رائے کہانی نمبر 1Rayayay kahani



رائے  کہانی نمبر ایک
ایک تھا بادشاہ اسے اپنی رعایا سے بغاوت کا خوف لاحق رہتا تھا کہیں کوئی اسکے خلاف سازش نہ کرے کوئی لوگوں کو اسکے خلاف بھڑکا نہ دے اسکا تختہ نہ الٹ جائے۔مخالفین عوام کو جگہ جگہ اکٹھا کر کے بادشاہ کے خلاف ہرزہ رسائی کرکے بادشاہ کے اقتدار کیلئے خطرہ بن رہے تھے۔ ایک دن اس نے اپنے وزیر سے کہا کہ کچھ ایسا طریقہ ڈھونڈو کہ میرے خلاف کبھی کوئی کہیں منظم بغاوت کی منصوبہ بندی نہ کر سکے۔۔ وزیر سوچ میں پڑ گیا۔ گھر آیا تو بیوی نے کھانے پینے کا پوچھا اس نے انکار کر دیا بیوی نے زیادہ پوچھا تو اسے ڈانٹ بھی دیا بیوی روتی ہوئی اٹھ کر چلی گئ۔ کچھ دیر بعد وزیر کو اپنے غلط رویئے کا احساس ہوا سو اٹھا اور بیوی کے پیچھے چلا آیا بیوی صحن میں لگے درخت کے نیچے بیٹھی چھری سے درخت کے تنے پر گالی لکھ رہی تھی۔۔ اسے تعجب ہوا اس نے پوچھا کیا کر رہی ہو تو بیوی خوفزدہ ہو کر وہاں سے بھاگ گئ اس نے آگے بڑھ کر دیکھا تو جہاں تک بیوی کا قد تھا وہاں تک چھوٹے چھوٹے گستاخانہ الفاظ کھدے ہوئے تھے  سب پڑھتے پڑھتے اسکی نگاہ درخت کے تنے کے آخر سرے پر گئ تو وہاں اسکا اپنا نام لکھا تھا۔ یعنی اسکی بیوی کو جب جب غصہ آیا اس نے اس درخت کے تنے پر اسکیلیئے گالی لکھ دی۔وزیر کو شدید غصہ آیا غصے کی انتہا پر جا کر اسکو ایک خیال آیا جس نے اسکا سارا غصہ زائل کر دیا۔ ان گالیوں کا جب تک اسے پتہ نہ تھا تب تک اسے تو غصہ بھی نہیں آیا دریں ازاں بیوی نے بھی اپنا سارا غصہ گالیاں دے کر نکال دیا ۔ اسے ایک اچھوتا خیال آیا بھاگا بھاگا بادشاہ کے پاس آیا اسے بتایا بادشاہ کو خیال بے حد پسند آیا اگلے ہی روز اس نے منادی کرادی کہ پورے ملک میں موجود  درخت پر عوام ریاست کیلئے اپنی رائے دہی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ جنہیں بادشاہ خود پڑھا کرے گا۔وزیر کا خیال تھا لوگ بادشاہ کیلئے غم و غصہ درخت پر نکال دیں گے بادشاہ کیلئے سب کی رائے پڑھنا بھی آسان نہ ہوگا یوں تھک ہار کر سب مخالفین ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔
مگر ہوا یوں کہ باد شاہ بڑے شوق سے پائیں بازار درختوں پر لکھی تحریر پڑھنے وزیر کے ساتھ بھیس بدل کر چلا گیا۔ دیکھا لوگ دھڑا دھڑ چاقو ہاتھ میں لیئے درختوں کو چیرے جا رہے ہیں الفاظ کھود کھود کر درختوں کے تنے زخمی کر دیئے اسکے دیکھتے ہی دیکھتے ایک درخت تو کٹ کر لکھنے والوں پر ہی آنے لگا بر وقت لوگ تو ہٹ گئے مگر بادشاہ کو عام لوگوں کی طرح تیزی سے حرکت کرنے کی عادت ہی نہ تھی بڑے کروفر سے جو آہستگی سے مڑا تو درخت کے موٹے تنے کی زد میں آگیا۔
رعایا مہینوں بادشاہ کے لئے اپنی رائے لکھتے رہے یہاں تک کے درخت کٹنا شروع ہو گئے وزیر نے تنگ آکر اہم شاہراہوں پر کنارے دیوار بنوا دی تاکہ لوگ اپنی رائے اس پر لکھا کریں۔ بادشاہ مہینوں بستر پر پڑا رہا مگر تب بھی اسکا تجسس عروج پر تھا کہ لوگ آجکل دیواروں پر کیا لکھ رہے سو وزیر کو خوب کہہ سن کر وہ ایک بار پھر لوگوں کی رائے پڑھنے بھیس بدل کر وزیر کے ساتھ اہم شاہراہ پر جا نکلا کیا دیکھتا ہے ایک ہجوم دیوار پر لکھنے میں مصروف ہےبادشاہ جونہی قریب گیا پڑھنے دیوار ہجوم کے لکھے الفاظ کے بوجھ سے بادشاہ پر ہی آن گری ۔۔
لوگوں کی رائے کے بوجھ سے اہم شاہراہوں پر دیواریں گرنے سے بڑے حادثات ہوئے وزیر نے تنگ آکر اعلان کروایا کہ اب جو جس نے رائے دینی ہو وہ محل کے باہر آکر بھونپو بجا کر چلایا کرے۔۔ چند دن تو لوگوں نے سوچا کون اتنی زحمت کرے مگر رائے دینے کا شوق لوگوں کو بادشاہ کے محل کے باہر لا کھڑا کرنے لگا۔
زخموں سے چور بادشاہ ایک دن محل میں سویا ہوا تھا کہ اسے بھونپو کی آواز سنائی دی ۔ اتنے دنوں سے اسکے محل کی۔کھڑکیاں دروازے وزیر نے پکے بند کروا رکھے تھے تاکہ بادشاہ کے آرام میں خلل نہ پڑے جانے کس کھڑی کی کونسی درز ٹوٹی تھی کہ بادشاہ کو بھونپو سنائی دے گیا وہ اشتیاق سے بیساکھیوں کے سہارے اٹھا کھڑکی کھولی ۔۔ کہ اچانک پورا محل آراء کی دھمک سے لرز اٹھا زوردار زلزلہ آیا محل زمین بوس ہونے لگا۔۔
وزیر نے اس بار اظہار رائے پر ہی پابندی لگانے کی تجویز دے ڈالی
نتیجہ : لوگوں کی رائے بس اتنی لیں جتنی سہہ سکیں


از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom #urdupoetry #urdushortstories #shayari #lifestyle

No comments:

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen