Showing posts with label english sad qoutes. Show all posts
Showing posts with label english sad qoutes. Show all posts

Thursday, September 21, 2017

ضرورت کہانی

ضرورت کہانی 

ایک تھی ضرورت بہت کمینی تھی ہر وقت خواہش کو مارتی رہتی تانگ کرتی رہتی تھی کبھی پورا نہیں ہونے دیتی تھی ہمیشہ آگے آجاتی تھی 
ایک بار روتی آئی اور خواہش سے بولی 
تم مر جاؤ 
ابھی خواہش سوچ ہی رہی تھی کیا جواب دوں ضرورت نے اسکا گلہ گھونٹ دیا 
مشہور ہوگیا خواہش نے خود کشی کر لی 
نتیجہ : خواہش معصوم ہوتی ہے 

از قلم ہجوم تنہائی

سائنس دان کہانی

سائنس دان کہانی 
ایک تھا سائنس دان ایک بار بیٹھا چا ۓ پی رہا تھا چینی کم لگی 
چینی دان سے چمچ بھر کر چینی ڈال رہا تھا کہ دیکھا چینی میں چیونٹی ہے 
اس نے اٹھا کر ایک طرف رکھ دی 
جانے کیا سوجھی اسے دیکھنے لگا 
چیونٹی چل نہیں پا رہی تھی صحیح طرح سے ...
لنگڑی ہو گئی تھی اسے دکھ ہوا اس نے اسی وقت چیونٹی کو اٹھا کر اپنی تجربہ گاہ میں لا کر مصنوئی ٹانگ لگا دی 
چیونٹی کے نیی ٹانگ تو لگ گئی مگر اسکے وزن سے زیادہ وزنی تھی سو وہ چل پھر نہ سکی مر گئی 
سائنس دان نے سوچا میں نے تو اسکا بھلا کرنا چاہا تھا یہ تو بھوکی مر گئی 
نتیجہ : ہر چیز میں سائنس لڑانا اچھی عادت نہیں ہے 




از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, August 10, 2017

ایک تھا بلبل کا بچہ کھاتا تھا کھچڑی پیتا تھا پانی


ایک تھا بلبل کا بچہ کھاتا تھا کھچڑی پیتا تھا پانی 
گاتا تھا گانے 
تیرا ہونے لگا ہوں 
میری سانسوں میں بسا ہے تیرا ہی نام 
جو چلے تو جان سے گزر گیے
کچھ میٹھے لوگوں کو اسکا گانا پسند نہیں آیا 
انہوں نے اسکو سیندور پان میں ملا کر کھلا دیا 
اسکا گلا بیٹھ گیا 
نتیجہ : کیا آپ   رابی پیرزادہ یا عینی ہیں ؟
نہیں نا  پھر مت گاو 


از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, July 19, 2017

آینہ کہانی

آینہ کہانی 
ایک بار کسی شہر سے کسی بزرگ کا گزر ہوا وہ شہر کے داخلی دروازے کےقریب خیمہ گا ڑ کر قیام پذیر ہوۓ 
لوگوں کو خبر ہوئے تو جوق در جوق ان سےعلم حاصل کرنے کی غرض سے انکے خیمے میں آنے لگے مگر عجیب ماجرا ہوا جو آتا دروازے سے  ایک چیخ مار کر واپس چلا جاتا لوگوں کو پتا چلتا تو کچھ ڈر جاتےکچھ تجسس میں کھنچے آتے 
کسی زاہد کو خبر ہوئے تو فتویٰ دے ڈالا صرف صاحب اایمان ہی گزر سکے گا اس دروازے   سے  
کسی مہ نوش کو خبر ہوئی سوچا صاحب ایمان نہ سہی مگر کسی بزرگ کی صحبت سے شاید کچھ علم پا جاؤں کہ دنیا نہ سہی آخرت سدھر جایے 
وہ مصمم ارادہ کر کے آیا دروازے پر دیکھا آیینہ لگا ہے جو انسان کو اسکا چہرہ دیکھا دیتا ہے 
شرابی نے اپنا چہرہ دیکھا سوچا تو لوگ اپنا چہرہ دیکھ کرڈر  جاتے ہیں 
خیر اس نے دستک دے ڈالی 
بزرگ جو قدمو ں کی آہٹ سے چوکنا تھے اور حیران تھے ابھی تک چیخ کی آواز کیوں نہ سنائی دی 
جھٹ دروازہ کھول ڈالا کیا دیکھتے ہیں ایک مجذوب سا حال سے بے حال مہ نوش سامنے کھڑا ہے 
کیا چاہیے ؟
بزرگ نے با رعب انداز سے پوچھا 
مہ نوش گھٹنوں کہ بل جھکا مجھے علم کی پیاس ہے مجھے سیراب کیجیے 
بزرگ نے کراہت سے دیکھا 
عجیب شہر ہے اتنے دن سے یہاں ہوں کوئی با مراد انسان نہیں دیکھا یہاں کے لوگوں میں تو کوئی علم کی پیاس ہی نہیں  کوئی علم کا متوالا آیا بھی تو اپنے اصل روپ کو دیکھ کر ڈر کر لوٹ گیا یہ آیینہ مجھے ودیعت ہوا تھا اس میں دیکھنے والا اپنآ باطنی  روپ دیکھ سکتا یہ دروازے پر اسی لئے ٹا نگا 
تھا احمق کہ اپنا روپ دیکھ پھر دستک کی ہمت کر مگر یہاں کے بے ہدایت لوگ خود کو بھی جھیل نہیں پایے  کسی میں دستک کی ہمت نہ رہی 
اور تو ڈھیٹ انسان اپنا اصل چہرہ دیکھ کر بھی ہمت کر ڈالی جا دور ہوجا میری نظر سے 
بزرگ غیظ و غضب سے کانپ اٹھے 
آدمی اتنی ذلت پر کپکپا اٹھا 
سوچا یا خدا اتنا بڑا  مجرم ہوں میں کہ ہدایت کہ بھی قا بل نہیں 
سسکتا اٹھا آیئنے پر قصدا  نظر نہ ڈالی  سر جھکا کر روتا ہوا پلٹ گیا 
بزرگ نے سانس برابر کی  سر جھٹک کر واپس خیمے کی طرف مڑے 
یونہی آیینہ پر نظر پڑ ی  
بھیانک بد صورت چہرہ 
بزرگ اپنی صورت دیکھ کر چیخ پڑے 

از قلم ہجوم تنہائی

چرواہا کہانی

Syeda Vaiza Zehra
چرواہا کہانی
ایک تھا چرواہا اس کا ایک ریوڑ تھا
اس میں ٢٥ بکریاں ١٥ دنبے ١٨ گایے دو کتے تھے
کتوں کا کام ریوڑ کی حفاظت کرنا تھا 
ایک کتے کو کتاپا سوجھا دوسرے سے بولا بکریاں اور گایے تو ٹھیک ہے ہم دنبوں کی حفاظت کیوں کریں
عجیب سے ہیں
دوسرا کتا متفق تو نہیں تھا مگر چپ رہا
پہلے کتے نے دنبوں کو کاٹنا شروع کر دیا دانت مارتا دنبے سخت جان تھے
ایک دو تو بیمار پڑے پھر انہوں نے جوابا کاٹنے کی کوشش کی مگر ایک تو دنبہ معصوم جانور ہوتا دانت بھی نہیں مار پاتے
خیر ایک دنبے مر گیے چرواہا نے کہا چلو خیر ہے ابھی ١٢ دنبے باقی ہیں
اب کتے کو عادت بھی پڑ گئی تھی اس نے گائے کو بھی کاٹنا شروع کیا
ایک دو گایے بھی مر گئیں کتے نے بکریوں کو کاٹنا شروع کیا وہ سب سے کم جان تھیں
ایک دو نہیں دس بکریاں اس کے کاٹنے سے مر گئیں چرواہے کو ہوش آیا
اس نے سوچا کتے کو مار دے
اس نے فیصلہ کیا تو بکریوں گایوں دنبوں سب نے حمایت کی مگر دوسرے کتے نے کہا ٹھیک ہے اس نے بکریاں مار دیں مگر گایے اور بکریاں اب نہیں ماریں گے لیکن دنبوں کو مارنے دیں
چرواہا حیران بیٹھا دونوں کتوں کی سن رہا
بکریاں در چکی ہیں گائے ابھی بھی سوچ رہی ہیں دنبے کو مرنے دیں یا نہیں کتا ابھی بھی خون خوار ہے
دنبے تیل دیکھ رہے اور تیل کی دھار
نتیجہ : اس ریوڑ کو آپ پاکستان کو سمجھ لیں اور چرواہا حکومت اب بھی سوچ لیں خاموش رہنا ہے یا کتے کے ہاتھوں مرنا ہے؟
از قلم ہجوم تنہائی

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen