Showing posts with label urdu content. Show all posts
Showing posts with label urdu content. Show all posts

Wednesday, January 24, 2018

سوچیں کہانی .. sochain kahani

sochain kahani
ek dafa ka zikar hay ek tha falsafi
uski khasoosiat yeh thi bolta kam aur sochta zyadah tha
ek baar soch raha tha kisi ne us se pocha
kia soch rehay ho?
falsafi ne socha kia bataon kia sochun?
ju sochun woh soch achi hay >?
soch ke bhi sochna kia soch lia kia main nay sochay baghair bhi kabhi kuch kaha ?
kabhi soch k bhi kuch kaha ?
soch yeh aisi thi k soch per soch ayay aur sochay bina na rh jaya jaiy
kher falsafi sochta reh gaya pochne wala chala gaya
nateeja: kabhi kabhi sochnay say zyadah behtar hota hay k aap na sochain ...
by hajoom e tanhai 
سوچیں کہانی 
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک تھا فلسفی 
اسکی خصوصیت تھی بولتا کم سوچتا زیادہ تھا 
ایک بار سوچ رہا تھا کسی نے اس سے پوچھا 
کیا سوچ رہے ہو؟
فلسفی نے سوچا کیا بتاؤں کیا سوچوں؟
جو سوچوں وہ سوچ اچھی ہے ؟
سوچ کے بھی سوچنا کیا سوچ لیا کیا میں نے سوچے بغیر بھی کبھی کچھ کہا؟
کبھی سوچ کے بھی کچھ کہا؟
سوچ یہ ایسی تھی کہ سوچ پر سوچ آیے اور سوچے بنا نہ رہ جایا جایے
خیر فلسفی سوچتا رہ گیا پوچھنے والا چلا گیا
نتیجہ : کبھی کبھی سوچنے سے زیادہ بہتر یہ ہوتا ہے کہ آپ نہ سوچیں

از قلم ہجوم تنہائی

Monday, January 22, 2018

آخری کی کہانی

 آخری کی کہانی۔۔
ایک تھا ننھا سا انڈہ
ڈائنا سور کا تھا۔۔ ایکدن پھوٹ کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کھلا آسمان ہے دور دور تک چرند پرند مگر کوئی بھی اسکی۔نسل کا نہ تھا۔۔اسے جو دیکھتا منہ کھول کر دیکھتا جاتا۔۔
اسکو بھی حیرت ہوتی تھی آخر وہ اکیلا کیوں ہے۔۔
سارے جنگل میں اسکی دھوم مچی تھی۔۔
شیر سے بھی ذیادہ مشہور تھا۔۔ شیر کی بھی نسل کم ہو رہی تھی وہ بھی چڑتے کہ ہم سے زیادہ ایک معمولی ڈائنا سور مشہور ہے ۔ اسکے دیو ہیکل جثے سے سب شیر سے زیادہ خوف کھاتے تھے۔۔ مگر ڈائنا سور بے حد خوش اخلاق تھا۔۔ سب جانوروں سے ملتا حال احوال پوچھتا۔۔ اسکی ہاتھی سے بہت دوستی ہو گئ تھی اور زرافے سے بھی۔ کہ یہ دونوں جانور بھی اتنے ہی بڑے دیو ہیکل جثے کے مالک تھے کہ اس سے ڈرتے نہیں تھے۔ ان دونوں کے ساتھ رہ رہ کر ڈائنا سور بگی سبزی خور ہو گیا تھا۔۔ کبھی کسی جانور کا شکار نہیں کیا۔۔ خیر ایکدن ہاتھی کی طبیعت خراب ہوئی۔۔ بیماری سے کمزور ہوا۔۔ مناسب علاج معالجہ نہ ہو سکنے سے چند دن بیمار رہ کر مر گیا۔۔ یہ پہلی موت تھی جو ڈائنا سور نے دیکھی تھی۔۔
ہاتھی کی ہتھنی اور دو بچے تھے کہہ سکتے ہیں انکی نسل محفوظ تھی۔۔ زرافہ ڈائنا سور کو دیکھتا پھر کسی سوچ میں پڑ گیا۔۔
کیا سوچ رہے ہو؟۔۔
زرافے سے ڈائنا سور نے پوچھا۔۔
زرافہ نے گہری۔سانس لی۔۔
مجھے ڈر ہے کہ تم اکیلے آخری ہو تمہارا جوڑی دار کوئی نہیں خدا نخواستہ تمہیں کچھ ہوا تو دنیا میں ڈائنا سور کی نسل ہی ختم ہو جائے گی۔۔
ڈائنا سور پریشان ہو گیا۔۔
کیا واقعی۔۔؟۔۔ میرا تو واقعی کوئی نہیں بچا میں جب سے انڈے سے نکلا ہوں اپنے جیسا میں نے آج تک کوئی جاندار نہیں دیکھا پھر آخر ایسا کیسے ہو سکتا میں اتنا نادر و نایاب جانور اگر میں بھی کیا یہاں فنا ہو جائوں گا؟۔۔
زرافے نے گہری سانس لی اور جواب دیا۔۔
ہاں۔۔
ہر شے کو فنا ہے۔۔
نتیجہ: آپ جتنے بھی انمول اور شاذ ہوں فنا مقدر ہے آپکا بھی۔۔
از قلم ہجوم تنہائی

Friday, January 19, 2018

کمال کہانی

کمال کہانی
ایک تھا کوئی۔۔
تھا تو بہت کچھ ۔۔
مگر دنیا نے اسے کبھی قابل توجہ نہ گردانا۔۔
بہت کمال کا تھا۔۔ اسے بنا رکے بنا گرے چلنا آتا تھا۔۔ وہ محو سفر رہتا تھا مگر سہج سہج کر چلتا تھا۔۔ یہ کافی کمال کی بات تھی۔۔ کوئی زندگی کے سفر میں کیسے بنا رکے گرے سہج سہج کر چل سکتا؟۔۔
مگر اسکے کمالات کو ہمیشہ کمتر جانا جاتا گیا۔۔
کوئی اپنی قدر قیمت جانتا تھا۔۔ مگر سب اسکو اسکے کمالات کو درخوراعتنا نہ گردانتے۔۔
سو وہ اداس دنیا پر نفرین بھیج کر ہجوم تنہائی میں جا بسا۔۔
کسی نے یونہی اس سے پوچھ ڈالا
بھئ۔۔
کیا خود کو ضائع کرتے ہو کوئی کمال۔کیوں نہیں کر ڈالتے؟۔۔
کوئی سرد آہ بھر کر بولا۔۔
مجھے اڑنا نہیں آتا
مجھے تیرنا بھی نہیں آتا
میں سہج سہج چلتا ہوں تو سب کہتے ہیں اس میں کمال کیا ہے۔۔
کسی کو اسکی بات متاثر کر گئ۔۔
بولا
مجھے سہج سہج کر چلنا نہیں آتا مجھے سکھائو۔۔
میں تو سیدھی راہ پر بھی ٹھوکر کھا جاتا ہوں۔۔
کوئی اٹھ کھڑا ہوا
اسے سہج سہج کر چلنا سکھایا۔۔
یوں پہلی بار کسی کو کوئی اپنا پرستار بنا گیا۔۔
نتیجہ: انسان کیلیئے اڑنا تیرنا کمال نہیں انسان کیلیئے انسانیت کی راہ پر گر نہ پڑنا کمال ہوتا ہے۔۔
از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, January 18, 2018

مزید کڑوی سچائیاں

مزید کڑوی سچائیاں
1: انسان وہ ہے جو بھینس کا گوبر بھی اپنے استعمال میں لے آتا ہے
2:ہم بچوں کو یہ تو بتاتے ہیں وہ صحیح ہیں یا غلط یہ نہیں بتاتے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط۔۔
3: جس کے ہاتھ میں کیمرہ ہوتا ہے اسی کی تصویریں کم ہوتی ہیں
4: ہمیں خود کو اچھا ثابت کرنے کیلئے کسی کو برا کہنے کی ضرورت تب پڑتی ہے جب ہم دوسرے کے برے ہونے پر یقین ست زیادہ اپنے اچھے ہونے پر شک ہوتا ہت
5: عقل بڑھ جائے یا بال جھڑ جائیں ۔۔ انسان کو اپنا آپ برا لگنے لگتا ہے
6: کسی کی نظروں میں گرنے سے زیادہ ہم منہ کے بل گرنے سے ڈرتے ہیں
7: جب سے منہ پر کتاب رکھے رکھے سونا چھوڑا ہے منہ میں ٹیبلٹ رکھ کر سونا پڑتا ہے
8:بھینس پالو تو گوبر اٹھانا پڑتا
9: انتخاب کے نام پر آپ اسی کو چھوڑتے ہیں جس سے بہتر آپ کو میسر ہو
10: اگر نصیب میں ٹھوکر لکھی ہو تو بچا نہیں جا سکتا
11: چھن جانے کی تکلیف مل جانے کی خوشی سے زیادہ ہوتی ہے
12:  پاکستانیوں کو ایک ہونے کیلیئے ایک بڑا سانحہ چاہیئے ہوتا ہے
13:ہم ایک ہیں
بس وہ کافر
یہ کافر
فلانا کافر
وہ قوم ایسی
ہم ایسی قوم بلا بلا
نتیجہ: ہم ایک جیسے ہیں

از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, January 16, 2018

محبت کی مختصر کہانی۔۔۔shortest love story

Short love story
Boy : I think I love you...
Girl : U r not sure?...
Boy : I am sure...
Girl : I know u dont...
Boy : y u said that...
Girl : Becoz I know u...
Boy : I know myselft better than u...
Girl : so do u love me...
Boy : Yes...
Girl : see i know u ... u dont love me...
Boy : ok i have some special feelings for u...
Girl : hahahahhahahahahhahahhahahahahahahhaa
محبت کی مختصر کہانی۔۔
لڑکا: مجھے لگتا ہے مجھے تم سے محبت ہے
لڑکی:یقین سے نہیں کہہ سکتے؟
لڑکا: مجھے یقین ہے ایسا ہے
لڑکی: مجھے پتہ ہے تمہیں محبت نہیں
لڑکا: ایسے کیوں کہا ہے تم نے؟
لڑکی: کیونکہ میں جانتی ہوں تمہیں
لڑکا: میں اپنے آپ کو تم سے زیادہ جانتا ہوں
لڑکی: تو تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟
لڑکا : ہاں
لڑکی:دیکھا میں جانتی ہوں تمہیں۔۔۔تمہیں مجھ سے محبت نہیں
لڑکا:ٹھیک ہے۔۔۔ میرے دل میں تمہارے لیئے خاص جزبات ہیں۔۔
لڑکی: ہاہاہاہہاہاہاہہاہاہاہہاہاہہا

از قلم ہجوم تنہائی

Sunday, January 14, 2018

خوشی کہانی۔۔

خوشی کہانی
ایک تھا کوئی ۔۔
اسے کچھ ملا۔۔
بہت خوش ہوا۔۔ خوشی سے پاگل ہو اٹھا۔۔
پاگل ہوا تو ہوش کھو بیٹھا۔۔
ہوش کھو بیٹھا تو گم صم ایک کونے میں بیٹھا روتا رہتا۔۔
کسی نے پوچھا کیا ہوا ؟۔۔ کیا گزری تم پر۔۔
کوئی اداسی سے بولا۔۔
مجھے کچھ ملا میں خوشی سے پاگل ہو گیا
اتنا کہ ہوش ہی کھو دیئے اب صدمے میں ہوں۔۔
کسی نے ہنسنا شروع کر دیا۔۔
ایسی بھی کیا مل۔جانے کی خوشی۔۔کہ ہوش کھودو۔۔
کوئی اداس سا ہو گیا۔۔
اب خوشی سے زیادہ کھو دینے کا غم محسوس ہوتا ہے۔۔
نتیجہ: چھن جانے کی تکلیف مل جانے کی خوشی سے زیادہ ہوتی ہے
از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, December 14, 2017

sochain short urdu poem ...مختصر اردو نظم سوچیں

boht socha aj mene k main kia kia sochoun...
phr sochta houn sochna kia k kia kia sochoun...

socha akhir kuch mene ab is soch me gum houn...
sochta houn k kia bataon main kia kia sochoun...

itna socha sochain meri khud soch me per gaen...
sochta kitna hay is soch ko k main kia kia sochoun...

sochtay ho tum k socha mene akhir ab kia hay...
me yeh sochoun tujh ko laga kia main kia kia sochoun...

tanhai me sochoun hajoom mery gird sochta hy ye...
hajoom me sochoun tanhai main main akhir kia kia sochoun..


by hajoom e tanhai 
مختصر اردو نظم 
سوچیں 
بہت  سوچا  آج  میں نے  کہ  میں  کیا  کیا  سوچوں ...
پھر  سوچتا  ہوں  سوچنا  کیا  کہ  کیا  کیا  سوچوں ...

سوچا  آخر  کچھ  میں نے  اب  اس  سوچ  میں  گم  ہوں ...
سوچتا  ہوں  کہ  کیا  بتاؤں  میں  کیا  کیا  سوچوں ...

اتنا  سوچا  سوچیں  میری  خود  سوچ  میں  پڑ گیں ...
سوچتا  کتنا  ہے  اس  سوچ  کو  کہ  میں  کیا  کیا  سوچوں ...

سوچتے  ہو  تم  کہ  سوچا  میں نے  آخر  اب  کیا  ہے ...
میں  یہ  سوچوں  تجھ  کو  لگا  کیا  میں  کیا  کیا  سوچوں ...

تنہائی  میں  سوچوں  ہجوم  میرے  گرد  سوچتا  ہے  یہ ...
ہجوم  میں  سوچوں  تنہائی  میں  میں  آخر  کیا  کیا  سوچوں ..

از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, December 13, 2017

مردہ کہانی


مردہ کہانی 
ایک تھا سائیں ایک ویرانے میں اسکا پڑاؤ تھا آتے جاتے مسافر کبھی کبھی اسے کچھ اشیاء خورد و نوش فراہم کر دیتے تھے سو وہ گزر بسر کر لیتا تھا کئی سال گزرے 
ویرانہ ویرانہ نہ رہا آبادی بڑھتے بڑھتے وہاں تک آ پہنچی سائیں کا سکون تباہ ہوا لوگ آتے جاتے چھیڑ جاتے بچے پتھر مار کر ہنستے سائیں جو کئی  عشروں سے خاموش تھا اپنی چپ توڑ بیٹھا ہوا کچھ یوں 
وہ اپنے دھیان میں سر نہیہوا ڑے دیوار سے پشت ٹکایے بیٹھا تھا 
روز لوگ آتے جاتے جملے کستے 
چپ سہتا رہا 
بچے پتھر مار کر بھاگ جاتے خاموش رہا 
کچھ من چلے اسکے سامنے کھڑے ہو کر اسکو مجنوں کہنے لگے اسکی نقل اتار اتار کر اسکے انداز سے چل کر اسے چڑا رہے تھے 
ملنگ اٹھ کھڑا ہوا دھاڑ کر بولا 
دور ہو جاؤ نا خلفوں اس سے قبل میرا غضب میرے قابو سے باہر ہو جایے 
من چلے دبک گیے کوئی دور سے یہ منظر دیکھ رہا تھا پاس آیا اور حیرت سے ملنگ سے دریافت کیا 
لوگ پتھر مارتے رہے تم سہ گیے جملے کستے رہے تم سہتے گیے آج معمولی من چلوں کی شرارت پر اتنا غیظ آخر کیوں؟
ملنگ پھیکی ہنسی ہنس دیا 
ملنگ کی بھی برداشت کی حد ہوتی ہے چاہے کسی عام انسان کے مقابلے میں کہیں زیادہ در میں ختم ہوتی ہے مگر ہو جاتی ہے 
وہ تو ٹھیک ہے 
کوئی بات کاٹ کر بولا 
مگر ملنگ کو کیا فرق پڑتا لوگوں سے
نہیں پڑتا فرق ملنگ ہنسا 
مگر پڑتا ہے فرق 
سننے والا سہنے والا کبھی نہ کبھی ہار جاتا ہے 
مگر کوئی ابھی بھی اپنی بات پر اڑا
مگر دنیا میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جنکو آپ کچھ کہ دیں جواب نہیں دیتے انکو مار کر بھاگ جو اف نہ کہیں گے ...
ہاں ... ملنگ نے ٹھنڈی سانس بھری 
ہوتے ہیں مگر انسانوں میں سے ایسے لوگ جانتے ہو کون ہیں ؟
ملنگ نے اپنی سرخ آنکھیں اس کے چہرے پر جمائیں 
کوئی متجسس ہو کر پوچھ بیٹھا 
کون ہیں >؟
مرے ہوئے لوگ 

نتیجہ : جو سہہ رہا ہے نا ... ہمیشہ نہیں سہے گا 


از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, December 12, 2017

قنوطی کہا نی ...qanooti kahnai



قنوطی کہا نی
ایک بار ایک قنوطی اکیلا بیٹھا وقت گزاری کے لئے اچھا اچھا سوچنے لگا جیسے کہ وہ آج اداس نہیں ہے خوش ہے
وغیرہ وغیرہ
پھر اس نے قنوطیت سے سوچا 
یہ سب تو میں نے سوچا ہی ہے بس
نتیجہ : خود سوچیے
از قلم ہجوم تنہائی

qanooti kahani 
ek baar ek qanooti akela betha waqt guzari ke liye acha acha sochnay laga jesay k woh aaj udaas nahin hay khush hay waghera waghera
phir us ne qanootiat say socha 
yeh sab tu main ne socha hi hay bs 
nateeja : khud sochiye 
by hajoom e tanhai 

Tuesday, December 5, 2017

ہتھیار کہانی .. hathyaar kahani

ہتھیار کہانی 
ایک تھا باد شاہ اسکی سلطنت بہت بڑی  تھی کئی  سلطنتوں  کے با دشاہ اس پر قبضہ  کرنا چاہتے تھے 
با د شاہ  بہت پریشان تھا اس نے اپنی فوج بڑھا لی مگر پھر بھی جنگ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا 
ایک دن بادشاہ اپنے سپاہ سالار سے اپنی  فوج کی صورت حال انکی مہارت اور طاقت کے حوالے سے تفصیلات سن رہا تھا کہ اسے خیال آیا کیوں نہ کوئی ایسا ہتھیار بنایا جایے جو بہت مہلک ہو اور اس کی سلطنت کی افواج کے سوا دنیا میں کسی کے پاس نہ ہو 
خیال آنا تھا کہ اس نے فورا ماہر ہتھیار ساز کو حکم دے ڈالا
دنیا کا سب سے مہلک اور انوکھا ہتھیار بنا لایے
ہتھیار ساز نے حکم سن تو لیا مگر پریشان ہو گیا
اپنی تمام تر صلاحیتیں آزما ڈالیں
سوچ کے گھوڑے دوڑ ایۓ ہر طرح کا ہتھیار بن تو چکا تھا تیر کمان سے لے کر تلوار تک چھری سے لے کر نیزے تک
آخر نیا کیا ہتھیار بنایے
سوچتا رہا خیر اسکے پاس وقت کم تھا اگر کوئی نیا ہتھیار بنایے بغیر بادشاہ کے حاضری دیتا تو آخری حاضری دیتا بادشاہ نے اسکا سر قلم کروا دینا تھا
کرتے کرتے وہ دن آ پہنچا جب اسے اپنا شاہکار ہتھیار پیش کرنا تھا بادشاہ کی خدمت میں
گھر میں حال سے بے حال سر پکڑے بیٹھا تھا جب سپاہی اسے لینے دروازے پر آ موجود ہوئے
ہاتھ میں لوہے کا ٹکڑا لئے بیٹھا تھا اسکو ڈھالنے کے لئے مگر کس شکل میں ڈھالے یہ سمجھ نہیں اتا تھا خیر سپاہی اسے اسی حالت میں لے کر بادشاہ کے پاس چلے آیے
ہتھیار ساز تھر تھر کانپ رہا تھا بادشاہ نے پوچھا بتاؤ کیا ہتھیار بنایا تو اس نے بے ساختہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کمر پر باندھ لئے بادشاہ نے اسکی حرکت کو تعجب سے دیکھا سپاہی کو اشارہ کیا
سپاہی بادشاہ کے ابرو کے اشارے کی تعمیل کرتا اسکے ہاتھ کھینچ کر بادشاہ کی نگاہوں کے سامنے پیش کر ڈالے
نوکدار تیر کی شکل کا لوہے کا ہتھیار دیکھ کر سخت برہم ہوا
اس تیر میں نیا کیا ہے ؟
ہتھیار ساز کا گلہ خشک ہوا
وہ یہ اتنا مہلک ہے کہ اشارے سے جان لے لیتا...
بادشاہ کو یقین نہ آیا
ٹھیک ہے اگر یہ واقعی مہلک ہے تو تم اسکو اپنی جانب نشانہ باندھ کر دیکھاؤ ...
ہتھیار ساز مایوس ہوا جانتا تھا یہ عام سا لوہے ٹکڑا ہے جو ابھی کسی شکل میں ڈھالا ہی نہیں گیا اس سے اشارہ کرنے سے کیا گھونپ لینے پر بھی بس زخمی ہی ہوگا مرنا تو دور کی بات ہے
خیر اس نے اپنی جانب اشارہ کیا اس ٹکڑے سے بلکہ گھونپ ہی لیا
اسکے کنارے بھی تیز نہ تھے گھونپنے پر بھی بس اسکے شکم پر نیل پڑ سکا خون تک نہ نکل سکا بادشاہ چراغ پا ہو گیا
تم انتہائی نالائق غبی اور بیکار انسان ہو ایک ہتھیار تک نہیں بنا سکتےماہر ہتھیار ساز بنے پھرتے ہو اس سے بہتر تھا تم لوہار کا کام سیکھ لیتے لوہے کے اس ٹکڑے کو کسی شکل میں تو ڈھال لیتے
ہتھیار ساز کی اس بے عزتی پر محل میں موجود افراد دبی دبی ہنسی ہنسنے لگے
ہتھیار ساز پر گھڑوں پانی پڑ گیا شرم سے ڈوب مرنے لگا
بادشاہ کے غیظ و غضب کی شہہ پا کر سب اسے سخت سست سنانے لگے
ہتھیار ساز کے پیٹ میں درد اتنا نہیں رہا جتنا دل میں اٹھ گیا
تڑ سے گرا گرتے ہی مر گیا
بادشاہ حیران رہ گیا
واقعی اس نے اتنا مہلک ہتھیار بنایا تھا کہ اسکے اشارے پر مر گیا ؟
محل میں بیٹھے دانش ور سے پوچھ بیٹھا
فلسفی مسکرایا اور بولا اس نے نہیں یہ ہتھیار عالی جاہ نے آزمایا تھا جو جان لیوا نکلا
نتیجہ : زبان کا وار کاری ہوتا ہے
از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, December 2, 2017

چھوٹی کہانی... choti kahani

choti kahani..
ek thi choti si kahani.. Khatam shud
moral: aur berhati kahani tau lambi hojati choti si tau na rehti na...

by hajoom e tanhai


چھوٹی  کہانی 
ایک تھی چھوٹی  سی کہانی 
ختم شد 
نتیجہ : اور بڑھاتی کہانی تو لمبی ہو جاتی چھوٹی سی تو  رہتی  نا
از قلم ہجوم تنہائی

گنجی بطخ کہانی


 گنجی بطخ کہانی  
ایک تھی بطخ
قین قین کرتی پھرتی
قین قین سریلی سی آواز میں کرتی تھی
اس نے سوچا وہ سب بطخوں کو جمع کر کے کونسرٹ کرے 
اس نے جمع کیا سب کو قین قین شروع کر دی
بطخوں کو پسند آئی
اب روز بطخیں جمع ہوتیں اور قین قین سنتیں
ایک دن بطخ کا موڈ نہیں تھا اس نے قین قین نہیں کی
بطخوں نے غصے سے اسے گنجا کر دیا
اب وہ جہاں جاتی سب کہتے
وہ دیکھو گنجی بطخ
سب بھول گیے تھے کے وہ اچھی قین قین کرتی تھی
نتیجہ : گنجے لوگوں کی کوئی قدر نہیں کرتا
از قلم ہجوم تنہائی

Friday, December 1, 2017

ھنسیے کہانی.... hunsye kahani

ھنسیے کہانی
ایک تھا فلسفی فلسفہ سکھا رہا تھا اپنے شاگردوں کو 
کسی کو ہنسی آگئی
فلسفی نے غور سے کسی کو دیکھا 
پھر بولا میں نہیں پوچھوں گا کیوں ہنسے مگر حکم دیتا ہوں سب کو سب ہنسو 
کوئی ہنس پڑا کسی کی ہنسی رک گئی پوچھنے لگا 
مگر کیوں ہنسیں ؟
ھنسیے کیوں کہ آپ اور کر بھی کیا سکتے 
فلسفی مسکرایا 
ہم بس ہنس سکتے مگر کسی وجہ سے ہی ہنسیں گے کوئی وجہ بتائیں
اب کوئی ہنسنا بھول گیا تھا 
بے وجہ ھنسیے وجہ ڈھونڈنے لگے تو رونا آجائیگا 
فلسفی رو پڑا تھا 
کوئی وجہ ڈھونڈتا رہ گیا کسی کو وجہ نہ ملی 
سب رو پڑے 
نتیجہ : ہنسنا آسان نہیں بے وجہ ہنسی بھی نہیں آتی 
از قلم ہجوم تنہائی

hunsye kahani 
ek tha falsafi falsafa sikhaa raha tha apne shagirdon ko 
kisi ko hunsi aagai 
falsafi ne ghor say kisi ko dekha
phr bola main nahi pochun ga kiun hunsay mgr hukm dekta hun sab ko sb hunso 
koi hnspara kisi ki hnsi rk gai pochne laga
mgr kiun hunsain 
hunsye kiun k aap aur kar bhi kia sakte 
falsafi muskruya 
hm bs huns skte mgr kisi wajah say hi hunsain gay koi wajah batain 
ab koi hunsna bhol gaya tha
be wajah hunsye wajah dhondne lagay tu rona ajaiyga 
falsafi ro para
koi wajah dhondta reh gaya kisi ko wajah na mili 
sb ro pray 
nateeja : hunsna asaan nahin hay be wajah hunsi bhi nahin aati 
by hajoom e tanhai 

میں کہانی ... main kahani


میں کہانی 

ایک دفعہ کا ذکر ہے 
میں نے دیکھا تھا مجھے  ڈوب میں  تھا رہا 
مر گیا ہوںگا میں یقین سے نہیں کہہ  سکتا
دیکھا ہے کیا آپ نے کبھی
خود میں مرتے ہوئے خود کو ہی 
زندہ بھی نہ رہا مر بھی نہ سکا کوئی
میں نے دیکھا تھا مجھے  پکار میں  تھا رہا
سن نہ سکا میں یقین سے کہہ نہیں سکتا 
سنا ہے کیا آپ نے کبھی
خود کو پکارتے ہوئے خود ہی کو 
سن سکا بھی نہ کوئی سنتا بھی رہا کوئی 
میں نے دیکھا مجھے بچا میں خود رہا تھا 
بچ گیا ہونگا میں بھی یقین سے کہہ  نہیں سکتا
بچایا ہے آپ نے کبھی 

خود کو مرنے سے خود ہی 

نتیجہ : میں ہوں شاید 

از قلم ہجوم تنہائی


main kahani
ek dafa ka zikr hay 
main ne dekha tha mujhay doob main tha raha
mer gaya honga main yaqeen say kehh nahin sakta
dekha hay kia aap ne kabhi?
khud main mrtay hue khud ko hi 
zinda bhi na raha mr bhi na saka koi 
main ne dekha tha mujhay pukaar main tha raha 
sun na saka main yaqeen say kehh nahin sakta 
suna hay kia aap ne kabhi
khud ko pukartay hue khud hi ko 
sn saka bhi na koi sunta bhi raha koi
main ne dekha mujhay bacha main khud raha tha
bach gaya honga main yaqeen say keh nahin sakta bchaya hay aap ne kabhi 
khud ko mernay say khud hi 
nateeja : main houn shayad 

by hajoom e tanhai 

Wednesday, November 29, 2017

گندگی کہانی.. gandgi kahani




گندگی کہانی
ایک تھا گندا
بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا
اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی 
لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا
پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا
دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو
گندہ مسکرا دیا
میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں ..
یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا ..
نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. :
gandgi kahani
ek tha ganda
bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha
uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi
log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya
abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya
paas say koi gzra tu herat say use darya kinare bethay dekh kr pochne laga
darya kinare aa hi gayay ho tu naha lo thori gandgi ki baha lo
ganda muskraya
mail jism ka utre ga dil ka nahin
yeh soch ke nahane ka khayal taal dia 
nateeha : nahayay zarur koi tu mail utre


by hajoom e tanhai 
از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, November 28, 2017

یورپ کی 17 ویں اٹھارویں صدی کی کہانی... euorope ki 18 century story


انکو لگتا تھا وہ جن کے پیروکار ہیں وہ اغلاط سے پاک ہیں
انھیں انکی تقریریں جینے کا ڈھنگ سکھاتی تھیں انھیں وہ اتنے پسند تھے کہ ان کے خلاف ایک لفظ کہنے پہ وہ اپنےمخالفون کی جان لے لیتے تھے انھیں اذیت دیتے تھے مخالفین کم تھے مگر انکے خلاف انکے اس غلط عقیدے جس کے مطابق دوسرے انکے مذہب سے خارج ہو جاتے تھے اور جس کے مطابق انکے مذہبی راہنما اغلاط سے پاک تھے کے خلاف لوگوں میں شعور آیا انھوں نے اپنے اس قتل عام کے خلاف احتجاج کرناشروع کیا انکے راہنماؤں کے کالے کرتوت بیان کیے گھمسان کا رن پرا لوگوں کے دل سے ان نام نہاد راہ نماؤں کی عزت ختم ہوآئ مگر ہزاروں جانیں گئیں حکومت وقت نے مذھب کو ذاتی معاملہ قرار دیا عبادت گاہ میں جانا انسانوں کی مرضی صوابدید پر چھوڑا
گیا انکو اپنی بقا کے لئے انتہا پسندی چھوڑنی پر کیوں کہ
قانون قتل کو جواز دینے کو تیار نہیں تھا ہاں قاتل کو سزا دینے پہ قادر تھا ۔۔۔ پھر انھوں نے ترقی کی چاند پہ کمند ڈا لی ستاروں پہ تحقیق کی
یہ ہے یورپ کی 17 ویں اٹھارویں صدی کی کہانی
شک ہو تو گوگل کر لو
از قلم ہجوم تنہائی

اختتام کہانی ... ikhtetaam kahani


اختتام کہانی 
ایک تھا اختتام اس میں سب ہنسی خوشی رہنے لگتے تھے کسی نے سنا تو ہنس پڑا ایسا تھوڑی ہوتا اسے ہنسی آئ 
اور ہنسا ہنستے ہنستے مر گیا 
نتیجہ : ہنستے ہنستے بھی مر جانا ہے اور روتے روتے بھی



از قلم ہجوم تنہائی

Ikhtetaam kahani
ek tha ikhtetaam us main sb hunsi khushi rehnay lgte thay 
kisi ne suna tu huns para aisa thori hota usay hunsi aai
aur hnsa hunste hunste mr gaya
nateeja: hunste hunste bhi mar jaana hay aur rotay rotay bhi
by hajoom e tanhai 

Monday, November 27, 2017

سب کچھ کہانی...sab kuch kahani


سب کچھ کہانی
ایک تھا سب اسے کچھ چاہیئے تھا۔۔ سب بہت اتائولا تھا۔۔ اسے کچھ بس ابھی فورا چاہیئے تھا۔۔
ایک کچھ بھی تھا۔۔
اسے سب مل رہا تھا مگر اسے سب چاہیئے نہیں تھا۔۔
اب سب کو کچھ اور کچھ کو سب مل رہا تھا مگر نہ کچھ سب پانا چاہتا تھا نہ سب کو سب چاہیئے تھا۔۔ اسے تو بس کچھ چاہیئے تھا۔۔
خیر سب کو سب نہیں ملا مگر کچھ مل گیا۔۔ کچھ کو سب ملا مگر اسے کچھ نہیں ملا
نہ کچھ کو سب چاہیئے تھا۔۔ نہ سب کو سب۔۔
مگرسب کو کچھ نہ کچھ ضرور ملا۔۔
کچھ نے سب کی خواہش کی مگر سب کو کچھ نہیں ملا مگر کچھ کو بھی سب نہیں ملا۔۔ حالانکہ کچھ کو سب کی ضرورت تھی۔۔
نتیجہ:سب کو سب نہیں ملتا۔۔ مگر سب کو سب چاہیئے بھی نہیں ہوتا۔۔



از قلم ہجوم تنہائی


sab kuch kahani
ek tha sab usay kuch chahyay tha
boht ataola tha usay kuch bs abhi foran chahye tha
ek kuch bhi tha
usay sab mil raha tha mgr usay sab chahyay nahin tha
ab sab ko kuch aur kuch ko sab mil raha tha mgar na kuch sab paana chahta tha
na sab ko sab chahyay tha usay tu bs kuch chahyay tha
kher sab ko sab nahin mila mgr kuch mil gaya
kuch ko sab mila magar usay kuch nahin mila
na kuch ko sab chahyay tha na sab ko sab mgr sab ko kuch na kuch zaroor mila
kuch nay sab ki khawahish ki mgr sab ko kuch nahin mila mgr kuch ko bhi sab nahin mila halanke kuch ko sab ki zarurat thi
nateeja : sab ko sab nahin milta magr sab ko sab chahyay bhi nahin hota

by hajoom e tanhai 

Saturday, November 25, 2017

ہاتھی کہانی۔۔.. hathi kahani


ہاتھی کہانی۔۔
ایک تھا ہاتھی گول مٹول بڑا پیارا تھا۔۔ کتنی ہتھنیاں مرتی تھیں اس پر۔ ہاتھی کا مگر کسی پر دل نہ آیا۔۔ ایک بار ہاتھی سونڈ لہراتا جا رہا تھا اسے ایک حسین و جمیل ہرنی دکھائی دی۔۔ بڑی بڑی آنکھیں قلانچیں بھرتی جا رہی تھی۔۔ ہاتھی کے دل کو جانے کیا ہوا مانو جیسے لمحہ بھر کیلیئے رک سا ہی گیا۔۔ دم سادھے ہرنی کو گھاس میں منہ مارتے دیکھتا گیا۔۔
بس وہ دن تھا ہاتھی کی نظریں پورے جنگل میں بس ہرنی کو ڈھونڈتی پھرتیں۔۔ گینڈا ہاتھی کا دوست تھا۔۔ ہاتھی کو تاڑ گیا کن ہوائوں میں ہے۔۔ پیچھے پڑ گیا بتائو کیوں ہرنی کو دیکھتے رہتے۔۔
ہاتھی نے ٹالا تو خوب آخر مجبور ہوکر بتا ڈالا
میرا ہرنی پر دل آگیا ہے۔۔
گینڈے نے پہلے تو کمینے دوستوں کی طرح خوب مزاق اڑایا پھر اسے سمجھانے لگا۔۔
تم اور ہرن کبھی ایک نہیں ہو سکتے کہاں تم لحیم شحیم ہاتھی کہاں وہ نازک اندام ہرنی۔۔ پھر ہرنی ہے تو اسے ہرن یا ہرن جیسا ہی چاہیئے ہوگا تم ایک ہاتھی ہو وہ بھی لحیم شحیم
ہاتھی بولا میں کھانا پینا کم کر دوں گا۔۔ ہرن نہ سہی ہرن جیسا بن جائوں گا
ہاتھی نے واقعی کھانا پینا کم کر دیا۔۔ وزن گر نے لگا ہاتھی دبلا پتلا ہو گیا۔۔
ہاتھی کے ماں باپ پریشان ہوگئے بچے کو کوئی بیماری تو نہیں لگ گئ۔۔ طبیب لومڑی کے پا س لے گئے۔۔
لومڑی نے پہلے تو جانچا کوئی بیماری نہ نکلی۔۔
ہاتھی کے ماں باپ کو تسلی دی پھر ہاتھی سے اکیلے میں پوچھا۔۔
بتائو کس کا جوگ لے رکھا۔
ہاتھی کو لومڑی کو بتانا پڑا۔۔
لومڑی ہنس پڑی۔۔
تم دبلے ہو کر بھی ہرن جیسے نہیں بن سکتے۔
کیوں۔۔ ہاتھی بے تاب ہوا۔۔
ہرن میں کیا سرخاب کے پر لگےہوتے۔۔؟۔۔
لومڑئ اور زورسے ہنسی۔۔
ہرن کی سونڈ نہیں ہوتی۔۔
ہاتھی دل مسوس کر رہ گیا۔۔
اب سونڈ تو کٹوانے سے رہا۔۔
کچھ عرصے بعد پورا جنگل انگشت بدنداں رہ گیا تھا ایک خبر سن کے۔۔ خبر کے مطابق
ہرنی نے کسی بھینسے سے شادی کر لی تھی۔۔
نتیجہ: ہرن ہونے سے ہرنی نہیں ملا کرتی
از قلم ہجوم تنہائی

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen