Showing posts with label anokhi kahani qist. Show all posts
Showing posts with label anokhi kahani qist. Show all posts

Wednesday, September 27, 2017

انوکھی کہانی تیسری قسط


انوکھی کہانی 
تیسری قسط 
انوکھی تمہیں پرنسپل صاحب بلا رہے 
وہ حسب معمول اکیلی آدھی چھٹی میں بیٹھی باقی بچوں کو کھیلتے  دیکھ رہی تھی جب ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور اسے بتا کر واپس بھاگ گیا 
وہ پیچھے پکار کر پوچھتی رہ گئی کیوں بلا رہے 
خیر کیا ہو سکتا تھا وہ پرنسپل صاحب کے کمرے میں آگئی 
بیٹا ادھر آؤ انہوں نے پیار سے اسے پاس بلایا 
وہ حیران سی ان کے پاس چلی ای
ان کے پاس دو لوگ بیٹھے تھے جو حلیے سے کافی معتبر دکھائی دیتے تھے اور تھوڑے بیزار بھی دکھائی دیتے تھے 
بیٹا ان سے کہو ہمارے اسکول کی رپورٹ اچھی بنائیں اور رشوت لے لیں آرام سے 
 انوکھی نے ان کے کہے الفاظ د ہرا دیے 
.......................................
رات کو کھانا کھاتے اسے جانے کیا یاد آیا پوچھنے لگی 
ابو رشوت کیا ہوتی؟
اگر آپکو کوئی کام کرنا چاہیے اپکا فرض ہے کرنا اور پھر بھی اس کام کو کرنے یا نہ کرنے کے آپ پیسے وصول کریں یا تحفہ کوئی بھی نا جائز فائدہ اٹھائیں تو اسے رشوت کہتے 
ابو نے تفصیل سے بتایا 
مگر کوئی کام آپکو کرنا ہی ہے اس کے کوئی پیسے کیوں دیگا ؟
اسے ابھی بھی صحیح سمجھ نہیں آیا 
دیکھو 
اس کے بھی نے چمچ پلیٹ میں رکھا اور اسے متوجہ کیا 
مجھے امی نے کہا بازار سے چاول لے کر آؤ میں گیا لے آیا 
میرا کام تھا اگر میں کہتا مجھے چاول لانے کے لئےقیمت سے   تھوڑے سے پیسے زیادہ دیں تو یہ کام کرنے کی رشوت ہوتی
یعنی تم پہلے سے ہی رشوت خور ہو 
آپی سمجھ گئیں
کیوں کیسے ... بھائی کو کافی برا لگا 
ایسے کہ تم ہمیشہ مجھے کوئی بھی چیز لا کر دینے کے زاید پیسے وصول کرتے ہو رشوت خور 
وہ غصے سے بولیں 
کوئی نہیں میں نے کب کیا ایسا 
بھائی صاف مکر گیا 
امی اس دن 
آپی کو کوئی پرانا جھگڑا یاد آگیا دونوں لڑنے بیٹھ گیے 
خاموش ہو جاؤ دونوں اور کھانا کھاؤ 
ابو نے ڈانٹا تب جا کے چپ ہوئے دونوں 
پاپا رشوت لینا بری بات ہے ؟
انوکھی نے پوچھا 
ہاں... ابو نے بلا توقف جواب دیا
رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں 
ابو اگر کوئی رشوت نا لے رہا ہو اور کسی کے کہنے پر لے لے تب بھی جہنم میں جایے گا 
انوکھی کسی خدشے سے ڈر کر بولی 
ہاں ... کوئی غلط کام کرنے کو کہے تو ماننا نہیں چاہے نا بیٹا 
خاموشی سے کھانا کھاتی دادی نے بھی باتوں میں حصہ لیا 
اور اگر کوئی ایسا کہے جسکی بات ٹالی نا جا سکے تب بھی 
اس نے کہتے کہتے سر جھکا لیا 
ایسا کون ہو سکتا ناجائز تو والدین کی بھی ماننا منع ہے 
امی نے کہا تو اس نے مزید سر جھکا لیا 
انوکھی کی آنکھوں میں آنسو آگے 
میں .... سب گھر والے کھانا چھوڑ کر اسکو دیکھنے لگے 
..............................................
انوکھی نے میز پر سر رکھا رونا شروع کردیا 
اب وہ دونوں انکل جہنم میں جائیں گے 
ابھی تھوڑی جب مریں گے تب  اور کیوں کے تم نے غلط کام کروایا انسے تو تم بھی جاؤ گی 
بھی نے تمسخر اڑایا 
ہیں ابو 
وہ ڈر گئی 
بری بات 
امی نے بھائی کو گھرکا وہ منہ بنا کر چپ ہو رہا 
یہ تو بہت غلط بات ہے پرنسپل صاحب نے انوکھی کی صلاحیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا 
آپی شدید غصے سے بولیں 
مجھے ان سے یہ امید نہیں تھی 
ابو پر سوچ انداز میں کہنے لگے 
پورا سکول انوکھی سے ڈرتا ہے کوئی بات بھی نہیں کرتا اس سے 
سارا نے بھی بتانا ضروری سمجھا 
 کیا واقعی ایسا ہے؟
دادی کو صدمہ لگا 
ہمیں انوکھی کا سکول تبدیل کروا دینا چاہیے اور اسکی خاصیت کو بھی چھپانا چاہیے اس طرح چلتا رہا تو لوگ اسکی خاصیت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے رہیں گے 
ابو نے پر سوچ انداز میں کہا امی بھی متفق تھیں 

از قلم ہجوم تنہائی

Monday, September 25, 2017

قسط دو انوکھی کہانی


قسط دو انوکھی کہانی 

جلد ہی یہ بات سکول میں سب بچوں میں پھیلتی گئی 
انوکھی سے سب بچے ڈرنے لگے وہ اکیلی رہنے لگی 
وہ اکثر اکیلے بیٹھ کر روتی رہتی اور خدا سے شکوہ کرتی 
سب میری بات کیوں ماں لیتے اور اگر ماں لیتے تو اس میں میرا قصور کیا ہے 
اس کے امی ابو کافی خوش تھے اسکے بہن بھایئوں سے جو بات منوانی ہوتی انوکھی کے ذریے کہلاتے 
نتیجہ بہن بھی علیحدہ اس سے چڑنے لگے گھر میں جہاں یہ آ کر بہن بھائیوں کے پاس آ کر بیٹھتی وہ اٹھ کر چل دیتے 
انوکھی بچی ہی تو تھی اداس رہنے لگی 
اسکی دادی نے اسے پیار سے سمجھایا 
بیٹا یہ کوئی بری بات نہیں ہے اگر کوئی تمہاری بات ماں لیتا برا تب ہوتا جب تم اس بات کا غلط فائدہ اٹھاتیں بیٹا 
غلط فائدہ؟
وہ سمجھی نہیں 
ہاں جیسے تم لوگوں کو کچھ ایسا کرنے کا کہتیں جس سے انھیں نقصان ہوتا یا تم اپنے ذاتی کام کرنے کا کہتیں ٹیب بری بات تھی نا
دادی کو ایسا سمجھاتے ہوئے خیال بھی ذہن میں نہ آیا کہ انہوں نے نا دانستگی میں 
اسے نیی ترکیبیں اپنانے کا مشورہ دے دیا ہے 
...........
انوکھی یہ تمھاری لکھائی تو نہیں ہے 
اسکی استانی صاحبہ نے اسکی کاپی کے پچھلے صفحے پلٹ کر لکھائی کا موازنہ کیا 
میری نہیں ہے میں نے اپنی بہن سے اپنا گھر کا کام کروایا ہے 
کیوں ؟ 
استانی صاحبہ حیران ہویں 
میں تھک گئی تھی 
اس نے معصومیت سے کہا 
اچھا ٹھیک ہے ابھی یہ سب کام پانچ پانچ مرتبہ لکھ کر لاؤ 
انھیں غصہ آگیا تھا 
مت سزا دیں مس 
ٹھیک ہے آئندہ اپنا کام khud کرنا 
وہ فورا مان گیں 
انوکھی خوش ہو گئی
......
انوکھی لنچ باکس ویسے کا ویسا ہے کچھ کھایا کیوں نہیں؟
امی اسکا لنچ باکس دیکھ کر حیران رہ گائیں 
امی کھایا نا میری دوست آلو کا پراٹھا لائی تھی میں نے کہا مجھے دے دو اس نے دے دیا میں نے اسکا آلو کا پراٹھا کھایا نا 
انوکھی نے مزے سے بتایا 
اور اسنے کیا کھایا؟
امی حیران پریشان ہی تو رہ گیں 
اس نے کچھ نہیں روتی رہی آدھی چھٹی میں 
اس نے کندھے اچکا دے امی سر پیٹ کر رہ گیں 
تو تم اپنا لنچ اسے دے دیتیں بیٹا 
کل میں آپکو آلو کا پراٹھا بنا کر دوں گی وہ اسے دے دینا کل جا کر 
ٹھیک ہے؟
انہوں نے پیار سے اسکا سر سہلایا 
اس نے خوشی خوشی اثبات میں سر ہلا دیا 
.......
اگلے دن اس بچی کو اس نے آلو کا پراٹھا دیا اس نے خوشی خوشی اپنا لایا سند وچ اسے دے دیا 
اس نے سینڈوچ آدھا  ہی کھایا تھا اس کو اپنا دوسرا ہم جماعت نوڈل کھاتا دکھائی دے گیا 
........
ارے اس نے کوئی مار کر تھوڑی لیا تھا بچی ہے اسے لنچ پسند آگیا تھا اس نے کہا مجھے نوڈل دے دو آپ کے بچے نے دے دے اب میں اس بات پر بچی کو کیا ڈانٹوں؟
امی صاف مکر گیں 
ہاں عالیہ کو گھور کر دیکھا تھا عالیہ مسکرا دی تھی اس بار ڈری نہیں تھی امی حیران ہو کر رہ گیں  
اس وقت وہ پرنسپل کے دفتر میں موجود تھیں عالیہ کے علاوہ پرنسپل صاحب وہ بچہ منہ بسورتا ہوا اور اسکی امی غصے سے ناک بھنویں چڑھا ے بیٹھی تھیں 
 امی کو پرنسپل صاحب نے بلوا لیا تھا اس بچے کی امی  نے آ کر شکایات کی تھی کہ انوکھی ان کے بچے کا لنچ کھا گئی 
 کیوں بیٹا انوکھی نے آپکو مارا تھا؟
پرنسپل صاحب نے پیار سے پوچھا بچے نے نفی میں سر ہلا دیا 
 آپکو نوڈل نہیں دینے تھے تو آپ منع  کر دیتے نہ دیتے ؟
بچے نے سر ہلایا دوبارہ موٹے موٹے آنسوں سے رونے لگا 
دیکھے مسز فیروز بچے ہیں آپس میں کھلتے ہیں کھاتے پیتے بھی ہیں اس بات کو بڑھانے کا فائدہ نہیں آپ بچے کو منع  بھی کریں گی کہ آیندہ عالیہ کو اپنا لنچ نہ دے تو یہ بھی بری ہی بات ہوگی پھر بھی اگر آپ ایسا چاہیں تو ٹھیک ہے آپ کہ دیں اپنے بیٹے کو 
پرنسپل صاحب نے دھیرج سے سمجھایا وہ غصے سے اٹھ کھڑی ہیں عالیہ کو گھور کر دیکھا اور بولیں 
آیندہ میرے بچے کا لنچ کھایا تو بوہت بری طرح پیش آؤنگی
عالیہ نے کندھے اچکا دے 
مجھے اگر پسند آیا تو ضرور کھاونگی
وہ ذرا نہ ڈری 
عالیہ امی نے اسکی بدتمیزی پر گھورا 
یہ تربیت ہے آپکی مان کی امر کی ہوں اور یہ آگے سے مجھ سے بدتمیزی کر رہی ہے 
وہ خاتون بری طرح تپ گئیں تھیں 
میری امی سے تمیز سے بات کریں 
عالیہ نے گھور کر دیکھا انھیں 
سوری بولیں میری امی سے
ان خاتوں کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں 
سوری مسز شکیب 
وہ خاتون اب بیحد تمیز سے معذرت کر رہی تھیں 
پرنسپل صاحب اور امی منہ کھولے دیکھ رہے تھے 
کان پکڑ کر سوری بولیں 
عالیہ نے اطمنان سے سٹول پر چڑھ کر ٹانگ پر ٹانگ رکھ لی تھی 
ان خاتوں نے دونوں کان پکڑ لئے تھے 
...................................
عالیہ بیٹا یہ کیا حرکت تھی بیٹا؟
بڑوں کو ایسا نہیں کہتے کان پکڑ کر معافی مانگو 
امی نے گھر آ کر بڑے پیار سے سمجھایا 
مجھے مت سمجھائیں مجھے کھانا دن بھوک لگی ہے 
اس نے منہ بنایا تھا امی کھانا لگانے اٹھ گیں 
.........................................
سارا گھر اسکی خدمت میں لگا رہتا کوئی اسکے سکول کا یونیفارم استری کرتا کوئی اسکا سارا گھر کا کام کر دیتا اسکو کوئی ڈانٹ نہیں سکتا تھا وہ منع کر دیتی تھی دادی خاموشی سے اسکی حرکتیں دیکھ رہی تھیں 
اس دن صبح اٹھی سارا اس سے پہلے اٹھ کر باتھ روم جا رہی تھی 
سارا مت جاؤ مجھے پہلے جانا 
بیچاری دروازہ بند کرنے لگی تھی روتی روتی باہر آگئی
امی کچن میں تھیں جا کے رو رو کر انھیں شکایات لگی 
کیا کروں چندا مجھے بھی منع کیا ہوا ہے کہ اسے نا ڈانٹوں تم ہمارے کمرے کے باتھ روم میں چلی جاؤ 
وہ اور کیا کہتیں ویسے بھی ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں 
وہ منہ ہاتھ دھو کر باہر ائی تو امی نے اسکا آملیٹ اور پراٹھا لا کر سامنے رکھ دیا 
مجھے ہالف فرائی کھانا 
امی دانت پیس کر رہ گیں کوئی اور بچہ ہوتا تو ایک لگا کر یہی کھانے پر مجبور کرتیں ناچار اٹھ کر دوسرا انڈا بنا کر لائیں 
انوکھی اب دس سال کی ہو چکی تھی اسکو اب نہ صرف اپنی اس خاصیت کا پتہ چل چکا تھا بلکہ وہ اب اسکا صحیح غلط استمال بھی دھڑلے سے کرتی تھی 


........
سکول میں سپورٹس کمپیٹیشن ہوا 
ہر کھیل میں گولڈ میڈل لیا 
دوڑ کا مقابلہ ہوا اس نے بھاگتے بھاگتے اپنے سے آگے بھاگتے بچوں کو روک جانے کو کہا 
وہ تب تک رکے رہے جب تک وہ اختتامی لکیر تک نہ پہنچ گئی 
رسہ کشی کے مقابلے میں اس نے مخالف ٹیم کے بچوں سے کہا رسی چھوڑ دو سب ان کی ٹیم کے اپر آ کر گر گیے 
لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے اسکو مزہ نہ آیا جا کر منع کردیا مت کھیلو 
جب پرنسپل صاحب میچ دیکھنے آیے تو با یس بچے قطار سے بیٹھے انوکھی کا ملی نغمہ سن رہے تھے گا کر بولی سب تالیاں بجاتے رہو 
پرنسپل صاحب نے اسے بلا کر پوچھا یہ کیا کر رہی ہو؟
مجھے فٹ بال نہیں پسند میں نے گانا تیار کیا ہے سب کو وہ سنا رہی تھی 
پاکستان پاکستان 
پیچھے سب بچے تالیاں پیٹ پیٹ کر ہاتھ سرخ کر چکے تھے 
مگر بیٹا آپکو پسند نہیں اپ مت کھیلو آوروں کو منع تو نہ کرو 
وہ حیران تھے بچے رک بھی نہیں رہے تھے
وہ دو بار کہہ چکے تھے انھیں روکنے کو 
اس نے ایک نظر انکو دیکھا پھر بتایا 
آپ کے کہنے سے نہیں رکیں گے 
اس نے مڑ کر انہیں تالیاں بجانے سے رکنے کو کہا سب رک گیے 
اس نے سر کو مسکرا کر دیکھا اور آگے بڑھ گئی   
امتحان شروع ہوئے اس نے سارا پیپر اپنے ساتھ بیٹھی لائق لڑکی کا نقل کیا 
صاف کہا اسے مجھے دیکھو 
استانی صاحبہ نے آکر گھرکا تو انھیں خاموش کرا دیا مجھے مت ڈانٹیں 
چپ رہیں 
نتیجہ آیا تو اول آی تھی وہ پورے سکول میں 
اسکو پرائز دیتے ہوئے اسکی استانی صاحبہ کا منہ پھولا ہوا تھا 
اسکے پرنسپل صاحب بھی سنجیدہ سے کھڑے تھے 
اور تو اور وہ اسٹیج پر اپنا انعام لینے گئی کسی نے تالی تک نہیں بجائی 
وہ اپنا انعام لے کر امی ابو کے پاس ای اسکے اور کسی بہن بھائی نے پوزیشن نہیں لی تھی مگر وہ انکی پرسنٹیج دیکھ کر خوش ہوئے تھے اسنے اپنا انعام دکھایا تو امی نے ایک نظر دیکھ کر بنا خوش ہوئے ایک طرف رکھ دیا 
وہ بہت اداس ہو گئی تھی 
آپ سب مجھے مبارک باد دیں 
اس نے کہا تو سب کورس میں اسے پاس ہونے اور پوزیشن لانے پر مبارک باد دینے لگے 
وہ بجایے خوش ہونے کے مزید اداس ہو گئی اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پر اندھی لیٹ کر رونے لگی 
دادی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھیں 
چپکے سے اسکے پاس آ کر بیٹھ گیں پیار سے اسے سہلایا 
بیٹا کیوں رو رہی ہو؟
کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا کوئی مجھ سے خوش نہیں میں نے انعام لیا کسی نے تالی بھی نہیں باجی میرے بہن بھائی بھی خوش نہیں ہوئے کیوں دادی اماں ؟
وہ اٹھ بیٹھی اور سسکنے لگی 
دادی نے اسے پیار سے گلے لگایا 
ایسا اس لئے کہ تم نے یہ انعام اپنی محنت یا کار کردگی سے نہیں اپنے خصوصیات اپنی طاقت کا بیجا استمعال کر کے حاصل کیا ہے 
میں نے سمجھایا تھا نا بیٹا یہ طاقت آپکو اچھے مقصد کے لئے استمعال کرنی ہے اسکا غلط استمعال کروگی تو نقصان اٹھاوگی مجھ سے وعدہ کرو آئندہ کبھی کسی غلط فائدے کے لئے یا اپنے فائدے کے لئے اسے استمعال نہیں کرو گی؟
مگر دادی میں نے تو صرف 
اس نے ہچکچا کر کچھ کہنا چاہا 
بیٹا یہ طاقت آپکو دوسروں کی مدد کرنے کے لئے دی گئی ہے اسکا اپنے لئے بیجا استمال کروگی تو چھن جایے گی آپ سے آپ نے کسی اور کی محنت نقل کی اس سے آپ کے اپنے علم میں بھی اضافہ نہیں ہوا دوسرا کسی کی محنت چرا کر آپ نے اسکا بھی دل دکھایا جو پہلی پوزیشن لانے کے لئے سارا سال محنت کرتی رہی کسی کا دل دکھاؤ گی تو اسکی بددعا پیچھا کریگی پھر یہ خصوصیت جاتی رہی گی اب سمجھ ای 
دادی نے تفصیل سے سمجھا کر اسکا سر ہلایا 
تو اس نے آنسو پونچھ کر وعدہ کر لیا 
آئندہ میں کبھی کسی کو تنگ نہیں کرونگی
شاباش میری اچھی بچی 
دادی کو اسکے سمجھ جانے پر پیار آگیا تھا 


از قلم ہجوم تنہائی

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen