Wednesday, September 13, 2017

SAANS KAHANI






از قلم ہجوم تنہائی

بگلا کہانی


از قلم ہجوم تنہائی

Hajoom e Tanhai: دل جلانے کی بات کرو

Hajoom e Tanhai: دل جلانے کی بات کرو: دل جلانے کی بات کرو  بس چڑانے کی بات کرو بات کرو ایسی کہ تن بہ دن میں آگ لگ جایے سب کو تپا نے کی بات کرو  بات ہو ایسی سن کر اگلےکا خون ...

از قلم ہجوم تنہائی

دل جلانے کی بات کرو


دل جلانے کی بات کرو 
بس چڑانے کی بات کرو


بات کرو ایسی کہ تن بہ دن میں آگ لگ جایے

سب کو تپا نے کی بات کرو 

بات ہو ایسی سن کر اگلےکا خون جل جایے 
آگ لگانے کی بات کرو 


اب جب سنو کسی کی تو دس سنا بھی دو
کھری کھری سنانے کی بات کرو 


حد کردی دنیا نے بھی تمہیں تپانے کی
تم اب دنیا کو ستانے کی بات کرو 


ہجوم جس لہجے میں مخاطب ہو اب تم سے
تنہائی تم وہ زہر خند انداز اپنانے کی بات کرو


از قلم ہجوم تنہائی


موت اندھیرے سائے سی۔


موت اندھیرے سائے سی۔۔
مجھے ڈراتی ہے۔۔ خطرے دکھاتی ہے۔۔ 
مجھے بتاتی ہے۔۔ 
وہ دیکھو مغرب سے اٹھتے 
لاوے کے بادل ہیں۔
یہ بادل تمہارے شہر پر برسیں گے۔۔
یہ آگ کی بارش ہے۔۔
برس جو اگر پائے گی۔۔
تو تجھے صرف جلائے گی۔۔
اگر تم ایسی بارش پائو۔۔
تو دور ہٹ جائو۔
چھپ جائو سائباں میں
یا دور ہٹ جائو۔۔
دیکھو تماشا اس میں بھیگنے والوں کا۔۔
تپش سے پگھلتے جسموں ۔
ان سے بہتی خون کی آبشاروں کا۔۔
یا اگر کچھ کرنا ہو تو۔۔
کوئی آہنی چھتری لے آئو۔
نہیں وہ کھول جائے گی۔۔ جب بارش کی تپش بڑھ جائے گی۔۔
تم سمندر لے آنا۔۔
اس آگ کو بجھا جانا۔۔ ۔مگر سمندر کیسے لائو گے؟
وہ رک کر ہنستی ہے
چھوڑو۔۔
تم ایسا کرو۔۔
ارے تم۔یہ کیا کرتے ہو۔۔
کسی پگھلتے نفس کو بچانے کیا آگ میں کود پڑتے ہو۔۔
تم مجنون ہوئے ہو کیا۔۔
تم نے تپتی برستی آگ کی بوندیں خود پر لے لیں؟
تم تو مررہے ہو ۔۔
یہ کس کو بچایا ہے؟
کیا جانتے بھی ہو اسے۔۔
موت حیران بھی ہوئی
مگر۔۔
کیا تم یہ جانتے تھے ذی نفس۔۔
موت جو تم پر کھڑی ہنستی تھی۔۔
اب تم سے لپٹ کر روتی ہے۔۔
کہ
تم جلتے رہے ۔۔
پگھلتے رہے
مگر مر نہیں پائے۔۔
تم اپنے اس فعل سے
امر ہوگئے



از قلم ہجوم تنہائی

Monday, September 11, 2017

مختصر افسانہ


مختصر افسانہ
انکل نے بڑے پیار سے اس سے پوچھا
بیٹا تمہارا نام کیا ہے ؟
تین سالہ بچی سوچ میں پڑی پھر بولی
جی ،کمینی
۔
۔
۔

از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, September 9, 2017

نوٹ کہانی

نوٹ کہانی 
ایک تھا نوٹ 
اسے کوئی سنبھال کر بھول گیا 
برسوں گزرے نوٹ کی قیمت کم ہوتی گئی خستہ ہو گیا 
اسکو یونہی صفائی کرتے اپنی پرانی ڈائری  سے مل بھی گیا 
وہ نوٹ  اب تبدیل ہو چکا تھا اسکی قیمت بھی کم ہو چکی تھی خستہ اتنا تھا کہ ہاتھ لگانے پر جھڑنے  لگا اب بینک والے بھی نہ لیتے 
اس نے کوڑے دان میں ڈال 
دیا 
نتیجہ: پیسے کی وقت  کے ساتھ قدر کم ہوتی  جاتی ہے 


از قلم ہجوم تنہائی

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen