فلسفہ کہانی


فلسفہ کہانی 
ایک بار ایک فلسفی بیٹھا سوچ میں گم تھا 
اسکا شاگرد آیا اس سے بولا بتائیں میں کیا کروں؟
فلسفی نے کہاں ایک مٹھی میں ریت بھرو 
ایک مٹھی میں پانی 
شاگرد نے ایک مٹھی میں ریت بھری ایک میں پانی
بولا اب کیا کروں؟
فلسفی بولا تالی بجاؤ
شاگرد نے تالی بجائی
ریت اور پانی کا ملاپ ہوا کیچڑ سے ہاتھ بھر گیے اسکے
شاگرد پریشان ہوا
یہ تو گندے ہوگیے میرے ہاتھ اب مجھے کیا کرنا چاہے ؟
فلسفی مسکرا کر بولا
اب تمہیں ہاتھ دھو لینا چاہے
نتیجہ : کچھ نہیں فلسفی تپا بیٹھا تھا اس نے اپنے مسکرانے کے لئے وجہ ترا شی بس
آپ بھی تراش لیجیے کوئی وجہ 


از قلم ہجوم تنہائی

چونچ کہانی '


چونچ کہانی '
ایک تھی چڑیا
اس نے گھونسلا بنانا تھا
اس نے اپنی چونچ میں گھاس کا تنکا اٹھایا اڑنے لگی
اوپر کوا اڑ رہا تھا بولا چونچ میں کیا دبایا ہوا ہے
اس نے جواب دیا گھاس کا تنکا
تنکا گر گیا
واپس آی نیا تنکا توڑا
اڑنے لگی
اوپر سے عقاب گزر رہا تھا
بولا ننھی چڑیا تمہاری
مونچھیں نکل آی ہیں
ہا ہا ہا ہا
چڑیا بولی نہیں بھیا گھاس کا تنکا لے جا رہی ہوں گھونسلا بنانا
عقاب بولا اچھا معاف کر دو مذاق کر رہا تھا
چڑیا مسکرائی اور واپسی کا سفر اختیار کیا
کیوں کے تنکا گر چکا تھا
پھر نیا تنکا توڑا اڑنے لگی
ایک اور چڑیا ملی بولی تنکا لے کے جا رہی ہو سنو
چڑیا نے دھیان نہیں دیا اس بار اپنی جگہ پر جا کر تنکے سے گھونسلا بنانا شروع کردیا
جب گھونسلا بن گیا تو اترائی اترائی اڑ رہی تھی دوسری چڑیا ملی
بولی گھونسلا بنا لیا؟
اس نے کہا ہاں
کہنے لگی میں نے بھی جبھی پوچھ رہی تھی کہ میرے پاس کچھ تنکے بچ رہے تو تم لے لو
مگر تم نے میری ایک نہ سنی
چڑیا چونچ کھول کے رہ گئی
نتیجہ : چونچ بند رکھنی چاہیے چاہے آپ گھونسلا بنا رہے ہوں یا بنا چکے ہوں
از قلم ہجوم تنہائی

main sinf e nazuk hajoom e tanhai poetry


میں صنف  نازک 
کمزور جان 
وجور  رکھتی ہوں 
حیثیت نہیں 
حاصل رکھتی ہوں 
ملکیت نہہیں 
گویائی رکھتی ہوں 
شنوائی نہیں 
ہمسفر رکھتی ہوں 
ہم نوائی نہیں 
شعور رکھتی ہوں تو بس اتنا
 میرا ہونا بھی اتنا ہی 
جتنا مرا نہ ہونا  



از قلم ہجوم تنہائی

آزاد نظم میں ......

آزاد نظم 
میں ......

آج ایک عجیب واقعہ ہوا 
پرانی دراز کھنگالی 
کچھ ردی نکلی 
کچھ تصویریں پرانی 
ایک ہنستا چہرہ تھا 
خوش باش ہو جیسے
مانوس سا لگا
ایسے کے دیکھا ہو تھوڑی ہی دیر پہلے
یہ طمانیت کی سرخی
یہ تہنیتی مسکان
بس یہ اجنبی لگے ہے
میں سوچ میں پڑی ہوں
کون ہے یہ آخر ایسا
کچھ کچھ مجھ جیسا
ارے شاید یہ پرانی تصویر ہے میری
مگر کیا ہوا تھا اسے
پہچانی نہیں جا رہی
کیا ہوا ہے اب مجھے
خود کو ہی پہچان نہیں پا رہی



از قلم ہجوم تنہائی

بلی کہانی

بلی کہانی
..
ایک  تھی  بلی  الٹا  لٹک  سکتی تھی .
ایک  دن  اسے  ایک  بچے  نے  الٹا  لٹکا  دیکھا  تو  شور  کرنے  لگا  وہ  دیکھو  بلی  الٹی  لٹکی  ہوئی  ہے ,
پھر  بلی  سے   بولا  تم  ایسی  ہی لٹکی  رہنا  میں  اپنے  دوستو  کو  بلا  کے  لاتا  ہوں .. گیا  بلا  کے  لایا مگر دیر لگ گئی..
بلی  تھک  کے  سر  کے  بل  گری  مر  گئی ..
نتیجہ : کسی  کو  اپنے  شغل  کے  لیے لٹکا  کے  مت  رکھیں ..

از قلم ہجوم تنہائی

چیتا کہانی ...

چیتا کہانی ...
ایک  تھا  برفانی  چیتا  برف  میں  رہتا  تھا

برف   سے ڈھکے پہاڑوں میں رہتا تھا 
اتنی  ٹھنڈ  تھی  وہاں  کے   دریا  بھی  جم  گیے  تھے  
برفانی  چیتے  کو  ٹھنڈ بھی لگ رہی  تھی 
وہ  دریا  کے  کنارے  گیا  
اپنے  ناخن  مار  مار  کر  کھودا  برف چٹخی  برف  ٹوٹی  
جہاں  کنارے  کھڑا  تھا  ادر  کی  بھی  برف  ٹوٹی  
دھڑام  سے  گرا  پانی  میں 
تیرنا  آ تا  تھا  جھر جھری  لے  کے  بہار  نکلا  اور  چلا  گیا ...
آپ  سوچ  رہے  ہونگے  کیوں  توڑ رہا  تھا  برف ...
وہ  بھی  ٹھنڈ  میں ...
اسے  پیاس  لگ  رہی  تھی    
:)
نتیجہ  : ٹھنڈ  میں  پانی  نہ  پینا  آپ  کے  گردوں  کے  لئے  نقصان  دہ  ہے  


از قلم ہجوم تنہائی

ہنسیے کہانی



ہنسیے کہانی
ایک تھا ہنس ہنستا رہتا تھا
ہنس ہنس کے پاگل ہو گیا
اس سے شتر مرغ نے پوچھا بھی ہنستے کیوں ہو؟
ہنس ہنس کر بولا یونہی
شتر مرغ بولا ہونہہ یونہی تو پاگل ہنستے
ہنس بولا تم دکھی ہوتے ہو تو کیا کرتے
شتر مرغ بولا میں چپ رہتا روتا ہوں
ہنس نے پوچھا جب ڈرتے تب ؟
شتر مرغ بولا : ریت میں منہ چھپا لیتا
ہنس نے پوچھا اور جب خوش ہوتے
شتر مرغ بولا ہنس ہنس کے اڑتا پھرتا
ہنس نے پوچھا اور جب عام سا مزاج ہوتا تب
شتر مرغ تب میں یونہی پھرتا رہتا کبی بیٹھ جاتا کبی تھوڑا
خیر چھوڑو تم بھی بتاؤ تم جب دکھی خوش پریشان یا عام مزاج میں کیا کرتے
ہنس ہنسنے لگا
ہنستا رہا ہنستا گیا
شتر مرغ بولا پاگل ہو گیا ہے یہ
نتیجہ : پاگل ضروری نہیں کے وہ ہی ہو جو دکھائی دیتا ہے کچھ پاگل ایسے بھی ہوتے جسے شتر مرغ تھا

از قلم ہجوم تنہائی

yaad rkhye series









از قلم ہجوم تنہائی

yaad rkhye series







از قلم ہجوم تنہائی

بطخ کہانی

بطخ کہانی
ایک تھی بطخ
قین قین کرتی پھرتی
قین قین سریلی سی آواز میں کرتی تھی
اس نے سوچا وہ سب بطخوں کو جمع کر کے کونسرٹ کرے 
اس نے جمع کیا سب کو قین قین شروع کر دی
بطخوں کو پسند آئی
اب روز بطخیں جمع ہوتیں اور قین قین سنتیں
ایک دن بطخ کا موڈ نہیں تھا اس نے قین قین نہیں کی
بطخوں نے غصے سے اسے گنجا کر دیا
اب وہ جہاں جاتی سب کہتے
وہ دیکھو گنجی بطخ
سب بھول گیے تھے کے وہ اچھی قین قین کرتی تھی
نتیجہ : گنجے لوگوں کی کوئی قدر نہیں کرتا

از قلم ہجوم تنہائی

کیچڑ کہانی

کیچڑ کہانی
ایک تھا راستہ اس پر بہت کیچڑ تھی
ایک اجلے کپڑے والا آدمی وہاں سے گزرنے لگا
اس راستے سے گزر کر آتے ایک کیچڑ میں لت پت آدمی اسے ٹوک گیا آگے مت جاؤ کیچڑ ہے
اس نے سر ہلایا آگے بڑھ گیا 
واپس آیا تو لوگ دیکھ کر حیران ہوئے اسکا تو دامن صاف تھا لوگوں نے پوچھا کیا ماجرا ہے
آدمی نے اشارے سے اس پگڈنڈی کآ بتایا جو وہ کیچڑ کنارے زمین پر خشک مٹی ڈال کر بناتا آیا تھا لوگ خوش ہوئے اور پگڈنڈی استمعال کرتے رہے کچھ گرمی پڑی کیچڑ ختم ہو گیئی
ایک اور اجلے کپڑوں والا آدمی وہاں سے گزرنے لگا اس راستے سے گزر کر آنے والے آدمی نے اسے ٹوکا
پتہ ہے یہاں اتنی کیچڑ ہوتی تھی کہ تمھارے سارے کپڑے خراب کر دیتی اگر ختم نہ ہوتی
آدمی نے دلچسپی سے پوچھا کہاں ہوتی تھی ؟
نتیجہ : کیچڑ سے بچا جا سکتا ہے

از قلم ہجوم تنہائی

قنوطی کہا نی


قنوطی کہا نی
ایک بار ایک قنوطی اکیلا بیٹھا وقت گزاری کے لئے اچھا اچھا سوچنے لگا جیسے کہ وہ آج اداس نہیں ہے خوش ہے
وغیرہ وغیرہ
پھر اس نے قنوطیت سے سوچا 
یہ سب تو میں نے سوچا ہی ہے بس
نتیجہ : خود سوچیے

از قلم ہجوم تنہائی

sayonara daisuki nahito japenses song sung by pakistani girl




از قلم ہجوم تنہائی

اوپر کہانی


اوپر کہانی 
ایک تھا ابا بیل ہوا میں ا ڑتا پھرتا 
اسے سب سے اونچے مقام پر پہنچنا تھا ایک دن وہ اڑتا گیا 
اڑتا گیا پہاڑ کی چوٹی پر جا پہنچا 
نیچے دیکھا تو احساس ہوا اونچے مقام پر پہنچ گیا ہے چھوٹے پرندے تو سو چ بھی نہیں سکتے سینہ پھلا کر بیٹھ گیا تبھی ایک باز اڑتا آیا اس کے پاس سے گزرا خیر سگالی مسکراہٹ اچھالی اپر اڑ گییا ابا بیل حیران ہو کر اپر دیکھنے لگا اپر اس سے بھی اونچا پہاڑ تھا جس پر بیٹھ کر وہ اترا رہا تھا اسکی گردن اتنی انچائی دیکھتے تھک گیئی 
اس کا توازن بگڑا گر پر ا 
نتیجہ : جہاں لگنے لگتا کہآپ  بہت اونچائی پر جا پہنچے  ہیں وہاں سے پھر اوپر نہیں نیچے جاتے ہیں


از قلم ہجوم تنہائی

تھوک کہانی



تھوک کہانی
ایک بار ایک مکڑی جالا بنا کر اونچے پہاڑ سے اتر رہی تھی
کیا دیکھتی ہے تیزی سے چڑھتی ایک چونٹی اس کی جال میں پھنس گی ہے
مکڑی ایک تو بھوکی نہیں تھی دوسرا اتنی سی چونٹی سے پیٹ نہ بھرتا اس نے سوچا چھڑا دے 
اسے اپنی طرف آتآ دیکھ کر چونٹی کے اوسان خطا ہو گے
مکڑی مسکرائی اسے بچایا پوچھا اوپر کاہے کو جاتی ہو
چونٹی بولی مقابلہ ہے مجھے پہلا انعام لینا ہے
مکڑی سر ہلا کر واپس ہو لی زمین پر پہنچی تو ڈھیر ساری بوندیں آ گریں اس نے چہرہ صاف کر کیے اوپر دیکھا درجنوں چونٹیا ں تھوک کر دیکھ رہی تھیں کس کا تھوک پہلے پہنچا 
نتیجہ : تھوک نیچے پہلے جسکا بھی آیے جیت اسکی ہوتی جسکا تھوک کسی کے او پر نہ آیے

از قلم ہجوم تنہائی

چرواہا کہانی


چرواہا کہانی
ایک تھا چرواہا اس کا ایک ریوڑ تھا 
اس میں ٢٥ بکریاں ١٥ دنبے ١٨ گایے دو کتے تھے 
کتوں کا کام ریوڑ کی حفاظت کرنا تھا 
ایک کتے کو کتاپا سوجھا دوسرے سے بولا بکریاں اور گایے تو ٹھیک ہے ہم دنبوں کی حفاظت کیوں کریں
عجیب سے ہیں 
دوسرا کتا متفق تو نہیں تھا مگر چپ رہا 
پہلے کتے نے دنبوں کو کاٹنا شروع کر دیا دانت مارتا دنبے سخت جان تھے 
ایک دو تو بیمار پڑے پھر انہوں نے جوابا کاٹنے کی کوشش کی مگر ایک تو دنبہ معصوم جانور ہوتا دانت بھی نہیں مار پاتے 
خیر ایک دنبے مر گیے چرواہا نے کہا چلو خیر ہے ابھی ١٢ دنبے باقی ہیں 
اب کتے کو عادت بھی پڑ گئی تھی اس نے گائے کو بھی کاٹنا شروع کیا 
ایک دو گایے بھی مر گئیں کتے نے بکریوں کو کاٹنا شروع کیا وہ سب سے کم جان تھیں 
ایک دو نہیں دس بکریاں اس کے کاٹنے سے مر گئیں چرواہے کو ہوش آیا 
اس نے سوچا کتے کو مار دے 
اس نے فیصلہ کیا تو بکریوں گایوں دنبوں سب نے حمایت کی مگر دوسرے کتے نے کہا ٹھیک ہے اس نے بکریاں مار دیں مگر گایے اور بکریاں اب نہیں ماریں گے لیکن دنبوں کو مارنے دیں 
چرواہا حیران بیٹھا دونوں کتوں کی سن رہا 
بکریاں در چکی ہیں گائے ابھی بھی سوچ رہی ہیں دنبے کو مرنے دیں یا نہیں کتا ابھی بھی خون خوار ہے 
دنبے تیل دیکھ رہے اور تیل کی دھار 
نتیجہ : اس ریوڑ کو آپ پاکستان کو سمجھ لیں اور چرواہا حکومت اب بھی سوچ لیں خاموش رہنا ہے یا کتے کے ہاتھوں مرنا ہے؟

از قلم ہجوم تنہائی

کتا کہانی ...kutta kahani


کتا  کہانی ...
ایک  تھا  آدمی 
اس  نے  کتا پالا  ہوا  تھا  
کتے  کا  خیال  رکھتا  کتے  کی  پروا  کرتا  تھا  
مگر  کتے  کو  نجس  بھی  سمجھتا  تھا  
کتا  بھی  پیار  کرنے  لگا  
اسکا  دل  چاہتا  کے  آدمی  کے  پاؤں  کہتے  آدمی  جب  بھی  کتا  قریب  اتا  ایک  قدم  دور  ہو  جاتا  تھا 
ایک  بار  کتے  نے  آدمی  کے  پاؤں چاٹے  اس  نے  جھڑک  دیا  کتے  کو  اور  پاؤں  دھو  لئے  
آیندہ  جب  بھی  وہ  کتے  کے  پاسس  اتا  کتا  قریب  نہیں  آتا  تھا  
آدمی  کو  اس  پر  پیار  آیا  
اس  نے  جوتا  پہنے  پہنے  ہی  اس  کے  سر  پی  پاؤں  پھیرا 
کتا  ممنون  ہوا  
اب  کتے  کو  پیار  آتا  تو  وہ آدمی  کے  سامنے  لوٹیاں  لگاتا 
آدمی  جواب  میں  جوتے  والا   پاؤں  اس  کے  سر  پر  پھیر  دیتا  تھا 
کتا  اس  میں  بھی  خوش  تھا ...
.
.
.
نتیجہ : پیار  میں  کتے  والی  نہ  کریں ...


kutta kahani...
ek tha admi
us nay kutta pala hua tha
kuttay ka khayal rekhta kuttay ki perwa kerta tha 
magr kuttay ko najis bhi samjhta tha
kutta bhi pyar kerny laga
uska dil chahta kay aadmi kay paaon chatay admi jab bhi kutta qareeb ata ek qadam door ho jata tha
ek bar kuttay ne aadmi kay paaon chatay us ne jhirak dia kuttay ko aur paaon dho liye
ainda jab bhi woh kuttay kay pass ata kutta qareeb nahi aata tha
admi ko us pr pyr aya
us ne joota pehnay pehnay hi us kay sir pe paaon phaira
kutta mamnoon hua
ab kuttay ko pyar aata tau wo aadmi kay samny lautyaan lagata
admi jawab main jootay wala paaon us kay sir pr phair deta tha
kutta is main bhi khush tha...
.
.
.
Moral: pyar main kuttay waali na kerain...

از قلم ہجوم تنہائی

گھونسلا کہانی


گھونسلا کہانی 
ایک تھا گھونسلا 
بنایا تو پرندے نے ہی تھا 
مگر اس کا بچے انڈوں سے نکلے اور اڑ گیے
گھونسلا خالی تھا
اسے اپنا خالی پن کھٹکنے لگا
ایک دن اس پر ایک کوی انڈے دے گئی
گھونسلا خوش ہو گیا
مگر اس کے بچے بھی پر نکللنے کے بعد گھونسلا چھوڑ گیے
گھونسلا خالی رہا
ایک دن جس درخت پر وہ گھونسلا تھا کوئی اسکو کاٹ گیا
گھونسلا زمین پر گر گیا
جاتے موسموں اور لوگوں کی ٹھوکروں سے زمین میں مل گیا
ایک بار ایک پرندہ زمین مے چونچیں مار رہا تھا
اس کی چونچ میں اس گھونسلے کا تنکا آیا
اس نے اٹھایا اور ایک اور نیی جگہ جہاں وہ اور اسکی مادہ گھونسلا بنا رہے تھے لے گیا
اس تنکے کو انہوں نے اپنے نیے گھونسلے میں جوڑ لیا
نتیجہ : گھونسلے کی قسمت میں ہمیشہ تنہائی لکھی ہوتی ہے


از قلم ہجوم تنہائی

yearning heart ost boys over flower






از قلم ہجوم تنہائی

چھوٹا دماغ کہانی




ایک تھی چڑیا 
ایک دن ایک ابا بیل سے اسکی لڑائی ہوگئی
ابا بیل بولا میں بڑا ہوں میرا دماغ بھی بڑا ہے
چڑیا بولی دماغ میرا بڑا ہے 
دونوں کی بحث بڑھی 
ابا بیل نے چڑیا کو چونچیں مار مار کر زخمی کر دیا
چڑیا روتی رہ گئی 
کوا دور سے انھیں دیکھتا رہا 
پاس آیا بولا 
اگر بڑے کی بات ہے تو ابا بیل کا دماغ بڑا ہے کیوں کہ ابابیل بڑا ہے 
مگر دماغ بڑا ہونے سے زیادہ اہم ہے عقل کس کے دماغ میں زیادہ ہے 
ابا بیل اور چڑیا حیران ہوئے 
اسکا فیصلہ کیسے کریں ؟
کوا بولا 
چھوٹا دماغ پریشان رہتا اور رکھتا ہے 
ابا بیل فورا بولا میں تو بالکل پریشان نہیں رہتا 
مرے خاندان میں آج تک کوئی کبھی پریشان نہیں ہوا 
پریشانی ہوتی کیا ہے ہمیں پتا ہی نہیں ہے 
کوا اور چڑیا ہنس پڑے 
کیوں ہنس رہے ہو ؟
ابا بیل پریشان ہو گیا تھا 
نتیجہ : پریشان عقل مند بھی ہوتے آپ پریشان نہ ہوں 

از قلم ہجوم تنہائی 

daant kahani

از قلم ہجوم تنہائی

daant kahani ڈانٹ کہانی


ڈانٹ کہانی۔۔۔
ایک تھا کوئی اسے بات بات پر ہر کسی کو ڈانٹنے کی عادت تھی۔غلطی کسی کی ہو سامنے کوئی بھی ہو اس سے ڈانٹ کھا لیا کرتا تھا۔ ایک بار وہ حسب عادت لوگوں کو انکی لا پرواہی پر  ڈانٹتا ہوا جا رہا تھا کہ اسکا سامنا کسی ڈانٹنے والے سے ہوگیا۔دونوں نے ایک دوسرے کو گھورا اور ڈانٹنے لگے کیوں گھورا۔۔ مجھے۔۔دونوں ڈانٹتے ہوئے لڑ پڑے پاس سے کسی نے گزرتے ہوئے ان دونوں کو ڈانٹ دیا
یہ کوئی لڑنے کی بات ہے بھلا؟ 
نتیجہ: ڈانٹیئے مگر ڈانٹتے ہوئے یاد رکھیئے ڈانٹ پڑ بھی جاتی ہے کبھی کبھی۔۔ 

از قلم ہجوم تنہائی







daant kahani

quitters are helpless not hopeless


از قلم ہجوم تنہائی








ایک سچی کہانی ...


ek sachi kahani...
africa k jungli qabailay k sardar k darjano betay thay darjano biwiyan theen...
un me say ek betay ka naam tha Proto co sholo...
us ne us ko chuna muhazib dunia me bhejnay k liye...
Proto co sholo ne taleem hasil ki...
aik achi job apni taleem ki bunyad pe hasil ki...
Proto co sholo say Sae tooti bun gaya...
phr wapis laut aya...
wehan sab say pehlay usay sardar bunna tha...
us k liye us k jisam pe kae tatoo khudwaye gayay... kaan me balay dalay...
jungli pato k banaye gayay libas say arasta kia...
ek adad gayay (cow) ko zibah ker k uska khoon pilaya gaya...
us ne khushi khushi yeh sab kam kiye...
wo sardar bun gaya tha...
wo un jesa lagnay laga tha...
uska baap khush tha...
us k alfaz ...
me janta tha mera yeh beta wapis zarur ayga ...
Moral : Proto co sholo say Sai tooti ka safar zarur kero...
mager Sai tooti say Proto co sholo bunna pery...
tau ek baar soch zarur lena...


ایک  سچی  کہانی ...
افریقہ  کے  جنگلی  قبیلے  کے سردار  کے  درجنوں   بیٹے  تھے  درجنو  بیویاں  تھیں ...
ان  میں  سے  ایک  بیٹے  کا  نام  تھا  پروٹو  کو  شولو ...
اس  نے  اس  کو  چنا  مہذب  دنیا  میں  بھیجنے  کے لئے ...
پروٹو  کو  شولو  نے  تعلیم  حاصل  کی ...
ایک  اچھی  جاب  اپنی  تعلیم  کی  بنیاد  پی  حاصل  کی ...
پروٹو  کو  شولو  سے  ساۓ ٹوٹی  بن  گیا ... 
پھر  واپس  لوٹ  آیا ...
وہاں  سب  سے  پہلے  اسے  سردار  بننا  تھا ...
اس  کے  لئے  اس  کے  جسم  پہ  کئی  ٹیٹو   بنوایے ... کان  میں  بالے  ڈالے ...
جنگلی  پتوں  کے  بنے  گیے  لباس  سے  آراستہ کیا ...
ایک  عدد گایے  کو  ذبح  کر  کے  اسکا  خون  پلایا  گیا ...
اس  نے  خوشی  خوشی  یہ  سب  کم  کے ...
وہ  سردار  بن  گیا  تھا ...
وہ  ان  جیسا  لگنے  لگا  تھا ...
اسکا  باپ  خوش  تھا ...
اس  کے  الفاظ  ...
میں  جانتا  تھا  میرا  یہ  بیٹا  واپس  ضرور  آیگا ...
نتیجہ  : پروٹو  کو  شولو  سے  سائ ٹوٹی  کا  سفر  ضرور  کرو ...
مگر  سائ   ٹوٹی  سے  پروٹو  کو  شولو  بننا  پڑی ...
تو  ایک  بار  سوچ  ضرور  لینا ...
از قلم ہجوم تنہائی

ایک اور کہانی

ek aur kahani
ek bar ek admi darya k kinare khara tha...
itna kinare khara tha k dekhnay walo ko yeh lagnay laga k kaheen yeh gir na jaye...
kuch ne usay door say ishare sy kaha k peechay hat jao...
kuch ne us k pass aa k samjhaya...
ek ne is sy b zada kia...
kareeb gaya uska hath tham k do qadam peechay ker dia aur kaha...
dekho itna kareeb mat kharay ho gir gayay tau doob jaoge...
us ne hath churaya aur kaha me janta houn me kinarey pe khara houn wo b sanbhal k mujhay terna b ata hay aur me nahi girna chahta main nahi gironga ...
wo admi chup sa khara reh gaya...
pehlay admi ne uljhan say usy dekha aur wapis pehlay wali jaga khara hogaya...
dosre admi ne socha me yehaan hi khara rehounga kaheen tum gir gayay tau madad ker sakoun...
pehlay admi ko dosre admi k pass kharay honay say uljhan ho rehi thi...
us say door hatnay ko aur kinaray pe ho gaya...
is baar thora zada agay ho gaya...
uska paon phisal gaya wo pani me ja gira...
us ne pani me hath paon maarnay ki koshish ki mager pani ka bahao us ki soch say zada tha usay lagnay laga tha k wo doob jayga...
dosra admi kinaray pe khara usay hath pair maartay dekh reha tha...
usko terna nahi ata tha wo uski bs itni hi madad ker sakta tha k usay rok sakay...
us ne madad kerny ki koshish ki...
mager aaj usay pehli baar ahsas hua tha...
kisi ko doobtay dekhna doob janay say zada takleefdeh hota hay...
doob janay wali ki takleef doobnay pe khtam mager doobta dekhnay walay ki takleef uski zindagi tak us k sath rehny wali hay...
Moral: nahi pata mager kia us ko b chalang maar deni chaye thi darya me?


ایک  اور  کہانی 
ایک  بار  ایک  آدمی  دریا  کے  کنارے  کھڑا  تھا ...
اتنا  کنارے  کھڑا  تھا  کہ  دیکھنے  والوں کو  یہ  لگنے  لگا  کہ  کہیں  یہ  گر  نہ  جائے ...
کچھ  نے   اسے  دور  سے  اشارے  سے   کہا  کہ  پیچھے  ہٹ  جو ...
کچھ  نے  اس  کے  پاسس  آ  کے    سمجھایا ...
ایک  نے  اس  سے  بھی  زیادہ  کیا ...
قریب  گیا  اسکا  ہاتھ  تھام  کر  دو  قدم  پیچھے  کر  دیا  اور  کہا ...
دیکھو  اتنا  قریب  مت  کھڑے  ہو  گر  گیے  تو  ڈوب  جاؤگے ...
اس  نے  ہاتھ  چھڑایا اور  کہا  میں  جانتا  ہوں  میں  کنارے  پہ کھڑا  ہوں  وہ  بھی  سنبھال  کہ  مجھے   تیرنا  بھی  اتا  ہے  اور  میں  نہیں  گرنا  چاہتا  میں  نہیں  گرونگا  ...
وہ  آدمی  چپ  سا  کھڑا  رہ  گیا ...
پہلے  آدمی  نے  الجھن  سے  اسے  دیکھا  اور  واپس  پہلے  والی  جگہ  کھڑا  ہوگیا ...
دوسرے  آدمی   نے  سوچا  میں  یہاں  ہی  کھڑا  رہونگا  کہیں  تم  گر  گیے  تو  مدد  کر  سکوں ...
پہلے  آدمی  کو  دوسرے  آدمی  کہ  پاسس  کھڑے  ہونے  سے  الجھن  ہو  رہی  تھی ...
اس  سے  دور  ہٹنے  کو  اور  کنارے  پہ  ہو گیا ...
اس  بار  تھوڑا  زیادہ  آگے  ہو  گیا ...
اسکا  پاؤں  پھسل  گیا  وہ  پانی  میں  جا  گرا ...
اس  نے  پانی  میں  ہاتھ  پاؤں  مارنے  کی  کوشش  کی  مگر  پانی  کا  بہاؤ  اس  کی  سوچ  سے  زیادہ  تھا  اسے  لگنے  لگا  تھا  کہ  وہ  ڈوب  جایگا ...
دوسرا  آدمی  کنارے  پہ  کھڑا  اسے  ہاتھ  پیر  مارتے  دیکھ  رہا  تھا ...
اسکو  تیرنا  نہیں  اتا  تھا  وہ  اسکی  بس  اتنی  ہی  مدد  کر  سکتا  تھا  کہ  اسے  روک  سکے ...
اس  نے  مدد  کرنے  کی  کوشش  کی ...
مگر  آج  اسے  پہلی  بار  احساس  ہوا  تھا ...
کسی  کو  ڈوبتے  دیکھنا  ڈوب  جانے  سے  زیادہ  تکلیفدہ  ہوتا  ہے ...
ڈوب  جانے  والی  کی  تکلیف  ڈوبنے  پہ  ختم  مگر  ڈوبتا  دیکھنے  والے  کی  تکلیف  اسکی  زندگی  تک  اس  کے  ساتھ  رہنے  والی  ہے ..
نتیجہ : نہیں  پتا  مگر  کیا  اس  کو  بھی  چھلانگ  مار  دینی  چاہے  ؟
از قلم ہجوم تنہائی

الگ سی بطخ کی کہانی


الگ سی بطخ  کی کہانی 
ایک تھی بطخ 
الگ سی 
کیوں کہ 
اسے تیرنا پسند نہیں تھا 
سب اسکا مزاق اڑاتے کسی بطخ ہو تیرو گی نہیں تو جیو گی کیسے
وہ پانی میں کودتی پانی میں تیرنا پسند نہیں آتا 
باہر نکل کر پھرتی ہر خشکی کا جانور اسکو ٹوکتا 
بطخ ہو تیرو خشکی پر کیا بھدر بھدر چل رہی ہو 
اس کے نرم سے پنجے پتھر سے زخمی ہوتے تو کوئی جانور اسکو سمجھانے بیٹھ جاتا تم بطخ ہو تمہارے پیر نہیں نازک پنجے ہیں انکا کام بس تیرنا ہے 
بطخ کو کرتب بھی آتے تھے وہ کئی  کئی فٹ اڑتی قلابازی کھاتی نیچے آجاتی 
اسکو ایک پنجے پر کھڑے ہو کر گانا بھی گانا آتا تھا 
کچھ نہ کرتی تو اپنے پر پھلا کر بیٹھ جاتی اور بھینس کی آواز نکالتی 
کبھی اپنے ٹوٹے پروں کو مروڑ کر چوٹی چوٹی چڑیا بناتی اور اپنے پر پھولا کر بیٹھتی جیسے گھونسلا سا ہو اور ان میں چھوٹی چڑیا بیٹھی ہوں ان چڑیوں کی کہانی بھی بنا لیتی انکے مکالمے بولتی الگ الگ آواز میں سب بارے شوق سے اسکے  ناٹک دیکھتے کبھی مزاج شاہانہ ہوتا تو گانے لگتی  
اسکی قین قین سننے دور دور سے جانور آتے مگر جب اسکی محفل موسیقی بر خواست ہوتی سب اسے چھیڑتے
گا لیتی ہو کرتب دیکھا لیتی ہو اپنے پروں سے گھونسلا بنا لیتی ہو
مگر  نا قدرے جانور 
اسکے فن کا مذاق اڑاتے یہ بھی کہتے اسے تیرنا آتا ہی نہیں جبھی الٹی سیدھی حرکتیں کرتی ہے 
وہ یہ سنتی اگلی بار مزید حیران کن جلوہ دکھاتی مگر سب اسکا دل دکھاتے رہتے 
ایک دن دل برداشتہ ہو کر خود کشی کرنے دریا میں کود گئی 
کودی تو سوچا تھا ڈوب جایے گی مگر تیرنا اسکی فطرت تھی 
وہ تیرنے لگی مگر تیرنا اسکو پسند تھا ہی نہیں
اسکا جی اوب گیا  
  مایوس ہو کر دریا سے باہر نکل آی 
اس بار اسکا ارادہ اونچے پہاڑ سے کود کر جان دینے کا تھا 
نتیجہ : الگ سا ہونا آسان نہیں ہے 

از قلم ہجوم تنہائی

بطخ کہانی




از قلم ہجوم تنہائی

یہ وہ کہانی




یہ وہ کہانی 
ایک تھا یہ 
ایک تھا وہ 
یہ وہ نہیں تھا 
وہ یہ نہیں تھا
یہ کو وہ پسند نہیں تھا 
وہ کو کونسا پسند تھا یہ 
ایک دن یہ کو وہ ہو گیا وہ کو یہ ہو گیا وہ یہ کرنے لگا یہ وہ کرنے لگا 
اور کرتے کرتے یونہی وہ یہ بن گیا وہ یہ 

jungle kahani

از قلم ہجوم تنہائی

سنی سنائی کہانی (میری لکھی نہیں ہے )


سنی سنائی کہانی (میری لکھی نہیں ہے )
ایک بار ایک آدمی سنسان راستے سے گزر رہا تھا
اسے اپنے پیچھے کچھ لڑھکنے کی آواز آئ
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کچھ دیگیں لڑھکتی ہوئ آ رہی تھیں ۔انکے منہ کھلے تھے دیگیں اس کے پاس آ یں
ان میں سے آواز ای اگر تم چاہو تو ان میں ہاتھ ڈال کر ایک مٹھی سونا لے لو ۔۔۔
آدمی خوش ہوا جھانکا تو دیگیں سونے کے زیورات سے بھری تھیں اس نے جھٹ مٹھی بھر لی تب ہی اسکو
خیال آیا کیوں نہ میں دوسری مٹھی بھی بھر لوں کونسا مجھے کوئی دیکھ رہا
اس نے دوسرا ہاتھ بھی ڈالا تو اچھل کر دیگ میں جا گرا دیگ سالم نگل گئی۔۔۔ اور پھر لڑھکنے لگی
نتیجہ : دیگ صرف بریانی کی ہی اچھی ۔۔۔

عدت ........


عدت ........
امی کام والی اس اتوار کو پھر نہیں آیی بہت چھٹی کرتی ہے آپ نے سر پر چڑھا رکھا ہے اسے 
لبنیٰ نے خفگی سے اپنے دھونے والے کپڑے لا کر واشنگ مشین کے ساتھ رکھی کپڑوں کی ٹوکری میں ڈالے جو تقریبا ابل رہی تھی ایک ہفتے کے ان دھلے کپڑوں سے 
امی بھی ابو کے کپڑے اٹھائے ہوئے اسے ابلتی ٹوکری سے دو دو ہاتھ کرنے آئ  تھیں 
بیٹا اسکا شوہر مر گیا ہفتے کو اسلیے نہیں آیی
امی نے افسوس سے کہا انھیں بھی آج ہی پڑوسن سے پتہ چلا تھا جہاں انکی کام والی ماسی برتن دھونے جایا کرتی تھی 
اوہ ... لبنیٰ کو تاسف ہوا 
نشیڑی تھا یہ تو ہونا ہی تھا 
اس نے تبصرہ کرنا ضروری سمجھا امی خاموشی سے ٹوکری میں الجھی رہیں 
لبنیٰ کو خیال آیا
تو کیا وہ اب عدت کے بعد آئیگی؟ ہمیں دوسری ماسی کا انتظام کرنا پڑیگا ؟
اچھے کپڑے دھو لیتی تھی چو ر  بھی نہیں تھی اب کیا کرینگے ہم؟
اسے نیی فکر لاحق ہی تو بے تابی سے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی 
امی نے ایک نظر دیکھا پھر گہری سانس بھر کر بولیں 
کونسی عدت چھوٹے چھوٹے بچے ہیں کام نہیں کریگی تو کھایے گی کہاں سے کہہ  رہی تھی اس بار جمرات کو مشین لگا جاؤنگی......

از قلم ہجوم تنہائی

اللہ کا کرم ہے بس



اللہ کا کرم ہے بس۔۔

میں مکان خریدنا چاہ رہا ہوں کئی جگہوں پر گھر دیکھتا پھر رہا ہوں آج ایک گھر مجھے پسند آہی گیا۔۔ کھلا ہوادار بڑے بڑے کمرے سب میں دیوار گیر الماری بنی تھی لائونج میں ایک جانب بڑا سا دیوار گیر شوکیس کچن میں نئ طرز تعمیر کی چمنی کیبنٹس باتھ روموں میں باتھ ٹب تک لگے تھے میں کمرے گن رہا تھا ماشااللہ میرے دو بیٹے دو  بیٹیاں سب اسکول کا لج جانے والے سب کو الگ کمرہ درکار تھا دس مرلے پر چار کمرے نیچے تین اوپر  اور دو کچن ڈرائینگ روم ایک کو اسٹو ر بنا لیں گے ہم میاں بیوی نیچے رہ لیں گے۔۔
میں نے کھڑے کھڑے سب منصوبہ بندی کرلی
میرے تاثرات بھانپتے ہوئے  دلاور اس گھر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگا۔۔ ایک زمین کی خرید و فروخت کی ویب سائٹ سے میں نے اس گھر کی تصویر دیکھ کر پسند کیا تھا مگر گھر سچ مچ شاندار تھا اتنے علاقوں میں گھر دیکھ چکا تھا ڈھنگ کا میری ضرورت کے مطابق گھر کروڑ سے آرام سے اوپر مالیت تک تھے سو دل پر جبر کرتے میں نے مہنگے اور پوش علاقوں سے نظر چرا لی۔۔ اب یہ ایک متوسط علاقے میں ایک چوڑئ گلی میں جس میں ارد گرد خوب بڑے بڑے مکان تھے آخری مکان سے دو مکان پہلے کا مکان تھا ۔۔۔ داخلی سڑک کے قریب تھا مارکیٹ بھی دور نہیں تھی غرض مجھے ہر طرح سے پسند اگیا۔۔
آپ مجھے آخری قیمت بتائیں سب چھوڑیں۔۔
میں اب سودے بازی کے موڈ میں تھا۔۔
انصاری صاحب آپ یہاں زمیں کی قیمت سے واقف ہی ہیں گھر بالکل نیا بنا ہے ٹائیلیں بھی میں نے خوب چن کر لگوائی ہیں ایک کروڑ بس۔۔ زیادہ نہیں مانگ رہا مناسب قیمت ہے۔۔
خالص کاروباری انداز تھا مجھے اسکے انداز سے ہی محسوس ہو گیا تھا۔ مگر میں نے نوے لاکھ تک کا زہن بنا رکھا تھا۔۔
کافی دیر بحث مباحثے کے بعد میں نے دوستی گانٹھ کر پچانوے لاکھ  پر منا ہی لیا تھا۔۔
چلیں انصاری صاحب آپکی تھوڑی خاطر مدارت ہو جائے۔۔
انہوں نے خلوص سے دعوت دی۔۔
میں فارغ ہی تھا سو ہم قریبی ریستوران آگئے۔۔
چائے کا آرڈر دے کر ہم اطمینان سے بیٹھ گئے۔۔
یہ گھر بیچ کر میں نے ڈیفنس میں کوٹھی لینی ہے۔
ویسے تو میں ابھی اسی علاقے میں رہتا۔ بچوں کی ضد ہے کسی اچھے علاقے منتقل ہو جائیں۔
میرا ویسے ایک پلاٹ ہے ڈیفنس میں پہلے سے۔اسے بھی بیچ دوں گا۔۔ ۔ دو گھر میں نے اسی علاقے میں اور بنوائے ہیں ایک یہ جو مارکیٹ ہے نا جس سے گزر کر ہم آئے ہیں اس میں یہ آگے کی پوری رو میری ہے۔۔
بس اللہ کا بہت کرم ہے مجھ پر ۔ وہ ہنس کر بتا رہا تھا۔۔
میں متاثر ہوا۔ واہ بھئی ۔۔میں نے جل کر بڑا سا گھونٹ بھر لیا چائے کا۔ سچ مچ دل کے ساتھ زبان بھی جل گئ۔۔
وہ میرا ہم عمر ہی ہوگا اسکے بچے بھی میرے بچوں جتنے ہونگے میں نے اندازہ لگایا۔۔
میں خود بچوں کا ستایا ہوا۔ہوں۔۔ میں زور سے ہنسا
۔ اچھا بھلا آبائی گھر تھا پرانے شہر میں بکوا دیا۔۔کہیں اور چلیں کسی اچھے علاقے میں پچاس لاکھ بھی پورے نہ ملے اسکے اونچاس لاکھ پچھتر ہزار میں بکا تھا۔۔
میں نے منہ بنایا۔۔
وہ پھر ہنسا۔۔
بس آج کل کے بچے بھی ۔۔۔
آپاسی کو۔ریکوزیشن کروا لیں نا۔۔
سرکاری ملازم ہونے کا یہی تو فائدہ۔۔ انہوں نے مفت مشورہ دیا۔۔
 میں نے لاپروائی سے سر ہلایا۔۔
حالانکہ میرا یہی ارادہ تھا اب آپ سے کیا چھپانا۔۔
اوپر کی آمدنی میری اچھی خاصی ہے مگر دنیا کو جواب بھی دینا پڑتا اب بندہ کھل کر تو سب کہہ سن نہیں سکتانا۔۔

یونہی ہلکی پھلکی باتیں کرتے میں نے اس سے بھی  پوچھ لیا
آپ کیا کرتے ۔۔ ؟
میں ڈیفنس میں ہو تا ہوں۔۔
اس نے آرام سے کہا۔۔
مجھے اچھو ہوا میں نے کپ رکھ کر زور دار قہقہہ لگایا۔۔
سولہویں گریڈ کا سرکاری افسر اس وقت پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا۔۔
واقعی ڈیفنس پر اللہ کا کچھ زیادہ ہی کرم ہے۔۔
میں کہہ کر اور زور سے ہنستا رہا۔۔ دلاور پہلے حیران ہوا پھر تھوڑا خفگی سے بولا۔۔
مطلب کیا ہے اس بات کا۔۔
میں نے بمشکل ہنسی روکی۔۔
میں کوئی حاجی نہیں اوپر کی کمائی اچھی خاصی میری مگر میں بھی اتنی جائداد بنا نہ سکا اور آپ معمولی ۔۔۔
مجھے ہنسی کا ایک اور دورہ پڑ گیا تھا۔۔





از قلم ہجوم تنہائی

آئیڈیا کہانی





آئیڈیا کہانی
ایک بار تین دوست ہائکنگ پر گیے
پھسل گیے
پہاڑ کی چوٹی سے لٹک گیے ایسے کے ایک دوست نے چٹان کا سہارا لیا ہوا تھا
دوسرا اسکا ہاتھ پکڑے لٹکا تھا تیسرا دوسرے کا ہاتھ پکڑے لٹکا تھا 
درمیان والا تھک گیا کب تک لٹکا رہتا بولا میں ہاتھ چھوڑ دوں؟ تھک گیا تیسرا منت کرنے لگا مگر درمیان والے نے ہاتھ چھوڑ دیا
وہ نیچے گر گیا
دوسریے نے اپنے شل ہاتھ کو جھٹکا اور بولا یار اتنی دیر سے ایک انسان کا علیحدہ سے بوجھ اٹھا رکھا تھا
چھوڑا ہے تو ہلکا محسوس کر رہا
پہلے والے نے یہ سنا تو اسے بھی آئیڈیا آیا
اس نے بھی ہاتھ چھوڑ دیا بوجھ کم ہوا اس نے زور لگا کے اپنے آپ کو اوپر کھینچا اور سہارا لے کر چوٹی پر چڑھ گیا...
نتیجہ : آئیڈیاز چوری ہو جایا کرتے ہیں
از قلم ہجوم تنہائی

مینڈک اور انسان کہانی


مینڈک  اور انسان کہانی
ایک تھا مینڈک دریا میں تیر رہا تھا تیرتے تیرتے اسے پیاس لگی 
وہ کنارے پر آیا دیکھا مچھیرا جال لگایے مچھلیاں پکڑ رہا خوفزدہ ہو کے واپس آیا پانی پیا سانس بحال کی اسے یاد آیا وہ تو مینڈک ہے مچھلی تھوڑی اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ خیر ضرورت تو پانی پینے کے لئے دریا سے با ہر جانے کی بھی نہیں تھی 
نتیجہ : مینڈک انسان جیسے ہوتے اندر سے

از قلم ہجوم تنہائی

تکبر کی بو کہانی

تکبر  کی  بو کہانی 
یا  خدا  یہ  کائنات  کتنی  بدبودار  بنی  ہے ..
لنڈا  نے  دونوں  ہاتھوں  میں  سر  تھام  لیا  گہری  سانس  لے  کے  خود  کو  ماحول  کے  اثر  سے  آزاد  کرنا  چاہا ...
عجیب  بات  تھی  وہ  کوڑے خانے  کے  نزدیک  کھڑی  تھی  اور  گہری  سانس  لے  رہی  تھی ...
کام  کرتے  خاکروب  نے  اسے اچنبھے  سے دیکھا ...
یہ  تو  وہ  جانتی  تھی  اس  گندگی  کے  ڈھیر سے  جو  مہک  اٹھ  رہی  تھی  وہ ...
یاک  ...
اس  کے  پاس  سے  گزرتی  دو  سیاہ  فام لڑکیوں  نے  بے  اختیار  کراہیت  سے ناک  ف  رومال  رکھا  تھا ...
اف  کس  قدر  بدبو  ہے  یہاں ... ایک  بولی ...
دوسری  نے  ٹھنڈی  سانس  بھری ...
کس  چیز  کی  بدبو؟
کوڑے  خانے  کی  اور  کس  کی ... ہرات  سے  سیاہ  فام  لڑکی  بولی 
اور  مجھے  اس  لڑکی کے  پاس  سے  شدید  بو  ای  ہے ...
دوسری  نے  مسکرا  کے  کہا ...
یہ  گفت  و  شنید  اتنے فاصلے  سے  نہیں  ہو  رہی  تھی  کے لنڈا  سن  نہ   پتی  ہرات  سے  اس  سیاہ  فام  لڑکی  کو  گھورنے  لگی ...
میرے  پاسس  سے  بو  آرہی  ہے ؟
وہ  لڑکی  مسکرا  دی ...
ہاں ...
ساری کائنات  بدبودار  لگ  رہی  ہے  اپنی  بو  محسوس  نہیں  ہو  رہی ؟
مرے پاس سے بو آرہی ہے؟
لنڈا کی حیرت کی انتہا نہ رہی 
ہاں 
لڑکی نے قطعیت سے کہا
 تمہارے  پاسس سے بدبو  آرہی  ہے ...
تکبر  کی  بو ...
از قلم ہجوم تنہائی

میں اندھیروں کی باسی۔۔۔

میں اندھیروں کی باسی۔۔۔
روشنی سے خوفزدہ ۔۔۔
ہر صبح۔۔۔
سے۔۔۔
ڈر لگتا ہے۔۔۔
آنکھ کھل نہ جائے۔۔۔
مجھے اندھیرے ہی راس آتے ہیں۔۔۔۔
میں آغاز صبح ۔۔۔
پلکیں موند کر کرتی ہوں۔۔۔
دن ڈھلے مگر۔۔۔
اٹھنا پڑتا ہے۔۔۔
یہ دنیا مجھ سے الٹ چلتی ہے۔۔۔
میں بیزار سی
دن گزرنے کا انتظار کرتی ہوں۔۔۔
خوش قسمتی سے وقت گزر جاتا ہے۔۔۔
پھر شام ہوتی ہے۔۔۔
رات آتی ہے۔۔۔
یہ دنیا جب سو جاتی ہے۔۔۔
میں آزادی سے۔۔۔
رات بھر ۔۔۔
رات ہونے کا جشن مناتی ہوں۔۔۔

از قلم ہجوم تنہائی

بکرا کہانی ...


بکرا  کہانی ...
ایک  تھا  لڑکا ...
اسے  ایک  لڑکی  پسند  تھی ...
مگر  لڑکی  کو  بکرا  پسند  تھا ...
بکرا  لڑکے  کو  پسند  نہیں  تھا ...
لڑکی  ہر  وقت  بکرے  کی  خدمت  میں  لگی  رہتی  ...
کبھی  چارہ  کھلاتی  کبھی  ٹہلاتی
ایک  دن  لڑکا  رشک  سے  بکرے  کو  دیکھ  رہا  تھا ...
یونہی  سوچا  کے  کاش میں  بکرا  ہوتا  اسکا  وہ میرا  اتنا  خیال  کرتی ...
اسکی  دعا   قبول  ہوئی
صبح اٹھا  تو  دیکھا  وہ  لڑکی  کے  گیٹ  پہ بندھا ہوا  ہے  اور  بکرا  بن  چکا  ہے ...
لڑکی  نے  اسے  بڑے پیار  سے  چارہ کھلایا  اس  پہ  پیار  سے  ہاتھ  پھیر  کر  بولی ...
کل  بکرا  عید  ہے  تمہاری  قربانی  ہو  جائے  گی  اور  تم  مجھ سے  ہمیشہ  کے  لئے  بچھڑ جاؤگے ... :(
لڑکا  جمع بکرا  دہل کر  رہ  گیا ...
اب   سوال  پیدا  ہوتا  ہے  لڑکا  تو  بکرا  بن  گیا  بکرا  کہاں  گیا ؟ 
نتیجہ : اگر  بکرا  بننے  کا  شوق  ہے  تو  حلال  ہونے  کا  بھی  حوصلہ  کر  لیں  :D

از قلم ہجوم تنہائی

ایک سبق آموز کہانی ...



ایک  سبق  آموز  کہانی ...
کل  میرا  موبائل  بری  طرح  اٹک گیا 
تھری جی بند کیا 
پھر وائی فائی چلایا 
میں  نے کیشے خالی  کیا  
بند کر کے چلایا  
بیٹری  نکل  کر  دوبارہ  ڈالی 
ینٹیوائرس  چلایے 
ہر  چیز  فون  کی  ختم  کردی 
فون  پٹخ  دیا 
دو  تھپڑ  مارے فون کو  
برا  بھلا  کہا 
آج  چارج  کیا  ریسٹارٹ  کیا  یہ  سب  دوبارہ  کیا 
انٹرنیٹ  آن کیا  
فیس بک  کی  اپ ڈیٹ  ڈونلوڈ  کی 
سب  ٹھیک  ہوتا  گیا 
مجھے  آج    پتا  چلا  
کل  نیٹ  سلو  تھا  
نتیجہ : کرے  کوئی  بھرے  کوئی  :p
از قلم ہجوم تنہائی

کالا سفید کہانی


کالا سفید کہانی 
ایک بار ایک کالے لباس والے آدمی کی ایک سفید لباس والے آدمی سے لڑائی ہو گئی دونوں نے ایک دوسرے کو پٹخا مارا کو ٹا 
دھولم دھول ہو گیے سیانے نے چھڑایا 
الگ کیا پوچھا ہی نہیں کیوں لڑتے ہو 
انھیں آئنہ دکھایا 
کالے لباس والے کا لباس گرد سے اٹ کر سفید ہو رہا تھا
سفید لباس والے کا لباس گندا ہو کر کالا ہو رہا تھا
نتیجہ : سیانا آدمی جھگڑا رکواتا ہے چاہے جسے بھی


از قلم ہجوم تنہائی

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen