بے امان کہانی

دنیا ختم ہو رہی تھی۔ ہر انسان اپنی ہیئت بدلتا ختم ہو رہا تھا۔ دنیا میں بچ جانا ہی زندگی کا واحد مقصد رہ گیا تھا۔ ایک تھا کوئی بچ رہا۔ کیونکہ اس میں جینے کی خواہش نہ تھی۔ جو جینا چاہتے تھے مرجاتے تھے۔ کوئی بچتا تو حیران رہ جاتا کہ کیسے بچا۔ ایک افراتفریح تھی۔ سب چیختے چنگھاڑتے اماں کی تلاش میں تھے۔کہیں بلند عمارتیں زمین بوس ہو رہی تھیں کہیں زمین شق ہو رہی تھی۔ سب اپنی اپنی قیامت سے نمٹ رہے تھے۔ کسی نے پکارا۔ کوئی ہے۔ کوئی چونک کر پلٹا کیا دیکھا کسی پر آسمان آگرا اور زمین تنگ تھی۔ کوئی بھاگا بنا سوچے کہ لمحہ لمحہ سمٹنے والی زمین اس کو نا سما لے۔ کوئی بس آگے بڑھ کر کسی کو بچا لینا چاہتا تھا۔ کوئی اندھا دھند بھاگا۔ کسی کے اوپر سے آسمان کا ملبہ اٹھایا۔ تنگ ہوتی زمین کو ہاتھوں سے روکا۔ اپنی جان لڑا دی۔ پکارا مدد کیلئے۔ کوئی ہے۔ دوسرا کوئی مدد کو آیا کسی کو بچانے میں کوئی لگا ہوا تھا دوسرا کوئی مدد کر گیا۔ کسی کو بچایا۔ کوئی خود ہی بچ رہا۔ کیونکہ کوئی جینا نہیں چاہتا تھا۔ کسی نے شکریہ کہا دوسرا کوئی آگے بڑھ گیا کوئی کسی کے ساتھ ہو لیا۔ کسی کو پتہ تھا امان کہاں ملے...