنا تو کبھی میری امی نے بھی میرے کان نہیں کھینچے ہونگے جتنا تم کھینچتی ہو۔۔ 
اس نے چھڑانا چاہا مگر واعظہ نے چھوڑا نہیں
تم نے کیوں عبایا چڑھایا ہے؟۔۔ 
یار کپڑے ہی نہیں میرے پاس۔۔ بتایا تو تھا برباد ہوگے سب پیسے آن لائن شاپنگ میں۔۔ فاطمہ کی وارڈروب کھولی تھی کہ کوئی ٹاپ لے لوں تو عبایا نظر آگیا میں نے چڑھا لیادیکھو نقاب تو نہیں کیا میں نے۔۔ 
بمشکل کان چھڑاتے الف نے صفائی پیش کی۔۔
فاطمہ میرا عبایا تمہاری وارڈروب میں کیا کر رہا تھا۔۔ 
نور نے آستین چڑھائی تو فاطمہ نے جان بچا کر بھاگنے میں ہی عافیت جانی ۔۔ بھاگ کر اپارٹمنٹ سے باہر۔ نور اسکے پیچھے دوڑی۔۔ 
چلو تم میرے ساتھ۔۔ 
واعظہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گئ۔۔ 
عزہ بیچ میں کھڑی فیصلہ کرنے لگی اندر جائے یا باہر۔۔ پھر عروج کو کندھے اچکا کر باہر نکلتے دیکھا تو اسی کیساتھ ہولی۔۔ 
ابیہا آرام سے گھڑی دیکھتی موبائل میں گیم لگا کر لاونج میں بچھے کاوچ پر دراز ہو گئ۔۔ 
وقت ہوا تھا سوا سات۔۔ 
یعنی تجربے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سات لڑکیاں ایک گھنٹے کے نوٹس پر تیار نہیں ہو سکتی ہیں۔۔ 
چاہے انہیں میک اپ نہ بھی کرنا ہو۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
پونے آٹھ بجے گنگم اسٹیشن کے باہر کھڑی تھیں۔۔سب۔۔ 
الف کو واعظہ نے اورنج ٹاپ اور جینز پہنوایا تھا بیگ ابھی بھی اسکی گود میں تھا ہلکے سے نارنجی ہی رنگ کا اس نے حجاب لیا ہوا تھا۔۔ اب عبایا والیاں دو ہی رہ گئی تھیں۔۔
انکی لینڈ کروزر آدھے گھنٹے کے وقفے سے آئی تھی۔۔ 
بڑی سی گنگم سے دوسرے شہر جانے والی بس بھری ہی سی آئی تھی۔۔ 
انکو اسی پر گزارا کرنا تھا۔۔ گہری سانس لیکر چڑھنا شروع ہوئیں۔۔ 
واعظہ سب سے آخر میں اطمینان کرکے کہ کوئی رہ تو نہیں گیا چڑھی تھی۔۔ 
اب پاکستان تو تھا نہیں کہ خواتین کی بس میں علیحدہ جگہ ہوتی۔۔ بس میں سات نشستیں خالی بھی نہیں تھیں ایک دو خالی تھیں بھی تو ایک انکل ٹائپ تھے انکے برابر جگہ خالی تھی ایک اسکول کا کوئی لڑکا ہوگا پندرہ سولہ سال کا۔۔ چندی آنکھوں والے ان سب کو اکٹھے دیکھ کر چونک سے گئے تھے۔۔ 
ایک خاتون کے برابر والی نشست خالی تھی۔۔ عزہ موقع دیکھ کر بیٹھ گئ۔۔ 
عروج نے طوہا کرہا انکل کے برابر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ کم از کم بھی تین سے چار گھنٹے کا سفر تھا کھڑے ہو کر نہیں گزر سکتا تھا۔۔ 
ٹکٹ بنواتے ہوئے نشستیں بھی گننی تھیں واعظہ۔۔ الف واعظہ کے کان میں بڑ بڑائی۔۔ 
واعظہ مسکرا کر اس لڑکے کے برابر جا بیٹھی۔۔ 
الف نور فاطمہ ابیہا ہینڈل پکڑے اگلے آدھے گھنٹے تک کھڑی رہیں جب لگا کہ گیونگ پوہے جانے تک بچیں گی نہیں تب اگلے اسٹاپ پرکئی لوگ اتر گئے اوران بے چاریوں کی سزا مکی۔۔ 
ابیہا کھڑکی کے ساتھ والی نشست پر لپکی تھی
واعظہ نے اپنی مصروفیت ڈھونڈ لی تھی۔۔ پٹاخ پٹاخ اس لڑکے سے باتیں کیئے جا رہی تھی۔۔ 
الف نے جگہ ملتے ہی اونگھنا شروع کر دیا تھا۔۔ عروج کو باہر کے نظاروں میں دلچسپی تھی  سیدھی شفاف سڑک کے کنارے اونچے اونچے پہاڑ جو چیری بلاسم سے لدے تھے ۔۔ شکر ہے ٹریفک زیادہ نہیں تھا امید قوی تھئ تین گھنٹوں تک ساحل پر پہنچ ہی جائیں گے۔ نور کھڑکی سے باہر جھانکتی بھاگتی دوڑتی زندگی و نظاروں کی ویڈیو بنا رہی تھی۔۔ 
پانچ چھے منٹ کی بنا کر اس میں اپنی پسند کا گانا ڈال کر دستی اپلوڈ کی تھئ۔۔ 
عزہ اس کے ساتھ ہی بیٹھی بے نیازی سے کوئی کتاب کھولے مگن تھئ۔۔ 
اب کیا کروں۔۔ 
اپنا من پسند مشغلے سے فارغ ہو کر اسے دوبارہ بوریت کا دورہ پڑا تھا۔۔ 
تبھی اس سے اگلی نشست پر ماں کے ساتھ بیٹھے دو تین سال کے بچے نے نشست پر کھڑے ہو کر دونوں نشستوں کے بیچ والی جگہ سے گردن باہر نکالی۔۔ ۔یہ اتنا اچانک تھا اپنی دھن میں بیٹھی نور اچھل ہی گئ۔۔ 
دھڑ دھڑ کرتے دل کے ساتھ گھورا تو بچہ کھلکھلا کر ہنسا۔۔ 
اور اشارے سے پاس بلانے لگا۔۔ 
ساتھ ساتھ کچھ ہنگل میں بول بھی رہا تھا۔۔ 
کیا کہہ رہے ہو؟۔۔ نور نے پوچھا پھر خیال آیا تو انگریزی میں پوچھا۔۔ 
بچہ دونوں زبانوں سے انجان پھر کچھ بولنے لگا۔۔ 
کیا؟۔۔ وہ چہرہ قریب لائی۔۔ تو بچے نے ناک سے اسکا نقاب مٹھی میں جکڑا اور کھینچ لیا۔۔ 
آہ۔۔نور بھونچکا رہ گئ تو عزہ نے ہنستے ہنستے کتاب میں منہ چھپا لیا۔۔ بچہ اپنی حرکت پر کھلکھلا کر ہنسا۔۔ ۔
یہ بڑا ہو کر ٹھرکی ہی نکلے گا۔۔ 
نور اسے گھورتی نقاب درست کرنے لگی۔۔ بچے کی ماں نے اسکی کھلکھلاہٹ پر چونک کر مڑ کر دیکھا ۔نور کا نقاب دیکھ کر ناپسندیدہ نظر ڈال کر بچے کو اپنی جانب متوجہ کرکے واپس بٹھا دیا۔ 
اس ناپسندیدہ نظر پر نور چڑ ہی گئ۔۔ 
منہ بنا کر سیدھی ہو بیٹھئ۔۔ 
آہجومہ۔۔ 
منی سی مٹھئ پھر اسکے سامنے تھی۔  
بچہ دوبارہ نشست کے سرہانے والے جگہ سے گردن باہر نکالے تھا۔۔ 
نور نے گھورا تو معصومیت سے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔۔ 
ادھ کھلے ریپر سے چاکلیٹ اسکی جانب بڑھا رہا تھا۔۔ 
نور نے اسکی ماں کی مصروفیت جاننی چاہی تو وہ بچے کو چاکلیٹ تھما کر فون کانوں سے لگائےکسی سے بات کرنے میں مگن تھئ۔۔ 
یہ میں لے لوں۔۔ اس نے تصدیق چاہی۔۔ اشارے سے لے لوں پوچھا بچے نے اثبات میں سر ہلایا۔ 
معصوم فرشتہ۔۔ 
اسے چاکلیٹ پوچھ رہا تھا۔۔ نور کا دل موم ہوا۔۔ 
بچے واقعی فرشتے جیسے معصوم ہی تو ہوتے۔۔ 
کیا کہتے ہنگل میں شکریہ کو۔۔ نور نے زہن پر زور ڈالا۔۔ 
ہاں گومو وویو۔  
اس نے کوریائی انداز میں جھک کر اس چندی آنکھوں والے بچے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چاکلیٹ تھامنی چاہی بچے نے سرعت سے ہاتھ واپس کھینچ لیا اور کھلکھکلا کر ہنسا۔۔ ۔
نور کا منہ کھلا رہ گیا۔۔ 
شیطان کہیں کا۔۔اسے بے وقوف بنا کر خوش ہو رہا تھا۔۔ 
اس نے دانت پیسے۔۔ بچہ اپنی حرکت سے محظوظ ہو کر ہنسے جا رہا تھا۔۔ 
ایک پل کو نور نے سوچا پھر ہاتھ بڑھا کر چاکلیٹ چھین کر اکٹھے ہی نقاب نیچے کر کے منہ میں رکھ لی۔۔ منہ بھر کر دگنے حجم کا ہوگیا تھا مگر خیر ہے نقاب میں کیا دکھائی دینا تھا۔۔ 
بچہ چند لمحے بھونچکا اسے دیکھتا رہا۔۔ اب جو اس نے تان بلند کی تو پوری بس اسکی چیخ سے ہل کر رہ گئ۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔

دیسی کمچی قسط اول پانچواں حصہ۔۔۔

ساتھ بیٹھے ادھیڑ عمر چندی آنکھوں والے انکل  جانے کس تکلیف میں تھے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہنکارہ بھرتے کبھی کھنچی کھنچی سی سانس لیتے انہوں  نے جب چوتھی بار گہری آہ بھری تو عروج کے اندر کی ڈاکٹرنی انگڑائی لیکر بیدار ہوئی۔۔ 
کین چھا نائیو۔۔ ( آپ ٹھیک ہیں؟)
اس نے ہمدردی سے پوچھا اور انکل بھی جیسے برسوں سے کسی کے دو حرف ہمدردی کے سننے کو منتظر تھے۔۔ آنکھیں بھر آئیں۔۔ 
آہجومہ کیا بتائوں ۔۔کوئی ایک مصیبت جان کو لگی ہو تو۔۔تیرہ سال سے زیابیطس کا مریض ہوں  ۔۔۔کھانا پینا سب چھٹ چکا ہے۔۔ 
انکل نے بے چارگی سے بتانا شروع کیا  تو عروج کی نظر بے ساختہ انکی منی سی توند پر جا ٹکی۔۔ 
انکل اسکی نظروں سے بے نیاز بول رہے تھے۔۔  
صبح صبح میری بیوی نے مجھے کمچی چاول کھلا دئیے حالانکہ ایک عرصہ ہو گزرا ہے میں صبح چاول نہیں کھاتا مگر میری بیوی بھی اب بوڑھی ہو گئ ہے کھانا وانا پکاتے تھک جاتی رات کو جو پکا ہوتا وہی کھلا دیتی صبح بھی اب جب سے چاول کھائے ہیں طبیعت بھاری ہے سینے پر بوجھ ہے تھوڑا خون میں چکنائی( کولیسٹرول ) کا بھی مسلہ رہتا اس وقت تو لگ رہا مجھے دل کا دورہ پڑنے ہی والا ہے۔۔ دیکھو ٹھنڈے پسینے آرہے۔۔ 
انہوں نے پیشانی پر ہاتھ پھیر کر دکھایا بھی ۔۔ 
گو پسینہ تو نہیں آرہا تھا انہیں مگر عروج کو انکی حالت سن کر تشویش ہو گئ۔۔ 
معدے کا بھی مسلہ ہے مجھے۔۔ 
ابھی انکی بیماریاں ختم تھوڑی ہوئی تھیں۔۔ 
جب چاول کھاتا ہوں ڈکاریں۔۔  انہوں نے منہ پھیر کر منہ پر ہاتھ رکھ کر زور سے ڈکار لی۔۔ 
سانس تک رکنے لگتی ہے میری۔۔ دل کی دھڑکن قابو میں نہیں آ رہی میرے ۔۔ وہ بے چین سے ہو رہے تھے
آپکو اتنی خراب حالت میں دوسرے شہر کے سفر پر نہیں نکلنا چاہیئےتھا۔۔ 
عروج نے کہا تو چندی آنکھوں والے انکل مسکرا دئیے۔  
ارے بیٹا۔۔کام دھندہ تو جان نہیں چھوڑتا ۔۔ میرے کچھ واجبات ہیں ایک مہینے سے ٹال رہا ہے کمینہ۔۔ معاف کرنا۔۔ انکل روانی میں گالی دے گئے پھر خیال آیا تو فورا عروج سے معزرت بھئ کی۔ عروج نے سر ہلایا تو سلسلہ کلام دوبارہ جوڑ لیا۔۔
ہاں وہ مینجر پیسے اینٹھ کر بیٹھ گیا تھا پورا مہینہ ٹال کر آج بلایا تھا کہ سب پیسے واپس کرے گا اب میں اسے ٹال دیتا تو جانے کب دوبارہ راضی ہوتا سو اسی لیئے جان پر کھیل رہا ہوں۔۔ لگتا ہے پہنچ نہیں پائوں گا۔۔ انہوں نے جیب سے کانپتے ہاتھوں سے ایک گولی نکال کر زبان کے نیچے رکھی۔۔  
اللہ نہ کرے۔۔ بے ساختہ عروج کے منہ سے نکلا۔۔ اسکے بابا کی ہی عمر کے ہونگے۔ گورے چٹے مگر چندی آنکھوں والے اوپر سے لگاتار بولتے بے حد معصوم سے لگ رہے تھت۔۔
کیا بولیں بیٹا؟۔۔ انہیں سمجھ نہ آیا تو عروج نے فورا ہنگل میں ترجمہ کیا۔۔ 
ہنسس دئیے۔۔ 
 آواز سے چھوٹی سی لگتی ہو  سانس کا تمہیں بھی مسلئہ ہے؟۔۔ وہ اسکے ماسک کا پوچھ رہے تھے ۔۔
عروج نے گردن ہلائی پھر بیگ پین اور پیپر نکال کر کچھ لکھنے لگی۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ لوگ کاسٹیوم پارٹی پر جا رہی ہیں۔۔ 
بڑی دیر سے متجسس ہے جن پوچھ ہی بیٹھا۔۔ 
آنیو۔۔ واعظہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔ 
صبح صبح کونسی کاسٹیوم پارٹی۔۔ 
واعظہ ہنسی۔۔ 
پھر یہ کیا پہنے ہیں۔؟ اس نے اچک کر عزہ اور نور کو دیکھتے ہوئےپوچھا۔۔ 
اچھا یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔ یہ مزہبی لباس ہے انکا۔۔ 
واعظہ کو سوجھا نہیں کہ عبایا کو انگریزی میں کیا کہے۔۔۔۔
ہے جن ہائی اسکول کا طالب علم تھا سیول میں پڑھتا تھا ہفتے کے آخر میں اپنے گائوں جا رہا تھا سیول میں بھی اسکول جانے والے بچے انگریزی پڑھتے اور سیکھتے ہیں اتنی کہ ہماری طرح بات کر ہی سکتے ہیں۔۔ تھوڑا سوچ کر سہی۔  
ہمم۔ تو یہ اسلامی نن ہیں۔  جیسے کرسچنز کی نن ہوتی ہیں ویسی یہ ڈیوٹڈ ہیں اسلام کیلئے۔۔ 
ہے ان نے اندازہ لگایا پھر تصدیق چاہنے والے انداز میں دیکھنے لگا۔۔ 
نہیں ڈیوشن کا کانسیپٹ اسلام میں نہیں ہے۔ بس یوں کہہ لو یہ مزہبئ ہیں مگر اسلام آپکو دین کیلئے دنیا چھوڑ دینے کا درس نہیں دیتا۔۔ ہم عام زندگی گزارتے ہیں مگر اسلامی اصولوں کے ساتھ۔۔ 
واعظہ نے اپنی طرف سے مدلل جواب دیا۔۔ 
خیر ۔۔ ہے جن نے گہری سانس لی۔۔ 
میں بھی ڈیووٹ کردوں گا خود کو اگلے کچھ سالوں میں میں خود کو نارنجی چولے میں مالائیں گلے میں ڈال کر سر منڈوائے کسی ویران پہاڑی پر آسن جمائے بیٹھا دیکھتا ہوں۔۔ 
آنکھیں بند کرتا وہ جیسے سچ مچ خود کو بدھ مت کا راہب بنا تصور کر رہا تھا جیسے۔۔ 
یہ تصور اتنا روشن تھا کہ ایک لمحے کو واعظہ بھی خود کو کسی ویران پہاڑی پر ایک سترہ سالہ گنجے 
نارنجی لبادے میں ملبوس راہب کے سامنے بیٹھا محسوس کرنے لگئ۔۔ 
نہیں۔۔ 
اس نے جھر جھری لی اور چونک کر جے ہن کو دیکھنے لگی۔۔۔۔  آنکھیں بند کیئے جے ہن کیلئے بھی تصور اتنا روشن تھا کہ اسکی چندی آنکھوں کے کنارے بھیگ چلے تھے واعظہ کا دل موم ہوگیا۔۔ 
بمشکل سولہ سترہ سال کا دبلا پتلا سا ہے جن جسکی مسیں بھئ ابھی پوری نہ بھیگی تھیں ہلکا سا ہی رواں تھا ابھی جوانی ڈھنگ سے آئی نہیں تھی اور دنیا تیاگ دینے کو تیار بیٹھا تھا۔۔
نہیں منے میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گی۔۔ 
واعظہ کے اندر کی بڑی بہن جاگ اٹھی تھی۔۔ 
واٹ؟۔ منا آنکھیں کھول کر ان جملوں کو سمجھنے کی ناکام کو شش کرنے لگا تھا۔۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مم۔۔ممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابیہا باہر کے نظاروں میں گم تھی الف اس سے اگلی نشست پر سو رہی تھی واعظہ اسکے بالکل پیچھے بیٹھی اس بچے سے گٹ پٹ انگریزی میں شروع تھی عروج انکل کے ساتھ بیٹھی تھی جانے انکل کونسے قصے کہانیاں لے بیٹھے تھے اور عروج یوں ہمہ تن گوش تھی جیسے داستان امیر حمزہ سن رہی ہو۔۔ 
فاطمہ پر بوریت کا شدید دورہ پڑا تھا۔۔ 
یہ عزہ اور نور کیا کر رہی ہیں۔۔ 
وہ چلتی بس میں کھڑی ہو کر اچک اچک کر اپنے سے دو سیٹیں آگے بیٹھی عزہ اور نور کو دیکھنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔۔ 
یار کیا بکواس ہے اگلے دو گھنٹے بھی اسی طرح بیٹھنا پڑا تو کمر اکڑ جائے گئ اور اگلے دو دن سب کام ہو سکیں گے مگر تشریف نہیں رکھی جا سکے گی۔۔ 
فاطمہ بڑ بڑائی۔۔ اسے شدید قسم کی مہم جوئی آئی ہوئی تھئ۔۔
 اٹھو فاطی کچھ کرو۔۔ تم دنیا کی ناک میں دم کرنے کیلئے ہی تو پیدا ہوئی ہو۔۔ 
وہ جوش سے اٹھ ہی کھڑئ ہوئی۔۔
بس کے کھڑے ہونے والوں کیلئے لٹکتے سہارے تھامتی اس نے آگے کی جانب سفر شروع کیا۔ 
بس میں پندرہ بیس ہی لوگ بچے تھے وہ آرام سے انکا سروے کرسکتی تھی
عزہ کتاب پڑھ رہی تھی نور اپنی اگلی نشست پر بیٹھے بچے سے کھیل رہی تھی۔۔ 
بورنگ۔۔ 
اس نے ناک چڑھائی۔۔ 
آگے ایک کپل بیٹھا تھا انکے پاس چلتے چلتے پہنچی تو دونوں گڑبڑا گئے۔۔ اور ان سے زیادہ فاطمہ خود۔ 
جلدی سے آگے بڑھی۔۔ 
ایک خاتون ٹوکری کو اپنے ساتھ بٹھائے اونگھ رہی تھیں ٹوکری کے اوپر کپڑا ڈال رکھا تھا اسے یونہی تجسس ہوا دھیرے سے کونا اٹھا کر دیکھنا چاہا آہجومہ کرنٹ کھا کر چندی آنکھیں پوری کھول کر گھور نے لگیں۔۔ 
کسی کا سر کاٹ کر لائیں ہیں اس میں کیا۔۔ 
فاطمہ نے چڑ کر پوچھا جوابا وہ اور خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے اسکی انجان زبان سے خوفزدہ ہو کر ٹوکری کو بانہوں میں لے بیٹھیں۔۔
سنبھالیں اپنی سونے کی ٹوکری۔۔ 
وہ منہ بنا کر آگے بڑھی۔۔ اگلی دو نشستیں خالی۔تھیں۔۔ 
یہاں نہ آجائوں ۔۔ اسے خیال آیا پھر سوچا اور آگے بھی دیکھ لے آگے بھی کسی کا سر نشست سے ٹکا دکھائی تو نہیں دے رہا تھا شائد آگے بھی خالی تھیں وہ
 دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی سہارے تھامتی  ڈرائیور کے پیچھے والے بس سے نکلنے والے دروازے کی سیڑھی تک چلتی آئی۔۔ 
سب سے اگلی رو میں بس ایک لڑکی بیٹھی تھی موبائل ہاتھ میں تھامے کسی تصویر پر انگلی پھیرتی 
فاطمہ دیکھ کر پلٹنے لگی پھر چونک کر مڑی۔۔ 
وہ لڑکی ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔ اپنی آواز دباتی پھر بھی ایک آدھ سسکی اسکے منہ سے نکل رہی تھی۔۔ 
کیا کروں ؟۔ پوچھوں پلٹوں۔۔فاطمہ ابھی شش و پنج میں ہی تھی کہ لڑکی کو جیسے اسکی موجود گی کا احساس ہو گیا نظر اٹھا کر دیکھا تو فاطمہ کو چہرے پر ہمدردانہ تاثرات سجائے خود کو تکتے پایا۔۔ 
گھبرا کر آنسو پونچھتی سیدھی ہوئی۔۔ 
گومو ویو۔۔؟ 
 اس نے ہمدردی سے پوچھا۔۔ چندی آنکھوں والی رو رو کے سرخ ہوئی ناک کے ساتھ منہ کھول کر تعجب سے دیکھ رہی تھی۔۔ 
آنیا ۔۔۔ (نہیں)۔۔ اسے احساس ہوا غلط بول گئ۔ گومو وویو تو شکریئے کو کہتے۔۔ 
اس نے اپنے سر پر چپت لگائئ۔۔ 
اتوکے۔۔ ۔۔ اگلا لفظ۔۔ 
وہ بھی غلط۔۔ 
چندی آنکھوں والی کی آنکھیں سجل علی کی آنکھوں جتنئ ہوگئیں۔۔ 
اوفوہ۔۔اس نے جھلا کر وہیں سے زور دار آواز لگائئ۔۔
عزہ آا۔۔۔آ  کیا کہتے ٹھیک ہو کو ہنگل میں۔؟۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل آپ گہری سانس لیں ۔۔۔ 
عروج انکی نشست بٹن دبا کر پیچھے کر رہی تھی۔۔ 
بازو سیدھے کیجئے ۔۔ 
آرام دہ انداز نشست اپنائیے۔۔ 
عروج دھیرے دھیرے کہتی انکے ہاتھ کی انگلیاں سیدھی کر  رہی تھی۔۔ 
انکل کی واقعی حالت خراب ہو رہی تھی انگلیاں سوج رہی تھیں۔۔
اسکی ہیدایت پر من و عن عمل کرتے بھی انکل ہانپ رہے تھے۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نہیں جانتی ہیں زندگی کتنی دشوار ہے میرے لیئے۔۔ 
ہے جن روہانسا ہو چلا تھا۔۔ 
بتائو تو سہی۔۔ 
واعظہ کا دل تڑپ اٹھا۔۔ 
ہائے معصوم۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیچ رنگ والے ٹاپ کے نیچے گہرے نیلے رنگ کی  ٹی شرٹ پہن کر وہ جب اس بڑے سے مال کے ڈریسنگ روم سے باہر آئی اسکی امی جو چندی آنکھوں والی سے پیسے کم کروانے پر بحث کر رہی تھیں اسکو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئیں۔۔ 
گہرے نیلے رنگ کی ٹی شرٹ اور سرخ رنگ کی جینز کے ساتھ فرنٹ لیس بیک لیس والا پیچ ٹاپ ۔۔پیچ رنگ کے نیچے جھانکتی نیلی ٹی شرٹ؟ 
رنگوں کی۔جیسے بہار۔۔ نہیں خزاں آئی تھی۔ پسند کا خاصا فقدان تھا کیونکہ حجاب کا رنگ نارنجی تھا۔
یہ انکی بیٹی تھا یا کوئی جوکر۔۔ 
انکی بیٹی ہی تھی۔۔ ماں کو دیکھ کر اسکا رنگ فق ہو چکا تھا۔۔
امی آپ یہاں۔؟۔۔  
بے آواز اسکے منہ سے نکلا تھا۔۔ 
یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے لڑکی؟۔۔ 
وہ شدید جارحانہ انداز میں اسکی جانب بڑھی تھیں
نہیں۔۔ اس نے دونوں بازو سامنے کر کے انکے وار سے خود کو بچانا چاہا۔۔ 
ایک زور دار چیخ بھی اسکے منہ سے نکلی تھی۔۔ 
نہیں۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انی کیا بتائوں۔۔ 
ہے جن کہہ کر بتانے ہی والا۔تھا۔۔ 
انکل آپ اگلے اسٹاپ پر اتر کر طبی معائنہ کروا ہی لیں۔۔ 
عروج دلگیری سے کہہ رہی تھی۔۔ 
ابیہا کی اب جا کر تھک کر آنکھ لگنے ہی لگی تھی۔۔ 
ایک بچہ حلق پھاڑ کر چیخا 
ایک لڑکی پورے گلے سے چلا کر نہیں کہتی اٹھ بیٹھی
ایک اور لڑکی بس کے ایک کونے پر بس کے اندرونی شور کو دبانے کو اپنی پوری آواز کے ساتھ عزہ کو پکار بیٹھی تھی۔۔ 
تین آوازیں وہ بھی اونچے ترین سر کی بس ڈرائیور اچھلا  تھا بس کا اسٹیرنگ گھوما تھا بس سیدھی جاتے جاتے اچانک دائیں مڑنے لگی تھی۔۔ 
فاطمہ لڑکھڑا کر اسی لڑکی کی گود میں جا گری تھی
بس کے ایکدم مخالف سمت مڑنے پر واعظہ توازن کھو کر گرتے گرتے بچی تو ہے جن بے چارے کا سر کھڑکی میں لگا جا کر
اور انکل اس صور پھونکے جانے سے وہیں نشست سے دھڑام سے زمیں پر آرہے ۔۔ 
انہیں سچ مچ دل کا دورہ پڑ گیا تھا۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔م۔۔۔۔
بس دائیں مڑیں پھر بائیں بمشکل ڈرائیور نے جان کی بازی لگا کر اسے دائیں جانب کچے میں اتار کر روکا۔۔ 
صد شکر ٹریفک زیادہ نہ ہونے کے باعث بس بے قابو تو ہوئی مگر کسی کار وغیرہ سے ٹکرانے سے بچ گئ۔۔ 
دھڑ دھڑ دل کو تھامے ڈرائیور ہانپ رہا تھا۔۔ 
آہجوشی۔۔ 
یہ بس رکنے کے بعد چیخ گونجی تھی۔۔ 
پوری بس میں سناٹا چھایا تھا۔۔ 
انکل زمین پر سیدھے سیدھے پڑے تھے عروج انہیں ابتدائی طبی امداد دینےکی کوشش کرتے ہوئے بولی۔۔ 
طبی ہیلپ لائن کو کال ملائو۔۔ 
اس نے کہا تو ابیہا نے جھٹ 1122 کو کال ملا دی۔۔ 
آپکا ملایا ہوا نمبر موجود نہیں۔۔
واعظہ 1122 تو ملا ہی نہیں رہا۔۔ 
اس نے فورا مڑ کر واعظہ کو بتایا۔
واعظہ بس اسے دیکھ کر رہ گئ۔۔ 
خیر عروج کے کہنے پر زبان نہ سمجھتے ہوئے بھی پیچھے بیٹھے کسی نے عقل استعمال کرتے ہوئے ایمبولینس کو کال ملا دی تھی۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل کی بروقت طبی امداد ملنے سے جان بچ گئ تھی۔۔ 
انکو ایمبولنس میں بھیج کر بس نے دوبارہ سفر کا آغاز کیا تھا۔۔ 
ٹھیک ایک۔گھنٹے بعد وہ لوگ ہیونگ پوہے پہنچی تھیں۔۔ 
دوپہر کے ڈیڑھ ہو رہے تھے دھوپ بھرا دن چھایا ہوا تھا۔۔ 
بس سے اترتے ہی سب نے خدا کا شکر ادا کیا تھا۔۔ 
عروج اترتے اترتے بھی انکل کی حالت کے بارے میں فکر مند ہو رہی تھئ تو فاطمہ کے اس لڑکی کو  خیر سگالی مسکراہٹ دینے پر اس نے برا سا منہ بنا کر ہونہہ کیا تھا۔۔ اور پیر پٹختی آگے چلی گئ تھی۔۔ 
نور کو اس تین سالہ بچے کی ماں اترتے ہوئے جانے کیا کہہ گئ تھی نور کو سمجھ تو خاک پتھر آیا مگر انداز سے لگتا یہی تھا کوئی گالی والی دے کر گئی ہوگی۔عزہ نے بے ساختہ در آنے والی مسکراہٹ منہ پھیر کر نور سے چھپائی تھی۔۔   بچہ بےچارہ اب تھک کر اونگھ چکا تھا ماں کے کندھے پر سر رکھے سو اس نے کوئی ردعمل نہ دیا۔  
اپنا خیال رکھنا سیول آنا تو ملنا مجھ سے سمجھے۔۔ 
بس سے اترتے واعظہ نے اپنے بس شریک بھائی کو بڑی بہنوں کی طرح تاکید کی۔۔ 
ضرور انی۔۔ اس نے بھی مخصوص کوریائی انداز میں جھک کر مان بڑھانے والے انداز میں ہی کہا تھا۔۔ 
یار ہمارا سفر خاصا پھیکا سا نہیں تھا؟۔۔ 
ابیہا کواب احساس ہوا تو الف کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دلگیری سے بولی۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیچ پر ٹھنڈی یخ ہوا چل رہی تھی۔۔۔
ان سب نے اپر وغیرہ ساتھ لیئے ہوئے تھے اب لگ رہا تھا کہ ضرورت پڑ جائے گی۔۔ 
واعظہ بچوں کی طرح انہیں قطار میں کھڑا کر کے گن رہی تھی۔۔ 
ایک دو تین چار پانچ۔۔ 
سات۔۔ اسے دھچکا لگا۔۔ 
کیا ہوا۔۔ اسکے گھبرانے پر سب پریشان ہوئیں
کوئی رہ۔گئ بس میں۔۔ اس نے پریشانی سے کہا اور مڑ کر لمحہ بہ لمحہ نظروں سے دور ہوتی بس کو تشویش سے دیکھنے لگی۔۔ 
کوئی نہیں ہم سب ہیں یہاں۔ 
ابیہا نے فورا گنے۔۔ 
میں نے آٹھ ٹکٹ لیئے تھے۔۔ ہم سات لڑکیاں ہیں۔۔
واعظہ نے کہا تو فاطمہ ہنسی
ہم سات ہی ہیں تم نے ایک اضافی ٹکٹ کیوں لے لیا۔۔؟۔۔
ہم بس سات ہیں؟واعظہ بے یقین تھی۔۔
جی۔۔ سب نے کورس میں جواب دیا۔۔
میرے پیسے ضائع ہو گئے۔۔ 
وہ پیر پٹخنے لگی۔۔ 
تم نہیں بتا سکتی تھیں مجھے ہم سات ہیں آٹھ نہیں۔۔
وہ ابیہا سے کہہ رہی تھی۔۔ 
مگر تمہیں نہیں پتہ کیا ہم سات لڑکیاں ہیں آٹھ نہیں۔۔ 
ابیہا اور وہ بحث میں الجھ گئ تھیں۔۔ ان لوگوں نے گہری سانس بھر کر انہیں دیکھا اور انہیں بحث میں الجھا چھوڑ کر ساحل کی طرف بڑھنے لگیں
ہفتے کا آخر ہونے کی وجہ سے کافی سارے لوگ موجود تھیےغیر ملکیوں کی۔بھی کثیر تعداد موجود تھی۔۔ 
یار ٹیمپریچر دیکھو کتنا ہے اتنی دھوپ میں بھی ٹھنڈ کیوں لگ رہی۔۔ 
عروج نے اپنے شرگ کی جیبوں میں ہاتھ گھسیڑ کر جھرجھری سی لی۔۔ 
فاطمہ نے موسم کی ایپ اپڈیٹ کی تو آنکھیں پھاڑ کر رہ گئ۔ 
چودہ ڈگری۔۔ 
مزاق ہے کیا یہ
۔۔ اسے یقین نہ آیا باقیوں کو بھی نہیں سب اسکے موبائل پر جھک آئیں۔ ۔۔دوبارہ ایپ اپڈیٹ کی۔۔ 
یار اتنے میں تو ہم سوئٹریں نکال لیتے اکتوبر نومبرمیں جاتا اتنا کم ۔۔ اور یہ۔۔
الف روہانسی ہوئی۔  
اور یہ۔۔ 
عزہ نے اشارہ کیا تو سب اسکے اشارے پر گھوم گئیں کئی گوری گوری یورپی لڑکیاں اور لڑکے ساحل کی۔مناسبت سے بکنی اور شارٹس پہنے پھر رہے تھے۔۔دور سمندر کی لہریں ساحل کو چوم چوم کر لوٹ رہی تھیں۔۔ ان لوگوں نے بھی اپنی تین گھنٹے سے بیٹھی اکڑی ٹانگوں کو ہلانا جلانا شروع کیا۔ پانچ لڑکیاں جنہوں نے ساحل کی مناسبت سے تو دور ضرورت سے بھی دگنے کپڑے چڑھا رکھے تھے سب کی سب حجاب والی جوگرز سے ساحل کی ریت کچلتی آگے بڑھ رہی تھیں۔۔ لوگ ٹھٹک ٹھٹک کر پیچھے ہٹ رہے تھے
یار سیلیبریٹی والی فیلنگ آرہی۔۔ 
عزہ نے شان سے گردن اکڑائی۔۔ کیا جون جے ہیون نے مائی لو فرام این ادر اسٹار میں نخرے کیئے ہونگے جتنا سریہ عزہ نے اپنی گردن میں فٹ کیا تھا۔۔ مزاج خود ہی اچھا ہو گیا تھا۔۔ ویسے یہ بھی کتنے مزے کا احساس ہے آپ سب کو دیکھ سکتے کوئی آپکو نہیں۔۔ 
عروج نے ماسک پہنا تھا تو نور اور عزہ فل کالے عبایا اور نقاب میں تینوں پر جو نظر ڈالتا پھر باقیوں کو بھی غور سے دیکھتا بیچ میں دو چہرے نظر آتے تو انکے حصے کا بھی انہیں گھور رہے تھے
فاطمہ جس نے حجاب نہیں کیا تھا اور الف جس نے بس حجاب کیا تھا گڑبڑا کر دونوں ان سے ایک قدم پیچھے ہوگئیں۔ ان تینوں کا آج اعتماد ہی آسمان کو چھو رہا تھا ۔لہک لہک کر آگے بڑھ رہی تھیں۔۔ 
تبھی تین چار چندی آنکھوں والے لڑکے ہاتھ میں بڑے بڑے سرفنگ بورڈ لیئے گزرے ۔۔ چاروں نے باقیوں کی نسبت انہیں آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا آپس میں گپیں مارتے ہنستے جا رہے تھے صرف شارٹس میں ملبوس بالوں پر پانی میں دیکھنے والی عینکیں سجائے انکے آگے سے گزرے توالف کی زبان میں کھجلی ہوئی۔  
یہ لوگ اوپر سے گینڈے کی کھال لگوا کر آئے ہیں کیا
۔۔ٹھنڈ ونڈ نہیں لگ رہی ان ننگے پنگوں کو؟
باقی تینوں تو نہیں چوتھا مڑ کر اسے دیکھنے لگا۔۔ 
الف گڑبڑا سی گئ۔۔ وہ آواز کے منبع کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔
فاطمہ کا بازو دبوچ لیا۔۔ 
یار اسے سمجھ تو نہیں آگیا میں میں نے کیا کہا۔۔ اس نے سرگوشی کی تھی۔
لڑکا منہ کھول کر کچھ کہنے ہی والا تھا فاطمہ نے اپنے ازلی فل والیم میں کہا۔۔
اس چندی آنکھوں والے کی جانے بلا گینڈا کیا ہوتا اور غلط کیا کہا ہم اتنا کچھ پہن کر ٹھنڈ سے مر رہے ہیں اور انکو دیکھو ۔۔ مجھے لگتا یہ جو الم غلم کھاتے رہتے نا اسکی وجہ سے انکا خون ہی گرم ہے ۔۔ 
لڑکا آنکھیں پوری کھولے دیکھ رہا تھا۔۔ عروج عزہ اور نور بھی چلتے چلتے رک کر دیکھنے لگی تھیں۔
یار خون وون گرم کوئی نہیں ہوتا ہاں یہ ہے غذا سے قوت مدافعت اچھی ہو جاتی ہے اگر تم لوگ بھی۔۔ 
عروج سے اتنی غیر سائنسی وجہ ہضم نہ ہو سکی۔۔ 
 پلٹ کر تصحیح کرنے لگی۔  
بس میڈیکل میں اتنی دلچسپی ہوتی تو ایم اے انگلش نہ کرتی تمہاری طرح ڈاکٹر بن رہی ہوتی۔۔ فاطمہ نے ہنستے ہوئے ہاتھ جوڑے تھے۔۔
بس کوئی کام کی بات نہ سیکھنا نا جاننا ۔ عروج خفا ہو چلی تھی۔۔ 
ارے ناراض نہ ہو مجھے بتائو۔۔ 
عزہ لاڈ سے اسکے کندھے پر جھول گئ۔۔ چاروں اکٹھے بول رہی تھیں اکٹھے ہی ہنس رہی تھیں۔۔ 
الف نے پلٹ کر دیکھا تو چندی آنکھوں والا تھوڑے فاصلے پر کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ اسکے دوست چلتے ہویے کافی آگے چلے گئے تھے یہ کیوں کھڑا رہ گیا۔۔ 
الف کی پیشانی پر بل پڑے ۔۔ چندی آنکھوں والا جیسے اسکے متوجہ ہونے کا ہی منتظر تھا مسکرا کر اسے دیکھا۔۔ اور ہلکا سا سر جھکا کر جیسے خیر مقدمی انداز سے ہم سر کے اشارے سے سلام۔کر دیتے اسی طرح سر کو خم دے کر پلٹ گیا۔۔ 
آلف منہ بنا کر رہ گئ۔۔ 
انکے حلیئے کا رعب تھا کہ سب انکو خود کش حملہ آور میں سے ہی سمجھ رہے تھے وہ لوگ پانی کے پاس آئیں تو جھٹ پٹ لوگ تتر بتر ہو گئے۔۔ کئی کوس تک جگہ خالی ہی ہوگئ۔ وہ ایک جانب سب بیگ وغیرہ رکھ کرجوتے اتارتی تیزی سے ساحل کی طرف دوڑ پڑیں۔۔  
اسلیئے واعظہ کہہ رہی تھی۔۔ ایویں آئوٹ اینڈ آڈ کا سین بنا دیا تم لوگوں نے۔۔ 
فاطمہ جینز کے پائنچے موڑتی جتا کر کر بولی۔۔
پانی کی برفیلی لہر انکے پیروں سے ٹکرا کر لوٹی تھی۔۔ 
اچھی بات ہے نا سب چلے گئے ہم آرام سے مزے کریں گے یہ ساحل عبایا والیوں کا ہوا۔۔ 
نور پر کوئی اثر نہ تھا دونوں بازو پھیلا کر مزے سے جھوم گئ۔۔ گول چکر کھا کر جیسے ہی سیدھی ہوئی فاطمہ نے دونوں ہاتھوں میں پانی بھر کر اچھالا۔۔ عزہ اور عروج بروقت پیچھے ہٹیں۔۔ پوری دھار بنی نور کے چہرے تک کو بھگو  گیا تھا پانی۔۔ 
تمہارئ تو۔  
نور کہاں چھوڑنے والی تھی جھٹ پانی کی طرف بڑھی فاطمہ کھلکھلا کر واپس بھاگی۔۔ 
نور نے جھک کر پانی مٹھیوں میں بھرنا چاہا تب تک عزہ اور عروج لہروں سے پانی اکٹھا کرتی اکٹھے اس پر وار کرکے بھگو چکی تھیں
ساحل پر نامانوس لبادوں میں ملبوس لڑکیاں دنیا سے بے نیاز شغل لگا رہی تھیں۔۔ 
 فاطمہ کی رگ شرارت دوبارہ پھڑکی تھی۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پندرہ ہزار وون کی ایک چھتری؟۔۔ 
دونوں کے منہ کھلے رہ۔گئے تھے۔۔ 
چندی آنکھوں والی لڑکی پیشہ ورانہ مسکراہٹ سے انہیں دیکھتی رہی۔۔ 
دے۔۔ آہجومہ۔۔ 
لے لیتے ہیں ہمارے چاند سے روشن چمکتے چہرے دھوپ میں کملا جائیں گے۔۔ 
واعظہ گہری سانس لیکر اپنا پرس کھولنے لگی۔۔
تین ؟۔۔ واعظہ نے سوالیہ نظروں سے ابیہا کو دیکھا۔۔  تین کیا کرنی ہیں۔۔ ابیہا نے فورا ٹوکا
یار ہم آٹھ لڑکیاں ہیں دو دو بھی ایک چھتری لیں تو۔۔۔
بولتے بولتے واعظہ ٹھٹکی
۔  چار چاہیئے ہوںگی ۔۔اس نے سر کھجایا۔۔ 
ایسے ہی تو نہیں میٹرک میں فیل ہوئی تھی میں۔ حساب  خاصا خراب ہے میرا۔۔
اسکو کبھی اپنی ناکامیاں جتانے پر شرمندگی نہ ہوئی تھی۔۔ جو اس سے پانچ سات منٹ سے زیادہ بات کرنے کا شرف حاصل کر لیتا تھا اسے اسکی کوئی نہ کوئی تازہ جھیلی گئ ناکامی ضرور گوش گزار کرتی تھی۔۔ میٹرک میں فیل ہونے والی تو باتوں باتوں میں بڑے شوق سے بتا دیتی تھی۔۔
ہم سات ہیں۔۔ ابیہا نے گھورا۔۔ 
اور اتنی تو ٹھنڈ ہو رہی دھوپ سینکتے ہیں ۔ اتنے پیسے یہاں جھونک دوگی تو ہم کھائیں گے کیا۔۔ 
ابیہا نے مت دی تو اس نے قائل ہوجانے والے انداز میں اپنا کدو جیسا سر ہلایا۔۔ 
پھر بھی دو تو لیں نا۔۔ 
دونوں کا فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا چندی آنکھوں والی بیزار سی ہوئی۔۔ 
ہمارے پاس بس دو بچی ہیں۔۔ 
غیر ملکی شکل دیکھ کر وہ ہاتھ کے اشارے سے بتا رہی تھی ساتھ ساتھ۔۔ 
ہنا ۔ابیہا نے انگشت شہادت سے اشارہ کیا
دو۔۔ واعظہ نے شہادت کی انگلی اور ساتھ والی انگلی سے دو کا اشارہ کیا۔۔ 
ہنا ؟۔۔ چندی آنکھوں والی نے تصدیق چاہی۔۔ 
ہنا۔۔ 
واعظہ نے اپنا ہاتھ نیچے کر لیا۔۔ 
پشت سے بیگ پیک اتار کر زمین پر رکھا اور شولڈر بیگ نکال کر اس میں سے بٹوہ ڈھونڈنے لگی۔۔ 
دو تین ہاتھ مار کر پھر تھک کر چیزیں نکال کر ابیہا کو تھمانا شروع کر دیا۔۔ 
چپس کے پیکٹ ببلیں چھوٹے سے کوریائی طرز کے چاولوں کے لڈو۔۔ کے ننھے ننھے پیک۔۔ 
ابیہا نے شکائیتئ نظروں سے گھورا۔۔
یار کھانے کیلئے ہی لیئے تھے سفر میں بھول ہی گئ نکالنا۔۔واعظہ کھسیائی۔
برش کیچر مچھر بھگایو اسپرے ہینڈ سینیٹائزر لوشن میک اپ پائوچ۔۔ جیولری سب نکلا نہیں نکلا تو بٹوہ نہیں۔۔ 
واعظہ نے سر اٹھا کر خوف بھری نگاہ سے ابیہا کو دیکھا۔ 
دوسرا بیگ دیکھو۔۔ 
ابیہا کے بھی ہاتھوں کے طوطے اڑے تھے۔
دونوں ہاتھوں کو بھرے وہ صرف مشورہ ہی دے سکتی تھی۔۔ 
واعظہ نے بیگ پیک کھول کر الٹ پلٹ کیا تو پائوچ نظر آہی گیا۔۔ 
اتنی دیر میں چندی آنکھوں والی ایک اور صارف بھگتا چکی تھئ۔۔ 
یہ لیں دو۔۔ واعظہ نے پیسے دئیے تو اس نے خندہ پیشانی سے مسکرا کرآدھے پیسے واپس تھما دئیے۔۔ 
اب ایک ہی چھتری بچی ہے آہجومہ۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکھی سہیلیاں دور سے ہی نمایاں تھیں۔۔ پانی اچھالتی ہنستی مسکراتی پانچوں خوب مزے اڑا رہی تھیں۔۔ نور کا کیمرہ حرکت میں تھا۔۔ جب عروج فاطمہ عزہ اور الف نے مل کر پوز مار کر تصویر بنوائی تو ان سے کچھ فاصلے پر کھڑا چندی آنکھوں والاجوڑا باقائدہ منہ کھول کر انہیں دیکھتا پایا گیا۔۔چہرے نقاب میں اور تصویر؟؟؟
یہ لوگ چھتری لگا کر سامان رکھ کر وہیں بیٹھ گئیں۔۔ 
تمہارا ارادہ نہیں ہے پانی میں جانے کا۔۔
ابیہا نے اسے بیگ کا تکیہ بنا کر لیٹتے دیکھا تو پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔ 
واعظہ نے دور کھڑی زندگی سے بھرپور لڑکیوں کو ایک۔نظر دیکھا پھر آنکھیں موند لیں۔۔ 
مجھے بیچ پر بڑے مزے کی نیند آتی ہے میں تھوڑا سا آرام کر لوں۔۔۔ وہ بالکل سیدھی لیٹی تھی۔
ان لوگوں کو بھوک ووک نہیں لگ رہی ؟۔۔ ابیہا بھی اسکے ساتھ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئ۔۔ 
یار افسوس ہو رہا مجھے۔ واعظہ اٹھ بیٹھی۔۔
اتنا کچھ لیا میں نے سفر میں کھانے کیلیئے اور نکالنا بھول گئ۔۔ سب نے صبح سات بجے کا ناشتہ کیا ہوا ہے بھوک لگ گئی ہوگی۔۔ 
اسے شرمندہ ہوتے دیکھ کر ابیہا نے اسکا کندھا تھپتھپادیا۔۔
یار بچیاں تھوڑی ہیں کچھ کھانے پینے کا دل کرتا تو کھا چکی ہوتیں۔۔ 
واعظہ ہنکارا بھر کر موبائل اٹھا کر کوئی نمبرملانے لگی۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
جب ساحل کی سرد ہوا نے انکو ٹھٹھرانا شروع کر دیا تب پانئ سے ہٹیں۔۔۔ سچ مچ گگھی بندھ رہی تھی۔۔لوگوں کو پانی میں مستیاں کرتے رشک اور حیرانی سے دیکھتی وہ لوگ بھی ابیہا اور واعظہ کے پاس چلی آئیں۔۔ 
واعظہ نے کچھ کھانے پینے کو منگوایا تھا ڈیلیوری بوائے اسکے پاس ہی کھڑا تھا زمین پر چادر بچھا کر انہوں نے کھانے پینے کی چیزیں ترتیب سے رکھی تھیں۔۔
آگئیں تم لوگ ہم بلانے ہی والے تھے تم لوگوں کو۔۔ 
ابیہا چیزیں سجاتی خوشدلی سے انہیں دیکھ کر بولی۔۔ 
ہم تو سب بھیگے ہیں وہ جھجک کر باہر ہی رک گئیں۔۔ 
ریت پر ٹپ ٹپ گرتے پانی نے دستی کیچڑ کرنی شروع کردی تھی۔۔ 
ڈیلوری بوائے کوریائی انداز میں جھک کر سلام کرتا مڑا تو واعظہ انکی جانب متوجہ ہوئی۔۔ 
کافی منگوائی ہے کچھ رائس ڈمپلنگ ہیں۔۔ ایک فش ریسٹورنٹ ہے یہاں قریب اور ایک ویجی کیا کھانا طے کر لو پھر کھانے چلتے ہیں۔۔ 
پانچوں نے آنکھیں پھیلا کر چادر پر سجی چیزوں کو دیکھا۔۔ 
کیک پیسٹری سینڈوچز تھے فرائز اور کوریائی جھٹ پٹ کھانے سوکھے ہوئے نمکین چاولوں کے کیک جو پاپڑ کی طرح کے تھے۔۔ 
ہمیں ہتھنیاں سمجھ رکھا کیا اس سب کے بعد کھانا بھی؟۔۔ 
الف نے آنکھیں پھاڑیں۔ 
مجھے رائس کیک پکڑا دو۔۔ 
عروج نے کھڑے کھڑے ہی ابیہا کو کہا۔۔  
واعظہ نے ایک نظر انکے ٹپ ٹپ پانی ٹپکاتے کپڑوں کو دیکھا پھر ڈپٹ کر بولی۔۔ 
اتارو اپنے عبایا ساری۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاس سے گروپ اٹھ کر گیا تو واعظہ انکی چھتری اکھاڑ لائی اسے تھوڑا سا ریت پرکھود کر آدھا اندر دبا دیا۔۔ دونوں چھتریوں کے سر پر چادر باندھ کر آڑ کی۔۔ فاطمہ اسکی برابر مدد کروا رہی تھی۔۔ 
یہ پانچوں بھیگی بلیاں بنی کھڑی تھیں۔۔ 
خیمہ سا بنوا کر سب کے عبایا اتروائے  ۔ انکو کافی اور کھانے پینے کی چیزیں تھما کر واعظہ اور فاطمہ نے سب کے عبایا اٹھالیئے۔۔ 
ان سے کچھ فاصلے پر ایک یورپی لڑکے لڑکیوں کا گروپ انہیں حیرت سے کھڑا دیکھ رہا تھا۔۔ 
مجھے پتہ ہوتا انکے عبایا سکھانے مجھے ہی پڑیں گے تو ہرگز انہیں نہ بھگوتی۔۔ 
فاطمہ نے کہا تو واعظہ ٹھنڈی سانس بھر کر بولی۔۔ 
مجھے پتہ تھا یہاں آکر بھی تم لوگوں نے کوئی چاند چڑھانا ہی ہے سو زہنی طور پر تیار تھی۔۔ 
مجھے شدید حیرت ہو رہی یہاں کے لوگوں کو دیکھ کر ؟۔ بیچ پر فل کافتان شارٹس ٹی شرٹس پہن کر گھوم رہے ہیں یہ کوریائی۔۔ 
بکنی میں ملبوس اس یورپی نقوش والی لڑکی نے ناک چڑھا کر شستہ انگریزی میں کہا تھا۔۔ 
فاطمہ اور واعظہ کے قدم انکے پاس سے گزرتے سست پڑے۔۔ 
اوپر سے دھوپ سے بچنے کو چھتریاں بھی کرائے پر لے رہے۔۔ ہم تو ساحل پر جاتے ہی رنگ جھلسانے ہیں۔۔ عجیب لوگ ہیں۔۔ تانبے جیسا رنگ کروانے سے ڈرتے ہیں۔۔ 
اسکی سہیلی بھی ہمنوا تھی۔۔ 
اور ان عربیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جو وہاں خیمہ تان کر بیٹھی ہیں۔۔ 
ایک لڑکا انکے ہی خیمے پر اشارہ کرکے ہنسا۔۔
بے چاریاں انکی تہزیب ہی یہی ہے۔۔ یہ سب کسی ایک ہی چوغے والی کی بیویاں ہونگی ۔۔ 
ایک تو منہ پرکالا نقاب بھی چڑھائے تھی۔۔ 
دوسرے لڑکے نے انکی معلومات میں اضافہ کیا۔۔ 
واعظہ اور فاطمہ ایک دوسرے کر رک کر دیکھنے لگیں۔۔
بے چاریاں انہیں پتہ ہی نہیں ہے اپنے بنیادی حقوق کا۔۔ 
وہ سب ترس کم کھا رہے تھے مزاق زیادہ اڑا رہے تھے۔۔دونوں سر جھٹکتی آگے بڑھنے کو ہی تھیں کہ
ہے گرلز وانٹ سم مور کلوتھز؟۔۔ 
انہیں دیکھ کر اس لڑکی کو شرارت سوجھی بیچ پر بچھائی چادر انکی جانب اچھال کر زور سے ہنسی۔۔
واعظہ کے اوپر گولے کی طرح آکر لگی۔۔ فاطمہ کا میٹر گھوم گیا عبایا واعظہ کو تھماتی جارحانہ انداز میں انکی جانب بڑھی۔۔
رکو فاطمہ۔۔ 
واعظہ بوکھلا کر اسے روکنے لگی۔ 
بازو پکڑ لیا
ٹھہرو مزا چکھاتی ہوں انہیں بد تمیزی کی کوئی حد ہوتی ہے۔۔ 
واعظہ سے ہاتھ چھڑاتی وہ بالکل بے قابو ہو رہی تھی۔۔ 
رک جا بہن احسان ہوگا۔۔ 
واعظہ کو عبایا گرا کر اسے دبوچ کر روکنا پڑا۔۔ 
نینسی باٹ
 دس از ٹو مچ۔۔ 
انکا ردعمل دیکھ کر نینسی کی دوست نے بھی اسےٹوکا۔۔ 
میں نے تو انکو بس چادر دی ہے ۔۔ وہ ڈھیٹ پنے سے بولی۔۔ 
اے بھوری بندریا اپنی حد میں رہو ۔ اور یہ چادر کی ہمیں نہیں تمہیں ضرورت ہے گھر سے نکلتے کپڑے پہننا بھول گئیں تم پاگل عورت۔۔ 
آگے بڑھنے سے تو واعظہ نے کسی طرح روک دیا تھا مگر زبان کا کیا کرتی۔۔ فاطمہ غصے میں انگریزی بھول چکی تھی دو چار پنجابی کی موٹی موٹی گالیاں بمشکل روکی تھیں۔۔ مگر بھوری بندریا اور پاگل عورت جس طرح کہا تھا انہیں اندازہ ہو ہی گیا تھا کہ عزت ہی کی گئی ہے انکی سو مشہور زمانہ انگریزی گالیاں اس لڑکی نے بے دریغ منہ سے نکالی تھیں۔۔ پھر فاطمہ واعظہ کے بس سے باہر ہو چکی تھی۔۔ 
واعظہ کو دھکا دے کر گراتی وہ اسکے خشخشی بھورے روکھے بالوں پر لپکی تھی۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ساحل پر دو لڑکیوں کو گتھم گتھا ہوتے دیکھ کر انتظامیہ کےچندی آنکھوں والے حفاظتی اہلکار فورا پہنچے تھے۔۔ مگر تب تک 
فاطمہ نے اسکے بال جکڑ کر اسے گول گھمایا تھا ایک طمانچہ جڑا ۔۔  پھر کندھے سے پکڑ کر الٹا گھما کر زمین پر پٹخ دیا تھا۔۔
لڑکی کیلئے اس طرح تائکوانڈو کا دائو سہنا غیر متوقع تھا سیدھی ڈھیر ہوئی تھی زمین پر۔۔ اسکے دائو دیکھ کر  بھوری بندریا کی سہیلی بجائے  بچانے کو ڈر کر پیچھے ہٹ گئ۔۔ اسکے بوائے فرینڈ کے سر پر لگی تلوے پر بجھی ۔ 
سیدھا فاطمہ پر غصے سے بلبلاتا جھپٹا تھا۔۔ 
واعظہ جو فاطمہ کو روک ہی رہی تھی اسے فاطمہ کی جانب بڑھتے دیکھ کر  اسکے اور فاطمہ کے بیچ میں آگئ۔۔ 
اسکا بھرپور مکا واعظہ نے بازو پر روک لیا تھا۔۔یہ بنیادی خود کو بچائو کا دائو تھا۔۔ 
بھرپور قوت کا یہ مکا پڑا تو نہیں تھا اسے مگر بازو رہ گیا تھا اسکا۔۔ 
فاطمہ نے پلٹ کر دیکھا تو غصے سے آگ بگولا ہو کر اس لڑکے پر جھپٹنا چاہا مگر تب تک انتظامیہ کے اہلکاروں نے فوری مداخلت کی تھی۔۔ ایک لڑکے نے اس لڑکے کو قابو کیا تھا دوسرے نے فاطمہ کو۔۔ 
فاطمہ نے فورا خود کو چھڑایا اور دانت پیستی انہیں گھورنے لگی۔۔
ان سب کو وہ انتظامیہ کے دفتر میں لے گئے تھے۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریری معافی نامہ لکھوا کر ان سب سے دستخط کروائے تھے پولیس نہ بلوانے کی شرط پر۔۔ 

پاکستانی جہاں جاتے ایسے ہی طوفان بدتمیزی مچاتے ہیں۔ ٹرمپ صحیح کر رہا ان لوگوں کی۔۔ 
بھوری بندریا آنسوئوں سے روتی چلائی۔۔ 
اسکا بوائے فرینڈ اسے کندھے سے لگائے تھپک رہا تھا اور ان کو گھور رہا تھا بس چلتا تو فاطمہ کو کچا چبا جاتے دونوں۔۔ 
ہے مائینڈ یور لینگوئیج ۔۔۔ 
فاطمہ بھڑکی۔۔ واعظہ اور انکے گروہ کا ایک لڑکا ثالثی بنے ہوئے تھےمعزرت نامہ لکھتے دونوں کا بس نہیں تھا باقیوں کے منہ پر ٹیپ چپکا دیں۔۔۔ دونوں کے تاثرات بس یہی تھے کہ خدایا چپ ہو جائو تھانے ضرور جانا ہے تم لوگوں نے؟۔۔ 
چندی آنکھوں والے اس تیس بتیس سال کے افسر نے خشک اور پیشہ ورانہ انداز میں نشست سے اٹھتے ہویے ٹوکا۔
ویسے آپ امریکی بھی کم نہیں ہیں۔ پاکستانی سیاحوں کا معاملہ ہم تک پہلی بار پہنچا ہے مگر امریکی سیاح جب جب یہاں آتے ہیں کسی نہ کسی جھگڑے میں ضرور الجھتے ہیں۔۔۔ ابھی بھی آپ لوگوں کی جانب سے پہل ہوئی ہے۔ ہمارے پاس عربی سیاح ضرور شکایت کرتے ہیں کہ انکے لباس پر ہوٹنگ کی گئ ہے اور وہ کبھی مقامی باشندوں کی جانب سے نہیں کی جاتی۔۔ 
اوپر سے لڑکیوں کی لڑائی میں آپ ہاتھ اٹھا رہے ہیں۔۔ اگر یہ معاملہ یہاں ختم نہ کریں تو بلنگ اور ہیرسنگ کے چارجز پرآپ کو جیل جانا پڑ سکتا ہے۔۔ 
بولتا ہوا وہ انکے سامنے آکھڑا ہوا تو اس امریکی نے سر جھکا لیا۔۔ 
اور آپ۔۔ تائیکوانڈو کے دائو آزما رہی ہیں ایک۔کمزور سی لڑکی پر جو آپکا مقابلہ نہیں کر سکتی۔۔ تائیکوانڈ و کے بنیادی ادب آداب میں سب سے پہلے یہی چیز سکھائی جاتی ہے غالبا کہ اپنے غصے اور جارحانہ عزائم پر قابو کیسے کرنا ہے؟ 
افسر اب فاطمہ کی جانب مڑا تھا۔۔ 
فاطمہ کو بھی احساس ہوا اپنی غلطی کا۔۔ وہ امریکی لڑکی اس سے ٹھیک ٹھاک پٹ گئ تھی۔۔ 
مگر غصہ ہی اسے اتنا آیا تھا۔۔ ف والی گالی تو ان امریکیوں کی زبان پر ایسے چڑھی تھی جیسے بڑی کوئی اعزاز کی بات ہو۔۔ 
صلح صفائی کروا کر انہیں جانے کی اجازت ملی تھی۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہاں رہ گئیں؟۔ عزہ کو بے چینی ہوئی۔۔ 
دو تین گھنٹے ہو رہے تھے شام کا وقت ہو چلا تھا انکی کافی وغیرہ یخ ہو گئی تھئ۔۔ 
عبایا نہ ہونے کی وجہ سے وہ تو وہیں رہی الف اور ابیہا ساحل کنارے ٹہل رہی تھیں۔۔ 
پیٹ پوجا کرکےعروج وہیں اونگھ گئ تھی تو نور اپنے ساتھ لائی چادر نکال کر نقاب بناتی کیمرہ اٹھائے نکل گئ تھی۔۔ 
تب دور سے فاطمہ اور واعظہ تھکے تھکے قدم اٹھاتی چلی آئیں۔۔ قریب ہی کوریائی طرز کا گیسٹ ہائوس تھا سو وہاں کے لانڈری روم میں جا کر مشین میں سب عبایا دھو کر سکھا کر فاطمہ اور واعظہ لیکر آئی تھیں۔۔ 
یہ لو۔۔ فاطمہ نے اسے عبایا تھمائے۔۔ دونوں کے چہرے اترے ہوئے تھے۔۔
کیا ہوا تم لوگوں کو؟۔ 
عزہ کو پریشانی ہونے لگی۔۔ 
وہ۔۔ فاطمہ۔۔ نے ایک۔نظر واعظہ کو دیکھاپھر بتانے ہی لگی تھی کہ۔۔ 

واعظہ یکسر بدلے ہوئے انداز میں خوشگوار انداز میں بولی۔۔ 
کچھ نہیں مٹی لگ گئی تھی عبایا پر اور سمندر کے پانی سے بو بھی اٹھ رہی تھی وہی دھونے میں سکھانے میں وقت لگ گیا۔۔ 
واعظہ کو بھوک لگ رہی تھی بے تابی سے چیزیں الٹ پلٹ کر رہی تھی۔۔ فاطمہ بھی چپ کر گئ۔۔ 
کافی تو دونوں کی ٹھنڈی پالا ہو گئ تھی سو صبر شکر کرکے کیک وغیرہ ہی کھانے لگیں۔۔ 
چاکلیٹ فلیور ہی کوریائی طرز کے چاولوں کے لجلجے سے حلوے کی۔طرز کے کیک تھے واعظہ نے ہاتھ بڑھایا پھر چاکلیٹ دیکھ کر چھوڑ دیا۔
عزہ کو پتہ تھا اسے چاکلیٹ پسند نہیں اس ایک اس نے علیحدہ کر کے اپنے بیگ میں ڈال لیا تھا۔۔ 
ابھی وہی نکال کر سامنے رکھا اور خود عبایا پہننے لگی۔۔ 
واعظہ نے ایک۔نظر اسے دیکھا۔۔ پھر مسکراہٹ دبا کر کھانے لگی۔۔ 
معزرت کا لفظ منہ سے نہیں نکلنا تھا مگر اسے فکر بھی تھئ اسکی۔۔ سو ایسے ہی منا لیا تھا اسے اور واعظہ مان بھی گئ۔۔ 
باقی سب کہاں ہیں۔۔ 
عروج انکی باتوں سے اٹھ گئ تھی۔ سو آنکھیں مسلتی پوچھنے لگی۔۔
ساحل کنارے پر ہیں۔۔ عزہ نے کہا تو فاطمہ حیرت سے بولی
ساحل پر تم نہیں گئیں؟ اتنی دیر سے یہیں بیٹھی تھیں؟۔  فاطمہ کی حیرت پر وہ مسکرا کر نقاب بنانے لگی۔۔ 
چلو پھر اب چلتے ہیں۔۔ سورج ڈوبنے کا منظر بہت خوبصورت ہوگا ساحل پر۔۔ 
واعظہ کھا پی کر ہاتھ جھاڑتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ ان تینوں نے بھی کپڑے جھاڑ کر اٹھتے اسکی تقلید کی۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔   

گیونگ پو ہے پر شام اتر رہی تھی۔۔ سارا دن کا تھکا ہارا سورج اب پانیوں میں ڈوبنے کی تیاری میں تھا۔آسمان پر نارنجی رنگ پھیلتا جا رہا تھا ۔ ابیہا فاطمہ اور واعظہ دور لہروں کے قریب ٹہل رہی تھیں۔۔ کوئی زور کی لہر آتی تو ابیہا پیچھے ہٹتی اور واعظہ اسے واپس ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیتی۔۔ انکی کھلکھکلاہٹوں کی دھیمی سی آواز یہاں تک سنائی دے رہی تھی۔۔
یہ شام مجھ سے کچھ کہہ رہی ہے۔۔ 
ٹھنڈی ٹھنڈی ریت میں پیر گھسائے عروج نارنجی سورج کی شعاعوں کو خود میں اترتا محسوس کر رہی تھی۔۔۔ گہری سانس لیکر نم ہوا کی تازگی محسوس کرتے اسکا انداز شاعرانہ ہوچلا تھا 
ہاں کہہ رہی ہوگی رات ہونے سے پہلے گھر واپس چلی جانا مغرب کے وقت ہوائی مخلوق ہوتئ ہے پانی کے نزدیک۔۔ 
نور نے منہ بنا کر کہا۔۔ اس کے اوپر ابھی بھی ویڈیو کال کا سحر طاری تھا۔۔ اسکی امی نے اسے کال کی تھی جوابا اس نے ویڈیو کال ملا کر بیس پچیس منٹ بات کی تھئ۔عروج کے برعکس وہ ریت پر ایک چھوٹے سے تنکے سے کچھ لکھ لکھ کر مٹا رہی تھی۔۔ 
عروج اسکے انداز پر ہنس پڑی۔ 
لکھ کیا رہی ہو۔۔ 
اس نے تجسس سے اسکا لکھا پڑھا پھر چونک کر اسکی شکل دیکھنے لگی۔۔ 
نور خفا خفا سی پھر اپنا لکھا مٹانے میں مصروف تھی۔۔
الف کہاں گئ۔۔ عروج کو خیال آیا تو سر اونچا کرکے اسے ڈھونڈنے لگی۔۔ تھوڑی سی ہی کوشش سے نظر آگئ۔۔ 
الف ایک بڑے سے پتھر پر چڑھ کر نارنجی شعاعوں کے عکس میں سیلفیاں لینے کی کوشش میں تھی۔۔ نارنجی اسکارف نارنجی فراک میں وہ  دور سے سورج کا ہی گمشدہ حصہ لگ رہی تھی
عزہ ان سب سے دور اپنی ہی دھن میں چل رہی تھی اسکا رخ ساحل سے بالکل مخالف سمت تھا۔۔۔
اختتام پہلی قسط کا۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



Seoul Korea based another urdu web novel




#urdupoetry #urdu #poetry #shayari #love #urduadab #urdushayari #pakistan #urduquotes #urdupoetrylovers #ishq #sad #lovequotes #urdupoetryworld #urdusadpoetry #shayri #lahore #hindi #hindipoetry #quotes #urdulovers #shayar #urduliterature #urduposts #karachi #instagram #poetrycommunity #like #mohabbat #bhfyp #urduwebnovel
#hajoometanhai #urdushortstories #urdukahanian #urdu #pakistaniadab #urduadab #hajoometanhaistories #hajoom #tanhai #ikhlaqikahanian #urdunovel#urdupoetry #urdu #poetry #shayari #love #urduadab #urdushayari #pakistan #urduquotes #urdupoetrylovers #ishq #sad #lovequotes #urdupoetryworld #urdusadpoetry #shayri #lahore #hindi #hindipoetry #quotes #urdulovers #shayar #urduliterature #urduposts #karachi #instagram #poetrycommunity #like #mohabbat #bhfyp



No comments:

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen