Saturday, December 30, 2017

روبوٹ۔۔افسانہ robot afsana

روبوٹ
میرا شانہ ہلاتے ہوئے اس نے اپنے مخصوص انداز میں مجھے جگایا تھا۔۔
اٹھ جائیے صبح کے آٹھ بج گئے ہیں۔ اس نے کہتے ہوئے گرم گرم چائے کا مگ میری مسہری کے ساتھ میز پر رکھ دیا تھا۔۔
میں انگڑائی لیتا ہوا اٹھ بیٹھا۔۔
میرے کپڑے استری کر دیئے تھے۔۔
میں نے معمول کا سوال کیا حالانکہ اسکا جواب مجھے معلوم تھا۔۔ وہ کر چکا ہوگا۔۔ یہ اسکا روز کا  کام تھا رات سونے سے پہلے وہ یہ سب کام نپٹا دیتا تھا
ہوں ۔۔ مختصر جواب ملا۔۔
میں مطمئن ہو کر اٹھ بیٹھا اور ہاتھ بڑھا کر چائے کا کپ اٹھا لیا اور چسکیاں لینے لگا۔۔ وہ ابھی بھی میرے سر پر کھڑا تھا
اب سر پر سوار کیوں ہو جائو ناشتہ بنائو۔۔
مجھے اچھی خاصی چڑ آئی۔۔ پانچ سال ہونے کو آئے تھے اس روبوٹ کو مجھے گھر لائے آج بھی مجھے اسکو ہر بات نئے سرے سے سکھانی پڑتی تھی۔ ہر روبوٹ کی طرح اسکا دماغ تو تھا نہیں۔۔ یا یوں سمجھئے پچھلے پانچ سالوں سے میں جو جو اسکی یاد داشت کی چپ میں بھر رہا تھا اسکی بھی جگہ ختم ہو چکی تھی بس اب یونہی دھکا شروع ہو گیا تھا ۔
میرے چڑنے پر وہ روبوٹ پلٹ کر شائد باورچی خانے میں چلا گیا تھا۔۔ میں اطمینان سے اگلے پندر منٹ میں چائے پی کر موبائل کے سب پیغامات اور سماجی رابطے کی تمام تر سائیٹس کی بے مصرف اطلاعات دیکھ کر اٹھا۔۔ نہا دھو کر داڑھی بنا کر اپنی چکنی جلد پر آفٹر شیو لوشن رگڑتا باہر نکلا تو وہی عاجز شکل والا روبوٹ منتظر کھڑا تھا۔۔
ناشتہ تیار ہے ۔۔آجائیں۔۔
وہ کہہ کر اس بار مزید میرے حواسوں کا امتحان نہ بنتے ہوئے پلٹ گیا۔۔
میں تیار ہو کر جب ناشتے کی میز پر پہنچا تو وہ خالی میرا منہ چڑا رہی تھی۔۔ ابھی مجھے غصہ آنے ہی لگا تھا روبوٹ بھاگتا ہوا آیا اور بھاپ اڑاتا ہوا پراٹھا اور آملیٹ میرے سامنے رکھ دیا۔۔
پہلے سے رکھا ہوتا تو ٹھنڈا ہو جاتا۔۔ روبوٹ نے صفائی دی۔۔
چائے؟۔۔ میری تیوری پھر بھی چڑھ گئ۔۔
ایک منٹ۔۔ وہ گھبرا کر پلٹ گیا۔۔
اف۔۔ ایک ناشتہ تک ڈھنگ سے بنانا آج تک نہ سیکھا تم نے۔۔ جانے کونسا منحوس وقت تھا جو تمہیں گھر لے آیا۔۔ میں بڑ بڑانے والے انداز میں اچھا خاصا اونچی آواز میں بول رہا تھا۔۔ مقصد اس غبی روبوٹ کو سنانا ہی تھا مگر ایک حسیات سے عاری مشین پر کیا فرق پڑنا تھا سپاٹ چہرے کے ساتھ اس نے چائے کا کپ بھی لا رکھا اور کسی معمول کی طرح ہاتھ باندھے میرے پیچھے مئودب کھڑا ہو رہا۔
میں ناشتہ کرکے دفتر جانے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
وہ روبوٹ مجھے دروازے تک چھوڑنے آیا۔۔ روبوٹ بے چین سا تھا میں اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسے ابھی اسٹآرٹ کر رہا تھا کہ وہ کھڑکی پر جھک ایا
میری بیٹری کمزور ہو رہی ہے مجھے چارجنگ کی ضرورت ہے۔۔
اف ۔۔ میں جھلایا۔۔
کوئی اندازہ ہے بجلی کتنی مہنگی ہے پاکستان میں تم جیسا ناکارہ روبوٹ کتنا مہنگا پڑتا۔۔ اوپر سے دن بہ دن تمہاری بیٹری بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے ہر وقت کی چارجنگ نرا خرچہ۔۔ شام تک گزارا کرو۔۔ اسی بیٹری میں کام کم کرنا۔۔ میں واپس آکر خود چارجنگ پر لگالوں گا۔۔
میں نے جھڑک کر رکھ دیا۔۔
مگر پھر مجھے کل دگنا کام کرنا پڑے گا اگر اج کا کام کل پر چھوڑا تو۔۔
روبوٹ منمنایا۔۔
میں کینہ توز نظروں سے گھور کر رہ گیا۔۔
ٹھیک ہے لگ جائو جارجنگ پر مگر ایک گھنٹہ بس۔۔ میں ایک گھنٹے بعد فون کر کے خود پوچھوں گا کتنی بیٹری ہوئی۔
میں نے احسان کرنے والے انداز میں اجازت دی۔۔
وہ روبوٹ سر ہلا کر پیچھے ہٹ گیا۔۔ میں نے گاڑی نکال لی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دفتر میں آکر کاموں میں لگ کر میں بھول بھال گیا۔۔اینڈروائڈ روبوٹ سیلف چارجنگ کے بعد خود میسج کر کےبتا دیتا ہے کتنا چارج ہوا کتنی بیٹری رہ گئ۔میرا روبوٹ پچھلے زمانے کا ہے اینا لوگ۔۔یہ وہی کام سر انجام دے سکتا بس جومیں فیڈ کروں اب چونکہ میں فید کرکے آیا تھا تو ٹھیک ایک گھنٹے بعد پچپن فیصد بیٹری چارج کا پیغام آچکا تھا ۔ میں نے موبائل پر آیا پیغام دیکھا پھر اسے ایک۔طرف رکھ دیا۔۔
یار ساجد ایک فائل دیکھ لے۔۔ میرا کولیگ اور بچپن کا دوست عقیل بےتکلفی سے کمرے میں داخل ہوا اور فائل میرے سامنے میز پر رکھتا ہوا بولا۔۔
ایس اینڈ سنز ۔۔ میں نے فائل پر نام پڑھا اور گھور کر دیکھا اسے۔۔
ایس اینڈ ایس کے اکائونٹس کی فائل ابھی تک تو نے نہیں دیکھی آج شام کو باس کو میں تیرا بوتھا رکھ کر دکھائوں گا۔۔
میں بنا لحاظ چلایا۔۔ جوابا وہ مسمسی سی شکل بنا کردیکھنے لگا۔۔
یار قسم سے مجھے وقت نہیں ملا کل بھی جلدی نکلنا پڑا میرا روبوٹ دو دن سے مسلہ کر رہا تھا اسکی بیٹری پھول گئی تھی وہی بدلوانے ایک سے دوسری لبارٹری پھرتا رہا بالکل یاد نہیں رہا کل ایک۔نئے سائنسدان کا کسی نے پتہ بتایا ہے ابھی جا رہا ہوں وہیں دکھانے ورنہ ابھی کر کے جاتا یہ کام۔۔
وہ بے چارگی سے مجھے دیکھ رہا تھا
حد کرتا ہے تو۔۔ میں ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔
کس نے کہا تھا جدید ترین روبوٹ لینے کا نازک ہوتے انکا ایسے ہی خیال رکھنا پڑتا میری طرح ایک درجہ کم تر روبوٹ لیتا خود کار بھی ہے سال دو سال میں کبھی بس بیٹری بدل دیتا یہ اینڈروائڈ
روبوٹ ناکارہ ہوتے خود کار حافظہ انکو ہر وقت متحرک رکھتا پھر ایسے ہی آئے دن بیٹری ختم ہوتی رہتی۔۔ میں نےمفت مشورے سے نواز ا عقیل کے چہرے کے تاثرات سنجیدہ سے ہو گئے
میں اپنے فیصلے پر مطمئن ہوں۔۔ مجھے اپنے روبوٹ سے کوئی شکایت نہیں۔۔ باقی ہر مشین کی طرح اسے بھی دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے
ہمیشہ کیلیئے تو انسان کے بھی کل پرزے نہیں ہوتے خیال رکھنا ہی پڑتا ہے خیال رکھوانے کیلیئے۔۔ روبوٹ کو بیوی بنالو۔۔ مگر  بیوی کو روبوٹ نہیں۔۔ کیونکہ روبوت بس مشین ہوتی اسکے جزبات اور احساسات نہیں ہوتے۔۔۔
وہ بولتا چلا گیا۔۔ میں نے بیزاری سے دیکھا۔۔
ایک سائنسدان کو بتا رہا کہ اسکو اپنی بنائی مشین کی دیکھ بھال کیسے کرنی چاہیئے۔۔
میں نے کہا تو وہ چپ ہوگیا۔پھر مزید کچھ بھی بولے بغیر چلا گیا۔۔
ہائش۔۔
روبوٹ انسان اپنے کام کروانے اپنی خدمت کیلیئے بناتا ہے اب اسکی خدمت میں لگ جائیں تو چہ معنی دارد ۔احمق غبی۔۔
مالک اور ملازم برابر ہو سکتے؟۔۔ میں نے جھلا کر فائل پٹخ دی میز پر۔۔
یہ روبوٹ مجھے وراثت میں ملا ہے۔۔ اس سے جو کام لیا جا سکتا میں لیتا۔۔مزید کیا اب اسے سر پر بٹھا لوں۔۔ میں جھلایا۔۔
میں بچپن سے روبوٹ استعمال کر رہا کوئی اسکی طرح جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے میرے ابا بہت بڑے سائنسدان تھے انہوں نے بھی ایسا ہی روبوٹ بنایا تھا وہ اسے ایسے ہی استعمال کرتے تھے انکا بنایا روبوٹ تو اب اپنا وقت پورا کر چکا تھا اب تو خیر اس روبوٹ کو بنانے والا بھی نہیں رہا تھا میں البتہ اپنے بنائے گئے روبوٹ کو ہرگز بھی رعائت دینا پسند نہیں کرتا تھا۔۔
میں ہر چیز کو اسکے مقام پر ہی رکھنا پسند کرتا ہوں۔۔ میں نے فخر سے گردن اکڑائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو جب میں گھر داخل ہوا تو روبوٹ نے پورا گھر چمکا رکھا تھا۔۔ میں کپڑے بدل کر منہ ہاتھ دھو کر نکلا تو گرما گرم کھانا میز پر چنا رکھا تھا۔۔ میں بیٹھ کر رغبت سے کھانے لگا۔۔
کھانا ختم کرتے ہی چائے کا گرم بھاپ اڑاتا مگ سامنے تھا۔۔ میں مسکرا دیا۔۔
جو بھی تھا پانچ سال اس روبوٹ میں اپنی مرضی کا ڈیٹا بھر کر اسے اپنی مرضی کے مطابق اطاعت گزار روبوٹ بناتے مجھے انسیت سی ہو ہی گئ تھی اس روبوٹ سے
روبوٹ جوابا اسی سپاٹ چہرے کے ساتھ مجھے دیکھتا رہا۔
کیا کیا کام کیئے دن بھر ۔۔ میرا انداز لگاوٹ بھرا تھا۔۔
کپڑے دھوئے صفائی کی کھانا پکایا چارجنگ پر لگایا
بس ۔۔ سارے دن میں بس اتنا سا کام ۔۔ میں بس سوچ کر رہ گیا
روبوٹ بات مکمل کر کے خاموش ہو گیا۔۔
اور ۔ میں شائد باتیں کرنا چاہ رہا تھا
اور کیا کہوں بتا دیں
روبوٹ ہی تو تھا اپنے زہن سے عاری الٹا مجھ سے ہی پوچھنے لگا۔۔
غبی روبوٹ اب باتیں کیا کرنی ہیں یہ بھی میں بتائوں۔۔ میں چڑ کر سوچنے لگا۔۔
روبوٹ چپ چاپ میری آنکھوں میں دیکھ رہا تھا
یہی روبوٹ تھا جب تک میں نے اپنا ڈیٹا فیڈ نہیں کیا تھا بے معنی بے مقصد باتیں سارے دن کا احوال سب فضول سے فضول بات تک مجھے بتاتا تھا۔۔
میں سارا دن دفتر میں سر کھپا کر آتا اور روبوٹ بک بک کرکے دماغ خالی کر دیتا تھا۔۔
تنگ آکر میں نے اسکی دوبارہ پروگرامنگ کی تھی۔۔ تب جا کر سکون ہوا مگر آج جانے کیوں میرا دل چاہا روبوٹ پہلے کی طرح بک بک کرے مگر آج روبوٹ ساکت بیٹھا رہا۔۔
میں بیزار سا ہو گیا۔۔
بے کار روبوٹ مالک کیا چاہتا یہ بھی خود سے سمجھ نہیں سکتا۔۔میں نے چڑ کر ٹوکا۔۔
آپ کی ہی پروگرامنگ ہے۔۔ روبوٹ ہنس کر بولا اور برتن سمیٹنے لگا۔۔
ہائش۔۔ میں جانے کیوں عاجز سا محسوس کر رہا تھا۔۔
فارغ ہو کر سیدھا کمرے میں آنا۔۔ میں حکم دیتا ہوابڑ بڑاتا ہوا کمرے میں چلا آیا
غبی روبوٹ۔۔
روبوٹ باورچی خانے میں برتن سنک میں رکھتا استہزائیہ ہنسا
غبی روبوٹ۔۔ اس نے مالک کے الفاظ دہرائے ۔۔
اسے ہنسی آگئ۔۔
آپکی ہی پروگرامنگ ہے۔۔ روبوٹ نما بیوی ہنستے ہنستے رو پڑی۔


از قلم ہجوم تنہائی

Wednesday, December 27, 2017

sad urdu poetry main hunsta tha


میں ہنستا تھا
اتنا کہ لوگ تھے کہتے
یہ دنیا میں ہنسنے آیا ہے
میں ہنس کر تھا کہتا
کبھی رویا تو غضب ڈھا ونگا
آج جب میں رویا
ساتھ یہ بھی سوچا کیا
میں نے
آج غضب ڈھایا ہے
؟
سوچتے ہوئےیہ
مجھے تھوڑا اور رونا آیا ہے
از قلم ہجوم تنہائی

Sunday, December 24, 2017

A tribute to kpop star late jong johyun from group shinee in urdu

خو د کشی سے پہلے میرا آخری خط۔۔۔
مجھے آج اپنا آخری خط لکھنا ہے۔۔
کس کے نام لکھوں۔۔؟
انکے جن کی وجہ سے
آج میں اس مقام پر ہوں۔۔ کہ مجھے سامنے اپنے بس اندھیرا نظر آتا ہے۔
یا انکے نام جن سے میرا کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا۔۔
عجیب بات ہے نا۔۔ مگر آج میرا مخاطب اس دنیا کا ہر وہ فرد ہے جو اس دنیا میں اس وقت موجود ہے۔۔
چلو تو سنو۔۔
یہ میرا آخری خط ہے۔۔
اسکے بعد نہ تو کبھی میری صورت دکھائی دے گی
نہ کبھی میری آواز سنائی دے گی۔ اب تم لوگ کہوگے
تو کیا ؟۔۔
ہا ہا۔۔ تو کیا۔۔
تو یہ کہ۔۔
مجھے بھی ویسی ہی زندگی ملی جیسی تم سب کو ملی۔۔ مگر میرا انجام تم سب سے مختلف کیوں ہے؟۔۔
مجھے بڑھاپے تک جینا کیوں مشکل لگ رہا۔
میں اپنی جوانی میں ۔۔ قبر میں جا لیٹنے جیسی مایوس کن سوچ کا شکار کیوں ہوں۔۔
تو سنو۔۔
میرے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔۔
یوں کہو۔۔
میرے ساتھ دنیا نے اچھا نہیں کیا۔۔
یوں کہو۔۔
مجھے سب نے چھوڑ دیا۔۔ شائد اس نے بھی جو مجھے تمہیں سب کو پیدا کرنے والا ہے۔۔
مگر نہیں۔
اس سے مجھے شکوہ نہیں۔۔
عجیب بات ہے نا۔۔
برا لوگ کرتے خفا ہم خدا سے ہو جاتے۔۔
نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔۔ میں خدا سے ناراض نہیں۔ ورنہ اسی کے پاس چلے جانے کی خواہش کیوں ہوتی میری؟۔۔
میں تو بس۔
چلو چھوڑو۔۔
مجھے لگتا ہے میں نے اپنی بساط کے مطابق سب اچھا کیا۔۔ اس سے زیادہ میرے بس میں ہی نہیں ہوگا۔
تو اگر مجھ سے کوئی شکوہ ہو تو معزرت میں بس اپنے آخری وقت میں اور کہوں بھی تو کیا۔۔
تو خدا حافظ دنیا۔۔
اب مجھ سے اور جیا نہیں جاتا۔۔
ختم شد۔۔
میں نے سطروں پر نظر دوڑائی۔۔
ایک اطمینان میرے رگ و پے میں دوڑ گیا۔۔
میرا آخری سفر اب آسان ہوگا۔۔ میں نے سوچا۔۔
میرے کچن میں ایک فرائی پین چولہے پر چڑھا ہے۔۔ اس پر ایک خاص مرکب دم دے رہا ہے۔۔
اس کے دھوئیں نے میرے پورے اپارٹمنٹ کا احاطہ کرنا شروع کر دیا ہے۔۔ میں اپنے بستر پر نیم دراز ہو گیا۔۔ آنکھیں زندگی میں بند کروں یا موت کو اپنے حواس مختل کرنے تک انتظار کروں
بس میں یہی فیصلہ کرنے لگا ہوں۔۔
آپ شائد متجسس ہیں ۔۔
میں کون۔۔؟۔۔۔
میں ایک ترقی یافتہ ملک کا مشہور ترین گلوکار ہوں ایک دنیا اس شہرت کے مزے لینا چاہتی جو میرے گھر کی باندی ہے جسکے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بقیہ عمر کھا سکتا ہے۔۔ ہا ہا ہا۔۔
میں ہاں۔۔ میں۔جونگ جوہیون۔۔ شائینی گروپ کا لیڈ سنگر۔۔
از قلم ہجوم تنہائی

Saturday, December 23, 2017

بے بسی کہانی۔۔ be basi kahani

بے بسی کہانی
ایک بار ایک بڑا سا بحری جہاز جو مسافروں سے بھرا ہوا تھا بیچ سمندر میں جا کر ڈوبنے لگا۔۔
سب مسافروں میں بھگدڑ مچنے لگی سب کے اوسان خطا ہو گئے کوئی مددگار کشتیوں کو بلانے کے اشارے بھیجنے لگا کوئی جہاز میں موجود امدادی سامان جمع کرنے دوڑا کسی کو ڈوبنے سے بچنے کو جہاز میں موجود مددگار چھوٹی کشتی درکار تھی۔۔ کوئی بس ڈوبنے سے بچانے والی جیکٹ پہن کر مطمئن ہو چلا تھا۔۔
جہاز کا کپتان خاموشی سے بیٹھا سب کی افراتفریح دیکھ رہا تھا کسی سے رہا نہ گیا پہنچا اسکے پاس سخت سست سنانےلگا۔۔
تمہاری غلطی ہے جو جہاز ڈوب رہا کم از کم اب تو اسے بچانے کی کوشش کر لو ہاتھ پر ہاتھ دھرے مت بیٹھے رہو۔۔
کپتان خاموشی سے سنتا رہا۔۔
کچھ لوگ آگے بڑھے اور کسی کو سنبھالنے لگے
بجائے اسکے کپتان کو برا بھلا کہو اپنی مدد آپ کرو۔
وہ آدمی غصے سے چلایا۔
تم کچھ کرتے کیوں نہیں ہو؟۔۔
کپتان مبہم سا مسکرایا اور بے چارگی سے بولا۔۔
میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔
نتیجہ:کبھی کبھی زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جب آپ کچھ نہیں کر سکتے تو تب آپ واقعی کچھ نہیں کر سکتے ہوتے ہیں۔۔
از قلم ہجوم تنہائی

پڑوسی کہانی

پڑوسی کہانی۔۔
ایک تھا مجو۔۔
اس کا پڑوسی بھی تھا سجو۔۔
اب مسلئہ یہ تھا کہ سجو نے بھینس پالی ہوئی تھی
مسلئہ یہ سجو کا نہیں تھا
مسلئہ مجو کا تھا کہ بھینس ہمیشہ اسکے گھر کے آگے آکر گوبر کر دیتی تھی
مجو روز اسکا گوبر اٹھاتا
مگر کبھی سجو سے شکایت نہ کی۔۔ ایک دن سجو غصے میں لال پیلا مجو کے گھر آیا
آتے ہی بلا لحاظ چلا کر بولا۔۔
پکڑو اپنے مرغے کو میرے گھر کے دروازے پر بٹ کر آیا ہے ۔۔۔ تمہارا مرغا ہے سنبھال کر رکھو اسے آئندہ میرے دروازے پر بٹ کی تو حلال کر دوں گا۔۔
مجو حیران پریشان کھڑا سوچ رہا تھا
 مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا ایک مسلئہ میں نے پال رکھا ہے کسی کیلئے۔
نتیجہ۔۔پڑوسی نے بھینس پالی ہو تو کبھی نہ کبھی اسکا گوبر آپکو اٹھانا ہی پڑتا۔۔
بھینس اور گوبر یہاں استعارے ہیں۔۔۔


از قلم ہجوم تنہائی

Sunday, December 17, 2017

Maafi معافی

Maafi short urdu nazm

Ay tahi daman wajood...
apni kotahyoun pe nadim ha...???
aaho zari kerta ha...???
Tu kabhi ...
na Bargah e Ilahi me jhuk saka...
apne wajood ki alaisho ka weham liay...
sun nadaan...
tu kia janay...
jin baymaya hatho ko tu na phaila saka...
dua k lie...
na jor ska mafi k liye...
haan...
yeh tery hath...
hain takhleeq uski...
wo zaat jo paak hay...

By hajoom e tanhai
اے تہی دامن وجود
اپنی کوتاہیوں پر نادم ہے؟
آہ و زاری کرتا ہے
تو کبھی
نہ بارگاہ الہی میں جھک سکا
اپنے وجود کی آلائیشوں کا وہم لیئے
سن نادان
تو کیا جانے

جن بے مایہ ہاتھوں کو تو نہ پھیلا سکا
دعا کیلئے
نہ جوڑ سکا معافی کیلیئے
ہاں یہ تیرے ہاتھ
ہیں تخلیق اسکی
وہ زات جو پاک ہے۔۔



از قلم ہجوم تنہائی

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen