ایک تھا سانپ۔۔ زہریلا بھی تھا۔
مگر زہر تو اسکے اندر تھا۔ نہ پھنکارتا نہ چنگھاڑتا۔ خوفزدہ بھی رہتا تھا اس دن سے جب یہ زہر اسکی زبان سے نکلے کسی کی رگ و جان میں پھیل جائے۔ وہ یونہی کسی کے مرنے کی وجہ بن جائے۔ خود میں سمیٹے ذہر وہ سب سے الگ رہتا تھا۔ اپنے ہی جیسے سانپوں کے ڈسنے کی خبر سنتا کپکپا جاتا۔ سانپوں میں رہ کر کہیں ڈسنا نہ سیکھ جائے اس نے تنہائی اختیار کر لی۔۔۔۔ جنگل کو لگتا سانپ کو اس نے الگ کیا ہے۔ آتے جاتے جانور ٹھٹھے لگاتے نفرت سے اس سے منہ پھیر جاتے کوئی آواز لگاتا اوئے سانپ زہریلے۔۔
سانپ سوچتا آج تک میرا زہر کسی کے رگ و پے میں اترا تو نہیں پھر یہ نفرت کیوں۔۔۔۔
ایک بار ایک مور گزرا سانپ کو دیکھا تحقیر سے بولا۔۔
کیوں رے سانپ تنہا پڑا یے زہر زہر وجود ہے نا جبھی۔
سانپ کو توہین محسوس ہوئی اس نے غصے میں زبان نکالی پھنکارا۔۔ مور پر زبان کا وار کیا۔۔
مور نے تمسخر اڑایا۔۔ سانپ کو مزید برا بھلا سنایا۔۔
سانپ کے اندر زہر پھیلنے لگا۔ اسکے اپنے زہر سے کہیں زیادہ طاقتور اور مہلک۔ یہ زہر مور کے زبان سے ادا ہوئے لفظوں کا تھا۔کہیں ذیادہ زہریلا۔۔۔۔
سانپ پر نزع کا عالم طاری ہوا ادراک ہوا۔
زہر تو اسکی زبان میں نہیں مور کی زبان میں تھا۔۔ ۔۔۔
نتیجہ: سانپ کے اگلے دانتوں میں زہر ہوتا ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ ڈس بھی لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment