عبرت کہانی



عبرت کہانی
ایک بار دو آدمی پہاڑ کھود رہے تھے ایک تھک گیا بار بار دوسرے کو کسی نہ کسی کام پر ٹوکنے لگا تم نے کدال ٹھیک نہیں پکڑا
میں زیادہ کھود چکا ہوں دوسرا بھی چڑ گیا دونوں لڑ پڑے
دوسرا کام چھوڑ چھاڑ غصے میں دور جا کر بیٹھ گیا
پہلا کھودتا رہا پہاڑ سے چوہا نکل آیا 
پہلا دوسرے کے پاس جا کر چلایا
اچھا بھلا خزانہ ڈھونڈ رہا تھا تم نے ہاتھ لگایا تو چوہا نکل آیا
نتیجہ : کچھ لوگوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ آپ کے سب کے کرایے پر پانی پھیر دیں


از قلم ہجوم تنہائی

الفاظ کہانی


الفاظ کہانی
ایک بار کسی کو کچھ لفظ دانت کاٹ گیے
تکلیف سے دہرا ہو گیا گھایل من ہوا مرنے کو آگیا
کسی نے مشورہ دیا بےحسی کے ٹیکے لگواؤ مگر زیادہ نا لگوانا 
اس نے بےحسی کے ٹیکے لگوایے درد کم ہوا اسے درد سے نجات چاہیے تھی بار بار لگواتا رہا یہاں تک کہ خود بے حس ہو گیا
اب اسکے الفاظ دوسروں کے دل توڑتے ہیں مگر وہ خوش رہتا ہے
...
نتیجہ : دل نہ توڑیں امرود توڑ لیں
از قلم ہجوم تنہائی

مشغلہ کہانی

مشغلہ کہانی
ایک تھی بلی منحوس تھی جس راستے سے گزرتی اگلے سات سال اس راستے پر گزرنے والا نا مراد رہتا بلی کا مشغلہ تھا راستہ کاٹنا لوگ اس کو دیکھتے
ڈر کر رستہ بدل لیتے ایک بار ایک آدمی نے سوچا فضول بات ہے میں گزر جاؤنگا دیکھتا ہوں کیا ہوتا
بلی سامنے سے گزری 
اگلے سات سال بلی اپنے نصیب کو روتی رہی 
نتیجہ : انسان زیادہ منحوس ہوتے

از قلم ہجوم تنہائی

محبت کی مختصر کہانی


محبت کی مختصر کہانی 
محبّت بھینس جیسی تھی 
دل میں آی 
گوبر کر گئی ۔۔۔
نتیجہ : دل میں جانور نہ پالیں 
اور ارسطو کہتا انسان ایک سماجی جانور ہے

از قلم ہجوم تنہائی

ختم شد

از قلم ہجوم تنہائی



اسکو بیاض قلم ہاتھ میں لے کر سوچتا دیکھا تو یونہی قریب جا کے پوچھا 
کیا لکھتے ہو ؟ 
اس نے سر اٹھایا اور جو لکھا تھا دکھایا 
اس بیاض کے پہلے صفحے پر لکھا تھا 
ختم شد



ایک تھی رانی

ایک تھی رانی 
میری نوکرانی  
جھاڑو لگاتی تھی 
پوچھا بھی لگاتی تھی 
کام زیادہ کرنا پڑے 
خفا بھی ہو جاتی تھی 
راجہ میرا مالی تھا  
کام اسکا باغ کی رکھوالی تھا 
ایک بات پہ روز مجھ سے جھاڑ کھاتا تھا 
کام کے دوران رانی کو تاڑتا جاتا تھا 
ایک دن راجہ نے رانی کو پھول دیا 
رانی نے وہ پھول قبول لیا
دونوں نے پیار کی قسمیں کھا ئین
مجھے بولے شادی کی چھٹی دو سائیں 
دونوں کی آج شادی ہے 
کہانی یوں تو سادی ہے 
انکا گھر خوشیوں سے بھریگا 
پر کون اب میرے گھر کا کام کریگا 

خاک کہانی

خاک کہانی
ایک بار انمول سا کوئی خود کو تول بیٹھا آگاہی کے در انجانے میں کھول بیٹھا 
چھوٹےپڑ گئے پیمانے سارے۔۔۔ گن ۔۔۔ گن گن ہارے سارے
 خزانے خالی ہوگئےدنیا کے ایسے 
مول نہ مل سکے انمول کے جیسے 
۔۔۔ قدرت کے کارخانے میں فخر سے پیش کر بیٹھا خودی۔۔۔
اس مقام نے  اسکی قسمت رولدی 
پھر کسی نے دیکھا انمول کو رلتےخود شناسی کی آگ میں جلتے  در در کی خاک چھانتے تڑپتے بلکتے سسکتے  ترس کھا کر احوال تھا پوچھا 
پچھتایا بھی پھر کیوں پوچھا 
انمول کہاں انمول تھا رہا جانے کیا بیتی مجلول تھا ہو رہا
خاک اڑاتا ستمرسیدہ تلاشتا تھا خلا میں عکس نادیدہ 
سوال نے اسکے ٹھٹکایا یوں دیکھا اسے جیسے سمجھ نہ پایا 
استہزائیہ ہنسا پھر بولا میں وہ ہوں جس نے خود کو خود ہی رولا انمول سمجھا پھر خود کو تولا 
کسی کو تجسس نے تھا آگھیرا پوچھا پھر  یہ کیسا گردش کا گھیرا جان لینے کے سنا ہے سخت عزاب ہیں ہوتے سہہ جانےوالے کم اور گوہر نایاب ہیں ہوتے 
مٹی ہوئے کہ کندن اپنا حال بتائو
بے مول ٹھہر ے کہ انمول اپنا خیال بتائو 
انمول ہنس کر بولا عجیب حال ہوں دیکھو عبرت ناک ہوں میں
خاک ہوں،خاک پر خاک تک کیا خاک بتائوں کیا خاک ہوں میں


اہم تراکیب زندگی

میری اہم تراکیب زندگی۔
وہ، میں،سب۔
اب میری اہم تراکیب زندگی۔ 
وہ ؟ سب سے پہلے میں۔
تراکیب وہی ترتیب نئی_


از قلم ہجوم تنہائی

مقدر کہانی


زندگی کہانی 
ایک تھی زندگی 
گزر رہی تھی راستے میں مقدر سے ٹکرا گئی 
مقدر ہاتھی جیسا تھا زوردار طاقت مست ملنگ اسکا بال بھی بیکا نہ ہوا__
زندگی کا حشر نشر ہوگیا وہیں رک کر رو پڑی ۔۔۔
وقت نےدیکھا مگر نظر انداز کر کے آگے بڑھ گیا
کافی وقت بیت گیا دعا طاقت کے روپ میں پاس ای
آئ ۔۔۔ زندگی نے اسکو دیکھا تو نہ چاہتے بھی ہنس دی تم اتنی چھوٹی کمزور سی ہو مجھے کیسے اٹھاؤ گی ؟
دعا چپ رہ گئی۔۔
زندگی نے بہت سے سہارے تلاشے اپنو ں کے احباب کے سب نے بس ایک حد تک سہارا دیا پھر چھوڑ دیا۔۔۔
زندگی وہیں رکی پڑی رہی۔۔۔
دلاسے تسلیاں اسکو ملیں مگر کسی کام نہ آ سکیں
دعا کو زندگی پر ترس آیا اٹھی اور مقدر سے لڑ پڑی ننھی نازک معصوم سی دعا مقدر سے ٹکرا گئی اور جانتے ہیں کیا ہوا ؟
مقدر واپس آیا اور زندگی سے معذرت کی اسے سہارا دیا اور اسکو نیے سفر پرروانہ کردیا۔۔۔
اس بار زندگی نے دعا کا دامن پکڑ کر اپنے ساتھ رکھا تھا۔۔۔
نتیجہ : دعا چھوٹی سی بھی ہو تو عرش تک رسائی رکھتی ہے


از قلم ہجوم تنہائی 

کبھی پتھر سساکت جھیل میں پھینکا ہے ؟


کبھی پتھر سساکت جھیل میں پھینکا ہے ؟
ڈوب تو جاتا ہے مگر 
جھیل کے خاموش پانی میں 
بے نام سی ہلچل کرنا 
ایک بھنور سے لہر کا دور کنارے تک 
بے مقصد سفر دینا
صحیح ہے کیا
کبھی کبھی تو لہر ٹوٹ جاتی ہے
ایک اور پتھر
ایک اور لہر
تمہارا تو شغل ٹھہرا
کبھی سوچا ہے جھیل
کو لہریں مٹاتے
کتنا وقت لگ جاتا
ہموار ہوتے
پر سکوں ہوتے
تم نے تو یونہی ساکت جھیل میں پتھر پھینکا
میری ذات کی ۔۔۔
پر 
مجھے کتنا وقت لگ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از قلم ہجوم تنہائی

مٹی مٹی سن مٹی


من مٹی تن مٹی ،مٹی مٹی سن مٹی 
مٹی بن مٹی سے بنا رکھ تو ککھ نہیں بن مٹی


مٹی مٹی پوشاک کر خاک کر پاک کر 
مٹی پر رکھ دے سر خود پر کر احسان بن مٹی

برتر ہے مغرور ہے طاقت کے نشے میں چور ہے 
آزاد کر روح جسم سے پھر جان اوقات اپنی بن مٹی

تلاش زندگی کی ہے آسمانوں میں کہکشاؤں میں
قبضے میں اپنی بھی جان نہیں جان لے بس بن مٹی

کسی نے جلا کے راکھ کی کسی نے بنا خوراک دی
کوئی مٹی اڑا رہا سمجھو تو مٹی پلید ہے بن مٹی

مٹی تماشا سج گیا چند ثانیے جو تنہائی ہے ملی 
ایک ہجوم منتظر ہے انجام کو مرے چل بھئی اب بن مٹی

از قلم ہجوم تنہائی

گری پڑی کہانی


گری پڑی کہانی 
ایک بار ایک کہانی گر پڑی ۔۔
گری رہی 
پڑی رہی ابھی بھی 
گری پڑی ہے ۔۔۔
نتیجہ : یہ کہانی ہے آپ گریں تو پڑے نہ رہیں ۔گر جانے ک بعد اٹھنا چاہیے نہیں تو اٹھنا پڑتا ہی ہے آپ گرے پڑے تو نہیں پڑے رہ سکتےنا


از قلم ہجوم تنہائی

پرانی دراز

آج ایک عجیب واقعہ ہوا 
پرانی دراز کھنگالی 
کچھ ردی نکلی 
کچھ تصویریں پرانی 
ایک ہنستا چہرہ تھا 
خوش باش ہو جیسے
مانوس سا لگا
ایسے کے دیکھا ہو تھوڑی ہی دیر پہلے
یہ طمانیت کی سرخی
یہ تہنیتی مسکان
بس یہ اجنبی لگے ہے
میں سوچ میں پڑی ہوں
کون ہے یہ آخر ایسا
کچھ کچھ مجھ جیسا
ارے شاید یہ پرانی تصویر ہے میری
مگر کیا ہوا تھا اسے
پہچانی نہیں جا رہی
کیا ہوا ہے اب مجھے
خود کو ہی پہچان نہیں پا رہی


 از قلم هجوم  تنهائی 

بھول کہانی


بھول کہانی 
ایک تھا لکھاری لکھتآ تھآ 
اسکا لکھا لوگ پڑھتے بھی تھے 
ایک بار لکھتے لکھتے بھول گیا 
کیا لکھنا ؟ 
نہیں یہ بھول گیا کیا بھولنا تھا
سو سب یاد کرتا گیا سب یاد آیا مگر یہ بھول گیا سب بھولنا چاہتا تھا کبھی وہ
اب لکھ تو سکتا ہے مگر بھول نہیں ۔۔۔
نتیجہ : بھولنا چاہیے مگر یہ نہیں کہ کیا بھولنا چاہیے


از قلم ہجوم تنہائی

درد کہانی

درد کہانی 
ایک بار نصیب ریڑھی بھر کر درد بیچتا پھر رہا تھا 
درد لے لو تکلیف لے لو 
کسی نے روکا ڈھیر سارا درد خریدا 
کسی اور نے دیکھا تو حیران ہو کر نصیب سے پوچھا 
کوئی درد بھی خریدتا ہے ؟
نصیب نے مسکرا کر کہا دیکھا نہیں کتنا سارا درد بکا ہے
کسی کی حیرت ابھآئ
مگر میں نے تو سنا تھا کہ درد تو نصیب دیتا وہ بھی مفت
نصیب ہنسا میں غم دیتا ہوں مگر درد ہمیشہ کمایے جاتے ہیں کرتوت سے ۔۔۔
نتیجہ : غم ہو یا تکلیف نصیب سے ہی ملتا چاہے مفت چاہے ۔۔۔



از قلم ہجوم تنہائی

خاموش کہانی

خاموش کہانی 
ایک بار یونہی سر راہ کوئی تھک کر  بیٹھا 
بیٹھ بیٹھ بھی تھک گیا 
محو سفر کوئی رک کہاں سکتا رک جانے والوں کی منزل بہت دور ہی رہتی
کسی عازم سفر کو جستجو ہوئی رکا 
پوچھا 
کیوں ٹھہرتے ہو ؟ رک جانے والوں کا سفر ختم نہیں ہوتا...
اس وقت کی بازگشت مستقبل تک سنائی دیگی تب پچھتاوا ہوگا  رک جانے کا ...
تم آخر ٹھہرتے کیوں ہو؟
کوئی چپ سا دیکھتا گیا 
پیچھے رہ جانے کا بھی خوف نہیں؟
کسی کو چین نہ تھا سوال در سوال 
جواب تھا گھمبھیر خاموشی 
سوچا تھا جھنجھلا کر ہاتھ میں پکڑی حقیقت سر پر مار دی  اسکے
بتایا دیکھو مورکھ کتنا وقت بیت گیا تیرا حال نہیں بدلہ تو دکھ سے چیخے گا 
کوئی پھر بول اٹھا
تو کیا جانے ادراک کے لمحے گھایل ہے کر چکے نہ سفر اختیاری تھا مرا نہ یہاں پڑاؤ اختیاری ہے 
اور  

یہ جو جامد چپ ہے میری 
اندر سے چیخ رہا ہوں ...



نتیجه : خاموشی سمجه نهی آتی تو خاموش رهو 

از قلم ہجوم تنہائی


غلط کہانی


غلط کہانی 
استاد نے تختہ سیاہ پر صحیح غلط لکھا 
شاگرد ٹوکنا چاہتے تھے 
انھوں نے غلط صحیح لکھا اب جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگے 
بتاؤ سب یہ کیا لکھا ہے انھوں نے صحیح کی طرف اشارہ کیا 
یہ صحیح اور یہ غلط لکھا سب نے یہی جواب دیا
نہیں
استاد نے مسکرا کر کہا
یہ صحیح صحیح نہیں لکھا غلط لکھا اور غلط غلط نہیں صحیح لکھا ہے ۔
یاد رکھنا زندگی میں صحیح غلط لکھا جا سکتا اور غلط صحیح
بھی ۔۔۔ پہچاننا اب خود ۔۔۔
نتیجہ : صحیح غلط کا نظریہ سب کا اپنا اپنا ہوتا




از قلم ہجوم تنہائی

محبت کی مختصر کہانی

محبت کی مختصر کہانی
محبّت بھینس جیسی تھی 
دل میں آی 
گوبر کر گئی ۔۔۔
نتیجہ : دل میں جانور نہ پالیں 

اور ارسطو کہتا انسان ایک سماجی جانور ہے

از قلم ہجوم تنہائی

شاعری کون کرتا ہے

از قلم ہجوم تنہائی

تھکن سے شل وجود
اپنی روح کا بوجھ اتار لیتے ہیں لفظ لفظ بیچتے ہیں جذبات اپنے شاعری کون کرتا ہے بے ٹھکانہ ہیں دنیا کونا بھی نہیں دیتی ٹک جانے کو سستاتے ہیں ، نہیں ستاتے پھر بھی عزت ہماری کون کرتا ہے چند کوس کا فاصلہ تھا بفضل نصیب دور ہوا ہم پیدل ہی گامزن ہیں اپنی منزل کو کہ بن کرایا سواری کون کرتا ہے دشمن گنے نام اپنے سوا کسی ایک کا نہ پا سکے دوست خود اپنے ہی ہیں کہ اس مزاج کے ساتھ ہم سے یاری کون کرتا ہے پتا کیا بتائیں بدل کر بھی بدلا نہیں ہم ٹھہرے ہیں خود میں کہ اپنے سوا ہم سے ملنے کی خواری کون کرتا ہے سوال بھی خود سے کیا تنہائی نے جواب بھی خود دے دیگی کہنے کو ہجوم ہمہ تن گوش ہے لیکن سن سن اپنا ہی سر بھاری کون کرتا ہے کلام ہجوم تنہائی

میں ایک کھلنڈرا سا لڑکا ہوں


یہ ایک عام سی کہانی ہے 
سن کر یاد بھی نہ رہ جانی ہے اگر وقت ہے تو سن لینا 
مجھے کہہ  جانے کی عادت ہے 
میں ایک کھلنڈرا سا لڑکا ہوں 
میں ہنستا کھیلتا رہتا ہوں 
زندگی کو کھل کر جیتا ہوں 

مجھے مسکرانے کی عادت ہے 

اس دن بھی میں یونہی اکیلا تھا 
وہی گرد مرے لوگوں کا میلہ تھا 
ایک عام سی لڑکی ملی مجھے 
مجھے ملنے ملانے کیا عادت ہے
وہ بات بات پر ہنستی تھی 
وہ ہنستی اچھی لگتی تھی 
میں کھل کر ہنستا ہنساتا تھا 

مجھے ہنسنے ہنسانے کی عادت ہے 

وہ بات مری غور سے سنتی تھی 
وہ اکثر چپ ہی رہتی تھی 
میں مگر بولتا رہتا تھا 

مجھے سب کہہ جانے کی عادت ہے 

پھر جب میں تھک سا جاتا 
اسکی بھی سنتا جاتا تھا 
اس نے اپنے  دل کی کہنا شرو ع کیا 

مجھے اپنا بن جانے کی عادت ہے

وہ مجھکو اپنا ہمراز کہے 
مجھے اپنا سمجھے میرے پاس رہے 
وہ مجھ سے جھجکا کرتی تھی 
مجھے حق جتانے کی عادت ہے 
میں ساتھ اسکے ہی رہتا تھا 
پل پل کی بپتا کہتا تھا 
میں فارغ تھا ہاں ان دنوں 

مجھے وقت بتانے کی عادت ہے 

پھر مجھے کچھ اہم کام پڑا
لاپروا ہ پھر مرا نام پڑا 
وہ مجھ سے روٹھ بھی جانے لگی 
اسے مری بے رخی ستانے لگی 
تھوڑا اکڑا میں پھر بھی اسے منا لیا 

مجھے روٹھے ہوؤں کو منانے کی عادت ہے

میری سخت نگاہ سے بھی وہ 
نینوں کو بھرنے لگتی ہے
مری بری بھلی سہنے لگی ہے 
وہ کچھ خاموش رہنے لگی ہے 
میں تو بیزار ہو جاتا ہوں 

مجھے کہتے جانے کی عادت ہے 

میں چاہتا تو نہیں تھا اسے رلانا 
مگر ضروری تھا اسے سچائی بتانا 
وہ تو عام سی لڑکی ہے 
جو ہنستی اچھی لگتی ہے
میں تو کھلنڈرا سا لڑکا ہوں 
ہنستا کھیلتا رہتا ہوں 
اچھے تھے وہ پل جب ہم ساتھ رہی 
وہ دوست اہم ہے مرے ساتھ رہے 
تم مری بات سنو اسے سمجھانا 
مجھے اس دوستی کو مزید نہیں بڑھانا 
میں  نیے نیے  دوست بناتا ہوں 

مجھے دوست بنانے کی عادت ہے 


از قلم ہجوم تنہائی

مینڈک


مینڈک 


مجھے مینڈک پسند ہیں
ہرے ہرے ہوتے برسات میں ہی نظر آتے بس
ادھر سے ادھر پھدکتے پھرتے
کنویں میں بھی ہوتے مگر تیل کی کنویں میں نہیں ہوتے
خیر مینڈک دیکھنے کے لئے کنویں میں نہ کود جانا یہ ایسے ہی کسی چھپر جوہڑ گندے نالے میں نظر آ سکتے 
اب ان جگہوں میں جھانکنا نظر یے تو پکڑ لینا
ہاتھ دھو لینا چاہو تو مینڈک کو بھی
مگر صرف اسلیے نہ ان کو اٹھا کے گھر لے آنا کے تمہیں پسند ہیں
ہوسکتا ہے مینڈک کو تم پسند نہ آؤ
.
.
.
نتیجہ : مینڈک اندر سے انسان جسے ہوتے ہیں
از قلم ہجوم تنہائی

بیوقوفی


کسی کی بیوقوفی پر ہنسنا عقلمندی نہیں 
عقلمندی تو خیر بیوقوفی کرنا بھی نہیں 
بیوقوفی کرنے کے بعد جان لینا کے کر دی ہے عقلمندی ہے 
عقلمندی بیوقوفی نہ کرنا بھی ہے 
اپنی بیوقوفی کا اعتراف کرنا اور بڑی بیوقوفی ہے خیر اچھا تو عقلمندی کا اعتراف کرنا بھی بیوقوفی ہے 
تو عقلمندی ہے کس چیز میں؟
بیوقوفی کے بعد اپنی بیوقوفی کو دوسروں پر
کھلنے نہ دینا
جی یہ ہی ہے ...

شجرہ کہانی

شجرہ کہانی 
ایک دفعہ دو لوگ آپس میں بات کر رہے تھے
یونہی شجرے کا ذکر نکل آیا
ایک نے دوسرے کو غور سے دیکھا اور کہا بھائی آپ پٹھان ہو؟
دوسرے نے کہا نہیں بھائی میں پٹھان نہیں میں اردو سپیکنگ سید زادہ ہوں انڈیا سے ہجرت کر کے آیا ہے یہاں خاندان میرا
نہیں بھی آپ پٹھان لگتے ہو گورے چٹے ہو پہلا آدمی بولا
دوسرے نے انکار کیا
بحث بڑھی پہلے والا بولا آپ کے ابو یا امی میں سے تو کوئی ضرور پٹھان ہے
گھر جا کر پوچھنا
اتنی یہ بحث بڑھی کے دوسرے آدمی کو خود اپنے شجرے پر شک پڑ گیا گھر گیا جا کے اپنے اماں ابا سے انکی سات پشتوں کا احوال دریافت کیا
معلوم ہوا دہلی میں شجرہ موجود ہے ان کے کسی دادا کے رشتے دار کے پاس
وہاں تو رابطہ نہ ہوا مگر تسلی ہوئی اگلے دن اسی آدمی کے پاس گیا تفصیل سے بتایا نہ صرف امی بلکہ ابا بھی سید ہیں اپس میں رشتے دار ہیں دہلی سے ان کے بارے یہاں آیے تھے دوسرے آدمی کو تسلی ہو گئی معذرت کی ماں لیا
دوسرے آدمی نے معذرت قبول کر لی
یونہی بات برایے بات دریافت کیا
بھائی آپ کی ذات کیا ہے؟
پہلے نے جواب دیا ...
.
.
.
پٹھان
نتیجہ : بحث کیجیے مگر شجرہ مت کھنگالیے دوسروں کا


از قلم ہجوم تنہائی 

آینہ کہانی

آینہ کہانی 
ایک بار کسی شہر سے کسی بزرگ کا گزر ہوا وہ شہر کے داخلی دروازے کےقریب خیمہ گا ڑ کر قیام پذیر ہوۓ 
لوگوں کو خبر ہوئے تو جوق در جوق ان سےعلم حاصل کرنے کی غرض سے انکے خیمے میں آنے لگے مگر عجیب ماجرا ہوا جو آتا دروازے سے  ایک چیخ مار کر واپس چلا جاتا لوگوں کو پتا چلتا تو کچھ ڈر جاتےکچھ تجسس میں کھنچے آتے 
کسی زاہد کو خبر ہوئے تو فتویٰ دے ڈالا صرف صاحب اایمان ہی گزر سکے گا اس دروازے   سے  
کسی مہ نوش کو خبر ہوئی سوچا صاحب ایمان نہ سہی مگر کسی بزرگ کی صحبت سے شاید کچھ علم پا جاؤں کہ دنیا نہ سہی آخرت سدھر جایے 
وہ مصمم ارادہ کر کے آیا دروازے پر دیکھا آیینہ لگا ہے جو انسان کو اسکا چہرہ دیکھا دیتا ہے 
شرابی نے اپنا چہرہ دیکھا سوچا تو لوگ اپنا چہرہ دیکھ کرڈر  جاتے ہیں 
خیر اس نے دستک دے ڈالی 
بزرگ جو قدمو ں کی آہٹ سے چوکنا تھے اور حیران تھے ابھی تک چیخ کی آواز کیوں نہ سنائی دی 
جھٹ دروازہ کھول ڈالا کیا دیکھتے ہیں ایک مجذوب سا حال سے بے حال مہ نوش سامنے کھڑا ہے 
کیا چاہیے ؟
بزرگ نے با رعب انداز سے پوچھا 
مہ نوش گھٹنوں کہ بل جھکا مجھے علم کی پیاس ہے مجھے سیراب کیجیے 
بزرگ نے کراہت سے دیکھا 
عجیب شہر ہے اتنے دن سے یہاں ہوں کوئی با مراد انسان نہیں دیکھا یہاں کے لوگوں میں تو کوئی علم کی پیاس ہی نہیں  کوئی علم کا متوالا آیا بھی تو اپنے اصل روپ کو دیکھ کر ڈر کر لوٹ گیا یہ آیینہ مجھے ودیعت ہوا تھا اس میں دیکھنے والا اپنآ باطنی  روپ دیکھ سکتا یہ دروازے پر اسی لئے ٹا نگا 
تھا احمق کہ اپنا روپ دیکھ پھر دستک کی ہمت کر مگر یہاں کے بے ہدایت لوگ خود کو بھی جھیل نہیں پایے  کسی میں دستک کی ہمت نہ رہی 
اور تو ڈھیٹ انسان اپنا اصل چہرہ دیکھ کر بھی ہمت کر ڈالی جا دور ہوجا میری نظر سے 
بزرگ غیظ و غضب سے کانپ اٹھے 
آدمی اتنی ذلت پر کپکپا اٹھا 
سوچا یا خدا اتنا بڑا  مجرم ہوں میں کہ ہدایت کہ بھی قا بل نہیں 
سسکتا اٹھا آیئنے پر قصدا  نظر نہ ڈالی  سر جھکا کر روتا ہوا پلٹ گیا 
بزرگ نے سانس برابر کی  سر جھٹک کر واپس خیمے کی طرف مڑے 
یونہی آیینہ پر نظر پڑ ی  
بھیانک بد صورت چہرہ 
بزرگ اپنی صورت دیکھ کر چیخ پڑے 

از قلم ہجوم تنہائی

وسیلہ کہانی

وسیلہ کہانی 
ایک تھا بچہ شرارتی سا تھا پلنگ پر اچھل کود کر رہا کر رہا تھا 
گر گیا 
رونے لگا الله کو آواز دی 
یا الله مدد 
ماں ای اٹھایا چوما بہلایا ....بولا 
ماں میں نے تو الله کو آواز دی تھی تم کیسے آگئیں ؟
ما نے مسکرا کر جواب دیا 
مجھے الله نے ہی تو بھیجا...
بچہ چپ ہو گیا مگر باز نہ آیا دوبارہ اسی کھیل میں لگ گیا اگلی بار گرا 
ماں کو پکارا  
ماں آئ پیار کیا بچہ سنکی تھا بولا 
اب تو میں نے براہ راست آپکو آواز دی اللہ نہیں آیا؟
ماں نے مسکرا کر ہی جواب دیا 
الله نے مجھے وسیلہ بنا یا ہے بیٹا تمہاری حاجت پوری کرنے کے لئے مجھے ذمےداری دے ڈالی ہے وہ تو مالک ہے جس سے جو کام لے لے 
نتیجہ : وسیلہ اب بھی نہیں سمجھ آیا تو الله سے دعا کریں سمجھانے کا وسیلہ بنا دے آپکے لئے  



از قلم ہجوم تنہائی

چرواہا کہانی

Syeda Vaiza Zehra
چرواہا کہانی
ایک تھا چرواہا اس کا ایک ریوڑ تھا
اس میں ٢٥ بکریاں ١٥ دنبے ١٨ گایے دو کتے تھے
کتوں کا کام ریوڑ کی حفاظت کرنا تھا 
ایک کتے کو کتاپا سوجھا دوسرے سے بولا بکریاں اور گایے تو ٹھیک ہے ہم دنبوں کی حفاظت کیوں کریں
عجیب سے ہیں
دوسرا کتا متفق تو نہیں تھا مگر چپ رہا
پہلے کتے نے دنبوں کو کاٹنا شروع کر دیا دانت مارتا دنبے سخت جان تھے
ایک دو تو بیمار پڑے پھر انہوں نے جوابا کاٹنے کی کوشش کی مگر ایک تو دنبہ معصوم جانور ہوتا دانت بھی نہیں مار پاتے
خیر ایک دنبے مر گیے چرواہا نے کہا چلو خیر ہے ابھی ١٢ دنبے باقی ہیں
اب کتے کو عادت بھی پڑ گئی تھی اس نے گائے کو بھی کاٹنا شروع کیا
ایک دو گایے بھی مر گئیں کتے نے بکریوں کو کاٹنا شروع کیا وہ سب سے کم جان تھیں
ایک دو نہیں دس بکریاں اس کے کاٹنے سے مر گئیں چرواہے کو ہوش آیا
اس نے سوچا کتے کو مار دے
اس نے فیصلہ کیا تو بکریوں گایوں دنبوں سب نے حمایت کی مگر دوسرے کتے نے کہا ٹھیک ہے اس نے بکریاں مار دیں مگر گایے اور بکریاں اب نہیں ماریں گے لیکن دنبوں کو مارنے دیں
چرواہا حیران بیٹھا دونوں کتوں کی سن رہا
بکریاں در چکی ہیں گائے ابھی بھی سوچ رہی ہیں دنبے کو مرنے دیں یا نہیں کتا ابھی بھی خون خوار ہے
دنبے تیل دیکھ رہے اور تیل کی دھار
نتیجہ : اس ریوڑ کو آپ پاکستان کو سمجھ لیں اور چرواہا حکومت اب بھی سوچ لیں خاموش رہنا ہے یا کتے کے ہاتھوں مرنا ہے؟
از قلم ہجوم تنہائی

لا حاصل مسافت


میں جس راستے پر جا رہا ہوں سنا ہے اس راستے کی کوئی۔منزل۔نہیں 
بس چلنا ہوگا 
بنا رکے چلتے چلتے دنیا کی آخری حد کو چھو لونگا پھر مجھے واپس آنا ہوگا 
یہیں کہیں مگر جب میری واپسی ہوگی یہاں سب ختم ہو چکا ہوگا 
جانتے ہو میں ایسی لا حاصل مسافت کیوں طے کرنا چاہتا 
بس اسی لئے



از قلم ہجوم تنہائی

میں تنہا رہ جاتا ہوں

میں  تنہا رہ جاتا ہوں 
زندگی کے جھمیلے میں مجھے 
مرے ہی اپنے چھوڑ جاتے ہیں 
جن سے مجھے امید ہوتی ہے کہ 
جب میں تنہا ہونگا تو مرے ساتھ ہونگے
اور اے دوست ہمیشہ 
وہ تمام اپنے مجھے چھوڑ جاتے ہیں 
اس وقت جب مجھے 
کسی اپنے کی ضرورت ہوتی ہے
تو میں 
تنہا رہ جاتا ہوں 
میں 
آج بھی تنہا رہ گیا 


از قلم ہجوم تنہائی

الٹی کہانی


الٹی کہانی

ایک تھا سارس مچھلی کھا رہا تھا
مچھلی اس کے حلق میں پھنس گئی
بڑا پریشان ہوا کچھوے کے پاسس گیا 
اس نے کہا ایسا کرو تم بی بطخ کے پاسس جو ان کے پاس ضرور کوئی حل ہوگا
بی بطخ کے پاس آیا ماجرا کہ سنایا
بی بطخ نے سوچا پھر ایک تب منگوایا اس میں الٹی کی اب کہا پانچ خشکی کے جانور بلا کے لاؤ
زیبرا آیا اس سے بھی الٹی کروائی
لومڑی کچھوا خرگوش پھدکتا آیا بولا میںنے بھی کرنی ہے اس نے بھی کی
بی بطخ نے اس میں چمچ چلایا
کسی جانور نے کیچوے کھایے تھے ہضم نہ ہے تھے وہ الٹی میں جاگ کے تیرنے لگے
بی بطخ نے ایک چمچ بھرا اور سارس کے منہ کے پاسس لا کر کہا لو اسے کھا لو
سارس نے دیکھا گھاس کا ملیدہ گاجر کے ٹکڑے سمندری کیڑوں کا لیس اور ان پر تیرتے کیچوے ابھی دیکھ رہا تھا کے بندر آیا اور اس نے بھی بالٹی میں جھانک کے الٹی کر دی وہ ویسے کیلا کھا کے آیا تھا
نتیجہ : کیا ہوا؟ الٹی آگئی؟
سارس کو بھی آ گئی تھی 


از قلم ہجوم تنہائی

معیار برائی


ہمارا معیار برائی اور اسکی روک تھام 
ارے یہ دیکھو کتنی غلط بات 
اوہ غلط بات دکھانا ذرا
اف غلط پھر دیکھ کر کہوں ؟
اوہو بہت غلط اسکو شیر کرنا پڑے گا اف اتنا غلط
یہ دیکھو سب غلط ملط ۔۔۔
۔۔۔۔کومنٹ لازم ہے ووہ دیکھو غلط ۔۔۔۔۔بس 



سارا زور دوسروں اس نے یہ کہا غلط کہا 
یہ  کیا غلط کیا
اور تو اور کیا ہی کیوں نہ کرتا بہتر  رہتا اور خود 
وہ یہ  کر سکتا تو میں کیوں 
نہیں میں بھی کر  کے دیکھتا ہوں 
غلط صحیح  ہماری مرضی سے ثابت ہوتے ہیں 



از قلم ہجوم تنہائی

پاگل

مجھے پاگل خانے کون لے کر آیا ؟
ہوش آتے ہی وہ پاگل غصے سے اور پاگل ہونے لگا 
سشہش چپ پاگل میل نرس نے دوہتھڑ لگا کر خاموش کرایا 
پاگل بنے رہو ورنہ یہ لوگ ٹھیک سمجھ کر نکال دینگے 
پاگل نے سر ہلا دیا اب وہ چہرے پر حماقت مآب تاثرات سجایے خلا
میں گھوررہا تھا بشیر نے اسکا منہ ہاتھ دھلایا فارغ ہوا
دیکھ کیا رہے ہو چلو بھی
دوسرے نیے بھرتی ہوےمیل نرس کو حیرت سے دیکھتے ہوۓ پا یا تو ڈانٹ دیا
یہ پا گل نہیں ہے ؟ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا
پاگل ہی تو ہے بشیرہنسا بس اسکو ایک بار پاگل نہیں مانو تو آرام سے ہر بات مان لیتا ۔۔۔۔

غلطی کہانی

غلطی کہانی
ایک بار ایک شخصیت سے کوئی ملنے کو آیا
بولا آپ اتنے کامیاب انسان ہیں کبھی کوئی ناکامی بھی ملی
شخصیت نے اپنی ناکامیاں گنوانا شروع کیں
کامیابیوں سے کی گناہ زیادہ تھیں 
آدمی نے پوچھا اچھا یہ آپکے دیوان خانے میں جو اتنا سجا کے دیواروں پر لگا رکھا یہ کیا ہے
شخصیت مسکرائی
بولی
یہ میری غلطیاں ہیں جب کوئی مجھ سے متاثر ہو کر ملنے آتا تو میں اسے یھاں بٹھاتا ہوں وقفے وقفے سے ان پر نظر ڈالتا ہوں
مغرور نہیں ہو پاتا یاد رکھتا ہوں تو دوہر ا نہیں پاتا
آدمی حیران ہوا وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ اپنے کمرے میں رکھ سکتے یہاں دوسروں کی نظر پڑتی ہوگی
تمھاری پڑی ؟ الٹا سوال کر ڈالا شخصیت نے
آدمی نے نفی میں سر ہلایا
شخصیت ہنسی کامیاب آدمی کی کامیابیوں پر نظر رکھتی ہے دنیا غلطیوں پر نہیں تبھی دنیا میں کامیاب کوئی کوئی ہوتا ہے
نتیجہ : غلطیاں سجا کے رکھنی ہیں تو اپنے دل کے اندر سجائیں
اگر کامیاب انسان نہیں ہیں تو

مختصر مختصر


مختصر مختصر 
رونے کا علمی مقابلہ چل رہا تھا 
سب اپنے اپنے دکھ بیان کر کے رو رہے تھے 
سب ہار گیے 
سب دوسرے کے دکھ سن کر ہنس پڑے تھے 
یہ بھی کوئی دکھی ہونے کی بات ہے ؟
نتیجہ : رو دیجیے مگر کسی کے رونے پر ہنسیے مت
بری بات ۔۔۔۔

#hajoometanhai
#hajoomstories

بگلہ کہانی bagla kahani by hajoometanhai



بگلہ کہانی
ایک تھا بگلا (اسے اڑنا آتا تھا ) اڑ اڑ کر تیندوے کے گھر جاتا تھا دروازہ کھٹکاتا
تیندوا باہر نکلتا تو اس سے پوچھتا
ابھی تک یہاں ہو ؟
وہ کہتا ہاں 
یہ سن کر پلٹ جاتا
ایک دن تیندوا جھنجھلا کر بولا "مرا گھر ہے یہ میں یہاں ہی ہونگا نہ اور کہاں جاؤنگا ؟ تم کیوں بار بار پوچھنے آتے ہو ؟
بگلہ چپ چاپ چلا گیا کچھ دن بعد آیا کھٹکا یا پوچھا
کہیں نہیں گیے نہ ؟ ابھی تک یہاں ہو یہی جانے آیا ہوں
تیندوا سر پیٹ کر رہ گیا
پھر بولا ہاں کہیں نہیں جاتا میں یہیں ہوں
بگلہ مطمئن ہو گیا دوبارہ کبھی پوچھنے نہیں آیا اسے اب غار کے اوپر اپنے گھونسلے کی فکر نہیں رہی تھی تیندوے کے ہوتے کوئی دوسرا جانور ادھر کا رخ نہیں کرنے والا تھا
نتیجہ ۔طاقت ور کا پلڑا بھاری رہتا 
#urdupoetry #urdu #poetry #shayari #love #urduadab #urdushayari #pakistan #urduquotes #urdupoetrylovers #ishq #sad #lovequotes #urdupoetryworld #urdusadpoetry #shayri #lahore #hindi #hindipoetry #quotes #urdulovers #shayar #urduliterature #urduposts #karachi #instagram #poetrycommunity #like #mohabbat #bhfyp
#hajoometanhai #urdushortstories #urdukahanian #urdu #pakistaniadab #urduadab #hajoometanhaistories #hajoom #tanhai #ikhlaqikahanian #urdunovel#urdupoetry #urdu #poetry #shayari #love #urduadab #urdushayari #pakistan #urduquotes #urdupoetrylovers #ishq #sad #lovequotes #urdupoetryworld #urdusadpoetry #shayri #lahore #hindi #hindipoetry #quotes #urdulovers #shayar #urduliterature #urduposts #karachi #instagram #poetrycommunity #like #mohabbat #bhfyp

تلاش چہرہ

تلاش چہرہ 
مجھے ایک ایسا چہرہ درکار ہے جو ھنسنے پہ مرے دل کی اندرونی کیفیت آشکار نہ کرے 
کسی آشنا کو دیکھ کر چمک نہ اٹھے 
کسی ناپسندیدہ کو دیکھنے سے ناگواری چھپا سکے 
میرے میٹھے بولوں پر مکاری نہ دیکھا سکے 
میرے طنز پر نرم تاثرات بحال رکھے
جو ایسا چہرہ چاہیے جو آئینوں میں نظر نہ آیے
مل سکتا ہے کیا ؟
کوئی بے حس منافق چہرہ ؟


از قلم ہجوم تنہائی 

میں ایک کچے رنگ کا دھاگا main ek kachay rang ka dhaga



میں ایک کچے رنگ کا دھاگا
کسی کلائی سے باندھا گیا
یوں کہ کوئی یاد رہے
باندھ کر اسے کوئی بھول گیا
دھل دھل کر میرا رنگ اترا 
ایک بے رنگ دھاگہ یونہی
کسی کلائی میں بندھا
بدنما لگا ہونگا جبھی
نہ گرہ کو کھولا گیا
مجھے ایک جھٹکے سے توڑا گیا
میں یاد کرتا ہوں اسے
جو مجھے باندھ کر
بھول گیا

از ہجوم تنہائی
#azadnazm #hajoometanhaipoetry

لفظوں کی کہانی Lafzon ki kahani


لفظوں کی کہانی بھی عجیب ہوتی ترازو کے پلڑے میں تولو 
اک طرف لفظ دوسری طرف انسان 
اگر لفظوں کا پلڑا بھا ری انسان چھوٹا 
اگر انسان کا پلڑا بھاری تو 
بھی انسان چھوٹا 
لفظ آپ کی شخصیت کے مظہر ہوتے ہیں ..

لفظوں کے معا ملے میں محتاط رہنا 
 اچھا ہوتا ہے .لفظ لفظ موتی بھی کہلاتے ہیں لفظ لفظ زہر قاتل بھی ہو  سکتا 
ویسے لفظوں کا کیا ہے کہو نہ کہو 
لفظ ہمیشہ اچھے زبان پر رہنے چاہیے تا کہ غیر معمولی حالات میں بنا سوچے سمجھے بولنا پڑے تو منہ سے اچھے الفاظ ہی نکلیں ہاں لفظوں ہوتا یا الفاظ ہوتا آجکل بالی ووڈ کی مہربانی سے لوگ الفاظوں کہنے لگے ہیں جو کہ بلکل غلط ہے 
#Hajoometanhai
#aqwalzareen

تنہائی کو ترسے ہجوم بیچاری


میں اس جہاں میں خوش رہوں تو کیسے 
جہاں سورج آگ برسایے
چلو بھر پانی ڈبو جایے 
بادل گرجے خوف پھیلآیے 
بارش جیسے دل روتا جایے 
دن بھر کام کاج کا روگ
رات جیسے اندھیرے کا سوگ
تارے اتنے ڈھیر گن گن ہارے
سر پر ہمارے سوار ہیں سارے
دنیا جیسے گڑ بڑ گھٹول
اس پہ لوگ گول مٹول
یوں تو دنیا غرض کی ہے ساری
اس پر ہم سے ہے سب کی یاری
مل مل سب سے تھک تھک ہاری
تنہائی کو ترسے ہجوم بیچاری


از قلم  ہجوم تنہائی 

کاملیت

کاملیت انسانوں کا نصیب نہیں ٹھری ازل سے جو ڈھونڈنے نکلے خوبیاں ایک مشکل سے ملے اور جو کمی ڈھونڈی تو 
مجھ میں تجھ میں نکلیں ہزار

یونہی کہانی

یونہی کہانی 
ایک بار یونہی کہانی بنتی گئی 
یونہی بڑھی 
یونہی ختم 
یونہی .....
نتیجہ : یونہی تو بس کہانی تھی ...
مگر یونہی ...بس




از قلم ہجوم تنہائی 

میں اک دیوار اٹھا تا ہوں


میں اک دیوار اٹھا تا ہوں 
اب میں چپ ہو جاؤنگا 
میں ایک اور دیوار اٹھاتا ہوں 
میں اب چپ رہ جاؤنگا 
میں ایک اور دیوار اٹھا رہا ہوں 
میں بولتا ہی جا رہا ہوں
میں اب قید ہوں اپنی تنہائی کے حصار میں
بہت ہجوم ہے اب میرے مدار میں




از قلم ہجوم  تنہائی 

میں ہنستا تھا


میں ہنستا تھا
اتنا کہ لوگ تھے کہتے 
یہ دنیا میں ہنسنے آیا ہے 
میں ہنس کر تھا کہتا 
کبھی رویا تو غضب ڈھا ونگا 
آج جب میں رویا
ساتھ یہ بھی سوچا کیا
میں نے
آج غضب ڈھایا ہے
؟
سوچتے ہوئےیہ
مجھے تھوڑا اور رونا آیا ہے


HaJoOm. E. TaNhAi.

کہیں چہرہ کتابی



کہیں چہرہ کتابی
کسی کے انداز نوابی
کوئی کم سخن پر تیز
کسی کی طبیعت ہنگامہ خیز
کبھی ڈبو دیا جھیل سی آنکھوں نے 
کبھی سایا کیا دراز زلفوں نے
کسی کی معصوم ادا کے اسیر ہوۓ
کسی کی شعلہ بیانی کے آگے تصویر ہوے
مانگ بیٹھے ہم بھی خدا عشق سے
بچ نہ سکے ہم بھی وبا عشق سے
کہا تو بس اتنا کہ ہمیں خزینہ حیات تو عطا کیجیے
ہنس کے جواب ملا یا وحشت کسی ایک پر تواکتفا کیجیے
SVZ

زندگی کہانی


زندگی کہانی
ایک تھی زندگی
گزر رہی تھی راستے میں مقدر سے ٹکرا گئی
مقدر ہاتھی جیسا تھا زوردار طاقت مست ملنگ اسکا بال بھی بیکا نہ ہوا__
زندگی کا حشر نشر ہوگیا وہیں رک کر رو پڑی ۔۔۔
وقت نےدیکھا مگر نظر انداز کر کے آگے بڑھ گیا
کافی وقت بیت گیا دعا طاقت کے روپ میں پاس ای
آئ ۔۔۔ زندگی نے اسکو دیکھا تو نہ چاہتے بھی ہنس دی تم اتنی چھوٹی کمزور سی ہو مجھے کیسے اٹھاؤ گی ؟
دعا چپ رہ گئی۔۔
زندگی نے بہت سے سہارے تلاشے اپنو ں کے احباب کے سب نے بس ایک حد تک سہارا دیا پھر چھوڑ دیا۔۔۔
زندگی وہیں رکی پڑی رہی۔۔۔
دلاسے تسلیاں اسکو ملیں مگر کسی کام نہ آ سکیں
دعا کو زندگی پر ترس آیا اٹھی اور مقدر سے لڑ پڑی ننھی نازک معصوم سی دعا مقدر سے ٹکرا گئی اور جانتے ہیں کیا ہوا ؟
مقدر واپس آیا اور زندگی سے معذرت کی اسے سہارا دیا اور اسکو نیے سفر پرروانہ کردیا۔۔۔
اس بار زندگی نے دعا کا دامن پکڑ کر اپنے ساتھ رکھا تھا۔۔۔
نتیجہ : دعا چھوٹی سی بھی ہو تو عرش تک رسائی رکھتی ہے

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen