قسط 41
اچھا وقت گزرا نا؟
سیونگ رو اسکے ساتھ چلتے ہوئے تائید چاہنے والے انداز میں پوچھ رہا تھا۔ شام ہو رہی تھی وہ دونوں اکٹھے ہی اولڈ ہوم سے نکلے تھے۔
ہاں۔ عروج کو عجیب سا لگ رہا تھا۔ جانے آج کس دھیان میں تھی جو اتنی بڑی غلطی کر بیٹھئ۔
ویسے آج میں لوگوں کو بہت وجیہہ لگ رہا تھا ۔ کم از کم بھی بارہ آہجومائوں نے مجھے وجیہہ کہا ہے۔
اسکا عروج کے برعکس مزاج بہت خوشگوار ہو رہا تھا۔ چونچال سے انداز میں بولتے ہوئے اس نے عروج کی جانب دیکھا۔
مگر وہ قصدا نگاہیں سامنے جمائے تھی۔ وہ دانستہ رکا وہ آگے بڑھتی گئ۔ اس نے اپنی گاڑی تھوڑا سا اولڈ ہوم سے آگے پارک کی تھی تاکہ راستہ نہ رکے ابھی اپنی گاڑی کے پاس سڑک کے دوسری جانب رکا تھا اب یہاں سے سڑک پار کرنی تھی۔
رکو کہاں جا رہی ہو؟ اسپتال نہیں جانا؟
اس نے اپنی گاڑی کا لاک سوئچ سے بجایا عروج چونک کر مڑی۔
آئو۔
وہ اسے بلا رہا تھا عروج نے کچھ سوچ کر نفی میں سر ہلادیا
میں بس سے جائوں گی تم جائو۔
کیوں؟ وہ جیسے شدید حیران ہوا۔
جب میں گاڑی لایا ہوں اور اسپتال ہی تو جا رہا ہوں۔ ہماری اکٹھے نائٹ لگی ہے اگلے ایک ہفتے تک۔
اس نے جیسے یاد دلایا
عروج نے گہری سانس لی۔۔ چند لمحے یونہی اسکی جانب پشت کیئے کھڑی کچھ سوچتی رہی۔اس نے لحظہ بھر اسکے پلٹ آنے کا انتظار کیا مگر اسے یونہی کھڑا دیکھ کر اسکے پاس چلا آیا۔
کیا ہوا کوئی بات بری لگی ہے ناراض ہو۔
آں نہیں۔ وہ یقینا چونکی تھی۔ اسے اپنے سامنے پا کر۔
بس ایسے ہی۔ اچھا نہیں لگتا روز روز تم سے لفٹ لینا اسلیئے میں چلی۔جائوں گی تم جائو۔۔
وہ ہنگل میں بولی تھی جبھی جملے تکلفات سے عاری تھے سوچ کر بولتی تو شائد بہتر جواب دیتی سیونگ رو یکدم سنجیدہ سا ہوگیا۔
کسی نے کچھ کہا ہے تمہیں؟ یہاں کسی آہجومہ نے؟ تم گوشت نہیں کھا رہی تھیں تو یقینا کسی نے ٹوکا ہوگا کوئی بات بری لگ
وہ اندازے لگا رہا تھا عروج بیزار سی ہوئی
ارے نہیں بھئ ایسی کوئی بات نہیں نہ تو کسی نے کچھ کہا نا ہی میں اتنی بے وقوف ہوں کہ انجان لوگوں کی بات دل سے لگائوں۔
اسکا انداز جھلاہٹ بھر رہا تھا تو سیونگ رو چپ کرگیا
اچھا چلو اسپتال تو چلو سوا سات ہو رہے آٹھ بجے ڈیوٹی شروع ہو جائے گئ۔
وہ اسے لیئے بغیر ٹلنےوالا نہیں تھا یقینا
عروج نے ہونٹ بھینچ لیئے۔
چلو۔
وہ اسکا کولیگ تھا اس سے کٹ کر تو نہیں رہ سکتی تھی۔ اسپتال میں جبکہ ڈیوٹی بھی اسی کے ساتھ تھی۔ وہ چل پڑی
پھرسارا راستہ وہ بالکل خاموش رہا تھا۔
کیا ہوا بھول۔چوک۔ہو ہی جاتی ہے نہیں خیال رہا مجھے کہ ماسک اتار دیا ہے۔ دیکھ لیا تو دیکھ لیا۔ چار سال سے نہیں بھی تو دیکھا تھا نا۔ اور ۔
اس نے زرا سا رخ موڑ کر سیونگ رو کو دیکھا
وہ مکمل سڑک پر نگاہ۔جمائے ڈرائونگ میں مگن تھا
اف یہ شرمندگی کیسے کم ہوگی۔
اس نے آنکھیں میچ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے سنگ فلیٹ کے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے بھی وہ ہونٹ کاٹ رہی تھی۔ جبکہ سیہون حسب عادت لاک لگا کر جوتے ریک میں رکھ رہا تھا۔
فاطمہ نے کان کھجایا۔
سیہون ۔۔۔۔۔ سوری۔
سلیپر میں پیر پھنساتے سیہون نے چونک کر مڑ کر دیکھا
ڈونٹ بی۔ ہو جاتا ہے مجھے ویسے تمہیں گھن دلانے کی سزا۔۔۔
وہ کہہ رہا تھا فاطمہ نے بات کاٹ دی
اس بات کیلئے نہیں سوری کہہ رہی۔اچھا ہوا میں نے منہ پر الٹی کی آئیندہ بچپن کے گندے قصے فخر سے نہیں سنائوگے کسی کو۔
سیہون پلکیں جھپکتا رہا
پھر میری نسل پر احسان کس خوشی میں کیا جا رہا ہے سوری کہہ کر؟
وہ اپنے مخصوص ٹھنڈے انداز میں پوچھ رہا تھا
وہ اتنی مشکل سے تم نے اپنی ضمانت پر نوکری لگوائی میری اور میں پہلے ہی دن نہیں گئ جاب پر۔ اسکے لیئے۔ وہ کہہ کر فورا اندر بھاگی۔۔۔
جوتے اتار کے فاطمہ۔
سیہون نے آواز لگائی مگر تب تک فاطمہ کچن میں پہنچ چکی تھی۔ وہ ٹھنڈی سانس بھرتا خود بھی اندر چلا آیا۔
سوری سیہون۔۔۔مجھے آج ہر صورت وقت پر پہنچنا چاہییے تھا مگر میری آنکھ ہی نہیں کھلی الارم نہیں بجا۔۔ ورنہ الارم سے آنکھ کھل جاتی ہے میرئ۔۔ میں جب تم سے ملی تب ہی پہنچی تھی دفتر مگر جانے کی ہمت نہ ہوئی۔
اسکے لیئے وہ پانی کا گلاس بھر کر ٹھنڈی سانس بھرتے مڑ
کرسر جھکا کر ادب سے پیش کرنے لگی۔۔ سب سچ سچ کہہ ڈالا۔
سیہون نے اسکے ہاتھ سے گلاس لیکر کائونٹر پر رکھ دیا۔
جانتا ہوں۔
اسکی۔بات پر فاطمہ نےجھٹکے سے سر اٹھایا آنکھیں پھاڑیں اس نے اپنے کندھے کے اوپر اشارہ کیا۔
فلیش بیک چلا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس سے ترنگ میں اتر کر مڑی تو سامنے سے سیہون کو آتےدیکھ کر اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا۔
جانے اس نے مجھے بس سے اترتے دیکھا کہ نہیں۔
فاطمہ نے سوچتے ہوئے نچلا لب دانتوں تلے دبایا ۔۔ وہ اطمینان سے چلتا قریب آیا رکا
کیسا گزرا جاب کا پہلا دن؟
وہ سینے پر ہاتھ لپیٹے مسکرا کر پوچھ رہا تھا۔
نہیں دیکھا۔ فاطمہ نے سکھ کا سانس لیا۔
گگ گڈ۔ مزا آیا۔ آسان کام ہے۔
اسے لمحہ بھر لگا تھا سنبھلنے میں۔
اچھا؟جبھی ساڑھے تین بجے واپسی ہورہی ہے سیہون نے شائد طنز کیا ہوگا مگر وہ سمجھی نہیں
ہاں وہ پہلا دن تھا نا تو مجھے دو بجے ہی فری کردیا۔ بہت اچھی مینجر ہے یقینا لمبی زندگی پائے گئ۔
کیسے؟ سیہون کو اسکی بکواس پر ہنسی آئی
دعا جو دوں گی میں اللہ لمبی زندگی دے اس اچھی مینجر کو۔
چلو میں گھر چل رہی ہوں۔
اس نے ایسے پوچھا جیسے خود گاڑی میں آئی ہو۔
نہیں مجھے ابھی کام ہے۔ سیہون نے گہری سانس بھری
گائوں جانا ہے تو کچھ چیزیں لینی ہیں تم جائو میں شام تک آئونگا۔
سیہون نے کہا تو وہ سوچ میں پڑی
واپس جا کر سو جائوں تو واعظہ مارے گی۔۔۔ اسے یقین تھا میں دفتر کے اندر نہیں جائوں گی۔ عقل کی بات ہے۔ جا کر جتنے بھی جھوٹ بول لوں بےعزتی تو ہونی ہے کیوں کروائوں جب مجھے پتہ ان پیسے پیسے پر جان دینے والے کورینز نے نکال ہی دینا مجھے کیسا اخبار سے تین ٹارڈیز ( وقت پر نہ پہنچنے کے باعث Tardy) پر ایک مہینے کی نوکری کا لحاظ کیئے بنا نکال دیا یہاں تو پہلا دن تھا۔۔خیر واپسی کا کوئی سین نہیں۔ اور سیہون کے فلیٹ میں اکیلی کیا ٹامک ٹوئیاں ماروں گی۔۔۔
اس نے جلدی جلدی سوچ کر فیصلہ کیا
کیا لینا ہے۔ میں بھی چلتی ہوں ایک دو چیزیں میں بھی لے لوں گئ۔۔
اس نے سیہون کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اسکے پروگرام میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے خیال میں میں تمہیں تمہارے پہلے دن کیلئے مبارکباد دینے پہنچا تھا وہاں۔ تمہارے دفتر سے بلاوا آیا تھا کہ جن موصوفہ کو آپ اپنی ضمانت پر رکھوا کے گئے ہیں انہوں نے تشریف لانے کی زحمت نہیں کی لہذا آپ زحمت کیجئے اور آکر انکی غیر حاضری کی مفصل وجہ بیان کیجئے۔
سیہون نے کہا تو وہ سر جھکا گئ دوبارہ۔
خیر نوکری چلی گئ ہے تمہاری ۔ میں نے بہانے بنانے کی کوشش کی مگر تمہاری اچھی مینجر سے اوپر جو منتظم ہے وہ بالکل اچھی نہیں۔ اگر تم چلی جاتیں تو شائد پھر کوئی امید بن جاتی مگر تمہارا مجھے ایسا کوئی ارادہ نہیں لگا تھا۔ وہ سٹول گھسیٹ کر بیٹھا اور گلاس اٹھا کر گھونٹ بھرنے لگا
فاطمہ کو خفت سی محسوس ہوئی۔
مجھے سمجھ نہیں آتا تم چاہتی کیا ہو۔ جو تمہارا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے وہ یہاں کوریا میں نہیں چل سکتا۔ جس نوکری کے پیچھے تم اپنی انا کے مینار سے اتر کر زرا سی معزرت کرنے سے کترا رہی تھیں۔ اسکے لیئے یہاں کی لڑکیاں گھٹنے کے بل بھی بیٹھ جائیں۔۔ ( اس نے کوریائی کورنش بجالانے کا حوالہ دیا۔ انتہائی سبکی کی بات ہے کورینز کیلئے گھٹنے کے بل پر بیٹھ کر منت کرنا۔ اور کسی کورین کے سامنے ایسے گڑ گڑا کر مدد مانگی جائے تو وہ انکار بھی نہیں کرتے)
تم نے زندگی کو برتا نہیں ہے
وہ اپنے مخصوص انداز میں نرم لہجے میں بات کر رہا تھا مگر جانے کیوں فاطمہ کو لگا کہ اسکے انداز سے مروت کا عنصر مٹ سا گیا ہے۔۔ اس نے اسکی آنکھوں میں جھانکا پھر متانت سے بولتا گیا۔۔
۔مجھے نہیں پتہ پاکستان کتنا خوشحال ہے مگر تمہیں کیا لگتا یہاں کی زندگی آسان ہے؟ اس ترقی یافتہ ملک کوریا میں جینا اتنا آسان کام نہیں ہے۔یہاں کےہائی اسکول کے بچے اپنا خرچ چھوٹی موٹی نوکریوں سے خود اٹھاتے ہیں۔ اپنی تعلیم کیلئے لیئے جانے والے لون کتنوں کی زندگی کے قیمتی سال کھا جاتے ہیں۔وہ ویٹر، پلمبر لیبر جیسی چھوٹئ موٹی نوکریاں کرتے ہیں مگرزندگئ کی گاڑی کھینچتے ہیں۔
کہنے کویہ چھوٹی موٹی نوکریاں ہیں مگر کیا کچھ برداشت کرنا پڑتاہے اسکا اندازہ نہیں تمہیں۔ تم نے زرا سی کافی الٹی مجھ پر ۔۔۔۔وہ ذرا سا مسکرایا۔۔عجیب سرد سی لہر فاطمہ کے رگ وپے میں دوڑ گئ۔ وہ دم سادھے سن رہی تھی۔
اس نےسلسلہ کلام جوڑا
ایک غصہ ور صارف نے کھولتا سوپ الٹا تھا مجھ پر اور جوابا میں نے معزرت کرکے اسکا لباس نیپکن سے صاف کیا تھا۔ تین نوکریاں کرتا تھا جب یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ چار سال میں شائد ہی کوئی رات میں نے سو کر گزاری ہو۔ پڑھنے کا موقع ہی رات کو ملتا تھا سارا دن تو ۔۔۔ اس نےسر جھٹکا۔
میں کڑکتی سردی برفباری میں گوشی وون ( چھوٹے سے کمرے پر مشتمل رہائش جس میں بمشکل ایک بستر اور میز ہوتا یے) جیسے دڑبے کا بھی کرایہ ادا کرنے کے قابل نہ ہونے کے باعث سڑکوں پر سکڑتا پھرا ہوں۔ جس دن ایک کھلے گیراج میں کتے کے ساتھ رات گزاری اس دن فیصلہ کیا تھا کہ گٹر صاف کروں گا مگر اپنے اوپر دوبارہ یہ وقت آنے نہیں دوں گا۔ مجھے لگتا ہے ان سب حقیقتوں سے واقفیت کیلئے ایک رات تمہیں بھی ایسی ہی گزارنئ پڑے گی۔ جس کی نوبت ابھی تک واعظہ کی وجہ سے تم پر نہیں آسکی۔۔۔
وہ اپنی بات مکمل کرکے گلاس کا بچھا کھچا پانی پیتا اٹھا اس پر ایک نگاہ غلط ڈالتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
اسکے کمرے کا دروازہ بند ہونے پر وہ چونکی تھی۔ وہ جو کہہ گیا تھا اسے سننا تو اتنا مشکل نہ تھا مگر اسکے بین السطور معنی ۔۔۔۔۔۔۔ اسکا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔اس سے کھڑا رہنا دشوار ہوا تو اسٹول گھسیٹ کر گر سی گئ۔
بے عزتی ہوگی اسلیئے دفتر نہیں گئ مگربے عزتی اور کیا ہوتی ہے ؟
وہ خود کلامی کے انداز میں بولی۔ زندگی میں کبھی نہ رونے والی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ کئی آنسو چہرے پر گرتے گئے۔
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
مگر اس نے بےعزتی تو نہیں کی دھیما سا انداز اور حقیقتیں بیان۔ اور حقیقت بس اتنی ہے فاطمہ کہ۔۔
اس نے گہری سانس لی۔
You are just a parasite who just happen to be born with an adventurous soul……
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حسب معمول سب سے پہلے اس کمرے میں آئی تو نرسیں چادر بدل رہی تھیں کمرے کی صفائی ہو رہی تھی ۔
اسکا دل انجانے خدشے سے دھڑ دھڑ کرنے لگا۔
آہجومہ۔۔ اس نے اتنا ہی کہا کہ ایک نرس نے سر اٹھا کر اسے دیکھاپھر تاسف بھرے انداز میں بتایا
ان بوڑھی خاتون کا انتقال ہوگیا ہے۔ ابھئ گھنٹہ ایک پہلے ہی انکی بیٹی باڈی لیکر گئ ہے۔
وہ سر ہلاکر پلٹنے لگی۔ ۔ جانے کیوں اسکے دل پر منوں بوجھ آن گرا تھا۔
وہ روز انکا معائنہ کرنے آتی وہ اسکا بازو کھینچ کر پاس بلاتیں۔ ادھورے ٹوٹے پھوٹے جملے۔ اسکی ہنگل کا اور برداشت کا دونوں کا امتحان ہوتا تھا۔
سنیں۔
اسکو پیچھے سے نرس نے پکارا۔
یہ انکی بیٹی آپکے لیئے دیکر گئ تھی۔
اس نے چھوٹا سا پیکٹ بڑھایا۔
یہ کیا ہے؟
اس نے حیرانی سے پوچھا جوابا وہ کندھے اچکا گئ۔ اس نے سر ہلایا
تو آپ کی مشکل تمام ہو ہی گئ۔۔ وہ ایک الوداعی نگاہ ڈال کر دروازہ بند کرتی نکل آئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھکی تھکی سی گھر میں داخل ہوئی تھی۔ گھر کی بتیاں جلانے کی کسی نے زحمت نہیں کی تھی۔ وہ راہداری کی بتی جلاتی اندر داخل ہوئی تو منے لائونج میں سرد ہوا سے استقبال ہوا۔ کانپ کانپ گئ۔۔ وہاں کی بھی بتی جلائی تو پتہ چلا منے لائونج سے ملحقہ چھوٹی سی دو فٹ کی۔گیلری کا دروازہ کھولے عزہ چوکھٹ میں بیٹھی حسرت سے زمین دیکھ رہی تھی۔
تمہیں کیا ہوا۔
اس نے قریب آکرہلایا جلایا۔
میں مرگئ۔۔
عزہ روہانسی ہوئی۔
نہیں تو بول تک تو رہی ہو۔
الف نے یقین دلایا۔
میں دکھی ہوں شدید دکھی۔
عزہ نے بتانا چاہا۔ الف نے جائے وقوعہ کا جائزہ لیکر اسکے دکھ کا منبع جاننے کی کوشش کی پھر لاپروائی سے بولی۔ حسرت ان کپڑوں پر جو بن سوکھے زمین بوس ہوئے
ان لوگوں نے عارضی الگنی باندھ رکھی تھی گیلری میں وہ اس وقت ٹوٹی پڑی تھی اور اس پر یقینا بوجھ ذیادہ تھی یعنی کپڑے ذیادہ تھے سو سب کے سب نیچے آرہے تھے۔
۔ میں کہہ رہی تھی آج کپڑے مت دھوئو کل میں فارغ ہونگی تو اکٹھے دھوئیں گے میرے بھی سب کپڑے میلے ہورہے۔۔ سزا ملی ہے یہ تمہیں
یہ الف کی بھونڈی تسلی تھی۔ عزہ نے بھنا کر دو ہتھڑ لگائے
جوابا وہ پنڈلی سہلاتی ہائے ہائے کرتی منے صوفے پر ڈھیر ہوئی
یا خدایا کتنا بھاری ہاتھ ہے عزہ۔۔ الف بلبلا اٹھی۔
پائوں بھی بھاری ہے۔ پنگا نہیں چنگا
اسکا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تھا اٹھ کر ٹھڈے مارنے کی نیت سے بولا مگرخیال آیا تو کھسیا گئ الف صوفے پر اوندھی ہوگری
کمرے کا دروزہ کھول کر نکلتی واعظہ بھونچکا سی کھڑی رہ گئ۔
کس کا پائوں بھاری ہے۔۔
ہکا بکا کھڑئ واعظہ کھسیائی کھڑی عزہ الف اتنی دیر سے جو بنا آواز ہنس رہی تھی اب جاکے آواز واپس آئی۔ ہو ہو ہو۔
عزہ کا ۔واعظہ عزہ کہہ رہی۔
الف نے ہنستے ہنستے لوٹ ہوٹ ہوتے اسے بتانا چاہا۔جوابا عزہ اس پر ہی۔کود گئ۔
احتیاط سے لڑو۔ عزہ۔تمہارا۔۔۔۔۔
الف پٹ رہی۔تھی باز نہیں آرہی تھی۔ ہنسے جا رہی تھی عزہ دھموکے لگا لگا کے تھکنے لگی۔
چائے کون کون پیئے گا۔
واعظہ انکو انکے حال پر چھوڑتی اپنے موبائل میں میسجز کرتی باورچی خانے کی جانب بڑھی۔
میں ، میں۔
دونوں کورس میں چلائیں۔ خوب لڑ بھڑ کر اب امن سے تھیں۔عزہ نےصوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کیاتو الف صوفے سےپھسلتی منے کارپٹ پر رکھے بڑے سے فلور کشن پر آن ٹکی۔
وہ سر ہلا کر چائے بنانے کیلئے ساسر نکالنے لگی حسب عادت بڑی سی دیگچی نکالی
ایک کپ پانی بھر کر ڈالا۔
اتنی بڑی دیگچی کیوں چڑھا رہی ہوواعظہ بس تین کپ چائے بنے گی۔
عزہ نے ٹوکا۔۔
واعظہ نے نا سمجھنے والے انداز میں مڑ کر دیکھا کچھ کہنے کو منہ کھولا پھر مسکرا کر سر جھٹک دیا۔
یار گھر خالی۔خالی۔لگ رہا ہے۔ الف نے بھی یاسیت کہتے ہوئے انگڑائی لی۔
مجھے نور یاد آرہی ہے۔
عزہ بسوری۔۔۔
مجھے عشنا بھی۔۔ کوئی اتا پتہ نہیں اسکا۔ اچانک جیسے آئی تھی ویسے ہی چلی۔گئ۔
الف نے مڑ کر واعظہ کو دیکھا۔ مگر وہ بے نیازی سے چائے کا پانی چولہے پر رکھ رہی۔تھی۔
نور پاکستان تو پہنچ چکی ہوگی ہے نا؟ اب تو رات ہورہی۔
عزہ نے اندازہ لگانا چاہا۔
کنیکٹنگ فلائٹ ہوتی ہے دبئی پہنچ کر جتنے بھی گھنٹے انتظار کرنا پڑے کوئی پتہ نہیں۔ چاہے فورا فلائٹ مل جائے چاہے انتظار کرنا پڑے۔ ضروری نہیں کہ وہ پاکستان پہنچ چکی ہو۔
الف نے حسب عادت تفصیلا بتایا۔
نور ویسے کہہ رہی تھی کہ۔میسج کرے گی فورا پہنچنے کے بعد۔
عزہ نے تسلی دی۔۔۔ ٹی وی پر ٹو کاپس آرہا تھا۔۔
مت لگائو بنا سب ٹائٹل خاک پتھر سمجھ آئے گا۔ ایویں دیکھنے کا دل بھی نہیں کرےگا
الف نے ریموٹ اٹھا کر بدلنا چاہا تو عزہ نے کھینچ لیا
دیکھنے تو دو کہ وہ کون مین ( لچا آدمی) کیسے لڑے گا ہیرو تو کیسا دھنا دھن ٹھکائی کرتا ہے مگر اب اس میں تو کون مین کی روح ہے اتنے خطرناک موڑ پر ختم ہوئی تھی پچھلی قسط۔
عزہ نے کہا تو الف منہ بنا کر رہ گئ۔ واعظہ چائے بنا لائی تھی۔ ٹرے میں چائے کے ساتھ میٹھے بن بھی تھے۔لا کر اسی منی میز پر رکھ دیئے ۔
ویسے واعظہ اب تو کرائے میں کمی ہو جائے نا تمہیں۔ ایسا کرو پھر سے کرائے داروں کیلئے اشتہارلگا دو۔
الف کو اب واعظہ کی فکر ہوئی۔۔
اسکی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تین مہینےمیں اس فلیٹ کی۔لیز ایکسپائر ہو جائے گی تو میں رینیو نہیں کروائوں گی۔ اس مہینے بے شک مجھے تم لوگ پیسے نہ دو بس اپنی رہائش کا انتظام کوئی کرلو۔ ابھی پورے دومہینے ہیں تم لوگوں کے پاس۔
واعظہ نے اطمینان سے بتاتے ہوئے گھونٹ بھرا جبکہ الف اور عزہ کا منہ تک جاتا چائے کا کپ راستے میں ہی رہ گیا۔ دونوں پلکیں جھپکے بنا اسے حیرانی سے دیکھ رہی تھیں۔
یہ کیا اچانک؟ ایسے کیسے۔۔ دونوں بھونچکا رہ گئ تھیں
دو دن پہلے گروپ میں پیغام بھیجا تھا مگر تم میں سے شائد کسی نے پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ مجھے پتہ تھا کہ ریپیٹ ٹیلی کاسٹ چلانی ہی پڑے گی مجھے۔
وہ اطمینان سے انکا اطمینان غارت کر رہی تھی۔
مگر یار ہم یہاں ٹھیک ہیں کرایہ بڑھا دیتے ہیں ہم اور تم تم تو یہیں رہتی تھیں نا دو تین سال سے جب ۔۔۔۔
الف نے یاد دلایا تو وہ۔لاپروائی سے بولی
ہاں تو میں بھی کہیں اور شفٹ ہو جائوں گی۔ لیکن اس طرح پانچ چھے لڑکیوں کا اکٹھے دوبارہ گھر لیکر رہنا میرے لیئے ممکن نہیں۔
اسکا انداز قطعی تھا
عزہ نے کچھ کہنا چاہا تو الف نے اسکا ہاتھ تھام کر روک دیا۔ آنکھ کے اشارے سے کچھ بھی بولنے سے منع کردیا
یار یہ کون مین کو ہیرو رکھ لیتے مجھے یہ ہیرو اچھا نہیں لگتا۔ کون مین ذیادہ جچتا ہے ہیروئن کے ساتھ ہے نا۔
وہ دونوں کے ردعمل سے بے نیاز رخ موڑ کر اب ٹی وی کی جانب متوجہ تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دو بجے الارم شد و مد سے اسکے سر پر بجا تھا۔
پہلے پہل تو سمجھ نہ آیا پھر ادھر ادھر بیڈ پر ہاتھ مار کر موبائل تلاشا تو دل کیا موبائل سے اپنا سر پھوڑ لے۔ اسکا لگایا گیا الارم 2 پی ایم کی بجائے 2 اے ایم کا لگا تھا وہ بھی پیر سے جمعے تک کا۔ یعنی کل رات شدومد سے بجا ہوگا اور وہ بند کرکے اہتمام سے سوئی ۔۔
فاطمہ کی بچی صحیح بستی ہوئی ہے تمہاری۔
اس نے فون پٹخ کر دوبارہ سوجانا چاہا۔
چند لمحے آنکھیں بند کرکے بھی نیند نہ آئی تو اٹھ بیٹھی۔ سع کھجایا۔
بھوک بھی لگ گئ ہے۔ اسے خود پر ترس آیا۔
اب اتنئ باتیں سننے کے بعد فریج ٹٹول کر کچھ کھانا بے شرمی ہوگی۔۔ میں نے ابھی تک سیہون کو کرایہ نہیں دیا نہ ہی سودا سلف کےپیسے دیئے۔ اس وقت تو بڑا رحم دل بن رہا تھا جاب کرو پھر دینا پیسے۔ آج اتنے طعنے سنا دیئے۔ اتنی باتیں توکسی کی نہ سنتی میں کبھی۔
وہ بڑ بڑا رہی تھی۔
ایک یہ کونسل والی بھی کل آجائے گی۔جانے اتنی فرصت کیوں ہے ان لوگوں کو۔
وہ دھپ سے پیچھے گری۔
موبائل اٹھایا۔۔
گروپ کے آٹھ دس میسجز ۔۔ واعظہ کے دو میسج جس میں وہ نوکری کا کیا بنا ہی پوچھ رہی تھی۔
اف۔
اس نے جواب نہیں دیا ۔۔ برقعہ ایونجرز گروپ کے میسجز۔
اس کی آنکھیں پوری کھلیں۔۔
یار سنا تم لوگوں نے واعظہ نے کیا کہا؟
عزہ کا روندے اسمائیلی والا پیغام۔
اس نے گروپ کی چیٹ کا دو دن پراناواعظہ کا میسج شئیر کیا تھا۔
فلیٹ کی اگلے مہینے لیز ختم ہو رہی ہے جسے مزید بڑھانے کا میرا ارادہ نہیں۔ سو تم سب اپنے لیئے رہائش کا الگ انتظام کرنا شروع کردو اس مہینے کرایہ بھی بے شک مت دو۔
اوئے یہ تو میں نے اب جا کے پڑھا۔۔
یہ نور کا جواب تھا۔۔
واعظہ میں نے پہلے ہی انتظام کرلیا پاکستان پہنچ گئ میں۔
ہا ہا ہا۔ آگے اسمائیلیز۔
یاراب کیا کریں؟ میں نے تو یونیورسٹی کے ڈورم کیلئے تو اپلائی بھی نہیں کیا تھا۔۔
الف کہہ رہی تھی۔
اگلے مہینے امتحان شروع ہیں بیچ میں شفٹنگ کیسے کریں گے یہ تو سیدھا فیل ہونے کا پروگرام بن رہا۔۔
عزہ کو فکر ہوئی۔
دو مہینے کہا ہے میں نے۔۔
واعظہ کا جواب
یار کوئی چھوٹا سا فلیٹ لیتے ہیں اکٹھے مل۔کر رہتے ہیں۔ کیا۔خیال ہے۔
الف نے خیال ظاہر کیا
فاطمہ میں عروج اور عزہ۔۔
ہم چاروں مل کر۔۔
اکٹھے۔۔۔ بلکہ اسی فلیٹ کی کا کرایہ تینوں بانٹ لیتے ہیں۔
فاطمہ تو پہلے ہی الگ رہ رہی ہے وہ کیوں آئے گی ہمارے ساتھ
عزہ نے فوری جواب دیا۔۔ فاطمہ نے دانت پیسے۔۔۔
تیری تو۔۔۔
یار تم دونوں آپس میں لگی ہوئی ہو۔پرسنل چیٹ کرلو میرا موبائل بجا رہی ہو۔ آگے اسمائیلز کی۔بھرمار
یہ نور تھی۔۔
عروج کہاں ہے؟
عروج ۔۔۔واعظہ کا میسج پڑھا۔۔
گروپ میں بےچینی پھیلی تھی
عروج کا۔مختصر۔پیغام تھا جو اس نے واعظہ کا میسج کھول کر جواب دیا۔
اوکے۔۔
۔اسکے بعد خاموشی تھی۔۔۔۔۔
آہ۔۔
فاطمہ کے دل میں درد اٹھا۔۔ بے چارگی سے بڑبڑائی
پریشانی میں تو مجھے اور بھوک لگ جاتی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزہ اور الف سونے لیٹ چکی تھیں۔ وہ اکیلی تھی اس کمرے میں۔ عشنا ابیہا فاطمہ ایک وقت تھا یہ کمرہ چیزوں اور لوگوں سے بھرا ہوتا تھا۔ وہ اپنے بیڈ پر چت لیٹی چھت گھور رہی تھی۔۔۔۔۔
تبھی اسکا موبائل چمکنے لگا۔ حسب عادت سائلنٹ پر تھا۔
اس نے حیران ہو کر دیکھا عروج کالنگ۔
خیریت۔ اس نے فون اٹھاتے ہی پوچھا۔
یار یہ دیکھا میں نے کیا بھیجا ہے ؟
کیا بھیجا ہے۔ اسکے فرشتوں کو خبر نہ تھی۔
ٹھہرو فاطمہ کو بھی لے لوں کال پر ۔۔۔
عروج نے اسے ہولڈ کرادیا۔۔ اسکی اسوقت بریک تھی۔ آرام سے اپنے کیبن میں بیٹھی کانوں میں ہینڈز فری لگا کے وہ فرصت سے کال ملائے بیٹھئ تھی۔
مجھے اس وقت بات کرنے کا دل نہیں۔۔۔۔
واعظہ نے کہنا چاہا مگر ہولڈ کی ریکارڈنگ چل رہی تھی۔
کال کاٹنے لگی پھر خیال آیا۔۔
دوبارہ ملا لے گی کال اس وقت کوئی بات بتانی ہی ہے اسے۔
بڑ بڑاتے ہوئے اس نے فون کا اسپیکر آن کیا اور کروٹ لے لی۔
دوسری طرف ملگجی روشنی میں فریج سے چیز اور ڈبک روٹی نکال کر سینڈوچ بناتئ فاطمہ نے پہلی کال تو کاٹ ہی دی۔ عروج نے ڈھٹائی سے فورا دوسری کال ملائی۔۔ توفون اٹھا کےجھلائی۔
مجھے نہیں بات کرنی جو کہنا عروج میسج کردو۔
اوفوہ رکو دو منٹ میں واعظہ کو بھی لے لوں۔۔
عروج نے کان سے ہٹا کر فون میں کانفرنس کی۔ ادھر حسب عادت فاطمہ شروع تھئ۔سینڈوچ بنا کر پلیٹ اٹھائے وہ وہیں پھسکڑا مار کر بیٹھ گئ۔
کیا ہے یار عروج اس وقت کیوں کال کی مجھے؟ پہلے ہی بہت دکھی ہوں۔بھوکی ہوں۔۔ دکھی بھوکی دونوں ہوں۔۔
کیا ہوا۔ عروج نے کانفرنس ملا دی تھئ ۔۔ واعظہ اسکی بات پر چونکی۔
میری نوکری چلی گئ ملنے سے پہلے اوپر سے سمجھ نہیں آرہا واعظہ کو کیسے بتائوں کہ میں آج گئ ہی نہیں دفتر۔۔۔۔ سیہون نے بھی آج۔۔۔
اب مت سوچو کہ کیسے بتائوں تم اسے ابھی ابھی سب بتا چکی ہو۔
عروج نے ہنسی روک کر کہا۔۔
کیا کیسے؟ فاطمہ چیخی۔
کانفرنس کال چل رہی ہے ایسے۔ عروج نے مزید چڑایا۔
ناممکن۔ کچن کائونٹر کے نیچے بیٹھی دیوار سے ٹیک لگا کر چیز سینڈوچ اڑاتئ فاطمہ کو مزاق لگی یہ بات۔
اگر واعظہ سن چکی ہوتی تو چلا رہی ہوتی مجھ پر دو تین گالیاں بھی دیتی بلکہ فون سے نکل کر چپیڑ بھی لگا دیتی۔۔
اس نے اتنے وثوق سے کہا کہ عروج کو بھی شک گزرا ۔۔
ہے واعظہ سن رہی ہے واعظہ ہماری آواز آرہی ہے ؟ سن رہی ہو ؟
وہ موبائل ہاتھ میں لیکر دیکھنے لگی کہ واقعی کال کٹ تو نہیں گئی مگر واعظہ کی کال ملی ہوئی تھئ۔
اور وہ مٹھیاں بھینچے دانت کچکچا رہی تھی۔
فاطمہ تم سامنے ہوتیں پکا سر توڑ دیتی میں۔ حد ہوتی ہے۔
واعظہ نے ابھی تمہید ہی باندھی تھی کہ فاطمہ نے روک دیا۔۔
ملتجی انداز میں بولی
بس کچھ مت کہنا تمہارا دوست تمہارے حصے کی بھی لعن طعن کر چکا قسم سے زندگی میں کسی کی اتنی باتیں طعنے نہیں سنے ۔۔۔۔ کہتے کہتے یاد آیا۔۔ تو تصحیح کرنے لگی آخر کو قسم اٹھا لی تھئ۔
سوائے پھپو کے۔ جب انکا بیٹا میٹرک کا امتحان دینے ہمارے گھر پورے چھے مہینے رہ کر گیا تھا تو۔۔۔۔
اسکی رام کہانی شروع تھی ۔۔ سینڈوچ چباتے بنا وقفہ لیئے اسکو سننےجانے جتنا حوصلہ واعظہ میں نہ تھا۔ بات کاٹ کر چلائی
فاطمہ کی بچی بکواس بند کرو۔ حد ہوتی ہے لاپروائئ کی جاب پر جانا تھا الارم تو لگالیا ہوتا ۔۔۔۔۔واعظہ کی ڈانٹ
لگایا تھا واعظہ سچی لگا ہوا تھا جبھی دو بجے اس وقت میں اٹھ کر بیٹھئ ہوں۔ اے ایم لگا لیا تھا پی ایم کی جگہ۔۔
آخر میں آواز دھیمی۔
چھوٹے بچے بھئ اب اے ایم پی ایم والی غلطئ نہیں کرتے فاطمہ اورصبح کتنی دفعہ کہا تھا کہ کم از کم دفتر تو جائو مارکر نکال تو نہ دیتے وہ۔ جا کرتو دیکھتی
بتا تو رہی ہوں کہ۔۔ فاطمہ نے کہنا چاہا پھر کھسیا گئ
ہاں جانا چاہیئے تھا مگر وہ کیا بستی کرتے جو کثر سیہون نے پوری کی اتنی باتیں سنائی
میں ہوتی تو پٹائی کرتی تمہاری فاطمہ بچو گی نہیں تم میرے ہاتھوں۔
ان دونوں کی لڑائی میں بے چاری عروج بیچ بیچ میں اچھا سنو ۔۔ میری بات تو سنو ۔۔۔ فاطمہ۔۔۔ یار ۔۔۔ واعظہ کہتے کہتے
ایکدم چلائی۔
مجھے میرے کولیگ نے پرپوز کیا ہے ۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں یوں چپ ہوئیں کہ عروج کو لگا کال۔کٹ گئ ۔۔
ہیلو۔۔ وہ انکی خاموشی پر گڑبڑائی۔۔
سیونگ رو نے؟؟؟
واعظہ لمحہ بھر کے توقف سے پوچھ رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔
جاری ہے
۔۔
No comments:
Post a Comment