شارک نے آئو دیکھا نا تائو کنوئیں میں چھلانگ لگا دی۔ مگر یہ کیا۔ کنوئیں کا منہ اسکی توقع سے کم اسکے وجود کے مقابلے تو بہت ہی کم تھا شارک اس میں پھنس کر رہ گئ ۔ زخم مزید چھل گئے۔جدوجہد کرکے کسی طرح کنوئیں میں گر جانا چاہا مگر گر نہ سکی۔ بے بسی سے کنوئیں میں دیکھنے لگی کنواں کہیں فٹ نیچے جتنا پانی دکھا رہا تھا اس میں اسے یقین تھا کہ بس دم ہی گیلی ہو پائے گی۔اس کو سخت غصہ آیا۔
اتنے سے پانی کے لیئے تم نے مجھے اتنا سفر کرایا؟ اتنا میں نے سمندر کی جانب سفر طے کیا ہوتا تو ابھی تک میں گہرے پانیوں تک پہنچ چکی ہوتی۔
مینڈک اسکے غصے پر حیران ہوا
کیا بات کرتی ہو اتنا پانی ہے میں آرام سے اس میں سالوں تیرتا رہا تھا۔ ایک دن یونہی شوق ہوا سمندر دیکھنے کا توباہر نکلا تھا مگر سمندر اتنا بڑا بے اتنی ذیادہ مخلوقات ہیں اس میں کہ مجھ سے تو رہا ہی نہیں جاتا اس میں۔ واپس یہیں آرہا تھا تمہیں دیکھا تو پوچھ لیا۔
اس نے کندھے اچکائے اور مزے سے کنوئیں میں چھلانگ لگا دی۔ شارک منہ کھولے اس چھوٹی سی مخلوق کو دیکھتئ رہ گئ جو مزے سے کنوئیں میں تیرتا گول چکر لگا رہا تھا۔ اسکے وجود کے مقابلے میں کنواں کہیں بڑا اور کافی تھا۔ شائد جبھی اسے شارک کیلئے وہی مناسب لگا۔
کسی طرح شارک نے خود کو گھسیٹ کر نکالا گھسٹتے گھسٹتے کئی دن کا سفر کرکے سمندر کنارے پہنچی۔ جدو جہد کرکے خود کو پانی تک پہنچایا تیرنا شروع کیا گہرے پانی میں پہنچی گہری گہری سانس لیکر خود کو پرسکون کیا۔ وسیع و عریض سمندر اسکے وجود کو خود میں سمونے کو تیار تھا
اس نے سوچا۔
مینڈک ذیادہ سے ذیادہ ساحل کنارے کے پانی تک ہی پہنچ پایا ہوگا اسکے لیئے سمندر کا کنارہ ہی اتنا بڑا ٹھہرا وہ کیا جانے کہ سمندر اسکی دریافت سے کہیں وسیع و عریض ہے۔
نتیجہ: ایک مینڈک شارک کو یہ نہ بتائے کہ سمندر بہت بڑا ہے۔شارک مینڈک سے کہیں بڑی مخلوق ہے۔۔
No comments:
Post a Comment