Desi Kimchi Episode 54


Seoul korea based urdu web travel novel desi kimchi episode 54


 قسط 54

وہ حد درجہ مایوس گھر واپس آئے تھے۔ آہستگی سے داخلی دروازہ بند کیا کہ آہٹ نہ ہو پلٹے تو دل اچھل کر حلق میں ہی آگیا۔

سفید سلک کے نائٹ سوٹ میں لال بھبوکا چہرہ لیئے طوبی سامنے کھڑی تھی۔ شائد انکے انتظار میں ٹہل رہی تھی

تم سوئی نہیں۔ میرا انتظار نہ کیا کرو سو جایا کرو۔ ایویں نیند خراب کی۔ 

ذرا دھک دھک کرتا دل قابو میں آیا تو انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں کہہ کر نکل جانا چاہا

کہاں تھے آپ اتنی رات کو۔۔ 

طوبی نے براہ راست سوال کرنا مناسب سمجھا۔ 

پرانی آبادی گیا ہوا تھا ۔ کسی سے ملنے پر مل نہ سکا۔ گھر ڈھونڈنے کی کوشش کی ناکام رہا سو واپس آرہا ہوں۔ 

وہ سہولت سے بتاتے ہوئے کچن کائونٹر پر رکھے جگ میں سے پانی نکال کر پینے لگے۔

کوئی بات نہیں آج ملاقات نہ ہوئی کل کر لیجئے گا۔نہیں تو پرسوں تو ضرور دل کی مراد مل جائے گی آپکو۔ 

طوبی نے خاصے طنزیہ انداز میں چبا چبا کر کہا مگر چونکہ اسکی جانب پشت تھی سو دلاور اسکا انداز دیکھ نہ پائے مگر بے ساختہ منہ سے نکلا

آمین۔ 

طوبئ سلگ کر رہ گئ۔ 

بات سنیں میں نے کیا کمی چھوڑی ہے آپکی زندگی میں۔ گھر سنبھالتی ہوں صاحب اولاد ہیں آپ کبھی آپ سے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی۔۔۔۔ 

وہ پھٹ ہی تو پڑی۔ دلاور خاصی حیرت سے مڑ کر اسے دیکھنے لگے۔ 

اس وقت کیا کر رہی ہو؟ دلاور نےجتایا۔ 

چوٹ لگتی ہے تو انسان چیخ ہی پڑتا ہے۔ 

وہ انکا طنز خاطر میں نہ لائی۔ 

کہاں چوٹ لگی ہے ؟ رات کے اس پہر چلانے کا مقصد۔ 

دلاور کی پیشانی پر بل پڑنے لگے اس بار لہجہ دھیما رکھنے میں انہوں نے کافی توانائیاں لگا دی تھیں۔ جس دن سے سوچا تھا کہ اب سے وہ طوبی کے ساتھ نرمی سے پیش آیا کریں گے اس دن سے طوبئ نے ان کا وہ وہ ضبط آزمانا شروع کیا تھا کہ الامان۔

دل پر۔وہ چٹخ کر بولی

عورت سب برداشت کر لیتی ہے اپنے شوہر کی شراکت اسے گوارا نہیں ہوتی۔ میں کالی بد صورت بھی ہوتی تو خود کو سمجھا لیتی یہ سوچ کر کہ یہاں گوری چمڑی دیکھ کر پھسل گئے آپ۔ مگر ان چٹی چمڑیوں میں میں چٹی بھی ہوں اور جٹی بھئ۔ اپنی اور اس عورت کی جان ایک کردوں گی جو آپ پر ڈورے ڈال رہی ہے۔۔ سمجھے اس گمان میں نہ رہیئے گا کہ آپ دوسری لا کر میرے سر پر بٹھا دیں گے اور میں اسکی چاکری کیا کروں گی۔ جان سے مار دوں گی اسے بھی اور خود بھی جان دے دوں گی۔۔ 

کچھ اسی سے ملتے جلتے ڈائلاگ اسکی پسندیدہ سیریل میں ہیروئن نے اپنے بے وفا شوہر کو سنانے کو بولے تھے جوابا شوہر نے اسے ایک زور دار تھپڑ لگا دیا تھا۔جبھی یہ سب کہنے کے بعد اس نے آنکھیں میچ کر سر بھی جھکا لیا تھا۔ 

آج اسے یہ معاملہ صاف کرنا تھا ہر قیمت پر۔ 

چند لمحے بعد بھی گال پر کوئی لمس محسوس نہ ہوا تو حیرت سے سر اٹھا کر دیکھا دلاور خلاف توقع مسکراتے ہوئے اس پر نگاہ جمائے کھڑے تھے۔ 

اتنا پیار کرتی ہو مجھ سے ؟ 

وہ جانے کیا سننا چاہ رہے تھے۔ طوبی گڑبڑا سی گئ۔ 

جان لے سکتی ہو اور جان دے بھی سکتی ہو میرے لیئے۔ 

وہ سینے پر بازو لپیٹے محظوظ انداز میں دیکھ رہے تھے اسے۔۔ 


کیا مطلب کیا آپ واقعی چاہتے میں اپنی اور اپنی اس سوکن کی جان لے لوں اور آپ پھر کسی تیسری کی تلاش میں لگ جائیں۔۔ 

اسکے تو سر پر آسمان ہی آن گرا جیسے۔اتنی حیرت سے بولی کہ دلاور قہقہہ لگا کر ہنس پڑے

یار قسم سے پورا ڈرامہ بلکہ فلم ہو تم۔ اور سچ کہوں۔ 

وہ دلبرانہ انداز میں اسکی جانب بڑھے۔

میرا دل جگر جانم ہو تم۔ ارے یہ تو شعر بن گیا۔ اسے بانہوں کے حلقے میں لیکر وہ شرارت بھرے انداز میں بول رہے تھے۔ برسوں بعد بھئ وہ اسی طرح گھبرائی تھی ان سے جیسے شروع سالوں میں گھبراتئ تھئ ۔پیشانی چمکنے سی لگی بات تو کہیں سے کہیں نکلتی گئ تھی

دلاور اسے دیکھتے رہے پھر چونچال انداز پر سنجیدگی حاوی ہوتی چلی گئ۔

تمہیں پتہ ہے جب پہلی بار تمہیں دیکھا تھا تو میں اماں سے جاکے بہت لڑا تھامیرے لیئے کیا بچی کا انتخاب کرڈالا۔۔ میں گھر کا سب سے بڑا سمجھدار میچیور انسان تھا اپنے جیون ساتھی کے روپ میں ایک سنجیدہ سمجھدار لڑکی کی ہی خواہش کی تھی  اور تم تم تو مجھ سے بہت چھوٹی تھیں کم ازکم بھی دس سال۔۔۔پھر تم مجھ سے ڈرتی بھی بہت تھیں جیسے کوئی شرارتی بچہ سخت گیر استاد سے گھبراتا ہے۔ سارا دن دفتر میں کھپا کے آتا تو دل کرتا تھا میری بیوی میری دوست بنے میرے مسلئے مسائل سمجھے مگر میری بیوی تو مجھ سے یوں دور بھاگتی تھی جیسے۔ 

وہ کہتے کہتے لحظہ بھر کو خاموش ہوئے۔ طوبی نے چونک کر پلکیں اٹھا کر انکا چہرہ دیکھا۔

تم اب بھی خوبصورت ہوخیال رکھنے والی صاف دل معصوم سی۔ ۔ کسی بھی کورین چٹی چمڑی سے کہیں ذیادہ مجھے یہ چٹی جٹی عزیز ہے پر میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ تمہیں میں بھی اتنا عزیز ہوں کیا؟ اس گرتے بالوں پھیلتے جسم اور یہ عمر کا  دس سال کا فاصلہ تو اب بھی ہمارے درمیان حائل ہے طوبی۔ تمہیں میری کس چیز نے باندھ رکھاہےمیرے ساتھ۔ میں تو ایک سخت گیر شوہر تھا تمہارے لیئے۔تمہیں مجھ سے کیا واقعی محبت ہے؟؟؟

ہے نا۔ جبھی تو۔۔ طوبی گھبرا سی گئ۔ کیسے ہوتےہیں مرد کیسا بات گھما کر مجھ پر ڈال دی اب مجھ سے صفائی لے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ 

اس نے شاکی نگاہ سے دیکھا ۔۔ دلاور نے آہستہ سے اپنے ہاتھ ہٹا لیئے۔

مجھے نہیں پتہ کہ تمہیں مجھ پر یہ شک کیوں ہوا کہ میں تم سے چھپ کر کوئی افئیر چلا رہا ہوں مگر تم کس بات سے ذیادہ خوفزدہ ہوئیں مجھے کھو دینے کے خوف سے یا میرے چھوڑ جانے کے ڈر سے؟ 

وہ اسے بغور دیکھ رہے تھے۔طوبی نا سمجھنے والے انداز میں دیکھتئ رہی۔ 

کھو دینے کا یا چھوڑ جانے کا خوف کیا الگ الگ ہوتا ہے؟ 

وہ واقعی نہ سمجھ پائی تھی۔ سو پوچھ لیا۔ 

ہاں۔ انہوں نے قطعیت سے کہا۔ 

سوچ لو۔جب چاہو جواب دے دینا۔۔مگر یاد رکھنا میں منتظر ہوں۔۔ جواب کا۔۔۔ 

وہ دھیرے سے اسکے پاس سے ہو کر اندر کمرے کی جانب بڑھ گئے وہ وہیں کھڑی سوچتی رہ گئ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتظار جان لیوا ہوتا ہے اگر کسی سوال کے جواب کا ہو۔ چاہے ہاں میں ہو یا ناں میں۔ جواب سے ذیادہ جان لیوا جواب کا انتظار ہوتا ہے۔۔ 

سادہ مختصر ای میل۔ اس نے موبائل لاک کیا اور سرہانے بیزاری سے رکھ کر چھت گھورنے لگا۔

وہ بسترپر پڑا تھا۔ جانے کب سے جاگ رہا تھا یا کب ذرا سا سویا تھا۔۔۔ گھڑی موبائل میں بھی تھی سامنے بھی۔کھڑکی کا پردہ ذرا سا سرسرایا تو باہر گھپ اندھیرے کو روشنی نگلنا شروع کر چکی تھی۔ وہ تیزی سے اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کی طرف چلا آیا۔ آر پار شیشے کی شفاف سی کھڑکی اسے ٹوکیو کی کہر آلود صبح کا منظر دکھا رہی تھی۔اونچی اونچی عمارتوں ننھی نننھی کھلونا گاڑیوں کے حجم کی گاڑیاں سڑک پر رواں دواں۔کہیں کہیں سڑکوں پرلگی دیو ہیکل بتیوں کی  روشنیاں بجھنا شروع ہوئیں کہیں کہیں عمارتوں کی بتیاں جلنا شروع ہوئیں۔۔ علی الصبح کا وقت۔ 

جانے نماز کا وقت تھا یا گزر گیا تھا۔اسے پچھتاوا ہوا۔ 

ذکریہ صبح کی نماز کبھی نہ چھوڑنا بیٹا۔اسی وقت رزق بٹتا ہے  جب رات کی غفلت بھری نیند چھوڑ کر انسان صبح اٹھکر پہلا کام ذکر الہی کرتا ہے تو اللہ اس کے دل میں سکون ڈال دیتا ہے۔ زندگی میں کبھی بھی بے چینی اور بے کلی کا شکوہ نہ کرنا اگر تم نماز چھوڑ دیتے ہو۔۔۔

چندی آنکھوں محبت بھرے گول چہرے کی مالک اسکی ماں اسے فجر کے وقت اٹھنے پر آنا کانی کرنے پر اسکے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سمجھا رہی تھیں۔

بے چینی بے کلی کیا ہوتی ہے ؟ 

چودہ سالہ ذکریہ حیرت سےپوچھنے لگا۔۔  

اماں سوچ میں پڑ گئیں۔پھر جیسے کچھ یاد آیا اور مسکرا دیں

یاد ہے جب پچھلے سال تم نے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ اگر تمہاری جماعت میں اول پوزیشن آئی تو ہم تمہیں ریموٹ کنٹرول والی گاڑی دلائیں گے۔ تو امتحانوں کے بعد رزلٹ والے دن تک تم جو پریشان تھے گھبراتے تھے راتوں کو بھی اٹھ اٹھ کر دعا مانگتے تھے کہ تمہاری پہلی پوزیشن آجائے اسے بے چینی کہتے ہیں۔

سمجھ گیا۔ ذکریہ نے سر ہلایا پھر منہ بنا کر بولا

مگر میری تو دوسری پوزیشن آئی تھی۔ 

بالکل۔وہ محظوظ ہوئیں۔

رزلٹ کے بعد تم۔جب گھر آئے تھے تو کتنے دکھی تھے کہ اب تمہیں گاڑی نہیں ملے گی۔ تم نے مجھ سے کہا کہ۔میں تمہارے بابا کو نہ بتائوں کہ تمہاری دوسری پوزیشن آئی ہے مگر اسکے باوجود تم پریشان بھی رہے اور گھر میں بولائے بولائےپھرتے رہے جب تک تمہارے بابا گھر نہیں آگئے۔۔

اسے بے کلی کہتےہیں۔ ذکریہ جیسے سمجھ گیا

اور بابا پھر بھی اس دن میرے لیئے گاڑی لے آئے تھے۔ 

اسے یاد تھا۔

ہاں کیونکہ تم نے اپنی پوری کوشش کی اللہ سے دعا بھی مانگی تو اللہ نے بھی تمہیں نواز دیا گاڑی پھر بھی تمہیں مل ہی گئی

۔انہوں نے پیار سے اسکے سر پر چپت سی لگا دی۔ کیسا دکھی دن تھا اس کیلئے اور اسکا کتنا پیارا انجام تھا۔ کتنا خوش ہوا تھا وہ کہ رات کو بمشکل انکے ڈانٹنے پر سونے لیٹا تھا تو گاڑی سینے سے لگا کر ہی سو پایا۔

مگر پہلی پوزیشن مجھے دے دیتے اگر اللہ میاں تو میں اتنا بےکل اور بے چین تو نہ ہوتا۔

تمہیں پہلی پوزیشن نہیں گاڑی چاہیئے تھی وہ اللہ نے تمہیں دے دی اب پریشان اور بے کل تم یوں رہے کہ تمہیں لگا پہلی پوزیشن آئے گئ تب ہی گاڑی ملے گی یہ خود ہی تم۔نے سوچا۔ہم نے تو تمہارے لیئے پہلی پوزیشن کی شرط نہیں رکھی تھی یہ شرط بھی تم نے خود اپنے لیئے رکھی تھی نا۔ 

سوچ کا تسلسل ٹوٹا وہ چونک سا گیا

میں نے پھر اپنے لیئے ایک بے حد فالتو سی شرط رکھ لی ہے اور بے چین اور بے کل ہوں۔ اس نے سر جھٹکا۔ 

آسمان پر مکمل سفیدی نہیں چھائی تھی۔

قضا سہی مگر نماز پڑھوں گا۔ یہ بے چینی اللہ ہی دور کرے میری ۔۔ 

اس نے خود کو خود ہی تسلی دی اور حیرت انگیز طور پر بہل بھی گیا۔ پردے برابر کیئے اور آستین چڑھاتا باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھئے ہم آپکی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ کسی بھی طالب علم کی ذاتی معلومات دینا ہمارے لیئے جائز نہیں۔ آپ برائے مہربانی ہم پر بے جا دبائو مت ڈالیئے۔شکریہ۔ 

اس کلرک نے کہا تو مہذب انداز میں تھا مگر لگ یہی رہا تھا کہ اگر مزید اصرار انکی جانب سے ہوا تو سب ادب لحاظ بالائے طاق رکھ دے گا

دیکھیں آپ سمجھ نہیں رہے۔ طوبی نے کائونٹر پر ہاتھ مار کر کہا تو عزہ نے کھسیا کر اسے بازو سے کھینچ لیا 

گھمسامنیدہ۔۔ مڑ کر شکریہ بھی کہہ دیا مروتا۔۔ 

ارے بات تو کرنے دو۔ طوبی مڑنا چاہ رہی۔تھی مگر عزہ کی گرفت مضبوط تھی۔ 

کھینچ کھانچ کر اسکول کے احاطے سے باہر نکال کر ہی دم لیا۔

ہر اسکول نے ہمیں یہی جواب دیا ہے۔ اگر کوئی ایک آدھ ہوتا تو ہم سمجھ لیتے کہ ٹالا ہے ہمیں۔ مگر سب کا ایک ہی جواب ہے تو اسکا مطلب صاف ہے کہ واقعی وہ طلباء کی معلومات نہیں دے سکتے ہیں۔عزہ نے تفصیل سے کہا تو وہ چڑ گئ

یہ خوب رہی۔ مانا یہ اصول ہے مگر دیکھا نہیں یہ بندہ ماڑا تھا ہم ذرا رعب ڈالتے تو بتا دیتا۔

یقینا یہ خوش فہمی تھی طوبی کی۔مگر عزہ بحث میں  نہ پڑی

چلیں جانے دیں۔ ہم نے کوشش تو کر لی۔نہ کرتے تو قلق رہتا ہمیں کہ ہے جن کو ڈھونڈنے کی کوشش بھی نہ کی۔ 

اس بات پر طوبی متفق تھئ۔ سر ہلا کر دونوں خاموشی سے سڑک کی۔طرف نکل آئیں۔

اس علاقے کے تمام اسکول دیکھ لیئے۔ اور یہ تو احسان ہے ان کی انتظامیہ کا کہ ہے جن نام کے جتنے طلباء انکے اسکول میں تھے انکو بلوا کر شاخت پریڈ بھی کروا دیتےتھے پرہمارے  ہے جن کا نہ کوئی اتا پتہ ملا نا نام و نشان۔

اتاپتہ اور نام ونشان تو ایک ہی بات ہوئی احمق ہوں میں۔۔۔

عزہ ہنس دی

بات سنو۔ طوبئ ایکدم سے قدم بڑھا کر اسکے مقابل ہوئی

یہ بتائو کھو دینے کا خوف اور چھوڑ جانے کا خوف کیا الگ الگ ہوتا ہے؟ ۔۔عزہ بھی تو الفاظ مترادف میں بات کرتی ہے اسے تو پتہ ہوگا

کیا مطلب؟۔۔ عزہ کو سمجھ نہ آیا

اوہو۔۔ طوبی جھلائی پھر سمجھانے والے انداز میں بولی

دیکھو اگر اس وقت میں یہاں سے چلی جائوں تو تمہیں کیا ڈر لگے گا۔

مجھے کھو دینے کا یا میرے چھوڑ جانے کا

مجھے کوئی ڈر نہیں لگے گا۔ روز کا آنا جانا ہے راستہ آتا ہے مجھے میں اکیلی گھر چلی جائوں گی۔ آپ نے کہیں جانا ہے تو چلی جائیں 

عزہ نے اطمینان دلانا چاہا۔وہ یہی سمجھی کہ شائد اسے اچانک کہیں جانا ہے جو ایسے پوچھ رہی ہے

نہیں بھئ مجھے نہیں جانا۔ وہ مایوس ہوگئ۔ یہ گتھی نہ سلجھے گی مجھ سے۔۔خدا نہ کسی کو پہلیاں بجھوانے والا شوہردے۔ اس نے سوچا

پھر کیوں پوچھ رہی ہیں؟ عزہ نے پوچھا تو وہ منہ لٹکا کے دیکھنے لگی

دیکھو کوئی انسان فرض کرو آپ کے پاس یا ساتھ رہتا ہوجیسے نور۔۔۔۔ اسے آخر مثال سوجھ ہی گئ

تمہاری دوست تھی نا۔ وہ تائید چاہنے والے انداز میں پوچھ رہی تھی۔ 

وہ جب یہاں سے گئ تو تمہیں دکھ ہوا ہوگا نا ؟ تو اسے کھو دینے کا دکھ ہوا یا اسکےچھوڑ جانے کا؟

کھو جانے کا؟عزہ ہنس دی

نور کھو تو نہیں گئ اب بھی اکثر مسیجنگ کرتی ہے بات بھی ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بس ہمارا ساتھ چھٹ گیا ہے۔ 

عزہ نے کندھے اچکا کر کہا۔ طوبی مزید الجھن کا شکار ہو کر رہ۔گئ تھئ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا جہان کی اداسیاں چہرے پر سجائے منہ سجائے وہ ہنگن دریا کے پل کے اوپر سے نیچے جھانک رہی تھیں۔۔ 

میرے پاس تو دکھی ہونے کی وجہ ہے میری ذاتی کمائی ہوئی۔ اپنی کمائی ایک اندھے کنوئیں میں پھینک کر ہاتھ جھلا رہی ہوں تم تو اپنی ڈھیروں ڈھیر تنخواہ وصول کر بھی منہ سکھائے بنائے اترائے کھڑی ہو کیا یہ کھلی ناشکری نہیں۔۔

ایک ہی پوز میں کافی دیر اداس شکل بنایے واعظہ کے ساتھ کھڑے کھڑے وہ تھک کر بولی

واعظہ کا جواب دینے کا کوئی ارادہ نہ تھا

کیا سوچ رہی ہو؟؟؟؟ 

فاطمہ نے کسوٹی کھیلنا چاہی۔

عروج امریکہ جاکر دعا اور سیونگ رو کا ملاپ کیسے کرائے گئ۔۔؟ 

نہیں تو۔ واعظہ نے حیران ہو کر اسکی شکل دیکھی

پھر سیہون کا میری کا پیچ اپ کیسے کروائوں؟؟؟ 

فاطمہ کا انداز ایسا تھا کہ جیسے کہہ رہی ہو پکڑ لیا نا یہی سوچ رہی ہو نا تم۔۔۔

نہیں یہ کام تو ہرگز نہیں کروانا۔واعظہ تڑپ کر بولی

ایک نمبر کی پیسے کی پجاری لڑکی ہے سیہون کاجتنا فائدہ اٹھانا تھا اٹھا لیا اب اسے مزید بے وقوف۔۔۔۔

پھر عزہ کی کس سبجیکٹ کی حاضری کم ہے اسکا پتہ کیسے لگائوں۔۔ اف مجھے پتہ تھا یہی سوچ رہی ہو گی۔ جانے دو اچھا ہے اسی بہانے پڑھائی پر توجہ دے گی۔ 

اس بار تو فاطمہ نے چٹکی بجا کر مسلئہ حل بھی کردیا

پاگل سمجھا ہے کیا؟۔ واعظہ چڑ گئ۔ 

میں کیوں عزہ کی پڑھائی کی ٹنشن لوں گی۔ وہ مجھے امی کہہ ضرور جاتئ ہے مگر میں اسے اپنی اولاد نہیں سمجھتی اچھا نا۔

پھر عشنا کا معاملہ تو سلجھ گیا کس کے مسلئے کا حل سوچنے کو ایسی سنجیدہ شکل بنائی ہے؟ یاد آیا 

اسکے ذہن میں جھماکا سا ہوا

یقینا دلاور بھائی ایکسٹرا میریٹل افئیر چلا رہے ہیں ہے نا۔۔ یہی بات ہے نا؟؟ 

اس بار تو وہ غلط تکا لگا ہی نہیں سکتی تھی

 واعظہ گہری سانس بھر کے رہ گئ

یار الف کی امی بہت پریشان ہیں الف مان کے نہیں  دے رہی اور اسے سمجھا کے بات کرکے دیکھ لی وہ کسی اور ہی ذہنی کیفیت میں ہے۔۔ اسکو زور زبردستی سے سمجھانے کا تو کبھی ارادہ تھا ہی نہیں میرا پھر بھی ۔۔۔ اب آنٹی صبح شام مجھے فون کر ۔۔۔۔ 

کہتے کہتے اسکی فاطمہ پر نگاہ پڑی تو وہ تاسف بھری نگاہیں اس پر جمائے کھڑی تھی

واعظہ زندگی میں کبھی اپنے کسی مسلئے کسی پریشانی پر پریشان ہو کر میرے پاس آئو نا ایسا سینے سے لگا کر سب غم سمیٹ لوں تمہارے مگر تم ہو کہ۔۔۔ 

چبا چبا کر کہتے وہ چیخ پڑی

الف تمہاری بیٹی نہیں ہے آنٹی کی ہے آنٹی پریشان ہوں سمجھ آتا ہے۔ الف انکی پریشانی کا احساس کرے تم آنٹی کی بیٹی نہیں ہو الف ہے اسے انکی پریشانی کا احساس کرنے دو۔۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے اپنی زندگی جیو تمہاری اپنی بھی ایک الگ ذات ہے۔کبھی اسکا بھی سوچ لیا کرو۔ 

فاطمہ کا بس نہیں تھا کہ اسکی پٹائی کردے۔ وہ یونہی اسے دیکھتی رہی پھر جیسے بحث کو فضول جان کر ریلنگ پر بازو ٹکا کر سر رکھ لیا۔

فاطمہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی پھر رخ دوبار ہنگن دریا کی جانب کر دیا۔ ساکت پڑے دریا پر چمکتے چاند کا عکس منعکس ہورہا تھا۔ 

مجھے الف کا مسلئہ سمجھ آرہا ہے۔ کوریا ہمارے لیئے ایسا ہی ہے جیسے ہم یہ دریا ہوں اور کوریا چاند۔ جب تک رات ہے ہم اس عکس کو سمو ئے ہیں۔ صبح ہونے پر تو چاند نےغائب ہو ہی جانا ہے۔ مگر صبح ہونے تک تو چاند اس دریا میں تیرتا نظر آتا رہے گا نا۔میری امی بلا بلا کے تھک گئیں۔میرا دل نہیں چاہتا واپس جا کر اسی سیٹ اپ کا حصہ بننے کاالف بھی نہیں واپس جانا چاہتی ہوگی۔

یہاں آکر یہ رہن سہن دیکھ کر واپس جانے کا سوچو تو خوف سا آتا ہے۔ 

وہ اپنی تمام تر غیر سنجیدگی بالائے طاق رکھ کر بول رہی تھی۔

واعظہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ملگجی روشنی میں اسکی گوری رنگت دمک رہی تھی۔ اپنے خوف بتا کراسکا دل ہلکا ہوا تھا وہ یقینا پرسکون ہوئی تھی۔ جو اسکے چہرے پر جھلکا بھی تھا۔

چاہنے نا چاہنے کے فیصلے کے بیچ ڈولتی فاطمہ کا انداز سنجیدہ ضرور تھا مگر بے چینی بے تابی خود سے مستقل جنگ کی کیفیت میں مبتلا نہیں تھی وہ۔ 

مگر الف تو۔۔۔ وہ دوبارہ مراقبے میں چلی گئ۔

تمہیں میں پاگل۔لگتی ہوں نا ذرا سا کوریا نہ چھوڑنا پڑے تو شادی تک کر ڈالی مگر یار فاطمہ از ان ہر ونڈر لینڈ وہ یہاں رہنا چاہتی ہے ہر قیمت پر۔۔ ورنہ بہتر ہے مر جائوں۔۔ ہزار دو ہزار وون اور پورا مہینہ گزارا کرنا ہے۔۔ مجھ پر مایوسی طاری ہو رہی ہے واعظہ۔ دل کر رہا ہے کود جائوں۔۔ اس نے مڑ کر باقائدہ واعظہ کے تاثرات ملاحظہ کرنے چاہے پر

اس کی لن ترانی پر بھی واعظہ نے سر نہ اٹھایا ۔۔ مایوس ہو کر وہ واپس ریلنگ کی جانب متوجہ ہوگئ

زندگی نے بہت مایوسیاں دی ہیں پھر بھی۔۔ 

فاطمہ نے ریلینگ پر ایک قدم چڑھ کر جھک کر نیچے دیکھا

یہاں سے کودنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ فاطمہ مت مرو کیا پتہ تمہارے پاس ڈھیروں ڈھیر پیسہ یکا یک آجائے۔ اسکی آنکھوں میں چمک آگئ۔۔ 

ہم مسلمانوں کو مایوس ہونے کیلئے ایک ناکامی کافی ہے اور امید باندھنے کیلئے یہ ایک ہزار وون کا لاٹری ٹکٹ۔ 

اس نے پرس سے لاٹری کا ٹکٹ نکال کر اسٹریٹ لائٹس کی ملگجی روشنی میں خوب غو رسے دیکھنا چاہا۔

یار یہ وہی پل ہے نا جہاں سے کنگ چل ( ڈبلیو ٹو ورلڈ کا مرکزی کردار) نے چھلانگ مارنی چاہی تھی۔ 

اس نے نہیں اسکے مصنف نے اس سے چھلانگ مروانی چاہی تھی مگر وہ ایک ہاتھ پر لٹک کر گرنے سے بچ گیا تھا

۔واعظہ ریلنگ سے سر ٹکائے ٹکائے بنا اسکی۔جانب دیکھے بولی۔ 

اور میں گرنے لگی تو؟ 

فاطمہ کو سچ مچ یہی خدشہ لاحق ہوا جبھی جھٹ اتر آئی

میں بے رحم رائٹر ہوں مار دوں گئ۔ 

واعظہ کا انداز ہنوز تھا فاطمہ چڑ کر پاس آئی اور سر پر چمٹ جما دی

میں نے کیا بگاڑاہے تمہارا۔سوائے پیسے کے اور کوئی مسلئہ دیا تمہیں۔ اور پیسہ بھی آنے والا ہے۔آج یہ لاٹری کا ٹکٹ لیا ہے دیکھنا میرا ضرور نکلے گا کیونکہ زندگی میں پہلی بار لیا ہے دیکھنا۔

وہ اترااترا کر لہرا رہی تھی

اسکی چمٹ پر جھٹکے سے سر اٹھا کے گھورتی واعظہ کو اسکا لہراتا ٹکٹ مزید غصہ دلا گیا۔ چیخ ہی پڑی

وہ جو پورے مہینے کی ساری تنخواہ کھاوا کو تھمانے کے بعد جو کچھ پیسے بچے بھی اسکا تم نے لاٹری ٹکٹ لے لیا ؟

تمہارا دماغ وماغ ٹھکانے پر ہے کہ نہیں۔

بالکل ٹھکانے پر ہے۔ فاطمہ بھی ڈپٹ کر بولی

اتنے سے پیسوں سے اور کیا بھی کیا جاسکتا تھا۔ اس لاٹری ٹکٹ سے کم از کم یہی امید تو ہے کہ شائد نکل آئے او رمیں ایک دم مالا مال ہوجائوں۔

فاطمہ ترنگ میں تھی۔ واعظہ ناک چڑھا کر بولی

مس فاطمہ شیخ چلی آپکے انڈوں کی ٹوکری ہنگن دریا برد ہوگئ ہے۔ اس سے بہتر تھا تم کنوینیس اسٹو رمیں پارٹ ٹائم کر لیتیں کم از کم مہینے کے آخر میں ایکسپائر فوڈ ہی مل جاتی ۔ 

فاطمہ کے شوخی بھرے غبارے بنے منہ سے سب ہوا نکلتی گئ۔اتر ہی گیا چہرہ

واعظہ یار کیا کروں ۔ قسم سے سیہون کی شکل دیکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ اتنا اکڑ کر کہا تھا کہ میں پیسے ادا کروں گی رہنے کے کھانے پینے کے۔ مگر کچھ نہ بچا میرے پاس۔ 

وہ رو دینے کو تھئ۔

کچھ بھی مت کرو سیہون بہت با مروت لڑکا ہے پلٹ کر پوچھے گا بھئ نہیں تم سے پیسوں کے بارے میں۔

اس نے تسلی دی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیہون کی شکل دیکھتے اس نے بمشکل تھوک سا نگلا۔

کائونٹر پر اسکے لئے کافی بنا کر رکھتا سیہون ہمہ تن گوش تھا

کیا ہوا؟ آج پے ڈے تھا نا تمہارا؟ اس لیئے پوچھ رہا ہوں کل گروسری شاپنگ پر چلیں پھر؟ ٹوٹل برابر بانٹ لیں گے۔ یہی صحیح رہے گا۔ 

اس نے کافی کا مگ اٹھا کر بڑا سا گھونٹ بھر لیا۔ منہ جل بھن گیا۔ اس نے نگل بھی لیا اندر تک آگ لگ گئ کھانسی نے بھرم رکھ لیا۔ 

آرام سے۔۔۔ کین چھنا۔ اس سے ذیادہ گھبرا کر فریج سے پانی نکال کر دینے لگا۔۔ وہ غٹا غٹ دو گلاس چڑھا گئ۔

دے۔۔۔ 

ہاں کل چلیں گے میں کل جلدی واپس آجائوں گی۔ 

اسے یہی جواب سوجھا۔۔ 

ٹھیک ہے۔ میں اب سونے چلتا ہوں چھائے چھا۔

سیہون بھئ شائد تھکا ہوا تھا اپنا مگ اٹھا کمرے کی۔جانب بڑھ گیا۔

جھوٹی سیہون بامروت لڑکا ہے؟ کوئی نہیں ایک۔نمبر کا شیخ ہے مانگ رہا ہے پیسے اب کل مجھے پیسے دو تاکہ میں اسکے ساتھ جا کر گروسرئ شاپنگ کر سکوں۔ 

اس نے واعظہ کو وائس میسج ہی کیا تھا۔۔ پھر گھور کر کپ کو دیکھا

اس کڑوی زہر ایکسپریسو کے پیسے بھی دوں جو مفت بھی پینے لائق نہیں ہونہہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ای جی کے ساتھ جیسے ہی میک اپ روم سے باہر نکلی جانے کہاں سے جن بھوت کی طرح فاطمہ نازل ہوئی اسے بازو سے کھینچ کر میک اپ روم میں دھکا دیا اور دروازہ بند بھی کر لیا۔ سہج سہج کرچلتی  واعظہ سے باتیں کرتی ای جی کو کوریڈیور کے آخر تک پتہ ہی نہ چلا کہ اسکی مینیجر غائب ہوچکی ہے

تمہیں لگتا ہے تم میرا فون نہیں اٹھائوگئ تو میں پیسے مانگنے سے باز آجائوں گی۔میڈم مجھے دنیا میں کسی سے بھی پیسے مانگتے شرم آسکتی ہےسوائے تمہارے۔ شرافت سے گروسری شاپنگ کیلئے مجھے معقول رقم فراہم کرو۔

وہ اسے دروازے کے پیچھے دیوار سے لگائے اسکے چہرے پر وہ انگلی اٹھا کر وارننگ ایسے دے رہی تھی جیسے انگلی نہیں چھری تھام رکھی ہو

فون۔ واعظہ چونکی۔ 

فون کہاں چھوڑا ہوا ہے میں نے۔

اس نے متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا تو صوفے کے پاس دیوار کے ساتھ لگے ساکٹ میں اسکا چارجر لگا ہوا تھا

اف۔ ایک یہ۔لڑکی موبائل ایسی چیز ہے بھلا کہ بندہ کہیں رکھ کر بھول جائے

فاطمہ سر پیٹ کر رہ گئ

واعظہ اپنے کندھے سے لٹکتا بیگ اسے تھما کر فون کی۔جانب لپکی۔ شکرہے چارج ہوا تھا ورنہ کچھ بعید نہیں تھا کہ سوئچ بھی آن کرنا بھول جاتی۔ 

فاطمہ نے اسکے بیگ سے والٹ نکال کر دیکھا تو کیش نام کو نہیں تھا۔ 

اس نے اسکا کارڈ اسکے سر پر بجایا تو واعظہ اس سے معزرت کرتے ہوئے الیکٹرانک منتقلی کرنے لگی۔

اسکو رقم بھیجنے کے بعد اسکا اکائونٹ خالی ہو چکا تھا۔ فاطمہ نے حیرت سے اسکی شکل دیکھی

کہاں گئ تمہاری تنخواہ؟ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔ واعظہ مسکرا دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد

جاری ہے۔۔۔۔


No comments:

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen