خو د کشی سے پہلے میرا آخری خط۔۔۔
مجھے آج اپنا آخری خط لکھنا ہے۔۔
کس کے نام لکھوں۔۔؟
انکے جن کی وجہ سے
آج میں اس مقام پر ہوں۔۔ کہ مجھے سامنے اپنے بس اندھیرا نظر آتا ہے۔
یا انکے نام جن سے میرا کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا۔۔
عجیب بات ہے نا۔۔ مگر آج میرا مخاطب اس دنیا کا ہر وہ فرد ہے جو اس دنیا میں اس وقت موجود ہے۔۔
چلو تو سنو۔۔
یہ میرا آخری خط ہے۔۔
اسکے بعد نہ تو کبھی میری صورت دکھائی دے گی
نہ کبھی میری آواز سنائی دے گی۔ اب تم لوگ کہوگے
تو کیا ؟۔۔
ہا ہا۔۔ تو کیا۔۔
تو یہ کہ۔۔
مجھے بھی ویسی ہی زندگی ملی جیسی تم سب کو ملی۔۔ مگر میرا انجام تم سب سے مختلف کیوں ہے؟۔۔
مجھے بڑھاپے تک جینا کیوں مشکل لگ رہا۔
میں اپنی جوانی میں ۔۔ قبر میں جا لیٹنے جیسی مایوس کن سوچ کا شکار کیوں ہوں۔۔
تو سنو۔۔
میرے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔۔
یوں کہو۔۔
میرے ساتھ دنیا نے اچھا نہیں کیا۔۔
یوں کہو۔۔
مجھے سب نے چھوڑ دیا۔۔ شائد اس نے بھی جو مجھے تمہیں سب کو پیدا کرنے والا ہے۔۔
مگر نہیں۔
اس سے مجھے شکوہ نہیں۔۔
عجیب بات ہے نا۔۔
برا لوگ کرتے خفا ہم خدا سے ہو جاتے۔۔
نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔۔ میں خدا سے ناراض نہیں۔ ورنہ اسی کے پاس چلے جانے کی خواہش کیوں ہوتی میری؟۔۔
میں تو بس۔
چلو چھوڑو۔۔
مجھے لگتا ہے میں نے اپنی بساط کے مطابق سب اچھا کیا۔۔ اس سے زیادہ میرے بس میں ہی نہیں ہوگا۔
تو اگر مجھ سے کوئی شکوہ ہو تو معزرت میں بس اپنے آخری وقت میں اور کہوں بھی تو کیا۔۔
تو خدا حافظ دنیا۔۔
اب مجھ سے اور جیا نہیں جاتا۔۔
ختم شد۔۔
میں نے سطروں پر نظر دوڑائی۔۔
ایک اطمینان میرے رگ و پے میں دوڑ گیا۔۔
میرا آخری سفر اب آسان ہوگا۔۔ میں نے سوچا۔۔
میرے کچن میں ایک فرائی پین چولہے پر چڑھا ہے۔۔ اس پر ایک خاص مرکب دم دے رہا ہے۔۔
اس کے دھوئیں نے میرے پورے اپارٹمنٹ کا احاطہ کرنا شروع کر دیا ہے۔۔ میں اپنے بستر پر نیم دراز ہو گیا۔۔ آنکھیں زندگی میں بند کروں یا موت کو اپنے حواس مختل کرنے تک انتظار کروں
بس میں یہی فیصلہ کرنے لگا ہوں۔۔
آپ شائد متجسس ہیں ۔۔
میں کون۔۔؟۔۔۔
میں ایک ترقی یافتہ ملک کا مشہور ترین گلوکار ہوں ایک دنیا اس شہرت کے مزے لینا چاہتی جو میرے گھر کی باندی ہے جسکے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بقیہ عمر کھا سکتا ہے۔۔ ہا ہا ہا۔۔
میں ہاں۔۔ میں۔جونگ جوہیون۔۔ شائینی گروپ کا لیڈ سنگر۔۔
از قلم ہجوم تنہائی
مجھے آج اپنا آخری خط لکھنا ہے۔۔
کس کے نام لکھوں۔۔؟
انکے جن کی وجہ سے
آج میں اس مقام پر ہوں۔۔ کہ مجھے سامنے اپنے بس اندھیرا نظر آتا ہے۔
یا انکے نام جن سے میرا کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا۔۔
عجیب بات ہے نا۔۔ مگر آج میرا مخاطب اس دنیا کا ہر وہ فرد ہے جو اس دنیا میں اس وقت موجود ہے۔۔
چلو تو سنو۔۔
یہ میرا آخری خط ہے۔۔
اسکے بعد نہ تو کبھی میری صورت دکھائی دے گی
نہ کبھی میری آواز سنائی دے گی۔ اب تم لوگ کہوگے
تو کیا ؟۔۔
ہا ہا۔۔ تو کیا۔۔
تو یہ کہ۔۔
مجھے بھی ویسی ہی زندگی ملی جیسی تم سب کو ملی۔۔ مگر میرا انجام تم سب سے مختلف کیوں ہے؟۔۔
مجھے بڑھاپے تک جینا کیوں مشکل لگ رہا۔
میں اپنی جوانی میں ۔۔ قبر میں جا لیٹنے جیسی مایوس کن سوچ کا شکار کیوں ہوں۔۔
تو سنو۔۔
میرے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔۔
یوں کہو۔۔
میرے ساتھ دنیا نے اچھا نہیں کیا۔۔
یوں کہو۔۔
مجھے سب نے چھوڑ دیا۔۔ شائد اس نے بھی جو مجھے تمہیں سب کو پیدا کرنے والا ہے۔۔
مگر نہیں۔
اس سے مجھے شکوہ نہیں۔۔
عجیب بات ہے نا۔۔
برا لوگ کرتے خفا ہم خدا سے ہو جاتے۔۔
نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔۔ میں خدا سے ناراض نہیں۔ ورنہ اسی کے پاس چلے جانے کی خواہش کیوں ہوتی میری؟۔۔
میں تو بس۔
چلو چھوڑو۔۔
مجھے لگتا ہے میں نے اپنی بساط کے مطابق سب اچھا کیا۔۔ اس سے زیادہ میرے بس میں ہی نہیں ہوگا۔
تو اگر مجھ سے کوئی شکوہ ہو تو معزرت میں بس اپنے آخری وقت میں اور کہوں بھی تو کیا۔۔
تو خدا حافظ دنیا۔۔
اب مجھ سے اور جیا نہیں جاتا۔۔
ختم شد۔۔
میں نے سطروں پر نظر دوڑائی۔۔
ایک اطمینان میرے رگ و پے میں دوڑ گیا۔۔
میرا آخری سفر اب آسان ہوگا۔۔ میں نے سوچا۔۔
میرے کچن میں ایک فرائی پین چولہے پر چڑھا ہے۔۔ اس پر ایک خاص مرکب دم دے رہا ہے۔۔
اس کے دھوئیں نے میرے پورے اپارٹمنٹ کا احاطہ کرنا شروع کر دیا ہے۔۔ میں اپنے بستر پر نیم دراز ہو گیا۔۔ آنکھیں زندگی میں بند کروں یا موت کو اپنے حواس مختل کرنے تک انتظار کروں
بس میں یہی فیصلہ کرنے لگا ہوں۔۔
آپ شائد متجسس ہیں ۔۔
میں کون۔۔؟۔۔۔
میں ایک ترقی یافتہ ملک کا مشہور ترین گلوکار ہوں ایک دنیا اس شہرت کے مزے لینا چاہتی جو میرے گھر کی باندی ہے جسکے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بقیہ عمر کھا سکتا ہے۔۔ ہا ہا ہا۔۔
میں ہاں۔۔ میں۔جونگ جوہیون۔۔ شائینی گروپ کا لیڈ سنگر۔۔
از قلم ہجوم تنہائی
No comments:
Post a Comment