نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

muslims لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

بے بسی کہانی۔۔ be basi kahani

بے بسی کہانی ایک بار ایک بڑا سا بحری جہاز جو مسافروں سے بھرا ہوا تھا بیچ سمندر میں جا کر ڈوبنے لگا۔۔ سب مسافروں میں بھگدڑ مچنے لگی سب کے اوسان خطا ہو گئے کوئی مددگار کشتیوں کو بلانے کے اشارے بھیجنے لگا کوئی جہاز میں موجود امدادی سامان جمع کرنے دوڑا کسی کو ڈوبنے سے بچنے کو جہاز میں موجود مددگار چھوٹی کشتی درکار تھی۔۔ کوئی بس ڈوبنے سے بچانے والی جیکٹ پہن کر مطمئن ہو چلا تھا۔۔ جہاز کا کپتان خاموشی سے بیٹھا سب کی افراتفریح دیکھ رہا تھا کسی سے رہا نہ گیا پہنچا اسکے پاس سخت سست سنانےلگا۔۔ تمہاری غلطی ہے جو جہاز ڈوب رہا کم از کم اب تو اسے بچانے کی کوشش کر لو ہاتھ پر ہاتھ دھرے مت بیٹھے رہو۔۔ کپتان خاموشی سے سنتا رہا۔۔ کچھ لوگ آگے بڑھے اور کسی کو سنبھالنے لگے بجائے اسکے کپتان کو برا بھلا کہو اپنی مدد آپ کرو۔ وہ آدمی غصے سے چلایا۔ تم کچھ کرتے کیوں نہیں ہو؟۔۔ کپتان مبہم سا مسکرایا اور بے چارگی سے بولا۔۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔ نتیجہ:کبھی کبھی زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جب آپ کچھ نہیں کر سکتے تو تب آپ واقعی کچھ نہیں کر سکتے ہوتے ہیں۔۔ از قلم ہجوم تنہائی

SHORT URDU STORY

از قلم ہجوم تنہائی

ہائے روہنگیا Rohingya people

ہائے روہنگیا اسکی فیس بک بھری تھی۔۔ اسکی ٹائم لائن پر جائو تو رونگٹے کھڑے کر دینے  والے مراسلے تھے۔۔ خون لاشیں ظلم بربریت۔۔ کہیں ٹکڑے ٹکڑے جسم تھے کہیں معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کرتے جابر شقی۔۔ وہ آن لائن تھا۔۔ اس نے فورا اسے پیغام بھیجا۔۔ یہ کیا بھیج رہے ہو دل خراب ہوگیا۔۔ جہادی نامی آئی ڈی نے فورا جواب دیا تھا۔۔ یار یہ برما کی تصاویر ہیں۔ دیکھو کتنا ظلم ہو رہا بربریت کی انتہا ہے مسلمانوں کو چیونٹی کی طرح مسل رہے ہیں۔۔ عورتوں بچوں کو بھی نہیں چھوڑ رہے شقی۔۔ اوہ۔۔ اس کو یاد آیا۔۔ عالمی برادری بھی اس مسلے پر آواز اٹھا رہی تھی۔۔ صحیح۔۔ اس نے بس اتنا ہی ٹائپ کرکے بھیجا آگے سے فوری جواب آیا۔۔ تم بھی شیئر کر و نا ۔۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس ظلم کی اطلاع پہنچے۔ یار ہم مسلمان ایک ہو جائیں تو مجال ہے دنیا ہمارا کچھ بگاڑ لے۔ ہمم۔۔ اس نے سوچا اور شئیر کر دیا۔۔ اسے فوری اطلاع آئی۔۔ جہادی نے آپکے اشتراک کیئے گئے مراسلے کو پسند کیا۔۔ پھر شائد اس نے اسکی پوری ٹائیم لائن کے ہر مراسلے کو پسند کرنا شروع کیا۔۔ جہادی نے آپکے جون میں اشتراک کیے گیے مراسلے پر تبصرہ کیا ہے۔۔ اسکو نئی اطلاع ...

قنوطی کہا نی

قنوطی کہا نی ایک بار ایک قنوطی اکیلا بیٹھا وقت گزاری کے لئے اچھا اچھا سوچنے لگا جیسے کہ وہ آج اداس نہیں ہے خوش ہے وغیرہ وغیرہ پھر اس نے قنوطیت سے سوچا  یہ سب تو میں نے سوچا ہی ہے بس نتیجہ : خود سوچیے از قلم ہجوم تنہائی

خاک کہانی

خاک کہانی ایک بار انمول سا کوئی خود کو تول بیٹھا آگاہی کے در انجانے میں کھول بیٹھا  چھوٹےپڑ گئے پیمانے سارے۔۔۔ گن ۔۔۔ گن گن ہارے سارے  خزانے خالی ہوگئےدنیا کے ایسے  مول نہ مل سکے انمول کے جیسے  ۔۔۔ قدرت کے کارخانے میں فخر سے پیش کر بیٹھا خودی۔۔۔ اس مقام نے  اسکی قسمت رولدی  پھر کسی نے دیکھا انمول کو رلتےخود شناسی کی آگ میں جلتے  در در کی خاک چھانتے تڑپتے بلکتے سسکتے  ترس کھا کر احوال تھا پوچھا  پچھتایا بھی پھر کیوں پوچھا  انمول کہاں انمول تھا رہا جانے کیا بیتی مجلول تھا ہو رہا خاک اڑاتا ستمرسیدہ تلاشتا تھا خلا میں عکس نادیدہ  سوال نے اسکے ٹھٹکایا یوں دیکھا اسے جیسے سمجھ نہ پایا  استہزائیہ ہنسا پھر بولا میں وہ ہوں جس نے خود کو خود ہی رولا انمول سمجھا پھر خود کو تولا  کسی کو تجسس نے تھا آگھیرا پوچھا پھر  یہ کیسا گردش کا گھیرا جان لینے کے سنا ہے سخت عزاب ہیں ہوتے سہہ جانےوالے کم اور گوہر نایاب ہیں ہوتے  مٹی ہوئے کہ کندن اپنا حال بتائو بے مول ٹھہر ے کہ انمول اپنا خیال بتائو  انم...

مٹی مٹی سن مٹی

من مٹی تن مٹی ،مٹی مٹی سن مٹی  مٹی بن مٹی سے بنا رکھ تو ککھ نہیں بن مٹی مٹی مٹی پوشاک کر خاک کر پاک کر  مٹی پر رکھ دے سر خود پر کر احسان بن مٹی برتر ہے مغرور ہے طاقت کے نشے میں چور ہے  آزاد کر روح جسم سے پھر جان اوقات اپنی بن مٹی تلاش زندگی کی ہے آسمانوں میں کہکشاؤں میں قبضے میں اپنی بھی جان نہیں جان لے بس بن مٹی کسی نے جلا کے راکھ کی کسی نے بنا خوراک دی کوئی مٹی اڑا رہا سمجھو تو مٹی پلید ہے بن مٹی مٹی تماشا سج گیا چند ثانیے جو تنہائی ہے ملی  ایک ہجوم منتظر ہے انجام کو مرے چل بھئی اب بن مٹی از قلم ہجوم تنہائی

چرواہا کہانی

Syeda Vaiza Zehra January 5, 2015  ·  چرواہا کہانی ایک تھا چرواہا اس کا ایک ریوڑ تھا اس میں ٢٥ بکریاں ١٥ دنبے ١٨ گایے دو کتے تھے کتوں کا کام ریوڑ کی حفاظت کرنا تھا  ایک کتے کو کتاپا سوجھا دوسرے سے بولا بکریاں اور گایے تو ٹھیک ہے ہم دنبوں کی حفاظت کیوں کریں عجیب سے ہیں دوسرا کتا متفق تو نہیں تھا مگر چپ رہا پہلے کتے نے دنبوں کو کاٹنا شروع کر دیا دانت مارتا دنبے سخت جان تھے ایک دو تو بیمار پڑے پھر انہوں نے جوابا کاٹنے کی کوشش کی مگر ایک تو دنبہ معصوم جانور ہوتا دانت بھی نہیں مار پاتے خیر ایک دنبے مر گیے چرواہا نے کہا چلو خیر ہے ابھی ١٢ دنبے باقی ہیں اب کتے کو عادت بھی پڑ گئی تھی اس نے گائے کو بھی کاٹنا شروع کیا ایک دو گایے بھی مر گئیں کتے نے بکریوں کو کاٹنا شروع کیا وہ سب سے کم جان تھیں ایک دو نہیں دس بکریاں اس کے کاٹنے سے مر گئیں چرواہے کو ہوش آیا اس نے سوچا کتے کو مار دے اس نے فیصلہ کیا تو بکریوں گایوں دنبوں سب نے حمایت کی مگر دوسرے کتے نے کہا ٹھیک ہے اس نے بکریاں مار دیں مگر گایے اور بکریاں اب نہیں ماریں گے لیکن دنبوں کو مارنے دیں چرواہا حیران ...

الٹی کہانی

الٹی کہانی ایک تھا سارس مچھلی کھا رہا تھا مچھلی اس کے حلق میں پھنس گئی بڑا پریشان ہوا کچھوے کے پاسس گیا  اس نے کہا ایسا کرو تم بی بطخ کے پاسس جو ان کے پاس ضرور کوئی حل ہوگا بی بطخ کے پاس آیا ماجرا کہ سنایا بی بطخ نے سوچا پھر ایک تب منگوایا اس میں الٹی کی اب کہا پانچ خشکی کے جانور بلا کے لاؤ زیبرا آیا اس سے بھی الٹی کروائی لومڑی کچھوا خرگوش پھدکتا آیا بولا میںنے بھی کرنی ہے اس نے بھی کی بی بطخ نے اس میں چمچ چلایا کسی جانور نے کیچوے کھایے تھے ہضم نہ ہے تھے وہ الٹی میں جاگ کے تیرنے لگے بی بطخ نے ایک چمچ بھرا اور سارس کے منہ کے پاسس لا کر کہا لو اسے کھا لو سارس نے دیکھا گھاس کا ملیدہ گاجر کے ٹکڑے سمندری کیڑوں کا لیس اور ان پر تیرتے کیچوے ابھی دیکھ رہا تھا کے بندر آیا اور اس نے بھی بالٹی میں جھانک کے الٹی کر دی وہ ویسے کیلا کھا کے آیا تھا نتیجہ : کیا ہوا؟ الٹی آگئی؟ سارس کو بھی آ گئی تھی  از قلم ہجوم تنہائی

شاعری کون کرتا ہے

تھکن سے شل وجود اپنی روح کا بوجھ اتار لیتے ہیں لفظ لفظ بیچتے ہیں جذبات اپنے شاعری کون کرتا ہے بے ٹھکانہ ہیں دنیا کونا بھی نہیں دیتی ٹک جانے کو سستاتے ہیں ، نہیں ستاتے پھر بھی عزت ہماری کون کرتا ہے چند کوس کا فاصلہ تھا بفضل نصیب دور ہوا ہم پیدل ہی گامزن ہیں اپنی منزل کو کہ بن کرایا سواری کون کرتا ہے دشمن گنے نام اپنے سوا کسی ایک کا نہ پا سکے دوست خود اپنے ہی ہیں کہ اس مزاج کے ساتھ ہم سے یاری کون کرتا ہے پتا کیا بتائیں بدل کر بھی بدلا نہیں ہم ٹھہرے ہیں خود میں کہ اپنے سوا ہم سے ملنے کی خواری کون کرتا ہے سوال بھی خود سے کیا تنہائی نے جواب بھی خود دے دیگی کہنے کو ہجوم ہمہ تن گوش ہے لیکن سن سن اپنا ہی سر بھاری کون کرتا ہے کلام ہجوم تنہائی

میں ایک شامی بچہ ہوں

میں ایک شامی بچہ ہوں ۔ مجھے ماں ایک کہانی سناتی ہے ایک قافلہ تھا کچھ مسلمانوں ۔۔۔یہاں جنگ کے بعد لٹ پٹ کر آیا تھا ۔۔۔جنگ میں اپنوں کو گنوا کر بس اسلام بچایا تھا ۔۔۔ ایک عرب کی شہزادی تھی سنا ہے یہ نبی زادی تھی۔۔۔ بے پردہ ہر شہر پھرای گئی ۔۔۔سنا ہے زلفوں سے منہ کو چھپاتی تھی بیتے ظلم بتاتی تھی خطبے دیتی جاتی تھی ۔۔ کوئی سنتا تھا برے غور سے کوئی ہنستا تھا ۔کوئی بیے خوفی سے جھٹلایے کوئی دل ہی دل میں ڈرتا تھا۔۔یہ قافلہ دکھوں سے امیر ہوا ۔۔۔ ایک شقی بادشاہ کے ہاتھوں اسیر ہوا۔۔۔ان اسیروں میں کچھ بچے تھے۔۔۔جنگ میں جانے کس طرح بچے تھے ۔۔۔ زنداں میں ماؤں کے پاس جاتے تھے ۔اپنے زخم دکھاتے تھے ۔۔۔ پوچھتے تھے کب ہونگے رہا ؟ ماؤں نے بہلانے کو ان سے کہا ؟ جب حق دلوں میں گھر کے جاےگا ہر مسلم ظلم کے خلاف اٹھ جاےگا ۔۔۔ پھر ایک وقت ایسا آیا مختار کوئی عرب سے اٹھ آیا ان یزیدیوں کو جہنم واصل کیا حسین کا پیغام پھیلایا مگر ماں میں نے ماں کی بات کاٹی مگر ماں جب ظلم کے بادل چھا تے تھے آل نبی پر سب ستم آزماتے تھے لوگ تب کیوں چپ رہ جاتے تھے ...