Showing posts with label iraq shaam war. Show all posts
Showing posts with label iraq shaam war. Show all posts

Saturday, December 23, 2017

بے بسی کہانی۔۔ be basi kahani

بے بسی کہانی
ایک بار ایک بڑا سا بحری جہاز جو مسافروں سے بھرا ہوا تھا بیچ سمندر میں جا کر ڈوبنے لگا۔۔
سب مسافروں میں بھگدڑ مچنے لگی سب کے اوسان خطا ہو گئے کوئی مددگار کشتیوں کو بلانے کے اشارے بھیجنے لگا کوئی جہاز میں موجود امدادی سامان جمع کرنے دوڑا کسی کو ڈوبنے سے بچنے کو جہاز میں موجود مددگار چھوٹی کشتی درکار تھی۔۔ کوئی بس ڈوبنے سے بچانے والی جیکٹ پہن کر مطمئن ہو چلا تھا۔۔
جہاز کا کپتان خاموشی سے بیٹھا سب کی افراتفریح دیکھ رہا تھا کسی سے رہا نہ گیا پہنچا اسکے پاس سخت سست سنانےلگا۔۔
تمہاری غلطی ہے جو جہاز ڈوب رہا کم از کم اب تو اسے بچانے کی کوشش کر لو ہاتھ پر ہاتھ دھرے مت بیٹھے رہو۔۔
کپتان خاموشی سے سنتا رہا۔۔
کچھ لوگ آگے بڑھے اور کسی کو سنبھالنے لگے
بجائے اسکے کپتان کو برا بھلا کہو اپنی مدد آپ کرو۔
وہ آدمی غصے سے چلایا۔
تم کچھ کرتے کیوں نہیں ہو؟۔۔
کپتان مبہم سا مسکرایا اور بے چارگی سے بولا۔۔
میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔
نتیجہ:کبھی کبھی زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جب آپ کچھ نہیں کر سکتے تو تب آپ واقعی کچھ نہیں کر سکتے ہوتے ہیں۔۔
از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, October 18, 2017

ایک سچی کہانی ...


ek sachi kahani...
africa k jungli qabailay k sardar k darjano betay thay darjano biwiyan theen...
un me say ek betay ka naam tha Proto co sholo...
us ne us ko chuna muhazib dunia me bhejnay k liye...
Proto co sholo ne taleem hasil ki...
aik achi job apni taleem ki bunyad pe hasil ki...
Proto co sholo say Sae tooti bun gaya...
phr wapis laut aya...
wehan sab say pehlay usay sardar bunna tha...
us k liye us k jisam pe kae tatoo khudwaye gayay... kaan me balay dalay...
jungli pato k banaye gayay libas say arasta kia...
ek adad gayay (cow) ko zibah ker k uska khoon pilaya gaya...
us ne khushi khushi yeh sab kam kiye...
wo sardar bun gaya tha...
wo un jesa lagnay laga tha...
uska baap khush tha...
us k alfaz ...
me janta tha mera yeh beta wapis zarur ayga ...
Moral : Proto co sholo say Sai tooti ka safar zarur kero...
mager Sai tooti say Proto co sholo bunna pery...
tau ek baar soch zarur lena...


ایک  سچی  کہانی ...
افریقہ  کے  جنگلی  قبیلے  کے سردار  کے  درجنوں   بیٹے  تھے  درجنو  بیویاں  تھیں ...
ان  میں  سے  ایک  بیٹے  کا  نام  تھا  پروٹو  کو  شولو ...
اس  نے  اس  کو  چنا  مہذب  دنیا  میں  بھیجنے  کے لئے ...
پروٹو  کو  شولو  نے  تعلیم  حاصل  کی ...
ایک  اچھی  جاب  اپنی  تعلیم  کی  بنیاد  پی  حاصل  کی ...
پروٹو  کو  شولو  سے  ساۓ ٹوٹی  بن  گیا ... 
پھر  واپس  لوٹ  آیا ...
وہاں  سب  سے  پہلے  اسے  سردار  بننا  تھا ...
اس  کے  لئے  اس  کے  جسم  پہ  کئی  ٹیٹو   بنوایے ... کان  میں  بالے  ڈالے ...
جنگلی  پتوں  کے  بنے  گیے  لباس  سے  آراستہ کیا ...
ایک  عدد گایے  کو  ذبح  کر  کے  اسکا  خون  پلایا  گیا ...
اس  نے  خوشی  خوشی  یہ  سب  کم  کے ...
وہ  سردار  بن  گیا  تھا ...
وہ  ان  جیسا  لگنے  لگا  تھا ...
اسکا  باپ  خوش  تھا ...
اس  کے  الفاظ  ...
میں  جانتا  تھا  میرا  یہ  بیٹا  واپس  ضرور  آیگا ...
نتیجہ  : پروٹو  کو  شولو  سے  سائ ٹوٹی  کا  سفر  ضرور  کرو ...
مگر  سائ   ٹوٹی  سے  پروٹو  کو  شولو  بننا  پڑی ...
تو  ایک  بار  سوچ  ضرور  لینا ...
از قلم ہجوم تنہائی

Friday, September 22, 2017

بنیان والے انکل کی کہانی


بنیان والے انکل  کی کہانی 
ایک تھے انکل 
ہر وقت بنیان پہنے رکھتے تھے  شلوار پہنتے تھے  مگر کبھی بھی قمیض میں نظر نہیں آتے تھے 
جانے کیا وجہ تھی 
صبح اچھے بھلے پورے کپڑے پہن کر دفتر جاتے تھے ،مگر واپس گھر آتے اور قمیض اتار دیتے ہم بچے کافی حیران ہوتے تھے کتنے بے شرم انکل ہیں ایکدن وہ انکل نہا کر ٹیرس پر آگیے 
ہم نے انکو دیکھا اور ہم اندر کمرے میں گھس گیے 
کیونکہ اس بار وہ صرف تولیہ پہن کر باہر آگیے تھے 
اور ٹیرس پر وائپر لگانے لگ گیے 
نتیجہ : بےشرمی کی ہائٹ


از قلم ہجوم تنہائی

کوئی کہانی


کوئی کہانی 
ایک تھا کوئی 
اب تھا نہ کوئی 
اسکو کوئی کوئی ہی پسند کرتا تھا 
ایک دن کوئی نے سوچا 
کیوں نہ کوئی ایسا کام کرے کہ کوئی کوئی نہیں سب اسے پسند کرنے لگیں 
سو سوچتا رہا کوئی 
اسے سوچتے دیکھ کر کوئی ہنس پڑااور بولا 
کوئی سوچتا تھوڑی ہے کہ کوئی ایسا کیا کام کرے کہ سب پسند کرنے لگیں 
کوئی نے اس سے کہا 
کوئی تو سوچے گا نا کبھی کہ کوئی اچھا کام کر ہی لے جسے سب پسند کریں 
نتیجہ : اچھا کام کرنے کا سوچتا بھی کوئی کوئی ہے 

از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, September 20, 2017

گوہر شناش کہانی



گوہر شناش کہانی 

ایک تھا بندر اسے سرا ہے جایے جانے کا شوق تھا 
ہر وقت اچھالتا کودتا الٹی سیدھی حرکتیں کرتا مگر کوئی بندر توجہ  نہ دیتا 
 ایک دن وہ دریا کنارے درخت پر چڑھ کر  اپنے پیٹ سے جویں چن کر کھا رہا تھا 
اس نے دیکھا ایک آدمی درخت پر چڑھا اسکی جویں کھاتے ویڈیو بنا رہا تھا 
بندر بڑا خوش ہوا بڑے انداز سے اپنی ویڈیو بنوائی تصویریں کھنچواتا رہا 
آدمی مسکرایا بندر ہے اگر آدمی ہوتا تو اپنی اتنی تصویریں کھنچوانے پر معاوضہ طلب کر لیتا خیر 
اس نے اس بندر سے دوستی کر لی اسے اپنے ساتھ لے گیا 
پھر جہاں جہاں جاتا بندر کو ساتھ لے کر جاتا بندر کوٹ پہن کر خوب بابو بن کر جاتا اسکو آدمی نے مزید کرتب سکھا دے وہ ہاتھ ملا کر سلام کرتا ہنستا حال احوال پوچھ لیتا اشارے کر کے بندر مشھور  گیا اسے سب سراہتے حوصلہ افزائی کرتے 
آدمی اپنے فن پارے دکھاتا کسی کسی تصویریں لی ہیں میں نے کیسے اسکو سب سکھایا 
مگر لوگ توجہ نہیں دیتے بس بندر بندر کرتے رہتے 
بندر مغرور ہوگیا اس نے آدمی کو جوتے کی نوک پر رکھنا شروع کر دیا بات نہ مانتا یہاں تک کے اسے چھوڑ کر چلا گیا 
آدمی اداس ہوا دوبارہ جنگل میں جا کر نیے سرے سے تصویریں بنانے لگا اس بار وہ درختوں پر چڑھتا کودتا پھاندتا  دیگر جانوروں کی تصویریں بنا رہا تھا کچھ بندر اسکی پھرتی  دیکھ کر بڑے حیران ہوئے 
کتنا قابل آدمی ہے اپنا توازن برقرار رکھتے کتنے مزے سے جیسے اڑتا پھر رہا  بندر ہوتا تو ہم اسکو سر آنکھوں پر بٹھاتے 

نتیجہ : انسان اور بندر میں ایک بات مشترک ہے نا قدرے ہوتے 
از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, September 19, 2017

بطخ کہانی


بطخ کہانی 

ایک تھی بطخ
قین قین کرتی پھرتی
قین قین سریلی سی آواز میں کرتی تھی
اس نے سوچا وہ سب بطخوں کو جمع کر کے کونسرٹ کرے 
اس نے جمع کیا سب کو قین قین شروع کر دی
بطخوں کو پسند آئی
اب روز بطخیں جمع ہوتیں اور قین قین سنتیں
ایک دن بطخ کا موڈ نہیں تھا اس نے قین قین نہیں کی
بطخوں نے غصے سے اسے گنجا کر دیا
اب وہ جہاں جاتی سب کہتے
وہ دیکھو گنجی بطخ
سب بھول گیے تھے کے وہ اچھی قین قین کرتی تھی
نتیجہ : گنجے لوگوں کی کوئی قدر نہیں کرتا
از قلم ہجوم تنہائی

Sunday, September 17, 2017

تھوک کہانی



تھوک کہانی 

ایک بچے کو تھوکنے کی عادت تھی ہر وقت ہر جگہ پڑھتے کھاتے پیتے کسی سے بات کرتے سائیڈ پر تھوک دیتا تھا 
ایک دن اس نے فیس بک استمعال کی استٹس اپ ڈیٹ کیا اور سکرین پر سٹیٹس کی جگہ پر کھنکارا اور تھوک دیا 
نتیجہ : تھوکنے سے سٹیٹس گیلا نہیں ہوتا موبائل ہو جاتا 

از قلم ہجوم تنہائی

Friday, August 11, 2017

الفاظ کہانی


الفاظ کہانی
ایک بار کسی کو کچھ لفظ دانت کاٹ گیے 
تکلیف سے دہرا ہو گیا گھایل من ہوا مرنے کو آگیا 
کسی نے مشورہ دیا بےحسی کے ٹیکے لگواؤ مگر زیادہ نا لگوانا 
اس نے بےحسی کے ٹیکے لگوایے درد کم ہوا اسے درد سے نجات چاہیے تھی بار بار لگواتا رہا یہاں تک کہ خود بے حس ہو گیا 
اب اسکے الفاظ دوسروں کے دل توڑتے ہیں مگر وہ خوش رہتا ہے 
...
نتیجہ : دل نہ توڑیں امرود توڑ لیں

از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, July 20, 2017

میں ایک کھلنڈرا سا لڑکا ہوں


یہ ایک عام سی کہانی ہے 
سن کر یاد بھی نہ رہ جانی ہے اگر وقت ہے تو سن لینا 
مجھے کہہ  جانے کی عادت ہے 
میں ایک کھلنڈرا سا لڑکا ہوں 
میں ہنستا کھیلتا رہتا ہوں 
زندگی کو کھل کر جیتا ہوں 

مجھے مسکرانے کی عادت ہے 

اس دن بھی میں یونہی اکیلا تھا 
وہی گرد مرے لوگوں کا میلہ تھا 
ایک عام سی لڑکی ملی مجھے 
مجھے ملنے ملانے کیا عادت ہے
وہ بات بات پر ہنستی تھی 
وہ ہنستی اچھی لگتی تھی 
میں کھل کر ہنستا ہنساتا تھا 

مجھے ہنسنے ہنسانے کی عادت ہے 

وہ بات مری غور سے سنتی تھی 
وہ اکثر چپ ہی رہتی تھی 
میں مگر بولتا رہتا تھا 

مجھے سب کہہ جانے کی عادت ہے 

پھر جب میں تھک سا جاتا 
اسکی بھی سنتا جاتا تھا 
اس نے اپنے  دل کی کہنا شرو ع کیا 

مجھے اپنا بن جانے کی عادت ہے

وہ مجھکو اپنا ہمراز کہے 
مجھے اپنا سمجھے میرے پاس رہے 
وہ مجھ سے جھجکا کرتی تھی 
مجھے حق جتانے کی عادت ہے 
میں ساتھ اسکے ہی رہتا تھا 
پل پل کی بپتا کہتا تھا 
میں فارغ تھا ہاں ان دنوں 

مجھے وقت بتانے کی عادت ہے 

پھر مجھے کچھ اہم کام پڑا
لاپروا ہ پھر مرا نام پڑا 
وہ مجھ سے روٹھ بھی جانے لگی 
اسے مری بے رخی ستانے لگی 
تھوڑا اکڑا میں پھر بھی اسے منا لیا 

مجھے روٹھے ہوؤں کو منانے کی عادت ہے

میری سخت نگاہ سے بھی وہ 
نینوں کو بھرنے لگتی ہے
مری بری بھلی سہنے لگی ہے 
وہ کچھ خاموش رہنے لگی ہے 
میں تو بیزار ہو جاتا ہوں 

مجھے کہتے جانے کی عادت ہے 

میں چاہتا تو نہیں تھا اسے رلانا 
مگر ضروری تھا اسے سچائی بتانا 
وہ تو عام سی لڑکی ہے 
جو ہنستی اچھی لگتی ہے
میں تو کھلنڈرا سا لڑکا ہوں 
ہنستا کھیلتا رہتا ہوں 
اچھے تھے وہ پل جب ہم ساتھ رہی 
وہ دوست اہم ہے مرے ساتھ رہے 
تم مری بات سنو اسے سمجھانا 
مجھے اس دوستی کو مزید نہیں بڑھانا 
میں  نیے نیے  دوست بناتا ہوں 

مجھے دوست بنانے کی عادت ہے 


از قلم ہجوم تنہائی

Monday, July 17, 2017

میں ایک شامی بچہ ہوں

میں ایک شامی بچہ ہوں ۔
مجھے ماں ایک کہانی سناتی ہے
ایک قافلہ تھا کچھ مسلمانوں ۔۔۔یہاں جنگ کے بعد لٹ پٹ کر آیا تھا ۔۔۔جنگ میں اپنوں کو گنوا کر بس اسلام بچایا تھا ۔۔۔
ایک عرب کی شہزادی تھی سنا ہے یہ نبی زادی تھی۔۔۔
بے پردہ ہر شہر پھرای گئی ۔۔۔سنا ہے زلفوں سے منہ کو چھپاتی تھی بیتے ظلم بتاتی تھی خطبے دیتی جاتی تھی ۔۔
کوئی سنتا تھا برے غور سے کوئی ہنستا تھا ۔کوئی بیے خوفی سے جھٹلایے کوئی دل ہی دل میں ڈرتا تھا۔۔یہ قافلہ دکھوں سے امیر ہوا ۔۔۔
ایک شقی بادشاہ کے ہاتھوں اسیر ہوا۔۔۔ان اسیروں میں کچھ بچے تھے۔۔۔جنگ میں جانے کس طرح بچے تھے ۔۔۔
زنداں میں ماؤں کے پاس جاتے تھے ۔اپنے زخم دکھاتے تھے ۔۔۔
پوچھتے تھے کب ہونگے رہا ؟
ماؤں نے بہلانے کو ان سے کہا ؟
جب حق دلوں میں گھر کے جاےگا ہر مسلم ظلم کے خلاف اٹھ جاےگا ۔۔۔
پھر ایک وقت ایسا آیا مختار کوئی عرب سے اٹھ آیا
ان یزیدیوں کو جہنم واصل کیا حسین کا پیغام پھیلایا
مگر ماں میں نے ماں کی بات کاٹی
مگر ماں جب ظلم کے بادل چھا تے تھے
آل نبی پر سب ستم آزماتے تھے
لوگ تب کیوں چپ رہ جاتے تھے
کیوں نہیں ان ظالموں کو مٹاتے تھے ؟
مان نے گہری سانس بھری
بیٹا وہ وقت اور ہوا کرتا تھا
نہ ٹی وی تھا نہ نیٹ نہ سفر آسان ہوا کرتا تھا
آل نبی پر قیامت جب بپا ہوتی تھی
امّت تب انکے حال سے انجان ہوتی تھی
کچھ یزید سے ڈرتے تھے دب جاتے تھے
کچھ یزید کے حامی تھے صحابی تک که جاتے
کچھ لڑے بھی تو تھے حسین کے ساتھ مل کر
جنھیں یاد تھا امر بلا المعروف اور نہی منکر
بس وہ لوگ تھوڑے ہوتے ہیں
جنہوں نے دنیا سے دل موڑے ہوتے ہیں
ماں حالات اب بھی تو یہی ہووے جاتے ہیں
کیا اب بھی لوگ ہمارا احوال نہ جان پاتے ہیں
شہزادی کو رلانے والے آج تک اسکا مزار ہیں ڈھاتے
حسین کے دشمن آج بھی ہیں کیوں مسلمان کہلاتے
چلو چھوڑو سب مجھے بس اتنا تم بتانا
میں شیعہ ہوں یا سنی کہ میں حسین کا ہوں دیوانہ
مجھے ان میں سے آخر کون بچانے ہے آئےگا
جو آیگا وہ کیا زینب کا مزار بھی بچاے گا
مرے سوال الجھاتے ہیں کیا سمندر کی لہروں سے بھی زیادہ؟
میں ڈوبتا ہوں ان میں مجھے جواب دینا تھوڑا سا سادہ
اچھا ماں یہ بتانا کیسے ڈٹ جاتے ہیں ؟
اور وہ لوگ کیسے ہوتے ہیں جو سامنے سے ہٹ جاتے ہیں ؟
ماں نے پھر گہری سانس بھری
پہلے سوچا پھر کچھ که پڑی
بیٹا نام حسین کا سنتے ہیں ڈٹ جاتے ہیں
یزید کے نام پر اٹکتے ہیں بٹ جاتے ہیں

جواب ملا مجھے اب جنّت میں جا کے سمجھ پاؤں گا
میں آج کسی ساحل سے لاش بن کے اٹھ جاؤں گا
میں ایک شامی بچہ تھا

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen