Posts

Showing posts with the label anokhi pehli qist hajoom tanhai poetry

Maa aur falsafa kahani .... ماں اور فلسفہ کہانی

Maa aur falsafa kahani  ek bar ek choti si masoom si kalli billi ne apni maa say pocha... maa ap k sab balongray goray me kali q sab mjhe manhos kehtay hain aur mjhe dekh k lahol perhtay aur kehtay me un k samnay say guzar gae tau un k sath kuch bura hoga maa me kia manhos houn maa? maa ne uski lambi taqreer suni  pyar say us k gal pe panja phaira aur kaha... demag na kha manhoos... . . . . . . moral : maa maa hoti hay falsafi nahi ماں اور فلسفہ کہانی  ایک  بار  ایک  چھوٹی  سی  معصوم  سی  کللی  بللی  نے  اپنی  ماں  سے  پوچھا ... ماں آپ کے  سب  بلونگڑے  گورے  میں  کالی  کیوں؟ سب  مجھے  منحوس  کہتے  ہیں  اور  مجھے  دیکھ  کر  لاحول  پڑھتے  اور  کہتے  میں  ان  کے  سامنے  سے  گزر گئی  تو  ان  کے  ساتھ  کچھ  برا  ہوگا ماں   میں...

تھوک کہانی

تھوک کہانی ایک بار ایک مکڑی جالا بنا کر اونچے پہاڑ سے اتر رہی تھی کیا دیکھتی ہے تیزی سے چڑھتی ایک چونٹی اس کی جال میں پھنس گی ہے مکڑی ایک تو بھوکی نہیں تھی دوسرا اتنی سی چونٹی سے پیٹ نہ بھرتا اس نے سوچا چھڑا دے  اسے اپنی طرف آتآ دیکھ کر چونٹی کے اوسان خطا ہو گے مکڑی مسکرائی اسے بچایا پوچھا اوپر کاہے کو جاتی ہو چونٹی بولی مقابلہ ہے مجھے پہلا انعام لینا ہے مکڑی سر ہلا کر واپس ہو لی زمین پر پہنچی تو ڈھیر ساری بوندیں آ گریں اس نے چہرہ صاف کر کیے اوپر دیکھا درجنوں چونٹیا ں تھوک کر دیکھ رہی تھیں کس کا تھوک پہلے پہنچا  نتیجہ : تھوک نیچے پہلے جسکا بھی آیے جیت اسکی ہوتی جسکا تھوک کسی کے او پر نہ آیے از قلم ہجوم تنہائی

گھونسلا کہانی

گھونسلا کہانی  ایک تھا گھونسلا  بنایا تو پرندے نے ہی تھا  مگر اس کا بچے انڈوں سے نکلے اور اڑ گیے گھونسلا خالی تھا اسے اپنا خالی پن کھٹکنے لگا ایک دن اس پر ایک کوی انڈے دے گئی گھونسلا خوش ہو گیا مگر اس کے بچے بھی پر نکللنے کے بعد گھونسلا چھوڑ گیے گھونسلا خالی رہا ایک دن جس درخت پر وہ گھونسلا تھا کوئی اسکو کاٹ گیا گھونسلا زمین پر گر گیا جاتے موسموں اور لوگوں کی ٹھوکروں سے زمین میں مل گیا ایک بار ایک پرندہ زمین مے چونچیں مار رہا تھا اس کی چونچ میں اس گھونسلے کا تنکا آیا اس نے اٹھایا اور ایک اور نیی جگہ جہاں وہ اور اسکی مادہ گھونسلا بنا رہے تھے لے گیا اس تنکے کو انہوں نے اپنے نیے گھونسلے میں جوڑ لیا نتیجہ : گھونسلے کی قسمت میں ہمیشہ تنہائی لکھی ہوتی ہے از قلم ہجوم تنہائی

تکبر کی بو کہانی

تکبر  کی  بو کہانی  یا  خدا  یہ  کائنات  کتنی  بدبودار  بنی  ہے .. لنڈا  نے  دونوں  ہاتھوں  میں  سر  تھام  لیا  گہری  سانس  لے  کے  خود  کو  ماحول  کے  اثر  سے  آزاد  کرنا  چاہا ... عجیب  بات  تھی  وہ  کوڑے خانے  کے  نزدیک  کھڑی  تھی  اور  گہری  سانس  لے  رہی  تھی ... کام  کرتے  خاکروب  نے  اسے اچنبھے  سے دیکھا ... یہ  تو  وہ  جانتی  تھی  اس  گندگی  کے  ڈھیر سے  جو  مہک  اٹھ  رہی  تھی  وہ ... یاک  ... اس  کے  پاس  سے  گزرتی  دو  سیاہ  فام لڑکیوں  نے  بے  اختیار  کراہیت  سے ناک  ف  رومال  رکھا  تھا ... اف  کس  قدر  بدبو  ہے  یہاں ... ایک  بولی ... دوسری...

ڈرا ونی کہانی ..

ڈرا ونی  کہانی .. کچھ  دوست  تھے   ہوسٹل  میں  رهتے  تھے  ایک  بار  سردی  میں  واپس  آیے لحاف  میں  گھس  گیے   گھسنے  کے  بعد  دیکھا  دروازہ  تو  بند  کیا  ہی نہیں  ایک دوسرے  کو کہا   کوئی  دروازہ  اٹھ  کر  بند  کرنے  کو  تیار  نہ  ہوا  ایک  دوست  بولا  میں  کر  دیتا  ہوں  اس  نے  ہاتھ  لمبا کیا  لیتے  لیتے  بند  کردیا .. سب  ڈر کے  بھگ  گیے  نتیجہ : ٹھنڈ  آنے والی ہے  کمرے  میں  داخل  ہوتے    ہی  دروزہ  خود  بند  کرنے کی عادت ڈال  لیں  از قلم ہجوم تنہائی

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...