Showing posts with label hajoom tanhai. Show all posts
Showing posts with label hajoom tanhai. Show all posts

Wednesday, January 24, 2018

kinu kahani ... کینو کہانی


کینو کہانی 
ایک تھا کینو کھٹا تھا 
اسے کوئی کھانے کو تیار نہیں ہوتا تھا کنو کا رنگ بھی سرخ نہیں تھا سب اسے کھٹا کینو سمجھ کر توڑتے ہی نہ تھے 
اسکے ساتھ کے لٹکے سب کینو توڑے گیے درخت گنجا ہو چلا مگر نہ اسکا رنگ بدلہ نہ کسی نے اسے توڑا
سارا سارا دن دھوپ پڑتی رہتی اس پر 
وہ جلتا کلستا رہتا درخت سے جان چھٹ جایے   دعا کرتا میں میٹھا ہو جاؤں توڑ لے مجھے کوئی 
خیر میٹھا تو نہ ہوا مگر ایک بچے کی اس پر نظر پڑی  پتھر مارا توڑ لیا اسے 
کنو خوش ہوا میری قسمت کھل گئی آخر کار میں توڑا گیا ابھی اچھی طرح سے خوش بھی نہ ہو پایا تھا کہ بچے نے اسے چھیلنا شروع کر دیا کنو تڑپ اٹھا بچے نے نہ صرف اسکا چھلکا اتارا بلکہ سب پھانکیں بھی الگ کر ڈالیں 
دو تین اکٹھے منہ میں ڈالیں چبایا اور آخ کر کے تھوک دیا 
اف اتنا کھٹا ؟ میں نہیں کھاتا  اسے 
اس نے یونہی اسکو درخت کے پاس ہی پھینکا اور چل دیا 
کنو پڑا روتا رہا کئی موسم گزرے کنو کی سب پھانکیں گلتی گیں بیج زمین میں دفن ہو چلے ان سے پودے نکلے کنو کا پورا درخت کھڑا ہو گیا 
اس درخت سے نکلنے والے سب پھل میٹھے نکلے 
نتیجہ : ہم کنو کی طرح اپنے لئے شر مانگتے مل جاتا تڑپ اٹھتے پھر آخر میں احساس ہوتا  اس میں بھی ہمارے کوئی بھلائی چھپی ہے

kinu kahani 

ek tha kinu khata tha
usay koi khanay ko tayar nahin hota tha kinu ka rung bhi surkh nahin tha sab usay khata kinu samjh kar tortay hi na that uske sath k latkay sab kinu toray gayay darakht ganja ho chala mgr na uska rung badla na kisi ne usay tora
sara sara din dhoop perti rehti usper woh jalta kulata rehta darakht say jaan chut jaaiy dua karta main meetha ho jaon tor le mujhay koi
kher meetha tu na hua mgr ek bachay ki us per nazar pari pathar maara tor lia usay
kinu kafi khush hua meri qismat khul gai aakhir kar main tora gaya abhi achi tarah say khush bhi na ho paya tha k bachay ne usay cheelna shuru ker dia kinu tarap utha
bachay nay na sirf uska chilka utara bul kay sab phankain bhi alag ker daalen do teen ikathay mun main daleen chabaya aur aakh kar ke thook dia
uf itna khata main nahi khaata usay 
us ne younhi usko darakht ke paas hi phenka aur chal dia
kinu para rota reha kai mausam gzre kinu ki sab phankain galti gaen beej zameen main dafan ho chlay un se poday nikle kinu ka pora darakht khara ho gaya 
us drakht se nikalnay wale sab phal meethay nikle 
nateeja : hum kinuki tarah apne liye shar maangte mil jaata tarap uthte phr aakhir main ahsas hota us main bhi hamre liye koi bhalai chupi hay 
  از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, December 23, 2017

پڑوسی کہانی

پڑوسی کہانی۔۔
ایک تھا مجو۔۔
اس کا پڑوسی بھی تھا سجو۔۔
اب مسلئہ یہ تھا کہ سجو نے بھینس پالی ہوئی تھی
مسلئہ یہ سجو کا نہیں تھا
مسلئہ مجو کا تھا کہ بھینس ہمیشہ اسکے گھر کے آگے آکر گوبر کر دیتی تھی
مجو روز اسکا گوبر اٹھاتا
مگر کبھی سجو سے شکایت نہ کی۔۔ ایک دن سجو غصے میں لال پیلا مجو کے گھر آیا
آتے ہی بلا لحاظ چلا کر بولا۔۔
پکڑو اپنے مرغے کو میرے گھر کے دروازے پر بٹ کر آیا ہے ۔۔۔ تمہارا مرغا ہے سنبھال کر رکھو اسے آئندہ میرے دروازے پر بٹ کی تو حلال کر دوں گا۔۔
مجو حیران پریشان کھڑا سوچ رہا تھا
 مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا ایک مسلئہ میں نے پال رکھا ہے کسی کیلئے۔
نتیجہ۔۔پڑوسی نے بھینس پالی ہو تو کبھی نہ کبھی اسکا گوبر آپکو اٹھانا ہی پڑتا۔۔
بھینس اور گوبر یہاں استعارے ہیں۔۔۔


از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, December 2, 2017

چھوٹی کہانی... choti kahani

choti kahani..
ek thi choti si kahani.. Khatam shud
moral: aur berhati kahani tau lambi hojati choti si tau na rehti na...

by hajoom e tanhai


چھوٹی  کہانی 
ایک تھی چھوٹی  سی کہانی 
ختم شد 
نتیجہ : اور بڑھاتی کہانی تو لمبی ہو جاتی چھوٹی سی تو  رہتی  نا
از قلم ہجوم تنہائی

Friday, December 1, 2017

میں کہانی ... main kahani


میں کہانی 

ایک دفعہ کا ذکر ہے 
میں نے دیکھا تھا مجھے  ڈوب میں  تھا رہا 
مر گیا ہوںگا میں یقین سے نہیں کہہ  سکتا
دیکھا ہے کیا آپ نے کبھی
خود میں مرتے ہوئے خود کو ہی 
زندہ بھی نہ رہا مر بھی نہ سکا کوئی
میں نے دیکھا تھا مجھے  پکار میں  تھا رہا
سن نہ سکا میں یقین سے کہہ نہیں سکتا 
سنا ہے کیا آپ نے کبھی
خود کو پکارتے ہوئے خود ہی کو 
سن سکا بھی نہ کوئی سنتا بھی رہا کوئی 
میں نے دیکھا مجھے بچا میں خود رہا تھا 
بچ گیا ہونگا میں بھی یقین سے کہہ  نہیں سکتا
بچایا ہے آپ نے کبھی 

خود کو مرنے سے خود ہی 

نتیجہ : میں ہوں شاید 

از قلم ہجوم تنہائی


main kahani
ek dafa ka zikr hay 
main ne dekha tha mujhay doob main tha raha
mer gaya honga main yaqeen say kehh nahin sakta
dekha hay kia aap ne kabhi?
khud main mrtay hue khud ko hi 
zinda bhi na raha mr bhi na saka koi 
main ne dekha tha mujhay pukaar main tha raha 
sun na saka main yaqeen say kehh nahin sakta 
suna hay kia aap ne kabhi
khud ko pukartay hue khud hi ko 
sn saka bhi na koi sunta bhi raha koi
main ne dekha mujhay bacha main khud raha tha
bach gaya honga main yaqeen say keh nahin sakta bchaya hay aap ne kabhi 
khud ko mernay say khud hi 
nateeja : main houn shayad 

by hajoom e tanhai 

Saturday, November 25, 2017

ہاتھی کہانی۔۔.. hathi kahani


ہاتھی کہانی۔۔
ایک تھا ہاتھی گول مٹول بڑا پیارا تھا۔۔ کتنی ہتھنیاں مرتی تھیں اس پر۔ ہاتھی کا مگر کسی پر دل نہ آیا۔۔ ایک بار ہاتھی سونڈ لہراتا جا رہا تھا اسے ایک حسین و جمیل ہرنی دکھائی دی۔۔ بڑی بڑی آنکھیں قلانچیں بھرتی جا رہی تھی۔۔ ہاتھی کے دل کو جانے کیا ہوا مانو جیسے لمحہ بھر کیلیئے رک سا ہی گیا۔۔ دم سادھے ہرنی کو گھاس میں منہ مارتے دیکھتا گیا۔۔
بس وہ دن تھا ہاتھی کی نظریں پورے جنگل میں بس ہرنی کو ڈھونڈتی پھرتیں۔۔ گینڈا ہاتھی کا دوست تھا۔۔ ہاتھی کو تاڑ گیا کن ہوائوں میں ہے۔۔ پیچھے پڑ گیا بتائو کیوں ہرنی کو دیکھتے رہتے۔۔
ہاتھی نے ٹالا تو خوب آخر مجبور ہوکر بتا ڈالا
میرا ہرنی پر دل آگیا ہے۔۔
گینڈے نے پہلے تو کمینے دوستوں کی طرح خوب مزاق اڑایا پھر اسے سمجھانے لگا۔۔
تم اور ہرن کبھی ایک نہیں ہو سکتے کہاں تم لحیم شحیم ہاتھی کہاں وہ نازک اندام ہرنی۔۔ پھر ہرنی ہے تو اسے ہرن یا ہرن جیسا ہی چاہیئے ہوگا تم ایک ہاتھی ہو وہ بھی لحیم شحیم
ہاتھی بولا میں کھانا پینا کم کر دوں گا۔۔ ہرن نہ سہی ہرن جیسا بن جائوں گا
ہاتھی نے واقعی کھانا پینا کم کر دیا۔۔ وزن گر نے لگا ہاتھی دبلا پتلا ہو گیا۔۔
ہاتھی کے ماں باپ پریشان ہوگئے بچے کو کوئی بیماری تو نہیں لگ گئ۔۔ طبیب لومڑی کے پا س لے گئے۔۔
لومڑی نے پہلے تو جانچا کوئی بیماری نہ نکلی۔۔
ہاتھی کے ماں باپ کو تسلی دی پھر ہاتھی سے اکیلے میں پوچھا۔۔
بتائو کس کا جوگ لے رکھا۔
ہاتھی کو لومڑی کو بتانا پڑا۔۔
لومڑی ہنس پڑی۔۔
تم دبلے ہو کر بھی ہرن جیسے نہیں بن سکتے۔
کیوں۔۔ ہاتھی بے تاب ہوا۔۔
ہرن میں کیا سرخاب کے پر لگےہوتے۔۔؟۔۔
لومڑئ اور زورسے ہنسی۔۔
ہرن کی سونڈ نہیں ہوتی۔۔
ہاتھی دل مسوس کر رہ گیا۔۔
اب سونڈ تو کٹوانے سے رہا۔۔
کچھ عرصے بعد پورا جنگل انگشت بدنداں رہ گیا تھا ایک خبر سن کے۔۔ خبر کے مطابق
ہرنی نے کسی بھینسے سے شادی کر لی تھی۔۔
نتیجہ: ہرن ہونے سے ہرنی نہیں ملا کرتی
از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, November 23, 2017

ikhlaqi kahani اخلاقی کہانی

ikhlaqiat kahani 
Ek bar ek koyal aur kaway ki laraae ho gae...
kawe nay koyal ko khoob bura bhala kaha...
kaeen kaaeeen ker k shor machaya...
itni batain sun k koyal ko b khoob ghusa agaya
aur wo shadeed ghusay me boli...
.
.
.
.
.
.
Kooo ho Koooooooooooooo ooooooooo Kooo hooo

Moral: Ghusay me ap k mun say wohi nikalta hay jis k aap aadi hotay hain kehnay k...
by hajoometanhai  
اخلاقی کہانی 
ایک بار ایک  کوئل  اور کوے کی لڑائی
  کوے نے کوئل  کو خوب  برا بھلا کہا 
کائیں کائیں کر کے شور مچا یا 
اتنی باتیں سن کر کوئل  کو بھی غصہ آگیا 
اور وہ شدید غصے میں بولی 

.
.
.
.
.
.
.
کو کوووواوو کو کووو کو ہو 
 نتیجہ : غصے میں آپ کے منہ سے وہی نکلتا جس کے آپ عادی ہوتے ہیں کہنے کے 
از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, November 22, 2017

کالا کوا اور سفید بطخ کہانی



کالا کوا  اور سفید بطخ کہانی 
ایک تھا کالا کوا 
اسے اپنے کالے ہونے پر بہت دکھ ہوتا تھا 
وہ جہاں جاتا دھتکارا جاتا 
کسی کے گھر کی چھت پر بیٹھتا تو گھر والے مہمان نہ آجائیں اس خوف سے مار بھگاتے 
کسی بجلی کی تار پر بیٹھا ہوتا نیچے گزرتا کوئی انسان اسکی بٹ کی زد میں آ کر اسے گھورتا کوستا جاتا 
ایسے ہی کہیں اڑتا جاتا بچے غلیل سے نشانے لگا کر اسے زخمی کر دیتے 
غرض زندگی تنگ تھی اس پر 
تنگ آ کر ندی کنارے آ جاتا دور دور تک پانی کو دیکھتا رہتا 
پھر پانی پر تیرتی مخلوق کو 
مخلوق بھی خوب سفید براق بطخ اس نے اتنا دیکھا اسے کہ اسے 
 سفید بطخ سے محبّت ہو گئی روز اڑتا آتا ندی کنارے بیٹھ کر بطخ کو قین قین کرتا دیکھتا رہتا 
اکثر جوش میں آ کر کائیں کائیں بھی کرتا 
بطخ اڑنا بھی جانتی تھی اسکی پرواز زیادہ بلند نہیں ہوتی تھی مگر اتنا اڑ لیتی کہ کوے کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی سوچتا تھا اسے اڑنا آتا مگر مجھے تیرنا نہیں آتا چلو اتنا فرق چل جاتا میں تھوڑا نیچی اڑان بھر لیا کرونگا وہ خوش فہمی پالتا 
ہم ایک ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں وہ خوش ہو کر اسے اور تاڑتا 
بطخ کو اسکا تاڑتے جانا پسند نہیں تھا مگر ہنہ کر کے شان سے گردن اکڑا کر تیرتی رہتی
کوے کو اسکی بے نیازی بھی بھاتی تھی اکثر سوچتا کاش وہ بھی سفید بطخ ہوتا ان دونوں کے بیچ اتنی دوریاں نہ ہوتیں دونوں اڑتے پھرتے تیرتے پھرتے 
ایک دن کوا اسی طرح بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا کہ اچانک اسکے دیکھتے دیکھتے ہی بطخ ڈوبی اور ایک بڑے سے
جال میں پھنس گئی 
کوا بھونچکا رہ گیا اڑ کر اسکے جال پر جا بیٹھا اور چونچیں مار مار کر جال کاٹنے کی کوشش کرنے لگا 
بطخ بری طرح گھبرا چکی تھی مگر جال سے نکلنا اس کے بس سے باہر تھا 
کوا چونچیں مار رہا تھا مگر اسکی چونچ چونچ تھی آری تھوڑی منہ کی جگہ لٹکا کر گھوم رہا تھا 
رسی گھسی تو ضرور مگر کٹ نہیں رہی تھی کتنی دیر گزری 
کوا بطخ کو تسلی دیتا میں بچا لونگا تمہیں بطخ زور زور سے روتی کوا تڑپ جاتا اور کوشش کرتا شومئی قسمت 
ماہی گیرچلا آیا کشتی لے کے  ا س نے جال بچھایا تو بڑی مچھلی پکڑنے  کے لئے تھا مگر بطخ دیکھ کر اسکے منہ میں پانی بھر آیا 
اس نے اس سنکی کوے کو جو بلا وجہ اسکے دوپہر کے کھانے کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا 
ہسش کر کے اڑایا 
بطخ بھی جال سے نکلنے کو بے تاب تھی کوے کو دیکھ کر اس نے حوصلہ پکڑا ہوا تھا  مگر بد  نصیب
ماہی گیر نے کوے کو خاصی بیزاری سے گھور کر دیکھا کشتی پر سے سوٹی اٹھائی اور مار بھگایا 
کوا اڑ تو گیا مگر پھر اسی کشتی کے گرد چکراتا چیختا اڑتا رہا 
بطخ خوب شور کر رہی تھی ماہی گر نے تنگ آ کر چھری اٹھا لی 
کوے کے دل نے لمحہ بھر کو دھڑکنا ہی چھوڑ دیا
بطخ کی آخری چیخ بلند ہوئی کوا واپس اپنے مسکن کو لوٹ گیا 
رات کو کوا بیٹھا بطخ کو سوچ رہا تھا اور رو رہا تھا 
روتے روتے اس نے کہا کاش بطخ کوی ہوتی کالی ہوتی  
کوئی کھاتا تو نہ اسے 

  کوا کالا ہوتا ہے  مگر  اڑ سکتا  ہے ...
بطخ  سفید ہوتی  ہے  اور  اڑ  سکتی  ہے...
کوا کوئی نہیں  کھاتا ...
بطخ سب  کھاتے  ہیں ...

نتیجہ : کالا  کوا  ہونا  سفید  بطخ  ہونے سے  بہتر ہے ...

از قلم ہجوم تنہائی

Monday, November 20, 2017

khud kalami a conversation with hajoometanahi


Myself: hi me...
Me: hi myself...
Myself: hi me...
Me: hi...
Myself: hi me...
Me: :/
Myself: hi me you are sick...
Me : :/
Myself: hi me... still alone? :P
Me: Alone??? :O
Myself: hi me...
Me : enough :/
Myself: ok Me wats up... :)
Me:me...?
nothing special...
but planning about my vacations...
Myself: on a bright sunny day ME?... :P 
Myself: hi me... :P
Me:hey shut up myself...
Myself: hi me...
Me: :/
Myself: hay me...
Me : yes :/ 
Myself: Me you know what...
I am on my way...
to a journey...
A journey towards me... :)
Me :ME??? :O
Myself: ya ME is my destination... :)
Me : but I am sick... :/
I am lonely... :/
Yet I am what I am...
Myself: oks Me...
I ill meet myself one day...
I ill ask myself...
Do you remember...
Yourself...
Me:me :/
Myself: and I know...
My reply...
Better than you but less then me...
and me...
Me:Myself you are
Unpredictable... :/
Myself: I ill then offer me...
lets start new journey...
a journey to the final destination...
Me: where no one ill know........ ????
Myself: wait me ;)
hey you.... yes u
dont bother...
me and myself are busy in talking with each other...

از قلم ہجوم تنہائی

Sunday, November 19, 2017

اندھی تقلید کہانی۔


اندھی تقلید کہانی۔

ایک تھا خرگوش بہت ہی اچھا تھا۔۔ اسکو سب جنگل کے جانور پسند کرتے تھے با اخلاق شریف تمیز دار اسکی آواز بھی اچھی تھی۔۔ جب بولتا سب خاموش ہو کر سنتے تھے۔ وہ اکثر واعظ دیتا اچھی اچھی باتیں سکھاتا۔۔ سب اسکو اتنا پسند کرتے کہ اسکی نقل کرتے اسکی طرح بات کرتے اسکی ہی بات کرتے یہاں تک کے اسکی طرح کود کود کر چلتے۔۔ ایک دن ایک کینگرو نے دیکھا لومڑی ہرن اور تو اور ہاتھی بھی اچھل اچھل کر اگلی دو ٹانگیں اٹھا کر پچھلی دونوں ٹانگوں پر کود کود کر چل رہے۔۔ باقی تو چلو چھوٹے جانور تھے ہاتھی کے اچھل اچھل کر چلنے سے تو پورا جنگل لرز رہا تھا
اس نے ٹوکا تو لومڑی چمک کر بولی
تم بھی تو خرگوش کی طرح اچھل اچھل کر چل رہے ہو۔۔
کینگرو قسم کھاتا رہ گیا وہ ہمیشہ سے ایسے اچھل اچھل کر چلتا اسکی فطرت ہے ایسے چلنا جانور نہ مانے ۔
کینگرو نے دیکھا وہ سب قطار میں خرگوش کے پیچھے کودتے کودتے جا رہے تھے ۔۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا ان تینوں کے پیچھے جنگلی کے دیگر جانور بھی گینڈا شیرزیبرازرافہ گھوڑا نیل گائے غرض سب کے سب جا رہے تھے۔کودتے ہوئے۔۔
یہ بھی تجسس میں انکے پیچھے ہو لیا
خرگوش سب کو اپنے پیچھے آتا دیکھ کر اتراتا کودتا جا رہا تھا۔۔ مڑ کر دیکھا ہاتھ ہلایا۔۔ سب جانور خوشی خوشی چلاتے ہوئے جواب دے رہے تھے۔۔
وہ ہنستا کھیلتا اپنے گھر زمین اندر زمین کھودتا گھس گیا۔۔
اسکے پیچھے پیچھے لومڑی اور ہرن بھی جسم سکیڑتے گھس گئے ہاتھی گھسا تو پھنس گیا مگر پیچھے سے آتی جانوروں کی فوج نے اسے دھکے دے دے کر گھسا دیا وہ چھوٹا سا سوراخ بڑا سا گڑ ھا بنتا گیا سب جانور سما گئے۔۔
بھاگتا کینگرو گڑھے کے بالکل قریب جا کر بمشکل رک کر خود کو گڑھے میں گرنے سے بچا پایا۔۔
سانس بحال کی سامنے دیکھا تو کئی کوس دور زمین کھود کر وہی خرگوش باہر نکلتا دکھائی دیا۔۔ خرگوش نکلتا اچھلتا کودتا جنگل کی طرف نکل گیا۔۔
کینگرو بھاگ کر اس گڑھے کی جانب گیا آیا کوئی اور جانور بھی نکل پایا کہ نہیں۔۔
اس نے اس گڑھے میں جاکر جھانکا تو سوراخ اتنا چھوٹا تھا کہ بس خرگوش جیسا کوئی چھوٹا جانور ہی محض نکل سکتا تھا۔۔ وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا۔۔
نتیجہ: اندھی تقلید گہرے گڑھے میں پہنچا دیتی ہے



از قلم ہجوم تنہائی

ایک سفر اختتامی حد تک



ایک سفر اختتامی حد تک 
قسمت کی دوڑ
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک کوا ایک کتا ایک لومڑی اور ایک شیر 

نے خرگوش اور کچھوے کی منعقد کی گئی دوڑ میں حصہ لیا 
ابھی دوڑ شروع ہی ہوئی تھی کوا پانی کی تلاش میں اڑ گیا کتا بھوکا اور لالچی تھا تو اس نے دوڑ چھوڑی
اور قصائی کی دکان ڈھونڈنے نکل پڑا
لومڑی کو کھٹے انگوروں میں زیادہ دلچسپی تھی اس دوڑ سے 
بولی میں میٹھے انگوروں کی تلاش میں جا رہی تم لوگ لاگو دوڑ
ان سب کی باتیں سن کر شیر نے سوچا میں تو پہلے سے ہی جنگلے کا بادشاہ ہوں تو اگر میں ہار گیا تو سب احمق جانور میرا مزاق اڑائیں گے اور جانوروں پر میرا رعب بھی کم ہو جائیگا 
اس نے گلہ کھنکارا
بولا میں چوں کہ سب سے زیادہ بڑے عہدے پر ہوں تو میں منصف کے فرائض انجام دیتا ہوں 
خرگوش اور کچھوا حیران پریشان دیکھ رہے تھے یہ کیا ہو رہا ہے 
خیر دونوں نے فیصلہ کیا کہ دوڑ مکمل کرتے ہیں 
ایک 
دو 
تین 
شیر نے کہا تو دونوں نے گنتی کے بعد دوڑنا شروع کردیا 
کچھوا تھوڑا سست تھا دوسرا جانتا تھا اگر بھاگ بھی لے تو ہار جائےگا خرگوش سے 
اس نے ٹہل ٹہل کر سست روی سے اپنا سفر شروع کیا اور اپنی چال سے لطف اٹھاتا سفر کا مزہ لینے لگا
ساتھ ساتھ ہی اپنا سارا تجربہ لکھنا بھی شروع کردیا
جو دیکھا جو محسوس کیا جتنا خوبصورت ماحول ٹھنڈی ہوا حسین منظر دلکش  موسّم آب و ہوا کے مزے  لیتا لکھتا لکھاتھا جب اختتامی حد تک پہنچا تو حسب توقع ہر کوئی اس سے پہلے اختتامی حد کو پہنچ چکا تھا وہ سب سے آخری تھا
کوے نے  ایک ٹپکتی ٹونٹی سے پانی پی کر پیاس بجھائی اور سوچا کیوں نہ اپنی دوڑ بھی مکمل کر لوں 
لومڑی اچھل اچھل کر انگور کی اونچی سی بیل سے انگور کا گچھا توڑنے کی کوشش کرتی رہی پھر انگور کھٹے ہیں کہ کر مایوس ہو کر لوٹنے ہی والی تھی کہ ایک بندر جو پاس سے گزر رہا تھا اسے ترس آیا اس نے اس درخت پر جس سے بیل لپٹی تھی  چڑھ کر اسے ایک گچھا توڑ دیا اس نے مزے لے کر کھایا پھر سوچا چلو دوڑ بھی اب مکمل کر لوں یوں وہ بھی دوڑ مکمل کرنے آگئی
کتے کو قصائی نے بڑا سا گوشت کا ٹکڑا تھما دیا تھا ارد گرد کوئی دریا بھی نہیں تھا اس نے وہیں بیٹھ کر پیٹ بھرا مگر لالچی تو تھا سوچا دوڑ بھی مکمل کر لے کچھ انعام ہی مل جایے گا سو وہ بھی دوڑ مکمل کرنے لگا
خرگوش جو سب سی زیادہ پرجوش تھا اور اس کو بوہت شوق بھی تھا اس دوڑ کو جیتنے کا اس نے بھی دوڑ مکمل کی تھی وہ سب سی پہلے بھاگ کر پوھنچا تھا مگر باقی جانوروں نے اسکا یقین نہیں کیا سب جانوروں نے فیصلہ کیا کہ شیر سے منصفی کر وا لیں 
شیر سویا پڑا تھا 
دیکھو ذرا منصف کو اس دوڑ میں دلچسپی خاک پتھر بھی نہیں تھی آرام سی سو گیا 
جانوروں نے جگایا اسے تو آنکھیں مل کر بولا پچھلی بار کون جیتا تھا؟
سب نے بتایا تب تو کچھوا جیتا تھا مگر تب ہم دوڑ کا حصہ نہیں تھے 
شیر نے کوئی توجہ نہیں دی رعب سے بولا 
میں منصف ہوں میں فیصلہ کرتا ہوں کچھوا چوں کہ پہلے جیت چکا ہے تو وہی اصلی فاتح ہے 
جانور اس فیصلے سی مطمئن نہیں تھے مگر سب شیر سے ڈرتے تھے 
اس فیصلے کو مکمل طور پر غیر مصنفانہ سمجھتے ہوئے بھی اپنی شکست تسلیم کر لی 
کچھوا کہاں ہے مجھے اسے فتح کا نشان دینا ہے ؟
شیر نے فاتح کا نشان ایک جڑی بوٹیوں کا ہار لہرایا
وہ جا چکا ہے
خرگوش نے اداسی سے بتایا 
اس نے اس سفر کی روداد پر ایک کتاب لکھ ڈالی ہے اور اب وہ کسی ناشر کی تلاش میں نکلا ہے تا کہ اس کتاب کو شائع کروا سکے 
شیر ہنسا ہار پھینک کر اپنے کام کرنے نکل گیا باقی جانور بھی ایک ایک کر کے نکل گیے 
اب صرف خرگوش بچا تھا اصلی فاتح فتح کے نشان کے ساتھ مگر وہاں اب کوئی موجود نہیں تھا جو اسے فاتح مان لے 
نتیجہ: جو کام آپکو خوشی دے اسے اپنے لئے ضرور کرنا چاہیے 
اور 
ہر چیز ہر کسی کے لئے نہیں ہوتی نہ ہی ہر کوئی جس کی جستجو میں رہتا وہ اسے سچ مچ چاہیے بھی ہوتی ہے کچھ لوگ بس یونہی آپ کے مقابل آجاتے مقابلہ کرنے جبھی تو ہر جیتنے والا اس قابل نہیں ہوتا کہ جیت جائے 
 از قلم ہجوم تنہائی

Friday, November 17, 2017

کسی کی کوئی کہانی.... kisi ki koi kahani



کسی کی کوئی کہانی
ایک بار کسی کا برا وقت چل رہا تھا کوئی پاس نہ تھا اسکے 
کسی کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا
کسی کو عادت بھی ہو گئی کوئی بھی اسکے ساتھ نہ ہو تو بھی کسی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا
ایک بار کسی کا گزر اندھیرے راستے سے ہوا ٹٹول ٹٹول کر چلتا
اچھلتا گرتا سنبھلتا کسی کی مشکل کی کوئی انتہا نہ تھی
کوئی چراغ لئے گزرا اسی راستے سے تو حیرانی سے پوچھ بیٹھا
کسی سے
کیا کرتے ہو؟
کسی کی آنکھوں میں آنسو آ گیے
اندھیروں میں ٹٹولتا ہوں کھو دیا ہے میں نے مرے ساتھ مجھ سا ایک میرا سایا بھی تو تھا ...
کوئی چراغ کا نور اس پر برسا کر بولا 
یہ رہا ؟
کسی نے مڑ کر دیکھا ہچکیاں لے کر رو پڑا 
اندھیرے میں مجھے کبھی یہ ملا نہیں  
کیا یہ بھی اندھیروں میں ساتھ چھوڑ جاتا ؟
کوئی مسکرا دیا
اور چراغ کو پھونک مار کر بجھا دیا
نتیجہ : برا وقت چل رہا ہو تو ساتھ کوئی نہیں دیتا اگر کوئی دے دے تو مان لو برا وقت نہیں آیا ابھی 

از قلم ہجوم تنہائی 

Kisi ki koi kahani

ek baar kisi ka bura waqt chal reha tha  koi paas na tha us ke
kisi ko koi pochta bhi nahin tha
kisi ko aadat bhi ho gai koi bhi uske saath na ho tu bhi kisi ko koi khaas frq nahin prta tha
aik baar kisi ka gzr andheray raasste se hua tatol tatol kar chalta 
uchlta girta sanbhalta kisi ki mushkil ki koi inteha na thi
koi chiraagh liye gzra usi rastay say tu heraani say poch betha
kisi se
kia krtay ho>?
kisi ki aankhon main aansooo aagayay
andheron main tatolta hun kho dia hay main nay meray sath mujhsa ek mera saaya bhi tu tha
koi chiraagh ka noor us pr barsa kr bola
yeh raha?
kisi ne mur kr dekha hichkiaan le kr ro para
andheron main mujhay kabhi yeh mila nahin
kia yeh bhi andheron main sath chor jaata ?
koi muskra dia
aur chiraagh ko phoonk maar kr bujha gaya 
nateeja : bura waqt chal raha ho tu sath koi nahin deta agar koi de de tu maan lo bura waqt nahin aaya abhi
by hajoom e  tanhai 

ہجوم تنہائی کہانی... hajoom e tanhai kahani



ہجوم تنہائی کہانی

ایک تھی تنہائی
تنہائی جیسی ہی تھی 
اسے ہجوم سے کوئی سروکار نہیں تھا اسے تنہا رہنا پسند تھا
ہجوم کو اسکی تنہائی پسند طبیعت بالکل پسند نہیں تھی ہمیشہ تنہائی کی تنہائی میں مخل ہو جاتا 
ایک دن تنہائی تنہائی میں بیٹھی تھی کہ اسکے حلقہ تنہائی میں اچانک شور ہوا
وہ گھبرا کر اٹھ کر باہر آئ کیا دیکھتی ہے ایک ہجوم مقابل ہے 
ہجوم اسے دیکھ کر خوش گوار انداز میں مسکرایا
تنہائی جواب میں رو دی
نتیجہ : ہجوم مقابل ہو تو تنہائی بے موت ماری جاتی ہے 


از قلم ہجوم تنہائی

Hajoom e tanhai kahani
ek thi tanhai tanhai jesi hi thi 
usaay hajoom se koi sarokaar nahin tha usay tanha rehna psnd tha
hajoom ko uski tanhai pasand tabyat bilkul pasand nahin thi 
hamesha tanhai ki tanhai main mukhal ho jata tha 
ek din tanhai tanhai main bethi thi k uske halqah tanhai main achanak shor hua
woh ghabra kar uth kar baahar aai kia dekhti hay aik hajoom muqabil hay 
hajoom usay dekh kar khush gawaar andaz main muskraya 
tanhai jawab main ro di
nateeja : hajoom muqabil ho tu tanhai be mot maari jati hay 

by hajoom e tanhai 

Tuesday, November 14, 2017

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani


 د کھی رات کہانی...
یہ ایک دکھی کہانی ہے...
رلا دیتی ہے...
پڑھننے والے کو...
مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے...
یہ جان کے کہ
در اصل یہ ایک...
.
.
.
دکھی کہانی نہیں ہے... 

:نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟ 


Dukhi raat kahani
yeh ek dukhi kahani hay 
rula deti hay
perhnay walay ko
magar likhne waala muskra raha hay
yeh jaan k 
dar asal yeh ek 




.
.
.
dukhi kahani nahi hay 
moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log?


by hajoom e tanhai 
از قلم ہجوم تنہائی

sachi kahani....سچی کہانی...


سچی کہانی...
میں جب کالج جاتی تھی تو میری وین میں ایک لڑکی تھی...
میں روز اپنے گھر اترتے ہوئے اسے خدا حافظ کہتی تھی...
وہ جواب میں زوردار آواز میں کہتی تھی الله حافظ،...
ایک دن مجھے لگا شاید وو مجھے یہ جتاتی ہے کے مجھے
بھی الله حافظ کہنا چاہیے
ایک دن میں نے اپنے گھر اترتے ہوئے کہا...
الله حافظ...
اس نے فوری جواب دیا...

خدا حافظ...

by hajoom e tanhai 

sachi kahani 
main jab college jaati thi tu meri van main ek larki thi 
main roz apne ghar utartay hue usay khuda haafiz kehti thi
woh jawab main zordaar awaaz main kehti thi Allah hafiz 
ek din mujhay laga shayad woh mujhay yeh jatati hay k mujhay bhi Allah hafiz kehna chahyay
so ek din main nay apne ghar utartay hue kaha 
Allah hafiz
us nay foraan jawab dia






Khuda hafiz
.از قلم ہجوم تنہائی

Monday, November 13, 2017

چرواہا کہانی


چرواہا کہانی
ایک تھا چرواہا اس کا ایک ریوڑ تھا
اس میں ٢٥ بکریاں ١٥ دنبے ١٨ گایے دو کتے تھے
کتوں کا کام ریوڑ کی حفاظت کرنا تھا 
ایک کتے کو کتاپا سوجھا دوسرے سے بولا بکریاں اور گایے تو ٹھیک ہے ہم دنبوں کی حفاظت کیوں کریں
عجیب سے ہیں
دوسرا کتا متفق تو نہیں تھا مگر چپ رہا
پہلے کتے نے دنبوں کو کاٹنا شروع کر دیا دانت مارتا دنبے سخت جان تھے
ایک دو تو بیمار پڑے پھر انہوں نے جوابا کاٹنے کی کوشش کی مگر ایک تو دنبہ معصوم جانور ہوتا دانت بھی نہیں مار پاتے
خیر ایک دنبے مر گیے چرواہا نے کہا چلو خیر ہے ابھی ١٢ دنبے باقی ہیں
اب کتے کو عادت بھی پڑ گئی تھی اس نے گائے کو بھی کاٹنا شروع کیا
ایک دو گایے بھی مر گئیں کتے نے بکریوں کو کاٹنا شروع کیا وہ سب سے کم جان تھیں
ایک دو نہیں دس بکریاں اس کے کاٹنے سے مر گئیں چرواہے کو ہوش آیا
اس نے سوچا کتے کو مار دے
اس نے فیصلہ کیا تو بکریوں گایوں دنبوں سب نے حمایت کی مگر دوسرے کتے نے کہا ٹھیک ہے اس نے بکریاں مار دیں مگر گایے اور بکریاں اب نہیں ماریں گے لیکن دنبوں کو مارنے دیں
چرواہا حیران بیٹھا دونوں کتوں کی سن رہا
بکریاں در چکی ہیں گائے ابھی بھی سوچ رہی ہیں دنبے کو مرنے دیں یا نہیں کتا ابھی بھی خون خوار ہے
دنبے تیل دیکھ رہے اور تیل کی دھار
نتیجہ : اس ریوڑ کو آپ پاکستان کو سمجھ لیں اور چرواہا حکومت اب بھی سوچ لیں خاموش رہنا ہے یا کتے کے ہاتھوں مرنا ہے؟

از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, November 11, 2017

shaam kahani.... شام کہانی ...


Shaam kahani...
ek tha bacha apna joota guma aya...
ghar aa k dosra joota pehan lia...
ab jo joota gum gaya uski kahani shuru ho gae...
wo joota weranay me para tha...
barish hue...
jootay main se darakht nikal aya...
ek chirya ne dekh lia...
ab us chirya ki kahani shuru hoti hay...
chirya ko ghonsla bunana tha...
us ne usi darakht pe buna lia jo jootay main se nikla tha...
us ne ghonslay main anday diye...
ab ando ki kahani shuru hoti hay...
wo anday abhi anday hi thay k wo bacha jiska joota gum gaya tha wehan se guzra...
us ne dekha k uska joota para hua hay tau dor k aya aur joota uthana chaha...
mager joota hil b nahi saka...
jootay me se darakht nikal jo aya tha...
darakht joota hilanay se hila b nahi...
youn wo ghonsla mehfoz reha...
ab us ghonslay ki kahani shuru hoti hay...
un ando me se chirya k bachay nikal ayay...
aur ur gayay...
ajkal woh ghonsla khali hay...
door weranay main ek joota para hay us me se darakht nikal aya hay us darakht pe ek ghonsla hay jo door se nazar ajata...
q k khizaaan ka mausam chal reha hay wehan aur darakht k sab patay jhar gayay...
ab yehan se kahani shuru hoti hay khizaan ki...
.
.
.
Moral: kahani khatam nahin hoti 

شام  کہانی ...
ایک تھا  بچا  اپنا  جوتا  گما آیا ...
گھر  آ  کے  دوسرا  جوتا  پہن  لیا ...
اب  جو  جوتا  گما  گیا  اسکی کہانی شروع ہو  گئی...
وہ  جوتا  ویرانے  میں پڑا تھا ...
بارش  ہوئی ...
جوتے  میں  سے  درخت  نکل  آیا ...
ایک  چڑیا  نے  دیکھ  لیا ...
اب  اس  چڑیا  کی  کہانی  شروع  ہوتی  ہے ...
چڑیا  کو  گھونسلا  بنانا  تھا ...
اس  نے  اسی  درخت پہ بنا  لیا  جو  جوتے  میں  سے  نکلا  تھا ...
اس  نے  گھونسلے میں  انڈے  دیے...
اب  انڈوں  کی  کہانی  شروع  ہوتی  ہے ...

وہ  انڈے  ابھی  انڈے  ہی  تھے  کہ  وہ  بچا  جسکا  جوتا  گم  گیا  تھا  وہاں  سے  گزرا ...اس نے  دیکھا  
اسکا جوتا  پڑا  ہوا  ہے  تو  دوڑ  کر آیا  اور  جوتا  اٹھانا  چاہا ...
مگر  جوتا  ہل بھی  نہیں  سکا ...
جوتے میں  سے  درخت  نکل  جو  آیا  تھا ...
درخت  جوتا  ہلانے  سے  ہلا  بھی  نہیں ...
یوں  وہ  گھونسلا  محفوظ  رہا ...
اب  اس  گھونسلے  کی  کہانی  شروع  ہوتی  ہے ...
ان  انڈوں  میں  سے  چڑیا  کے  بچے  نکل  آیے...
اور  اڑ گیے ...
آج کل  وہ  گھونسلا  خالی  ہے...
دور  ویرانے  میں  ایک  جوتا  پڑا  ہے  اس  میں  سے درخت  نکل آیا  ہے  اس  درخت پر  ایک گھونسلا  ہے  جو دور  سے   نظر  آجاتا ...
کیوں کہ خزاں  کا  موسم  چل رہا  ہے  وہاں  اور  درخت  کے سب  پتے  جھڑ  گیے ...
اب یہاں سے  کہانی شروع ہوتی  ہے  خزاں کی...
.
.
.
نتیجہ : کہانی ختم نہیں ہوتی 

از قلم ہجوم تنہائی 

zindagi kahani .... زندگی کہانی


Zindagi Kahani 
meray ek uncle ne...
Hikmat perh rekhi thi...
Wo Homeopathic doctor thay...
is kay sath unho ne
M.A English,Urdu,philospohy,Arabic,persian,Islamyaat,Punjabi,Politicalscience,History,Economics,sorry unlce ager main koi mention kerna bhool gae tau...
kia hua tha...
(job kia kertay rehay kahan kahan kertay rehay alehda dastan hay... )
ek bar wo apni pension lenay gayay bank...
cashier ne paisay denay k baad raseed pe signature kerwana chaha...
soch main pera aur inkpad samnay rekh dia...
"angotha laga dain yehan"
wo muskuraye aur bolay...
"main dastakhat kerlata houn "
Moral: insan wo nahi hota jo dekhai de reha hota ہے



زندگی کہانی  
میرے  ایک  انکل   نے ...
حکمت  پڑھ  رکھی  تھی ...
وہ  ہومیوپتھک  ڈاکٹر  تھے ...
اس  کے  ساتھ  انہوں  نے 
ایم اے انگریزی ادب  اردو ادب ,فلاسفی,عربی فارسی ,اسلامیات ,پنجابی ,سیاسیات ,تاریخ ,معاشیات ,سوررے
وغیرہ وغیرہ
معزرت 
  انکل  اگر  میں  کوئی ذکر  کرنا  بھول  گئی  تو ...
کیا  ہوا  تھا ...
(ملازمت  کیا  کرتے  رہے  کہاں  کہاں  کرتے  رہے  علیحدہ  داستان  ہے ... )
ایک  بار  وہ اپنی  پنشن  لینے  گیے  بینک ...
کیشئر  نے  پیسے  دینے  کے  بعد  رسید  پہ دستخط  کروانا  چاہے ...
سوچ  میں  پڑا اور  انک پیڈ  سامنے رکھ دیا ...
"انگوٹھا  لگا  دیں  یہاں "
وہ  مسکراے  اور  بولے ...
"میں  دستخط  کر لیتا ہوں "
نتیجہ : انسان  وہ  نہیں  ہوتا  جو  دکھائی  دے  رہا  ہوتا  ہے 



از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, November 7, 2017

zarurt kahani.. ضرورت کہانی ..

zarurt kahani..
ek thi zarurat boht kamini thi har waqt khawahish ko tang krti rti..
ek br roti ai aur khawhish se boli mer jao..
khawahish abi soch he rahi ti k marun na marun zarurt ne gala ghnt dia uska.. Zindgi me mashor hogaya khawhish ne khud kushi krli..
moral:khawhish masoom hoti ha..

ضرورت  کہانی ..
ایک  تھی  ضرورت  بہت  کمینی   تھی  ہر  وقت  خواہش  کو  تنگ  کرتی  رہتی ..
ایک  بار  روتی آئ اور خواہش سے بولی تم مر جاؤ .
خواہش  ابھی  سوچ  ہی رہی  تھی  کہ  مروں نہ  مروں  ضرورت  نے  گلہ  گھونٹ  دیا   اسکا .. زندگی  میں  مشہور  ہوگیا  خوہش  نے  خود  کشی  کرلی ..

نتیجہ: خواہش معصوم   ہوتی  ہے ..




از قلم ہجوم تنہائی

Sunday, November 5, 2017

aik fazool kahani,,,,,, ایک فضول کہانی ... .


aik fazool kahani...
.
.
.
.
.
ek thi lerki us k pass ek fazool si post thi...
us ne socha fazool sahi post tau hay ker dia post...
ab yeh fazool sa status boht say us k followers ki newsfeed me aya...
unho ne fazool kahani ko fazool kahani samjh k perha...
abhi b perh rehy hain wesay...
khair fazool baat yeh hay k fazool kahani ko pora perh k...
time zaya ho chuka honay k ba wajood...
ek fazool sa like button click kerain na kerain jesi fazool si soch me ulajh gayay...
fazool hi sahi mager her kahani ki terha is kahani ka fazool sa anjaam hoga...
Moral: fazool say fazool cheez b fazool ho sakta hay na ho... :)
think positive hit like :د

ایک  فضول  کہانی ...
.
.
.
.
.
ایک  تھی  لڑکی  اس  کے  پاس  ایک  فضول  سی  کہانی  تھی ...
اس  نے  سوچا   فضول  سہی  کہانی  تو  ہے  کر  دیا  شائع ...
اب  یہ  فضول  سی  کہانی بوہت  سے  اس  کے  پیروکاروں  کی  شہ سرخیوں میں  نذر آئ
انہوں  نے  فضول  کہانی  کو  فضول  کہانی  سمجھ  کر  پڑھا ...
ابھی  بھی  پڑھ  رہے  ہیں  ویسے ...
خیر  فضول  بات  یہ  ہے  کہ  فضول  کہانی  کو  پورا  پڑھ  کر ...
وقت  ضائع  ہو  چکا  ہونے  کے  با  wajood ...
ایک  فضول  سا پسندیدگی کا بٹن کھٹک کریں  نہ  کریں  جیسی  فضول  سی  سوچ  میں  الجھ  گیے ...
فضول  ہی  سہی  مگر  ہر  کہانی  کی  طرح اس  کہانی  کا  فضول  سا انجام  ہوگا...
نتیجہ: فضول  سے  فضول  چیز  بھی  فضول  ہو  سکتا  ہے  نہ  ہو ... :)

از قلم ہجوم تنہائی

Maa aur falsafa kahani .... ماں اور فلسفہ کہانی

Maa aur falsafa kahani 
ek bar ek choti si masoom si kalli billi ne apni maa say pocha...
maa ap k sab balongray goray me kali q sab mjhe manhos kehtay hain aur mjhe dekh k lahol perhtay aur kehtay me un k samnay say guzar gae tau un k sath kuch bura hoga maa me kia manhos houn maa?
maa ne uski lambi taqreer suni 
pyar say us k gal pe panja phaira aur kaha...
demag na kha manhoos...
.
.
.
.
.
.
moral : maa maa hoti hay falsafi nahi



ماں اور فلسفہ کہانی 
ایک  بار  ایک  چھوٹی  سی  معصوم  سی  کللی  بللی  نے  اپنی  ماں  سے  پوچھا ...
ماں آپ کے  سب  بلونگڑے  گورے  میں  کالی  کیوں؟ سب  مجھے  منحوس  کہتے  ہیں  اور  مجھے  دیکھ  کر  لاحول  پڑھتے  اور  کہتے  میں  ان  کے  سامنے  سے  گزر گئی  تو  ان  کے  ساتھ  کچھ  برا  ہوگا ماں   میں  کیا  منحوس  ہوں  ماں ?
ماں  نے  اسکی  لمبی  تقریر  سنی  
پیار  سے  اس  کے  گال  پہ  پنجہ  پھیرا  اور  کہا ...
دماغ  نہ  کھا  منحوس ...
.
.
.
.
.
.
نتیجہ  : ماں  ماں  ہوتی  ہے  فلسفی  نہیں 

از قلم ہجوم تنہائی

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen