Showing posts with label LIFE QOUTES hajoom tanhai. Show all posts
Showing posts with label LIFE QOUTES hajoom tanhai. Show all posts

Thursday, January 11, 2018

pagal ki aik aur kahani... پاگل کی ایک اور کہانی


pagal ki aik aur kahani 

logo ki nazar main woh pagal tha...
sir jhukayay koi nadeeda nuqtay pe nazar jamayay ghanto betha rehy...
pagal hua na...
mujhe nahi laga tha...
jantay hain q...
us se bara pagal main tha...
jo kae ghanto se use dekh reha tha...
aur woh log b...
jinho ne us pe ghor kia...
wo kuch nahi ker reha tha...
aur ap use kuch nahi kertay hue dekhtay jatay thay...
pagal ap b tau huay na...

Moral: jab samjh nahi ata tau keh detay hain us ne ajeeb likha tha...
ajeeb tau main houn aap ajeeb nahi hue kia?


پاگل کی ایک اور کہانی 
لوگوں  کی  نظر  میں  وہ  پاگل  تھا ...
سر  جھکایے  کوئی  نادیدہ  نقطے  پہ نظر  جمایے گھنٹوں  بیٹھا  رہے ...
پاگل  ہوا  نا...
مجھے  نہیں  لگا  تھا ...
جانتے  ہیں  کیوں ...
اس  سے  بڑا پاگل  میں  تھا ...
جو  کئی گھنٹوں  سے  اسے  دیکھ  رہا  تھا ...
اور  وہ  لوگ  بھی ...
جنہوں  نے  اس  پہ  غور  کیا ...
وہ  کچھ  نہیں  کر  رہا   تھا ...
اور  آپ   اسے  کچھ  نہیں  کرتے  ہوئے  دیکھتے  جاتے  تھے ...
پاگل  اپ  بھی  تو  ہوے  نا ...
نتیجہ  : جب  سمجھ  نہیں  آتا  تو  کہ  دیتے  ہیں  میں  نے  عجیب  لکھا  تھا ...
عجیب  تو  میں  ہوں  مانا  آپ  عجیب  نہیں  ہوئے  کیا ؟


از قلم ہجوم تنہائی

Monday, November 13, 2017

بے چارہ کہانی ... bechaara kahani


بے چارا کہانی۔۔
ایک تھا بے چارہ بہت بے چارہ تھا اسکی بے چارگی کی انتہا یہ تھی کہ بے چارہ ہمیشہ بے چارہ رہا اور کبھی اپنی بے چارگی بیان بھی نہیں کر سکا۔۔ اوپر سے وہ بے چارہ بے چارہ بھی نہیں لگتا تھا بےچارے کے ساتھ وہی ہوتا رہا جو بے چاروں کے ساتھ ہوتا۔۔ 
بے چارہ مر گیا؟۔۔ 
نہیں بھئی۔۔ 
بے چارہ مر بھی نہیں سکا۔۔ 
بے چارہ بے چارہ رہ گیا۔۔ 
نتیجہ۔۔ہائے بے چارہ

baychaara kahani
ek tha bechaara boht bechaara tha uski bechaargi ki inteha yeh thi k bechaara hamesha bechara raha aur kabhi apni bechaargi bayan bhi nahin kr saka oper say woh bechara bechara bhi nahin lgta tha be chaaray ke sath wohi hota rha ju be chaaron ke saath hota 
bechaara mar gaya?
nahin bhae 
bechaara mar bhi nahin saka 
bechaara beechaara hi rh gaya 
nateeja : haaye bechara ....

by hajoom e tanhai 
از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, November 7, 2017

choti machli ki bari kahani,,,,,,, چھوٹی مچھلی کی بڑی کہانی


پھر وہ مچھلی تیر نہ سکی
.
.
.
میں نے دم پکڑ لی تھی جسکی
.
.
.
نتیجہ :چھوٹی    مچھلی کی ہی دم پکڑ کر آپ اسے روک سکتے ہیں اگر بڑی مچھلی کی پکڑ لی تو وہ آپکو ساتھ لے جایے گی


phir woh machli ter na saki 
main nay dum pakar li thi jiski
nateeja: choti machli ki hi dum pakar kr aap use rok sakte hain agar bari machli ki pakar li tu woh aapko sath le jayay gi 

از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, November 1, 2017

توجہ کہانی tawajo kahani

توجہ کہانی 
ایک آدمی نے بندر پالا ہوا تھا
ایک دن وہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا بندر آیا بولا میں ایک قلا بازی لگا کے دکھاؤں
آدمی نے اخبار پر نظر جمایے جمایے ہنکارہ بھرا ہمم 
اس نے یہ کرتب دکھایا 
پھر بولا میں یہ جو سیب رکھے ہیں انکو اچھال کے دکھاؤں؟
اس نے تین سیب اچھال اچھال کے پکڑا 
آدمی بولا ہممم
بندر بولا میں ڈنڈ بیٹھکیں نکلوں پچاس تک 
آدمی بولا ہمم 
بندر نے یہ سب کر دکھایا آدمی نے کوئی توجہ نہ دی 
تھک ہار کے بیٹھا 
بولا میں پانی پی لوں ؟
آدمی کا اخبار ختم ہو گیا تھا اس نے اپنے پاسس میز  پر رکھی بوتل دی 
وہ بندر غٹا غٹ  پانی بوتل سے پینے لگا
آدمی نے اسکی تصویر کھینچی اور اپنی فیس بک پرعنوان کے  ساتھ شائع  کر دی 
میرا بندر بوتل سے پانی پیتے ہوے
نتیجہ : توجہ بھی انسان فارغ ہو کے ہی دیتا ہے چاہے آپ حاصل کرنے کے لئے جی جان لڑا دیں
Tawajo kahani
ek aadmi nay bandar paala hua tha 
ek din woh betha akhbaar parh raha tha
bandar aaya aur bola main ek qalabaazi laga ke dekhaaon  
aadmi ne akhbaar par nazar jamaaaiy jamaaiy hankara bhara hmm
us ne yeh kartab dekhaya
phr bola main yeh ju saib rkhay hain inko uchaal ke dekhaaon ?
us ne teen saib uchaal uchaal ke pakre 
admi bola hmmm
bandar bola main dand bethakain nikaaloun pachaaas tak
aadmi bola hmm
bandr ne yeh sab kar dekhaya aadmi ne koi tawajo na di
thak haar ke betha
bola main pani pee loun?
aadmi ka akhbaar khatam ho gaya tha us ne apne paas mez pr rkhi botal di
bandar ghata ghat paani botal se peenay laga
aadmi ne uski tasveer khenchi aur apni facebook pr unwaan ke saath shaya kr di
mera bandar botal se paani peetay hue 
nateeja : insan tawajo bhi farigh ho ke hi deta hay chaahay aap hasil krne keliye ji jaan lara dain
از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, October 26, 2017

ہنسیے کہانی



ہنسیے کہانی
ایک تھا ہنس ہنستا رہتا تھا
ہنس ہنس کے پاگل ہو گیا
اس سے شتر مرغ نے پوچھا بھی ہنستے کیوں ہو؟
ہنس ہنس کر بولا یونہی
شتر مرغ بولا ہونہہ یونہی تو پاگل ہنستے
ہنس بولا تم دکھی ہوتے ہو تو کیا کرتے
شتر مرغ بولا میں چپ رہتا روتا ہوں
ہنس نے پوچھا جب ڈرتے تب ؟
شتر مرغ بولا : ریت میں منہ چھپا لیتا
ہنس نے پوچھا اور جب خوش ہوتے
شتر مرغ بولا ہنس ہنس کے اڑتا پھرتا
ہنس نے پوچھا اور جب عام سا مزاج ہوتا تب
شتر مرغ تب میں یونہی پھرتا رہتا کبی بیٹھ جاتا کبی تھوڑا
خیر چھوڑو تم بھی بتاؤ تم جب دکھی خوش پریشان یا عام مزاج میں کیا کرتے
ہنس ہنسنے لگا
ہنستا رہا ہنستا گیا
شتر مرغ بولا پاگل ہو گیا ہے یہ
نتیجہ : پاگل ضروری نہیں کے وہ ہی ہو جو دکھائی دیتا ہے کچھ پاگل ایسے بھی ہوتے جسے شتر مرغ تھا

از قلم ہجوم تنہائی

Monday, September 25, 2017

بادل کہانی

بادل کہانی 

ایک تھا بادل یونہی کسی گھر کے پاس سے گزر رہا تھا گھر کا مالک دروازہ کھلا چھوڑ گیا تھا 
بادل اندر گیا کچن میں دیکھا چاۓ بنی پڑی تھی غٹا غٹ چڑھا گیا 
باھر گیا برسنے لگا 
لوگ حیران ہوۓ چاۓ برس رہی ہے سب کپ لے کر کھڑے ہو گیے گھر کا مالک بھی گزر رہا تھا سوچا میں گھر میں چاۓ بنانے کا که کر آیا ہوں بیوی نے بنا رکھی ہوگی وہ ہی پی لونگا گھر آیا تو دیکھا اسکا
کپ خالی پڑا ہے اور پورا گھر پانی پانی ہو رہا
بیوی پریشان کھڑی تھی
اس نے بیوی سے کہا چاۓ ؟
بیوی نے کہا بنا دونگی مگر پہلے ذرا گھر کا پانی نکال دوں بادل سب گیلا کر گیا شوہر نے کہا اچھا میں سوتھ دیتا ہوں تم چاۓ بنا دو اور
وائپر نکالا اور گھر سوتھنے لگا
بیوی کچن میں گئی دیکھا دودھ ختم انتظار کرنے لگی کہ شوہر کام ختم کر لے پھر دودھ لانے بھیجے 
نتیجہ : اگر بادل چاۓ برسا رہا ہو تو کپ لے کر کھڑے ہو جائیں گھر جا کے پینے کا شوق نہ پالیں گھر والوں کو اور بھی کام ہوتے ہیں چاۓ بنانے کے سوا

از قلم ہجوم تنہائی

قسط دو انوکھی کہانی


قسط دو انوکھی کہانی 

جلد ہی یہ بات سکول میں سب بچوں میں پھیلتی گئی 
انوکھی سے سب بچے ڈرنے لگے وہ اکیلی رہنے لگی 
وہ اکثر اکیلے بیٹھ کر روتی رہتی اور خدا سے شکوہ کرتی 
سب میری بات کیوں ماں لیتے اور اگر ماں لیتے تو اس میں میرا قصور کیا ہے 
اس کے امی ابو کافی خوش تھے اسکے بہن بھایئوں سے جو بات منوانی ہوتی انوکھی کے ذریے کہلاتے 
نتیجہ بہن بھی علیحدہ اس سے چڑنے لگے گھر میں جہاں یہ آ کر بہن بھائیوں کے پاس آ کر بیٹھتی وہ اٹھ کر چل دیتے 
انوکھی بچی ہی تو تھی اداس رہنے لگی 
اسکی دادی نے اسے پیار سے سمجھایا 
بیٹا یہ کوئی بری بات نہیں ہے اگر کوئی تمہاری بات ماں لیتا برا تب ہوتا جب تم اس بات کا غلط فائدہ اٹھاتیں بیٹا 
غلط فائدہ؟
وہ سمجھی نہیں 
ہاں جیسے تم لوگوں کو کچھ ایسا کرنے کا کہتیں جس سے انھیں نقصان ہوتا یا تم اپنے ذاتی کام کرنے کا کہتیں ٹیب بری بات تھی نا
دادی کو ایسا سمجھاتے ہوئے خیال بھی ذہن میں نہ آیا کہ انہوں نے نا دانستگی میں 
اسے نیی ترکیبیں اپنانے کا مشورہ دے دیا ہے 
...........
انوکھی یہ تمھاری لکھائی تو نہیں ہے 
اسکی استانی صاحبہ نے اسکی کاپی کے پچھلے صفحے پلٹ کر لکھائی کا موازنہ کیا 
میری نہیں ہے میں نے اپنی بہن سے اپنا گھر کا کام کروایا ہے 
کیوں ؟ 
استانی صاحبہ حیران ہویں 
میں تھک گئی تھی 
اس نے معصومیت سے کہا 
اچھا ٹھیک ہے ابھی یہ سب کام پانچ پانچ مرتبہ لکھ کر لاؤ 
انھیں غصہ آگیا تھا 
مت سزا دیں مس 
ٹھیک ہے آئندہ اپنا کام khud کرنا 
وہ فورا مان گیں 
انوکھی خوش ہو گئی
......
انوکھی لنچ باکس ویسے کا ویسا ہے کچھ کھایا کیوں نہیں؟
امی اسکا لنچ باکس دیکھ کر حیران رہ گائیں 
امی کھایا نا میری دوست آلو کا پراٹھا لائی تھی میں نے کہا مجھے دے دو اس نے دے دیا میں نے اسکا آلو کا پراٹھا کھایا نا 
انوکھی نے مزے سے بتایا 
اور اسنے کیا کھایا؟
امی حیران پریشان ہی تو رہ گیں 
اس نے کچھ نہیں روتی رہی آدھی چھٹی میں 
اس نے کندھے اچکا دے امی سر پیٹ کر رہ گیں 
تو تم اپنا لنچ اسے دے دیتیں بیٹا 
کل میں آپکو آلو کا پراٹھا بنا کر دوں گی وہ اسے دے دینا کل جا کر 
ٹھیک ہے؟
انہوں نے پیار سے اسکا سر سہلایا 
اس نے خوشی خوشی اثبات میں سر ہلا دیا 
.......
اگلے دن اس بچی کو اس نے آلو کا پراٹھا دیا اس نے خوشی خوشی اپنا لایا سند وچ اسے دے دیا 
اس نے سینڈوچ آدھا  ہی کھایا تھا اس کو اپنا دوسرا ہم جماعت نوڈل کھاتا دکھائی دے گیا 
........
ارے اس نے کوئی مار کر تھوڑی لیا تھا بچی ہے اسے لنچ پسند آگیا تھا اس نے کہا مجھے نوڈل دے دو آپ کے بچے نے دے دے اب میں اس بات پر بچی کو کیا ڈانٹوں؟
امی صاف مکر گیں 
ہاں عالیہ کو گھور کر دیکھا تھا عالیہ مسکرا دی تھی اس بار ڈری نہیں تھی امی حیران ہو کر رہ گیں  
اس وقت وہ پرنسپل کے دفتر میں موجود تھیں عالیہ کے علاوہ پرنسپل صاحب وہ بچہ منہ بسورتا ہوا اور اسکی امی غصے سے ناک بھنویں چڑھا ے بیٹھی تھیں 
 امی کو پرنسپل صاحب نے بلوا لیا تھا اس بچے کی امی  نے آ کر شکایات کی تھی کہ انوکھی ان کے بچے کا لنچ کھا گئی 
 کیوں بیٹا انوکھی نے آپکو مارا تھا؟
پرنسپل صاحب نے پیار سے پوچھا بچے نے نفی میں سر ہلا دیا 
 آپکو نوڈل نہیں دینے تھے تو آپ منع  کر دیتے نہ دیتے ؟
بچے نے سر ہلایا دوبارہ موٹے موٹے آنسوں سے رونے لگا 
دیکھے مسز فیروز بچے ہیں آپس میں کھلتے ہیں کھاتے پیتے بھی ہیں اس بات کو بڑھانے کا فائدہ نہیں آپ بچے کو منع  بھی کریں گی کہ آیندہ عالیہ کو اپنا لنچ نہ دے تو یہ بھی بری ہی بات ہوگی پھر بھی اگر آپ ایسا چاہیں تو ٹھیک ہے آپ کہ دیں اپنے بیٹے کو 
پرنسپل صاحب نے دھیرج سے سمجھایا وہ غصے سے اٹھ کھڑی ہیں عالیہ کو گھور کر دیکھا اور بولیں 
آیندہ میرے بچے کا لنچ کھایا تو بوہت بری طرح پیش آؤنگی
عالیہ نے کندھے اچکا دے 
مجھے اگر پسند آیا تو ضرور کھاونگی
وہ ذرا نہ ڈری 
عالیہ امی نے اسکی بدتمیزی پر گھورا 
یہ تربیت ہے آپکی مان کی امر کی ہوں اور یہ آگے سے مجھ سے بدتمیزی کر رہی ہے 
وہ خاتون بری طرح تپ گئیں تھیں 
میری امی سے تمیز سے بات کریں 
عالیہ نے گھور کر دیکھا انھیں 
سوری بولیں میری امی سے
ان خاتوں کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں 
سوری مسز شکیب 
وہ خاتون اب بیحد تمیز سے معذرت کر رہی تھیں 
پرنسپل صاحب اور امی منہ کھولے دیکھ رہے تھے 
کان پکڑ کر سوری بولیں 
عالیہ نے اطمنان سے سٹول پر چڑھ کر ٹانگ پر ٹانگ رکھ لی تھی 
ان خاتوں نے دونوں کان پکڑ لئے تھے 
...................................
عالیہ بیٹا یہ کیا حرکت تھی بیٹا؟
بڑوں کو ایسا نہیں کہتے کان پکڑ کر معافی مانگو 
امی نے گھر آ کر بڑے پیار سے سمجھایا 
مجھے مت سمجھائیں مجھے کھانا دن بھوک لگی ہے 
اس نے منہ بنایا تھا امی کھانا لگانے اٹھ گیں 
.........................................
سارا گھر اسکی خدمت میں لگا رہتا کوئی اسکے سکول کا یونیفارم استری کرتا کوئی اسکا سارا گھر کا کام کر دیتا اسکو کوئی ڈانٹ نہیں سکتا تھا وہ منع کر دیتی تھی دادی خاموشی سے اسکی حرکتیں دیکھ رہی تھیں 
اس دن صبح اٹھی سارا اس سے پہلے اٹھ کر باتھ روم جا رہی تھی 
سارا مت جاؤ مجھے پہلے جانا 
بیچاری دروازہ بند کرنے لگی تھی روتی روتی باہر آگئی
امی کچن میں تھیں جا کے رو رو کر انھیں شکایات لگی 
کیا کروں چندا مجھے بھی منع کیا ہوا ہے کہ اسے نا ڈانٹوں تم ہمارے کمرے کے باتھ روم میں چلی جاؤ 
وہ اور کیا کہتیں ویسے بھی ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں 
وہ منہ ہاتھ دھو کر باہر ائی تو امی نے اسکا آملیٹ اور پراٹھا لا کر سامنے رکھ دیا 
مجھے ہالف فرائی کھانا 
امی دانت پیس کر رہ گیں کوئی اور بچہ ہوتا تو ایک لگا کر یہی کھانے پر مجبور کرتیں ناچار اٹھ کر دوسرا انڈا بنا کر لائیں 
انوکھی اب دس سال کی ہو چکی تھی اسکو اب نہ صرف اپنی اس خاصیت کا پتہ چل چکا تھا بلکہ وہ اب اسکا صحیح غلط استمال بھی دھڑلے سے کرتی تھی 


........
سکول میں سپورٹس کمپیٹیشن ہوا 
ہر کھیل میں گولڈ میڈل لیا 
دوڑ کا مقابلہ ہوا اس نے بھاگتے بھاگتے اپنے سے آگے بھاگتے بچوں کو روک جانے کو کہا 
وہ تب تک رکے رہے جب تک وہ اختتامی لکیر تک نہ پہنچ گئی 
رسہ کشی کے مقابلے میں اس نے مخالف ٹیم کے بچوں سے کہا رسی چھوڑ دو سب ان کی ٹیم کے اپر آ کر گر گیے 
لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے اسکو مزہ نہ آیا جا کر منع کردیا مت کھیلو 
جب پرنسپل صاحب میچ دیکھنے آیے تو با یس بچے قطار سے بیٹھے انوکھی کا ملی نغمہ سن رہے تھے گا کر بولی سب تالیاں بجاتے رہو 
پرنسپل صاحب نے اسے بلا کر پوچھا یہ کیا کر رہی ہو؟
مجھے فٹ بال نہیں پسند میں نے گانا تیار کیا ہے سب کو وہ سنا رہی تھی 
پاکستان پاکستان 
پیچھے سب بچے تالیاں پیٹ پیٹ کر ہاتھ سرخ کر چکے تھے 
مگر بیٹا آپکو پسند نہیں اپ مت کھیلو آوروں کو منع تو نہ کرو 
وہ حیران تھے بچے رک بھی نہیں رہے تھے
وہ دو بار کہہ چکے تھے انھیں روکنے کو 
اس نے ایک نظر انکو دیکھا پھر بتایا 
آپ کے کہنے سے نہیں رکیں گے 
اس نے مڑ کر انہیں تالیاں بجانے سے رکنے کو کہا سب رک گیے 
اس نے سر کو مسکرا کر دیکھا اور آگے بڑھ گئی   
امتحان شروع ہوئے اس نے سارا پیپر اپنے ساتھ بیٹھی لائق لڑکی کا نقل کیا 
صاف کہا اسے مجھے دیکھو 
استانی صاحبہ نے آکر گھرکا تو انھیں خاموش کرا دیا مجھے مت ڈانٹیں 
چپ رہیں 
نتیجہ آیا تو اول آی تھی وہ پورے سکول میں 
اسکو پرائز دیتے ہوئے اسکی استانی صاحبہ کا منہ پھولا ہوا تھا 
اسکے پرنسپل صاحب بھی سنجیدہ سے کھڑے تھے 
اور تو اور وہ اسٹیج پر اپنا انعام لینے گئی کسی نے تالی تک نہیں بجائی 
وہ اپنا انعام لے کر امی ابو کے پاس ای اسکے اور کسی بہن بھائی نے پوزیشن نہیں لی تھی مگر وہ انکی پرسنٹیج دیکھ کر خوش ہوئے تھے اسنے اپنا انعام دکھایا تو امی نے ایک نظر دیکھ کر بنا خوش ہوئے ایک طرف رکھ دیا 
وہ بہت اداس ہو گئی تھی 
آپ سب مجھے مبارک باد دیں 
اس نے کہا تو سب کورس میں اسے پاس ہونے اور پوزیشن لانے پر مبارک باد دینے لگے 
وہ بجایے خوش ہونے کے مزید اداس ہو گئی اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پر اندھی لیٹ کر رونے لگی 
دادی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھیں 
چپکے سے اسکے پاس آ کر بیٹھ گیں پیار سے اسے سہلایا 
بیٹا کیوں رو رہی ہو؟
کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا کوئی مجھ سے خوش نہیں میں نے انعام لیا کسی نے تالی بھی نہیں باجی میرے بہن بھائی بھی خوش نہیں ہوئے کیوں دادی اماں ؟
وہ اٹھ بیٹھی اور سسکنے لگی 
دادی نے اسے پیار سے گلے لگایا 
ایسا اس لئے کہ تم نے یہ انعام اپنی محنت یا کار کردگی سے نہیں اپنے خصوصیات اپنی طاقت کا بیجا استمعال کر کے حاصل کیا ہے 
میں نے سمجھایا تھا نا بیٹا یہ طاقت آپکو اچھے مقصد کے لئے استمعال کرنی ہے اسکا غلط استمعال کروگی تو نقصان اٹھاوگی مجھ سے وعدہ کرو آئندہ کبھی کسی غلط فائدے کے لئے یا اپنے فائدے کے لئے اسے استمعال نہیں کرو گی؟
مگر دادی میں نے تو صرف 
اس نے ہچکچا کر کچھ کہنا چاہا 
بیٹا یہ طاقت آپکو دوسروں کی مدد کرنے کے لئے دی گئی ہے اسکا اپنے لئے بیجا استمال کروگی تو چھن جایے گی آپ سے آپ نے کسی اور کی محنت نقل کی اس سے آپ کے اپنے علم میں بھی اضافہ نہیں ہوا دوسرا کسی کی محنت چرا کر آپ نے اسکا بھی دل دکھایا جو پہلی پوزیشن لانے کے لئے سارا سال محنت کرتی رہی کسی کا دل دکھاؤ گی تو اسکی بددعا پیچھا کریگی پھر یہ خصوصیت جاتی رہی گی اب سمجھ ای 
دادی نے تفصیل سے سمجھا کر اسکا سر ہلایا 
تو اس نے آنسو پونچھ کر وعدہ کر لیا 
آئندہ میں کبھی کسی کو تنگ نہیں کرونگی
شاباش میری اچھی بچی 
دادی کو اسکے سمجھ جانے پر پیار آگیا تھا 


از قلم ہجوم تنہائی

Sunday, September 24, 2017

انوکھی کہانی پہلی قسط


انوکھی کہانی پہلی قسط
ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا
انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار
اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر
اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا
بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر
استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں
اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے
آپکی بیٹی نے مجھے گرایا ہے '
فورا شکایات دھر دیں امی خاص پاکستانی ماں
کان سے پکڑ لیا
کیوں گرایا ؟
ارے میں نے کچھ نہیں کیا وہ روہانسی ہو چلی
اس نے مجھے کہا تھا اب گر جائیں مجھ پر
استانی صاحبہ پاؤں پر پٹی باندھے بیٹھی تھیں شدید موچ آئی تھی
آپکو اسکی بات نہیں ماننی چاہے تھی
امی نے دبی دبی زبان میں کہہ دیا تھا استانی صاحب غور کر رہ گیں
پھر ایسا اکثر ہونے لگا وہ جسکو جو کام کہتی ہزار انکار کرتا منہ بناتا مگر کر دیتا
اسکو بھی پانی لانے کا کہتا یہ بھر کے لا کر گلاس تھماتی اور کہتی میرے سکول کا کام کروا دیں
اپنا ٹیسٹ چھوڑ کر اسکو گھر کا کام کرواتا کہاں چھوٹا ہونے کی وجہ سے سب اسکو اپنے کام کہا کرتے کہاں سلسلہ الٹ گیا
سب سے بڑی بہن تھی اسکی نمرہ ایک نمبر کی کام چھوڑ کاہل سست الوجود کالج جاتی تھی
بد پر بیٹھ جاتی کبھی کہتی مجھے نیل پالش لا کر دو دوسرے کمرے میں بیٹھی ہوتی تھی عالیہ بھاگ کر آتی اسکو
اسکے ہی کمرے میں دو قدم کے فاصلے پر رکھی سنگھار میز سے مطلوبہ نیل پالش
تھماتی پھر واپس جا کر اپنا کام کرتی
ایک دن وہ فشل کر رہی تھی اس سے بولی مجھے لوشن پکڑا دو
اس نے یونہی کہ دیا
منہ پر آپی لوشن کی بجایے وم مل لو زیادہ صاف ہو جایے گا
اس نے لوشن تھماتے مذاق کیا تھا آپی اٹھیں سیدھا باورچی خانے میں گیں اور وم مل لیا منہ پر
امی دیکھیں میرا پورا چہرہ سرخ ہو گیا
رو رو کر شکایت لگ رہی تھی اسکی وہ معصومیت سے سر جھکایے کھڑی تھی
اس نے کہا اور تم نے ماں لیا
امی نے سر پیٹ لیا
امی اسکو منع کریں ہم سے کام نہ کہا کرے کل میچ کھیلنے جا رہا تھا بولی مجھے گھر کا کام کروا کر جائیں
دو گھنٹے لگا کر میں نے اسکو سارا گھر کا کام کروایا میرا پورا میچ برباد ہوا دوستوں نے الگ میری بستی کی
آپی سے چھوٹا بھائی رو رہا تھا اسکے میٹرک کے امتحان ہو چکے تھے سو تین مہینے بس کھل کود ہی کرنا تھا اس نے خاصا گراں گزرا تھا اسے کام کرنا یا کروانا
ہاں تو چھوٹی ہے کام کون کراتا اسے
امی نے اسکی حمایت نہیں کی
مگر امی یہ بہت عجیب ہے کل مجھے کہہ رہی تھی کارٹون دیکھنا میں ڈرامہ دیکھ رہی تھی مگر میں نے چینل بدل کر اسکو کارٹون لگا دیا
سارا اس سے سات سال بڑی بہن بسوری
ارے تو تم لوگ اسکی بات مانتے کیوں ہو ؟
امی نے سر پیٹ لیا
وہ معصوم سی شکل بنایے سب کو ٹکر ٹکر دیکھتی رہی
..........................
اس دن وہ سکول سے واپس آ رہی تھی کہ دیکھا دو بچے آپس میں لڑتے جا رہے بچے اس سے شاید دو چار سال بڑے ہی ہونگے
اس نے یونہی رعب سے کہا
مت لڑو اچھے بچے نہیں لڑتے ہاتھ ملاؤ چلو
دونوں نے جھٹ ایک دوسرے کا گریبان چھوڑا ہاتھ ملا لئے
اب یہ ہاتھ مت چھوڑنا ایسے ہی اچھے بچوں کی طرح گھر جاؤ
وہ آرام سے خود گھر آگئی
اگلے دن دونوں بچوں کے والدین سکول آیے ہوئے تھے
یہ دیکھیں کل سے یہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں چھوڑ رہے ہم کہہ کہہ کر تھک گیے ہاتھ چھڑانا چاہا تو ہم چھڑا بھی نہیں پا رہے
دونوں بچوں کا رو رو کر گلہ بیٹھا تھا
دونوں بچے شکر ہے پڑوسی تھے دونوں کے والدین کہ سن کر بچوں کو سلا تو لیا تھا مگر شدید پریشان تھے
اتنا زور زور سے روتےہیں کہتے عالیہ کہے گی تب ہی چھوڑیں گے کون ہے عالیہ ؟
پرنسپل صاحب نے علیہ کو بلوایا
معصوم سی دو پونیاں کے بڑی بڑی آنکھیں پوری کھولے عالیہ آی تھی
عالیہ بیٹا ان بچوں سے کہو ہاتھ چھوڑ دیں ایک دوسرے کا
پرنسپل صاحب نے بڑے پیار سے کہا تھا
کیوں؟ عالیہ کو ہرگز انکا خیال پسند نہیں آیا
بیٹا کل سے دونوں مشکل میں ہیں ہاتھ نہیں چھوڑ رہے ایک دوسرے کا پ انکے والدین پریشان ہیں
انہوں نے سمجھایا
عالیہ سوچ میں پڑ گئی
مگر کل یہ دونوں لڑ رہے تھے اسلئے میں نے انکو کہا تھا ایسا
ہم کبھی نہیں لڑیں گے
دونوں بچے روہانسے ہو کر بولے
چلو ٹھیک ہے ہاتھ چھوڑ دو
اس نے کہا تو دونوں نے جھٹ ہاتھ چھوڑ دیا
دونوں بچوں کے والدین ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے پھر دونوں نے ہی اپنے اپنے بچوں کا سکول تبدیل کروا دیا تھا
.......
کوئی بار بار انکے گھر کی اطلاعی گھنٹی بجا رہا تھا
آرہی ہوں آرہی ہوں
امی باورچی خانے میں تھیں ہاتھ پونچھتی باہر آیئں
کون ہے ؟
انہوں نے دروازہ کھولا
ایک آئس کریم فروش کھڑا تھا
کیا کام ہے بھائی ؟
اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا امی نے پوچھا
بہن جی آپ عالیہ کی والدہ ہیں ؟
ہاں انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تو تو پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا
آپکی بیٹی نے آ کر مجھ سے آئس کریم لی ..
پیسے نہیں دے؟
وہ یہی سمجھیں
نہیں اس نے تو دیے پھر کہنے لگی تمہیں ویسے سب بچوں کو مفت آئس کریم دینی چاہے
یقین کیجیے دو دن سے ایک روپیہ نہیں لے رہا بچوں سے میری سب آئس کریم مفت بانٹتا رہا
مرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں غریب آدمی ہوں اسی سے کماتا ہوں بیگم صاحب
تو تمہیں کس نے کہا اس بچی کی بات مانو
انکو غصہ ہی آگیا
میں نہیں جانتا مگر میں اسکی بات ٹال نہیں سکتا آپ براۓ مہربانی اس سے مجھے اجازت دلوا دیں کہ میں پیسے وصول کر لیا کروں اپکا بڑا احسان ہوگا
وہ مسمسی سی شکل بنایے کھڑا تھا
صبیحہ اسے کچھ کہتے کہتے رک سی گئیں پھر عالیہ کو پکار لیا
..........................................
یہ تو کافی عجیب بات ہے
پاپا کافی حیران ہوئے تھے سن کر
عجیب نہیں بہت عجیب ترین بات ہے
اور کسی کو چھوڑو کل مجھے کہتی ہے مجھے چکن کھانا میں نے کل الو گوشت بنایا تھا پوری ہنڈیا پڑوس میں بھجوا کر میں نے مرغی بھونی ہے
صبیحہ بے حد حیرانی سے بتا رہی تھیں
ہاں پاپا میں نے کل اسکا سارا گھر کا کام کیا تھا آج مجھے استانی صاحب نے بلا کر ڈانٹا بھی کہ چھوٹی بہن کا ہوم ورک کیوں کیا؟
سارا نے بتایا
میں کل دو گھنٹے اسکو سائکل پر بیٹھا کر گھوماتا رہا ہوں میری ٹانگیں ٹوٹ گئیں سائکل چلا چلا کر
بھائی نے بھی دکھڑا رویا
سب گول میزکانفرنس کر رہے تھے عالیہ خاموشی سے ایک کونے میں صوفے پر بیٹھی سن رہی تھی
عجیب بات تو ہے
شکیب صاحب نے کان کھجایا
کل مجھ سے کہنے لگی مجھے چوکلاتے کا ڈبہ لا کر دیں میں منع کرنے لگا تھا کہ دانت خراب ہو جائیں گے مگر میں نے پھر اسکو پورا ڈبہ لا کر دیا
عالیہ ایلین تو نہیں؟
آپی نے خیال ظاہر کیا
سب مڑ کر اسے گھورنے لگے تھے
از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, September 23, 2017

پیار کہانی نمبر پانچ میں وہ اور کوا


پیار کہانی نمبر پانچ 
میں وہ اور کوا 
ایک تھا لڑکا 
نہا دھو کر بالوں میں جیل شیل لگا کر تیار ہو کے ظاہر ہے کسی لڑکی سے ملنے جا رہا تھا 
بائیک لہرا لہرا کر چلاتے ہوئے گنگنا بھی رہا تھا 
اسکے اوپر سے کچھ کوے بھی اڑتے ہوئے کہیں جا رہے تھے 
ترنگ میں آ کر اس نے پوچھا 
سنو میں تو اپنی گرل فرنڈ سے ملنے جا رہا ہوں تم کہاں جا رہے ہو ؟
کوا جلدی میں تھا اڑتے اڑتے ہی بٹ کر گیا 
پھر کوے تو پتا نہیں کہاں چلے گیے 
اس لڑکے کو گھر واپس آنا پڑا اپنی گرل فرینڈ سے فون کر کے معزرت کر لی 
کافی خفا ہوئی تھی وہ 
گھر آیا تو نہا بھی لیا دوبارہ گندا بچہ تھوڑی تھا 
نتیجہ : ڈیٹ پر جاتے ہوئے کوے سے کبھی نہیں پوچھنا چاہیے وہ کہاں جا رہا ہے 

از قلم ہجوم تنہائی

Friday, September 22, 2017

بنیان والے انکل کی کہانی


بنیان والے انکل  کی کہانی 
ایک تھے انکل 
ہر وقت بنیان پہنے رکھتے تھے  شلوار پہنتے تھے  مگر کبھی بھی قمیض میں نظر نہیں آتے تھے 
جانے کیا وجہ تھی 
صبح اچھے بھلے پورے کپڑے پہن کر دفتر جاتے تھے ،مگر واپس گھر آتے اور قمیض اتار دیتے ہم بچے کافی حیران ہوتے تھے کتنے بے شرم انکل ہیں ایکدن وہ انکل نہا کر ٹیرس پر آگیے 
ہم نے انکو دیکھا اور ہم اندر کمرے میں گھس گیے 
کیونکہ اس بار وہ صرف تولیہ پہن کر باہر آگیے تھے 
اور ٹیرس پر وائپر لگانے لگ گیے 
نتیجہ : بےشرمی کی ہائٹ


از قلم ہجوم تنہائی

کوئی کہانی


کوئی کہانی 
ایک تھا کوئی 
اب تھا نہ کوئی 
اسکو کوئی کوئی ہی پسند کرتا تھا 
ایک دن کوئی نے سوچا 
کیوں نہ کوئی ایسا کام کرے کہ کوئی کوئی نہیں سب اسے پسند کرنے لگیں 
سو سوچتا رہا کوئی 
اسے سوچتے دیکھ کر کوئی ہنس پڑااور بولا 
کوئی سوچتا تھوڑی ہے کہ کوئی ایسا کیا کام کرے کہ سب پسند کرنے لگیں 
کوئی نے اس سے کہا 
کوئی تو سوچے گا نا کبھی کہ کوئی اچھا کام کر ہی لے جسے سب پسند کریں 
نتیجہ : اچھا کام کرنے کا سوچتا بھی کوئی کوئی ہے 

از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, September 20, 2017

گوہر شناش کہانی



گوہر شناش کہانی 

ایک تھا بندر اسے سرا ہے جایے جانے کا شوق تھا 
ہر وقت اچھالتا کودتا الٹی سیدھی حرکتیں کرتا مگر کوئی بندر توجہ  نہ دیتا 
 ایک دن وہ دریا کنارے درخت پر چڑھ کر  اپنے پیٹ سے جویں چن کر کھا رہا تھا 
اس نے دیکھا ایک آدمی درخت پر چڑھا اسکی جویں کھاتے ویڈیو بنا رہا تھا 
بندر بڑا خوش ہوا بڑے انداز سے اپنی ویڈیو بنوائی تصویریں کھنچواتا رہا 
آدمی مسکرایا بندر ہے اگر آدمی ہوتا تو اپنی اتنی تصویریں کھنچوانے پر معاوضہ طلب کر لیتا خیر 
اس نے اس بندر سے دوستی کر لی اسے اپنے ساتھ لے گیا 
پھر جہاں جہاں جاتا بندر کو ساتھ لے کر جاتا بندر کوٹ پہن کر خوب بابو بن کر جاتا اسکو آدمی نے مزید کرتب سکھا دے وہ ہاتھ ملا کر سلام کرتا ہنستا حال احوال پوچھ لیتا اشارے کر کے بندر مشھور  گیا اسے سب سراہتے حوصلہ افزائی کرتے 
آدمی اپنے فن پارے دکھاتا کسی کسی تصویریں لی ہیں میں نے کیسے اسکو سب سکھایا 
مگر لوگ توجہ نہیں دیتے بس بندر بندر کرتے رہتے 
بندر مغرور ہوگیا اس نے آدمی کو جوتے کی نوک پر رکھنا شروع کر دیا بات نہ مانتا یہاں تک کے اسے چھوڑ کر چلا گیا 
آدمی اداس ہوا دوبارہ جنگل میں جا کر نیے سرے سے تصویریں بنانے لگا اس بار وہ درختوں پر چڑھتا کودتا پھاندتا  دیگر جانوروں کی تصویریں بنا رہا تھا کچھ بندر اسکی پھرتی  دیکھ کر بڑے حیران ہوئے 
کتنا قابل آدمی ہے اپنا توازن برقرار رکھتے کتنے مزے سے جیسے اڑتا پھر رہا  بندر ہوتا تو ہم اسکو سر آنکھوں پر بٹھاتے 

نتیجہ : انسان اور بندر میں ایک بات مشترک ہے نا قدرے ہوتے 
از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, September 19, 2017

الٹی کہانی

الٹی کہانی
ایک تھا سارس مچھلی کھا رہا تھا
مچھلی اس کے حلق میں پھنس گئی
بڑا پریشان ہوا کچھوے کے پاسس گیا 
اس نے کہا ایسا کرو تم بی بطخ کے پاسس جو ان کے پاس ضرور کوئی حل ہوگا
بی بطخ کے پاس آیا ماجرا کہ سنایا
بی بطخ نے سوچا پھر ایک تب منگوایا اس میں الٹی کی اب کہا پانچ خشکی کے جانور بلا کے لاؤ
زیبرا آیا اس سے بھی الٹی کروائی
لومڑی کچھوا خرگوش پھدکتا آیا بولا میںنے بھی کرنی ہے اس نے بھی کی
بی بطخ نے اس میں چمچ چلایا
کسی جانور نے کیچوے کھایے تھے ہضم نہ ہے تھے وہ الٹی میں جاگ کے تیرنے لگے
بی بطخ نے ایک چمچ بھرا اور سارس کے منہ کے پاسس لا کر کہا لو اسے کھا لو
سارس نے دیکھا گھاس کا ملیدہ گاجر کے ٹکڑے سمندری کیڑوں کا لیس اور ان پر تیرتے کیچوے ابھی دیکھ رہا تھا کے بندر آیا اور اس نے بھی بالٹی میں جھانک کے الٹی کر دی وہ ویسے کیلا کھا کے آیا تھا
نتیجہ : کیا ہوا؟ الٹی آگئی؟
سارس کو بھی آ گئی تھی 


از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, September 16, 2017

پیار کہانی نمبر دس

پیار کہانی نمبر دس 

میرا موٹا پیار 

ایک تھی لڑکی تھوڑی موٹی سی ...
ایک تھا لڑکا دبلا سا 
دونوں ایک دوسرے سے بوہت پیار کرتے تھے 
ایک بار چوٹی سی بات پر دونوں کا جھگڑا ہوا لڑکی نے لڑکے کو بہت برا بھلا کہا 
لڑکے کو غصہ آگیا اس نے غصے میں لڑکی کو پتہ ہے کیا کہا ؟
موٹی 
لڑکی کو بہت دکھ ہوا رو پر اور چلی گئی 
لڑکے کو بھی احساس ہوا اپنی غلطی کا دونوں کو ایک مہینہ ہو گیا ایک دوسرے سے ملے ہوئے ایک مہینے بعد لڑکے نے لڑکی کو فون کیا اور معذرت کی 
لڑکی ماں گئی 
اس سے ملنے کو تیار ہو گئی دونوں اتنے عرصے بعد ڈیٹ پر گیے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہو گیے 
لڑکے نے اپنا وزن بڑھا لیا تھا پریشانی میں کھا کھا کر 
اور لڑکی نے دکھ میں کڑھ کڑھ کر اپنا وزن کم کر لیا تھا 


نتیجہ : اگر لڑنے سے کچھ اچھا ہوتا تو لڑائی اچھی ہے .. 



از قلم ہجوم تنہائی

Friday, September 15, 2017

پیار کہانی نمبر آٹھ

پیار کہانی نمبر آٹھ

ایک بار ایک شرارتی سا بچہ سائکل پر ون ویلنگ کرتا  جا رہا تھا 
سامنے سے ایک بچی ٹیڈی بار لئے چلتی آ رہی تھی 
بچے سے سائکل کا توازن بگڑا وہ اس بچی سے ٹکرا گیا 
سائکل کا ہینڈل بچی کے منہ پر لگا اسکے آگے کے دونوں دانت ٹوٹ گیے 
وہ رونے لگی 
بچہ ڈھیٹ سا تھا اٹھا کپڑے جھاڑے بچی کے آنسو پونچھ کر کہنے لگا 
مت فکر کرو جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو تم سے شادی کر لوں گا 
بچی خوش ہو گئی 
وقت گزرتا گیا دونوں بڑے ہو گیے 
لڑکی اکثر آیئنے میں دیکھتی اپنے ٹوٹے دانت پر نذر ڈالتی اور مسکرا دیتی 
لڑکا پڑھنے باہر چلا گیا 
واپس آیا تو اسکی گوری سی بیوی اور بچہ بھی ساتھ تھے لڑکی دکھی ہو گئی اس سے پوچھا اس نے
ایسا کیوں کہا لڑکا دکھی ہو کر کہنے لگا
میں گاڑی چلا رہا تھا یہ میری گاڑی سے ٹکرا گئی تھی اوس اسکی تو ٹانگ ہی ٹوٹ گئی تھی 
لڑکی نے معاف کردیا اسے 
نتیجہ : بچپن میں آپ نہیں جانتے بڑے ہو کر کب اپکا کس سے ایکسیڈنٹ ہو جایے لہٰذا دانت ٹوٹنے پر دانتوں کے معالج سے رابطہ کر کے ںیی داڑھ  لگوا لینی چاہے 

از قلم ہجوم تنہائی

Thursday, September 7, 2017

Saturday, August 19, 2017

بلندی کہانی


بلندی کہانی 

ایک تھی چیونٹی 
اس نے سوچا اونچے پہاڑ پر چڑھ کر دیکھ دنیا کسی دکھائی دیتی ہے 
وہ دھیرے دھیرے چڑھتی رہی کی دن سفر طے کیا 
راستے کی کٹھنائیوں کا مقابلہ کیا آخر اوپر پہنچ گئی 
پہاڑ بہت اونچا تھا اسے وہاں سے بھی دنیا دکھائی بڑی ہی دی 
تھک کر واپس آنا چاہا رہ چلتے کسی مسافر کے پاؤں تلے کچلی گئی درد سے نڈھال ہو کے چلائی
اندھے ہو کیا؟اتنے اونچے پہاڑ پر چڑھ گئی پھر بھی دکھائی نہ دی ؟
مگر اسکو واقعی مسافر دیکھ نہیں پایا تھا کیوں کہ وہ ابھی بھی چھوٹی سی چیونٹی ہی تھی 
نتیجہ : اونچائی نصیب سے ملتی اونچایوں کی خواہش کرنے سے نہیں 

از قلم ہجوم تنہائی

Friday, August 4, 2017

میری کہانی

میری کہانی
مجھے کیا خبر تھی
جو بہہ نہ پائیں گے
اشک
مجھ میں ٹھہر جائیں جو
کیا طوفان بپا کریں گے
یہ حزن ساگر بن جائے گا
میری آنکھیں کنارہ ہو جائیں گی
درد کی موجیں مجھے بھی لے جائیں گی
مجھ میں میں ہی ڈوب رہا ہونگا
تڑپ کر کنارہ لہروں سے سوال کرے گا
پلٹنا فطرت تیری میں کنارہ سہی اک التجا سن لو
خود میں ڈوبنے والے کو آج جانے دو
اسے پلٹا دو واپس آج
کنارے بھیگ جانے دو
ساگر ہنس دے گا
میرا راستہ رک نہیں سکا جس سے میں اسی کو ڈبوتا ہوں
جا کہہ دے ڈوبنے والے سے آج میں اس پر ہی روتا ہوں
نتیجہ:رونا اچھا ہوتا



از قلم ہجوم تنہائی


Wednesday, August 2, 2017

امیر شہر کہانی


گھپ اندھیرے میں ٹٹول ٹٹول کر چلتےوجود  ٹھوکر کھاتے سوچتے  راستے کتنا ستاتے ہیں کیا جانیں اکیلے نفس اس قفس میں تنہا نہیں کوسوں دور چراغ کا گماں ہوا جان لڑا دی کہ سفر میں آرام کو  اس سرائے میں جگہ نصیب ہو جائے چراغ ان سے بے انجان بس اپنی لو میں جلے جارہا تھا دونوں دبے قدم بڑھتے رہے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے کہ کوئی پیچھا تو نہیں کر رہا بڑھتے بڑھتے دونوں آمنے سامنے آئے تو ٹکرا گئے ۔۔۔ جھٹ سے دونوں نے تلوار نکال لی ایک۔دوسرے کی گردن پر تلوار کی نوک چبھو دی ۔ خلا میں تلوار بازی کرنا اور زندہ سلامت انسان پر تلوار تان لیناعلیحدہ بات دونوں ہی اناڑی تھے
ہاتھ کانپے تلواریں چھوٹ کر نیچے جا پڑیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
سرائے مسافروں سے کھچا کھچ بھری تھی دونوں کو ایک ہی بستر مل سکا رات گزاری کو دونوں ایک دوسرے پر اعتبار نہ کرتے ۔۔۔
کروٹ بدلتے نیند سے لڑتے لگتا تھا قیامت تک رات تمام نہ ہوگی بےحال ہو کر اٹھ بیٹھے سونا دونوں
کیلئے شجر ممنوعہ ٹھہرا
آخر ایک نے چپ توڑی
میں سونا چاہتا ہوں ایک طویل عرصہ ہوگزرا ہے میں سو نہیں پایا میں لکڑ ہارہ ہوں ایک درخت کاٹتے اسکی جڑ میں مجھے خزانہ دبا ہونے کا گمان ہوا میں نے کھودا تو مجھے بیش قیمت جواہر ملے ان میں سے کچھ میں نے نکال لیئے ہیں میری پوٹلی میں قیمتی جواہر ہیں میں شہر قیمت لگوانے جاتا ہوں اگر اچھی قیمت نہ بھی لگی تو اتنا پالوں گا باقی عمر اچھی گزر جائے گی اگر تو تمہارا ارادہ ہو لوٹنے کا تو ابھی لوٹ لو میں صبح واپس جا کر مزید نکال لوں گا اگر تو خزانے کی خواہش ہو تو صبح میرے ساتھ چلنا ہم آدھا آدھا کر لیں گے اگر لالچ ہو تو بھی کم از کم خزانے تک رسائی کیلئے تمہیں میری مدد درکار ہوگی تو بھی صبح تک کا انتظار کر نا ہی ہوگا
دوسرا حیران رہ گیا
میں اجنبی ہوں تمہارے لیئے راہزن بھی ہوسکتا مجھے یہ تفصیل بتانے کی وجہ ؟
پہلا اپنی نیند سے سرخ آنکھیں گاڑ کر بولا
مجھے جب سے خزانہ ملا ہے میں سویا نہیں مجھے یہ خوشی سونے نہیں دیتی
ایک دن مجھے سب مل جائے گا میں نیند کو ترس رہا ہوں تمہیں بتانے کا مقصد تمہارا ارادہ جاننا ہے تم فیصلہ کر لو اگر ان جواہر پر اکتفا کرنا ہو تو مار دو مجھے اگر آدھا خزانہ چاہیئے تو صبح تک کا انتظار کر لو تب تک میں سولوں چین سے۔۔۔
 مل جانے کی خوشی کی شدت کم ہوجائے تو شائد میں سو سکوں
دوسرا ہنس پڑا ہنسے گیا سمجھو ہنس ہنس کر پاگل ہو گیا
مجھے تمہارے خزانے میں کوئی دلچسپی نہیں میں خود اپنے شہر کے امراء میں سے ہوں میں تجارت پیشہ ہوں لوگ کہتے میں خوش قسمت ہوں مٹی چھو لوں تو سونا بن جائے  جس قافلے کے ساتھ جاتا ہوں سب سے پہلے میرا مال بکتا ہے بڑی بڑی سلطنتیں گھوم چکا ہوں بادشاہوں سے تعلقات ہیں میرے اتنا کچھ ہے میرے پاس کہ میں شمار نہیں کر سکتا مگر
وہ ہنستے ہنستے یکدم چپ ہوا
مگر؟
پہلامتجسس ہوا
مگر ایک عمر گزر گئ چین سے سویا نہیں ہوں اس سب کی حفاظت وبال جان بنی ہوئی ہے خوف کے مارے میں سو نہیں پاتا کوئی مجھ سے سب چھین نہ لے
مجھے یہ خوف۔۔۔
اک دن میں سب کھو دوں گا
مجھے یہ ڈر مار گیا ہے
کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا ۔۔۔
نتیجہ :دکھ اپنے اپنے

از قلم ہجوم تنہائی


short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen