Tuesday, October 17, 2017

الگ سی بطخ کی کہانی


الگ سی بطخ  کی کہانی 
ایک تھی بطخ 
الگ سی 
کیوں کہ 
اسے تیرنا پسند نہیں تھا 
سب اسکا مزاق اڑاتے کسی بطخ ہو تیرو گی نہیں تو جیو گی کیسے
وہ پانی میں کودتی پانی میں تیرنا پسند نہیں آتا 
باہر نکل کر پھرتی ہر خشکی کا جانور اسکو ٹوکتا 
بطخ ہو تیرو خشکی پر کیا بھدر بھدر چل رہی ہو 
اس کے نرم سے پنجے پتھر سے زخمی ہوتے تو کوئی جانور اسکو سمجھانے بیٹھ جاتا تم بطخ ہو تمہارے پیر نہیں نازک پنجے ہیں انکا کام بس تیرنا ہے 
بطخ کو کرتب بھی آتے تھے وہ کئی  کئی فٹ اڑتی قلابازی کھاتی نیچے آجاتی 
اسکو ایک پنجے پر کھڑے ہو کر گانا بھی گانا آتا تھا 
کچھ نہ کرتی تو اپنے پر پھلا کر بیٹھ جاتی اور بھینس کی آواز نکالتی 
کبھی اپنے ٹوٹے پروں کو مروڑ کر چوٹی چوٹی چڑیا بناتی اور اپنے پر پھولا کر بیٹھتی جیسے گھونسلا سا ہو اور ان میں چھوٹی چڑیا بیٹھی ہوں ان چڑیوں کی کہانی بھی بنا لیتی انکے مکالمے بولتی الگ الگ آواز میں سب بارے شوق سے اسکے  ناٹک دیکھتے کبھی مزاج شاہانہ ہوتا تو گانے لگتی  
اسکی قین قین سننے دور دور سے جانور آتے مگر جب اسکی محفل موسیقی بر خواست ہوتی سب اسے چھیڑتے
گا لیتی ہو کرتب دیکھا لیتی ہو اپنے پروں سے گھونسلا بنا لیتی ہو
مگر  نا قدرے جانور 
اسکے فن کا مذاق اڑاتے یہ بھی کہتے اسے تیرنا آتا ہی نہیں جبھی الٹی سیدھی حرکتیں کرتی ہے 
وہ یہ سنتی اگلی بار مزید حیران کن جلوہ دکھاتی مگر سب اسکا دل دکھاتے رہتے 
ایک دن دل برداشتہ ہو کر خود کشی کرنے دریا میں کود گئی 
کودی تو سوچا تھا ڈوب جایے گی مگر تیرنا اسکی فطرت تھی 
وہ تیرنے لگی مگر تیرنا اسکو پسند تھا ہی نہیں
اسکا جی اوب گیا  
  مایوس ہو کر دریا سے باہر نکل آی 
اس بار اسکا ارادہ اونچے پہاڑ سے کود کر جان دینے کا تھا 
نتیجہ : الگ سا ہونا آسان نہیں ہے 

از قلم ہجوم تنہائی

Monday, October 16, 2017

بطخ کہانی




از قلم ہجوم تنہائی

یہ وہ کہانی




یہ وہ کہانی 
ایک تھا یہ 
ایک تھا وہ 
یہ وہ نہیں تھا 
وہ یہ نہیں تھا
یہ کو وہ پسند نہیں تھا 
وہ کو کونسا پسند تھا یہ 
ایک دن یہ کو وہ ہو گیا وہ کو یہ ہو گیا وہ یہ کرنے لگا یہ وہ کرنے لگا 
اور کرتے کرتے یونہی وہ یہ بن گیا وہ یہ 

Sunday, October 15, 2017

jungle kahani

از قلم ہجوم تنہائی

سنی سنائی کہانی (میری لکھی نہیں ہے )


سنی سنائی کہانی (میری لکھی نہیں ہے )
ایک بار ایک آدمی سنسان راستے سے گزر رہا تھا
اسے اپنے پیچھے کچھ لڑھکنے کی آواز آئ
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کچھ دیگیں لڑھکتی ہوئ آ رہی تھیں ۔انکے منہ کھلے تھے دیگیں اس کے پاس آ یں
ان میں سے آواز ای اگر تم چاہو تو ان میں ہاتھ ڈال کر ایک مٹھی سونا لے لو ۔۔۔
آدمی خوش ہوا جھانکا تو دیگیں سونے کے زیورات سے بھری تھیں اس نے جھٹ مٹھی بھر لی تب ہی اسکو
خیال آیا کیوں نہ میں دوسری مٹھی بھی بھر لوں کونسا مجھے کوئی دیکھ رہا
اس نے دوسرا ہاتھ بھی ڈالا تو اچھل کر دیگ میں جا گرا دیگ سالم نگل گئی۔۔۔ اور پھر لڑھکنے لگی
نتیجہ : دیگ صرف بریانی کی ہی اچھی ۔۔۔

Saturday, October 14, 2017

عدت ........


عدت ........
امی کام والی اس اتوار کو پھر نہیں آیی بہت چھٹی کرتی ہے آپ نے سر پر چڑھا رکھا ہے اسے 
لبنیٰ نے خفگی سے اپنے دھونے والے کپڑے لا کر واشنگ مشین کے ساتھ رکھی کپڑوں کی ٹوکری میں ڈالے جو تقریبا ابل رہی تھی ایک ہفتے کے ان دھلے کپڑوں سے 
امی بھی ابو کے کپڑے اٹھائے ہوئے اسے ابلتی ٹوکری سے دو دو ہاتھ کرنے آئ  تھیں 
بیٹا اسکا شوہر مر گیا ہفتے کو اسلیے نہیں آیی
امی نے افسوس سے کہا انھیں بھی آج ہی پڑوسن سے پتہ چلا تھا جہاں انکی کام والی ماسی برتن دھونے جایا کرتی تھی 
اوہ ... لبنیٰ کو تاسف ہوا 
نشیڑی تھا یہ تو ہونا ہی تھا 
اس نے تبصرہ کرنا ضروری سمجھا امی خاموشی سے ٹوکری میں الجھی رہیں 
لبنیٰ کو خیال آیا
تو کیا وہ اب عدت کے بعد آئیگی؟ ہمیں دوسری ماسی کا انتظام کرنا پڑیگا ؟
اچھے کپڑے دھو لیتی تھی چو ر  بھی نہیں تھی اب کیا کرینگے ہم؟
اسے نیی فکر لاحق ہی تو بے تابی سے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی 
امی نے ایک نظر دیکھا پھر گہری سانس بھر کر بولیں 
کونسی عدت چھوٹے چھوٹے بچے ہیں کام نہیں کریگی تو کھایے گی کہاں سے کہہ  رہی تھی اس بار جمرات کو مشین لگا جاؤنگی......

از قلم ہجوم تنہائی

Tuesday, October 10, 2017

اللہ کا کرم ہے بس



اللہ کا کرم ہے بس۔۔

میں مکان خریدنا چاہ رہا ہوں کئی جگہوں پر گھر دیکھتا پھر رہا ہوں آج ایک گھر مجھے پسند آہی گیا۔۔ کھلا ہوادار بڑے بڑے کمرے سب میں دیوار گیر الماری بنی تھی لائونج میں ایک جانب بڑا سا دیوار گیر شوکیس کچن میں نئ طرز تعمیر کی چمنی کیبنٹس باتھ روموں میں باتھ ٹب تک لگے تھے میں کمرے گن رہا تھا ماشااللہ میرے دو بیٹے دو  بیٹیاں سب اسکول کا لج جانے والے سب کو الگ کمرہ درکار تھا دس مرلے پر چار کمرے نیچے تین اوپر  اور دو کچن ڈرائینگ روم ایک کو اسٹو ر بنا لیں گے ہم میاں بیوی نیچے رہ لیں گے۔۔
میں نے کھڑے کھڑے سب منصوبہ بندی کرلی
میرے تاثرات بھانپتے ہوئے  دلاور اس گھر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگا۔۔ ایک زمین کی خرید و فروخت کی ویب سائٹ سے میں نے اس گھر کی تصویر دیکھ کر پسند کیا تھا مگر گھر سچ مچ شاندار تھا اتنے علاقوں میں گھر دیکھ چکا تھا ڈھنگ کا میری ضرورت کے مطابق گھر کروڑ سے آرام سے اوپر مالیت تک تھے سو دل پر جبر کرتے میں نے مہنگے اور پوش علاقوں سے نظر چرا لی۔۔ اب یہ ایک متوسط علاقے میں ایک چوڑئ گلی میں جس میں ارد گرد خوب بڑے بڑے مکان تھے آخری مکان سے دو مکان پہلے کا مکان تھا ۔۔۔ داخلی سڑک کے قریب تھا مارکیٹ بھی دور نہیں تھی غرض مجھے ہر طرح سے پسند اگیا۔۔
آپ مجھے آخری قیمت بتائیں سب چھوڑیں۔۔
میں اب سودے بازی کے موڈ میں تھا۔۔
انصاری صاحب آپ یہاں زمیں کی قیمت سے واقف ہی ہیں گھر بالکل نیا بنا ہے ٹائیلیں بھی میں نے خوب چن کر لگوائی ہیں ایک کروڑ بس۔۔ زیادہ نہیں مانگ رہا مناسب قیمت ہے۔۔
خالص کاروباری انداز تھا مجھے اسکے انداز سے ہی محسوس ہو گیا تھا۔ مگر میں نے نوے لاکھ تک کا زہن بنا رکھا تھا۔۔
کافی دیر بحث مباحثے کے بعد میں نے دوستی گانٹھ کر پچانوے لاکھ  پر منا ہی لیا تھا۔۔
چلیں انصاری صاحب آپکی تھوڑی خاطر مدارت ہو جائے۔۔
انہوں نے خلوص سے دعوت دی۔۔
میں فارغ ہی تھا سو ہم قریبی ریستوران آگئے۔۔
چائے کا آرڈر دے کر ہم اطمینان سے بیٹھ گئے۔۔
یہ گھر بیچ کر میں نے ڈیفنس میں کوٹھی لینی ہے۔
ویسے تو میں ابھی اسی علاقے میں رہتا۔ بچوں کی ضد ہے کسی اچھے علاقے منتقل ہو جائیں۔
میرا ویسے ایک پلاٹ ہے ڈیفنس میں پہلے سے۔اسے بھی بیچ دوں گا۔۔ ۔ دو گھر میں نے اسی علاقے میں اور بنوائے ہیں ایک یہ جو مارکیٹ ہے نا جس سے گزر کر ہم آئے ہیں اس میں یہ آگے کی پوری رو میری ہے۔۔
بس اللہ کا بہت کرم ہے مجھ پر ۔ وہ ہنس کر بتا رہا تھا۔۔
میں متاثر ہوا۔ واہ بھئی ۔۔میں نے جل کر بڑا سا گھونٹ بھر لیا چائے کا۔ سچ مچ دل کے ساتھ زبان بھی جل گئ۔۔
وہ میرا ہم عمر ہی ہوگا اسکے بچے بھی میرے بچوں جتنے ہونگے میں نے اندازہ لگایا۔۔
میں خود بچوں کا ستایا ہوا۔ہوں۔۔ میں زور سے ہنسا
۔ اچھا بھلا آبائی گھر تھا پرانے شہر میں بکوا دیا۔۔کہیں اور چلیں کسی اچھے علاقے میں پچاس لاکھ بھی پورے نہ ملے اسکے اونچاس لاکھ پچھتر ہزار میں بکا تھا۔۔
میں نے منہ بنایا۔۔
وہ پھر ہنسا۔۔
بس آج کل کے بچے بھی ۔۔۔
آپاسی کو۔ریکوزیشن کروا لیں نا۔۔
سرکاری ملازم ہونے کا یہی تو فائدہ۔۔ انہوں نے مفت مشورہ دیا۔۔
 میں نے لاپروائی سے سر ہلایا۔۔
حالانکہ میرا یہی ارادہ تھا اب آپ سے کیا چھپانا۔۔
اوپر کی آمدنی میری اچھی خاصی ہے مگر دنیا کو جواب بھی دینا پڑتا اب بندہ کھل کر تو سب کہہ سن نہیں سکتانا۔۔

یونہی ہلکی پھلکی باتیں کرتے میں نے اس سے بھی  پوچھ لیا
آپ کیا کرتے ۔۔ ؟
میں ڈیفنس میں ہو تا ہوں۔۔
اس نے آرام سے کہا۔۔
مجھے اچھو ہوا میں نے کپ رکھ کر زور دار قہقہہ لگایا۔۔
سولہویں گریڈ کا سرکاری افسر اس وقت پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا۔۔
واقعی ڈیفنس پر اللہ کا کچھ زیادہ ہی کرم ہے۔۔
میں کہہ کر اور زور سے ہنستا رہا۔۔ دلاور پہلے حیران ہوا پھر تھوڑا خفگی سے بولا۔۔
مطلب کیا ہے اس بات کا۔۔
میں نے بمشکل ہنسی روکی۔۔
میں کوئی حاجی نہیں اوپر کی کمائی اچھی خاصی میری مگر میں بھی اتنی جائداد بنا نہ سکا اور آپ معمولی ۔۔۔
مجھے ہنسی کا ایک اور دورہ پڑ گیا تھا۔۔





از قلم ہجوم تنہائی

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen