قسط 55
سارا دن اسکا اس چندی آنکھوں والی کے نخرے اٹھاتے گزرتا تھا اور عبداللہ سے بچتے۔ جانے عبداللہ کو کیا مسلئہ تھا بہانے بہانے سے اسکے پاس آنے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اسے تو عبداللہ سے اتنی چڑ ہو چکی تھی کہ مروتا بھی مخاطب ہونے کو تیار نہ ہوتی تھی۔ ابھی بھی فاطمہ فاطمہ کی پکار پڑ رہی تھی۔ وہ کھاوا کو اشارے سے اس سے جان چھڑانے کا کہتی بیگ اٹھائے باہر نکل آئی۔۔۔
سیہون نے کہا تھا وہ اسے یہاں سے پک کر لے گا موسم ہلکا خنک ہو رہا تھا وہ اپنے اپر کی زپ کی بند کرتی باہر احاطے میں پھولوں کے کنج کے پاس آٹکی۔۔
بیگ کھول کر والٹ نکالا اور پیسے گننے لگی۔
پیسے اسکی ضرورت کے مطابق تھےاس نے ٹھنڈی سانس بھری۔
کیا چیز ہو تم واعظہ۔۔۔۔
والٹ سنبھال کر بیگ میں رکھ رہی تھی جب آہٹ محسوس ہوئی اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو کھاوا اسکے سر پر سوار تھا
عبد اللہ تمہیں لنچ پر لے جانا چاہتا ہے۔
بلا تمہید بولا تھا۔ انداز میں شرارت بھری تھی۔
اس سے کہو باز آجائے ورنہ جوتے کھائے گا ۔
اسکے تو جیسے تلوے سے لگی تھی۔
کھاوا کو اس سے اسی جواب کی توقع تھی کھل کر ہنسا۔
میں نے اسے کہہ دیا ہے تمہاری شادی ہونے والی ہے۔ پوچھ رہا تھا کہاں یہیں یا پاکستان میں۔ میں نے کہا پاکستان جا رہی ہے فاطمہ اگلے مہینے۔۔۔۔
شش۔۔ فاطمہ بھنا کر اٹھ کھڑی ہوئی
اچھی بات منہ سے نکالو کوئی وقت قبولیت کا بھی ہوتا ہے۔
لو پاکستان جانا بری بات ہے۔۔ وہ برا مان گیا۔
اپنا ملک اپنا ہوتا ہے باہر رہنے والوں کو تو پاکستان کی ذیادہ قدر ہوتی ہے وہ تو بھاگ کے واپس جانا چاہتے ہیں۔
ہاں تو کب جا رہے ہو مسٹر کھاوا۔
وہ بھی طنزیہ انداز میں جتا کر بولی۔ کھاوا کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
ویسے اتنا برا بھی نہیں ہے۔ مسلمان عبداللہ پیارا ہے اور اسے واقعی تم کافی پسند آگئ ہو۔
ایو۔ اس نے جھر جھری سی لی
شرابی کبابی بھی ہے۔ یاک گندا انسان۔ مجھے تو جب سے اس نے سور کھایا ہے نجس بھی لگنے لگا ہے۔
فاطمہ جیسے سچ مچ گھنیا سی گئ۔
کھاوا سر کھجانے لگا۔
یعنی تمہاری طرف سے نا ہے اسکے لیئے۔
بالکل۔
فاطمہ کا انداز قطعی تھا۔۔کھاوا کندھے اچکا گیا۔تبھی سیہون کی کال آگئ تھی۔
اچھا میری گاڑی آگئ ہے میں چلتی ہوں۔ خدا حافظ۔
وہ حسب عادت فون کان سے لگا کر لاپروائی سے ہاتھ ہلاتی بھاگ اٹھی شائد تیز چلنا بھاگنا اسکو پسند تھا۔ ابھی بھی سڑک کنارے تک وہ بھاگتی گئ تھی جہاں گاڑی کھڑی تھی۔ فرنٹ ڈو رکھول کر بیٹھنے تک وہ اسے یونہی دیکھتا رہا گاڑی زن سے آگے بھئ بڑھ گئ۔ اس نے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ اور سیہون گروسری شاپنگ کرنے آئے تھے۔ سیہون نے باقائدہ فہرست بنا رکھی تھی۔ بس فاطمہ کا کام اس فہرست میں حلال ٹیگز دیکھنا تھا۔ سب کچھ لیتے اسکا دل للچا گیا تو آٹا بلکہ میدہ خرید ڈالا۔۔
تم کیک بیک کرنے کا ارادہ رکھتی ہو تو پہلے بتا دوں اوون خراب پڑا ہوا ہے۔
سیہون نے یاد دہانی کرائی۔
اسکا کیک میں فرائی پین میں بنائوں گی۔
فاطمہ نے تسلی کرائی۔ دالیں سبزیاں شیمپو صابن۔ وغیرہ۔
مینز سیکشن سے جب سیہون اپنے لیئے شیمپو کنڈشنر باڈی واش سن اسکرین جانے کیا کیا اٹھا کر لایا تو وہ خود جو بس شیمپو اور فیس واش ہی چن کر لائی تھی بڑبڑا کر رہ گئ
یہاں کے تو لڑکوں کا بھی بڑا خرچہ ہے بھئ۔ اب اس شاپنگ میں آدھے پیسے میرے لگ رہے مگر ڈینٹنگ پینٹنگ کی چیزیں اسکی ہیں ساری۔ اس نے کینہ توز نگاہوں سے آدھی بھری ٹرالی کو گھورا۔
تم نے اور بھئ کچھ لینا ہے؟
سیہون اسکی نگاہوں سے یہی سمجھا تھا۔
نہیں مجھے کچھ نہیں لینا۔ ویسے ایک بات بتائو یہ کورینز اتنا ظاہری شکل وصورت کو اہمیت کیوں دیتے ہیں۔میں نے کسی پاکستانی لڑکے کو اتنا کچھ اپنے حسن کو نکھارنے کیلئے خریدتے نہیں دیکھا
وہ کہہ گئ۔ سیہون نے چندی آنکھیں سکوڑ کر اسے گھورا
ویسے ایک بات بتائو تم پاکستانی لڑکیاں ظاہری شکل و صورت کو اہمیت کیوں نہیں دیتیں۔ یا تو چہرہ ڈھانپ کر پھروگی یا منہ دھونے کی بھی توفیق نہیں ہوگی۔ میں نے کسی کورین لڑکی کو اپنے لیئے بس دو چیزیں لیتے نہیں دیکھا۔ یہ جتنا بڑا مینز ایریا ہے نا اس سے دوگنا بڑا وہ رہا وومینز کاسمیکٹکس کیلئے مختص حصہ۔
اس نے چبا چبا کر کہتے اشارہ کیا تو وہ بلا ارادہ گھوم گئ۔
کہہ صحیح رہا تھا ایک الگ ہی دنیا تھی چار رویہ جس میں درجنوں خواتین منہ پر تھوپنے والی اشیاء پر ٹوٹی پڑ رہی تھیں۔
خیر سب پاکستانی لڑکیاں میرے جیسے نہیں ہوتیں۔۔۔
اس نے گلا کھنکار کر گھورا۔۔
مگر لڑکیاں یہ سب کریں بنتا ہے لڑکوں کی شکل کون دیکھتا۔
اس نے سیہون کی شکل دیکھتے ہی کہا تھا۔
ہم خود بھی اپنی شکل دیکھتے ہیں۔ انسان کو اپنے لیئے بھی بلکہ اپنے لیئے ہی خود کو سنوار کر رکھنا چاہیے۔ ذرا آئینہ دیکھو۔ کوئی حیرت نہیں کہ ابھی تک سنگل ہو۔
سیہون تو کہہ کر ٹرالی گھسیٹتا چلتا بنا اسکی آنکھیں حجم سے دگنئ ہوگئیں۔
کیا کہہ گیا۔۔ وہ دانت کچکچاکر اسکی جانب بڑھنے لگی کہ خیال آیا۔ بڑے سے قد آدم آئینے وومینز ایریا میں جا بجا لگے تھے وہ جھٹ ان میں سے ایک کے پاس چلی آئی۔
بلو جینز اس پر مسٹرڈ ڈھیلا ڈھالا اپر۔ہلکے گھنگھریالے سے کالے سیاہ بالوں کی اونچی پونی میں سے کئی لٹیں باہر نکل چکی تھیں۔ صبح منہ دھو کے بس کریم لگائی تھی جس پر سارے دن کی تھکن ثبت ہو چکی تھی۔ مگر پھر بھی فاطمہ کو خود پر پیار ہی آگیا
اتنی تو پیاری لگ رہی ہوں۔ اگر میک اپ کیا ہوتا تو کیا قیامت ڈھاتئ میں۔
وہ خود کو گھوم کر دیکھ رہی تھی۔ سلم اور اسمارٹ۔
آئینہ دیکھ کر مزید اعتماد ہی آگیا تھا
خراماں خراماں چلتی باہر نکل آئی۔۔
سیہون گاڑی میں سامان رکھ رہا تھا۔ ساتھ کوئی لڑکی بھی کھڑی تھی۔۔ وہ اسے مکمل نظر انداز کرتے ہوئے سامان ٹرالی سے نکال کر ڈگی میں رکھ رہا تھا
تم مجھے نظر انداز کیوں کر رہے ہو۔ میں نے مانا مجھ سے غلطی ہوئی ہے مگر کیا تمہاری محبت اتنی کم ظرف تھی کہ میری غلطی معاف نہ کرسکے۔
وہ تڑپ کر اسکے سامنے آکھڑی ہوئی۔ اسکے انداز میں لڑکھڑاہٹ تھئ۔
یہ کون محترمہ ہے بھئ
فاطمہ نے دلچسپی سے اسکی شکل دیکھی۔
اوہ میری۔
آہ۔ ا س نے گال پر ہاتھ رکھ لیا۔ اسکی شکل دیکھتے ہی گال تپ اٹھا تھا۔ بڑا ہی بھاری ہاتھ ہے اسکا تو۔
اسے ان دونوں کی کپل فائٹ کا حصہ بننا مناسب نہ لگا اسے تھپڑ سے بھی ڈر لگتا تھا۔ انکو پرائیویسی دینے کی خاطر وہ قصدا واپس مڑی جبھی سیہون کی اس پر نظر پڑی۔
یوبو۔
وہ ڈگی بند کرتا پکار رہا تھا۔ وہ آنکھوں پھاڑ کر مڑی۔
تم نے اور تو کچھ نہیں لینا۔ وہ بے تکلفی سے پوچھ رہا تھا۔
آنیا۔ اس نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے سر نفی میں ہلایا۔
گلابی لانگ ٹاپ میں ملبوس میری کی چندی آنکھیں اپنے حجم سے دگنی ہو رہی تھیں وہ حیرت سے کبھی سیہون کو دیکھتی کبھی اسے۔
اوہ مجھے خیال نہیں رہا۔ سیہون نے اپنی پیشانی چھوئی جیسے اسے کچھ یاد آیا ہو۔
یہ میری بیوی ہے فاطمہ۔ ہم نے چھے مہینے قبل شادی کر لی تھی۔۔ اس نے میری پر جیسے بم پھوڑا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے سیہون کو دیکھ رہی تھی جو قصدا مسکرا کر افاطمہ کی طرف دیکھ رہا تھا
فاطمہ یہ میری دوست ہے میری۔ ایک بار شائد پہلے تم لوگوں کی ملاقات ہوئئ تھی میرے اپارٹمنٹ میں۔ میری تمہارے پاس اچھا موقع ہے پہلی ملاقات کا اثر زائل کر سکتی ہو۔۔۔
اسکا ہلکا پھلکا انداز
فاطمہ مسکرا کر اسکی جانب بڑھی۔
وہ یقینا غلط فہمی تھی مگر اس غلط فہمی نے ہمیں ملا دیا ہمیں ملوانے کا شکریہ میری۔
وہ بہت گرم جوشی سے میری کی۔جانب ہاتھ بڑھا رہی تھی۔۔جسے اس نے تنفر سے جھٹک کر سیہون کی جانب رخ کر لیا
چھے مہینے پہلے؟ تم مجھ سے محبت کا دعوی کرتے تھے اور صرف چھے مہینے میں مجھے بھلا دیا؟ وے سیہونا
وہ ہنگل میں اسکا کالر پکڑ کر چیخی تھی۔
فاطمہ گھبرا کر اسکی جانب بڑھئ۔
سیہونا بولو۔
اس پر کوئی جنون طاری تھا شائد۔ سیہون نے اسکے شکنجے سے اپنا کالر چھڑایا
