Friday, August 4, 2017

میری کہانی

میری کہانی
مجھے کیا خبر تھی
جو بہہ نہ پائیں گے
اشک
مجھ میں ٹھہر جائیں جو
کیا طوفان بپا کریں گے
یہ حزن ساگر بن جائے گا
میری آنکھیں کنارہ ہو جائیں گی
درد کی موجیں مجھے بھی لے جائیں گی
مجھ میں میں ہی ڈوب رہا ہونگا
تڑپ کر کنارہ لہروں سے سوال کرے گا
پلٹنا فطرت تیری میں کنارہ سہی اک التجا سن لو
خود میں ڈوبنے والے کو آج جانے دو
اسے پلٹا دو واپس آج
کنارے بھیگ جانے دو
ساگر ہنس دے گا
میرا راستہ رک نہیں سکا جس سے میں اسی کو ڈبوتا ہوں
جا کہہ دے ڈوبنے والے سے آج میں اس پر ہی روتا ہوں
نتیجہ:رونا اچھا ہوتا



از قلم ہجوم تنہائی


حسرت کہانی

حسرت کہانی 

ایک تھی مری خواہش پوری نہیں ہوتی تھی 
اس کو میں نے مار دیا 
تب سے راتوں میں اٹھ اٹھ کر روتی ہوں
وہ اب حسرت بن کر مرا پیچھا کرتی ہے 
نتیجہ : خواہش مرتی نہیں حسرت بن جاتی ہے 

از قلم ہجوم تنہائی

کوا اور چیونٹی کہانی

کوا اور چیونٹی کہانی 


ایک بار ایک کو ا درخت کی شاخ پر اداس بیٹھا تھا
پاس سے گزرتی چیونٹی نے دیکھا تو قریب آ کے پوچھنے لگی
"کیا ہوا  بھائی کوے اداس کیوں ہو؟ "
کوا اتنی ہمدردی پا کر سہہ نہ سکا اور رو پڑا
اسکی آنکھ سے ٹپکنے والے آنسو چیونٹی پر گرے 
چیونٹی اس سیلاب کی تاب نہ لا سکی اور بہہ گئی
نتیجہ : اپنے کام سے کام رکھا کرو 

از قلم ہجوم تنہائی


ردایے خواب اوڑھ کر


ردایے خواب اوڑھ کر 
آج اے آرزو جاناں 
کس موڑ پر تھاما
سرا سوچ کا میری 
کہ دل پر ثبت سا ہو گیا ہے سوال میرے 
تم میری کون ہو؟
سنو
آؤ دل برباد کریں 


از قلم ہجوم تنہائی


Wednesday, August 2, 2017

امیر شہر کہانی


گھپ اندھیرے میں ٹٹول ٹٹول کر چلتےوجود  ٹھوکر کھاتے سوچتے  راستے کتنا ستاتے ہیں کیا جانیں اکیلے نفس اس قفس میں تنہا نہیں کوسوں دور چراغ کا گماں ہوا جان لڑا دی کہ سفر میں آرام کو  اس سرائے میں جگہ نصیب ہو جائے چراغ ان سے بے انجان بس اپنی لو میں جلے جارہا تھا دونوں دبے قدم بڑھتے رہے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے کہ کوئی پیچھا تو نہیں کر رہا بڑھتے بڑھتے دونوں آمنے سامنے آئے تو ٹکرا گئے ۔۔۔ جھٹ سے دونوں نے تلوار نکال لی ایک۔دوسرے کی گردن پر تلوار کی نوک چبھو دی ۔ خلا میں تلوار بازی کرنا اور زندہ سلامت انسان پر تلوار تان لیناعلیحدہ بات دونوں ہی اناڑی تھے
ہاتھ کانپے تلواریں چھوٹ کر نیچے جا پڑیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
سرائے مسافروں سے کھچا کھچ بھری تھی دونوں کو ایک ہی بستر مل سکا رات گزاری کو دونوں ایک دوسرے پر اعتبار نہ کرتے ۔۔۔
کروٹ بدلتے نیند سے لڑتے لگتا تھا قیامت تک رات تمام نہ ہوگی بےحال ہو کر اٹھ بیٹھے سونا دونوں
کیلئے شجر ممنوعہ ٹھہرا
آخر ایک نے چپ توڑی
میں سونا چاہتا ہوں ایک طویل عرصہ ہوگزرا ہے میں سو نہیں پایا میں لکڑ ہارہ ہوں ایک درخت کاٹتے اسکی جڑ میں مجھے خزانہ دبا ہونے کا گمان ہوا میں نے کھودا تو مجھے بیش قیمت جواہر ملے ان میں سے کچھ میں نے نکال لیئے ہیں میری پوٹلی میں قیمتی جواہر ہیں میں شہر قیمت لگوانے جاتا ہوں اگر اچھی قیمت نہ بھی لگی تو اتنا پالوں گا باقی عمر اچھی گزر جائے گی اگر تو تمہارا ارادہ ہو لوٹنے کا تو ابھی لوٹ لو میں صبح واپس جا کر مزید نکال لوں گا اگر تو خزانے کی خواہش ہو تو صبح میرے ساتھ چلنا ہم آدھا آدھا کر لیں گے اگر لالچ ہو تو بھی کم از کم خزانے تک رسائی کیلئے تمہیں میری مدد درکار ہوگی تو بھی صبح تک کا انتظار کر نا ہی ہوگا
دوسرا حیران رہ گیا
میں اجنبی ہوں تمہارے لیئے راہزن بھی ہوسکتا مجھے یہ تفصیل بتانے کی وجہ ؟
پہلا اپنی نیند سے سرخ آنکھیں گاڑ کر بولا
مجھے جب سے خزانہ ملا ہے میں سویا نہیں مجھے یہ خوشی سونے نہیں دیتی
ایک دن مجھے سب مل جائے گا میں نیند کو ترس رہا ہوں تمہیں بتانے کا مقصد تمہارا ارادہ جاننا ہے تم فیصلہ کر لو اگر ان جواہر پر اکتفا کرنا ہو تو مار دو مجھے اگر آدھا خزانہ چاہیئے تو صبح تک کا انتظار کر لو تب تک میں سولوں چین سے۔۔۔
 مل جانے کی خوشی کی شدت کم ہوجائے تو شائد میں سو سکوں
دوسرا ہنس پڑا ہنسے گیا سمجھو ہنس ہنس کر پاگل ہو گیا
مجھے تمہارے خزانے میں کوئی دلچسپی نہیں میں خود اپنے شہر کے امراء میں سے ہوں میں تجارت پیشہ ہوں لوگ کہتے میں خوش قسمت ہوں مٹی چھو لوں تو سونا بن جائے  جس قافلے کے ساتھ جاتا ہوں سب سے پہلے میرا مال بکتا ہے بڑی بڑی سلطنتیں گھوم چکا ہوں بادشاہوں سے تعلقات ہیں میرے اتنا کچھ ہے میرے پاس کہ میں شمار نہیں کر سکتا مگر
وہ ہنستے ہنستے یکدم چپ ہوا
مگر؟
پہلامتجسس ہوا
مگر ایک عمر گزر گئ چین سے سویا نہیں ہوں اس سب کی حفاظت وبال جان بنی ہوئی ہے خوف کے مارے میں سو نہیں پاتا کوئی مجھ سے سب چھین نہ لے
مجھے یہ خوف۔۔۔
اک دن میں سب کھو دوں گا
مجھے یہ ڈر مار گیا ہے
کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا ۔۔۔
نتیجہ :دکھ اپنے اپنے

از قلم ہجوم تنہائی


Tuesday, August 1, 2017

کشتی کہانی


کشتی کہانی
ایک بار کچھ لوگ ایک چھوٹی  سی کشتی پر جا رہے تھے اچانک کشتی میں سوراخ ہوگیا کشتی میں پانی بھرنے لگا یہ ڈوبنے کے ڈر سے چیخنے لگے
تب ہی ایک اور کشتی پاس سے گزری اس میں بھی چار پانچ لوگ سوار تھے ملاح  کو ترس آیا ان کو بھی اپنی کشتی میں سوار ہونے کی پیشکش کی لوگ فورا چڑھ گیے کشتی پر بوجھ زیادہ ہو گیا ایک بندہ پہلی کشتی میں رہ گیا لوگوں نے کہا اسکی جگہ نہہیں اسکو چھوڑ جاتے ہیں ملاح نہ مانا اسکو جگہ دینے کو خود کھسک گیا اسے سوار کرایا گیا ملا ح کھسکتا گیا وہ سوار ہوا جگہ تنگ ہوئی ملاح جگہ دیتا رہا یہاں تک کہ اسکی اپنی جگہ ختم ہوئ پانی میں جا گرا لوگ خوش ہوئے جگہ بن گیئی ایک اور آدمی کشتی رانی کرنے لگا
ملاح ٹھو ڑی دیرپانی میں غوطے  کھاتا رہا پھر پرانی کشتی میں جا بیٹھا وزن کم ہونے کی وجہ سے کشتی میں پانی بھرنے کی رفتار کم تھی وقت گزاری کو کشتی سے بھر بھر کر پانی باہر نکا لنے لگا
 پاس سے ایک بڑی کشتی گزری اسے دیکھا تو مدد کی ملاح شکر کرتا کشتی میں آ بیٹھا یونہی بات برایے بات پوچھا کدھر کا رخ ہے
جواب ملا کسی چھوٹی کشتی کے ڈوبنے کا اشارہ ملا ہیے مدد کو جاتے ہیں
 آگے گیے اسی ملاح کی کشتی الٹی ہوئی تھی اور وہی شخص اس کشتی پر سر نیہوارے بیٹھا تھا جسکو ساتھی کشتی میں بے یار و مددگار چھوڑنا چاہتے تھے
نتیجہ : زندگی میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں اور اگر جگہ چھٹ جایے تو یقین کیجیے آپکی جگہ کہیں اور ہے اور بہتر ہے

ناقدری کہانی

 ناقدری کہانی
ایک تھا جوہری خزانےکا مالک تھا
ایک دن اپنا خزانہ خالی کرنے لگا
 ہیرا  وہ پھینکا پکھراج موتی سب پھینکتا گیا
سونا پھینکا چاندی سب قیمتی سے قیمتی جواہر پھینک ڈالے اسکے گھر کے آگے ٹیلے بن گیے جواہرات کے
لوگ اس سے ملنے آتے ان ٹیلوں میں سے راستہ بنا کر کبھی کھود ڈالتے کبھی پیروں تلے روند جاتے
خزانے دبتے گیے پکا راستہ بن گیااور  جوہری تڑپ تڑپ کر مر گیا کوئی کبھی ایک معمولی موتی تک اٹھا کر نہ لے گیا کسی کو ان جواہر کی قدر ہی معلوم نہ تھی
نتیجہ: لوگ نا قدرے ہوتے ہیں

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen