Showing posts with label udaas kindness qoutes. Show all posts
Showing posts with label udaas kindness qoutes. Show all posts

Tuesday, November 7, 2017

zarurt kahani.. ضرورت کہانی ..

zarurt kahani..
ek thi zarurat boht kamini thi har waqt khawahish ko tang krti rti..
ek br roti ai aur khawhish se boli mer jao..
khawahish abi soch he rahi ti k marun na marun zarurt ne gala ghnt dia uska.. Zindgi me mashor hogaya khawhish ne khud kushi krli..
moral:khawhish masoom hoti ha..

ضرورت  کہانی ..
ایک  تھی  ضرورت  بہت  کمینی   تھی  ہر  وقت  خواہش  کو  تنگ  کرتی  رہتی ..
ایک  بار  روتی آئ اور خواہش سے بولی تم مر جاؤ .
خواہش  ابھی  سوچ  ہی رہی  تھی  کہ  مروں نہ  مروں  ضرورت  نے  گلہ  گھونٹ  دیا   اسکا .. زندگی  میں  مشہور  ہوگیا  خوہش  نے  خود  کشی  کرلی ..

نتیجہ: خواہش معصوم   ہوتی  ہے ..




از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, November 4, 2017

بھینس کہانی ... Bhens kahani



bhains kahani...
ek thi bhains...
jab tak usay pata nahi tha k wo bhains hay wo khush thi...
jab pata chala us ko yeh b pata chala k motay logo ko bhens kehtay hain...
yani bhens moti hoti hay...us ne khana peena chor dia...
kamzor ho gae...
us ki sathi bhainsain usko rashk se dekha kerti thi...
itni nazuk si bhains...
wo khush rehnay lagi...
ek din wo ithla ithla k chalti pani peenay darya k kinare gae...
us ne dekha wehan ek moti taazi guy khari thi...
bhens ne usko dekh k chiryaya :
moti guy kaheen ki 
us ko itratay dekh k nakhoot say guy boli...
kali bhens kaheen ki... 
bhens ka rung ur gaya...
ab aj kal rung gora kerny wali creamain khareed rehi hay...
Moral: kali bhens ho gori guy ho humain kia unka apas ka mamla hay..

بھینس  کہانی ...
ایک  تھی  بھینس ...
جب  تک  اسے  پتا  نہیں  تھا  کے  وہ  بھینس  ہے  وہ  خوش  تھی ...
جب  پتا  چلا  اس  کو  یہ  بھی  پتا  چلا  کہ  موٹے  لوگوں  کو  بھینس  کہتے  ہیں ...
یعنی  بھینس  موتی  ہوتی  ہے ...اس  نے  کھانا  پینا  چھوڑ  دیا ...
کمزور  ہو  گئی...
اس  کی  ساتھ  بھینسیں  اسکو  رشک  سے  دیکھا  کرتی  تھی ...
اتنی  نازک  سی  بھینس ...
وہ  خوش  رہنے  لگی ...
ایک  دن  وہ  اٹھلا  اٹھلا  کر  چلتی  پانی  پینے  دریا  کے  کنارے  گئی 
اس  نے  دیکھا  وہاں  ایک  موتی  تازی گائے کھڑی  تھی ...
بھینس  نے  اسکو  دیکھ  کے  چڑیا  :
موٹی گائے  کہیں  کی  :P
اس  کو  اتراتے  دیکھ  کے  نخوت  سے  گائے  بولی ...
کالی  بھینس  کہیں   کی ... :/
بھینس کا  رنگ  اڑ گیا ...
اب  آج  کل  رنگ  گورا  کرنے  والی  کریمیں  خرید  رہی  ہے ...


نتیجہ: کالی  بھینس  ہو  گوری  گائے  ہو  ہمیں  کیا  انکا  اپس  کا  معامله  ہے 





. از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, October 26, 2017

ہنسیے کہانی



ہنسیے کہانی
ایک تھا ہنس ہنستا رہتا تھا
ہنس ہنس کے پاگل ہو گیا
اس سے شتر مرغ نے پوچھا بھی ہنستے کیوں ہو؟
ہنس ہنس کر بولا یونہی
شتر مرغ بولا ہونہہ یونہی تو پاگل ہنستے
ہنس بولا تم دکھی ہوتے ہو تو کیا کرتے
شتر مرغ بولا میں چپ رہتا روتا ہوں
ہنس نے پوچھا جب ڈرتے تب ؟
شتر مرغ بولا : ریت میں منہ چھپا لیتا
ہنس نے پوچھا اور جب خوش ہوتے
شتر مرغ بولا ہنس ہنس کے اڑتا پھرتا
ہنس نے پوچھا اور جب عام سا مزاج ہوتا تب
شتر مرغ تب میں یونہی پھرتا رہتا کبی بیٹھ جاتا کبی تھوڑا
خیر چھوڑو تم بھی بتاؤ تم جب دکھی خوش پریشان یا عام مزاج میں کیا کرتے
ہنس ہنسنے لگا
ہنستا رہا ہنستا گیا
شتر مرغ بولا پاگل ہو گیا ہے یہ
نتیجہ : پاگل ضروری نہیں کے وہ ہی ہو جو دکھائی دیتا ہے کچھ پاگل ایسے بھی ہوتے جسے شتر مرغ تھا

از قلم ہجوم تنہائی

Monday, October 16, 2017

یہ وہ کہانی




یہ وہ کہانی 
ایک تھا یہ 
ایک تھا وہ 
یہ وہ نہیں تھا 
وہ یہ نہیں تھا
یہ کو وہ پسند نہیں تھا 
وہ کو کونسا پسند تھا یہ 
ایک دن یہ کو وہ ہو گیا وہ کو یہ ہو گیا وہ یہ کرنے لگا یہ وہ کرنے لگا 
اور کرتے کرتے یونہی وہ یہ بن گیا وہ یہ 

Saturday, October 14, 2017

عدت ........


عدت ........
امی کام والی اس اتوار کو پھر نہیں آیی بہت چھٹی کرتی ہے آپ نے سر پر چڑھا رکھا ہے اسے 
لبنیٰ نے خفگی سے اپنے دھونے والے کپڑے لا کر واشنگ مشین کے ساتھ رکھی کپڑوں کی ٹوکری میں ڈالے جو تقریبا ابل رہی تھی ایک ہفتے کے ان دھلے کپڑوں سے 
امی بھی ابو کے کپڑے اٹھائے ہوئے اسے ابلتی ٹوکری سے دو دو ہاتھ کرنے آئ  تھیں 
بیٹا اسکا شوہر مر گیا ہفتے کو اسلیے نہیں آیی
امی نے افسوس سے کہا انھیں بھی آج ہی پڑوسن سے پتہ چلا تھا جہاں انکی کام والی ماسی برتن دھونے جایا کرتی تھی 
اوہ ... لبنیٰ کو تاسف ہوا 
نشیڑی تھا یہ تو ہونا ہی تھا 
اس نے تبصرہ کرنا ضروری سمجھا امی خاموشی سے ٹوکری میں الجھی رہیں 
لبنیٰ کو خیال آیا
تو کیا وہ اب عدت کے بعد آئیگی؟ ہمیں دوسری ماسی کا انتظام کرنا پڑیگا ؟
اچھے کپڑے دھو لیتی تھی چو ر  بھی نہیں تھی اب کیا کرینگے ہم؟
اسے نیی فکر لاحق ہی تو بے تابی سے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی 
امی نے ایک نظر دیکھا پھر گہری سانس بھر کر بولیں 
کونسی عدت چھوٹے چھوٹے بچے ہیں کام نہیں کریگی تو کھایے گی کہاں سے کہہ  رہی تھی اس بار جمرات کو مشین لگا جاؤنگی......

از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, October 10, 2017

اللہ کا کرم ہے بس



اللہ کا کرم ہے بس۔۔

میں مکان خریدنا چاہ رہا ہوں کئی جگہوں پر گھر دیکھتا پھر رہا ہوں آج ایک گھر مجھے پسند آہی گیا۔۔ کھلا ہوادار بڑے بڑے کمرے سب میں دیوار گیر الماری بنی تھی لائونج میں ایک جانب بڑا سا دیوار گیر شوکیس کچن میں نئ طرز تعمیر کی چمنی کیبنٹس باتھ روموں میں باتھ ٹب تک لگے تھے میں کمرے گن رہا تھا ماشااللہ میرے دو بیٹے دو  بیٹیاں سب اسکول کا لج جانے والے سب کو الگ کمرہ درکار تھا دس مرلے پر چار کمرے نیچے تین اوپر  اور دو کچن ڈرائینگ روم ایک کو اسٹو ر بنا لیں گے ہم میاں بیوی نیچے رہ لیں گے۔۔
میں نے کھڑے کھڑے سب منصوبہ بندی کرلی
میرے تاثرات بھانپتے ہوئے  دلاور اس گھر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگا۔۔ ایک زمین کی خرید و فروخت کی ویب سائٹ سے میں نے اس گھر کی تصویر دیکھ کر پسند کیا تھا مگر گھر سچ مچ شاندار تھا اتنے علاقوں میں گھر دیکھ چکا تھا ڈھنگ کا میری ضرورت کے مطابق گھر کروڑ سے آرام سے اوپر مالیت تک تھے سو دل پر جبر کرتے میں نے مہنگے اور پوش علاقوں سے نظر چرا لی۔۔ اب یہ ایک متوسط علاقے میں ایک چوڑئ گلی میں جس میں ارد گرد خوب بڑے بڑے مکان تھے آخری مکان سے دو مکان پہلے کا مکان تھا ۔۔۔ داخلی سڑک کے قریب تھا مارکیٹ بھی دور نہیں تھی غرض مجھے ہر طرح سے پسند اگیا۔۔
آپ مجھے آخری قیمت بتائیں سب چھوڑیں۔۔
میں اب سودے بازی کے موڈ میں تھا۔۔
انصاری صاحب آپ یہاں زمیں کی قیمت سے واقف ہی ہیں گھر بالکل نیا بنا ہے ٹائیلیں بھی میں نے خوب چن کر لگوائی ہیں ایک کروڑ بس۔۔ زیادہ نہیں مانگ رہا مناسب قیمت ہے۔۔
خالص کاروباری انداز تھا مجھے اسکے انداز سے ہی محسوس ہو گیا تھا۔ مگر میں نے نوے لاکھ تک کا زہن بنا رکھا تھا۔۔
کافی دیر بحث مباحثے کے بعد میں نے دوستی گانٹھ کر پچانوے لاکھ  پر منا ہی لیا تھا۔۔
چلیں انصاری صاحب آپکی تھوڑی خاطر مدارت ہو جائے۔۔
انہوں نے خلوص سے دعوت دی۔۔
میں فارغ ہی تھا سو ہم قریبی ریستوران آگئے۔۔
چائے کا آرڈر دے کر ہم اطمینان سے بیٹھ گئے۔۔
یہ گھر بیچ کر میں نے ڈیفنس میں کوٹھی لینی ہے۔
ویسے تو میں ابھی اسی علاقے میں رہتا۔ بچوں کی ضد ہے کسی اچھے علاقے منتقل ہو جائیں۔
میرا ویسے ایک پلاٹ ہے ڈیفنس میں پہلے سے۔اسے بھی بیچ دوں گا۔۔ ۔ دو گھر میں نے اسی علاقے میں اور بنوائے ہیں ایک یہ جو مارکیٹ ہے نا جس سے گزر کر ہم آئے ہیں اس میں یہ آگے کی پوری رو میری ہے۔۔
بس اللہ کا بہت کرم ہے مجھ پر ۔ وہ ہنس کر بتا رہا تھا۔۔
میں متاثر ہوا۔ واہ بھئی ۔۔میں نے جل کر بڑا سا گھونٹ بھر لیا چائے کا۔ سچ مچ دل کے ساتھ زبان بھی جل گئ۔۔
وہ میرا ہم عمر ہی ہوگا اسکے بچے بھی میرے بچوں جتنے ہونگے میں نے اندازہ لگایا۔۔
میں خود بچوں کا ستایا ہوا۔ہوں۔۔ میں زور سے ہنسا
۔ اچھا بھلا آبائی گھر تھا پرانے شہر میں بکوا دیا۔۔کہیں اور چلیں کسی اچھے علاقے میں پچاس لاکھ بھی پورے نہ ملے اسکے اونچاس لاکھ پچھتر ہزار میں بکا تھا۔۔
میں نے منہ بنایا۔۔
وہ پھر ہنسا۔۔
بس آج کل کے بچے بھی ۔۔۔
آپاسی کو۔ریکوزیشن کروا لیں نا۔۔
سرکاری ملازم ہونے کا یہی تو فائدہ۔۔ انہوں نے مفت مشورہ دیا۔۔
 میں نے لاپروائی سے سر ہلایا۔۔
حالانکہ میرا یہی ارادہ تھا اب آپ سے کیا چھپانا۔۔
اوپر کی آمدنی میری اچھی خاصی ہے مگر دنیا کو جواب بھی دینا پڑتا اب بندہ کھل کر تو سب کہہ سن نہیں سکتانا۔۔

یونہی ہلکی پھلکی باتیں کرتے میں نے اس سے بھی  پوچھ لیا
آپ کیا کرتے ۔۔ ؟
میں ڈیفنس میں ہو تا ہوں۔۔
اس نے آرام سے کہا۔۔
مجھے اچھو ہوا میں نے کپ رکھ کر زور دار قہقہہ لگایا۔۔
سولہویں گریڈ کا سرکاری افسر اس وقت پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا۔۔
واقعی ڈیفنس پر اللہ کا کچھ زیادہ ہی کرم ہے۔۔
میں کہہ کر اور زور سے ہنستا رہا۔۔ دلاور پہلے حیران ہوا پھر تھوڑا خفگی سے بولا۔۔
مطلب کیا ہے اس بات کا۔۔
میں نے بمشکل ہنسی روکی۔۔
میں کوئی حاجی نہیں اوپر کی کمائی اچھی خاصی میری مگر میں بھی اتنی جائداد بنا نہ سکا اور آپ معمولی ۔۔۔
مجھے ہنسی کا ایک اور دورہ پڑ گیا تھا۔۔





از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, October 5, 2017

تکبر کی بو کہانی

تکبر  کی  بو کہانی 
یا  خدا  یہ  کائنات  کتنی  بدبودار  بنی  ہے ..
لنڈا  نے  دونوں  ہاتھوں  میں  سر  تھام  لیا  گہری  سانس  لے  کے  خود  کو  ماحول  کے  اثر  سے  آزاد  کرنا  چاہا ...
عجیب  بات  تھی  وہ  کوڑے خانے  کے  نزدیک  کھڑی  تھی  اور  گہری  سانس  لے  رہی  تھی ...
کام  کرتے  خاکروب  نے  اسے اچنبھے  سے دیکھا ...
یہ  تو  وہ  جانتی  تھی  اس  گندگی  کے  ڈھیر سے  جو  مہک  اٹھ  رہی  تھی  وہ ...
یاک  ...
اس  کے  پاس  سے  گزرتی  دو  سیاہ  فام لڑکیوں  نے  بے  اختیار  کراہیت  سے ناک  ف  رومال  رکھا  تھا ...
اف  کس  قدر  بدبو  ہے  یہاں ... ایک  بولی ...
دوسری  نے  ٹھنڈی  سانس  بھری ...
کس  چیز  کی  بدبو؟
کوڑے  خانے  کی  اور  کس  کی ... ہرات  سے  سیاہ  فام  لڑکی  بولی 
اور  مجھے  اس  لڑکی کے  پاس  سے  شدید  بو  ای  ہے ...
دوسری  نے  مسکرا  کے  کہا ...
یہ  گفت  و  شنید  اتنے فاصلے  سے  نہیں  ہو  رہی  تھی  کے لنڈا  سن  نہ   پتی  ہرات  سے  اس  سیاہ  فام  لڑکی  کو  گھورنے  لگی ...
میرے  پاسس  سے  بو  آرہی  ہے ؟
وہ  لڑکی  مسکرا  دی ...
ہاں ...
ساری کائنات  بدبودار  لگ  رہی  ہے  اپنی  بو  محسوس  نہیں  ہو  رہی ؟
مرے پاس سے بو آرہی ہے؟
لنڈا کی حیرت کی انتہا نہ رہی 
ہاں 
لڑکی نے قطعیت سے کہا
 تمہارے  پاسس سے بدبو  آرہی  ہے ...
تکبر  کی  بو ...
از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, September 28, 2017

ڈرا ونی کہانی ..

ڈرا ونی  کہانی ..
کچھ  دوست  تھے   ہوسٹل  میں  رهتے  تھے  ایک  بار  سردی  میں  واپس  آیے لحاف  میں  گھس  گیے  
گھسنے
 کے  بعد  دیکھا  دروازہ  تو  بند  کیا  ہی نہیں 
ایک دوسرے  کو کہا   کوئی  دروازہ  اٹھ  کر  بند  کرنے  کو  تیار  نہ  ہوا  ایک  دوست  بولا  میں  کر  دیتا  ہوں  اس  نے  ہاتھ  لمبا کیا  لیتے  لیتے  بند  کردیا .. سب  ڈر
کے  بھگ  گیے 
نتیجہ : ٹھنڈ  آنے والی ہے  کمرے  میں  داخل  ہوتے    ہی  دروزہ  خود  بند  کرنے کی عادت ڈال  لیں 


از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, September 26, 2017

کردار کہانی

کردار کہانی

میں ایک کردار ہوں 
کیا بد ؟
نہیں
کیا معاون ؟ 
نہیں 
کیا ثانوی ؟
نہیں 
کیا مرکزی؟ 
وہ بھی نہیں 
میں وہ کردار ہوں جو ابھی لکھا نہیں گیا 
نتیجہ : کہانیاں وقت گزاری کے لئے ہوتی ہیں کردار نہیں 

از قلم ہجوم تنہائی

Monday, September 25, 2017

کہانی shajra



رات کہانی

ایک دفعہ دو لوگ آپس میں بات کر رہے تھے 
یونہی شجرے کا ذکر نکل آیا
ایک نے دوسرے کو غور سے دیکھا اور کہا بھائی آپ پٹھان ہو؟
دوسرے نے کہا نہیں بھائی میں پٹھان نہیں میں اردو سپیکنگ سید زادہ ہوں انڈیا سے ہجرت کر کے آیا ہے یہاں خاندان میرا
نہیں بھی آپ پٹھان لگتے ہو گورے چٹے ہو پہلا آدمی بولا
دوسرے نے انکار کیا
بحث بڑھی پہلے والا بولا آپ کے ابو یا امی میں سے تو کوئی ضرور پٹھان ہے
گھر جا کر پوچھنا
اتنی یہ بحث بڑھی کے دوسرے آدمی کو خود اپنے شجرے پر شک پڑ گیا گھر گیا جا کے اپنے اماں ابا سے انکی سات پشتوں کا احوال دریافت کیا
معلوم ہوا دہلی میں شجرہ موجود ہے ان کے کسی دادا کے رشتے دار کے پاس
وہاں تو رابطہ نہ ہوا مگر تسلی ہوئی اگلے دن اسی آدمی کے پاس گیا تفصیل سے بتایا نہ صرف امی بلکہ ابا بھی سید ہیں اپس میں رشتے دار ہیں دہلی سے ان کے بارے یہاں آیے تھے دوسرے آدمی کو تسلی ہو گئی معذرت کی ماں لیا
دوسرے آدمی نے معذرت قبول کر لی
یونہی بات برایے بات دریافت کیا
بھائی آپ کی ذات کیا ہے؟
پہلے نے جواب دیا ...
.
.
.
پٹھان 
نتیجہ : بحث کیجیے مگر شجرہ مت کھنگالیے دوسروں کا


از قلم ہجوم تنہائی

Sunday, September 24, 2017

انوکھی کہانی پہلی قسط


انوکھی کہانی پہلی قسط
ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا
انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار
اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر
اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا
بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر
استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں
اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے
آپکی بیٹی نے مجھے گرایا ہے '
فورا شکایات دھر دیں امی خاص پاکستانی ماں
کان سے پکڑ لیا
کیوں گرایا ؟
ارے میں نے کچھ نہیں کیا وہ روہانسی ہو چلی
اس نے مجھے کہا تھا اب گر جائیں مجھ پر
استانی صاحبہ پاؤں پر پٹی باندھے بیٹھی تھیں شدید موچ آئی تھی
آپکو اسکی بات نہیں ماننی چاہے تھی
امی نے دبی دبی زبان میں کہہ دیا تھا استانی صاحب غور کر رہ گیں
پھر ایسا اکثر ہونے لگا وہ جسکو جو کام کہتی ہزار انکار کرتا منہ بناتا مگر کر دیتا
اسکو بھی پانی لانے کا کہتا یہ بھر کے لا کر گلاس تھماتی اور کہتی میرے سکول کا کام کروا دیں
اپنا ٹیسٹ چھوڑ کر اسکو گھر کا کام کرواتا کہاں چھوٹا ہونے کی وجہ سے سب اسکو اپنے کام کہا کرتے کہاں سلسلہ الٹ گیا
سب سے بڑی بہن تھی اسکی نمرہ ایک نمبر کی کام چھوڑ کاہل سست الوجود کالج جاتی تھی
بد پر بیٹھ جاتی کبھی کہتی مجھے نیل پالش لا کر دو دوسرے کمرے میں بیٹھی ہوتی تھی عالیہ بھاگ کر آتی اسکو
اسکے ہی کمرے میں دو قدم کے فاصلے پر رکھی سنگھار میز سے مطلوبہ نیل پالش
تھماتی پھر واپس جا کر اپنا کام کرتی
ایک دن وہ فشل کر رہی تھی اس سے بولی مجھے لوشن پکڑا دو
اس نے یونہی کہ دیا
منہ پر آپی لوشن کی بجایے وم مل لو زیادہ صاف ہو جایے گا
اس نے لوشن تھماتے مذاق کیا تھا آپی اٹھیں سیدھا باورچی خانے میں گیں اور وم مل لیا منہ پر
امی دیکھیں میرا پورا چہرہ سرخ ہو گیا
رو رو کر شکایت لگ رہی تھی اسکی وہ معصومیت سے سر جھکایے کھڑی تھی
اس نے کہا اور تم نے ماں لیا
امی نے سر پیٹ لیا
امی اسکو منع کریں ہم سے کام نہ کہا کرے کل میچ کھیلنے جا رہا تھا بولی مجھے گھر کا کام کروا کر جائیں
دو گھنٹے لگا کر میں نے اسکو سارا گھر کا کام کروایا میرا پورا میچ برباد ہوا دوستوں نے الگ میری بستی کی
آپی سے چھوٹا بھائی رو رہا تھا اسکے میٹرک کے امتحان ہو چکے تھے سو تین مہینے بس کھل کود ہی کرنا تھا اس نے خاصا گراں گزرا تھا اسے کام کرنا یا کروانا
ہاں تو چھوٹی ہے کام کون کراتا اسے
امی نے اسکی حمایت نہیں کی
مگر امی یہ بہت عجیب ہے کل مجھے کہہ رہی تھی کارٹون دیکھنا میں ڈرامہ دیکھ رہی تھی مگر میں نے چینل بدل کر اسکو کارٹون لگا دیا
سارا اس سے سات سال بڑی بہن بسوری
ارے تو تم لوگ اسکی بات مانتے کیوں ہو ؟
امی نے سر پیٹ لیا
وہ معصوم سی شکل بنایے سب کو ٹکر ٹکر دیکھتی رہی
..........................
اس دن وہ سکول سے واپس آ رہی تھی کہ دیکھا دو بچے آپس میں لڑتے جا رہے بچے اس سے شاید دو چار سال بڑے ہی ہونگے
اس نے یونہی رعب سے کہا
مت لڑو اچھے بچے نہیں لڑتے ہاتھ ملاؤ چلو
دونوں نے جھٹ ایک دوسرے کا گریبان چھوڑا ہاتھ ملا لئے
اب یہ ہاتھ مت چھوڑنا ایسے ہی اچھے بچوں کی طرح گھر جاؤ
وہ آرام سے خود گھر آگئی
اگلے دن دونوں بچوں کے والدین سکول آیے ہوئے تھے
یہ دیکھیں کل سے یہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں چھوڑ رہے ہم کہہ کہہ کر تھک گیے ہاتھ چھڑانا چاہا تو ہم چھڑا بھی نہیں پا رہے
دونوں بچوں کا رو رو کر گلہ بیٹھا تھا
دونوں بچے شکر ہے پڑوسی تھے دونوں کے والدین کہ سن کر بچوں کو سلا تو لیا تھا مگر شدید پریشان تھے
اتنا زور زور سے روتےہیں کہتے عالیہ کہے گی تب ہی چھوڑیں گے کون ہے عالیہ ؟
پرنسپل صاحب نے علیہ کو بلوایا
معصوم سی دو پونیاں کے بڑی بڑی آنکھیں پوری کھولے عالیہ آی تھی
عالیہ بیٹا ان بچوں سے کہو ہاتھ چھوڑ دیں ایک دوسرے کا
پرنسپل صاحب نے بڑے پیار سے کہا تھا
کیوں؟ عالیہ کو ہرگز انکا خیال پسند نہیں آیا
بیٹا کل سے دونوں مشکل میں ہیں ہاتھ نہیں چھوڑ رہے ایک دوسرے کا پ انکے والدین پریشان ہیں
انہوں نے سمجھایا
عالیہ سوچ میں پڑ گئی
مگر کل یہ دونوں لڑ رہے تھے اسلئے میں نے انکو کہا تھا ایسا
ہم کبھی نہیں لڑیں گے
دونوں بچے روہانسے ہو کر بولے
چلو ٹھیک ہے ہاتھ چھوڑ دو
اس نے کہا تو دونوں نے جھٹ ہاتھ چھوڑ دیا
دونوں بچوں کے والدین ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے پھر دونوں نے ہی اپنے اپنے بچوں کا سکول تبدیل کروا دیا تھا
.......
کوئی بار بار انکے گھر کی اطلاعی گھنٹی بجا رہا تھا
آرہی ہوں آرہی ہوں
امی باورچی خانے میں تھیں ہاتھ پونچھتی باہر آیئں
کون ہے ؟
انہوں نے دروازہ کھولا
ایک آئس کریم فروش کھڑا تھا
کیا کام ہے بھائی ؟
اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا امی نے پوچھا
بہن جی آپ عالیہ کی والدہ ہیں ؟
ہاں انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تو تو پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا
آپکی بیٹی نے آ کر مجھ سے آئس کریم لی ..
پیسے نہیں دے؟
وہ یہی سمجھیں
نہیں اس نے تو دیے پھر کہنے لگی تمہیں ویسے سب بچوں کو مفت آئس کریم دینی چاہے
یقین کیجیے دو دن سے ایک روپیہ نہیں لے رہا بچوں سے میری سب آئس کریم مفت بانٹتا رہا
مرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں غریب آدمی ہوں اسی سے کماتا ہوں بیگم صاحب
تو تمہیں کس نے کہا اس بچی کی بات مانو
انکو غصہ ہی آگیا
میں نہیں جانتا مگر میں اسکی بات ٹال نہیں سکتا آپ براۓ مہربانی اس سے مجھے اجازت دلوا دیں کہ میں پیسے وصول کر لیا کروں اپکا بڑا احسان ہوگا
وہ مسمسی سی شکل بنایے کھڑا تھا
صبیحہ اسے کچھ کہتے کہتے رک سی گئیں پھر عالیہ کو پکار لیا
..........................................
یہ تو کافی عجیب بات ہے
پاپا کافی حیران ہوئے تھے سن کر
عجیب نہیں بہت عجیب ترین بات ہے
اور کسی کو چھوڑو کل مجھے کہتی ہے مجھے چکن کھانا میں نے کل الو گوشت بنایا تھا پوری ہنڈیا پڑوس میں بھجوا کر میں نے مرغی بھونی ہے
صبیحہ بے حد حیرانی سے بتا رہی تھیں
ہاں پاپا میں نے کل اسکا سارا گھر کا کام کیا تھا آج مجھے استانی صاحب نے بلا کر ڈانٹا بھی کہ چھوٹی بہن کا ہوم ورک کیوں کیا؟
سارا نے بتایا
میں کل دو گھنٹے اسکو سائکل پر بیٹھا کر گھوماتا رہا ہوں میری ٹانگیں ٹوٹ گئیں سائکل چلا چلا کر
بھائی نے بھی دکھڑا رویا
سب گول میزکانفرنس کر رہے تھے عالیہ خاموشی سے ایک کونے میں صوفے پر بیٹھی سن رہی تھی
عجیب بات تو ہے
شکیب صاحب نے کان کھجایا
کل مجھ سے کہنے لگی مجھے چوکلاتے کا ڈبہ لا کر دیں میں منع کرنے لگا تھا کہ دانت خراب ہو جائیں گے مگر میں نے پھر اسکو پورا ڈبہ لا کر دیا
عالیہ ایلین تو نہیں؟
آپی نے خیال ظاہر کیا
سب مڑ کر اسے گھورنے لگے تھے
از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, September 23, 2017

پیار کہانی نمبر پانچ میں وہ اور کوا


پیار کہانی نمبر پانچ 
میں وہ اور کوا 
ایک تھا لڑکا 
نہا دھو کر بالوں میں جیل شیل لگا کر تیار ہو کے ظاہر ہے کسی لڑکی سے ملنے جا رہا تھا 
بائیک لہرا لہرا کر چلاتے ہوئے گنگنا بھی رہا تھا 
اسکے اوپر سے کچھ کوے بھی اڑتے ہوئے کہیں جا رہے تھے 
ترنگ میں آ کر اس نے پوچھا 
سنو میں تو اپنی گرل فرنڈ سے ملنے جا رہا ہوں تم کہاں جا رہے ہو ؟
کوا جلدی میں تھا اڑتے اڑتے ہی بٹ کر گیا 
پھر کوے تو پتا نہیں کہاں چلے گیے 
اس لڑکے کو گھر واپس آنا پڑا اپنی گرل فرینڈ سے فون کر کے معزرت کر لی 
کافی خفا ہوئی تھی وہ 
گھر آیا تو نہا بھی لیا دوبارہ گندا بچہ تھوڑی تھا 
نتیجہ : ڈیٹ پر جاتے ہوئے کوے سے کبھی نہیں پوچھنا چاہیے وہ کہاں جا رہا ہے 

از قلم ہجوم تنہائی

Friday, September 22, 2017

بنیان والے انکل کی کہانی


بنیان والے انکل  کی کہانی 
ایک تھے انکل 
ہر وقت بنیان پہنے رکھتے تھے  شلوار پہنتے تھے  مگر کبھی بھی قمیض میں نظر نہیں آتے تھے 
جانے کیا وجہ تھی 
صبح اچھے بھلے پورے کپڑے پہن کر دفتر جاتے تھے ،مگر واپس گھر آتے اور قمیض اتار دیتے ہم بچے کافی حیران ہوتے تھے کتنے بے شرم انکل ہیں ایکدن وہ انکل نہا کر ٹیرس پر آگیے 
ہم نے انکو دیکھا اور ہم اندر کمرے میں گھس گیے 
کیونکہ اس بار وہ صرف تولیہ پہن کر باہر آگیے تھے 
اور ٹیرس پر وائپر لگانے لگ گیے 
نتیجہ : بےشرمی کی ہائٹ


از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, September 21, 2017

ضرورت کہانی

ضرورت کہانی 

ایک تھی ضرورت بہت کمینی تھی ہر وقت خواہش کو مارتی رہتی تانگ کرتی رہتی تھی کبھی پورا نہیں ہونے دیتی تھی ہمیشہ آگے آجاتی تھی 
ایک بار روتی آئی اور خواہش سے بولی 
تم مر جاؤ 
ابھی خواہش سوچ ہی رہی تھی کیا جواب دوں ضرورت نے اسکا گلہ گھونٹ دیا 
مشہور ہوگیا خواہش نے خود کشی کر لی 
نتیجہ : خواہش معصوم ہوتی ہے 

از قلم ہجوم تنہائی

سائنس دان کہانی

سائنس دان کہانی 
ایک تھا سائنس دان ایک بار بیٹھا چا ۓ پی رہا تھا چینی کم لگی 
چینی دان سے چمچ بھر کر چینی ڈال رہا تھا کہ دیکھا چینی میں چیونٹی ہے 
اس نے اٹھا کر ایک طرف رکھ دی 
جانے کیا سوجھی اسے دیکھنے لگا 
چیونٹی چل نہیں پا رہی تھی صحیح طرح سے ...
لنگڑی ہو گئی تھی اسے دکھ ہوا اس نے اسی وقت چیونٹی کو اٹھا کر اپنی تجربہ گاہ میں لا کر مصنوئی ٹانگ لگا دی 
چیونٹی کے نیی ٹانگ تو لگ گئی مگر اسکے وزن سے زیادہ وزنی تھی سو وہ چل پھر نہ سکی مر گئی 
سائنس دان نے سوچا میں نے تو اسکا بھلا کرنا چاہا تھا یہ تو بھوکی مر گئی 
نتیجہ : ہر چیز میں سائنس لڑانا اچھی عادت نہیں ہے 




از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, September 20, 2017

مگرمچھ کے آنسو



مگرمچھ کے آنسو
ایک تھا مگر مچھ
روتا رہتا تھا
پانی میں رہتا تو کسی کو پتا ہی نہ چلتا کے رو رہا
باہر نکل کے روتا تو ایک سمندر اور بن جاتا 
ایک دن رونا چاہتا تھا اور یہ بھی چاہتا تھا کے کسی کو پتا نہ چلے
سمندر میں جا کے رویا
ایک وہیل گزری حیران ہو کر بولی تم کیوں رو رہے ہو؟
مگر مچھ اور حیران ہوا تمہیں کیسے پتا چلا میں رو رہا؟ سمندر میں تو کسی کو پتا ہی نہیں چلتا کے رو رہا ہوں
وہیل بولی...
.
.
.
پانی کا بہاؤ مخالف سمت ہے تمھارے
اس سے پتا چلا
نتیجہ : سائنس ہے باس 
از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, September 19, 2017

بطخ کہانی


بطخ کہانی 

ایک تھی بطخ
قین قین کرتی پھرتی
قین قین سریلی سی آواز میں کرتی تھی
اس نے سوچا وہ سب بطخوں کو جمع کر کے کونسرٹ کرے 
اس نے جمع کیا سب کو قین قین شروع کر دی
بطخوں کو پسند آئی
اب روز بطخیں جمع ہوتیں اور قین قین سنتیں
ایک دن بطخ کا موڈ نہیں تھا اس نے قین قین نہیں کی
بطخوں نے غصے سے اسے گنجا کر دیا
اب وہ جہاں جاتی سب کہتے
وہ دیکھو گنجی بطخ
سب بھول گیے تھے کے وہ اچھی قین قین کرتی تھی
نتیجہ : گنجے لوگوں کی کوئی قدر نہیں کرتا
از قلم ہجوم تنہائی

الٹی کہانی

الٹی کہانی
ایک تھا سارس مچھلی کھا رہا تھا
مچھلی اس کے حلق میں پھنس گئی
بڑا پریشان ہوا کچھوے کے پاسس گیا 
اس نے کہا ایسا کرو تم بی بطخ کے پاسس جو ان کے پاس ضرور کوئی حل ہوگا
بی بطخ کے پاس آیا ماجرا کہ سنایا
بی بطخ نے سوچا پھر ایک تب منگوایا اس میں الٹی کی اب کہا پانچ خشکی کے جانور بلا کے لاؤ
زیبرا آیا اس سے بھی الٹی کروائی
لومڑی کچھوا خرگوش پھدکتا آیا بولا میںنے بھی کرنی ہے اس نے بھی کی
بی بطخ نے اس میں چمچ چلایا
کسی جانور نے کیچوے کھایے تھے ہضم نہ ہے تھے وہ الٹی میں جاگ کے تیرنے لگے
بی بطخ نے ایک چمچ بھرا اور سارس کے منہ کے پاسس لا کر کہا لو اسے کھا لو
سارس نے دیکھا گھاس کا ملیدہ گاجر کے ٹکڑے سمندری کیڑوں کا لیس اور ان پر تیرتے کیچوے ابھی دیکھ رہا تھا کے بندر آیا اور اس نے بھی بالٹی میں جھانک کے الٹی کر دی وہ ویسے کیلا کھا کے آیا تھا
نتیجہ : کیا ہوا؟ الٹی آگئی؟
سارس کو بھی آ گئی تھی 


از قلم ہجوم تنہائی

Monday, September 18, 2017

مچھلی کہانی



مچھلی  کہانی

ایک  تھی  چھوٹی مچھلی
بڑی  دکھی  تھی
اسے  دکھ  تھا  کے   اس  کے  اندر  کانٹے  ہی  کانٹے  ہیں
کافی  عرصے  سے  مسکرائی  نہ  تھی
اس  نے  سوچا  آج  اسے  جو  بھی  ملےگا  اسے  دیکھ  کے  مسکرایے گی
مگر  مچھ ملا
مسکرا  دی
کیکڑا  ملا
مسکرا  دی
کچھوا  ملا
مسکرا   دی
دریائی  گھوڑا  ملا
مسکرا  دی
بڑی  مچھلی  ملی
مسکرا  دی
مچھلی   اسے  کھا  گی
نتیجہ : یہ  دنیا  مزے  لے  لے  کر  کھا   جاتی  ہے
چاہے  آپ  میں  کتنے  ہی  کانٹے  کیوں  نہ  ہوں ...

Machli kahani
ek thi choti machli
bari dukhi thi
usay dukh tha k us k ander kaantay hi kaantay hain 
kafi arsy se muskurai na thi
us ne socha aaj usay jo b milayga usay dekh k muskurayay gi
magar mach mila
muskura di
kekra mila
muskura di
kachwa mila
muskura di
daryai ghora mila
muskura di
bari machli mili
muskura di
machli use kha gayi
Moral : yeh dunya mazay le le ker kha jati hay
chahay aap main kitnay hi kaantay kiun na houn...

از قلم ہجوم تنہائی

main main kahani بکرا کہانی


بکرا کہانی


ایک تھا بکرا
میں میں کرتا تھا
ایک دن اسے ایک بھیڑیا کھا گیا
نتیجہ : زندگی بھیڑیا ہے آپ بکرا
میں میں کرنے سے کوئی فائدہ نہیں کچھ کر جاؤ تا کہ کہانی اتنی سی نہ رہ جایے

از قلم ہجوم تنہائی

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen