Showing posts with label afsana. Show all posts
Showing posts with label afsana. Show all posts

Tuesday, October 10, 2017

اللہ کا کرم ہے بس



اللہ کا کرم ہے بس۔۔

میں مکان خریدنا چاہ رہا ہوں کئی جگہوں پر گھر دیکھتا پھر رہا ہوں آج ایک گھر مجھے پسند آہی گیا۔۔ کھلا ہوادار بڑے بڑے کمرے سب میں دیوار گیر الماری بنی تھی لائونج میں ایک جانب بڑا سا دیوار گیر شوکیس کچن میں نئ طرز تعمیر کی چمنی کیبنٹس باتھ روموں میں باتھ ٹب تک لگے تھے میں کمرے گن رہا تھا ماشااللہ میرے دو بیٹے دو  بیٹیاں سب اسکول کا لج جانے والے سب کو الگ کمرہ درکار تھا دس مرلے پر چار کمرے نیچے تین اوپر  اور دو کچن ڈرائینگ روم ایک کو اسٹو ر بنا لیں گے ہم میاں بیوی نیچے رہ لیں گے۔۔
میں نے کھڑے کھڑے سب منصوبہ بندی کرلی
میرے تاثرات بھانپتے ہوئے  دلاور اس گھر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگا۔۔ ایک زمین کی خرید و فروخت کی ویب سائٹ سے میں نے اس گھر کی تصویر دیکھ کر پسند کیا تھا مگر گھر سچ مچ شاندار تھا اتنے علاقوں میں گھر دیکھ چکا تھا ڈھنگ کا میری ضرورت کے مطابق گھر کروڑ سے آرام سے اوپر مالیت تک تھے سو دل پر جبر کرتے میں نے مہنگے اور پوش علاقوں سے نظر چرا لی۔۔ اب یہ ایک متوسط علاقے میں ایک چوڑئ گلی میں جس میں ارد گرد خوب بڑے بڑے مکان تھے آخری مکان سے دو مکان پہلے کا مکان تھا ۔۔۔ داخلی سڑک کے قریب تھا مارکیٹ بھی دور نہیں تھی غرض مجھے ہر طرح سے پسند اگیا۔۔
آپ مجھے آخری قیمت بتائیں سب چھوڑیں۔۔
میں اب سودے بازی کے موڈ میں تھا۔۔
انصاری صاحب آپ یہاں زمیں کی قیمت سے واقف ہی ہیں گھر بالکل نیا بنا ہے ٹائیلیں بھی میں نے خوب چن کر لگوائی ہیں ایک کروڑ بس۔۔ زیادہ نہیں مانگ رہا مناسب قیمت ہے۔۔
خالص کاروباری انداز تھا مجھے اسکے انداز سے ہی محسوس ہو گیا تھا۔ مگر میں نے نوے لاکھ تک کا زہن بنا رکھا تھا۔۔
کافی دیر بحث مباحثے کے بعد میں نے دوستی گانٹھ کر پچانوے لاکھ  پر منا ہی لیا تھا۔۔
چلیں انصاری صاحب آپکی تھوڑی خاطر مدارت ہو جائے۔۔
انہوں نے خلوص سے دعوت دی۔۔
میں فارغ ہی تھا سو ہم قریبی ریستوران آگئے۔۔
چائے کا آرڈر دے کر ہم اطمینان سے بیٹھ گئے۔۔
یہ گھر بیچ کر میں نے ڈیفنس میں کوٹھی لینی ہے۔
ویسے تو میں ابھی اسی علاقے میں رہتا۔ بچوں کی ضد ہے کسی اچھے علاقے منتقل ہو جائیں۔
میرا ویسے ایک پلاٹ ہے ڈیفنس میں پہلے سے۔اسے بھی بیچ دوں گا۔۔ ۔ دو گھر میں نے اسی علاقے میں اور بنوائے ہیں ایک یہ جو مارکیٹ ہے نا جس سے گزر کر ہم آئے ہیں اس میں یہ آگے کی پوری رو میری ہے۔۔
بس اللہ کا بہت کرم ہے مجھ پر ۔ وہ ہنس کر بتا رہا تھا۔۔
میں متاثر ہوا۔ واہ بھئی ۔۔میں نے جل کر بڑا سا گھونٹ بھر لیا چائے کا۔ سچ مچ دل کے ساتھ زبان بھی جل گئ۔۔
وہ میرا ہم عمر ہی ہوگا اسکے بچے بھی میرے بچوں جتنے ہونگے میں نے اندازہ لگایا۔۔
میں خود بچوں کا ستایا ہوا۔ہوں۔۔ میں زور سے ہنسا
۔ اچھا بھلا آبائی گھر تھا پرانے شہر میں بکوا دیا۔۔کہیں اور چلیں کسی اچھے علاقے میں پچاس لاکھ بھی پورے نہ ملے اسکے اونچاس لاکھ پچھتر ہزار میں بکا تھا۔۔
میں نے منہ بنایا۔۔
وہ پھر ہنسا۔۔
بس آج کل کے بچے بھی ۔۔۔
آپاسی کو۔ریکوزیشن کروا لیں نا۔۔
سرکاری ملازم ہونے کا یہی تو فائدہ۔۔ انہوں نے مفت مشورہ دیا۔۔
 میں نے لاپروائی سے سر ہلایا۔۔
حالانکہ میرا یہی ارادہ تھا اب آپ سے کیا چھپانا۔۔
اوپر کی آمدنی میری اچھی خاصی ہے مگر دنیا کو جواب بھی دینا پڑتا اب بندہ کھل کر تو سب کہہ سن نہیں سکتانا۔۔

یونہی ہلکی پھلکی باتیں کرتے میں نے اس سے بھی  پوچھ لیا
آپ کیا کرتے ۔۔ ؟
میں ڈیفنس میں ہو تا ہوں۔۔
اس نے آرام سے کہا۔۔
مجھے اچھو ہوا میں نے کپ رکھ کر زور دار قہقہہ لگایا۔۔
سولہویں گریڈ کا سرکاری افسر اس وقت پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا۔۔
واقعی ڈیفنس پر اللہ کا کچھ زیادہ ہی کرم ہے۔۔
میں کہہ کر اور زور سے ہنستا رہا۔۔ دلاور پہلے حیران ہوا پھر تھوڑا خفگی سے بولا۔۔
مطلب کیا ہے اس بات کا۔۔
میں نے بمشکل ہنسی روکی۔۔
میں کوئی حاجی نہیں اوپر کی کمائی اچھی خاصی میری مگر میں بھی اتنی جائداد بنا نہ سکا اور آپ معمولی ۔۔۔
مجھے ہنسی کا ایک اور دورہ پڑ گیا تھا۔۔





از قلم ہجوم تنہائی

Monday, September 25, 2017

قسط دو انوکھی کہانی


قسط دو انوکھی کہانی 

جلد ہی یہ بات سکول میں سب بچوں میں پھیلتی گئی 
انوکھی سے سب بچے ڈرنے لگے وہ اکیلی رہنے لگی 
وہ اکثر اکیلے بیٹھ کر روتی رہتی اور خدا سے شکوہ کرتی 
سب میری بات کیوں ماں لیتے اور اگر ماں لیتے تو اس میں میرا قصور کیا ہے 
اس کے امی ابو کافی خوش تھے اسکے بہن بھایئوں سے جو بات منوانی ہوتی انوکھی کے ذریے کہلاتے 
نتیجہ بہن بھی علیحدہ اس سے چڑنے لگے گھر میں جہاں یہ آ کر بہن بھائیوں کے پاس آ کر بیٹھتی وہ اٹھ کر چل دیتے 
انوکھی بچی ہی تو تھی اداس رہنے لگی 
اسکی دادی نے اسے پیار سے سمجھایا 
بیٹا یہ کوئی بری بات نہیں ہے اگر کوئی تمہاری بات ماں لیتا برا تب ہوتا جب تم اس بات کا غلط فائدہ اٹھاتیں بیٹا 
غلط فائدہ؟
وہ سمجھی نہیں 
ہاں جیسے تم لوگوں کو کچھ ایسا کرنے کا کہتیں جس سے انھیں نقصان ہوتا یا تم اپنے ذاتی کام کرنے کا کہتیں ٹیب بری بات تھی نا
دادی کو ایسا سمجھاتے ہوئے خیال بھی ذہن میں نہ آیا کہ انہوں نے نا دانستگی میں 
اسے نیی ترکیبیں اپنانے کا مشورہ دے دیا ہے 
...........
انوکھی یہ تمھاری لکھائی تو نہیں ہے 
اسکی استانی صاحبہ نے اسکی کاپی کے پچھلے صفحے پلٹ کر لکھائی کا موازنہ کیا 
میری نہیں ہے میں نے اپنی بہن سے اپنا گھر کا کام کروایا ہے 
کیوں ؟ 
استانی صاحبہ حیران ہویں 
میں تھک گئی تھی 
اس نے معصومیت سے کہا 
اچھا ٹھیک ہے ابھی یہ سب کام پانچ پانچ مرتبہ لکھ کر لاؤ 
انھیں غصہ آگیا تھا 
مت سزا دیں مس 
ٹھیک ہے آئندہ اپنا کام khud کرنا 
وہ فورا مان گیں 
انوکھی خوش ہو گئی
......
انوکھی لنچ باکس ویسے کا ویسا ہے کچھ کھایا کیوں نہیں؟
امی اسکا لنچ باکس دیکھ کر حیران رہ گائیں 
امی کھایا نا میری دوست آلو کا پراٹھا لائی تھی میں نے کہا مجھے دے دو اس نے دے دیا میں نے اسکا آلو کا پراٹھا کھایا نا 
انوکھی نے مزے سے بتایا 
اور اسنے کیا کھایا؟
امی حیران پریشان ہی تو رہ گیں 
اس نے کچھ نہیں روتی رہی آدھی چھٹی میں 
اس نے کندھے اچکا دے امی سر پیٹ کر رہ گیں 
تو تم اپنا لنچ اسے دے دیتیں بیٹا 
کل میں آپکو آلو کا پراٹھا بنا کر دوں گی وہ اسے دے دینا کل جا کر 
ٹھیک ہے؟
انہوں نے پیار سے اسکا سر سہلایا 
اس نے خوشی خوشی اثبات میں سر ہلا دیا 
.......
اگلے دن اس بچی کو اس نے آلو کا پراٹھا دیا اس نے خوشی خوشی اپنا لایا سند وچ اسے دے دیا 
اس نے سینڈوچ آدھا  ہی کھایا تھا اس کو اپنا دوسرا ہم جماعت نوڈل کھاتا دکھائی دے گیا 
........
ارے اس نے کوئی مار کر تھوڑی لیا تھا بچی ہے اسے لنچ پسند آگیا تھا اس نے کہا مجھے نوڈل دے دو آپ کے بچے نے دے دے اب میں اس بات پر بچی کو کیا ڈانٹوں؟
امی صاف مکر گیں 
ہاں عالیہ کو گھور کر دیکھا تھا عالیہ مسکرا دی تھی اس بار ڈری نہیں تھی امی حیران ہو کر رہ گیں  
اس وقت وہ پرنسپل کے دفتر میں موجود تھیں عالیہ کے علاوہ پرنسپل صاحب وہ بچہ منہ بسورتا ہوا اور اسکی امی غصے سے ناک بھنویں چڑھا ے بیٹھی تھیں 
 امی کو پرنسپل صاحب نے بلوا لیا تھا اس بچے کی امی  نے آ کر شکایات کی تھی کہ انوکھی ان کے بچے کا لنچ کھا گئی 
 کیوں بیٹا انوکھی نے آپکو مارا تھا؟
پرنسپل صاحب نے پیار سے پوچھا بچے نے نفی میں سر ہلا دیا 
 آپکو نوڈل نہیں دینے تھے تو آپ منع  کر دیتے نہ دیتے ؟
بچے نے سر ہلایا دوبارہ موٹے موٹے آنسوں سے رونے لگا 
دیکھے مسز فیروز بچے ہیں آپس میں کھلتے ہیں کھاتے پیتے بھی ہیں اس بات کو بڑھانے کا فائدہ نہیں آپ بچے کو منع  بھی کریں گی کہ آیندہ عالیہ کو اپنا لنچ نہ دے تو یہ بھی بری ہی بات ہوگی پھر بھی اگر آپ ایسا چاہیں تو ٹھیک ہے آپ کہ دیں اپنے بیٹے کو 
پرنسپل صاحب نے دھیرج سے سمجھایا وہ غصے سے اٹھ کھڑی ہیں عالیہ کو گھور کر دیکھا اور بولیں 
آیندہ میرے بچے کا لنچ کھایا تو بوہت بری طرح پیش آؤنگی
عالیہ نے کندھے اچکا دے 
مجھے اگر پسند آیا تو ضرور کھاونگی
وہ ذرا نہ ڈری 
عالیہ امی نے اسکی بدتمیزی پر گھورا 
یہ تربیت ہے آپکی مان کی امر کی ہوں اور یہ آگے سے مجھ سے بدتمیزی کر رہی ہے 
وہ خاتون بری طرح تپ گئیں تھیں 
میری امی سے تمیز سے بات کریں 
عالیہ نے گھور کر دیکھا انھیں 
سوری بولیں میری امی سے
ان خاتوں کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں 
سوری مسز شکیب 
وہ خاتون اب بیحد تمیز سے معذرت کر رہی تھیں 
پرنسپل صاحب اور امی منہ کھولے دیکھ رہے تھے 
کان پکڑ کر سوری بولیں 
عالیہ نے اطمنان سے سٹول پر چڑھ کر ٹانگ پر ٹانگ رکھ لی تھی 
ان خاتوں نے دونوں کان پکڑ لئے تھے 
...................................
عالیہ بیٹا یہ کیا حرکت تھی بیٹا؟
بڑوں کو ایسا نہیں کہتے کان پکڑ کر معافی مانگو 
امی نے گھر آ کر بڑے پیار سے سمجھایا 
مجھے مت سمجھائیں مجھے کھانا دن بھوک لگی ہے 
اس نے منہ بنایا تھا امی کھانا لگانے اٹھ گیں 
.........................................
سارا گھر اسکی خدمت میں لگا رہتا کوئی اسکے سکول کا یونیفارم استری کرتا کوئی اسکا سارا گھر کا کام کر دیتا اسکو کوئی ڈانٹ نہیں سکتا تھا وہ منع کر دیتی تھی دادی خاموشی سے اسکی حرکتیں دیکھ رہی تھیں 
اس دن صبح اٹھی سارا اس سے پہلے اٹھ کر باتھ روم جا رہی تھی 
سارا مت جاؤ مجھے پہلے جانا 
بیچاری دروازہ بند کرنے لگی تھی روتی روتی باہر آگئی
امی کچن میں تھیں جا کے رو رو کر انھیں شکایات لگی 
کیا کروں چندا مجھے بھی منع کیا ہوا ہے کہ اسے نا ڈانٹوں تم ہمارے کمرے کے باتھ روم میں چلی جاؤ 
وہ اور کیا کہتیں ویسے بھی ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں 
وہ منہ ہاتھ دھو کر باہر ائی تو امی نے اسکا آملیٹ اور پراٹھا لا کر سامنے رکھ دیا 
مجھے ہالف فرائی کھانا 
امی دانت پیس کر رہ گیں کوئی اور بچہ ہوتا تو ایک لگا کر یہی کھانے پر مجبور کرتیں ناچار اٹھ کر دوسرا انڈا بنا کر لائیں 
انوکھی اب دس سال کی ہو چکی تھی اسکو اب نہ صرف اپنی اس خاصیت کا پتہ چل چکا تھا بلکہ وہ اب اسکا صحیح غلط استمال بھی دھڑلے سے کرتی تھی 


........
سکول میں سپورٹس کمپیٹیشن ہوا 
ہر کھیل میں گولڈ میڈل لیا 
دوڑ کا مقابلہ ہوا اس نے بھاگتے بھاگتے اپنے سے آگے بھاگتے بچوں کو روک جانے کو کہا 
وہ تب تک رکے رہے جب تک وہ اختتامی لکیر تک نہ پہنچ گئی 
رسہ کشی کے مقابلے میں اس نے مخالف ٹیم کے بچوں سے کہا رسی چھوڑ دو سب ان کی ٹیم کے اپر آ کر گر گیے 
لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے اسکو مزہ نہ آیا جا کر منع کردیا مت کھیلو 
جب پرنسپل صاحب میچ دیکھنے آیے تو با یس بچے قطار سے بیٹھے انوکھی کا ملی نغمہ سن رہے تھے گا کر بولی سب تالیاں بجاتے رہو 
پرنسپل صاحب نے اسے بلا کر پوچھا یہ کیا کر رہی ہو؟
مجھے فٹ بال نہیں پسند میں نے گانا تیار کیا ہے سب کو وہ سنا رہی تھی 
پاکستان پاکستان 
پیچھے سب بچے تالیاں پیٹ پیٹ کر ہاتھ سرخ کر چکے تھے 
مگر بیٹا آپکو پسند نہیں اپ مت کھیلو آوروں کو منع تو نہ کرو 
وہ حیران تھے بچے رک بھی نہیں رہے تھے
وہ دو بار کہہ چکے تھے انھیں روکنے کو 
اس نے ایک نظر انکو دیکھا پھر بتایا 
آپ کے کہنے سے نہیں رکیں گے 
اس نے مڑ کر انہیں تالیاں بجانے سے رکنے کو کہا سب رک گیے 
اس نے سر کو مسکرا کر دیکھا اور آگے بڑھ گئی   
امتحان شروع ہوئے اس نے سارا پیپر اپنے ساتھ بیٹھی لائق لڑکی کا نقل کیا 
صاف کہا اسے مجھے دیکھو 
استانی صاحبہ نے آکر گھرکا تو انھیں خاموش کرا دیا مجھے مت ڈانٹیں 
چپ رہیں 
نتیجہ آیا تو اول آی تھی وہ پورے سکول میں 
اسکو پرائز دیتے ہوئے اسکی استانی صاحبہ کا منہ پھولا ہوا تھا 
اسکے پرنسپل صاحب بھی سنجیدہ سے کھڑے تھے 
اور تو اور وہ اسٹیج پر اپنا انعام لینے گئی کسی نے تالی تک نہیں بجائی 
وہ اپنا انعام لے کر امی ابو کے پاس ای اسکے اور کسی بہن بھائی نے پوزیشن نہیں لی تھی مگر وہ انکی پرسنٹیج دیکھ کر خوش ہوئے تھے اسنے اپنا انعام دکھایا تو امی نے ایک نظر دیکھ کر بنا خوش ہوئے ایک طرف رکھ دیا 
وہ بہت اداس ہو گئی تھی 
آپ سب مجھے مبارک باد دیں 
اس نے کہا تو سب کورس میں اسے پاس ہونے اور پوزیشن لانے پر مبارک باد دینے لگے 
وہ بجایے خوش ہونے کے مزید اداس ہو گئی اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پر اندھی لیٹ کر رونے لگی 
دادی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھیں 
چپکے سے اسکے پاس آ کر بیٹھ گیں پیار سے اسے سہلایا 
بیٹا کیوں رو رہی ہو؟
کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا کوئی مجھ سے خوش نہیں میں نے انعام لیا کسی نے تالی بھی نہیں باجی میرے بہن بھائی بھی خوش نہیں ہوئے کیوں دادی اماں ؟
وہ اٹھ بیٹھی اور سسکنے لگی 
دادی نے اسے پیار سے گلے لگایا 
ایسا اس لئے کہ تم نے یہ انعام اپنی محنت یا کار کردگی سے نہیں اپنے خصوصیات اپنی طاقت کا بیجا استمعال کر کے حاصل کیا ہے 
میں نے سمجھایا تھا نا بیٹا یہ طاقت آپکو اچھے مقصد کے لئے استمعال کرنی ہے اسکا غلط استمعال کروگی تو نقصان اٹھاوگی مجھ سے وعدہ کرو آئندہ کبھی کسی غلط فائدے کے لئے یا اپنے فائدے کے لئے اسے استمعال نہیں کرو گی؟
مگر دادی میں نے تو صرف 
اس نے ہچکچا کر کچھ کہنا چاہا 
بیٹا یہ طاقت آپکو دوسروں کی مدد کرنے کے لئے دی گئی ہے اسکا اپنے لئے بیجا استمال کروگی تو چھن جایے گی آپ سے آپ نے کسی اور کی محنت نقل کی اس سے آپ کے اپنے علم میں بھی اضافہ نہیں ہوا دوسرا کسی کی محنت چرا کر آپ نے اسکا بھی دل دکھایا جو پہلی پوزیشن لانے کے لئے سارا سال محنت کرتی رہی کسی کا دل دکھاؤ گی تو اسکی بددعا پیچھا کریگی پھر یہ خصوصیت جاتی رہی گی اب سمجھ ای 
دادی نے تفصیل سے سمجھا کر اسکا سر ہلایا 
تو اس نے آنسو پونچھ کر وعدہ کر لیا 
آئندہ میں کبھی کسی کو تنگ نہیں کرونگی
شاباش میری اچھی بچی 
دادی کو اسکے سمجھ جانے پر پیار آگیا تھا 


از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, September 19, 2017

الٹی کہانی

الٹی کہانی
ایک تھا سارس مچھلی کھا رہا تھا
مچھلی اس کے حلق میں پھنس گئی
بڑا پریشان ہوا کچھوے کے پاسس گیا 
اس نے کہا ایسا کرو تم بی بطخ کے پاسس جو ان کے پاس ضرور کوئی حل ہوگا
بی بطخ کے پاس آیا ماجرا کہ سنایا
بی بطخ نے سوچا پھر ایک تب منگوایا اس میں الٹی کی اب کہا پانچ خشکی کے جانور بلا کے لاؤ
زیبرا آیا اس سے بھی الٹی کروائی
لومڑی کچھوا خرگوش پھدکتا آیا بولا میںنے بھی کرنی ہے اس نے بھی کی
بی بطخ نے اس میں چمچ چلایا
کسی جانور نے کیچوے کھایے تھے ہضم نہ ہے تھے وہ الٹی میں جاگ کے تیرنے لگے
بی بطخ نے ایک چمچ بھرا اور سارس کے منہ کے پاسس لا کر کہا لو اسے کھا لو
سارس نے دیکھا گھاس کا ملیدہ گاجر کے ٹکڑے سمندری کیڑوں کا لیس اور ان پر تیرتے کیچوے ابھی دیکھ رہا تھا کے بندر آیا اور اس نے بھی بالٹی میں جھانک کے الٹی کر دی وہ ویسے کیلا کھا کے آیا تھا
نتیجہ : کیا ہوا؟ الٹی آگئی؟
سارس کو بھی آ گئی تھی 


از قلم ہجوم تنہائی

Friday, September 15, 2017

پیار کہانی نمبر آٹھ

پیار کہانی نمبر آٹھ

ایک بار ایک شرارتی سا بچہ سائکل پر ون ویلنگ کرتا  جا رہا تھا 
سامنے سے ایک بچی ٹیڈی بار لئے چلتی آ رہی تھی 
بچے سے سائکل کا توازن بگڑا وہ اس بچی سے ٹکرا گیا 
سائکل کا ہینڈل بچی کے منہ پر لگا اسکے آگے کے دونوں دانت ٹوٹ گیے 
وہ رونے لگی 
بچہ ڈھیٹ سا تھا اٹھا کپڑے جھاڑے بچی کے آنسو پونچھ کر کہنے لگا 
مت فکر کرو جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو تم سے شادی کر لوں گا 
بچی خوش ہو گئی 
وقت گزرتا گیا دونوں بڑے ہو گیے 
لڑکی اکثر آیئنے میں دیکھتی اپنے ٹوٹے دانت پر نذر ڈالتی اور مسکرا دیتی 
لڑکا پڑھنے باہر چلا گیا 
واپس آیا تو اسکی گوری سی بیوی اور بچہ بھی ساتھ تھے لڑکی دکھی ہو گئی اس سے پوچھا اس نے
ایسا کیوں کہا لڑکا دکھی ہو کر کہنے لگا
میں گاڑی چلا رہا تھا یہ میری گاڑی سے ٹکرا گئی تھی اوس اسکی تو ٹانگ ہی ٹوٹ گئی تھی 
لڑکی نے معاف کردیا اسے 
نتیجہ : بچپن میں آپ نہیں جانتے بڑے ہو کر کب اپکا کس سے ایکسیڈنٹ ہو جایے لہٰذا دانت ٹوٹنے پر دانتوں کے معالج سے رابطہ کر کے ںیی داڑھ  لگوا لینی چاہے 

از قلم ہجوم تنہائی

Friday, September 8, 2017

short urdu poetry samndr azaad nazm

سمندر 

میں انتظار میں ہوں
کب سمندر سوکھے
کب تہ اسکی نظر آیے
دیکھے دنیا کیا کیا سمیٹے تھا یہ پانی
وہ سب کچھ جس سے اسکا واسطہ نہیں تھا
تب کیا 
دنیا شکر گزار ہوگی
کتنا پردہ رکھا سمندر نے ؟
کیا کیا سہہ رہا تھا سمندر
کیا کوئی احسان مانے گا ؟
کیا جانے تب بھی یہ دنیا سمندر کو کوسے
کیا تھا اب بھی نہ سوکھتا 
سب راز کھول بیٹھا 


از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, August 19, 2017

بلندی کہانی


بلندی کہانی 

ایک تھی چیونٹی 
اس نے سوچا اونچے پہاڑ پر چڑھ کر دیکھ دنیا کسی دکھائی دیتی ہے 
وہ دھیرے دھیرے چڑھتی رہی کی دن سفر طے کیا 
راستے کی کٹھنائیوں کا مقابلہ کیا آخر اوپر پہنچ گئی 
پہاڑ بہت اونچا تھا اسے وہاں سے بھی دنیا دکھائی بڑی ہی دی 
تھک کر واپس آنا چاہا رہ چلتے کسی مسافر کے پاؤں تلے کچلی گئی درد سے نڈھال ہو کے چلائی
اندھے ہو کیا؟اتنے اونچے پہاڑ پر چڑھ گئی پھر بھی دکھائی نہ دی ؟
مگر اسکو واقعی مسافر دیکھ نہیں پایا تھا کیوں کہ وہ ابھی بھی چھوٹی سی چیونٹی ہی تھی 
نتیجہ : اونچائی نصیب سے ملتی اونچایوں کی خواہش کرنے سے نہیں 

از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, August 15, 2017

گلاس کہانی



ایک بار رات کے وقت کچھ لال بیگ باورچی خانے کے سلیب پر چہل قدمی کر رہی تھے ادھر ادھر 
کی باتیں کرتے ہوئے انکو جانے کیا سوجھی ایک گلاس میں گھس کر بیٹھ گیے 
ایک لال بیگ نے دوسرے سے پوچھا 
یار تیرے مستقبل کے کیا ارادے ہیں ؟
کیا کرنا ہے آگے زندگی میں ؟
دوسرا لال بیگ سوچ میں پڑ گیا ابھی جواب بھی نہی دینے پایا تھا کہ
باورچی خانے کی بتی جلی نیند میں گم ایک لڑکی آیی اس نے گلاس میں پانی بھرا اور غٹا غٹ چڑھا گئی 
نتیجہ : گلاس میں بیٹھ کر باتیں نہیں کرنی چاہے 

از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, July 29, 2017

ایک تھی رانی

ایک تھی رانی 
میری نوکرانی  
جھاڑو لگاتی تھی 
پوچھا بھی لگاتی تھی 
کام زیادہ کرنا پڑے 
خفا بھی ہو جاتی تھی 
راجہ میرا مالی تھا  
کام اسکا باغ کی رکھوالی تھا 
ایک بات پہ روز مجھ سے جھاڑ کھاتا تھا 
کام کے دوران رانی کو تاڑتا جاتا تھا 
ایک دن راجہ نے رانی کو پھول دیا 
رانی نے وہ پھول قبول لیا
دونوں نے پیار کی قسمیں کھا ئین
مجھے بولے شادی کی چھٹی دو سائیں 
دونوں کی آج شادی ہے 
کہانی یوں تو سادی ہے 
انکا گھر خوشیوں سے بھریگا 
پر کون اب میرے گھر کا کام کریگا 

Wednesday, July 19, 2017

چرواہا کہانی

Syeda Vaiza Zehra
چرواہا کہانی
ایک تھا چرواہا اس کا ایک ریوڑ تھا
اس میں ٢٥ بکریاں ١٥ دنبے ١٨ گایے دو کتے تھے
کتوں کا کام ریوڑ کی حفاظت کرنا تھا 
ایک کتے کو کتاپا سوجھا دوسرے سے بولا بکریاں اور گایے تو ٹھیک ہے ہم دنبوں کی حفاظت کیوں کریں
عجیب سے ہیں
دوسرا کتا متفق تو نہیں تھا مگر چپ رہا
پہلے کتے نے دنبوں کو کاٹنا شروع کر دیا دانت مارتا دنبے سخت جان تھے
ایک دو تو بیمار پڑے پھر انہوں نے جوابا کاٹنے کی کوشش کی مگر ایک تو دنبہ معصوم جانور ہوتا دانت بھی نہیں مار پاتے
خیر ایک دنبے مر گیے چرواہا نے کہا چلو خیر ہے ابھی ١٢ دنبے باقی ہیں
اب کتے کو عادت بھی پڑ گئی تھی اس نے گائے کو بھی کاٹنا شروع کیا
ایک دو گایے بھی مر گئیں کتے نے بکریوں کو کاٹنا شروع کیا وہ سب سے کم جان تھیں
ایک دو نہیں دس بکریاں اس کے کاٹنے سے مر گئیں چرواہے کو ہوش آیا
اس نے سوچا کتے کو مار دے
اس نے فیصلہ کیا تو بکریوں گایوں دنبوں سب نے حمایت کی مگر دوسرے کتے نے کہا ٹھیک ہے اس نے بکریاں مار دیں مگر گایے اور بکریاں اب نہیں ماریں گے لیکن دنبوں کو مارنے دیں
چرواہا حیران بیٹھا دونوں کتوں کی سن رہا
بکریاں در چکی ہیں گائے ابھی بھی سوچ رہی ہیں دنبے کو مرنے دیں یا نہیں کتا ابھی بھی خون خوار ہے
دنبے تیل دیکھ رہے اور تیل کی دھار
نتیجہ : اس ریوڑ کو آپ پاکستان کو سمجھ لیں اور چرواہا حکومت اب بھی سوچ لیں خاموش رہنا ہے یا کتے کے ہاتھوں مرنا ہے؟
از قلم ہجوم تنہائی

Monday, July 17, 2017

میں ایک شامی بچہ ہوں

میں ایک شامی بچہ ہوں ۔
مجھے ماں ایک کہانی سناتی ہے
ایک قافلہ تھا کچھ مسلمانوں ۔۔۔یہاں جنگ کے بعد لٹ پٹ کر آیا تھا ۔۔۔جنگ میں اپنوں کو گنوا کر بس اسلام بچایا تھا ۔۔۔
ایک عرب کی شہزادی تھی سنا ہے یہ نبی زادی تھی۔۔۔
بے پردہ ہر شہر پھرای گئی ۔۔۔سنا ہے زلفوں سے منہ کو چھپاتی تھی بیتے ظلم بتاتی تھی خطبے دیتی جاتی تھی ۔۔
کوئی سنتا تھا برے غور سے کوئی ہنستا تھا ۔کوئی بیے خوفی سے جھٹلایے کوئی دل ہی دل میں ڈرتا تھا۔۔یہ قافلہ دکھوں سے امیر ہوا ۔۔۔
ایک شقی بادشاہ کے ہاتھوں اسیر ہوا۔۔۔ان اسیروں میں کچھ بچے تھے۔۔۔جنگ میں جانے کس طرح بچے تھے ۔۔۔
زنداں میں ماؤں کے پاس جاتے تھے ۔اپنے زخم دکھاتے تھے ۔۔۔
پوچھتے تھے کب ہونگے رہا ؟
ماؤں نے بہلانے کو ان سے کہا ؟
جب حق دلوں میں گھر کے جاےگا ہر مسلم ظلم کے خلاف اٹھ جاےگا ۔۔۔
پھر ایک وقت ایسا آیا مختار کوئی عرب سے اٹھ آیا
ان یزیدیوں کو جہنم واصل کیا حسین کا پیغام پھیلایا
مگر ماں میں نے ماں کی بات کاٹی
مگر ماں جب ظلم کے بادل چھا تے تھے
آل نبی پر سب ستم آزماتے تھے
لوگ تب کیوں چپ رہ جاتے تھے
کیوں نہیں ان ظالموں کو مٹاتے تھے ؟
مان نے گہری سانس بھری
بیٹا وہ وقت اور ہوا کرتا تھا
نہ ٹی وی تھا نہ نیٹ نہ سفر آسان ہوا کرتا تھا
آل نبی پر قیامت جب بپا ہوتی تھی
امّت تب انکے حال سے انجان ہوتی تھی
کچھ یزید سے ڈرتے تھے دب جاتے تھے
کچھ یزید کے حامی تھے صحابی تک که جاتے
کچھ لڑے بھی تو تھے حسین کے ساتھ مل کر
جنھیں یاد تھا امر بلا المعروف اور نہی منکر
بس وہ لوگ تھوڑے ہوتے ہیں
جنہوں نے دنیا سے دل موڑے ہوتے ہیں
ماں حالات اب بھی تو یہی ہووے جاتے ہیں
کیا اب بھی لوگ ہمارا احوال نہ جان پاتے ہیں
شہزادی کو رلانے والے آج تک اسکا مزار ہیں ڈھاتے
حسین کے دشمن آج بھی ہیں کیوں مسلمان کہلاتے
چلو چھوڑو سب مجھے بس اتنا تم بتانا
میں شیعہ ہوں یا سنی کہ میں حسین کا ہوں دیوانہ
مجھے ان میں سے آخر کون بچانے ہے آئےگا
جو آیگا وہ کیا زینب کا مزار بھی بچاے گا
مرے سوال الجھاتے ہیں کیا سمندر کی لہروں سے بھی زیادہ؟
میں ڈوبتا ہوں ان میں مجھے جواب دینا تھوڑا سا سادہ
اچھا ماں یہ بتانا کیسے ڈٹ جاتے ہیں ؟
اور وہ لوگ کیسے ہوتے ہیں جو سامنے سے ہٹ جاتے ہیں ؟
ماں نے پھر گہری سانس بھری
پہلے سوچا پھر کچھ که پڑی
بیٹا نام حسین کا سنتے ہیں ڈٹ جاتے ہیں
یزید کے نام پر اٹکتے ہیں بٹ جاتے ہیں

جواب ملا مجھے اب جنّت میں جا کے سمجھ پاؤں گا
میں آج کسی ساحل سے لاش بن کے اٹھ جاؤں گا
میں ایک شامی بچہ تھا

بلڈی سکس کلو میٹر



ایک اور کہانی 65 کی
بلڈی سکس کلو میٹر
مجھے مسیحائی کا ہنر آتا ہے
جنگ میں یہ ملک کے کام آتا ہے 
ایک دن پاس میرے ایک گھایل آیا
اپنی شجاعت کا دشمن کو کر قایل آیا
خون میں لت پت بدن زخموں سے چور
مگر با حوصلہ عزم و ہمت سے بھرپور
سوچ میں پڑی کہاں سے شروع علاج کروں ؟
بدن ٹٹولوں کس کس زخم کو دوا آج کروں ؟
مجھے شش و پنج میں دیکھا تو مسکرا د یا
کسی سوچ نے اسکا خون اور گرما دیا
مادام میں نے اپنے ان زخموں کو چوما تھا
آج جب وائرلیس پر دشمن کا پیغام سنا تھا
کہتا تھا لاہور بس دو کلو میٹر رہ گیا
میرا خوں کھول اٹھا یہ کیا کہہ گیا
جانتی ہے میں کیا کر آیا ہوں ؟
سنگ ۔میل پر اپنے خون سے لکھ آیا ہوں ۔۔۔
بلڈی سکس کلو میٹر۔۔۔

چند لفظی کہانی


چند لفظی کہانی 
انکل نے بڑے پیار سے اس سے پوچھا 
بیٹا تمہارا نام کیا ہے ؟
تین سالہ بچی سوچ میں پڑی پھر بولی 
جی ،کمینی 
۔
۔

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen