نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

afsana لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اللہ کا کرم ہے بس

اللہ کا کرم ہے بس۔۔ میں مکان خریدنا چاہ رہا ہوں کئی جگہوں پر گھر دیکھتا پھر رہا ہوں آج ایک گھر مجھے پسند آہی گیا۔۔ کھلا ہوادار بڑے بڑے کمرے سب میں دیوار گیر الماری بنی تھی لائونج میں ایک جانب بڑا سا دیوار گیر شوکیس کچن میں نئ طرز تعمیر کی چمنی کیبنٹس باتھ روموں میں باتھ ٹب تک لگے تھے میں کمرے گن رہا تھا ماشااللہ میرے دو بیٹے دو  بیٹیاں سب اسکول کا لج جانے والے سب کو الگ کمرہ درکار تھا دس مرلے پر چار کمرے نیچے تین اوپر  اور دو کچن ڈرائینگ روم ایک کو اسٹو ر بنا لیں گے ہم میاں بیوی نیچے رہ لیں گے۔۔ میں نے کھڑے کھڑے سب منصوبہ بندی کرلی میرے تاثرات بھانپتے ہوئے  دلاور اس گھر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگا۔۔ ایک زمین کی خرید و فروخت کی ویب سائٹ سے میں نے اس گھر کی تصویر دیکھ کر پسند کیا تھا مگر گھر سچ مچ شاندار تھا اتنے علاقوں میں گھر دیکھ چکا تھا ڈھنگ کا میری ضرورت کے مطابق گھر کروڑ سے آرام سے اوپر مالیت تک تھے سو دل پر جبر کرتے میں نے مہنگے اور پوش علاقوں سے نظر چرا لی۔۔ اب یہ ایک متوسط علاقے میں ایک چوڑئ گلی میں جس میں ارد گرد خوب بڑے بڑے مکان تھے آخری مکا...

قسط دو انوکھی کہانی

قسط دو انوکھی کہانی  جلد ہی یہ بات سکول میں سب بچوں میں پھیلتی گئی  انوکھی سے سب بچے ڈرنے لگے وہ اکیلی رہنے لگی  وہ اکثر اکیلے بیٹھ کر روتی رہتی اور خدا سے شکوہ کرتی  سب میری بات کیوں ماں لیتے اور اگر ماں لیتے تو اس میں میرا قصور کیا ہے  اس کے امی ابو کافی خوش تھے اسکے بہن بھایئوں سے جو بات منوانی ہوتی انوکھی کے ذریے کہلاتے  نتیجہ بہن بھی علیحدہ اس سے چڑنے لگے گھر میں جہاں یہ آ کر بہن بھائیوں کے پاس آ کر بیٹھتی وہ اٹھ کر چل دیتے  انوکھی بچی ہی تو تھی اداس رہنے لگی  اسکی دادی نے اسے پیار سے سمجھایا  بیٹا یہ کوئی بری بات نہیں ہے اگر کوئی تمہاری بات ماں لیتا برا تب ہوتا جب تم اس بات کا غلط فائدہ اٹھاتیں بیٹا  غلط فائدہ؟ وہ سمجھی نہیں  ہاں جیسے تم لوگوں کو کچھ ایسا کرنے کا کہتیں جس سے انھیں نقصان ہوتا یا تم اپنے ذاتی کام کرنے کا کہتیں ٹیب بری بات تھی نا دادی کو ایسا سمجھاتے ہوئے خیال بھی ذہن میں نہ آیا کہ انہوں نے نا دانستگی میں  اسے نیی ترکیبیں اپنانے کا مشورہ دے دیا ہے  ........... انوکھی یہ تمھاری لکھائی ...

الٹی کہانی

الٹی کہانی ایک تھا سارس مچھلی کھا رہا تھا مچھلی اس کے حلق میں پھنس گئی بڑا پریشان ہوا کچھوے کے پاسس گیا  اس نے کہا ایسا کرو تم بی بطخ کے پاسس جو ان کے پاس ضرور کوئی حل ہوگا بی بطخ کے پاس آیا ماجرا کہ سنایا بی بطخ نے سوچا پھر ایک تب منگوایا اس میں الٹی کی اب کہا پانچ خشکی کے جانور بلا کے لاؤ زیبرا آیا اس سے بھی الٹی کروائی لومڑی کچھوا خرگوش پھدکتا آیا بولا میںنے بھی کرنی ہے اس نے بھی کی بی بطخ نے اس میں چمچ چلایا کسی جانور نے کیچوے کھایے تھے ہضم نہ ہے تھے وہ الٹی میں جاگ کے تیرنے لگے بی بطخ نے ایک چمچ بھرا اور سارس کے منہ کے پاسس لا کر کہا لو اسے کھا لو سارس نے دیکھا گھاس کا ملیدہ گاجر کے ٹکڑے سمندری کیڑوں کا لیس اور ان پر تیرتے کیچوے ابھی دیکھ رہا تھا کے بندر آیا اور اس نے بھی بالٹی میں جھانک کے الٹی کر دی وہ ویسے کیلا کھا کے آیا تھا نتیجہ : کیا ہوا؟ الٹی آگئی؟ سارس کو بھی آ گئی تھی  از قلم ہجوم تنہائی

پیار کہانی نمبر آٹھ

پیار کہانی نمبر آٹھ ایک بار ایک شرارتی سا بچہ سائکل پر ون ویلنگ کرتا  جا رہا تھا  سامنے سے ایک بچی ٹیڈی بار لئے چلتی آ رہی تھی  بچے سے سائکل کا توازن بگڑا وہ اس بچی سے ٹکرا گیا  سائکل کا ہینڈل بچی کے منہ پر لگا اسکے آگے کے دونوں دانت ٹوٹ گیے  وہ رونے لگی  بچہ ڈھیٹ سا تھا اٹھا کپڑے جھاڑے بچی کے آنسو پونچھ کر کہنے لگا  مت فکر کرو جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو تم سے شادی کر لوں گا  بچی خوش ہو گئی  وقت گزرتا گیا دونوں بڑے ہو گیے  لڑکی اکثر آیئنے میں دیکھتی اپنے ٹوٹے دانت پر نذر ڈالتی اور مسکرا دیتی  لڑکا پڑھنے باہر چلا گیا  واپس آیا تو اسکی گوری سی بیوی اور بچہ بھی ساتھ تھے لڑکی دکھی ہو گئی اس سے پوچھا اس نے ایسا کیوں کہا لڑکا دکھی ہو کر کہنے لگا میں گاڑی چلا رہا تھا یہ میری گاڑی سے ٹکرا گئی تھی اوس اسکی تو ٹانگ ہی ٹوٹ گئی تھی  لڑکی نے معاف کردیا اسے  نتیجہ : بچپن میں آپ نہیں جانتے بڑے ہو کر کب اپکا کس سے ایکسیڈنٹ ہو جایے لہٰذا دانت ٹوٹنے پر دانتوں کے معالج سے رابطہ کر کے ںیی داڑھ  لگوا لینی چاہے  ...

short urdu poetry samndr azaad nazm

سمندر  میں انتظار میں ہوں کب سمندر سوکھے کب تہ اسکی نظر آیے دیکھے دنیا کیا کیا سمیٹے تھا یہ پانی وہ سب کچھ جس سے اسکا واسطہ نہیں تھا تب کیا  دنیا شکر گزار ہوگی کتنا پردہ رکھا سمندر نے ؟ کیا کیا سہہ رہا تھا سمندر کیا کوئی احسان مانے گا ؟ کیا جانے تب بھی یہ دنیا سمندر کو کوسے کیا تھا اب بھی نہ سوکھتا  سب راز کھول بیٹھا  از قلم ہجوم تنہائی

بلندی کہانی

بلندی کہانی  ایک تھی چیونٹی  اس نے سوچا اونچے پہاڑ پر چڑھ کر دیکھ دنیا کسی دکھائی دیتی ہے  وہ دھیرے دھیرے چڑھتی رہی کی دن سفر طے کیا  راستے کی کٹھنائیوں کا مقابلہ کیا آخر اوپر پہنچ گئی  پہاڑ بہت اونچا تھا اسے وہاں سے بھی دنیا دکھائی بڑی ہی دی  تھک کر واپس آنا چاہا رہ چلتے کسی مسافر کے پاؤں تلے کچلی گئی درد سے نڈھال ہو کے چلائی اندھے ہو کیا؟اتنے اونچے پہاڑ پر چڑھ گئی پھر بھی دکھائی نہ دی ؟ مگر اسکو واقعی مسافر دیکھ نہیں پایا تھا کیوں کہ وہ ابھی بھی چھوٹی سی چیونٹی ہی تھی  نتیجہ : اونچائی نصیب سے ملتی اونچایوں کی خواہش کرنے سے نہیں  از قلم ہجوم تنہائی

گلاس کہانی

ایک بار رات کے وقت کچھ لال بیگ باورچی خانے کے سلیب پر چہل قدمی کر رہی تھے ادھر ادھر  کی باتیں کرتے ہوئے انکو جانے کیا سوجھی ایک گلاس میں گھس کر بیٹھ گیے  ایک لال بیگ نے دوسرے سے پوچھا  یار تیرے مستقبل کے کیا ارادے ہیں ؟ کیا کرنا ہے آگے زندگی میں ؟ دوسرا لال بیگ سوچ میں پڑ گیا ابھی جواب بھی نہی دینے پایا تھا کہ باورچی خانے کی بتی جلی نیند میں گم ایک لڑکی آیی اس نے گلاس میں پانی بھرا اور غٹا غٹ چڑھا گئی  نتیجہ : گلاس میں بیٹھ کر باتیں نہیں کرنی چاہے  از قلم ہجوم تنہائی

ایک تھی رانی

ایک تھی رانی  میری نوکرانی   جھاڑو لگاتی تھی  پوچھا بھی لگاتی تھی  کام زیادہ کرنا پڑے  خفا بھی ہو جاتی تھی  راجہ میرا مالی تھا   کام اسکا باغ کی رکھوالی تھا  ایک بات پہ روز مجھ سے جھاڑ کھاتا تھا  کام کے دوران رانی کو تاڑتا جاتا تھا  ایک دن راجہ نے رانی کو پھول دیا  رانی نے وہ پھول قبول لیا دونوں نے پیار کی قسمیں کھا ئین مجھے بولے شادی کی چھٹی دو سائیں  دونوں کی آج شادی ہے  کہانی یوں تو سادی ہے  انکا گھر خوشیوں سے بھریگا  پر کون اب میرے گھر کا کام کریگا 

چرواہا کہانی

Syeda Vaiza Zehra January 5, 2015  ·  چرواہا کہانی ایک تھا چرواہا اس کا ایک ریوڑ تھا اس میں ٢٥ بکریاں ١٥ دنبے ١٨ گایے دو کتے تھے کتوں کا کام ریوڑ کی حفاظت کرنا تھا  ایک کتے کو کتاپا سوجھا دوسرے سے بولا بکریاں اور گایے تو ٹھیک ہے ہم دنبوں کی حفاظت کیوں کریں عجیب سے ہیں دوسرا کتا متفق تو نہیں تھا مگر چپ رہا پہلے کتے نے دنبوں کو کاٹنا شروع کر دیا دانت مارتا دنبے سخت جان تھے ایک دو تو بیمار پڑے پھر انہوں نے جوابا کاٹنے کی کوشش کی مگر ایک تو دنبہ معصوم جانور ہوتا دانت بھی نہیں مار پاتے خیر ایک دنبے مر گیے چرواہا نے کہا چلو خیر ہے ابھی ١٢ دنبے باقی ہیں اب کتے کو عادت بھی پڑ گئی تھی اس نے گائے کو بھی کاٹنا شروع کیا ایک دو گایے بھی مر گئیں کتے نے بکریوں کو کاٹنا شروع کیا وہ سب سے کم جان تھیں ایک دو نہیں دس بکریاں اس کے کاٹنے سے مر گئیں چرواہے کو ہوش آیا اس نے سوچا کتے کو مار دے اس نے فیصلہ کیا تو بکریوں گایوں دنبوں سب نے حمایت کی مگر دوسرے کتے نے کہا ٹھیک ہے اس نے بکریاں مار دیں مگر گایے اور بکریاں اب نہیں ماریں گے لیکن دنبوں کو مارنے دیں چرواہا حیران ...

میں ایک شامی بچہ ہوں

میں ایک شامی بچہ ہوں ۔ مجھے ماں ایک کہانی سناتی ہے ایک قافلہ تھا کچھ مسلمانوں ۔۔۔یہاں جنگ کے بعد لٹ پٹ کر آیا تھا ۔۔۔جنگ میں اپنوں کو گنوا کر بس اسلام بچایا تھا ۔۔۔ ایک عرب کی شہزادی تھی سنا ہے یہ نبی زادی تھی۔۔۔ بے پردہ ہر شہر پھرای گئی ۔۔۔سنا ہے زلفوں سے منہ کو چھپاتی تھی بیتے ظلم بتاتی تھی خطبے دیتی جاتی تھی ۔۔ کوئی سنتا تھا برے غور سے کوئی ہنستا تھا ۔کوئی بیے خوفی سے جھٹلایے کوئی دل ہی دل میں ڈرتا تھا۔۔یہ قافلہ دکھوں سے امیر ہوا ۔۔۔ ایک شقی بادشاہ کے ہاتھوں اسیر ہوا۔۔۔ان اسیروں میں کچھ بچے تھے۔۔۔جنگ میں جانے کس طرح بچے تھے ۔۔۔ زنداں میں ماؤں کے پاس جاتے تھے ۔اپنے زخم دکھاتے تھے ۔۔۔ پوچھتے تھے کب ہونگے رہا ؟ ماؤں نے بہلانے کو ان سے کہا ؟ جب حق دلوں میں گھر کے جاےگا ہر مسلم ظلم کے خلاف اٹھ جاےگا ۔۔۔ پھر ایک وقت ایسا آیا مختار کوئی عرب سے اٹھ آیا ان یزیدیوں کو جہنم واصل کیا حسین کا پیغام پھیلایا مگر ماں میں نے ماں کی بات کاٹی مگر ماں جب ظلم کے بادل چھا تے تھے آل نبی پر سب ستم آزماتے تھے لوگ تب کیوں چپ رہ جاتے تھے ...

بلڈی سکس کلو میٹر

ایک اور کہانی 65 کی بلڈی سکس کلو میٹر مجھے مسیحائی کا ہنر آتا ہے جنگ میں یہ ملک کے کام آتا ہے  ایک دن پاس میرے ایک گھایل آیا اپنی شجاعت کا دشمن کو کر قایل آیا خون میں لت پت بدن زخموں سے چور مگر با حوصلہ عزم و ہمت سے بھرپور سوچ میں پڑی کہاں سے شروع علاج کروں ؟ بدن ٹٹولوں کس کس زخم کو دوا آج کروں ؟ مجھے شش و پنج میں دیکھا تو مسکرا د یا کسی سوچ نے اسکا خون اور گرما دیا مادام میں نے اپنے ان زخموں کو چوما تھا آج جب وائرلیس پر دشمن کا پیغام سنا تھا کہتا تھا لاہور بس دو کلو میٹر رہ گیا میرا خوں کھول اٹھا یہ کیا کہہ گیا جانتی ہے میں کیا کر آیا ہوں ؟ سنگ ۔میل پر اپنے خون سے لکھ آیا ہوں ۔۔۔ بلڈی سکس کلو میٹر۔۔۔