Posts

Showing posts with the label 1965 pakistan india war

چرواہا کہانی

چرواہا کہانی ایک تھا چرواہا اس کا ایک ریوڑ تھا  اس میں ٢٥ بکریاں ١٥ دنبے ١٨ گایے دو کتے تھے  کتوں کا کام ریوڑ کی حفاظت کرنا تھا  ایک کتے کو کتاپا سوجھا دوسرے سے بولا بکریاں اور گایے تو ٹھیک ہے ہم دنبوں کی حفاظت کیوں کریں عجیب سے ہیں  دوسرا کتا متفق تو نہیں تھا مگر چپ رہا  پہلے کتے نے دنبوں کو کاٹنا شروع کر دیا دانت مارتا دنبے سخت جان تھے  ایک دو تو بیمار پڑے پھر انہوں نے جوابا کاٹنے کی کوشش کی مگر ایک تو دنبہ معصوم جانور ہوتا دانت بھی نہیں مار پاتے  خیر ایک دنبے مر گیے چرواہا نے کہا چلو خیر ہے ابھی ١٢ دنبے باقی ہیں  اب کتے کو عادت بھی پڑ گئی تھی اس نے گائے کو بھی کاٹنا شروع کیا  ایک دو گایے بھی مر گئیں کتے نے بکریوں کو کاٹنا شروع کیا وہ سب سے کم جان تھیں  ایک دو نہیں دس بکریاں اس کے کاٹنے سے مر گئیں چرواہے کو ہوش آیا  اس نے سوچا کتے کو مار دے  اس نے فیصلہ کیا تو بکریوں گایوں دنبوں سب نے حمایت کی مگر دوسرے کتے نے کہا ٹھیک ہے اس نے بکریاں مار دیں مگر گایے اور بکریاں اب نہیں ماریں گے لیکن دنبوں کو مارنے دیں  ...

بنیان والے انکل کی کہانی

بنیان والے انکل  کی کہانی  ایک تھے انکل  ہر وقت بنیان پہنے رکھتے تھے  شلوار پہنتے تھے  مگر کبھی بھی قمیض میں نظر نہیں آتے تھے  جانے کیا وجہ تھی  صبح اچھے بھلے پورے کپڑے پہن کر دفتر جاتے تھے ،مگر واپس گھر آتے اور قمیض اتار دیتے ہم بچے کافی حیران ہوتے تھے کتنے بے شرم انکل ہیں ایکدن وہ انکل نہا کر ٹیرس پر آگیے  ہم نے انکو دیکھا اور ہم اندر کمرے میں گھس گیے  کیونکہ اس بار وہ صرف تولیہ پہن کر باہر آگیے تھے  اور ٹیرس پر وائپر لگانے لگ گیے  نتیجہ : بےشرمی کی ہائٹ از قلم ہجوم تنہائی

پیار کہانی نمبر آٹھ

پیار کہانی نمبر آٹھ ایک بار ایک شرارتی سا بچہ سائکل پر ون ویلنگ کرتا  جا رہا تھا  سامنے سے ایک بچی ٹیڈی بار لئے چلتی آ رہی تھی  بچے سے سائکل کا توازن بگڑا وہ اس بچی سے ٹکرا گیا  سائکل کا ہینڈل بچی کے منہ پر لگا اسکے آگے کے دونوں دانت ٹوٹ گیے  وہ رونے لگی  بچہ ڈھیٹ سا تھا اٹھا کپڑے جھاڑے بچی کے آنسو پونچھ کر کہنے لگا  مت فکر کرو جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو تم سے شادی کر لوں گا  بچی خوش ہو گئی  وقت گزرتا گیا دونوں بڑے ہو گیے  لڑکی اکثر آیئنے میں دیکھتی اپنے ٹوٹے دانت پر نذر ڈالتی اور مسکرا دیتی  لڑکا پڑھنے باہر چلا گیا  واپس آیا تو اسکی گوری سی بیوی اور بچہ بھی ساتھ تھے لڑکی دکھی ہو گئی اس سے پوچھا اس نے ایسا کیوں کہا لڑکا دکھی ہو کر کہنے لگا میں گاڑی چلا رہا تھا یہ میری گاڑی سے ٹکرا گئی تھی اوس اسکی تو ٹانگ ہی ٹوٹ گئی تھی  لڑکی نے معاف کردیا اسے  نتیجہ : بچپن میں آپ نہیں جانتے بڑے ہو کر کب اپکا کس سے ایکسیڈنٹ ہو جایے لہٰذا دانت ٹوٹنے پر دانتوں کے معالج سے رابطہ کر کے ںیی داڑھ  لگوا لینی چاہے  ...

SHORT URDU STORY

Image
از قلم ہجوم تنہائی

موت اندھیرے سائے سی۔

موت اندھیرے سائے سی۔۔ مجھے ڈراتی ہے۔۔ خطرے دکھاتی ہے۔۔  مجھے بتاتی ہے۔۔  وہ دیکھو مغرب سے اٹھتے  لاوے کے بادل ہیں۔ یہ بادل تمہارے شہر پر برسیں گے۔۔ یہ آگ کی بارش ہے۔۔ برس جو اگر پائے گی۔۔ تو تجھے صرف جلائے گی۔۔ اگر تم ایسی بارش پائو۔۔ تو دور ہٹ جائو۔ چھپ جائو سائباں میں یا دور ہٹ جائو۔۔ دیکھو تماشا اس میں بھیگنے والوں کا۔۔ تپش سے پگھلتے جسموں ۔ ان سے بہتی خون کی آبشاروں کا۔۔ یا اگر کچھ کرنا ہو تو۔۔ کوئی آہنی چھتری لے آئو۔ نہیں وہ کھول جائے گی۔۔ جب بارش کی تپش بڑھ جائے گی۔۔ تم سمندر لے آنا۔۔ اس آگ کو بجھا جانا۔۔ ۔مگر سمندر کیسے لائو گے؟ وہ رک کر ہنستی ہے چھوڑو۔۔ تم ایسا کرو۔۔ ارے تم۔یہ کیا کرتے ہو۔۔ کسی پگھلتے نفس کو بچانے کیا آگ میں کود پڑتے ہو۔۔ تم مجنون ہوئے ہو کیا۔۔ تم نے تپتی برستی آگ کی بوندیں خود پر لے لیں؟ تم تو مررہے ہو ۔۔ یہ کس کو بچایا ہے؟ کیا جانتے بھی ہو اسے۔۔ موت حیران بھی ہوئی مگر۔۔ کیا تم یہ جانتے تھے ذی نفس۔۔ موت جو تم پر کھڑی ہنستی تھی۔۔ اب تم سے لپٹ کر روتی ہے۔۔ کہ تم جلتے رہے ۔۔ پگھلتے رہے مگر مر نہیں پائے۔۔ تم اپنے اس فعل سے امر ہوگئے از قلم ہجوم ت...

کچھ کہانی

کچھ کہانی  ایک دفعہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔۔ نتیجہ : کچھ نہیں از قلم ہجوم تنہائی

بم کہانی

بم کہانی ایک بار ایک ہاتھی آرام سے بیٹھا تھا ایک بندر شر پسند کہیں کا اس کے پاس ٹائم بم رکھ گیا ہاتھی بیٹھا رہا پاس سے لومڑی گزری بم دیکھا چیخ پڑی بھاگو ہاتھ تمھا رے پاس بم رکھا ہے ھاتھی نے نظر اٹھا کر دیکھا بولا  ابھی تین منٹ ہیں لومڑی اسکے اطمنان پر حیران ہوئ پھر ساتھ ہی بیٹھ گیئی ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے تھوڑی دیر بعد ہاتھی اٹھا میں چلتا ہوں تین منٹ ہونے والے لومڑی نے سر ہلآیا مصافحہ کیا خدا حافظ کہا واپس آ کر بیٹھی تو سوچا ہاتھی نے تین منٹ ہونے والے ہیں کیوں کہا ؟ تبھی دھماکہ ہوا پورا جنگل لرز اٹھا نتیجہ : جس تن بیتے سو تن جانے از قلم ہجوم تنہائی

قنوطی کہا نی

قنوطی کہا نی ایک بار ایک قنوطی اکیلا بیٹھا وقت گزاری کے لئے اچھا اچھا سوچنے لگا جیسے کہ وہ آج اداس نہیں ہے خوش ہے وغیرہ وغیرہ پھر اس نے قنوطیت سے سوچا  یہ سب تو میں نے سوچا ہی ہے بس نتیجہ : خود سوچیے از قلم ہجوم تنہائی

ایک تھا بلبل کا بچہ کھاتا تھا کھچڑی پیتا تھا پانی

ایک تھا بلبل کا بچہ کھاتا تھا کھچڑی پیتا تھا پانی  گاتا تھا گانے  تیرا ہونے لگا ہوں  میری سانسوں میں بسا ہے تیرا ہی نام  جو چلے تو جان سے گزر گیے کچھ میٹھے لوگوں کو اسکا گانا پسند نہیں آیا  انہوں نے اسکو سیندور پان میں ملا کر کھلا دیا  اسکا گلا بیٹھ گیا  نتیجہ : کیا آپ   رابی پیرزادہ یا عینی ہیں ؟ نہیں نا  پھر مت گاو  از قلم ہجوم تنہائی

چرواہا کہانی

Syeda Vaiza Zehra January 5, 2015  ·  چرواہا کہانی ایک تھا چرواہا اس کا ایک ریوڑ تھا اس میں ٢٥ بکریاں ١٥ دنبے ١٨ گایے دو کتے تھے کتوں کا کام ریوڑ کی حفاظت کرنا تھا  ایک کتے کو کتاپا سوجھا دوسرے سے بولا بکریاں اور گایے تو ٹھیک ہے ہم دنبوں کی حفاظت کیوں کریں عجیب سے ہیں دوسرا کتا متفق تو نہیں تھا مگر چپ رہا پہلے کتے نے دنبوں کو کاٹنا شروع کر دیا دانت مارتا دنبے سخت جان تھے ایک دو تو بیمار پڑے پھر انہوں نے جوابا کاٹنے کی کوشش کی مگر ایک تو دنبہ معصوم جانور ہوتا دانت بھی نہیں مار پاتے خیر ایک دنبے مر گیے چرواہا نے کہا چلو خیر ہے ابھی ١٢ دنبے باقی ہیں اب کتے کو عادت بھی پڑ گئی تھی اس نے گائے کو بھی کاٹنا شروع کیا ایک دو گایے بھی مر گئیں کتے نے بکریوں کو کاٹنا شروع کیا وہ سب سے کم جان تھیں ایک دو نہیں دس بکریاں اس کے کاٹنے سے مر گئیں چرواہے کو ہوش آیا اس نے سوچا کتے کو مار دے اس نے فیصلہ کیا تو بکریوں گایوں دنبوں سب نے حمایت کی مگر دوسرے کتے نے کہا ٹھیک ہے اس نے بکریاں مار دیں مگر گایے اور بکریاں اب نہیں ماریں گے لیکن دنبوں کو مارنے دیں چرواہا حیران ...

بلڈی سکس کلو میٹر

ایک اور کہانی 65 کی بلڈی سکس کلو میٹر مجھے مسیحائی کا ہنر آتا ہے جنگ میں یہ ملک کے کام آتا ہے  ایک دن پاس میرے ایک گھایل آیا اپنی شجاعت کا دشمن کو کر قایل آیا خون میں لت پت بدن زخموں سے چور مگر با حوصلہ عزم و ہمت سے بھرپور سوچ میں پڑی کہاں سے شروع علاج کروں ؟ بدن ٹٹولوں کس کس زخم کو دوا آج کروں ؟ مجھے شش و پنج میں دیکھا تو مسکرا د یا کسی سوچ نے اسکا خون اور گرما دیا مادام میں نے اپنے ان زخموں کو چوما تھا آج جب وائرلیس پر دشمن کا پیغام سنا تھا کہتا تھا لاہور بس دو کلو میٹر رہ گیا میرا خوں کھول اٹھا یہ کیا کہہ گیا جانتی ہے میں کیا کر آیا ہوں ؟ سنگ ۔میل پر اپنے خون سے لکھ آیا ہوں ۔۔۔ بلڈی سکس کلو میٹر۔۔۔