نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایک سفر اختتامی حد تک



ایک سفر اختتامی حد تک 
قسمت کی دوڑ
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک کوا ایک کتا ایک لومڑی اور ایک شیر 

نے خرگوش اور کچھوے کی منعقد کی گئی دوڑ میں حصہ لیا 
ابھی دوڑ شروع ہی ہوئی تھی کوا پانی کی تلاش میں اڑ گیا کتا بھوکا اور لالچی تھا تو اس نے دوڑ چھوڑی
اور قصائی کی دکان ڈھونڈنے نکل پڑا
لومڑی کو کھٹے انگوروں میں زیادہ دلچسپی تھی اس دوڑ سے 
بولی میں میٹھے انگوروں کی تلاش میں جا رہی تم لوگ لاگو دوڑ
ان سب کی باتیں سن کر شیر نے سوچا میں تو پہلے سے ہی جنگلے کا بادشاہ ہوں تو اگر میں ہار گیا تو سب احمق جانور میرا مزاق اڑائیں گے اور جانوروں پر میرا رعب بھی کم ہو جائیگا 
اس نے گلہ کھنکارا
بولا میں چوں کہ سب سے زیادہ بڑے عہدے پر ہوں تو میں منصف کے فرائض انجام دیتا ہوں 
خرگوش اور کچھوا حیران پریشان دیکھ رہے تھے یہ کیا ہو رہا ہے 
خیر دونوں نے فیصلہ کیا کہ دوڑ مکمل کرتے ہیں 
ایک 
دو 
تین 
شیر نے کہا تو دونوں نے گنتی کے بعد دوڑنا شروع کردیا 
کچھوا تھوڑا سست تھا دوسرا جانتا تھا اگر بھاگ بھی لے تو ہار جائےگا خرگوش سے 
اس نے ٹہل ٹہل کر سست روی سے اپنا سفر شروع کیا اور اپنی چال سے لطف اٹھاتا سفر کا مزہ لینے لگا
ساتھ ساتھ ہی اپنا سارا تجربہ لکھنا بھی شروع کردیا
جو دیکھا جو محسوس کیا جتنا خوبصورت ماحول ٹھنڈی ہوا حسین منظر دلکش  موسّم آب و ہوا کے مزے  لیتا لکھتا لکھاتھا جب اختتامی حد تک پہنچا تو حسب توقع ہر کوئی اس سے پہلے اختتامی حد کو پہنچ چکا تھا وہ سب سے آخری تھا
کوے نے  ایک ٹپکتی ٹونٹی سے پانی پی کر پیاس بجھائی اور سوچا کیوں نہ اپنی دوڑ بھی مکمل کر لوں 
لومڑی اچھل اچھل کر انگور کی اونچی سی بیل سے انگور کا گچھا توڑنے کی کوشش کرتی رہی پھر انگور کھٹے ہیں کہ کر مایوس ہو کر لوٹنے ہی والی تھی کہ ایک بندر جو پاس سے گزر رہا تھا اسے ترس آیا اس نے اس درخت پر جس سے بیل لپٹی تھی  چڑھ کر اسے ایک گچھا توڑ دیا اس نے مزے لے کر کھایا پھر سوچا چلو دوڑ بھی اب مکمل کر لوں یوں وہ بھی دوڑ مکمل کرنے آگئی
کتے کو قصائی نے بڑا سا گوشت کا ٹکڑا تھما دیا تھا ارد گرد کوئی دریا بھی نہیں تھا اس نے وہیں بیٹھ کر پیٹ بھرا مگر لالچی تو تھا سوچا دوڑ بھی مکمل کر لے کچھ انعام ہی مل جایے گا سو وہ بھی دوڑ مکمل کرنے لگا
خرگوش جو سب سی زیادہ پرجوش تھا اور اس کو بوہت شوق بھی تھا اس دوڑ کو جیتنے کا اس نے بھی دوڑ مکمل کی تھی وہ سب سی پہلے بھاگ کر پوھنچا تھا مگر باقی جانوروں نے اسکا یقین نہیں کیا سب جانوروں نے فیصلہ کیا کہ شیر سے منصفی کر وا لیں 
شیر سویا پڑا تھا 
دیکھو ذرا منصف کو اس دوڑ میں دلچسپی خاک پتھر بھی نہیں تھی آرام سی سو گیا 
جانوروں نے جگایا اسے تو آنکھیں مل کر بولا پچھلی بار کون جیتا تھا؟
سب نے بتایا تب تو کچھوا جیتا تھا مگر تب ہم دوڑ کا حصہ نہیں تھے 
شیر نے کوئی توجہ نہیں دی رعب سے بولا 
میں منصف ہوں میں فیصلہ کرتا ہوں کچھوا چوں کہ پہلے جیت چکا ہے تو وہی اصلی فاتح ہے 
جانور اس فیصلے سی مطمئن نہیں تھے مگر سب شیر سے ڈرتے تھے 
اس فیصلے کو مکمل طور پر غیر مصنفانہ سمجھتے ہوئے بھی اپنی شکست تسلیم کر لی 
کچھوا کہاں ہے مجھے اسے فتح کا نشان دینا ہے ؟
شیر نے فاتح کا نشان ایک جڑی بوٹیوں کا ہار لہرایا
وہ جا چکا ہے
خرگوش نے اداسی سے بتایا 
اس نے اس سفر کی روداد پر ایک کتاب لکھ ڈالی ہے اور اب وہ کسی ناشر کی تلاش میں نکلا ہے تا کہ اس کتاب کو شائع کروا سکے 
شیر ہنسا ہار پھینک کر اپنے کام کرنے نکل گیا باقی جانور بھی ایک ایک کر کے نکل گیے 
اب صرف خرگوش بچا تھا اصلی فاتح فتح کے نشان کے ساتھ مگر وہاں اب کوئی موجود نہیں تھا جو اسے فاتح مان لے 
نتیجہ: جو کام آپکو خوشی دے اسے اپنے لئے ضرور کرنا چاہیے 
اور 
ہر چیز ہر کسی کے لئے نہیں ہوتی نہ ہی ہر کوئی جس کی جستجو میں رہتا وہ اسے سچ مچ چاہیے بھی ہوتی ہے کچھ لوگ بس یونہی آپ کے مقابل آجاتے مقابلہ کرنے جبھی تو ہر جیتنے والا اس قابل نہیں ہوتا کہ جیت جائے 
 از قلم ہجوم تنہائی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani

 د کھی رات کہانی... یہ ایک دکھی کہانی ہے... رلا دیتی ہے... پڑھننے والے کو... مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے... یہ جان کے کہ در اصل یہ ایک... . . . دکھی کہانی نہیں ہے...  :D :نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟  Dukhi raat kahani yeh ek dukhi kahani hay  rula deti hay perhnay walay ko magar likhne waala muskra raha hay yeh jaan k  dar asal yeh ek  . . . dukhi kahani nahi hay  moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log? by hajoom e tanhai  از قلم ہجوم تنہائی

گندگی کہانی.. gandgi kahani

گندگی کہانی ایک تھا گندا بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی  لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو گندہ مسکرا دیا میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں .. یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا .. نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. : gandgi kahani ek tha ganda bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya paas say koi gzra tu herat say use d...