قسط 52
تصویریں آگے پیچھے کرتے اسے جانے کتنی دیر گزر چکی تھی۔ اتنی مگن بیٹھی تصویریں دیکھ رہی تھی کہ اسے احساس بھی نہیں ہوا کہ اسے مگن بیٹھے کتنی دیر سے وہ اسکے سر پر کھڑی اسے دیکھ رہی ہے۔
تصویریں کوئی سو ڈیڑھ سو ہوں گی۔ ختم ہوگئیں جب دوبارہ نئے سرے سے شروع کرنا چاہا تو واعظہ ٹوک بیٹھی۔
میں نے اپنی ہی تصویریں اتنے ذوق و شوق سے حفظ کرتے کسی کو نہیں دیکھا۔
واعظہ اطمینان سے اسکے برابر بیٹھتے بولی تو وہ بری طرح چونک سی گئ۔
مانا پیاری آگئی ہیں مگر ایک سو دو تصویریں دوبارہ دیکھنے میں پھر کافی ٹائم لگ جائے گا سو اب پھر دیکھنے کا شوق گھر جا کر پورا کرنا۔
واعظہ نے بات مکمل کی تو وہ جھٹ فون لاک کرکے اٹھ کھڑی ہوئی۔
میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی کہ فارغ ہوجائو تو اکٹھے چلیں گھر۔
جبھئ ای جی کی وین سے منہ چھپا رہی تھیں یہ سوچ کر کہ کہیں اس میں میں نا بیٹھی ہوں۔
وہ کونسا چوکنے والی تھی جتادیا۔
نہیں میں۔ وہ بس۔
اس سے جواب نہ بن پڑا۔
چلو ذرا اکٹھے ہی چلیں گھر۔۔ مجھے تم سے بات کرنی ہے بہت ضرورئ
وہ اپنا بیگ کندھے پر ڈالتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ الف نے ہونٹ بھئنچ لیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی ڈیوٹی آف ہونے والی تھی سو وہ آرام سے وارڈ کا چکر لگا کر اپنے کیبن میں آکر بیٹھی۔ سب سے پہلے لیپ ٹاپ آن کرکے میلز دیکھنی چاہیں۔ میل آئی ہوئی تھی۔۔۔ اس نے دھڑ دھڑ کرتے دل کے ساتھ کھولی۔
امریکی ادارے نے اسکی درخواست منظو رکر لی تھی۔ وہ اسپیشلائزیشن اب امریکہ سے کر سکتی تھی تاہم ٹیوشن فیس میں اسے پچاس فیصد کی ہی بس رعائیت دیی گئ تھی۔ اسکے لیئے یہی بہت تھا۔
بہت بڑی خوشی اچانک مل جائے تو کیا کرنا چاہیئے۔ اس نے ایک نظر اپنے گرد ڈالی۔ اسکا دل چاہ رہا تھا کہ ناچنا شروع کردے۔ مگر یہاں اس وقت یقینا خوشی ایسے نہیں منائی جا سکتی تھی۔
شکر الحمداللہ ۔ اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔
اپنے ہاتھ دعا کی طرح پھیلا کر اس نے دل سے اللہ کا شکر ادا کیا ۔ آنکھوں میں آنسو بھرنے لگے تھے۔ اس نے اپنی ہتھیلیوں میں چہرہ چھپا لیا۔ الحمد اللہ۔ بس یہی تکرار اسکے لبوں پر جاری تھئ۔
تبھئ کھٹکے پر اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا تو چونک کے سیدھی ہوئی۔
ڈاکٹر دعا جانے کب خاموشی سے آکر اسکی میز کے سامنے آکھڑی ہوئئ تھی۔
کین چھنا؟۔۔ وہ فکرمندی سے پوچھ رہی تھی۔
دے۔ وہ ہنس دی۔ ماسک کے پیچھے سرخ ہوتی آنکھیں وہ سچ مچ خوشئ سے رو پڑی تھی
پھر رو کیوں رہی ہو؟ اسکا انداز ہنوز تھا۔ اس نے بنا کچھ کہے لیپ ٹاپ کا رخ اسکی جانب کردیا۔ اس نے الجھن بھرے انداز میں میل پڑھی پھر اسکی شکل دیکھنے لگی۔
مجھے اسکالر شپ مل گئ ہے میں امریکہ جارہی ہوں۔ اف میرا خوشی سے برا حال ہے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی آخری حل میرے پاس یہی تھا کہ ناروے والی اسکالر شپ لے لوں مگر اسکے لیئے جواب دینے سے پہلے یہ میل آگئ اف خدا میں بہت خوش ہوں۔
وہ بے ربط مگر تواتر سے بول رہی تھی خوشی کے مارے تالی تک بجا لی تھی۔ اس وقت سامنے فاطمہ واعظہ وغیرہ میں سے کوئی ہوتی تو پکا وہ چمٹ چکی ہوتی اس سے مگر کورینز فاصلہ پسند کرتے ہیں۔ دعا سے اسکی اچھی سلام دعا تھی مگر وہ اس سے لپٹ نہیں سکتی تھی۔ میل پڑھتے اسکے تاثرات واضح طو رپر کڑوے ہوتے گئے۔ مسکراہٹ غائب ہوگئ
تو تم نے بھی امریکہ ہی جانا ہے۔ اسکے جوش بھرے انداز
کے برعکس اسکا انداز کافی سرد تھا
ہاں شکر ہے ورنہ مجھے ناروے جانا پڑتا ۔ عروج نے ناک چڑھائی۔ میز پر سے ٹشو نکال کر وہ ماسک ہٹا کر چہرہ صاف کرنے لگی۔ کاجل ہلکا ہلکا پھیل سا گیا تھا۔
تم پھر بھی امریکہ ہی پہنچ جاتیں۔خیر میں یہ پیشنٹ کی فائل دینے آئی تھئ۔ سر جون کو رپورٹ کردینا۔ تمہارےڈیوٹی ختم ہونے کے۔ بعد انکی ہی ذمہ داری ہوگی اس وارڈ کی۔
وہ فائل رکھ کر مڑی ہی تھی کہ عروج نے آواز دے ڈالی
دعا۔ کیا کھائوگی آج کی ٹریٹ میری طرف سے۔
وہ پرخلوص انداز میں دعوت دے رہی تھی۔
کیا کھلائوگی ؟ پورک بیلی کھلائوگی ؟
وہ مڑ کر استہزائیہ انداز میں بولی
ہاں کھلادوں گی۔ اس نے آرام سے کہا۔ اور چیزیں سمیٹتی اٹھنے لگئ۔
کیوں ؟ سیونگ رو کے پیچھے لادین ہونے لگی ہو؟ مسلمان تو پورک سے دور بھاگتے ہیں ہیں نا؟ اب پورک کھانا جائز ہوگیا تمہارے لیئے؟
سینے پر بازو لپیٹتی وہ سخت تنفر سے بولی۔
میں نے تمہیں ٹریٹ دینے کیلئے کہا تھا یہ نہیں کہا کہ میں بھی تمہارے ساتھ پورک کھائوں گئ اور اس سب کے بیچ میں سیونگ رو کہاں سے آگیا؟
عروج چاہتے ہوئے بھئ اپنے لہجے پر قابو نہ پاسکی
یہ تو تم مجھے بتائو۔ جب میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم سیونگ رو کو پسند کرتی ہو تو تم نے صاف انکار کیا تھا یاد ہے۔؟
وہ اسے وہ دن یاد کرارہی تھی جب اسکے یوں اچانک پوچھنے پر وہ حیرت سے جم سی گئ تھی۔
سائرن بجتے اسکا ذہن ایکدم مائوف سا ہوا تھا۔
میں پوچھ رہی ہوں کیا تم سیونگ رو سے محبت کرتی ہو؟
دعا اسکے بالکل مقابل آکھڑی ہوئی تھی۔
نہیں تو۔
اس نے لمحہ بھر کا توقف بھی نہیں کیا تھا۔اسکے یوں فوری جواب پر وہ ڈھیروں اطمینان دعا کے چہرے پر آجھلکا تھا۔
وہ تمہیں اگرپرپوز کردے تو؟ وہ جانے کیا جاننا چاہ رہی تھی۔
تو میں انکار کردوں گی۔ اول تو ہم بس دوست ہیں دوسرا وہ بڈھسٹ ہے میں مسلمان ہماری شادی ہوہی نہیں سکتی۔ اس نے اطمینان سے کہہ کر لیب کوٹ پہنا اور اسٹیتھسکوپ گلے میں ڈال کر جانے کوتیار ہوگئ۔
ایمرجنسئ کیسز ہیں ڈیوٹئ پر موجود ڈاکٹرفورا ایمرجنسی مین آئیں۔
انائونسمنٹ جاری تھئ۔
کیوں؟
دعا نے بے تابی سے پوچھا
پہلے ڈیوٹی پر رپورٹ کرلو یہ فالتو باتیں بعد میں کرنا۔
وہ ناگواری چھپاتے اسے ٹوک کر جلدی سے دروازے کی۔جانب بڑھ گئ تھی۔
اس وقت تو ایمرجنسی کی وجہ سے بات آئی گئ ہوگئی مگر اس وقت وہ جس طرح جرح کر رہی تھی عروج ساکت سی اسکی شکل دیکھنے لگی
پھر اب کیوں اسکے پیچھے امریکہ جا رہی ہو؟ انسان میں کم ازکم اتنی شرافت ہونی چاہیئے کہ سچ کا سامنا کرے جھوٹ نہ بولے۔ اسکی خاموشی پر وہ جیسے بھڑک اٹھئ تھئ
کیا بکوا س کر۔رہی ہو؟ میں نے کیا جھوٹ بولا؟ عروج کو اسکی بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔
تم دونوں ساتھ تھے مگر تم دونوں نے مجھ سے جھوٹ بولا۔ صاف کہتے کہ تم دونوں ساتھ ہو۔ میں کبھی اتنی امیدیں نا پالتی۔ تم دونوں نے مجھےبے وقوف بنایا۔ بولتے بولتے اسکی آواز بھرا سی گئ۔
اور میں۔ سب چھوڑ چھاڑ کرجارہی تھی۔۔ وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رو پڑی۔
کیا مطلب کیا کہہ رہی ہو؟ عروج کو اسکی ایک بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔کہاں لڑنے کے موڈ میں تھی کہاں اب رونا شروع کردیا۔
کیا ہوا ہے ؟ مجھے بتائو۔
اس نے پاس آکر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھنا چاہااس نے تنفر سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔ اپنے پرس میں سے ایک خط نکال کر دو ٹکڑے کیئئے اور وہیں فرش پر پھینک کر روتی ہوئی باہر نکل گئ۔
دعا۔۔ اس نے پکارنا چاہا مگر وہ رکی نہیں اس نے ایک نظر اسے جاتے دیکھا پھر جھک کر اسکا پھینکا ہوا لیٹر اٹھا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واصف کو دیکھتے ہی فاطمہ نے یہی کہا کہ وہ جچے گا تمہارے ساتھ۔
بس کے پائیدان پرقدم رکھتی الف اور اسکے ہم قدم واعظہ خود کار ریکارڈ کی طرح بجتئ ہوئی۔
شکل و صورت تو خیر اچھی ہے ہی مگر کوالیفائڈ انجینئر ہے۔ ڈیڑھ لاکھ تنخواہ ۔۔ گو اس پر مجھے اور فاطمہ دونوں کو شک ہوا کہ انجینئر اور برسرروزگار تو ہے ہی اوپر سے اتنی تنخواہ؟؟؟ مگر کوئی تنخواہ بڑھا کے کیوں بتائے گا عموما عمر اور تنخواہ لوگ گھٹا کے ہی بتاتے ہیں۔
رنگوں روشنیوں سے جگمگاتی شہر کی پرورنق سڑکیں نیون سائنز کی جگمگ کرتئ روشنیاں دکانوں کی پیشانی پر سجی ہنگل میں تحریریں وہ سڑک پر ایک کنارے بیٹھی بلی کو دم ہلاتے دیکھ کر چونکی ۔ بس کی رفتار تیز تھی وہ مڑ مڑ کر اس بلی کو دیکھ رہی تھی۔ بس کی کھڑکی کے پاس بیٹھنا اسے اسی لیئے پسند تھا ۔ باہر کے دلفریب نظارے۔۔ واعظہ اسکے برابر ہی بیٹھی تھی۔
اوپر سے اکلوتا بیٹا۔ نا بہن نا بھائی۔ ابا بھی نہیں ہیں۔ مطلب یہاں نہیں ہیں۔ یہاں مطلب پاکستان میں نہیں۔ جدہ میں ہوتے ہیں۔ جبھی بیٹے کو انجنیئر بنوا دیا بھئ۔ واہ۔
انکا اسٹاپ آگیا تھا۔ دونوں آگے پیچھے اتری تھیں۔ فٹ پاتھ پر رش نہیں تھا۔ اپنی گلی تک مڑتے وہ ایک ایک دیوار کنارے لگے پودے پتھر کو دیکھتئ آئی تھی۔
اور تو اور گھر بھئ بنوا دیا ہے پورے دس مرلے کا مکان ہے انکا وہ بھی آسٹریچ میں۔ آسٹریچ عجیب نام لگا مجھے بھلا وہاں کیا آسٹریچ کے فارم ہیں جو ۔۔۔
ویسٹریج نام ہے جگہ کا۔ اس نے جھک کر اپنے جوتے کے تسمے دیکھے پھر وہیں اکڑوں بیٹھ کر باندھنے لگی
ہاں ویسٹریج۔ آسٹریچ کہاں سے ذہن پر سوار ہوا میرے۔ وہ سوچ میں پڑی پھر سر جھٹک کر بولی
خیر اب وقت آگیا ہے کہ تمہیں خود جھک کر اپنے جوتے کے تسمے باندھنے کی زحمت نہ کرنے دی جائےاور ایک ہینڈسم انجنئیر تمہارے جوتے کے تسمے باندھ دیا کرے۔
ہینڈسم انجینئر۔ الف استہزائیہ ہنسی۔۔ اور سیدھی ہو کھڑی ہوئی
میرے جوتے کے تسمے باندھنے کی بجائے وہ اپنے جوتے مجھ سے پالش کروانے کے خواب دیکھ رہا ہوگا۔
اس ساری تفصیل میں یہ بھی شامل کرلو یہ واصف میرے سگے ماموں کا بیٹا ہے۔ ایک نمبر کا غصہ ور کمینہ بچپن میں ہم سب بچوں پر خوب رعب جماتا رہا ہے ہمیں تھپڑ مار کے اور میری تو پونی کھینچ کر بھاگ جایا کرتا تھا ہم سب تنگ تھے اس سے۔
بھنا کر وہ اتنے غصے سے بول رہی تھی کہ گردن کی رگیں تن گئ تھئں۔
ہاں یہ بھی بتایا تھا تمہاری امی نے بھول۔گئ تھی میں۔ واعظہ نے کان کھجایا
مگر وہ بچپن کی بات ہے تمہاری امی کہہ رہی تھیں تم بچپن کی بات دل سے لگا کر انکار کررہی ہو ۔اب تھوڑی وہ بال کھینچ کے بھاگا کرے گا۔ مطلب بال نہیں کھینچے گا ویسے پاکستانی لڑکوں کا بھروسہ بھی کوئی نہیں۔وہ آخر میں بڑبڑاہٹ پر اتر آئی تو الف کے تلوے سے لگی سر پر بجھی۔
کسی کے باپ میں جرات نہیں کہ مجھے ہاتھ لگائے منہ نہ توڑ دوں بال کھینچنے والے کا۔ اور بات سنو تم کون ہوتی ہو مجھے سمجھانے کا بیڑا اٹھانے والی ؟ بولو؟ کیوں میری امی سے بات کی اپنے کام سے کام رکھا کرو نا۔
الف کے یوں بھڑک اٹھنے وہ پر چپ ہوکر بغور اسے دیکھنے لگی۔ طیش سے منہ سرخ ہوچلا تھا۔۔
کیوں انکار کر رہی ہو؟ پھر ؟ اسکا انداز الف بالکل برعکس اطمینان بھرا تھا
میری مرضئ۔ وہ مزید تپ گئ ۔
جو بھی وجہ ہو میں صاف انکار کر چکی ہوں امی کو میں پھر بھی انہوں نے تمہیں فون کرکے مجھے منانے کا ٹاسک دے ڈالا اور تم میری روحانی امی ٹاسک پورا کرنےچلی آئیں ۔
اپنے لانگ ٹاپ کی آستینیں باقائدہ چڑھا لی تھیں اس نے۔ فیڈڈ جینز لانگ گرے ٹاپ میں گرے ہی اسکارف پہنے وہ غصے سے لال ہوئی وی تھئ۔
مجھےایک بات بتائو اتنی پرسکون زندگی کیسے ہے تمہاری ؟ کوئی اپنا ذاتی مسلئہ پریشانی نہیں لاحق کوئی فکر نہیں تمہاری زندگی میں کہ تم دوسروں کے مسلوں میں ٹانگ اڑانے پہنچ جاتی ہو۔۔۔ فاطمہ عروج وغیرہ کو تمہاری اس ہمدردی یا توجہ کی ضرورت ہوتی ہوگئ انکے مسلئے شوق سے حل کرو مگر میرے معاملوں میں ٹانگ نہ اڑایا کرو۔ سمجھیں۔
الف حلق کے بل چلا رہی تھی۔ واعظہ کو یکدم ہی ٹھنڈک سی محسوس ہوئی۔ الف کے برعکس وہ پلین لانگ اسکرٹ میں ملبوس تھئ۔ اس وقت ہوا سے اسکا لباس سرسرارہاتھا رگ و پے میں سخت ٹھنڈک کی لہر دوڑ رہی۔تھی۔ اس نے ہلکی سی جھرجھری سی لی
میری شادی ہو نہ ہو واصف سے ہویا گنگو تیلی سے تمہیں کیا۔ میری امی تمہیں ہر دوسرے دن فون کرتی ہیں تو تم اٹھاتی کیوں ہو بلیک لسٹ میں ڈالدو نمبر مت فون اٹھائو۔ جو مرضی آئے کرو مگر میرا دماغ خراب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھیں۔
اسکو چکنا گھڑا بنے سنتے دیکھ کر وہ مزید بھڑک کر پیر پٹخ کر بولی۔ واعظہ چپ چاپ دیکھتئ رہی۔ اس نے چند لمحے تو واعظہ کے ردعمل کا انتظارکیا پھر تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کی طرف بڑھ گئ۔
سڑک کنارے نیم اندھیرے موبائل کی ٹون پھر بج اٹھی تھی۔اس نے گہرا سانس لیکر پرس سے فون نکالا۔
الف کی امی کی ہی کال تھی۔
اس نے چند لمحے سوچا پھر کال کاٹتے کاٹتے بھی اٹھا لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام و علیکم۔۔ عروج ابھی ابھی واپس آئی تھی حسب عادت زور دار سلام جھاڑتئ اندر آئی۔ عزہ طوبی عشنا لائونج میں پھسکڑا مارے بیٹھی چپس اڑاتے ہوئے گپیں لڑا رہی تھیں۔ تینوں بچے خاموشی سے بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے جسکی آواز بند تھئ۔
آئو عروج ابھی ابھی چپس بنائے ہیں۔عزہ نے شکل دیکھتے ہی آواز لگائی
آتی ہوں۔ وہ ٹالتی ہوئی کمرے میں گھس گئ۔
عروج اور چپس کو ٹال گئ۔ قیامت کے آثار ہیں۔ طوبی کو حیرت ہوئی۔
کوئی مردہ چیر پھاڑ کر آئی ہوگی۔ نہا کے ہی آئے گی کھانے۔
عشنا نے وثوق سے کہا تھا۔مگر جملہ ختم ہوتے ہی سے عروج کمرے سے برآمد ہوگئ ۔ لیب کوٹ پرس اندر رکھ کر شائد بس ہاتھ دھو کر ہی آئی تھئ۔ہاتھ گیلے تھے جنہیں جھٹکتی وہ بھی انکے برابر پھسکڑا مار کر بیٹھ گئ۔منی میز پر ٹرے بھر کر چپس رکھے تھے ساتھ ایک پیالی میں کیچپ بھی تھا۔ اس نے جھٹ دوتین اکٹھے اٹھا لیئے۔
نہا تو آئو مردے کو ہاتھ لگا کر آئی ہو۔طوبی ٹوکے بنا نہ رہ سکی
کونسا مردہ۔ وہ تیز تیز چپس چبا رہی تھئ۔ عشنا اور عزہ ہنسنے لگیں
مزاق کر رہی تھی عشنا طوبی جی۔
کیسا مزاق۔ عروج کو اپنے آپ پر حیرت ہوئی
عشنا کہہ رہی تھئ تم نہا کے آئوگی کیونکہ مردے کو ہاتھ لگا کے آئی ہو۔
طوبی نے وضاحت کی۔
ہیں عشنا کو کیسے پتہ لگا؟ آج ویسے دو کیس تھے جنکی ڈیتھ ڈکلیئر کرنی پڑی مجھے۔
وہ کافی تیزی سے منہ چلا رہی تھی۔طوبی نےجو چپس منہ میں بھر لیئے تھے انہیں چبانا بھول گئ
اوہو وہم نہ کریں ہاتھ دھو کے ہی آئی ہے۔ نماز پڑھتے وقت نہا لے گی آپ آرام سے کھائیں۔
عزہ نےتسلی دی تو اس نے چبانا شروع کر ہی دیا
ویسے یہ محفل کیوں سجی ہوئی ہے۔ عروج نے برسبیل۔تذکرہ ہی پوچھا تھا
ہم الف کا شو سننے بیٹھے تھے سیہون اور ای جی آ آئے تھے اتنئ زبردست کمپیئرنگ کی واعظہ نے سیہون تو ہنس ہنس کے پاگل ہورہا تھا اتنا مزا آیا۔
عزہ نے جوش سے چپس چھوڑ چھاڑ اسے رام کہانی سنائی
کیا مطلب الف کا شو۔ اور واعظہ کی۔کمپیئرنگ کر رہی تجی؟
عروج کو۔سمجھ نہ آیا
ہاں۔واعظہ نے ہی ایک طرح سے شو کیا الف تو بولی۔ہی نہیں۔ بس ایک دو بار واعظہ کے بلانے پر بولی پھر خاموش رہی۔
عشنا نے اسکو سمجھانا چاہا۔عروج حیرت سے چپس چھوڑ کر سر کھجانے لگئ۔
آج کوئی بات پہلی دفعہ میں ہی پلے کیوں نہیں پڑ رہی ہے میرے۔
یار واعظہ بھی گئ تھی الف کے شو میں آجکل واعظہ ای جی کی مینجر بنی ہوئی ہے نا۔اور اچھا ہوا واعظہ چلی گئی ورنہ جانے کیا ہوتا الف کو دیکھا ہے نا آجکل کیا ہوا وا چڑچڑی ہوئی وی ہےگھر میں کاٹ کھانے کو تو دوڑتی ہے آج توحد ہی کردی ایک لفظ پورے شو میں بول کے نہ دی سارا شو واعظہ نے کیا بیچ بیچ میں واعظہ بولنے کو کہتئ تو بس ہوں ہاں کرکے چپ پکا اسکی نوکری گئ میں تو۔۔۔
عزہ نے بولتے بولتے یونہی نظر اٹھائی تو الف کو سامنے کھڑا پایا۔۔ پہلی دفعہ اس نے یوں اسکے رویئے پر تبصرہ کیا تھا اور الف نے سن بھئ لیا۔ باقی جملہ وہ منہ میں ہی رکھ گئ۔
اسکو اچانک خاموش ہوتے دیکھ کر تینوں نے مڑ کر دیکھا اور چپ ہی رہ گئیں۔
تم لوگ سن رہے تھے میرا شو۔ ایسے تو میں کہتی رہتی تھی کوئی سنتا نہیں تھا۔
اس کا شکوہ بجا تھا مگر انداز بنا کوشش کے ہی طنزیہ ہوا تھا۔
ہاں وہ تم بتا رہی تھیں کہ یہ آخری شو ہے اسی لیئے ہم نے سوچا ہم تو فون بھئ کرتے مگر ۔۔ ۔۔۔ عشنا نے بات سنبھالنے کی نیت سے کہا تھا مگر وہ جانے کیوں چڑگئ۔
ہاں تو کیا کیوں نہیں فون؟ یہ سب تبصرے فون کرکے پورے کوریا کو سنانے تھے نا۔۔
کیا ہوگیا ہے الف؟ کیوں اتنا چڑی ہوئی ہو؟
طوبی حیران ہوتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
ہاں میں چڑچڑی ہوں دماغ خراب ہوا وا ہے میرا تم سب ہوش مند ہو بس۔
وہ کہتئ پیر پٹختی اندر جانے لگی تو طوبی نے ہاتھ پکڑ لیا۔
کیا بات ہے کس وجہ سے پریشان ہو؟ میں کئی دن سے دیکھ رہی ہوں تم نا ان سب کے ساتھ بیٹھتی ہو نا بات کرتی ہو؟ ہمیں یہی لگا تھا شو کی وجہ سے پریشان ہو مگر آج واعظہ نے سنبھال تو لیا شو بھی ہوگیا اب کیا مسلئہ ہے؟
طوبی کا انداز ناصحانہ ہرگز نہیں تھا بے حد محبت سے فکرمند انداز میں پوچھ رہی تھی۔الف کے تنے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے۔
عشنا اور عزہ دونوں ان دونوں کی جانب ہی متوجہ تھیں عروج نے تیزی سے ہاتھ منہ چلانا شروع کردیا۔ الف نے لابی میں سے واعظہ کو آتے دیکھا تو غصہ پھر عود آیا۔
ہاں شکر گزار ہوں میں اس دیوی کی بہت بڑا احسان عظیم کردیا ۔۔
اس نے باقائدہ واعظہ کی جانب اشارہ کرکے کہا
اس نے میری ذات پر مگر میں احسان رکھوں گی نہیں تنخواہ آئے گئ تو پوری دے دوں گی تمہیں۔
۔ وہ چبا چبا کر کہتی بازو چھڑاتئ کمرے میں بند ہوگئ۔ طوبی نے مڑ کر دیکھا تو واعظہ شائد ابھی ابھی آئی تھی لاوئنج میں داخل ہوتے قدم روکے سن رہی تھی۔
طوبی خفت سے کھڑی کی کھڑی رہ گئ۔
اسکا تو بالکل دماغ خراب ہوگیا ہے۔ عزہ نے تاسف سے سر جھٹکا۔ عروج بے نیازی سےٹرے خالی کر رہی تھی۔
میرا خیال ہے میں گھر چلتی ہوں اب۔ طوبی نے جھک کر صائم کو گود میں اٹھایا زینت اور گڑیا فورا اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔
آپ کیوں جا رہی ہیں۔ بیٹھیں آرام سے گھر صرف اسکا نہیں ہے۔عروج نے روکنا چاہا
نہیں بس ویسے بھی چپس بہت کھالیئے اب رات کو کھانا نہیں کھایا جائے گا چلتی ہوں وہ پھر رکی نہیں بچوں کو لیکر چلی گئ۔ واعظہ نے ذرا سا ہٹ کر اسے راستہ دیا۔
آئو واعظہ چپس کھالو۔ عزہ نے پکارا تو وہ نرمی سے منع کر گئ
نہیں شکریہ تم لوگ کھائو۔ وہ اپنا بیگ سنبھالتی اپنے کمرے میں گھس گئ۔
واعظہ بھئ خفا ہوگئ ہیں؟ عشنا نے خیال ظاہر کیا۔
نہیں اسے آلو پسند ہی نہیں ہیں کم کم ہی چپس کھاتی ہے۔ عروج ہاتھ جھاڑتی اٹھ کھڑی ہوئی ارادہ خوب نہانے کا تھا۔
کاش تمہیں بھی ناپسند ہوتے۔ عزہ نے حسرت سے خالی ہوتی ٹرے کو دیکھا پھر اسے اپنے قبضے میں کرلیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بیزاری سے ایک جانب منہ بنائے بیٹھی ان سب کو گھور رہی تھی۔ جانے ان کورینوں کو پی کے ٹن ہونے کا کیا شوق تھا۔وہ سب کمپنی کی جانب سے ڈنر پر آئے تھے۔ پوری کاسٹ اور ٹیم کے چیدہ چیدہ ارکان تو آئے ہی تھے ان دونوں کو بھی خاص کر بلایا گیا تھا تاکہ مترجم کے فرائض نبھا سکیں۔ وہ تو آکر ایک کونا سنبھال کر بیٹھ گئ۔خالص کوریائی ثقافت کا ان سب کو نظارہ کرنا تھا سو اس مشہور زمانہ ریستوران کاانتخاب کیا گیا جس میں نا میزیں تھیں نا کرسیاں فرشی نظام تھا چھوٹی چھوٹی چوکیاں رکھی تھیں۔سب کے آگے مرغن مرغ اسٹیک ، پورک اور نوڈلز سوپ کے ساتھ رکھے تھے۔ ان سب کی خوشبوئوں نے اسکے سر میں درد کردیا تھا۔ اس نے اپنے لیئے خاص سبزیوں کا سوپ منگوایا تھا جس میں نوڈلز تیر رہے تھے اور ٹوفو بھی۔ مگر مجال ہے اسکا ایک لقمہ لینے کا بھی دل کیا ہو۔اس نے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیر کر کچھ فاصلے پر بیٹھے لوگوں کو اسٹیک اڑاتے دیکھا وہ ناقدرے دعوت چھوڑ چھاڑ سوجو
پر شرطیں لگا رہے تھے۔ بوتلیں کھل رہی تھیں۔
مصری فنکار مکمل کوریائی ماحول میں مدغم تھے۔
کھاوا عبداللہ کے ساتھ ہی۔بیٹھا تھا۔عبداللہ نے چھوٹا سا گلاس بھر کر اسکی جانب بڑھایا وہ نا نا کر رہا تھا مگر عبداللہ نے اسکے منہ میں ڈال ہی دیا۔
فاطمہ کو گھن ہی آگئ۔
توبہ ہے۔ ڈھائی سال ہورہے مجھےیہاں رہتے مجال ہے کبھی سوجو کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو مگر صحیح بات ہے سب اصول لڑکیوں کیلیے ہی ہیں۔ وہ تائو کھارہی تھی۔
غصے میں کڑوا کسیلا ٹوفو اٹھا کر منہ میں رکھ لیا۔ کانٹا پلیٹ میں رکھ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ کہیں تھوکنے کی جگہ ہی نہ تھی۔
ایسے موقعوں پر پاکستان کیسا یاد آتا ہے۔ آرام سے الٹی ہی کردینی تھی میز کے نیچے میں نے۔ اس نے حسرت سے لکڑی کے اس فرش سے بمشکل ایک ڈیڑھ بالشت اونچی اس چوکی کو دیکھا۔ چارو ناچار نگلنا پڑا۔
عجیب بے چاری شکل بنی تھی کہ کیا تھا کھاوا کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آگئ۔ سفید سوڈے کی بوتل اسکے سامنے رکھتے اس نے ذرا سا کھنکھارا تو وہ چونک کرسر اٹھا کے دیکھنے لگی۔ اس نے بوتل آگے بڑھا دی۔ فاطمہ کو غنیمت لگا فورا دو گھونٹ لیئے تب منہ کا ذائقہ بدلا۔
میرا وہاں پورک کی بوسے دل متلانےلگا تھا تو سوچا ادھر آپکے ساتھ بیٹھ کر کھا لوں۔ بیٹھ جائوں۔
وہ معصومیت سے کہتا اسکے بالکل سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا تھا
آپ بیٹھ چکے ہیں۔ فاطمہ نے چڑ کر کہا تھا۔
اوہ ہاں۔ وہ جیسے کھسیایا۔ مگر ڈھیٹ بنا اپنی اسپگیٹی کی پلیٹ جو وہ لبا لب بھر کے لایا تھا تھوڑا سا آگے کھسکا کے رکھی۔
یہاں یہ ڈش پیور ویجیٹیرین ہے ذائقہ بھی اچھا ہے چکھو ۔ اتنی بیزاری سے سوپ کو گھور رہی ہو سوپ ویسے ہی کڑوا ہوچکا ہوگا۔
وہ چاپ اسکٹکس پھیر کر مٹر شمہ مرچ بند گوبھی اور مشرومز دکھا رہا تھا۔۔
فاطمہ نے ایک نگاہ اسکی رنگ برنگی خوب مصالحے دار ڈش کو دیکھا پھر خاموشی سے اپنا سوپ کا پیالہ اپنی جانب کھسکا لیا۔
یہ نئی چاپ اسٹکس لیکر آیا ہوں ویسے بھی مجھ سے چاپ اسٹکس استعمال نہیں ہوتیں۔
اسے یہی لگا شائد وہ جھوٹا ہونے کی وجہ سے نہیں کھا رہی۔
فاطمہ نے ترچھی نگاہ سے دییکھا تو وہ قسم کھانے لگ گیا۔
قسم لے لو۔ وہاں بیٹھا ضرور تھا مگر کھا پی نہیں رہا تھا یہ ڈش ابھی ویٹر نے لا۔کر رکھی میں اٹھا کر تمہارے پاس چلا آیا۔ عبداللہ سے معزرت کرکے۔ وہاں بیٹھ کر سبزیاں کھانا مشکل کام ہے بھنے پورک کی بو ہی بہت تیز ہے بھئی۔ ایویں بندہ دیکھنے لگ جاتا۔
اس نے یقین دلانا چاہا۔تو فاطمہ کہے بنا نہ رہ سکی۔
ویسے شراب تو پی ہی لی پورک بھی چکھ لیتے کوئی حسرت نہ رہ جاتی کوریا میں رہ کر یہ کام نہیں کیا۔
ارے ۔ وہ بے ساختہ ہنسا۔
قسم لے لو نگلی نہیں سوجو کی خالی بوتل میں تھوک کر آیا ہوں۔ایک منٹ۔ اسے خیال آیا مڑ کر دیکھا وہ سب پارٹی کرنے میں مگن تھے۔عبداللہ میز کے برابر رکھی اس سوجو کی بوتل کو ہنستے ہوئے اٹھا رہا تھا۔
نہیں۔۔۔۔ اسکے حلق سے چیخ کی۔بجائے ہلکی سی سرگوشی نکلی۔لمحے بھر کا وقفہ کیئے بنا وہ چیل کی۔طرح جھپٹا مارنے بڑھا سلو موشن میں عبداللہ جس سوجو کی بوتل کو اٹھانے ہی لگا تھا جب ناگہانی آفت کی طرح کھاوا اڑتا ہوا اس پر آن گرابوتل اسکے ہاتھ سے چھین کر اس نے اپنے قبضے میں کی تھی۔
اس منظر کو پلکیں جھپکے بنا دیکھتی فاطمہ ساکت ہی تھی اس نے مڑ کر فاتحانہ انداز میں بوتل لہرائی۔فاطمہ کا منہ ذرا سا کھلا تھا۔۔
وہ بھری ہوئی سوجو کی بوتل تھی۔ یقینا کھاوا والی بوتل دوسری تھی۔۔۔ جشن مناتے کھاوا نے بھی سٹپٹا کر بوتل کو دیکھا عبداللہ اسکا شانہ ہلا کر اس بے مقصد اچھل کود کی وجہ پوچھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
جاری ہے۔
No comments:
Post a Comment