Posts

شاعری کون کرتا ہے

تھکن سے شل وجود اپنی روح کا بوجھ اتار لیتے ہیں لفظ لفظ بیچتے ہیں جذبات اپنے شاعری کون کرتا ہے بے ٹھکانہ ہیں دنیا کونا بھی نہیں دیتی ٹک جانے کو سستاتے ہیں ، نہیں ستاتے پھر بھی عزت ہماری کون کرتا ہے چند کوس کا فاصلہ تھا بفضل نصیب دور ہوا ہم پیدل ہی گامزن ہیں اپنی منزل کو کہ بن کرایا سواری کون کرتا ہے دشمن گنے نام اپنے سوا کسی ایک کا نہ پا سکے دوست خود اپنے ہی ہیں کہ اس مزاج کے ساتھ ہم سے یاری کون کرتا ہے پتا کیا بتائیں بدل کر بھی بدلا نہیں ہم ٹھہرے ہیں خود میں کہ اپنے سوا ہم سے ملنے کی خواری کون کرتا ہے سوال بھی خود سے کیا تنہائی نے جواب بھی خود دے دیگی کہنے کو ہجوم ہمہ تن گوش ہے لیکن سن سن اپنا ہی سر بھاری کون کرتا ہے کلام ہجوم تنہائی

سساکت جھیل

کبھی پتھر سساکت جھیل میں پھینکا ہے ؟ ڈوب تو جاتا ہے مگر جھیل کے خاموش پانی میں بے نام سی ہلچل کرنا ایک بھنور سے لہر کا دور کنارے تک  بے مقصد سفر دینا صحیح ہے کیا کبھی کبھی تو لہر ٹوٹ جاتی ہے ایک اور پتھر ایک اور لہر تمہارا تو شغل ٹھہرا کبھی سوچا ہے جھیل کو لہریں مٹاتے کتنا وقت لگ جاتا ہموار ہوتے پر سکوں ہوتے تم نے تو یونہی ساکت جھیل میں پتھر پھینکا میری ذات کی ۔۔۔ پر مجھے کتنا وقت لگ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از قلم ہجوم تنہائی 

میں ایک شامی بچہ ہوں

میں ایک شامی بچہ ہوں ۔ مجھے ماں ایک کہانی سناتی ہے ایک قافلہ تھا کچھ مسلمانوں ۔۔۔یہاں جنگ کے بعد لٹ پٹ کر آیا تھا ۔۔۔جنگ میں اپنوں کو گنوا کر بس اسلام بچایا تھا ۔۔۔ ایک عرب کی شہزادی تھی سنا ہے یہ نبی زادی تھی۔۔۔ بے پردہ ہر شہر پھرای گئی ۔۔۔سنا ہے زلفوں سے منہ کو چھپاتی تھی بیتے ظلم بتاتی تھی خطبے دیتی جاتی تھی ۔۔ کوئی سنتا تھا برے غور سے کوئی ہنستا تھا ۔کوئی بیے خوفی سے جھٹلایے کوئی دل ہی دل میں ڈرتا تھا۔۔یہ قافلہ دکھوں سے امیر ہوا ۔۔۔ ایک شقی بادشاہ کے ہاتھوں اسیر ہوا۔۔۔ان اسیروں میں کچھ بچے تھے۔۔۔جنگ میں جانے کس طرح بچے تھے ۔۔۔ زنداں میں ماؤں کے پاس جاتے تھے ۔اپنے زخم دکھاتے تھے ۔۔۔ پوچھتے تھے کب ہونگے رہا ؟ ماؤں نے بہلانے کو ان سے کہا ؟ جب حق دلوں میں گھر کے جاےگا ہر مسلم ظلم کے خلاف اٹھ جاےگا ۔۔۔ پھر ایک وقت ایسا آیا مختار کوئی عرب سے اٹھ آیا ان یزیدیوں کو جہنم واصل کیا حسین کا پیغام پھیلایا مگر ماں میں نے ماں کی بات کاٹی مگر ماں جب ظلم کے بادل چھا تے تھے آل نبی پر سب ستم آزماتے تھے لوگ تب کیوں چپ رہ جاتے تھے ...

بلڈی سکس کلو میٹر

ایک اور کہانی 65 کی بلڈی سکس کلو میٹر مجھے مسیحائی کا ہنر آتا ہے جنگ میں یہ ملک کے کام آتا ہے  ایک دن پاس میرے ایک گھایل آیا اپنی شجاعت کا دشمن کو کر قایل آیا خون میں لت پت بدن زخموں سے چور مگر با حوصلہ عزم و ہمت سے بھرپور سوچ میں پڑی کہاں سے شروع علاج کروں ؟ بدن ٹٹولوں کس کس زخم کو دوا آج کروں ؟ مجھے شش و پنج میں دیکھا تو مسکرا د یا کسی سوچ نے اسکا خون اور گرما دیا مادام میں نے اپنے ان زخموں کو چوما تھا آج جب وائرلیس پر دشمن کا پیغام سنا تھا کہتا تھا لاہور بس دو کلو میٹر رہ گیا میرا خوں کھول اٹھا یہ کیا کہہ گیا جانتی ہے میں کیا کر آیا ہوں ؟ سنگ ۔میل پر اپنے خون سے لکھ آیا ہوں ۔۔۔ بلڈی سکس کلو میٹر۔۔۔

چند لفظی کہانی

چند لفظی کہانی  انکل نے بڑے پیار سے اس سے پوچھا  بیٹا تمہارا نام کیا ہے ؟ تین سالہ بچی سوچ میں پڑی پھر بولی  جی ،کمینی  ۔ ۔

تجھے کیا گلہ مجھ سے

ایک میں ایک تو  میں اس جہاں میں ادنی  تیرا یہ جہاں سارا جہاں ہے تو  میں میں کے گرداب میں الجھا  تو مجھ میں مجھ سے بھی چاہے تو  تجھے کیا گلہ مجھ سے جو چاہے کروا لے مجھ سے تو تو مالک میری مرضی کجا ؟ چاہے تو میری مرضی ہی ہو جایے تو مجھے نفس دیا آزمائیش دی مجھ سے فرشتوں سی پارسائی بھی مطلوب ؟ طلب و خوا ہش احتیاج و سیری مجھے الجھا کر مجھ میں تو تیری رضا چاہوں تیرا رہے خوف تو چاہے مجھے یاد رہے تو تو تو ہے میں میں ہوں میں مجھ میں بھی تو ہی تو مجھ سے میراحساب لے میں کہاں میں سے بڑھ کر تو میں ہجوم سے بھاگا تنہائی میں جاگا میری تھی تلاش مل جایے تو تجھے ڈھونڈتے ملا ہوں خود سے جانے اب کس دل میں ہے تو

کاغذ کی مچھلی

Image
کیا آپ نے کبھی کاغذ کی مچھلی دیکھی ہے ؟ لفظوں کےسمندر میں رہتی ہے۔ رفتہ سارا صفحہ چاٹ جاتی کاغذ محض ایک پھونک سے اڑ جانے والا برادہ بن کر رہ جاتا۔۔۔ چاہے کتنی ہی قیمتی کتاب کیوں نہ ہو۔ انجام یہ ہوتا۔۔۔۔۔ پھر کیا لفظوں کے تانے بانے بننا چھوڑ دیں  خواب دیکھیں  حسرتیں لکھنا چھوڑ دیں  پھر کیا تحریر کیا قاری  لفظوں کے بغیر  سب بے معنی بے کار بے مصرف ... سنو ہجوم تنہائی  یہی ہے تلخ سچائی