Showing posts with label shaheed aizaz. Show all posts
Showing posts with label shaheed aizaz. Show all posts

Monday, October 16, 2017

یہ وہ کہانی




یہ وہ کہانی 
ایک تھا یہ 
ایک تھا وہ 
یہ وہ نہیں تھا 
وہ یہ نہیں تھا
یہ کو وہ پسند نہیں تھا 
وہ کو کونسا پسند تھا یہ 
ایک دن یہ کو وہ ہو گیا وہ کو یہ ہو گیا وہ یہ کرنے لگا یہ وہ کرنے لگا 
اور کرتے کرتے یونہی وہ یہ بن گیا وہ یہ 

Thursday, September 21, 2017

ضرورت کہانی

ضرورت کہانی 

ایک تھی ضرورت بہت کمینی تھی ہر وقت خواہش کو مارتی رہتی تانگ کرتی رہتی تھی کبھی پورا نہیں ہونے دیتی تھی ہمیشہ آگے آجاتی تھی 
ایک بار روتی آئی اور خواہش سے بولی 
تم مر جاؤ 
ابھی خواہش سوچ ہی رہی تھی کیا جواب دوں ضرورت نے اسکا گلہ گھونٹ دیا 
مشہور ہوگیا خواہش نے خود کشی کر لی 
نتیجہ : خواہش معصوم ہوتی ہے 

از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, September 20, 2017

گوہر شناش کہانی



گوہر شناش کہانی 

ایک تھا بندر اسے سرا ہے جایے جانے کا شوق تھا 
ہر وقت اچھالتا کودتا الٹی سیدھی حرکتیں کرتا مگر کوئی بندر توجہ  نہ دیتا 
 ایک دن وہ دریا کنارے درخت پر چڑھ کر  اپنے پیٹ سے جویں چن کر کھا رہا تھا 
اس نے دیکھا ایک آدمی درخت پر چڑھا اسکی جویں کھاتے ویڈیو بنا رہا تھا 
بندر بڑا خوش ہوا بڑے انداز سے اپنی ویڈیو بنوائی تصویریں کھنچواتا رہا 
آدمی مسکرایا بندر ہے اگر آدمی ہوتا تو اپنی اتنی تصویریں کھنچوانے پر معاوضہ طلب کر لیتا خیر 
اس نے اس بندر سے دوستی کر لی اسے اپنے ساتھ لے گیا 
پھر جہاں جہاں جاتا بندر کو ساتھ لے کر جاتا بندر کوٹ پہن کر خوب بابو بن کر جاتا اسکو آدمی نے مزید کرتب سکھا دے وہ ہاتھ ملا کر سلام کرتا ہنستا حال احوال پوچھ لیتا اشارے کر کے بندر مشھور  گیا اسے سب سراہتے حوصلہ افزائی کرتے 
آدمی اپنے فن پارے دکھاتا کسی کسی تصویریں لی ہیں میں نے کیسے اسکو سب سکھایا 
مگر لوگ توجہ نہیں دیتے بس بندر بندر کرتے رہتے 
بندر مغرور ہوگیا اس نے آدمی کو جوتے کی نوک پر رکھنا شروع کر دیا بات نہ مانتا یہاں تک کے اسے چھوڑ کر چلا گیا 
آدمی اداس ہوا دوبارہ جنگل میں جا کر نیے سرے سے تصویریں بنانے لگا اس بار وہ درختوں پر چڑھتا کودتا پھاندتا  دیگر جانوروں کی تصویریں بنا رہا تھا کچھ بندر اسکی پھرتی  دیکھ کر بڑے حیران ہوئے 
کتنا قابل آدمی ہے اپنا توازن برقرار رکھتے کتنے مزے سے جیسے اڑتا پھر رہا  بندر ہوتا تو ہم اسکو سر آنکھوں پر بٹھاتے 

نتیجہ : انسان اور بندر میں ایک بات مشترک ہے نا قدرے ہوتے 
از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, September 13, 2017

SHORT URDU STORY

از قلم ہجوم تنہائی

بگلا کہانی


از قلم ہجوم تنہائی

موت اندھیرے سائے سی۔


موت اندھیرے سائے سی۔۔
مجھے ڈراتی ہے۔۔ خطرے دکھاتی ہے۔۔ 
مجھے بتاتی ہے۔۔ 
وہ دیکھو مغرب سے اٹھتے 
لاوے کے بادل ہیں۔
یہ بادل تمہارے شہر پر برسیں گے۔۔
یہ آگ کی بارش ہے۔۔
برس جو اگر پائے گی۔۔
تو تجھے صرف جلائے گی۔۔
اگر تم ایسی بارش پائو۔۔
تو دور ہٹ جائو۔
چھپ جائو سائباں میں
یا دور ہٹ جائو۔۔
دیکھو تماشا اس میں بھیگنے والوں کا۔۔
تپش سے پگھلتے جسموں ۔
ان سے بہتی خون کی آبشاروں کا۔۔
یا اگر کچھ کرنا ہو تو۔۔
کوئی آہنی چھتری لے آئو۔
نہیں وہ کھول جائے گی۔۔ جب بارش کی تپش بڑھ جائے گی۔۔
تم سمندر لے آنا۔۔
اس آگ کو بجھا جانا۔۔ ۔مگر سمندر کیسے لائو گے؟
وہ رک کر ہنستی ہے
چھوڑو۔۔
تم ایسا کرو۔۔
ارے تم۔یہ کیا کرتے ہو۔۔
کسی پگھلتے نفس کو بچانے کیا آگ میں کود پڑتے ہو۔۔
تم مجنون ہوئے ہو کیا۔۔
تم نے تپتی برستی آگ کی بوندیں خود پر لے لیں؟
تم تو مررہے ہو ۔۔
یہ کس کو بچایا ہے؟
کیا جانتے بھی ہو اسے۔۔
موت حیران بھی ہوئی
مگر۔۔
کیا تم یہ جانتے تھے ذی نفس۔۔
موت جو تم پر کھڑی ہنستی تھی۔۔
اب تم سے لپٹ کر روتی ہے۔۔
کہ
تم جلتے رہے ۔۔
پگھلتے رہے
مگر مر نہیں پائے۔۔
تم اپنے اس فعل سے
امر ہوگئے



از قلم ہجوم تنہائی

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen