قسط دو انوکھی کہانی
قسط دو انوکھی کہانی جلد ہی یہ بات سکول میں سب بچوں میں پھیلتی گئی انوکھی سے سب بچے ڈرنے لگے وہ اکیلی رہنے لگی وہ اکثر اکیلے بیٹھ کر روتی رہتی اور خدا سے شکوہ کرتی سب میری بات کیوں ماں لیتے اور اگر ماں لیتے تو اس میں میرا قصور کیا ہے اس کے امی ابو کافی خوش تھے اسکے بہن بھایئوں سے جو بات منوانی ہوتی انوکھی کے ذریے کہلاتے نتیجہ بہن بھی علیحدہ اس سے چڑنے لگے گھر میں جہاں یہ آ کر بہن بھائیوں کے پاس آ کر بیٹھتی وہ اٹھ کر چل دیتے انوکھی بچی ہی تو تھی اداس رہنے لگی اسکی دادی نے اسے پیار سے سمجھایا بیٹا یہ کوئی بری بات نہیں ہے اگر کوئی تمہاری بات ماں لیتا برا تب ہوتا جب تم اس بات کا غلط فائدہ اٹھاتیں بیٹا غلط فائدہ؟ وہ سمجھی نہیں ہاں جیسے تم لوگوں کو کچھ ایسا کرنے کا کہتیں جس سے انھیں نقصان ہوتا یا تم اپنے ذاتی کام کرنے کا کہتیں ٹیب بری بات تھی نا دادی کو ایسا سمجھاتے ہوئے خیال بھی ذہن میں نہ آیا کہ انہوں نے نا دانستگی میں اسے نیی ترکیبیں اپنانے کا مشورہ دے دیا ہے ........... انوکھی یہ تمھاری لکھائی ...