نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

روبوٹ۔۔افسانہ robot afsana

روبوٹ
میرا شانہ ہلاتے ہوئے اس نے اپنے مخصوص انداز میں مجھے جگایا تھا۔۔
اٹھ جائیے صبح کے آٹھ بج گئے ہیں۔ اس نے کہتے ہوئے گرم گرم چائے کا مگ میری مسہری کے ساتھ میز پر رکھ دیا تھا۔۔
میں انگڑائی لیتا ہوا اٹھ بیٹھا۔۔
میرے کپڑے استری کر دیئے تھے۔۔
میں نے معمول کا سوال کیا حالانکہ اسکا جواب مجھے معلوم تھا۔۔ وہ کر چکا ہوگا۔۔ یہ اسکا روز کا  کام تھا رات سونے سے پہلے وہ یہ سب کام نپٹا دیتا تھا
ہوں ۔۔ مختصر جواب ملا۔۔
میں مطمئن ہو کر اٹھ بیٹھا اور ہاتھ بڑھا کر چائے کا کپ اٹھا لیا اور چسکیاں لینے لگا۔۔ وہ ابھی بھی میرے سر پر کھڑا تھا
اب سر پر سوار کیوں ہو جائو ناشتہ بنائو۔۔
مجھے اچھی خاصی چڑ آئی۔۔ پانچ سال ہونے کو آئے تھے اس روبوٹ کو مجھے گھر لائے آج بھی مجھے اسکو ہر بات نئے سرے سے سکھانی پڑتی تھی۔ ہر روبوٹ کی طرح اسکا دماغ تو تھا نہیں۔۔ یا یوں سمجھئے پچھلے پانچ سالوں سے میں جو جو اسکی یاد داشت کی چپ میں بھر رہا تھا اسکی بھی جگہ ختم ہو چکی تھی بس اب یونہی دھکا شروع ہو گیا تھا ۔
میرے چڑنے پر وہ روبوٹ پلٹ کر شائد باورچی خانے میں چلا گیا تھا۔۔ میں اطمینان سے اگلے پندر منٹ میں چائے پی کر موبائل کے سب پیغامات اور سماجی رابطے کی تمام تر سائیٹس کی بے مصرف اطلاعات دیکھ کر اٹھا۔۔ نہا دھو کر داڑھی بنا کر اپنی چکنی جلد پر آفٹر شیو لوشن رگڑتا باہر نکلا تو وہی عاجز شکل والا روبوٹ منتظر کھڑا تھا۔۔
ناشتہ تیار ہے ۔۔آجائیں۔۔
وہ کہہ کر اس بار مزید میرے حواسوں کا امتحان نہ بنتے ہوئے پلٹ گیا۔۔
میں تیار ہو کر جب ناشتے کی میز پر پہنچا تو وہ خالی میرا منہ چڑا رہی تھی۔۔ ابھی مجھے غصہ آنے ہی لگا تھا روبوٹ بھاگتا ہوا آیا اور بھاپ اڑاتا ہوا پراٹھا اور آملیٹ میرے سامنے رکھ دیا۔۔
پہلے سے رکھا ہوتا تو ٹھنڈا ہو جاتا۔۔ روبوٹ نے صفائی دی۔۔
چائے؟۔۔ میری تیوری پھر بھی چڑھ گئ۔۔
ایک منٹ۔۔ وہ گھبرا کر پلٹ گیا۔۔
اف۔۔ ایک ناشتہ تک ڈھنگ سے بنانا آج تک نہ سیکھا تم نے۔۔ جانے کونسا منحوس وقت تھا جو تمہیں گھر لے آیا۔۔ میں بڑ بڑانے والے انداز میں اچھا خاصا اونچی آواز میں بول رہا تھا۔۔ مقصد اس غبی روبوٹ کو سنانا ہی تھا مگر ایک حسیات سے عاری مشین پر کیا فرق پڑنا تھا سپاٹ چہرے کے ساتھ اس نے چائے کا کپ بھی لا رکھا اور کسی معمول کی طرح ہاتھ باندھے میرے پیچھے مئودب کھڑا ہو رہا۔
میں ناشتہ کرکے دفتر جانے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
وہ روبوٹ مجھے دروازے تک چھوڑنے آیا۔۔ روبوٹ بے چین سا تھا میں اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسے ابھی اسٹآرٹ کر رہا تھا کہ وہ کھڑکی پر جھک ایا
میری بیٹری کمزور ہو رہی ہے مجھے چارجنگ کی ضرورت ہے۔۔
اف ۔۔ میں جھلایا۔۔
کوئی اندازہ ہے بجلی کتنی مہنگی ہے پاکستان میں تم جیسا ناکارہ روبوٹ کتنا مہنگا پڑتا۔۔ اوپر سے دن بہ دن تمہاری بیٹری بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے ہر وقت کی چارجنگ نرا خرچہ۔۔ شام تک گزارا کرو۔۔ اسی بیٹری میں کام کم کرنا۔۔ میں واپس آکر خود چارجنگ پر لگالوں گا۔۔
میں نے جھڑک کر رکھ دیا۔۔
مگر پھر مجھے کل دگنا کام کرنا پڑے گا اگر اج کا کام کل پر چھوڑا تو۔۔
روبوٹ منمنایا۔۔
میں کینہ توز نظروں سے گھور کر رہ گیا۔۔
ٹھیک ہے لگ جائو جارجنگ پر مگر ایک گھنٹہ بس۔۔ میں ایک گھنٹے بعد فون کر کے خود پوچھوں گا کتنی بیٹری ہوئی۔
میں نے احسان کرنے والے انداز میں اجازت دی۔۔
وہ روبوٹ سر ہلا کر پیچھے ہٹ گیا۔۔ میں نے گاڑی نکال لی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دفتر میں آکر کاموں میں لگ کر میں بھول بھال گیا۔۔اینڈروائڈ روبوٹ سیلف چارجنگ کے بعد خود میسج کر کےبتا دیتا ہے کتنا چارج ہوا کتنی بیٹری رہ گئ۔میرا روبوٹ پچھلے زمانے کا ہے اینا لوگ۔۔یہ وہی کام سر انجام دے سکتا بس جومیں فیڈ کروں اب چونکہ میں فید کرکے آیا تھا تو ٹھیک ایک گھنٹے بعد پچپن فیصد بیٹری چارج کا پیغام آچکا تھا ۔ میں نے موبائل پر آیا پیغام دیکھا پھر اسے ایک۔طرف رکھ دیا۔۔
یار ساجد ایک فائل دیکھ لے۔۔ میرا کولیگ اور بچپن کا دوست عقیل بےتکلفی سے کمرے میں داخل ہوا اور فائل میرے سامنے میز پر رکھتا ہوا بولا۔۔
ایس اینڈ سنز ۔۔ میں نے فائل پر نام پڑھا اور گھور کر دیکھا اسے۔۔
ایس اینڈ ایس کے اکائونٹس کی فائل ابھی تک تو نے نہیں دیکھی آج شام کو باس کو میں تیرا بوتھا رکھ کر دکھائوں گا۔۔
میں بنا لحاظ چلایا۔۔ جوابا وہ مسمسی سی شکل بنا کردیکھنے لگا۔۔
یار قسم سے مجھے وقت نہیں ملا کل بھی جلدی نکلنا پڑا میرا روبوٹ دو دن سے مسلہ کر رہا تھا اسکی بیٹری پھول گئی تھی وہی بدلوانے ایک سے دوسری لبارٹری پھرتا رہا بالکل یاد نہیں رہا کل ایک۔نئے سائنسدان کا کسی نے پتہ بتایا ہے ابھی جا رہا ہوں وہیں دکھانے ورنہ ابھی کر کے جاتا یہ کام۔۔
وہ بے چارگی سے مجھے دیکھ رہا تھا
حد کرتا ہے تو۔۔ میں ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔
کس نے کہا تھا جدید ترین روبوٹ لینے کا نازک ہوتے انکا ایسے ہی خیال رکھنا پڑتا میری طرح ایک درجہ کم تر روبوٹ لیتا خود کار بھی ہے سال دو سال میں کبھی بس بیٹری بدل دیتا یہ اینڈروائڈ
روبوٹ ناکارہ ہوتے خود کار حافظہ انکو ہر وقت متحرک رکھتا پھر ایسے ہی آئے دن بیٹری ختم ہوتی رہتی۔۔ میں نےمفت مشورے سے نواز ا عقیل کے چہرے کے تاثرات سنجیدہ سے ہو گئے
میں اپنے فیصلے پر مطمئن ہوں۔۔ مجھے اپنے روبوٹ سے کوئی شکایت نہیں۔۔ باقی ہر مشین کی طرح اسے بھی دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے
ہمیشہ کیلیئے تو انسان کے بھی کل پرزے نہیں ہوتے خیال رکھنا ہی پڑتا ہے خیال رکھوانے کیلیئے۔۔ روبوٹ کو بیوی بنالو۔۔ مگر  بیوی کو روبوٹ نہیں۔۔ کیونکہ روبوت بس مشین ہوتی اسکے جزبات اور احساسات نہیں ہوتے۔۔۔
وہ بولتا چلا گیا۔۔ میں نے بیزاری سے دیکھا۔۔
ایک سائنسدان کو بتا رہا کہ اسکو اپنی بنائی مشین کی دیکھ بھال کیسے کرنی چاہیئے۔۔
میں نے کہا تو وہ چپ ہوگیا۔پھر مزید کچھ بھی بولے بغیر چلا گیا۔۔
ہائش۔۔
روبوٹ انسان اپنے کام کروانے اپنی خدمت کیلیئے بناتا ہے اب اسکی خدمت میں لگ جائیں تو چہ معنی دارد ۔احمق غبی۔۔
مالک اور ملازم برابر ہو سکتے؟۔۔ میں نے جھلا کر فائل پٹخ دی میز پر۔۔
یہ روبوٹ مجھے وراثت میں ملا ہے۔۔ اس سے جو کام لیا جا سکتا میں لیتا۔۔مزید کیا اب اسے سر پر بٹھا لوں۔۔ میں جھلایا۔۔
میں بچپن سے روبوٹ استعمال کر رہا کوئی اسکی طرح جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے میرے ابا بہت بڑے سائنسدان تھے انہوں نے بھی ایسا ہی روبوٹ بنایا تھا وہ اسے ایسے ہی استعمال کرتے تھے انکا بنایا روبوٹ تو اب اپنا وقت پورا کر چکا تھا اب تو خیر اس روبوٹ کو بنانے والا بھی نہیں رہا تھا میں البتہ اپنے بنائے گئے روبوٹ کو ہرگز بھی رعائت دینا پسند نہیں کرتا تھا۔۔
میں ہر چیز کو اسکے مقام پر ہی رکھنا پسند کرتا ہوں۔۔ میں نے فخر سے گردن اکڑائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو جب میں گھر داخل ہوا تو روبوٹ نے پورا گھر چمکا رکھا تھا۔۔ میں کپڑے بدل کر منہ ہاتھ دھو کر نکلا تو گرما گرم کھانا میز پر چنا رکھا تھا۔۔ میں بیٹھ کر رغبت سے کھانے لگا۔۔
کھانا ختم کرتے ہی چائے کا گرم بھاپ اڑاتا مگ سامنے تھا۔۔ میں مسکرا دیا۔۔
جو بھی تھا پانچ سال اس روبوٹ میں اپنی مرضی کا ڈیٹا بھر کر اسے اپنی مرضی کے مطابق اطاعت گزار روبوٹ بناتے مجھے انسیت سی ہو ہی گئ تھی اس روبوٹ سے
روبوٹ جوابا اسی سپاٹ چہرے کے ساتھ مجھے دیکھتا رہا۔
کیا کیا کام کیئے دن بھر ۔۔ میرا انداز لگاوٹ بھرا تھا۔۔
کپڑے دھوئے صفائی کی کھانا پکایا چارجنگ پر لگایا
بس ۔۔ سارے دن میں بس اتنا سا کام ۔۔ میں بس سوچ کر رہ گیا
روبوٹ بات مکمل کر کے خاموش ہو گیا۔۔
اور ۔ میں شائد باتیں کرنا چاہ رہا تھا
اور کیا کہوں بتا دیں
روبوٹ ہی تو تھا اپنے زہن سے عاری الٹا مجھ سے ہی پوچھنے لگا۔۔
غبی روبوٹ اب باتیں کیا کرنی ہیں یہ بھی میں بتائوں۔۔ میں چڑ کر سوچنے لگا۔۔
روبوٹ چپ چاپ میری آنکھوں میں دیکھ رہا تھا
یہی روبوٹ تھا جب تک میں نے اپنا ڈیٹا فیڈ نہیں کیا تھا بے معنی بے مقصد باتیں سارے دن کا احوال سب فضول سے فضول بات تک مجھے بتاتا تھا۔۔
میں سارا دن دفتر میں سر کھپا کر آتا اور روبوٹ بک بک کرکے دماغ خالی کر دیتا تھا۔۔
تنگ آکر میں نے اسکی دوبارہ پروگرامنگ کی تھی۔۔ تب جا کر سکون ہوا مگر آج جانے کیوں میرا دل چاہا روبوٹ پہلے کی طرح بک بک کرے مگر آج روبوٹ ساکت بیٹھا رہا۔۔
میں بیزار سا ہو گیا۔۔
بے کار روبوٹ مالک کیا چاہتا یہ بھی خود سے سمجھ نہیں سکتا۔۔میں نے چڑ کر ٹوکا۔۔
آپ کی ہی پروگرامنگ ہے۔۔ روبوٹ ہنس کر بولا اور برتن سمیٹنے لگا۔۔
ہائش۔۔ میں جانے کیوں عاجز سا محسوس کر رہا تھا۔۔
فارغ ہو کر سیدھا کمرے میں آنا۔۔ میں حکم دیتا ہوابڑ بڑاتا ہوا کمرے میں چلا آیا
غبی روبوٹ۔۔
روبوٹ باورچی خانے میں برتن سنک میں رکھتا استہزائیہ ہنسا
غبی روبوٹ۔۔ اس نے مالک کے الفاظ دہرائے ۔۔
اسے ہنسی آگئ۔۔
آپکی ہی پروگرامنگ ہے۔۔ روبوٹ نما بیوی ہنستے ہنستے رو پڑی۔


از قلم ہجوم تنہائی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani

 د کھی رات کہانی... یہ ایک دکھی کہانی ہے... رلا دیتی ہے... پڑھننے والے کو... مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے... یہ جان کے کہ در اصل یہ ایک... . . . دکھی کہانی نہیں ہے...  :D :نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟  Dukhi raat kahani yeh ek dukhi kahani hay  rula deti hay perhnay walay ko magar likhne waala muskra raha hay yeh jaan k  dar asal yeh ek  . . . dukhi kahani nahi hay  moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log? by hajoom e tanhai  از قلم ہجوم تنہائی

گندگی کہانی.. gandgi kahani

گندگی کہانی ایک تھا گندا بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی  لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو گندہ مسکرا دیا میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں .. یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا .. نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. : gandgi kahani ek tha ganda bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya paas say koi gzra tu herat say use d...