Posts

Showing posts with the label iraq shaam war

بے بسی کہانی۔۔ be basi kahani

بے بسی کہانی ایک بار ایک بڑا سا بحری جہاز جو مسافروں سے بھرا ہوا تھا بیچ سمندر میں جا کر ڈوبنے لگا۔۔ سب مسافروں میں بھگدڑ مچنے لگی سب کے اوسان خطا ہو گئے کوئی مددگار کشتیوں کو بلانے کے اشارے بھیجنے لگا کوئی جہاز میں موجود امدادی سامان جمع کرنے دوڑا کسی کو ڈوبنے سے بچنے کو جہاز میں موجود مددگار چھوٹی کشتی درکار تھی۔۔ کوئی بس ڈوبنے سے بچانے والی جیکٹ پہن کر مطمئن ہو چلا تھا۔۔ جہاز کا کپتان خاموشی سے بیٹھا سب کی افراتفریح دیکھ رہا تھا کسی سے رہا نہ گیا پہنچا اسکے پاس سخت سست سنانےلگا۔۔ تمہاری غلطی ہے جو جہاز ڈوب رہا کم از کم اب تو اسے بچانے کی کوشش کر لو ہاتھ پر ہاتھ دھرے مت بیٹھے رہو۔۔ کپتان خاموشی سے سنتا رہا۔۔ کچھ لوگ آگے بڑھے اور کسی کو سنبھالنے لگے بجائے اسکے کپتان کو برا بھلا کہو اپنی مدد آپ کرو۔ وہ آدمی غصے سے چلایا۔ تم کچھ کرتے کیوں نہیں ہو؟۔۔ کپتان مبہم سا مسکرایا اور بے چارگی سے بولا۔۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔ نتیجہ:کبھی کبھی زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جب آپ کچھ نہیں کر سکتے تو تب آپ واقعی کچھ نہیں کر سکتے ہوتے ہیں۔۔ از قلم ہجوم تنہائی

ایک سچی کہانی ...

ek sachi kahani... africa k jungli qabailay k sardar k darjano betay thay darjano biwiyan theen... un me say ek betay ka naam tha Proto co sholo... us ne us ko chuna muhazib dunia me bhejnay k liye... Proto co sholo ne taleem hasil ki... aik achi job apni taleem ki bunyad pe hasil ki... Proto co sholo say Sae tooti bun gaya... phr wapis laut aya... wehan sab say pehlay usay sardar bunna tha... us k liye us k jisam pe kae tatoo khudwaye gayay... kaan me balay dalay... jungli pato k banaye gayay libas say arasta kia... ek adad gayay (cow) ko zibah ker k uska khoon pilaya gaya... us ne khushi khushi yeh sab kam kiye... wo sardar bun gaya tha... wo un jesa lagnay laga tha... uska baap khush tha... us k alfaz ... me janta tha mera yeh beta wapis zarur ayga ... Moral : Proto co sholo say Sai tooti ka safar zarur kero... mager Sai tooti say Proto co sholo bunna pery... tau ek baar soch zarur lena... ایک  سچی  کہانی ... افریقہ  کے  جنگلی  ...

بنیان والے انکل کی کہانی

بنیان والے انکل  کی کہانی  ایک تھے انکل  ہر وقت بنیان پہنے رکھتے تھے  شلوار پہنتے تھے  مگر کبھی بھی قمیض میں نظر نہیں آتے تھے  جانے کیا وجہ تھی  صبح اچھے بھلے پورے کپڑے پہن کر دفتر جاتے تھے ،مگر واپس گھر آتے اور قمیض اتار دیتے ہم بچے کافی حیران ہوتے تھے کتنے بے شرم انکل ہیں ایکدن وہ انکل نہا کر ٹیرس پر آگیے  ہم نے انکو دیکھا اور ہم اندر کمرے میں گھس گیے  کیونکہ اس بار وہ صرف تولیہ پہن کر باہر آگیے تھے  اور ٹیرس پر وائپر لگانے لگ گیے  نتیجہ : بےشرمی کی ہائٹ از قلم ہجوم تنہائی

کوئی کہانی

کوئی کہانی  ایک تھا کوئی  اب تھا نہ کوئی  اسکو کوئی کوئی ہی پسند کرتا تھا  ایک دن کوئی نے سوچا  کیوں نہ کوئی ایسا کام کرے کہ کوئی کوئی نہیں سب اسے پسند کرنے لگیں  سو سوچتا رہا کوئی  اسے سوچتے دیکھ کر کوئی ہنس پڑااور بولا  کوئی سوچتا تھوڑی ہے کہ کوئی ایسا کیا کام کرے کہ سب پسند کرنے لگیں  کوئی نے اس سے کہا  کوئی تو سوچے گا نا کبھی کہ کوئی اچھا کام کر ہی لے جسے سب پسند کریں  نتیجہ : اچھا کام کرنے کا سوچتا بھی کوئی کوئی ہے  از قلم ہجوم تنہائی

گوہر شناش کہانی

گوہر شناش کہانی  ایک تھا بندر اسے سرا ہے جایے جانے کا شوق تھا  ہر وقت اچھالتا کودتا الٹی سیدھی حرکتیں کرتا مگر کوئی بندر توجہ  نہ دیتا   ایک دن وہ دریا کنارے درخت پر چڑھ کر  اپنے پیٹ سے جویں چن کر کھا رہا تھا  اس نے دیکھا ایک آدمی درخت پر چڑھا اسکی جویں کھاتے ویڈیو بنا رہا تھا  بندر بڑا خوش ہوا بڑے انداز سے اپنی ویڈیو بنوائی تصویریں کھنچواتا رہا  آدمی مسکرایا بندر ہے اگر آدمی ہوتا تو اپنی اتنی تصویریں کھنچوانے پر معاوضہ طلب کر لیتا خیر  اس نے اس بندر سے دوستی کر لی اسے اپنے ساتھ لے گیا  پھر جہاں جہاں جاتا بندر کو ساتھ لے کر جاتا بندر کوٹ پہن کر خوب بابو بن کر جاتا اسکو آدمی نے مزید کرتب سکھا دے وہ ہاتھ ملا کر سلام کرتا ہنستا حال احوال پوچھ لیتا اشارے کر کے بندر مشھور  گیا اسے سب سراہتے حوصلہ افزائی کرتے  آدمی اپنے فن پارے دکھاتا کسی کسی تصویریں لی ہیں میں نے کیسے اسکو سب سکھایا  مگر لوگ توجہ نہیں دیتے بس بندر بندر کرتے رہتے  بندر مغرور ہوگیا اس نے آدمی کو جوتے کی نوک پر رکھنا شروع کر دیا بات نہ مان...

بطخ کہانی

بطخ کہانی  ایک تھی بطخ قین قین کرتی پھرتی قین قین سریلی سی آواز میں کرتی تھی اس نے سوچا وہ سب بطخوں کو جمع کر کے کونسرٹ کرے  اس نے جمع کیا سب کو قین قین شروع کر دی بطخوں کو پسند آئی اب روز بطخیں جمع ہوتیں اور قین قین سنتیں ایک دن بطخ کا موڈ نہیں تھا اس نے قین قین نہیں کی بطخوں نے غصے سے اسے گنجا کر دیا اب وہ جہاں جاتی سب کہتے وہ دیکھو گنجی بطخ سب بھول گیے تھے کے وہ اچھی قین قین کرتی تھی نتیجہ : گنجے لوگوں کی کوئی قدر نہیں کرتا از قلم ہجوم تنہائی

تھوک کہانی

تھوک کہانی  ایک بچے کو تھوکنے کی عادت تھی ہر وقت ہر جگہ پڑھتے کھاتے پیتے کسی سے بات کرتے سائیڈ پر تھوک دیتا تھا  ایک دن اس نے فیس بک استمعال کی استٹس اپ ڈیٹ کیا اور سکرین پر سٹیٹس کی جگہ پر کھنکارا اور تھوک دیا  نتیجہ : تھوکنے سے سٹیٹس گیلا نہیں ہوتا موبائل ہو جاتا  از قلم ہجوم تنہائی

الفاظ کہانی

الفاظ کہانی ایک بار کسی کو کچھ لفظ دانت کاٹ گیے  تکلیف سے دہرا ہو گیا گھایل من ہوا مرنے کو آگیا  کسی نے مشورہ دیا بےحسی کے ٹیکے لگواؤ مگر زیادہ نا لگوانا  اس نے بےحسی کے ٹیکے لگوایے درد کم ہوا اسے درد سے نجات چاہیے تھی بار بار لگواتا رہا یہاں تک کہ خود بے حس ہو گیا  اب اسکے الفاظ دوسروں کے دل توڑتے ہیں مگر وہ خوش رہتا ہے  ... نتیجہ : دل نہ توڑیں امرود توڑ لیں از قلم ہجوم تنہائی

میں ایک کھلنڈرا سا لڑکا ہوں

یہ ایک عام سی کہانی ہے  سن کر یاد بھی نہ رہ جانی ہے اگر وقت ہے تو سن لینا  مجھے کہہ  جانے کی عادت ہے  میں ایک کھلنڈرا سا لڑکا ہوں  میں ہنستا کھیلتا رہتا ہوں  زندگی کو کھل کر جیتا ہوں  مجھے مسکرانے کی عادت ہے  اس دن بھی میں یونہی اکیلا تھا  وہی گرد مرے لوگوں کا میلہ تھا  ایک عام سی لڑکی ملی مجھے  مجھے ملنے ملانے کیا عادت ہے وہ بات بات پر ہنستی تھی  وہ ہنستی اچھی لگتی تھی  میں کھل کر ہنستا ہنساتا تھا  مجھے ہنسنے ہنسانے کی عادت ہے  وہ بات مری غور سے سنتی تھی  وہ اکثر چپ ہی رہتی تھی  میں مگر بولتا رہتا تھا  مجھے سب کہہ جانے کی عادت ہے  پھر جب میں تھک سا جاتا  اسکی بھی سنتا جاتا تھا  اس نے اپنے  دل کی کہنا شرو ع کیا  مجھے اپنا بن جانے کی عادت ہے وہ مجھکو اپنا ہمراز کہے  مجھے اپنا سمجھے میرے پاس رہے  وہ مجھ سے جھجکا کرتی تھی  مجھے حق جتانے کی عادت ہے  میں ساتھ اسکے ہی رہتا تھا  پل پل کی بپتا کہتا تھا  میں فارغ ت...

میں ایک شامی بچہ ہوں

میں ایک شامی بچہ ہوں ۔ مجھے ماں ایک کہانی سناتی ہے ایک قافلہ تھا کچھ مسلمانوں ۔۔۔یہاں جنگ کے بعد لٹ پٹ کر آیا تھا ۔۔۔جنگ میں اپنوں کو گنوا کر بس اسلام بچایا تھا ۔۔۔ ایک عرب کی شہزادی تھی سنا ہے یہ نبی زادی تھی۔۔۔ بے پردہ ہر شہر پھرای گئی ۔۔۔سنا ہے زلفوں سے منہ کو چھپاتی تھی بیتے ظلم بتاتی تھی خطبے دیتی جاتی تھی ۔۔ کوئی سنتا تھا برے غور سے کوئی ہنستا تھا ۔کوئی بیے خوفی سے جھٹلایے کوئی دل ہی دل میں ڈرتا تھا۔۔یہ قافلہ دکھوں سے امیر ہوا ۔۔۔ ایک شقی بادشاہ کے ہاتھوں اسیر ہوا۔۔۔ان اسیروں میں کچھ بچے تھے۔۔۔جنگ میں جانے کس طرح بچے تھے ۔۔۔ زنداں میں ماؤں کے پاس جاتے تھے ۔اپنے زخم دکھاتے تھے ۔۔۔ پوچھتے تھے کب ہونگے رہا ؟ ماؤں نے بہلانے کو ان سے کہا ؟ جب حق دلوں میں گھر کے جاےگا ہر مسلم ظلم کے خلاف اٹھ جاےگا ۔۔۔ پھر ایک وقت ایسا آیا مختار کوئی عرب سے اٹھ آیا ان یزیدیوں کو جہنم واصل کیا حسین کا پیغام پھیلایا مگر ماں میں نے ماں کی بات کاٹی مگر ماں جب ظلم کے بادل چھا تے تھے آل نبی پر سب ستم آزماتے تھے لوگ تب کیوں چپ رہ جاتے تھے ...