Posts

Showing posts with the label Hajoom etanhai

انتظار کہانیintezar kahani

Image
انتظار کہانی۔۔ intezar kahani انتظار کہانی ایک تھا مصور۔ با کمال تھا۔ کیا کیا فن پارے تخلیق کیئے۔ اپنے ہنر کو خود ہی ہراتا ۔ نیا شاہکار تخلیق کر ڈالتا۔ گمان تھا اسے کسی روز کوئی انمول فن پارہ صفحہ قرطاس پر اتارے گا کہ دنیا دنگ رہ جائے گی۔ اپنے لیئے جو طے کیا نیا محاذ پھر اسے ہوا جانے کیوں خود پر ناز۔ اپنے ہر فن پارے کا ناقد خود بن بیٹھا۔ بناتا خود بگاڑتا بھی خود۔ شاہکار ہوئے تھے جیسے اس سے انجانے میں خلق۔ اب گماں ہوتا تھا کہ چھنتا جاتا ہے اس سے ہنر۔ ایک پل بنانے بیٹھا مقدر ۔ بنائے کچھ آڑھے ترچھے  لکیروں کے جال۔ ایک لکیر کو بنایا وقت ایک لیکر کو انتظار۔ انتظار کی لکیر ہوئی دائرے سے آہنگ۔ وقت بیضوی دائروں سے ہوتا گیا تنگ۔۔ سوچ میں پڑتا مصور بے دھیان ہوا۔ قرطاس پر بے ہنگم ہوا ہاتھ چند نقطوں کا بھی انتظام ہوا۔  مصور امید توڑ بیٹھا۔ تصویر نا مکمل چھوڑی  دل موڑ بیٹھا۔  شاہکار تخلیق کر بیٹھوں اس خواہش نے مجھے رکھا خوار تھا۔۔ وقت آئے گا تو مجھ سے شاہکار بن پائے گا۔۔ مصور ادراک کے لمحوں میں رو پڑا۔۔ مجھےوقت کا انتظار تھا۔۔۔ اس انتظار میں جانے میرا وقت ہی گزر گ...

سوچیں کہانی

سوچیں کہانی  ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک تھا فلسفی  اسکی خصوصیات تھی بولتا کم سوچتا زیادہ تھا  ایک بار سوچ رہا تھا کسی نے اس سے پوچھا  کیا سوچ رہے ہو؟ فلسفی نے سوچا کیا بتاؤں کیا سوچوں؟ جو سوچوں وہ سوچ اچھی ہے ؟ سوچ کے بھی سوچنا کیا سوچ لیا کیا میں نے سوچے بغیر بھی کبھی کچھ کہا؟ کبھی سوچ کے بھی کچھ کہا؟ سوچ یہ ایسی تھی کہ سوچ پر سوچ آیے اور سوچے بنا نہ رہ جایا جایے خیر فلسفی سوچتا رہ گیا پوچھنے والا چلا گیا نتیجہ : کبھی کبھی سوچنے سے زیادہ بہتر یہ ہوتا ہے کہ آپ نہ سوچیں از قلم ہجوم تنہائی

آنسو کہانی

آنسو کہانی  ایک بار کوئی دکھی ہوا بہت زیادہ دکھی ہوا اتنا دکھی ہوا کہ اسکو لگا اس سے زیادہ کبھی نہ کوئی دکھی ہوا  کسی کو کوئی دکھائی دیا دکھی اسے دیکھ کر دکھی کسی کو بھی دکھ ہوا پاس آیا اور بولا کوئی دکھی اتنا بھی ہو تا ہے کہ رو رو کر نہر بنا ڈالے ؟ کوئی بولا میں ہوں نا اتنا دکھی کسی نے کہا ٹھیک ہے پھر نہر بنا دو میں نے اپنی خوشیوں کی فصل کو پانی دینا ہے کوئی رونے لگا روتا گیا آج رویا کل رویا پرسوں رویا روز روتا چلا گیا روتا گیا مگر جتنا بھی روتا آنسو نہر نا بنا پاتے سوکھ جاتے کسی کے پاس آیا معزرت کرنے لگا میں ہوا تو بہت دکھی مگر اتنا بھی نا ہوا کہ رو رو کر نہر بنا پاتا معزرت تمہاری خوشیوں کی فصل سوکھ جایے گی کسی کو ہنسی آگئی کوئی رو رو کر نہر بنابھی دے تو کسی کی خوشیوں کی فصل سیراب نہیں ہو سکتی خیر تمہیں احساس دلانا تھا تم اتنے بھی دکھی نہیں ہو کوئی پھر دکھی ہو گیا میں تو دکھی بھی زیادہ نہیں ہو پایا یہ سوچ کر... نتیجہ : کوئی کسی کے لئے رو بھی لے تو کسی کو فرق نہیں پڑتا از قلم ہجوم تنہائی

غرارہ اور کلی کہانی

غرارہ کہانی۔۔ ایک بار ایک ہاتھی کا گلا خراب ہوگیا۔ آواز بیٹھ گئ۔۔ کھانے پینے سے گیا۔۔ خراش اتنی تھی کہ ایک لفظ سیدھا نہ بول پا رہا تھا۔۔ سب جانور اسکا مزاق اڑاتے ۔۔ چپ ہی رہنے لگا۔۔ زرافہ اسکا دوست تھا۔۔ اسے دانت میں درد ہو رہا تھا۔۔ ہاتھی کے پاس آیا بولا آئو ہم لومڑی حکیم سے کوئی دوا لے لیں۔۔ ہاتھی نے حامی بھر لی۔۔ دونوں لومڑی کے پاس آئے۔۔ لومڑی نے دونوں کا احوال سنا معائنہ کیا دو دوائیں سامنے رکھ دیں۔۔ ہاتھی سے کہا اس دوا کو پانی میں حل کر کے غرارے کرو۔ اور زرافے سے کہا تم اس دوا کو پانی میں گھول کر کلی کرو ۔ دونوں نے اسی وقت پانی میں گھولا مگر ایک گڑ بڑ ہو گئ۔۔ ہاتھی پانی منہ میں بھرتا غرارہ کرنے کی بجائے کلی کر دیتا۔۔ اور زرافہ کلی کرنے کی بجائے حلق میں غرارہ کرنے لگا۔۔ لومڑی نے سر پیٹ لیا۔۔ احمقوں۔۔ غرارہ پانی حلق میں بھر کر ہوا سے بلبلے بنانے کو کہتے۔۔ اس سے گلا سنکے گا چونکہ ہاتھی کا گلا خراب اسے غرارہ کرنا چاہیئے۔۔ جبکہ زرافے کے دانت میں درد ہے تو اسکو حلق تک پانی پنچانے کی ضرورت نہیں دانت تو منہ میں ہیں سو کلے میں پانی بھر کر گڑ گڑ کرو۔ دونوں کھسیائے ۔۔ اور سر ...