الیکشن دو ہزار اٹھارہ کہانی۔۔
ایک بار تین دوست شکار کو گئے جنگل میں۔ شکار نہ ملا۔۔ شیر مل گیا تینوں نے مل کر اسکا شکار کرنا چاہا ایک نے پیچھے سے سے وار کیا ایک نے اوپر سے ایک نے شیر کی آنکھوں میں دھول جھونک دی شیر زخمی ہوا تو ۔۔ کسی طرح اسے باندھ لیا۔ مگر پھر بھوک سے نڈھال بھی ہوگئے اب شیر کو تو کھا نہیں سکتے تھے حرام حلال چھوڑو اسکے قریب جا کر حلال نہیں کر پائے کیونکہ اسکی دھاڑ سے ہی دم نکلنے لگتا
خیر اسی شش و پنج میں تھے کچھ طلبا ادھر آنکلے۔۔
ایک۔جو ان میں بڑبولا تھا اس نے خوب خوب شیر کی برائیاں کیں شیر جوابا بس دھاڑتا مگر اس آدمی نے شیر کو بزدل ثابت کر لیا تبھی وہاں سے کسی سور کا گزر ہوا۔۔
طلبا چالاک تھے بولے شیر تو بندھا بیٹھا ہے ہم آپکو تب بہادر مانیں گے جب آپ شیر کو کھول کر اسکا شکار کر کے دکھائیں۔
اس بندے نے کچھ دیر سوچا پھر بولا ایک شرط پر میں اگر شکار کر لوں تو تم لوگوں کو کھانا پڑے گا۔۔
طلبا مان گئے۔۔
اس آدمی نے سور کو پکڑا اسے تقریر کرکے شیر سے مشابہ قرار دیا اسکی گردن پر چھرئ پھیر بھی دی۔
کچھ طلبا بدکے کچھ پکانے لگے۔۔
اب جب ہنڈیا تیار ہو گئ ہے تو سب مزے لیکر کر کھا رہے ہاں کچھ طلبا زخمی شیر کی مرحم پٹی کرنے بھی پہنچے ہیں سب نہیں کھا رہے سور۔۔
نتیجہ۔ یہ تین دوست اب بھی بتائوں یا سمجھ گئے کہ کون ہیں؟
از قلم ہجوم تنہائی