میری بیوی ہنگل نہیں سمجھ سکتی مگر یقینا اس طرح اسکے سامنے ردعمل ظاہر کرکے اسے تم مشکوک کر رہی ہو۔ میرے تمہارے بیچ جو تھا ختم ہوچکا چھے مہینے پہلے۔ بہتر ہوگا یوں تماشا نہ بنائو۔
وہ گھٹے گھٹے لہجے میں اسکا بازو جکڑے چبا چبا کر اتنے سرد لہجے میں بولا تھا کہ فاطمہ کو الفاظ سمجھ نہ آنے کے باوجود ایک سرد سی لہر اپنی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑتی محسوس ہوئئ تھی۔
آہش۔
میری اپنا بازو چھڑاتئ چلائی۔۔ اسکے قدم لڑکھڑا رہے تھے یقینا وہ مدہوش تھی۔
تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم مجھے کبھی بھول۔نہیں سکتے۔جھوٹ ہے یہ۔
وہ اسکی گاڑی پر ٹھوکر مار رہی تھی
سیہون تیز تیز قدم اٹھاتا فرنٹ سیٹ کی جانب بڑھا۔
چلو فاطمہ۔
اسکی۔جانب دیکھے بنا وہ بولا تھا
فاطمہ دم بخود سی کھڑی تھی فورا بھاگی آئی۔
میری ہنگل میں جانے کیا بڑبڑاتے ہوئےاسی گاڑی کی ڈگی سے ٹیک لگا کر کھڑی تھی۔۔
فاطمہ نے پسنجر سیٹ پر بیٹھ کر مڑ کر کھڑکی سے جھانکا تو وہ ڈگی سے یوں ٹکی کھڑی تھی کہ اگر وہ گاڑی نکالتے تو وہ دھپ سے زمین پر آرہتی
فرنٹ سیٹ پر بیٹھے سیہون نے سختی سے دانت پر دانت جمائے ہوئے تھے۔
اسے گاڑی اسٹارٹ کرتے دیکھ کر فاطمہ نے نا چاہتے ہوئے بھی ٹوکا
ابھی گآڑی آگے۔۔
ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ سیہون نے لمحہ بھر کیلئے گاڑی آگے بڑھا کر روک دی تھی
میری گرتے گرتےبچی تھی سنبھل کر سیدھی بھی پوری طرح نہ ہوئی تھی کہ وہ تیزی سے گاڑی نکال لے گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارا راستہ خاموشی سے گزرا تھا۔اپارٹمنٹ تک سب سامان اٹھا کر لانے تک ان میں آپس میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔
اسے لگ رہا تھا کہ اسے کچھ کہنا چاہیئے مگر کیا کہنا چاہیئے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔
واعظہ کا فون آرہا تھا۔ اس نے کاٹ دیا۔
سامان کچن کائونٹر پر رکھ کر اب وہ چیزوں کو انکی جگہ پر رکھ رہا تھا۔
فاطمہ خاموشی سے آکر کائونٹر کے پاس رکھے اسٹول پر آن ٹکی۔
سیہون کا چہرہ سپاٹ تھا مگر چیزیں اٹھاتے رکھتے اسکے ہاتھوں کی لرزش اس سے چھپی نہ رہ سکی تھی۔
آئیم سوری۔
کائونٹر خالی کرتے وہ مدہم سی آواز میں بولا
دے۔۔ وہ چونکی۔
آئیم سوری۔ اس نے دہرایا
میں نے تمہیں یوبو کہا۔ اور تمہارا تعارف اپنی بیوی کے طور پر کرایا اسکے لیئے۔
اس نے وضاحت کی۔
کوئی بات نہیں۔۔۔۔
وہ اور کیا کہتی۔
میں سونے جا رہا ہوں شب بخیر۔
وہ کہتا رکا نہیں تیز تیز چلتا کمرے میں گھس گیا۔
اس نے گہری سانس لیکر بالوں میں ہاتھ پھیرا تبھی
واعظہ کئ پھر کال آگئ۔۔ اس نے اس بار اٹھا کر کان سے لگا لیا فون
کہاں ہو ؟ چھوٹتے ہی وہ تند لہجے میں پوچھ رہی تھی
گھر ۔۔ اس نے ہونٹ لٹکائے
کس کے۔ ۔ وہ حیران رہ گئ
سیہون کے اور کہاں۔ فاطمہ چڑ گئ
تو تم نے تو یہاں آنا تھا بھول گئیں عروج ٹریٹ دے رہی ہے اسکالر شپ ملنے کی خوشی میں؟؟؟
یاد تھا۔ اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔
مگر واپس آتے ہوئے میری مل گئ اسکی اور سیہون کی تو تو میں میں ہوگئ سیہون اتنا غصے میں تھا کہ میری ہمت نہ ہوئی اسکو کہنے کی کہ
کہاں مل گئ؟ گھر آگئے ہو تم لوگ؟ میں آتی ہوں اس میری کی توہمت کیسے ہوئی گھر آنے کی
آگے سے واعظہ کا ردعمل کہیں مختلف تھا غصے سے آگ بگولہ ہوگئ
ارے رکو۔سنو۔۔ فاطمہ من من کرتی رہ گئ اس نے فون کاٹ دیا۔۔۔۔
ہاہ۔ وہ حیرانی سے موبائل کو دیکھ کر رہ گئ
آئی بڑی اماں۔ یہ بھی یہیں اٹھ کر آرہی ہے اب خود ہی کچھ بنانا پڑے گا اپنے کھانے کو۔۔۔ بڑبڑاتے ہوئے اٹھنا ہی پڑا
اسکا ذرا موڈ نہیں تھا۔ مگر اب کرنا اسے یہی پڑتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروج عشنا عزہ اور طوبی ریستوران میں بیٹھی تھیں۔ آرڈر دے دیا تھا اب کھانے کا انتظار ہو رہا تھا
فاطمہ تو آئی نہیں واعظہ بھی اٹھ کے چل دی۔ ایسا بھی کیا مسلئہ درپیش ہے دونوں کو۔
عروج کو۔غصہ آرہا تھا
جانے دو ہم تو سب ہیں نا موڈ نا خراب کرو۔
طوبی نے پچکارا تو عزہ اور عشنا بھی ہاں میں ہاں ملانے لگیں
طوبی جی بچے کس کے پاس چھوڑ کر آئی ہیں۔
عشنا نے پوچھا تو وہ بے فکری سے بولی
دلاور انہیں لیکر باہر گئے ہوئے تھے۔اب کھا پی کر ہی لوٹیں گے ۔۔۔بس یہ صائم نہیں ٹکتا میرے بغیر سو اسے لانا مجبوری۔
چھوٹا بھئ تو ہے۔۔
عزہ نے چمکارا تو وہ ماں کی گود میں مچلنے سا لگا۔
اسکو اتار دیں ادھر دو تین سال کے بچوں کیلئے جھولے وغیرہ کا انتظام ہے ملازم بھی ہوتے ہیں سنبھال لیں گے۔
عروج نے بتایا تو طوبی اٹھنے لگی
آپ بیٹھیں میں اسے چھوڑ آتئ ہوں
عشنا نے اسے اٹھنے نہ دیا۔اسے اٹھا کر بچوں کے پلے ایریا میں لے آئی۔ وہ یہاں آکر اپنے ہم عمر بچے دیکھ کر خوش ہو گیا تھا۔ وہ جب اندر گیندوں والی سلائڈ کی۔جانب بڑھ گیا تو وہ بے فکر ہو کر۔واپس چلی آئی۔
ان ڈھیر سارے چندی آنکھوں والے بچوں میں وہ بس ایک ہی الگ تھا جبھی جس کے پاس جاتا وہ بچہ اسے دور کر دیتا۔
سلائیڈ لینے جاتے ہوئے اس گورے چٹے موٹے بچے نے تو اسے دھکا ہی دے ڈالا۔ وہ دھپ سے گیندوں پر گرا چوٹ تو اتنی نا آئی مگر ہتک نے رلا دیا۔
وہ ایک۔بچے کو۔غبارہ دے رہا تھا اسے روتے دیکھ کر۔بھاگ کر اسکے پاس آیا۔۔ اسے اٹھا کر کھڑا کیا بچہ روئے چلا جا رہا تھا
کیا ہوا۔ وہ ہنگل میں پوچھ رہا تھا بچے نے روتے روتے غور سئے اسے دیکھا پھر اس سے لپٹ گیا
یہ گندا ہے مجھے دھکا دیا اس نے۔
اسکا لہجہ رواں نہیں تھا مگر بول اردو رہا تھا۔
اس نے چمکارا پیار کیا۔ پھر بہلانے لگا
چھوڑو آپ نا جائو گندے بچے کے پاس ادھر رہو
آئو آپکو غبارہ دوں۔۔
اس نے بڑا سا مکی مائوس اسے تھمایا۔ وہ خوش ہوگیا مگر اب اسکی مرضی یہی تھی کہ اسکے ساتھ رہے۔
عشنا کے بتانے پر طوبی نے ایک نظر دیکھ کر تسلی کر لی تھی اب آرام سے کھانا کھا رہی تھی۔
کھانا وانا کھا کے وہ سب آئسکریم کا انتظار کر رہی تھیں
میں صارم کو دیکھ لوں اسے بھئ بھوک لگ گئ ہوگی۔
طوبی کہہ کر اٹھنے لگی تو عزہ نے روک دیا
رہنے دیں میں لے آتی ہوں ادھر بچے بھاگ دوڑ رہے ہیں ایویں آپکو دھکا وکا نا لگ جائے۔
اسکی فکر پر طوبئ ہنس دی۔
اب ایسی بھی کوئی احتیاط کی ضرورت نہیں ابھی مجھے
اس نے کہا مگر عزہ نے اٹھنے نا دیا۔
صارم شائد کسی انڈین ورکر کے ساتھ تھا وہ انڈین چھوٹے سے اسٹول پر بیٹھا اسے کیلا کھلا رہا تھا۔ اس نے دور سے دیکھ لیا تھا آگے بڑھ کر اسے چمکار کر اٹھانے لگی تو اس لڑکے نے روک دیا
آپ اس بچے کو ہاتھ نہ لگائیں والدین برا مانتے ہیں پرائے بچے کو ہاتھ لگانے پر۔
اس نے ٹوکا تو عزہ سر ہلا کر بولی
اسکی ماں کے پاس ہی لے جانے آئی ہوں۔ آجائو صارم
اس نے جیسے ہی بانہیں پھیلائیں صارم ہمک کر اسکے پاس جانے لگا اس نے نرمی سے اسے پیچھے کر لیا
دیکھیں آپ پہلے شناخت کرائیں اسکی والدہ برقعہ نہیں کرتیں۔ ابھی چھوڑنے آئی تھیں وہ میرے پاس۔۔
وہ اب کھڑا ہوگیا تھا
ارے ۔۔۔ عزہ نے آنکھیں پھاڑیں
ایسی بھی کیا بے اعتباری وہ بیٹھی ہیں اسکی والدہ انہوں نے ہی بھیجا ہے۔
عزہ نے اشارے سے دور میز پر بیٹھی طوبی کو دکھایا۔ طوبی کی اسکی جانب پشت تھی البتہ عشنا نظر آگئ تھی اسے۔۔ وہ وہاں اشارے سے پوچھ رہی تھی کیا ہوا۔
وہ دیکھیں ۔وہ رہی اسکی ماں ۔ میں نقاب کیئے ہوں توآپ نے سیدھا مجھے دہشت گرد بنا دیا حد ہوتی یے پکا کوئی انڈین ہی ہیں آپ۔
اب عزہ کہے اور خاموشی سے سنے اگلا۔۔ بھنا ہی تو گئ
دیکھیں آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں یہ بچے ہماری ذمہ داری ہیں اسلیئے۔
اس نے صارم کو گود میں اٹھا کر اسکی جانب بڑھاتے ہوئے معزرت خواہانہ انداز اپنایا
ہاں دیکھ رہی ہوں کتنی ذمہ داری سے اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہیں۔۔ وہاں سب ایک شکلوں کے بچے ایک سی شکلوں کی مائوں کے ساتھ جا رہے تب کوئی فکر نہیں اور یہ کیلا کیوں کھلایا آپ نے اسے۔ سب بچوں کو کیلا کھلاتے ہیں آپ ؟ قبض ہو گیا اسے تو آپ آئیں گے گرائپ واٹر پلانے ؟
وہ صارم کو گود میں اٹھانے کی بجائے کمر پر ہاتھ رکھے شروع تھی۔
یار یہ لگ رہا ہے لڑ رہی ہے۔ جائو دیکھو عشنا۔
عروج کو فکر ہوئی۔ عشنا فورا اٹھی
کس بات پر لڑے گئ ۔۔ طوبی نے آئسکریم کا بڑا سا اسکوپ لیکر مڑ کر دیکھا۔۔
خوامخواہ بحث کر رہی ہیں ایک تو یہ بچہ اسکی وجہ سے میں شفٹ ختم ہونے کے باوجود دس منٹ سے یہاں کھڑا ہوں۔ اوپر سے ۔۔
لڑکا بھی جھلا سا گیا۔ زبردستی صارم کو اسے تھما دیا۔
اوہ۔ وہ۔ عزہ لڑکھڑا گئ
صارم نے پچھلے کچھ دنوں میں ایک دم صحت بنائی تھی۔ اسکو لگا وہ بچے سمیت پیچھے جائے گی
کھاوا بھی گھبرا گیا۔ عشنا جو بھاگتئ آئی تھی اسے سہارا دینے لگی۔
توبہ ہے بچہ ہے یہ بوری نہیں ایسے تھما دیا گر جاتے ابھی ہم دونوں
کینہ توز نگاہوں سے عزہ نے گھورا
ہاں تو کس نے کہا تھا آپکو شفٹ ختم ہو جانے کے بعد بھی بچی سنبھالیں ۔۔بچہ روتا تو ہم آجاتے اٹھانے۔۔ عزہ سے صارم کو گود میں لیتے ہوئے عشنا بھی دوبدو ہوئی
عشنا کے کہنے پر کھاوا نے سر پیٹ لیا۔
معاف کیجئے۔ غلطی ہوگئ آپکا بچہ ہے یہ آپ سنبھالیں میں چلتا ہوں۔
وہ کہہ کر سائیڈ سے اپنا بیگ اٹھاتا تیزی سے ریستوران کے داخلی دروازے کی جانب نکلتا چلا گیا
میرا بچہ نہیں ہے یہ۔ صارم کو اٹھائے اٹھائے عشنا مڑی تھی عزہ بھی مگر ان سے کہیں پھرتی سے طوبی اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔۔
گڈو۔ اس کے لب بے آواز ہلے تھے۔۔ میز سے یہاں پلے ایریا تک کا فاصلہ اتنا ذیادہ تو نہ تھا مگر وہ وہاں سے بے تابی سے اٹھ کر بھاگئ تھی۔ ۔۔ کرسی سے ٹکراتئ تیزی سے چکنے فرش پر بھاگتی طوبی کو دیکھ کر عروج بھی سٹپٹا کر اٹھی تھی
کیا ہوا طوبئ۔۔
اسکی پکار سے بے نیاز طوبی بھاگتئ ہوئی داخلی دروازے سے باہر نکلی تھی
گڈو۔ دیوانوں کی طرح پکارتی طوبی۔۔
طوبی ۔۔ یہ تینوں طوبی کو پکارتی ہڑبڑا کر اسکے پیچھے بھاگیں۔طوبی ریستوران کے احاطے کے باہر سڑک تک بھاگتی آئی تھی مگر چند ہی لمحوں میں وہ لڑکا کیسے ہوا ہوگیا تھا۔۔
گڈو۔ وہ پھولی سانسوں بکھرے حواسوں کے ساتھ متلاشی نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔
کیا ہوا طوبی کسے ڈھونڈ رہی ہیں۔
وہ تینوں پھولی سانسوں کے ساتھ ہانپتی ہوئی پہنچی تھیں۔
گڈو۔ وہ گگ۔ گڈو تھا ۔۔۔۔
طوبی کا بھاگنے سے نا صرف سانس پھول گیا تھا بلکہ ہانپ بھی رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسے چکر سا آیا وہ وہیں بے دم سی ہوتی گئی۔ عزہ اور عروج نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسے تھاما تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ فرصت سے کمرے میں بیٹھی بیڈ کرائون سے سر ٹکائے رو رہی تھی۔
بس۔ آج آج کا دن میں نے اتنا رونا ہے آئندہ ایک بھی آنسو اس آنکھ میں نہیں آئے گا۔۔
اس نے خود کو باقائدہ کہہ کر باور کرانا چاہا۔ مگر خود کو سمجھانا اتنا آسان ہوتا تو کیا ہی بات تھی۔
چار دن رہ گئے۔ بس چار دن اور۔ اسکے بعد سب ختم ۔ مجھے کچھ یاد نہیں رہے گا نا یاد آئے گا۔ میں نے سمسٹر مکمل۔کرنا ہے پھر پاکستان واپس۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔
آنسو بے دردی سے پونچھتے وہ دلگیری سے بولی۔تبھی داخلی دروازے کی گھنٹی بجی
اتنی جلدی واپس آگئیں۔۔ ڈنر کرتے ہی گھر واپس۔ ؟ ایسے تو آئسکریم بھی کھانی ہوتی ہے عذاب۔ اس گھر میں سکون سے تو رونا بھی محال ہے۔ اب کان کھا جائیں گی آنکھیں کیوں سوجی ہیں۔ جیسے جاتے وقت دماغ کھایا کہ ساتھ کیوں نہیں جارہی۔ہو تم۔بھئ جائو کھائو تم لوگ کھانا میرا دماغ نہ کھائو
جھلاہٹ۔۔ بھری بڑ بڑ۔۔ جاری۔۔
داخلی گھنٹی پھر بجی۔
اسکا کوفت سے برا حال ہوگیا۔ جھلاتے ہوئے ہی بیڈ سے اتر کر چپلوں میں پائوں پھنسائے۔ دوپٹہ کندھے پر ڈالتی۔ عروج کےڈارک گلاسز سائیڈ ٹیبل پر سجے تھے۔ عروج کے منہ سے دو گنے بڑے۔۔ اس نے وہی آنکھوں پر چڑھا لیئے۔
مگر سرخ ناک گال۔ اسکا تو منہ بھی عروج سے بڑا تھا۔
گھنٹی پھر بجی۔ تو پیر پٹختی باہرنکل آئی۔ تن فن کرتے دروازہ کھول کر ڈانٹنا چاہا
کیا مصی۔۔۔۔
باقی الفاظ منہ میں دم توڑ گئے۔۔
سامنے دلاور کھڑے تھے
وہ ذرا تھوڑی دیر ان بچیوں کو رکھ لیں۔ عروج کا فون آیا تھا طوبی کی طبیعت خراب ہے اسے اسپتال لیکر گئے ہیں۔
اسکے تیور۔ تھے یا وہ پریشان بہت تھے۔ دنیا جہان کی عاجزی مسکینیت طاری کرکے بولے۔
جی۔ اسکے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا۔ وہ جلدی میں تھے شکریہ ادا کرکے تیزی سے لفٹ کی جانب بڑھ گئے۔مرے مرے انداز میں وہ بچیوں کو لیکر اندر چلی آئی۔ لائونج میں بٹھاکر ٹی وی آن کردیا۔
کچھ کھائوگی تم دونوں۔
دونوں بچیوں کے چہرے ستے ہوئے تھے اس نے مروتا پوچھا
زینت نے تو نفی میں سر ہلایا زینت نے منہ بسورا
ممابیمار نہیں ہیں تھوڑی دیر میں آجائیں گی پریشان نہ ہو۔۔
زینت نے پیار سے چھوٹی بہن کو ساتھ لگایا۔
الف کے دل کو کچھ ہوا۔
وہ بھی وہیں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئ۔
گڑیا نے رونا شروع کردیا زینت نے پیار سے بہلانا چاہا۔
اس وقت اسکا بھی دل یہی کررہا تھا کہ کوئی پیار سے اسکو دلاسہ دے تسلی دے سب ٹھیک ہو جائے گا نا۔مگر وہ تو یہاں بالکل اکیلی تھی۔ یہ سوچ ہی اتنی کاٹ ڈالنے والی تھی۔
اس نے بھی چہکوں پہکوں رونا شروع کردیا۔
زینت نے حیرانی سے اسے دیکھا
اب انکو بھی بہلانا پڑے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں تو پہلا مانوس چہرہ جو اپنے سرہانے پریشان دکھائی دیا وہ عروج کا ہی تھا۔
عشنا عزہ تینوں اس کے سرہانے کھڑی تھیں۔
تیز روشنیوں نے اسکا دماغ مائوف سا کیا تھا یا ابھی حواس پوری طرح بحال نہ ہوئے تھے۔
اس نے فورا آنکھیں بند کرلیں۔۔ عروج اسٹیتھسکوپ لگا کر اسکا مکمل معائنہ کر رہی تھی۔ بی پی بھی اب نارمل ہو گیا تھا۔ عزہ اور عشنا اسے منتظر نظروں سے دیکھ رہی تھیں اس نے گردن کے اشارے سے انکو سب ٹھیک ہے کہا۔ تبھی صارم کو گود میں اٹھائے دلاور واپس چلے آئے۔ صارم اسپتال میں روئے جا رہا تھا سو انہیں اسے لیکر باہر جانا پڑا تھا اب وہ بے خبر سو چکا تھا۔
ہوش آیا طوبی کو۔
وہ صارم کے جاگ جانے کے خوف سے آہستگی سے پوچھ رہے تھے۔
جی ابھی آنکھیں کھولی تھیں مگر ابھی غنودگی ہے فکر کی کوئی بات نہیں۔۔ بی پی اب نارمل ہے۔ ڈرپ کے ساتھ ایک دو انجیکشن بھی دیئے گئے ہیں سو طوبی اگلے دو ایک گھنٹے سوئیں گی۔
بہتر تو یہی ہوگا دلاور بھائی کہ آج انہیں یہیں انڈر آبزرویشن رہنے دیں۔ میں انکو پرائیوٹ روم میں شفٹ کروا دیتی ہوں۔
عروج نے تسلی دینے کے ساتھ مشورہ دیا تو دلاور گہری سانس لیکر سر ہلا گئے۔ اب یہی ہو سکتا تھا۔۔۔۔
ٹھیک ہے اب میں سنبھال لوں گا۔ آپ۔لوگوں کا بہت شکریہ بہت زحمت ہوئی آپ لوگوں کو۔
وہ شرمندہ سے نظر آرہے تھے۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں طوبی ہماری بڑی بہن جیسی ہیں۔
عزہ نے کہا تو عروج اور عشنا نے بھئ تائید کی
بالکل طوبی ہماری فیملی میمبر کی طرح ہیں۔ بلکہ ایسا کریں آپ بھی گھر جا کے آرام کریں عشنا اور عزہ تم لوگ بھی گھر جائو میں یہاں رکتی ہوں طوبی کے پاس۔
عروج نے کہا تو دلاور نے سہولت سے منع کر دیا
نہیں آپ پہلے ہی بہت مدد کر چکی ہیں میں یہاں ہوں طوبی کے پاس آپ تینوں بھی اب گھر جائیے بہت رات ہوگئ ہے۔
دلاور نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ ساڑھے گیارہ ہو رہے تھے۔
نہیں کوئی بات نہیں آپکو صبح دفتر جانا ہوگا۔طوبی بالکل۔خیریت سے ہیں آپ بے فکر ہو کر گھر جاسکتے ہیں۔
عروج نے کہا تو الٹا وہ سوال کرنے لگے
آپکی آج ڈیوٹی ہے؟
نہیں۔ عروج کے منہ سے فورا پھسلا پھر پچھتائی بھی
اگر آج آپکی ڈیوٹی ہوتی تو ضرور میں آپکو زحمت دے لیتا مگر آپ ابھی گھر جائیے آرام کیجئے۔ آپ تینوں نے پہلے ہی ہمارے ساتھ بہت کردیا ہے اور ابھی اگر میں چلا گیا تو طوبی اٹھے گی تو برا مانے گی کہے گی مجھے اسکا بالکل خیال نہیں۔۔۔ مزے سے گھر جا کے سوگیا۔۔۔۔
وہ دانستہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ کر ٹال گئے۔ وہ تینوں مزید اصرار کرتیں مگر انکا انداز قطیعت بھرا تھا۔ سو مسکرا کر سر ہلانا پڑا۔
انکو روم دلوا کر تھکے تھکے انداز سے تینوں اکٹھے اسپتال سے باہر نکلیں۔
اور مس عروج ریزائن دینے کے چند گھنٹوں بعد ہی دوبارہ اس اسپتال میں آنا کیسا لگا آپکو۔
عزہ عشنا کا ہاتھ اٹھا کر مائک کی طرح عروج کے آگے لہرا رہی تھی
دیکھیں جی یہ وہ اسپتال ہے جہاں میری زندگی کے چار سال آنا جانا لگا رہا ہے تو یقین جانیئے دیکھنے سے ہی نفرت محسوس ہو رہی ہے۔
عروج بھئ ترنگ میں لہک کر بولی۔ تینوں نے کھل کر قہقہہ لگایا تھا۔
یار قسم سے اب کوریا سے دل بھر گیا ہے مجھے بھاگ کے امریکہ پہنچنا ہے فورا۔ عروج کی بات پر وہ دونوں خفا ہوئیں
اور ہم؟ ہم سے دور اکیلی رہ لوگی۔
عشنا کا ہاتھ مائک کے طور پر اسکے سامنے تھا۔
ہاں بالکل تم دونوں کونسا میری بوائے فرینڈ ہو۔
عروج نے کندھے اچکائے
اچھا تو سیونگ رو بوائے فرینڈ ہے جس کے پیچھے اڑ کر امریکہ جانا چاہتی ہو۔
عشنا نے کہا تو عزہ نے بھی آنکھیں مٹکائی
اچھا تو یہ مجھے ساجن کے گھر جانا ہے والی بے تابی ہے
اڑ کر امریکہ
عزہ عشنا کا بازو جہاز کی طرح اڑا کر بن بن کر بولی
عروج کی آنکھیں پہلے پھیلیں پھر سکڑیں
عشنا کی بچی۔وہ بلا لحاظ اسے مارنے دوڑی تھی۔
عزہ اور عشنا کھلکھلاتی بھاگی تھیں۔ عروج کے ہتھے چڑھ کر ہڈیاں تڑوا کر یہیں اسپتال سےپلاسٹر تھوڑی کروانا تھا دونوں نے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیہون نے خفا خفا سی نگاہ ان دونوں پر ڈالی پھر سینڈوچز کی تیار ٹرے ان دونوں کی۔جانب میز پر بڑھاتے ٹھنڈی سانس لیکر ان دونوں کے مقابل اسٹول گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ دونوں اب مزے لیکر کچن کائونٹر ٹیبل پر بیٹھی سیہون کے ہاتھ سے بنا چکن چیز سینڈوچ اڑا رہی تھیں
تم نے اسے کہا تھا کہ میں اپ سیٹ ہوں اور مجھے اس وقت کائونسلنگ کی ضرورت ہے؟
سیہون نے کینہ توز نگاہوں سے فاطمہ کو گھورتے پوچھا تھا
آدھا سینڈوچ اکٹھے ابھی فاطمہ نے منہ میں بھرا تھا سو بمشکل منہ چلا کر جواب دینے کی کوشش کرنے لگی
آئی سوئیر میں نے منع کیا تھا اسے یہاں آنے سے۔۔ مگر یہ بولی تم کہیں میری سے پیچ اپ ہی نہ کرلو تمہیں۔۔ آہ۔
واعظہ نے بلا۔لحاظ کہنی گھسیڑی تھی۔ وہ۔ کراہ۔کر سینڈوچ ختم کرنے میں لگ گئ
سیہون نے واعظہ کی جانب رخ کیا وہ سٹپٹا کر نظر چرا گئ
کبھی خود محبت کی ہے تم نے جو مجھے محبت کا فلسفہ سمجھانے لگ جاتی ہو۔
سیہون اس سے ہنگل میں پوچھ رہا تھا۔ فاطمہ نے کان کھڑے کیئے۔۔۔
واعظہ اسکی چپ ہو کر شکل دیکھنے لگی۔۔
تھوڑی سی بھی جس انسان کیلئے آپکے دل میں جگہ ہو اس کو چوٹ پہنچانے کی سوچ بھی ذہن میں نہیں آتی اور آج میں بیچ سڑک پر اس لڑکی کو گرا کر آیا ہوں جس کیلئے میرے دل میں تھوڑی سی جگہ نہیں ہے بلکہ میرا پورا دل مختص ہے۔۔
سارانگ اس نے سارانگ کہا ہے نا؟ کیا کہہ رہا اسے کس سے محبت ہے؟
فاطمہ کو اسکا لہجہ ککھ سمجھ نہ آیا تھا۔ ٹھیٹھ گائوں کا کورین بولنے کا لہجہ۔ سیول کا لہجہ تو پھر شائد وہ تھوڑا بہت سمجھ جاتی مگر سیہون جو اچھا بھلا سیول کے لہجے میں بات کرتا تھا اس وقت خاص اپنے مادری علاقائی لہجے میں بولا تو یقینا مقصد اسکو بات سمجھنے کا موقع نہ دینا ہی تھا۔
واعظہ نے اسکی بات سینڈوچ کے ساتھ نگلی تھی اندرتک کڑواہٹ اترتی گئ تھی اسکے۔
آج جب میں اپنا محاسبہ کرنے بیٹھا تو مجھے یہ احساس ہوا کہ میں سیہون سے واعظہ بن گیا ہوں جو پل میں اجنبی بنے تو راہ میں پڑے اپنے دل پر بھی پائوں رکھ کرگزر جائے۔۔
وہ چبا چبا کر کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا
اس طعنے بازی کا مقصد۔
واعظہ نے نگاہ اٹھاکر اسے دیکھا۔ وہ مڑتے مڑتے رک کر اسکی نگاہوں میں جھانکنے لگا
میں واعظہ بننا نہیں چاہتا ۔۔ جو انسانوں کا متبادل ڈھونڈ لیتی ہے۔ چیزوں اور انسانوں میں اتنا فرق رکھنا چاہیئے کہ چیزوں کے متبادل ڈھونڈلیں پر۔ انسانوں کے نہیں۔۔۔
انسان خود بدل جانے والی چیز ہے۔
واعظہ نے سیںڈوچ ختم کر لیا تھا۔۔ سو اب لاپروائی سے ہاتھ جھاڑ رہی تھی۔
محبت کرنے والا انسان نہیں بدلتا کبھئ۔ جو بدل جاتا وہ محبت نہیں کرتا بس محبت کا دعوی کرتا ہے۔
سیہون کبھی واعظہ۔ فاطمہ منہ میں سینڈوچ بھرے ان دونوں کو دیکھتی خود کو دنیا کی سب سے احمق لڑکی سمجھ رہی تھئ۔
انسان محبت کے بغیر رہ سکتا ۔ واعظہ سے کم از کم اتنا تو سیکھ لیا ہوتا۔
اسکے برعکس واعظہ کا انداز ہلکا پھلکا تھا مسکرا کر سر جھٹکا تھا اس نے۔اور کھڑی ہوگئ۔۔
فاطمہ کا منہ کھلا ۔۔۔
جونگ وونا تم سے نہ سیکھ پایا یہ ہنر میری کیا مجال۔
سیہون پہلی بار شائد اپنا آپا کھوبیٹھا تھا۔
تمہیں جو بات کرنی مجھ سے میرے متعلق کرو۔ تمہیں کوئی حق نہیں میرے ذاتی معاملات زیر بحث لانے کا۔
واعظہ اپنا سارا لحاظ مروت بالائے طاق رکھ کر چلائی
تمہیں بھی کوئی حق نہیں میرے ذاتی معاملات میں بولنے کا۔
سیہون بھی حلق کے بل چلایا۔۔
فاطمہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
مار کٹائی پر نہ اتر آئیں دونوں۔ اسے سچ مچ یہی ڈر لگا تھا
جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے کینہ توز نگاہوں سے گھور رہے تھے ایک دوسرے کو جیسے کچا چبا جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الف کا موڈ تو بالکل اچھا نہیں تھا کیسے لڑ ہی پڑی تھی جب ہم نے اصرار کیا کہ چلو ہمارئ ساتھ۔ جانے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہوگی۔
لفٹ کا بٹن دباتے عشنا نے کہا تھا۔
اس پر آجکل جو بدمزاجی کا بھوت سوار ہے اس سے کچھ بعید نہیں کہ دونوں بچوں کو ایک کمرے میں بند کرکے خود منہ تک چادر تانے سوئی پڑی ہو۔ عزہ نے خیال ظاہر کیا۔۔۔
نہیں بھئ۔ مانا اسکا موڈ تھوڑا خراب ہے مگر بچوں سے تھوڑی بدلہ لے رہی ہوگئ انکو کھانا وانا کھلا کر بہلا لیا ہوگا۔ زینت سے تو گھنٹوں باتیں کرتی ہے اسکو تو اپنے ساتھ سلالیا ہوگا۔
عروج نے انہیں ٹوکا۔
ہاں یہ تو ہے۔ دونوں نے سر ہلایا۔
بچوں کے نخرے اٹھا رہی ہوگی دل کی اچھی ہے الف۔۔۔
لفٹ آہستہ آہستہ اوپر بڑھ رہی تھی تینوں کی خوش فہمی بھی کیونکہ اصل میں تو فلیٹ کا منظر یوں تھا
آپی یہ والا کارٹون چینل لگا دوں۔
گڑیا اس سے پوچھ کر ریموٹ کا بٹن دبا رہی تھی۔
الف نے سر نفی میں ہلا دیا۔
پھر۔
وہ پھر چینل بدلنے لگی۔ چار پانچ چینل بدلے
یہ ڈرامہ لگا دو۔
الف نے کہا تو گڑیا سکون سے واپس آکر بیٹھنے لگی
نہیں بلکہ یہ بدل دو۔ کیا سمجھ آئے گا ڈرامہ۔
اس نے بے زاری سے کہا۔ گڑیا فورا الرٹ ہوئی۔ ریموٹ چینل نہیں بدل رہا تھا
وہیں ٹی وی کے پاس جا کر کھڑی ہو یہاں سے سگنل آرہے ہوتے تو میں وہاں کیوں بھیجتی۔
الف بگڑی۔ گڑیا فورا بھاگ کر ٹی وی کے پاس آئی
دودھ گرم ہو گیا؟
اب اس نے کچن میں مائکرو ویو کے پاس انتظار میں کھڑی زینت سے پوچھا
بس ہوگیا۔
زینت دودھ کا مگ مائکرو ویو کرکے بھاگی بھاگی آئی۔ ڈبل روٹی سامنے رکھی۔
مکھن لگا کر دوں؟
مارجرین اٹھائے پوچھ رہی تھی۔ اس نے گردن ہلائی
یہ نیوز کیوں لگا دی۔
ٹی وی پر نظر ڈال وہ بد مزا سی ہوئی
آپی چینل نہیں بدل رہا۔
گڑیا اب پاکستانی طریقے سے ریموٹ کو تھپڑ مار کر چلا رہی تھی
اوفوہ۔ الف کی بیزاری
زینت نے مارجرین لگا کر سلائس آگے بڑھایا
اس نے ذرا سا کترا دودھ کا کپ منہ کو لگایا
چینی نہیں ڈالی۔
پھیکا دودھ اسے ذرا اچھا نہ لگا
ایک چمچ ڈالی اور ڈال دوں
زینت نے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
زینت پھرتی سے چینی کا ڈبہ لینے دوڑی
گڑیا اب ہوٹل ڈیل لونا لگا کر پوچھ رہی تھی
یہ لگا رہنے دوں؟
ہاں۔ اس نے بیزاری سے سر ہلایا
کتنے مزے ہیں مان وال کے مر کر بھی لگژری لائف اسٹائل ایک میں یہاں اس کھنڈرفلیٹ میں زندہ لاش بنی بچے پال رہی ہوں
اسے خود پر ترس آیا
زینت چینی کا ڈبہ چمچ لیکر آئی تو اسے اس پر بھی ترس آیا تو جملے میں ترمیم کرلی
بچوں سے اپنا آپ پلوا رہی ہوں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
جاری ہے
Desi-kimchi-episode-56.html
No comments:
Post a Comment