نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کشتی کہانی


کشتی کہانی
ایک بار کچھ لوگ ایک چھوٹی  سی کشتی پر جا رہے تھے اچانک کشتی میں سوراخ ہوگیا کشتی میں پانی بھرنے لگا یہ ڈوبنے کے ڈر سے چیخنے لگے
تب ہی ایک اور کشتی پاس سے گزری اس میں بھی چار پانچ لوگ سوار تھے ملاح  کو ترس آیا ان کو بھی اپنی کشتی میں سوار ہونے کی پیشکش کی لوگ فورا چڑھ گیے کشتی پر بوجھ زیادہ ہو گیا ایک بندہ پہلی کشتی میں رہ گیا لوگوں نے کہا اسکی جگہ نہہیں اسکو چھوڑ جاتے ہیں ملاح نہ مانا اسکو جگہ دینے کو خود کھسک گیا اسے سوار کرایا گیا ملا ح کھسکتا گیا وہ سوار ہوا جگہ تنگ ہوئی ملاح جگہ دیتا رہا یہاں تک کہ اسکی اپنی جگہ ختم ہوئ پانی میں جا گرا لوگ خوش ہوئے جگہ بن گیئی ایک اور آدمی کشتی رانی کرنے لگا
ملاح ٹھو ڑی دیرپانی میں غوطے  کھاتا رہا پھر پرانی کشتی میں جا بیٹھا وزن کم ہونے کی وجہ سے کشتی میں پانی بھرنے کی رفتار کم تھی وقت گزاری کو کشتی سے بھر بھر کر پانی باہر نکا لنے لگا
 پاس سے ایک بڑی کشتی گزری اسے دیکھا تو مدد کی ملاح شکر کرتا کشتی میں آ بیٹھا یونہی بات برایے بات پوچھا کدھر کا رخ ہے
جواب ملا کسی چھوٹی کشتی کے ڈوبنے کا اشارہ ملا ہیے مدد کو جاتے ہیں
 آگے گیے اسی ملاح کی کشتی الٹی ہوئی تھی اور وہی شخص اس کشتی پر سر نیہوارے بیٹھا تھا جسکو ساتھی کشتی میں بے یار و مددگار چھوڑنا چاہتے تھے
نتیجہ : زندگی میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں اور اگر جگہ چھٹ جایے تو یقین کیجیے آپکی جگہ کہیں اور ہے اور بہتر ہے

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani

 د کھی رات کہانی... یہ ایک دکھی کہانی ہے... رلا دیتی ہے... پڑھننے والے کو... مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے... یہ جان کے کہ در اصل یہ ایک... . . . دکھی کہانی نہیں ہے...  :D :نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟  Dukhi raat kahani yeh ek dukhi kahani hay  rula deti hay perhnay walay ko magar likhne waala muskra raha hay yeh jaan k  dar asal yeh ek  . . . dukhi kahani nahi hay  moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log? by hajoom e tanhai  از قلم ہجوم تنہائی

گندگی کہانی.. gandgi kahani

گندگی کہانی ایک تھا گندا بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی  لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو گندہ مسکرا دیا میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں .. یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا .. نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. : gandgi kahani ek tha ganda bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya paas say koi gzra tu herat say use d...