Showing posts with label anokhi pehli qist hajoom tanhai poetry. Show all posts
Showing posts with label anokhi pehli qist hajoom tanhai poetry. Show all posts

Sunday, November 5, 2017

Maa aur falsafa kahani .... ماں اور فلسفہ کہانی

Maa aur falsafa kahani 
ek bar ek choti si masoom si kalli billi ne apni maa say pocha...
maa ap k sab balongray goray me kali q sab mjhe manhos kehtay hain aur mjhe dekh k lahol perhtay aur kehtay me un k samnay say guzar gae tau un k sath kuch bura hoga maa me kia manhos houn maa?
maa ne uski lambi taqreer suni 
pyar say us k gal pe panja phaira aur kaha...
demag na kha manhoos...
.
.
.
.
.
.
moral : maa maa hoti hay falsafi nahi



ماں اور فلسفہ کہانی 
ایک  بار  ایک  چھوٹی  سی  معصوم  سی  کللی  بللی  نے  اپنی  ماں  سے  پوچھا ...
ماں آپ کے  سب  بلونگڑے  گورے  میں  کالی  کیوں؟ سب  مجھے  منحوس  کہتے  ہیں  اور  مجھے  دیکھ  کر  لاحول  پڑھتے  اور  کہتے  میں  ان  کے  سامنے  سے  گزر گئی  تو  ان  کے  ساتھ  کچھ  برا  ہوگا ماں   میں  کیا  منحوس  ہوں  ماں ?
ماں  نے  اسکی  لمبی  تقریر  سنی  
پیار  سے  اس  کے  گال  پہ  پنجہ  پھیرا  اور  کہا ...
دماغ  نہ  کھا  منحوس ...
.
.
.
.
.
.
نتیجہ  : ماں  ماں  ہوتی  ہے  فلسفی  نہیں 

از قلم ہجوم تنہائی

Monday, October 23, 2017

تھوک کہانی



تھوک کہانی
ایک بار ایک مکڑی جالا بنا کر اونچے پہاڑ سے اتر رہی تھی
کیا دیکھتی ہے تیزی سے چڑھتی ایک چونٹی اس کی جال میں پھنس گی ہے
مکڑی ایک تو بھوکی نہیں تھی دوسرا اتنی سی چونٹی سے پیٹ نہ بھرتا اس نے سوچا چھڑا دے 
اسے اپنی طرف آتآ دیکھ کر چونٹی کے اوسان خطا ہو گے
مکڑی مسکرائی اسے بچایا پوچھا اوپر کاہے کو جاتی ہو
چونٹی بولی مقابلہ ہے مجھے پہلا انعام لینا ہے
مکڑی سر ہلا کر واپس ہو لی زمین پر پہنچی تو ڈھیر ساری بوندیں آ گریں اس نے چہرہ صاف کر کیے اوپر دیکھا درجنوں چونٹیا ں تھوک کر دیکھ رہی تھیں کس کا تھوک پہلے پہنچا 
نتیجہ : تھوک نیچے پہلے جسکا بھی آیے جیت اسکی ہوتی جسکا تھوک کسی کے او پر نہ آیے

از قلم ہجوم تنہائی

Sunday, October 22, 2017

گھونسلا کہانی


گھونسلا کہانی 
ایک تھا گھونسلا 
بنایا تو پرندے نے ہی تھا 
مگر اس کا بچے انڈوں سے نکلے اور اڑ گیے
گھونسلا خالی تھا
اسے اپنا خالی پن کھٹکنے لگا
ایک دن اس پر ایک کوی انڈے دے گئی
گھونسلا خوش ہو گیا
مگر اس کے بچے بھی پر نکللنے کے بعد گھونسلا چھوڑ گیے
گھونسلا خالی رہا
ایک دن جس درخت پر وہ گھونسلا تھا کوئی اسکو کاٹ گیا
گھونسلا زمین پر گر گیا
جاتے موسموں اور لوگوں کی ٹھوکروں سے زمین میں مل گیا
ایک بار ایک پرندہ زمین مے چونچیں مار رہا تھا
اس کی چونچ میں اس گھونسلے کا تنکا آیا
اس نے اٹھایا اور ایک اور نیی جگہ جہاں وہ اور اسکی مادہ گھونسلا بنا رہے تھے لے گیا
اس تنکے کو انہوں نے اپنے نیے گھونسلے میں جوڑ لیا
نتیجہ : گھونسلے کی قسمت میں ہمیشہ تنہائی لکھی ہوتی ہے


از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, October 5, 2017

تکبر کی بو کہانی

تکبر  کی  بو کہانی 
یا  خدا  یہ  کائنات  کتنی  بدبودار  بنی  ہے ..
لنڈا  نے  دونوں  ہاتھوں  میں  سر  تھام  لیا  گہری  سانس  لے  کے  خود  کو  ماحول  کے  اثر  سے  آزاد  کرنا  چاہا ...
عجیب  بات  تھی  وہ  کوڑے خانے  کے  نزدیک  کھڑی  تھی  اور  گہری  سانس  لے  رہی  تھی ...
کام  کرتے  خاکروب  نے  اسے اچنبھے  سے دیکھا ...
یہ  تو  وہ  جانتی  تھی  اس  گندگی  کے  ڈھیر سے  جو  مہک  اٹھ  رہی  تھی  وہ ...
یاک  ...
اس  کے  پاس  سے  گزرتی  دو  سیاہ  فام لڑکیوں  نے  بے  اختیار  کراہیت  سے ناک  ف  رومال  رکھا  تھا ...
اف  کس  قدر  بدبو  ہے  یہاں ... ایک  بولی ...
دوسری  نے  ٹھنڈی  سانس  بھری ...
کس  چیز  کی  بدبو؟
کوڑے  خانے  کی  اور  کس  کی ... ہرات  سے  سیاہ  فام  لڑکی  بولی 
اور  مجھے  اس  لڑکی کے  پاس  سے  شدید  بو  ای  ہے ...
دوسری  نے  مسکرا  کے  کہا ...
یہ  گفت  و  شنید  اتنے فاصلے  سے  نہیں  ہو  رہی  تھی  کے لنڈا  سن  نہ   پتی  ہرات  سے  اس  سیاہ  فام  لڑکی  کو  گھورنے  لگی ...
میرے  پاسس  سے  بو  آرہی  ہے ؟
وہ  لڑکی  مسکرا  دی ...
ہاں ...
ساری کائنات  بدبودار  لگ  رہی  ہے  اپنی  بو  محسوس  نہیں  ہو  رہی ؟
مرے پاس سے بو آرہی ہے؟
لنڈا کی حیرت کی انتہا نہ رہی 
ہاں 
لڑکی نے قطعیت سے کہا
 تمہارے  پاسس سے بدبو  آرہی  ہے ...
تکبر  کی  بو ...
از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, September 28, 2017

ڈرا ونی کہانی ..

ڈرا ونی  کہانی ..
کچھ  دوست  تھے   ہوسٹل  میں  رهتے  تھے  ایک  بار  سردی  میں  واپس  آیے لحاف  میں  گھس  گیے  
گھسنے
 کے  بعد  دیکھا  دروازہ  تو  بند  کیا  ہی نہیں 
ایک دوسرے  کو کہا   کوئی  دروازہ  اٹھ  کر  بند  کرنے  کو  تیار  نہ  ہوا  ایک  دوست  بولا  میں  کر  دیتا  ہوں  اس  نے  ہاتھ  لمبا کیا  لیتے  لیتے  بند  کردیا .. سب  ڈر
کے  بھگ  گیے 
نتیجہ : ٹھنڈ  آنے والی ہے  کمرے  میں  داخل  ہوتے    ہی  دروزہ  خود  بند  کرنے کی عادت ڈال  لیں 


از قلم ہجوم تنہائی

Sunday, September 24, 2017

انوکھی کہانی پہلی قسط


انوکھی کہانی پہلی قسط
ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا
انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار
اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر
اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا
بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر
استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں
اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے
آپکی بیٹی نے مجھے گرایا ہے '
فورا شکایات دھر دیں امی خاص پاکستانی ماں
کان سے پکڑ لیا
کیوں گرایا ؟
ارے میں نے کچھ نہیں کیا وہ روہانسی ہو چلی
اس نے مجھے کہا تھا اب گر جائیں مجھ پر
استانی صاحبہ پاؤں پر پٹی باندھے بیٹھی تھیں شدید موچ آئی تھی
آپکو اسکی بات نہیں ماننی چاہے تھی
امی نے دبی دبی زبان میں کہہ دیا تھا استانی صاحب غور کر رہ گیں
پھر ایسا اکثر ہونے لگا وہ جسکو جو کام کہتی ہزار انکار کرتا منہ بناتا مگر کر دیتا
اسکو بھی پانی لانے کا کہتا یہ بھر کے لا کر گلاس تھماتی اور کہتی میرے سکول کا کام کروا دیں
اپنا ٹیسٹ چھوڑ کر اسکو گھر کا کام کرواتا کہاں چھوٹا ہونے کی وجہ سے سب اسکو اپنے کام کہا کرتے کہاں سلسلہ الٹ گیا
سب سے بڑی بہن تھی اسکی نمرہ ایک نمبر کی کام چھوڑ کاہل سست الوجود کالج جاتی تھی
بد پر بیٹھ جاتی کبھی کہتی مجھے نیل پالش لا کر دو دوسرے کمرے میں بیٹھی ہوتی تھی عالیہ بھاگ کر آتی اسکو
اسکے ہی کمرے میں دو قدم کے فاصلے پر رکھی سنگھار میز سے مطلوبہ نیل پالش
تھماتی پھر واپس جا کر اپنا کام کرتی
ایک دن وہ فشل کر رہی تھی اس سے بولی مجھے لوشن پکڑا دو
اس نے یونہی کہ دیا
منہ پر آپی لوشن کی بجایے وم مل لو زیادہ صاف ہو جایے گا
اس نے لوشن تھماتے مذاق کیا تھا آپی اٹھیں سیدھا باورچی خانے میں گیں اور وم مل لیا منہ پر
امی دیکھیں میرا پورا چہرہ سرخ ہو گیا
رو رو کر شکایت لگ رہی تھی اسکی وہ معصومیت سے سر جھکایے کھڑی تھی
اس نے کہا اور تم نے ماں لیا
امی نے سر پیٹ لیا
امی اسکو منع کریں ہم سے کام نہ کہا کرے کل میچ کھیلنے جا رہا تھا بولی مجھے گھر کا کام کروا کر جائیں
دو گھنٹے لگا کر میں نے اسکو سارا گھر کا کام کروایا میرا پورا میچ برباد ہوا دوستوں نے الگ میری بستی کی
آپی سے چھوٹا بھائی رو رہا تھا اسکے میٹرک کے امتحان ہو چکے تھے سو تین مہینے بس کھل کود ہی کرنا تھا اس نے خاصا گراں گزرا تھا اسے کام کرنا یا کروانا
ہاں تو چھوٹی ہے کام کون کراتا اسے
امی نے اسکی حمایت نہیں کی
مگر امی یہ بہت عجیب ہے کل مجھے کہہ رہی تھی کارٹون دیکھنا میں ڈرامہ دیکھ رہی تھی مگر میں نے چینل بدل کر اسکو کارٹون لگا دیا
سارا اس سے سات سال بڑی بہن بسوری
ارے تو تم لوگ اسکی بات مانتے کیوں ہو ؟
امی نے سر پیٹ لیا
وہ معصوم سی شکل بنایے سب کو ٹکر ٹکر دیکھتی رہی
..........................
اس دن وہ سکول سے واپس آ رہی تھی کہ دیکھا دو بچے آپس میں لڑتے جا رہے بچے اس سے شاید دو چار سال بڑے ہی ہونگے
اس نے یونہی رعب سے کہا
مت لڑو اچھے بچے نہیں لڑتے ہاتھ ملاؤ چلو
دونوں نے جھٹ ایک دوسرے کا گریبان چھوڑا ہاتھ ملا لئے
اب یہ ہاتھ مت چھوڑنا ایسے ہی اچھے بچوں کی طرح گھر جاؤ
وہ آرام سے خود گھر آگئی
اگلے دن دونوں بچوں کے والدین سکول آیے ہوئے تھے
یہ دیکھیں کل سے یہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں چھوڑ رہے ہم کہہ کہہ کر تھک گیے ہاتھ چھڑانا چاہا تو ہم چھڑا بھی نہیں پا رہے
دونوں بچوں کا رو رو کر گلہ بیٹھا تھا
دونوں بچے شکر ہے پڑوسی تھے دونوں کے والدین کہ سن کر بچوں کو سلا تو لیا تھا مگر شدید پریشان تھے
اتنا زور زور سے روتےہیں کہتے عالیہ کہے گی تب ہی چھوڑیں گے کون ہے عالیہ ؟
پرنسپل صاحب نے علیہ کو بلوایا
معصوم سی دو پونیاں کے بڑی بڑی آنکھیں پوری کھولے عالیہ آی تھی
عالیہ بیٹا ان بچوں سے کہو ہاتھ چھوڑ دیں ایک دوسرے کا
پرنسپل صاحب نے بڑے پیار سے کہا تھا
کیوں؟ عالیہ کو ہرگز انکا خیال پسند نہیں آیا
بیٹا کل سے دونوں مشکل میں ہیں ہاتھ نہیں چھوڑ رہے ایک دوسرے کا پ انکے والدین پریشان ہیں
انہوں نے سمجھایا
عالیہ سوچ میں پڑ گئی
مگر کل یہ دونوں لڑ رہے تھے اسلئے میں نے انکو کہا تھا ایسا
ہم کبھی نہیں لڑیں گے
دونوں بچے روہانسے ہو کر بولے
چلو ٹھیک ہے ہاتھ چھوڑ دو
اس نے کہا تو دونوں نے جھٹ ہاتھ چھوڑ دیا
دونوں بچوں کے والدین ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے پھر دونوں نے ہی اپنے اپنے بچوں کا سکول تبدیل کروا دیا تھا
.......
کوئی بار بار انکے گھر کی اطلاعی گھنٹی بجا رہا تھا
آرہی ہوں آرہی ہوں
امی باورچی خانے میں تھیں ہاتھ پونچھتی باہر آیئں
کون ہے ؟
انہوں نے دروازہ کھولا
ایک آئس کریم فروش کھڑا تھا
کیا کام ہے بھائی ؟
اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا امی نے پوچھا
بہن جی آپ عالیہ کی والدہ ہیں ؟
ہاں انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تو تو پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا
آپکی بیٹی نے آ کر مجھ سے آئس کریم لی ..
پیسے نہیں دے؟
وہ یہی سمجھیں
نہیں اس نے تو دیے پھر کہنے لگی تمہیں ویسے سب بچوں کو مفت آئس کریم دینی چاہے
یقین کیجیے دو دن سے ایک روپیہ نہیں لے رہا بچوں سے میری سب آئس کریم مفت بانٹتا رہا
مرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں غریب آدمی ہوں اسی سے کماتا ہوں بیگم صاحب
تو تمہیں کس نے کہا اس بچی کی بات مانو
انکو غصہ ہی آگیا
میں نہیں جانتا مگر میں اسکی بات ٹال نہیں سکتا آپ براۓ مہربانی اس سے مجھے اجازت دلوا دیں کہ میں پیسے وصول کر لیا کروں اپکا بڑا احسان ہوگا
وہ مسمسی سی شکل بنایے کھڑا تھا
صبیحہ اسے کچھ کہتے کہتے رک سی گئیں پھر عالیہ کو پکار لیا
..........................................
یہ تو کافی عجیب بات ہے
پاپا کافی حیران ہوئے تھے سن کر
عجیب نہیں بہت عجیب ترین بات ہے
اور کسی کو چھوڑو کل مجھے کہتی ہے مجھے چکن کھانا میں نے کل الو گوشت بنایا تھا پوری ہنڈیا پڑوس میں بھجوا کر میں نے مرغی بھونی ہے
صبیحہ بے حد حیرانی سے بتا رہی تھیں
ہاں پاپا میں نے کل اسکا سارا گھر کا کام کیا تھا آج مجھے استانی صاحب نے بلا کر ڈانٹا بھی کہ چھوٹی بہن کا ہوم ورک کیوں کیا؟
سارا نے بتایا
میں کل دو گھنٹے اسکو سائکل پر بیٹھا کر گھوماتا رہا ہوں میری ٹانگیں ٹوٹ گئیں سائکل چلا چلا کر
بھائی نے بھی دکھڑا رویا
سب گول میزکانفرنس کر رہے تھے عالیہ خاموشی سے ایک کونے میں صوفے پر بیٹھی سن رہی تھی
عجیب بات تو ہے
شکیب صاحب نے کان کھجایا
کل مجھ سے کہنے لگی مجھے چوکلاتے کا ڈبہ لا کر دیں میں منع کرنے لگا تھا کہ دانت خراب ہو جائیں گے مگر میں نے پھر اسکو پورا ڈبہ لا کر دیا
عالیہ ایلین تو نہیں؟
آپی نے خیال ظاہر کیا
سب مڑ کر اسے گھورنے لگے تھے
از قلم ہجوم تنہائی

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen