Showing posts with label urdu moral stories. Show all posts
Showing posts with label urdu moral stories. Show all posts

Monday, January 22, 2018

آخری کی کہانی

 آخری کی کہانی۔۔
ایک تھا ننھا سا انڈہ
ڈائنا سور کا تھا۔۔ ایکدن پھوٹ کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کھلا آسمان ہے دور دور تک چرند پرند مگر کوئی بھی اسکی۔نسل کا نہ تھا۔۔اسے جو دیکھتا منہ کھول کر دیکھتا جاتا۔۔
اسکو بھی حیرت ہوتی تھی آخر وہ اکیلا کیوں ہے۔۔
سارے جنگل میں اسکی دھوم مچی تھی۔۔
شیر سے بھی ذیادہ مشہور تھا۔۔ شیر کی بھی نسل کم ہو رہی تھی وہ بھی چڑتے کہ ہم سے زیادہ ایک معمولی ڈائنا سور مشہور ہے ۔ اسکے دیو ہیکل جثے سے سب شیر سے زیادہ خوف کھاتے تھے۔۔ مگر ڈائنا سور بے حد خوش اخلاق تھا۔۔ سب جانوروں سے ملتا حال احوال پوچھتا۔۔ اسکی ہاتھی سے بہت دوستی ہو گئ تھی اور زرافے سے بھی۔ کہ یہ دونوں جانور بھی اتنے ہی بڑے دیو ہیکل جثے کے مالک تھے کہ اس سے ڈرتے نہیں تھے۔ ان دونوں کے ساتھ رہ رہ کر ڈائنا سور بگی سبزی خور ہو گیا تھا۔۔ کبھی کسی جانور کا شکار نہیں کیا۔۔ خیر ایکدن ہاتھی کی طبیعت خراب ہوئی۔۔ بیماری سے کمزور ہوا۔۔ مناسب علاج معالجہ نہ ہو سکنے سے چند دن بیمار رہ کر مر گیا۔۔ یہ پہلی موت تھی جو ڈائنا سور نے دیکھی تھی۔۔
ہاتھی کی ہتھنی اور دو بچے تھے کہہ سکتے ہیں انکی نسل محفوظ تھی۔۔ زرافہ ڈائنا سور کو دیکھتا پھر کسی سوچ میں پڑ گیا۔۔
کیا سوچ رہے ہو؟۔۔
زرافے سے ڈائنا سور نے پوچھا۔۔
زرافہ نے گہری۔سانس لی۔۔
مجھے ڈر ہے کہ تم اکیلے آخری ہو تمہارا جوڑی دار کوئی نہیں خدا نخواستہ تمہیں کچھ ہوا تو دنیا میں ڈائنا سور کی نسل ہی ختم ہو جائے گی۔۔
ڈائنا سور پریشان ہو گیا۔۔
کیا واقعی۔۔؟۔۔ میرا تو واقعی کوئی نہیں بچا میں جب سے انڈے سے نکلا ہوں اپنے جیسا میں نے آج تک کوئی جاندار نہیں دیکھا پھر آخر ایسا کیسے ہو سکتا میں اتنا نادر و نایاب جانور اگر میں بھی کیا یہاں فنا ہو جائوں گا؟۔۔
زرافے نے گہری سانس لی اور جواب دیا۔۔
ہاں۔۔
ہر شے کو فنا ہے۔۔
نتیجہ: آپ جتنے بھی انمول اور شاذ ہوں فنا مقدر ہے آپکا بھی۔۔
از قلم ہجوم تنہائی

Friday, January 19, 2018

کمال کہانی

کمال کہانی
ایک تھا کوئی۔۔
تھا تو بہت کچھ ۔۔
مگر دنیا نے اسے کبھی قابل توجہ نہ گردانا۔۔
بہت کمال کا تھا۔۔ اسے بنا رکے بنا گرے چلنا آتا تھا۔۔ وہ محو سفر رہتا تھا مگر سہج سہج کر چلتا تھا۔۔ یہ کافی کمال کی بات تھی۔۔ کوئی زندگی کے سفر میں کیسے بنا رکے گرے سہج سہج کر چل سکتا؟۔۔
مگر اسکے کمالات کو ہمیشہ کمتر جانا جاتا گیا۔۔
کوئی اپنی قدر قیمت جانتا تھا۔۔ مگر سب اسکو اسکے کمالات کو درخوراعتنا نہ گردانتے۔۔
سو وہ اداس دنیا پر نفرین بھیج کر ہجوم تنہائی میں جا بسا۔۔
کسی نے یونہی اس سے پوچھ ڈالا
بھئ۔۔
کیا خود کو ضائع کرتے ہو کوئی کمال۔کیوں نہیں کر ڈالتے؟۔۔
کوئی سرد آہ بھر کر بولا۔۔
مجھے اڑنا نہیں آتا
مجھے تیرنا بھی نہیں آتا
میں سہج سہج چلتا ہوں تو سب کہتے ہیں اس میں کمال کیا ہے۔۔
کسی کو اسکی بات متاثر کر گئ۔۔
بولا
مجھے سہج سہج کر چلنا نہیں آتا مجھے سکھائو۔۔
میں تو سیدھی راہ پر بھی ٹھوکر کھا جاتا ہوں۔۔
کوئی اٹھ کھڑا ہوا
اسے سہج سہج کر چلنا سکھایا۔۔
یوں پہلی بار کسی کو کوئی اپنا پرستار بنا گیا۔۔
نتیجہ: انسان کیلیئے اڑنا تیرنا کمال نہیں انسان کیلیئے انسانیت کی راہ پر گر نہ پڑنا کمال ہوتا ہے۔۔
از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, January 17, 2018

غرارہ اور کلی کہانی

غرارہ کہانی۔۔

ایک بار ایک ہاتھی کا گلا خراب ہوگیا۔ آواز بیٹھ گئ۔۔ کھانے پینے سے گیا۔۔ خراش اتنی تھی کہ ایک لفظ سیدھا نہ بول پا رہا تھا۔۔ سب جانور اسکا مزاق اڑاتے ۔۔ چپ ہی رہنے لگا۔۔
زرافہ اسکا دوست تھا۔۔ اسے دانت میں درد ہو رہا تھا۔۔ ہاتھی کے پاس آیا بولا
آئو ہم لومڑی حکیم سے کوئی دوا لے لیں۔۔
ہاتھی نے حامی بھر لی۔۔ دونوں لومڑی کے پاس آئے۔۔
لومڑی نے دونوں کا احوال سنا معائنہ کیا
دو دوائیں سامنے رکھ دیں۔۔
ہاتھی سے کہا اس دوا کو پانی میں حل کر کے غرارے کرو۔
اور زرافے سے کہا تم اس دوا کو پانی میں گھول کر کلی کرو ۔
دونوں نے اسی وقت پانی میں گھولا مگر ایک گڑ بڑ ہو گئ۔۔
ہاتھی پانی منہ میں بھرتا غرارہ کرنے کی بجائے کلی کر دیتا۔۔
اور زرافہ کلی کرنے کی بجائے حلق میں غرارہ کرنے لگا۔۔
لومڑی نے سر پیٹ لیا۔۔
احمقوں۔۔ غرارہ پانی حلق میں بھر کر ہوا سے بلبلے بنانے کو کہتے۔۔ اس سے گلا سنکے گا چونکہ ہاتھی کا گلا خراب اسے غرارہ کرنا چاہیئے۔۔ جبکہ زرافے کے دانت میں درد ہے تو اسکو حلق تک پانی پنچانے کی ضرورت نہیں دانت تو منہ میں ہیں سو کلے میں پانی بھر کر گڑ گڑ کرو۔
دونوں کھسیائے ۔۔ اور سر ہلا کر منہ میں پانی بھر لیا۔۔ اس بار زرافے نے پانی کلے تک رکھا ہاتھی نے حلق تک پہنچایا۔۔
دونوں نے خوب غرارہ اور کلی کر کے تھوک دیا۔
لومڑی پر۔۔
لومڑی شرابور ہو گئ۔۔ اور غصے سے گھورنے لگی۔۔
دونوں نے معصوم سی شکل بنا کر کہا۔۔
غرارہ ہو یا کلی تھوکنا تو پڑتا ہے اب دوا نگل تو نہیں سکتے۔۔
لومڑی ٹھنڈی سانس بھر کے رہ۔گئ۔ اور بخار کی دوا ڈھونڈنے لگی۔۔ جنوری میں بے چاری پانی میں بھیگ جو گئ تھی۔
نتیجہ:  مشورہ سوچ سمجھ کر دینا چاہیئے۔۔ اب یہ نتیجہ کیوں نکلا۔۔ خود سوچیے اور سمجھ آیے تو پسند بھی کر لیں یہ کہانی

از قلم ہجوم تنہائی

Sunday, January 14, 2018

ہرن کہانی

ہرن کہانی۔۔
ایک تھا ہرن ۔۔
اچھلتا کودتا رہتا۔۔
بھاگتا پھرتا۔۔
اسکا ایک دوست تھا مار خور۔۔
مار خور ہرن جتنا چست نہیں تھا بے حد بردبار تھا۔۔
ایک دن دونوں اکٹھے گھاس چر رہے تھے ہرن نے شیخی بگھاری۔۔
میں دس میٹر تک اونچی چھلانگ مار سکتا ہوں۔۔
مار خور مسکرا دیا
بے حد اچھی بات ہے۔۔
ہرن ہنس کر بولا تم تو پانچ میٹر تک بھی مار سکتے تم تو نہایت سست اور بونگے سے بکرے ہو تم کہاں اور میری ہرن کی اعلی نسل کہاں۔۔میں تو نایاب بھی ہو تا جا رہا ہوں تم جیسے بکرے تو بھرے پڑے
مار خور کو دکھ ہوا کہہ نہ سکا میں پاکستان کا قومی جانور ہوتا ہوں مجھے اتنا کم تر نہ سمجھو۔۔
مگر مار خور کم ظرف نہیں تھا سو چپ رہا
ہاں ہرن اسکی نظروں سے گر گیا۔۔
ہرن شیخی بگھارتا اونچی اونچی چھلانگیں مار کر مار خور کو جتاتی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔ اسکی نظریں بھٹکیں اس نے بنا دیکھے چھلانگ لگائی ایک پتھر پر پائوں پڑا۔۔منہ کے بل گرنے لگا مار خور اسے گرتے دیکھ کر بچانے دوڑا۔۔
ہرن نے اسکا سینگ اپنے سینگ میں پھنسا
خود کو منہ کے بل گرنے سے بچا لیا۔۔
نتیجہ: کسی کی نظروں میں گرنے سے
ریادہ ہم منہ کے بل گرنے سے ڈرتے ہیں۔۔
از قلم ہجوم تنہائی

خوشی کہانی۔۔

خوشی کہانی
ایک تھا کوئی ۔۔
اسے کچھ ملا۔۔
بہت خوش ہوا۔۔ خوشی سے پاگل ہو اٹھا۔۔
پاگل ہوا تو ہوش کھو بیٹھا۔۔
ہوش کھو بیٹھا تو گم صم ایک کونے میں بیٹھا روتا رہتا۔۔
کسی نے پوچھا کیا ہوا ؟۔۔ کیا گزری تم پر۔۔
کوئی اداسی سے بولا۔۔
مجھے کچھ ملا میں خوشی سے پاگل ہو گیا
اتنا کہ ہوش ہی کھو دیئے اب صدمے میں ہوں۔۔
کسی نے ہنسنا شروع کر دیا۔۔
ایسی بھی کیا مل۔جانے کی خوشی۔۔کہ ہوش کھودو۔۔
کوئی اداس سا ہو گیا۔۔
اب خوشی سے زیادہ کھو دینے کا غم محسوس ہوتا ہے۔۔
نتیجہ: چھن جانے کی تکلیف مل جانے کی خوشی سے زیادہ ہوتی ہے
از قلم ہجوم تنہائی

Friday, January 12, 2018

احمق کچھوا کہانی۔۔۔ahmaq kachwa kahani

Ahmaq Kachwa kahani
Ek tha kachwa
Ahista ahista chalta rehta
Chaltay chaltay thak bhi jata
Usay ek din khayal aaya
Woh ju bojh apne sath liye phir raha uski wajah sy thak jaya karta hay woh
Us ne apna khol utara aur bin khol ky rengna shuru kr dia
Ab bojh tu kam ho gaya tha mgr
Usko raste k sab pathar kantay chubhnay lgay thay
Jisam chil.gaya tha
Wapis aaya aur apna khol pehn lia dobara
Nateeja : ahmaq tha.. koi khud ko peechay chor kr kabhi aagay berh paya hay kia?

احمق کچھوا کہانی۔
ایک تھا کچھوا
آہستہ آہستہ چلتا تھا ۔۔
چلتے چلتے تھک بھی جاتا تھا
اسے ایک دن خیال آیا
وہ جو بوجھ اپنے ساتھ لیئے پھر رہا اسکی وجہ سے تھک جاتا ہے وہ۔۔
اس نے اپنا خول اتارا اور بن خول کے رینگنا شروع کر دیا
اب بوجھ تو کم ہو گیا تھا مگر
اسکو راستے کے پتھر کانٹے سب چبھنے لگے تھے
جسم چھل گیا تھا
واپس آیا اور اپنا خول پہن لیا دوبارہ
نتیجہ: احمق تھا۔۔ کوئی خود کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ پایا ہے کیا؟
از قلم ہجوم تنہائی

Sunday, December 24, 2017

A tribute to kpop star late jong johyun from group shinee in urdu

خو د کشی سے پہلے میرا آخری خط۔۔۔
مجھے آج اپنا آخری خط لکھنا ہے۔۔
کس کے نام لکھوں۔۔؟
انکے جن کی وجہ سے
آج میں اس مقام پر ہوں۔۔ کہ مجھے سامنے اپنے بس اندھیرا نظر آتا ہے۔
یا انکے نام جن سے میرا کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا۔۔
عجیب بات ہے نا۔۔ مگر آج میرا مخاطب اس دنیا کا ہر وہ فرد ہے جو اس دنیا میں اس وقت موجود ہے۔۔
چلو تو سنو۔۔
یہ میرا آخری خط ہے۔۔
اسکے بعد نہ تو کبھی میری صورت دکھائی دے گی
نہ کبھی میری آواز سنائی دے گی۔ اب تم لوگ کہوگے
تو کیا ؟۔۔
ہا ہا۔۔ تو کیا۔۔
تو یہ کہ۔۔
مجھے بھی ویسی ہی زندگی ملی جیسی تم سب کو ملی۔۔ مگر میرا انجام تم سب سے مختلف کیوں ہے؟۔۔
مجھے بڑھاپے تک جینا کیوں مشکل لگ رہا۔
میں اپنی جوانی میں ۔۔ قبر میں جا لیٹنے جیسی مایوس کن سوچ کا شکار کیوں ہوں۔۔
تو سنو۔۔
میرے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔۔
یوں کہو۔۔
میرے ساتھ دنیا نے اچھا نہیں کیا۔۔
یوں کہو۔۔
مجھے سب نے چھوڑ دیا۔۔ شائد اس نے بھی جو مجھے تمہیں سب کو پیدا کرنے والا ہے۔۔
مگر نہیں۔
اس سے مجھے شکوہ نہیں۔۔
عجیب بات ہے نا۔۔
برا لوگ کرتے خفا ہم خدا سے ہو جاتے۔۔
نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔۔ میں خدا سے ناراض نہیں۔ ورنہ اسی کے پاس چلے جانے کی خواہش کیوں ہوتی میری؟۔۔
میں تو بس۔
چلو چھوڑو۔۔
مجھے لگتا ہے میں نے اپنی بساط کے مطابق سب اچھا کیا۔۔ اس سے زیادہ میرے بس میں ہی نہیں ہوگا۔
تو اگر مجھ سے کوئی شکوہ ہو تو معزرت میں بس اپنے آخری وقت میں اور کہوں بھی تو کیا۔۔
تو خدا حافظ دنیا۔۔
اب مجھ سے اور جیا نہیں جاتا۔۔
ختم شد۔۔
میں نے سطروں پر نظر دوڑائی۔۔
ایک اطمینان میرے رگ و پے میں دوڑ گیا۔۔
میرا آخری سفر اب آسان ہوگا۔۔ میں نے سوچا۔۔
میرے کچن میں ایک فرائی پین چولہے پر چڑھا ہے۔۔ اس پر ایک خاص مرکب دم دے رہا ہے۔۔
اس کے دھوئیں نے میرے پورے اپارٹمنٹ کا احاطہ کرنا شروع کر دیا ہے۔۔ میں اپنے بستر پر نیم دراز ہو گیا۔۔ آنکھیں زندگی میں بند کروں یا موت کو اپنے حواس مختل کرنے تک انتظار کروں
بس میں یہی فیصلہ کرنے لگا ہوں۔۔
آپ شائد متجسس ہیں ۔۔
میں کون۔۔؟۔۔۔
میں ایک ترقی یافتہ ملک کا مشہور ترین گلوکار ہوں ایک دنیا اس شہرت کے مزے لینا چاہتی جو میرے گھر کی باندی ہے جسکے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بقیہ عمر کھا سکتا ہے۔۔ ہا ہا ہا۔۔
میں ہاں۔۔ میں۔جونگ جوہیون۔۔ شائینی گروپ کا لیڈ سنگر۔۔
از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, December 13, 2017

مردہ کہانی


مردہ کہانی 
ایک تھا سائیں ایک ویرانے میں اسکا پڑاؤ تھا آتے جاتے مسافر کبھی کبھی اسے کچھ اشیاء خورد و نوش فراہم کر دیتے تھے سو وہ گزر بسر کر لیتا تھا کئی سال گزرے 
ویرانہ ویرانہ نہ رہا آبادی بڑھتے بڑھتے وہاں تک آ پہنچی سائیں کا سکون تباہ ہوا لوگ آتے جاتے چھیڑ جاتے بچے پتھر مار کر ہنستے سائیں جو کئی  عشروں سے خاموش تھا اپنی چپ توڑ بیٹھا ہوا کچھ یوں 
وہ اپنے دھیان میں سر نہیہوا ڑے دیوار سے پشت ٹکایے بیٹھا تھا 
روز لوگ آتے جاتے جملے کستے 
چپ سہتا رہا 
بچے پتھر مار کر بھاگ جاتے خاموش رہا 
کچھ من چلے اسکے سامنے کھڑے ہو کر اسکو مجنوں کہنے لگے اسکی نقل اتار اتار کر اسکے انداز سے چل کر اسے چڑا رہے تھے 
ملنگ اٹھ کھڑا ہوا دھاڑ کر بولا 
دور ہو جاؤ نا خلفوں اس سے قبل میرا غضب میرے قابو سے باہر ہو جایے 
من چلے دبک گیے کوئی دور سے یہ منظر دیکھ رہا تھا پاس آیا اور حیرت سے ملنگ سے دریافت کیا 
لوگ پتھر مارتے رہے تم سہ گیے جملے کستے رہے تم سہتے گیے آج معمولی من چلوں کی شرارت پر اتنا غیظ آخر کیوں؟
ملنگ پھیکی ہنسی ہنس دیا 
ملنگ کی بھی برداشت کی حد ہوتی ہے چاہے کسی عام انسان کے مقابلے میں کہیں زیادہ در میں ختم ہوتی ہے مگر ہو جاتی ہے 
وہ تو ٹھیک ہے 
کوئی بات کاٹ کر بولا 
مگر ملنگ کو کیا فرق پڑتا لوگوں سے
نہیں پڑتا فرق ملنگ ہنسا 
مگر پڑتا ہے فرق 
سننے والا سہنے والا کبھی نہ کبھی ہار جاتا ہے 
مگر کوئی ابھی بھی اپنی بات پر اڑا
مگر دنیا میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جنکو آپ کچھ کہ دیں جواب نہیں دیتے انکو مار کر بھاگ جو اف نہ کہیں گے ...
ہاں ... ملنگ نے ٹھنڈی سانس بھری 
ہوتے ہیں مگر انسانوں میں سے ایسے لوگ جانتے ہو کون ہیں ؟
ملنگ نے اپنی سرخ آنکھیں اس کے چہرے پر جمائیں 
کوئی متجسس ہو کر پوچھ بیٹھا 
کون ہیں >؟
مرے ہوئے لوگ 

نتیجہ : جو سہہ رہا ہے نا ... ہمیشہ نہیں سہے گا 


از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, December 12, 2017

قنوطی کہا نی ...qanooti kahnai



قنوطی کہا نی
ایک بار ایک قنوطی اکیلا بیٹھا وقت گزاری کے لئے اچھا اچھا سوچنے لگا جیسے کہ وہ آج اداس نہیں ہے خوش ہے
وغیرہ وغیرہ
پھر اس نے قنوطیت سے سوچا 
یہ سب تو میں نے سوچا ہی ہے بس
نتیجہ : خود سوچیے
از قلم ہجوم تنہائی

qanooti kahani 
ek baar ek qanooti akela betha waqt guzari ke liye acha acha sochnay laga jesay k woh aaj udaas nahin hay khush hay waghera waghera
phir us ne qanootiat say socha 
yeh sab tu main ne socha hi hay bs 
nateeja : khud sochiye 
by hajoom e tanhai 

اوپر کہانی ... ooper kahani


اوپر کہانی 
ایک تھا ابا بیل ہوا میں ا ڑتا پھرتا 
اسے سب سے اونچے مقام پر پہنچنا تھا ایک دن وہ اڑتا گیا 
اڑتا گیا پہاڑ کی چوٹی پر جا پہنچا 
نیچے دیکھا تو احساس ہوا اونچے مقام پر پہنچ گیا ہے چھوٹے پرندے تو سو چ بھی نہیں سکتے سینہ پھلا کر بیٹھ گیا تبھی ایک باز اڑتا آیا اس کے پاس سے گزرا خیر سگالی مسکراہٹ


اچھالی اوپر  اڑ گیا ابا بیل حیران ہو کر اوپر  دیکھنے لگا اوپر  اس سے بھی اونچا پہاڑ تھا جس پر بیٹھ کر وہ اترا رہا تھا اسکی گردن اتنی انچائی دیکھتے تھک گیئی 
اس کا توازن بگڑا گر پر ا
نتیجہ : جہاں لگنے لگتا کہ اپ بہت اونچائی پر جا پہنچے  ہیں وہاں سے پھر اوپر نہیں نیچے جاتے ہیں


از قلم ہجوم تنہائی


oper kahani
ek tha ababeel hawa main urta phirta 
usay sab say oonchay maqaam pr pohanchna tha ek din woh urta gaya 
urta gaya pahaar ki choti pr ja pohancha 
neechay dekha tu ehsaas hua oonchay maqam par pohanch gaya hay chotay parinday tu soch bhi nahin saktay 
seena phula kr beth gay tbhi ek baar urta gaya uske paas se gzra kher sagaali muskurahat uchaali oper ur gaya aba beel heraan ho kar oper dekhne laga oper us se bhi ooncha pahaar tha jis per beth kar woh itra raha tha uski gardan itni oonchaai dekhne zsay thak gai uska tawazn bigra gir para 
nateeja : jahan agnay lgta k aap bht onchaai par ja pohanchay hain wahan say phir oper nahin neechay jaatay hain 

by hajoom e tanhai 

کچھ کہانی ... kuch kahani


کچھ کہانی 
ایک دفعہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔۔
نتیجہ : کچھ نہیں


از قلم ہجوم تنہائی


kuch kahani 
ek dafa kuch hua hi nahin
nateeja : kuch nahi
by hajoom e tanhai 

تھوک کہانی... thook kahani




تھوک کہانی
ایک بار ایک مکڑی جالا بنا کر اونچے پہاڑ سے اتر رہی تھی
کیا دیکھتی ہے تیزی سے چڑھتی ایک چونٹی اس کی جال میں پھنس گی ہے
مکڑی ایک تو بھوکی نہیں تھی دوسرا اتنی سی چونٹی سے پیٹ نہ بھرتا اس نے سوچا چھڑا دے 
اسے اپنی طرف آتآ دیکھ کر چونٹی کے اوسان خطا ہو گے
مکڑی مسکرائی اسے بچایا پوچھا اوپر کاہے کو جاتی ہو
چونٹی بولی مقابلہ ہے مجھے پہلا انعام لینا ہے
مکڑی سر ہلا کر واپس ہو لی زمین پر پہنچی تو ڈھیر ساری بوندیں آ گریں اس نے چہرہ صاف کر کیے اوپر دیکھا درجنوں چونٹیا ں تھوک کر دیکھ رہی تھیں کس کا تھوک پہلے پہنچا
نتیجہ : تھوک نیچے پہلے جسکا بھی آیے جیت اسکی ہوتی جسکا تھوک کسی کے او پر نہ آیے
از قلم ہجوم تنہائی

thook kahani 
ek baar ek makri jaala bana kar oonchay pahaar se utar rhi thi 
kia dekhti hay tezi say cherhti ek chewnti uske jaal main phans gai hay 
makri ek tu bhooki nahin thi dosra itni si chewnti say uska pait na bharta us ne socha chura de
use apni taraf aata dekh kr chewnti ke osaan khata ho gaiay 
makri muskurai usay bachaya pocha oper kaahay ko jaati ho
chewnti boli muqabla hay mujhay pehla inaam lena hay 
makri sir hila kar wapis ho li
zameen pr phnchi tu dher saari bondain munh pr aa gireen 
usne chehra saaf kar ke oper dekha darjanon chewntiaan thook kr dekh rhi theen kiska thook pehle phncha 
nateeja : thook neechay pehle jiska bhi aayay jeet uski hoti jiska thook kisi ke oper na ayay
by hajoom e tanhai 

Tuesday, December 5, 2017

ہتھیار کہانی .. hathyaar kahani

ہتھیار کہانی 
ایک تھا باد شاہ اسکی سلطنت بہت بڑی  تھی کئی  سلطنتوں  کے با دشاہ اس پر قبضہ  کرنا چاہتے تھے 
با د شاہ  بہت پریشان تھا اس نے اپنی فوج بڑھا لی مگر پھر بھی جنگ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا 
ایک دن بادشاہ اپنے سپاہ سالار سے اپنی  فوج کی صورت حال انکی مہارت اور طاقت کے حوالے سے تفصیلات سن رہا تھا کہ اسے خیال آیا کیوں نہ کوئی ایسا ہتھیار بنایا جایے جو بہت مہلک ہو اور اس کی سلطنت کی افواج کے سوا دنیا میں کسی کے پاس نہ ہو 
خیال آنا تھا کہ اس نے فورا ماہر ہتھیار ساز کو حکم دے ڈالا
دنیا کا سب سے مہلک اور انوکھا ہتھیار بنا لایے
ہتھیار ساز نے حکم سن تو لیا مگر پریشان ہو گیا
اپنی تمام تر صلاحیتیں آزما ڈالیں
سوچ کے گھوڑے دوڑ ایۓ ہر طرح کا ہتھیار بن تو چکا تھا تیر کمان سے لے کر تلوار تک چھری سے لے کر نیزے تک
آخر نیا کیا ہتھیار بنایے
سوچتا رہا خیر اسکے پاس وقت کم تھا اگر کوئی نیا ہتھیار بنایے بغیر بادشاہ کے حاضری دیتا تو آخری حاضری دیتا بادشاہ نے اسکا سر قلم کروا دینا تھا
کرتے کرتے وہ دن آ پہنچا جب اسے اپنا شاہکار ہتھیار پیش کرنا تھا بادشاہ کی خدمت میں
گھر میں حال سے بے حال سر پکڑے بیٹھا تھا جب سپاہی اسے لینے دروازے پر آ موجود ہوئے
ہاتھ میں لوہے کا ٹکڑا لئے بیٹھا تھا اسکو ڈھالنے کے لئے مگر کس شکل میں ڈھالے یہ سمجھ نہیں اتا تھا خیر سپاہی اسے اسی حالت میں لے کر بادشاہ کے پاس چلے آیے
ہتھیار ساز تھر تھر کانپ رہا تھا بادشاہ نے پوچھا بتاؤ کیا ہتھیار بنایا تو اس نے بے ساختہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کمر پر باندھ لئے بادشاہ نے اسکی حرکت کو تعجب سے دیکھا سپاہی کو اشارہ کیا
سپاہی بادشاہ کے ابرو کے اشارے کی تعمیل کرتا اسکے ہاتھ کھینچ کر بادشاہ کی نگاہوں کے سامنے پیش کر ڈالے
نوکدار تیر کی شکل کا لوہے کا ہتھیار دیکھ کر سخت برہم ہوا
اس تیر میں نیا کیا ہے ؟
ہتھیار ساز کا گلہ خشک ہوا
وہ یہ اتنا مہلک ہے کہ اشارے سے جان لے لیتا...
بادشاہ کو یقین نہ آیا
ٹھیک ہے اگر یہ واقعی مہلک ہے تو تم اسکو اپنی جانب نشانہ باندھ کر دیکھاؤ ...
ہتھیار ساز مایوس ہوا جانتا تھا یہ عام سا لوہے ٹکڑا ہے جو ابھی کسی شکل میں ڈھالا ہی نہیں گیا اس سے اشارہ کرنے سے کیا گھونپ لینے پر بھی بس زخمی ہی ہوگا مرنا تو دور کی بات ہے
خیر اس نے اپنی جانب اشارہ کیا اس ٹکڑے سے بلکہ گھونپ ہی لیا
اسکے کنارے بھی تیز نہ تھے گھونپنے پر بھی بس اسکے شکم پر نیل پڑ سکا خون تک نہ نکل سکا بادشاہ چراغ پا ہو گیا
تم انتہائی نالائق غبی اور بیکار انسان ہو ایک ہتھیار تک نہیں بنا سکتےماہر ہتھیار ساز بنے پھرتے ہو اس سے بہتر تھا تم لوہار کا کام سیکھ لیتے لوہے کے اس ٹکڑے کو کسی شکل میں تو ڈھال لیتے
ہتھیار ساز کی اس بے عزتی پر محل میں موجود افراد دبی دبی ہنسی ہنسنے لگے
ہتھیار ساز پر گھڑوں پانی پڑ گیا شرم سے ڈوب مرنے لگا
بادشاہ کے غیظ و غضب کی شہہ پا کر سب اسے سخت سست سنانے لگے
ہتھیار ساز کے پیٹ میں درد اتنا نہیں رہا جتنا دل میں اٹھ گیا
تڑ سے گرا گرتے ہی مر گیا
بادشاہ حیران رہ گیا
واقعی اس نے اتنا مہلک ہتھیار بنایا تھا کہ اسکے اشارے پر مر گیا ؟
محل میں بیٹھے دانش ور سے پوچھ بیٹھا
فلسفی مسکرایا اور بولا اس نے نہیں یہ ہتھیار عالی جاہ نے آزمایا تھا جو جان لیوا نکلا
نتیجہ : زبان کا وار کاری ہوتا ہے
از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, December 2, 2017

چھوٹی کہانی... choti kahani

choti kahani..
ek thi choti si kahani.. Khatam shud
moral: aur berhati kahani tau lambi hojati choti si tau na rehti na...

by hajoom e tanhai


چھوٹی  کہانی 
ایک تھی چھوٹی  سی کہانی 
ختم شد 
نتیجہ : اور بڑھاتی کہانی تو لمبی ہو جاتی چھوٹی سی تو  رہتی  نا
از قلم ہجوم تنہائی

گنجی بطخ کہانی


 گنجی بطخ کہانی  
ایک تھی بطخ
قین قین کرتی پھرتی
قین قین سریلی سی آواز میں کرتی تھی
اس نے سوچا وہ سب بطخوں کو جمع کر کے کونسرٹ کرے 
اس نے جمع کیا سب کو قین قین شروع کر دی
بطخوں کو پسند آئی
اب روز بطخیں جمع ہوتیں اور قین قین سنتیں
ایک دن بطخ کا موڈ نہیں تھا اس نے قین قین نہیں کی
بطخوں نے غصے سے اسے گنجا کر دیا
اب وہ جہاں جاتی سب کہتے
وہ دیکھو گنجی بطخ
سب بھول گیے تھے کے وہ اچھی قین قین کرتی تھی
نتیجہ : گنجے لوگوں کی کوئی قدر نہیں کرتا
از قلم ہجوم تنہائی

Friday, December 1, 2017

ھنسیے کہانی.... hunsye kahani

ھنسیے کہانی
ایک تھا فلسفی فلسفہ سکھا رہا تھا اپنے شاگردوں کو 
کسی کو ہنسی آگئی
فلسفی نے غور سے کسی کو دیکھا 
پھر بولا میں نہیں پوچھوں گا کیوں ہنسے مگر حکم دیتا ہوں سب کو سب ہنسو 
کوئی ہنس پڑا کسی کی ہنسی رک گئی پوچھنے لگا 
مگر کیوں ہنسیں ؟
ھنسیے کیوں کہ آپ اور کر بھی کیا سکتے 
فلسفی مسکرایا 
ہم بس ہنس سکتے مگر کسی وجہ سے ہی ہنسیں گے کوئی وجہ بتائیں
اب کوئی ہنسنا بھول گیا تھا 
بے وجہ ھنسیے وجہ ڈھونڈنے لگے تو رونا آجائیگا 
فلسفی رو پڑا تھا 
کوئی وجہ ڈھونڈتا رہ گیا کسی کو وجہ نہ ملی 
سب رو پڑے 
نتیجہ : ہنسنا آسان نہیں بے وجہ ہنسی بھی نہیں آتی 
از قلم ہجوم تنہائی

hunsye kahani 
ek tha falsafi falsafa sikhaa raha tha apne shagirdon ko 
kisi ko hunsi aagai 
falsafi ne ghor say kisi ko dekha
phr bola main nahi pochun ga kiun hunsay mgr hukm dekta hun sab ko sb hunso 
koi hnspara kisi ki hnsi rk gai pochne laga
mgr kiun hunsain 
hunsye kiun k aap aur kar bhi kia sakte 
falsafi muskruya 
hm bs huns skte mgr kisi wajah say hi hunsain gay koi wajah batain 
ab koi hunsna bhol gaya tha
be wajah hunsye wajah dhondne lagay tu rona ajaiyga 
falsafi ro para
koi wajah dhondta reh gaya kisi ko wajah na mili 
sb ro pray 
nateeja : hunsna asaan nahin hay be wajah hunsi bhi nahin aati 
by hajoom e tanhai 

میں کہانی ... main kahani


میں کہانی 

ایک دفعہ کا ذکر ہے 
میں نے دیکھا تھا مجھے  ڈوب میں  تھا رہا 
مر گیا ہوںگا میں یقین سے نہیں کہہ  سکتا
دیکھا ہے کیا آپ نے کبھی
خود میں مرتے ہوئے خود کو ہی 
زندہ بھی نہ رہا مر بھی نہ سکا کوئی
میں نے دیکھا تھا مجھے  پکار میں  تھا رہا
سن نہ سکا میں یقین سے کہہ نہیں سکتا 
سنا ہے کیا آپ نے کبھی
خود کو پکارتے ہوئے خود ہی کو 
سن سکا بھی نہ کوئی سنتا بھی رہا کوئی 
میں نے دیکھا مجھے بچا میں خود رہا تھا 
بچ گیا ہونگا میں بھی یقین سے کہہ  نہیں سکتا
بچایا ہے آپ نے کبھی 

خود کو مرنے سے خود ہی 

نتیجہ : میں ہوں شاید 

از قلم ہجوم تنہائی


main kahani
ek dafa ka zikr hay 
main ne dekha tha mujhay doob main tha raha
mer gaya honga main yaqeen say kehh nahin sakta
dekha hay kia aap ne kabhi?
khud main mrtay hue khud ko hi 
zinda bhi na raha mr bhi na saka koi 
main ne dekha tha mujhay pukaar main tha raha 
sun na saka main yaqeen say kehh nahin sakta 
suna hay kia aap ne kabhi
khud ko pukartay hue khud hi ko 
sn saka bhi na koi sunta bhi raha koi
main ne dekha mujhay bacha main khud raha tha
bach gaya honga main yaqeen say keh nahin sakta bchaya hay aap ne kabhi 
khud ko mernay say khud hi 
nateeja : main houn shayad 

by hajoom e tanhai 

Wednesday, November 29, 2017

گندگی کہانی.. gandgi kahani




گندگی کہانی
ایک تھا گندا
بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا
اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی 
لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا
پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا
دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو
گندہ مسکرا دیا
میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں ..
یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا ..
نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. :
gandgi kahani
ek tha ganda
bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha
uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi
log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya
abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya
paas say koi gzra tu herat say use darya kinare bethay dekh kr pochne laga
darya kinare aa hi gayay ho tu naha lo thori gandgi ki baha lo
ganda muskraya
mail jism ka utre ga dil ka nahin
yeh soch ke nahane ka khayal taal dia 
nateeha : nahayay zarur koi tu mail utre


by hajoom e tanhai 
از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, November 28, 2017

اختتام کہانی ... ikhtetaam kahani


اختتام کہانی 
ایک تھا اختتام اس میں سب ہنسی خوشی رہنے لگتے تھے کسی نے سنا تو ہنس پڑا ایسا تھوڑی ہوتا اسے ہنسی آئ 
اور ہنسا ہنستے ہنستے مر گیا 
نتیجہ : ہنستے ہنستے بھی مر جانا ہے اور روتے روتے بھی



از قلم ہجوم تنہائی

Ikhtetaam kahani
ek tha ikhtetaam us main sb hunsi khushi rehnay lgte thay 
kisi ne suna tu huns para aisa thori hota usay hunsi aai
aur hnsa hunste hunste mr gaya
nateeja: hunste hunste bhi mar jaana hay aur rotay rotay bhi
by hajoom e tanhai 

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen