Tuesday, January 23, 2018

koi hajoom se pochay short urdu poem


pochti hay hajoom pochta naai kiun....
koi pochay mujhe tau yeh pochay....
phir poch lena k pochna chora kiun...
tanhai say mager yeh koi na pochay...
suna hay pochna chahtay hain sab mujhse...
pochta tu kisay hain jo koi tujhe pochay...
her baat mai ajeb hr baat mubham tanhai...
kuch batati nahi hajoom Tujhee Allah pochay.

پوچھتی  ہے  ہجوم  پوچھتا  نہیں  کیوں ....
کوئی  پوچھے  مجھے  تو  یہ  پوچھے ....
پھر  پوچھ  لینا  کہ  پوچھنا  چھوڑا کیوں ...
تنہائی  سے  مگر  یہ  کوئی  نہ  پوچھے ...
سنا  ہے  پوچھنا  چاہتے  ہیں  سب  مجھ سے ...
پوچھتا  تو  کیسے  ہیں  جو  کوئی  تجھے  پوچھے ...
ہر  بات  میں  عجیب  ہر  بات   مبہم  تنہائی ...
کچھ  بتاتی  نہیں  ہجوم  تجھے  الله  پوچھے ...
از قلم ہجوم تنہائی

facebook poem in urdu



chor jaoun jo jahan e facebook main...
mery darjan pages phr kon chalayga...

main admin houn pathar k zamanay say...
agli naslo ko kon yeh batayay ga...

tag kerna tau asaan hota hay mana...
pori post perh k demag ghom jayga...

meri id per lagi hay privacy paki...
mujhe del kerny wala bara pachtayayga...

mery page per likes berhtay jainge magr...
meri posts ka na hona boht rulayga...

suna hay log boht se add kerna chahte hain...
meri requests blck hain kon smjhayayga...

suno jo perh hi lia hay meri poem ko...
like b ker do mujhe pata chal jayga...

چھوڑ  جاؤں جو  جہاں   فیس بک  میں ...
میرے  درجن  پیجز  پھر  کون  چلایگا...

میں  اڈمن ہوں  پتھر  کے  زمانے  سے ...
اگلی  نسلوں  کو  کون  یہ  بتایے  گا ...

ٹیگ  کرنا  تو  آسان  ہوتا  ہے  مانا ...
پوری  پوسٹ  پڑھ  کے  دماغ  گھوم  جائیگا ...

میری  ائی ڈی پر  لگی  ہے  پرائیویسی پکی...
مجھے  ڈیل کرنے  والا  بڑا پچھتایگا...

میرے  پیج  پر  لاکس بڑھتے  جائیںگے مگر ...
میری  پوسٹس  کا  نہ  ہونا  بہت رلایگا...

سنا  ہے  لوگ  بہت  سے  ایڈ کرنا  چاہتے  ہیں ...
میری  ریکوسٹس  بلاک  ہیں  کون  سمجھا یگا...

سنو  جو  پڑھ  ہی  لیا  ہے  میری  پوم  کو ...
لائک بھی  کر  دو  مجھے  پتا  چل  جایگا ...از قلم ہجوم تنہائی

Monday, January 22, 2018

اردو کے حروف تہجی سے بنی کہانی

حروف تہجی کہانی
آ: آج کی کہانی ہے
ا: الو کے بارے میں
ب: بڑا ہی کوئ
ت: تنک مزاج ترین تھا بات بات پر
ٹ: ٹیٹوا دبانے پر تل جاتا
ث : ثابت کھا جانے پر یقین رکھتا تھا

ج: جانور وں کو
 چ: چونچیں مار کر اڑجاتا۔ اسکی
ح: حرکتوں کی وجہ سےجانور اس سے
خ: خار کھاتے تھے
د: دور دور رہتے تھے اس سے
ڈ: ڈنڈا پاس رکھتے تاکہ جیسے ہی وہ اڑتا آئے
ذ: ذہر سے برے لگنے والے الو کو مار بھگائیں۔۔
ر: رات ہوتی تو بس الو کی حکمرانی ہوتی جنگل پر
ڑ:  ریڑ مار کررکھ دیتا پورے جنگل کی۔۔
ز: زواروں تک کو نہ چھوڑتا انکے سر پر اڑ اڑ کر زچ کر دیتا
س: سب نے ایکدن سوچا اس الو کو سبق سکھائیں
ش: شام ہوتے ہی سب چھپ کر بیٹھ گئے
اسکے لیے ڈھیر سارے لوازمات کھانے کے لائے ساتھ ہی ایک
ص: صندوق شہد کی مکھیوں سے بھر کر رکھ دیا الو نہیں جانتا تھا آج
ض: ضیافت کا اہتمام جانوروں نے اسکیلئے ایسا کر رکھا ہے۔۔
ط: طبیعت کا شرارتی تو تھا۔۔
صندوق دیکھ کر بھاگتا آیا۔۔میری دعوت کیلئے
ظ: ظروف بھی رکھ دینے تھے ادھورا کام کیا۔ مجھ سے پوچھ ہی لیتے
ف: فرمائش کر کے اپنی پسند کی دعوت کا اہتمام کرواتا۔۔
ق: قبول کر ہی لیتا ہوں یہ سب لوازم۔۔
اس نے سوچا اور
ک: کھانے پر ٹوٹ پڑا۔۔
کھا پی کر اس نے ڈکار لی۔۔تو دیکھا ایک صندوق بھی پڑا ہے۔۔
گ: گیا پاس آئو دیکھا نہ تائو کھول دیا۔۔
ل: لال لال چونچوں والی ڈھیر ساری شہد کی مکھیاں صندوق کھلتے ہی اس پر حملہ آور ہو گئیں
م: مرتا کیا نہ کرتا اڑا۔۔ مگر مکھیاں اسکے پیچھے پڑی رہیں۔۔
ن: نہ جانے کہاں کہاں ڈنک مارتی اسکو پورا جسم پھول گیا۔۔
و: وہ گھبراکر دریا کے پاس آیا۔۔
اس میں ڈبکی لگا لی۔۔
ہ: ہر وقت اس سے تنگ ہوتے رہتے جانور وں کواسکی درگت پر خوب ہنسی
ء : آئی
ی: یوں سب کو ہنستے دیکھ کر الو کو احساس ہوا سب اسکی شرارتوں کی وجہ سے اس کو بالکل پسند نہیں کرتے وہ شرمندہ ہوا۔۔
ے: دریا سے نکلا اور سب سے معافی مانگ لی۔۔
نتیجہ:اردو  میں دنیا کی ہر زبان کا لفظ شامل کیا جا سکتا ہے مگر اسکی یہ لشکری خصوصیت کو اسکی سب سے بڑی خامی مت بنایئے جن الفاظ کے اردو متبادل موجود ہے انکی جگہ انگریزی الفاظ استعمال کرکے اردو کی توہین مت کیجیئے
از قلم ہجوم تنہائی

آخری کی کہانی

 آخری کی کہانی۔۔
ایک تھا ننھا سا انڈہ
ڈائنا سور کا تھا۔۔ ایکدن پھوٹ کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کھلا آسمان ہے دور دور تک چرند پرند مگر کوئی بھی اسکی۔نسل کا نہ تھا۔۔اسے جو دیکھتا منہ کھول کر دیکھتا جاتا۔۔
اسکو بھی حیرت ہوتی تھی آخر وہ اکیلا کیوں ہے۔۔
سارے جنگل میں اسکی دھوم مچی تھی۔۔
شیر سے بھی ذیادہ مشہور تھا۔۔ شیر کی بھی نسل کم ہو رہی تھی وہ بھی چڑتے کہ ہم سے زیادہ ایک معمولی ڈائنا سور مشہور ہے ۔ اسکے دیو ہیکل جثے سے سب شیر سے زیادہ خوف کھاتے تھے۔۔ مگر ڈائنا سور بے حد خوش اخلاق تھا۔۔ سب جانوروں سے ملتا حال احوال پوچھتا۔۔ اسکی ہاتھی سے بہت دوستی ہو گئ تھی اور زرافے سے بھی۔ کہ یہ دونوں جانور بھی اتنے ہی بڑے دیو ہیکل جثے کے مالک تھے کہ اس سے ڈرتے نہیں تھے۔ ان دونوں کے ساتھ رہ رہ کر ڈائنا سور بگی سبزی خور ہو گیا تھا۔۔ کبھی کسی جانور کا شکار نہیں کیا۔۔ خیر ایکدن ہاتھی کی طبیعت خراب ہوئی۔۔ بیماری سے کمزور ہوا۔۔ مناسب علاج معالجہ نہ ہو سکنے سے چند دن بیمار رہ کر مر گیا۔۔ یہ پہلی موت تھی جو ڈائنا سور نے دیکھی تھی۔۔
ہاتھی کی ہتھنی اور دو بچے تھے کہہ سکتے ہیں انکی نسل محفوظ تھی۔۔ زرافہ ڈائنا سور کو دیکھتا پھر کسی سوچ میں پڑ گیا۔۔
کیا سوچ رہے ہو؟۔۔
زرافے سے ڈائنا سور نے پوچھا۔۔
زرافہ نے گہری۔سانس لی۔۔
مجھے ڈر ہے کہ تم اکیلے آخری ہو تمہارا جوڑی دار کوئی نہیں خدا نخواستہ تمہیں کچھ ہوا تو دنیا میں ڈائنا سور کی نسل ہی ختم ہو جائے گی۔۔
ڈائنا سور پریشان ہو گیا۔۔
کیا واقعی۔۔؟۔۔ میرا تو واقعی کوئی نہیں بچا میں جب سے انڈے سے نکلا ہوں اپنے جیسا میں نے آج تک کوئی جاندار نہیں دیکھا پھر آخر ایسا کیسے ہو سکتا میں اتنا نادر و نایاب جانور اگر میں بھی کیا یہاں فنا ہو جائوں گا؟۔۔
زرافے نے گہری سانس لی اور جواب دیا۔۔
ہاں۔۔
ہر شے کو فنا ہے۔۔
نتیجہ: آپ جتنے بھی انمول اور شاذ ہوں فنا مقدر ہے آپکا بھی۔۔
از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, January 20, 2018

Tweets

از قلم ہجوم تنہائی



یہیں کہیں۔۔ اردو اداس شاعری

میں یوں تو ہوں یہیں کہیں
سچ کہوں تو ہوں کہیں نہیں
میرا پتا بتاتے ہیں وہ لوگ
جنہوں نے دیکھا مجھے کہیں نہیں
میرے ملال مجھے جینے نہ دیں
مر سکوں نہ میں اس ملال میں
میری قدر تو میں خود نہ جان سکا
میری وقعت بھی اب کہیں نہیں
میرے شور و شر سے بے زار تھے
میرے اپنے مجھ سے بد گمان تھے
 میں چپ ہوا تو پریشان ہیں
میرا  شور تھا کہیں نہیں
مجھے معنی عشق معلوم نہیں
مجھے آداب وفا بھی یاد نہیں
میں الفتوں سے مکر ہوں گیا
میرا دنیا میں کوئی کہیں نہیں
مجھے غرور تھا اپنی ذات پر
اپنی شخصیت اپنے کردار پر
خودی کو روند گیا ہوں خود ہی
میرا اپنا آپ اب کہیں نہیں
اب پوچھ لے ہجوم بھی
کہاں گیے اپنے اور احباب بھی
کیا بتاؤں میں تنہائی میں بھی
میرے اس پاس کہیں نہیں
از قلم ہجوم تنہائی

Friday, January 19, 2018

کمال کہانی

کمال کہانی
ایک تھا کوئی۔۔
تھا تو بہت کچھ ۔۔
مگر دنیا نے اسے کبھی قابل توجہ نہ گردانا۔۔
بہت کمال کا تھا۔۔ اسے بنا رکے بنا گرے چلنا آتا تھا۔۔ وہ محو سفر رہتا تھا مگر سہج سہج کر چلتا تھا۔۔ یہ کافی کمال کی بات تھی۔۔ کوئی زندگی کے سفر میں کیسے بنا رکے گرے سہج سہج کر چل سکتا؟۔۔
مگر اسکے کمالات کو ہمیشہ کمتر جانا جاتا گیا۔۔
کوئی اپنی قدر قیمت جانتا تھا۔۔ مگر سب اسکو اسکے کمالات کو درخوراعتنا نہ گردانتے۔۔
سو وہ اداس دنیا پر نفرین بھیج کر ہجوم تنہائی میں جا بسا۔۔
کسی نے یونہی اس سے پوچھ ڈالا
بھئ۔۔
کیا خود کو ضائع کرتے ہو کوئی کمال۔کیوں نہیں کر ڈالتے؟۔۔
کوئی سرد آہ بھر کر بولا۔۔
مجھے اڑنا نہیں آتا
مجھے تیرنا بھی نہیں آتا
میں سہج سہج چلتا ہوں تو سب کہتے ہیں اس میں کمال کیا ہے۔۔
کسی کو اسکی بات متاثر کر گئ۔۔
بولا
مجھے سہج سہج کر چلنا نہیں آتا مجھے سکھائو۔۔
میں تو سیدھی راہ پر بھی ٹھوکر کھا جاتا ہوں۔۔
کوئی اٹھ کھڑا ہوا
اسے سہج سہج کر چلنا سکھایا۔۔
یوں پہلی بار کسی کو کوئی اپنا پرستار بنا گیا۔۔
نتیجہ: انسان کیلیئے اڑنا تیرنا کمال نہیں انسان کیلیئے انسانیت کی راہ پر گر نہ پڑنا کمال ہوتا ہے۔۔
از قلم ہجوم تنہائی

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen