قسط 34
اسے پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا اتنی رات گئے کہاں جائے اپنا بیگ اٹھائے دو دن تو یونہی پبلک پارک میں چوکیدار کی نظر سے بچتے گزار دیئے مگر کوریا کی سردی اسکی ہڈیاں جما رہی تھی۔ اس دن وہ پارک میں بنچ پر سوئی تھی جب ایک چوکیدار نے اسے اٹھا دیا تھا۔
بی بی جائو یہاں سے یہ سونے کی۔جگہ نہیں۔
کھا کھا۔۔ اس نےٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اسے نکلنے کا کہا پھر کھا کھا کہتا رہا۔ اسے بیگ اٹھا کر نکلتے ہی بنی۔
مر جائوگئ یہاں ٹھنڈ میں ۔۔۔
اس نے اضافہ کیا۔ وہ سخت چڑی۔
مروں یا جیئوں تمہیں کیا۔ جوابا وہ اردو میں دھاڑی تھی۔
مگر چوکیدار اسکے تیور دیکھ کر پلٹ گیا۔ وہ چلتے چلتے مین روڈ پر نکل آئی۔ ایک دکان کے تھڑے کے اوپر پناہ لی ۔۔ تب ہی اسے واعظہ اور فاطمہ ٹکری تھیں۔
اس نے انکو سب بتایا سوائے اسکے کہ جو اسناد اور ویزا اس نے انہیں دکھایا تھا وہ جعلی تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ باتھ روم سے ہاتھ جھاڑتی نکلی تھی جب کسی سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔۔
سوری۔۔
اس نے فورا کہہ کر سر اٹھایا تو ٹکرانے والا سینے پر ہاتھ لپیٹ کر بہت غور سے سے دیکھنے لگا تھا۔
کیسی ہو؟
ٹھیک ہوں تم۔کیسے ہو؟
وہ سنبھل کر۔مسکرادی
کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ وہ شائد طنز کر رہا تھا
کہنے کو تو میں بھی ٹھیک ٹھاک ہوں۔
اچھی بات ہے۔ وہ اسکے پاس سے گزر کر جانے لگی
سنو۔۔ کیا ہم۔بات نہیں کر سکتے؟ پلیز۔۔
اسکا انداز اسکے قدم روک گیا۔۔
ہاں مجھے شکریہ ادا کرنا تھا تمہاری مدد کا۔تم نے ہمارا بہت ساتھ دیا۔ اور مبارکباد بھی دینی تھی۔ سنا ہے کافی ترقی کر چکے ہو۔۔ اچھی بات ہے تمہارا خواب پورا ہوا اسپیشل فورس میں جانے کا۔ تم سے یہی امید تھی جتنی تم میں لگن تھی کامیابی یقینی تھئ تمہاری۔ اچھا پھر ملیں گے۔
وہ بنا رکے ایک سانس میں کہہ کر چلی۔جانا چاہتی تھی۔
مجھے خالی خولی مبارکباد نہیں چاہیئے نا شکریہ۔
اس کی پھرتی اسکے آنکھوں میں جلتے کئی چراغ بجھا گئ تھئ۔ پھر بھی وہ ہمت نہ ہارا۔۔
مجھے ٹریٹ چاہیئے۔ وقت جگہ تم بتا دینا میں آئونگا۔۔
اس نے خود کو۔خود ہی دعوت دی تھی۔
اسکی جانب پشت ہونے کے باوجود واعظہ کو اپنی پشت میں کھبتی نگاہوں کا احساس ہورہا تھا۔وہ دھیرے سے آگے بڑھا اسکی مٹھی کھول کر اپنا کارڈ تھمایا پھر پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر نکلتا چلا گیا۔
واعظہ نے گہری سانس لیکرکارڈپڑھا۔۔
کم جونگ وون۔
ڈیٹیکٹو۔۔ اسپیشل سروسز۔۔
وہ اپنی پینٹ کی جیب میں کارڈ گھساتی جب واپس آئی تو میز خالی پڑی تھی وہ سب گلاس وال سے ناک چپکائے باہر جھانک۔رہی تھیں۔
یار یہ واعظہ کا کلاس فیلو ہے؟ سچ بتائو۔۔
عزہ پرجوش سی پوچھ رہی تھی۔
اسکی شکل تو ژیہانگ سے ملتی ہے۔۔
یہ الف نے رائے دی تھی
کم از کم بھئ چھے فٹ دو انچ ہوگا قد۔ یہ پاپا کے ساتھ آیا تھا دو ایک بار۔ مگر مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ واعظہ کا فرینڈ ہے اسی نے کہا ہوگا اسے ہماری مدد کرنے کو
نور نے اندازہ لگایا۔۔
اور پتہ ہے یہ سیہون اور واعظہ ہائی اسکول سے اکٹھے پڑھتے آئے ہیں۔ میری جب واعظہ سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تھی نا تائیکوانڈو کلب میں تب یہ سیہون سے ملنے آتا تھا۔ایک۔بار سیہون سے کہہ رہا تھا کہ واعظہ سے کہو کم از کم ایک بار تو مل لے مجھ سے۔۔۔
فاطمہ تفصیل بتا رہی تھی۔
کب کی بات ہے؟ نور چونکی
تین سال۔ہورہے۔
تو واعظہ ملی تھی ؟
عروج نے دلچسپی سےپوچھا۔۔
نہیں۔۔ فاطمہ نے وثوق سے کہا
ہاں۔ واعظہ نے اطمینان سے اقرار کیا۔
تمہیں۔کیسے پتہ۔
فاطمہ نے پلٹ کر کہنا چاہا۔مگر واعظہ کو سینے پر بازو لپیٹے اطمینان سے انہیں گھورتے دیکھ کر جم سی گئ۔
ہیں ملی۔۔۔ عروج بھی کہتے ہوئے پلٹ کر یکدم چپ۔ہوئی
کیا ہوا۔ سب باری باری پلٹ کر خجل ہوتی گئیں۔۔
یہ میرا کلاس فیلو تھا تین سال قبل ملنے آیا تھا مجھ سےاور سیہون کے کہنے پر میں ملی بھی تھی۔ اسکے بعد آج ملاقات ہوئی ہے ہماری۔ اور نور تمہاری مدد کرنے کو میں نے نہیں کہا تھا اسے۔۔۔۔
جو کام۔کیا ہی نہیں اسکا کریڈٹ لینا اسکی سرشست میں نہ تھا
سو اطمینان سے کندھے اچکا کر کرسی گھسیٹ کر۔بیٹھ گئ۔
ان سب نے بھی تقلید کی۔
کیوں ملنا چاہتا تھا؟
عزہ نے اشتیاق سے پوچھا مگر پوچھتے ہی احساس ہوا کچھ غلط کہہ گئ ہے کیونکہ سب نے مشترکہ گھوری دی تھی
اب کیوں ملنا چاہتا ہے؟
فاطمہ نے سیدھا سوال کیا ۔۔ وہ واش روم جانے اٹھی تھی۔جب اس نے کم جونگ وون کو واعظہ سے ٹکراتے دیکھا اور وہیں سے الٹے قدموں واپس ہوئی تھی ان سب کو بتانے۔۔۔۔
واعظہ نے ایک نگاہ ان سب کے مشتاق چہروں پر ڈالی
تین سال قبل اس نے مجھ سے مل کر پوچھا تھا کہ کیا میں اب بھی اپنے فیصلے پر قائم ہوں۔ اب جانے کیوں ملنا چاہتا ہے۔
اس نے سرسری انداز میں دونوں کو۔جواب دیا تھا
کیسا فیصلہ۔ ان سب نے کورس میں پوچھا تھا تبھی ویٹر آکر کھانا میز پر۔لگانے لگا تھا۔۔۔۔۔ان سب کو۔وقتی طورپر خاموش ہونا پڑا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلا پورا ہفتہ نائٹ تھی۔
شیڈول دیکھ کر اس نے اپنا پورا ہاتھ پھیلا کر لعنت بھیجی تھی بورڈ پر چپکے اس کاغذ کو۔۔ وہ بھی تین بار۔
مر کیوں نہیں گئے ایسا شیڈول بنانے کے بعد۔۔
ڈاکٹر جو بیونگ کا نام نیچے منتظمین میں لکھا تھا سو انکو علیحدہ سے یہی خراج تحسین پیش کیا۔
اسکی شفٹ کی تھکان دگنی محسوس ہونے لگی تھی۔
نائیٹ ڈیوٹی ہے اگلا پورا ہفتہ کتنی۔خوش نصیب ہو تم۔۔
اسکی کولیگ ڈاکٹرجنگ دو ہا جسکو دعا کے قریب قریب ہی۔تلفظ سے سب پکارتے تھے اسکے پاس آکر رشک سے بولی
تم لے لو یہ خوش قسمتی میری سب نائٹ سے اپنی مارننگ سویپ کرلو۔۔
عروج یکا یک پرجوش ہوئی تو وہ کھلکھلا دی۔ صفحے پر عروج سے نیچے اسی کا ہی نام جگمگا رہا تھا۔
میری بھی پورا ہفتہ نائیٹ ہے تمہارے ساتھ تبھی تو تمہیں خوش نصیب کہہ رہی تھی۔ اس نے اٹھلا کر اسے کندھا مارا
تم اور خوش نصیبی؟ عروج بدمزہ سی ہوئی۔۔
آہاں میں نہیں ڈاکٹر سیونگ رو۔ وہ بھی ہمارے ساتھ ہیں اگلا پورا ہفتہ۔۔
وہ شرارت پر آمادہ اسے چھیڑنے کے موڈ میں تھی
عروج نے کندھے اچکا دیئے۔ اور اپنے کمرے کی۔جانب چل پڑی
ارے۔ وہ۔دوڑ کر اسکے ہم قدم۔ہوئئ
ارے مجھے تو لگا تھا تم۔خوش ہوگی یا کہہ کر لگوائی ہوگی۔تم نے یہ ڈیوٹی سیونگ رو کے ساتھ۔
ہاں مامے کا پتر ہے نا وہ میرے اسکے ساتھ ہی رہوں بس میں
عروج نے ہنگل میں منہ چڑایا۔۔
تھیبا پورا جملہ۔ہنگل میں زبان میں وٹ تو نہیں پڑ گئے دکھانا ذرا۔
دعا اسکے کندھے سے جھول۔جھول گئ۔ عروج ہنس دی۔۔ لابی کے اختتام پر اسکا ڈورم تھاانکا رخ اسی کی۔جانب تھا
یار اب اتنا بھئ برا حال نہیں میرا اتنا تو بول ہی۔لیتی ہوں بس مجھے ڈر رہتا غلط سلط بولنے پر مزاق نہ بنے۔۔۔
عروج اپنے ڈورم کا دروازہ کھولتے ہوئے بولی تو دعا سنجیدہ ہوگئ
کورین کبھی مزاق نہیں اڑاتے غلط ہنگل بولنے پر بلکہ۔ہم تو خوش ہوتے ہیں لوگ ہماری زبان ہماری ثقافت سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔الٹا ہم مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ مس فٹ نہ محسوس کریں غیرملکی ہمارے یہاں۔ ہاں بس ہم سے انگریزی نہیں سیکھی جاتی۔ بہت مشکل زبان ہے بھئ۔
وہ کہتی ہوئی نچلے بنکر پر گر سی گئ۔
اپنا اوور آل اتار کر تہہ کرتی عروج مسکرا کر دیکھنے لگی
تم لوگوں کو سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہماری تو مجبوری ہے انگریزئ مسلط ہے ہم پر سیکھنا ہماری صوابدید پر نہیں ہم پر لازم ہے کہ سیکھیں اسے۔
وہ کہتے ہوئے اپنی میز پر کھلی کتابیں سمیٹنے لگی۔ اسپیشلائزیشن کئ تیاری کر رہی تھی سو اردگرد بس کتابیں ہی۔کتابیں تھیں۔
اپنی میز کی حالت درست کرکے وہ کرسی پر گر سی گئ
اگر دعا میرے ساتھ ٹنگ کر نہ چلی آئی تو ابھی بستر پر گرتی میں۔۔
اپنے بالوں میں انگلیاں پھنسا تے اس نے کسی گہری سوچ میں گم دعا کو دیکھتےسوچا جب اسکا انہماک ختم نہ ہوا تو چٹکی بجا کرمتوجہ کرڈالا۔ یونہی بنکربیڈ کی۔چھت پر نگاہ۔جمائے کہیں کھوئی دعا جھٹ پٹ واپس آئی
ہوں ۔وہ چونکی پھر اٹھ کر بیٹھ گئ
تم نے سونا ہے ؟ گھنٹہ بھر تو ہے بریک کا اور آج تو خاموشی ہی خاموشی ہے کوئی ایمرجنسی نہیں تو آرام سے دو تین گھنٹے ہیں تمہارے پاس سو لو۔۔۔
یہ منحوس جملہ ضرور بولنا تھا۔
عروج اپنے گلے سے لٹکتا استھیٹسکوپ اسے کھینچ مارا وہ ہنستے ہوئے جھکائی دے گئ
بیان بیان۔۔ وہ ہنستی گئ
یہ میڈیکل ٹیم کی بدقسمتی تھی کہ کیا جب کوئی ان میں سے کہہ دے کہ آج خاموشی ہے تو بس ایمرجنسیوں کا تانتا بندھ جاتا تھا سو اب تو یہ حال تھا کہ ایسا کہنے والے کی ٹھکائی کرتے تھے پکڑ کر۔۔
عروج کرسی پر نیم دراز ہوتی چلی جا رہی تھی۔ اسے اٹھنا پڑا
آجائو بھئ لیٹ جائو یہاں آرام کر لو۔
وہ اٹھی تو عروج نے مروتا بھی انکار نہیں کیا اس کے اٹھتے ہی بیڈ پر گر سی گئ۔
سر درد کے ساتھ منہ میں بھی درد ہو رہا تھا۔ عجیب بات تھی مگر اسکو صبح سے ہنگل بول بول کر بھی تھکن سی ہو گئ تھی۔ بر صغیرپاک و ہند کی زبانوں میں زبان میں آواز سے ذیادہ الفاظ اہمیت رکھتے ہیں۔ اور وہیں دیگر ایشیائی زبانوں خاص کر چینی زبان سے نکلنے والی زبانوں میں زرا سا آواز بدلی لفظ بدلہ مطلب بدلہ۔ حلق سے بولو کہیں تو کہیں زبان کی مروڑیاں۔ اور اوپر سے لہجہ ۔جو لہجہ اردو زبان میں بدتمیزی میں شمار ہو جاتا وہ وہاں بولنے کا عام لہجہ ہے۔ زرا سا دھیما یا گری گری آواز میں بولنا چاہا وہیں سب طبیعت پوچھنے لگ جاتے۔ اب یہاں پر اسکا ہائوس جاب مکمل ہوچکا تھا اسپیشلائزیشن کی تیاری کر رہی تھی کئی غیر ملکی یونیورسٹیوں میں اپلائی کر بھی رکھا تھا۔ مگر اسکے باوجود اگر یہیں اسپیشلائزئشن کر نی پڑتی تو ہنگل کے بغیر گزارا نہیں تھا۔سو بولنے والی جھجک اسے ہر صورت ختم کرنی تھی یہ الگ بات کہ حلق میں وٹ پڑ رہے تھے اس کوشش میں۔۔
عروج ایک بات پوچھوں۔
چند لمحے اسے آنکھیں موندے ساکت لیٹےدیکھ کر وہ متزبزب سی رہی پھر ہمت کرکے پوچھ ہی لیا۔۔
دے۔ عروج کا بالکل منہ کھولنے کا دل نہیں تھا پھر بھی بمشکل جواب دیا۔
جوابا اس نے وہ سوال کیا تھا جسے سن کر اس نے پٹ سے آنکھیں پوری کھول کر تحیر سے اسے گھورا تھا۔
بزر بجا تھا۔بہت زور سے۔
یقینا ایمرجنسی تھئ۔ دوہا یا اس کے جواب کے انتظار میں کھڑی تھئ وہ بھونچکا دیکھ رہی تھی اور بزر بج رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تھا۔ایک خاتون اہلکار شدید زخمی تھی بے ہوش تھیں ہمراہ دو مرد حضرات تھے اور عروج کو انکی خونم خون حالت دیکھ کر صاف نظر آرہا تھا کہ ان دونوں کی حالت خاتون سے کہیں ذیادہ خراب ہے۔
ایک کا سر پھٹا تھا دوسرے کا بازو ٹوٹ گیا تھا۔ مگر دونوں تسلی سے بیٹھے مرہم پٹی کروا رہے تھے۔ سیونگ رو سر پھٹوانے والے کی مرہم پٹی کر رہا تھااور بازو ٹوٹنے والے کو اسٹریچر پر بٹھوا کر اس نے ایکسرے کروانے بھیجا خاتون کو عروج دیکھ رہی تھی۔ تبھئ دو مزید اہلکار یقینا حادثے کی اطلاع ملنے پر چلے آئے ۔پہلے خاتون کے پلنگ کی۔جانب بڑھے۔
معمولی چوٹ ہے سر کی احتیاطا سی ٹی اسکین کروالیں۔ میرا خیال ہے خوف کی وجہ سے بے ہوش ہوئی ہیں۔ عروج نے انکو بتایا تو وہ سر ہلا کے دوسرے ساتھی کے پاس آئے۔
کیسے حادثہ ہوا ؟ گاڑی کون چلا رہا تھا؟
اگلوں کو رپورٹ لکھنی تھی۔
ابھی انکو مشکل میں نہ ڈالیں سر پر چوٹ ہے انکے ہم سی ٹی اسکین۔۔ سیونگ رو نے ٹوکنا چاہا مگر زخمی طوطے کی۔طرح تفصیل بتانے لگ گیا
سب انسپکیٹر سوہائو گاڑی چلا رہی تھیں۔ ایک ٹرالہ بائیں جانب سے نکلا گاڑی بچانے کیلئے ایکدم دائیں موڑی تو گاڑی۔بارڈر پر۔چڑھ کر الٹ گئ۔ میں آگے بیٹھا تھا میرا سر پھٹا۔۔ میں باہر نکلا ان دونوں کو نکالا پھر ٹیکسی روک کران تینوں میں بٹھا کر اسپتال لے آیا۔
ٹرالے کا نمبر نوٹ کیا۔؟ کونسا سگنل توڑا تھا اس نے ہم سی سی ٹی وی نکلواتے ہیں۔
انکے ساتھی کو غصہ آیا
اس ٹرالے کا قصور نہیں تھا سگنل ہم نے توڑا تھا۔ اس ٹرالے والے نے تو گاڑی روک کر ہمیں گاڑی۔سے نکالنے میں مدد بھی کی۔
زخمی نے سادگی سے بتایا تو سیونگ رو اپنی ہنسی نہ روک سکا۔ اور عروج بھی۔
حد ہی ہے۔ موصوفہ سب کو مشکل میں ڈال کر سکون سے سو رہی ہیں۔ اس نے اس چندی آنکھوں والی۔خوبصورت سی انسپکٹر کو بے خبر نیند لیتے دیکھ کر ہنس کر اپنی زبان میں جملہ۔چست کر ڈالا۔ وہ تینوں ہنگل میں شروع تھے اسکا۔کام۔ختم ہو چکا تھا۔ مریضہ کی چیزیں اسکے سرہانے قرینے سے رکھی تھیں۔ پولیس کا۔آئی ڈی کارڈ پرس وغیرہ۔ وہ سرسری نگاہ ڈالتی ہوئی وارڈ سے نکل۔آئی۔ اسکے ذمے آہجومہ جان کنی کے عالم میں تھی۔ کبھی بھی سانس اکھڑ جاتی۔۔ اس نے گہری سانس لی اور اس خیراتی ادارے کے ماتحت کام کرنے والے اس کمرے میں چلی آئی۔ اس کمرے کے مریض جنکے لواحقین سے رابطہ نہ ہو پارہا ہو یا وہ انتہائی غریب ہوں ایسے لوگوں کے علاج معالجے کا خرچ اٹھاتا تھا یہ ادارہ۔ ابھئ بھی انتہائ تشویش ناک حالت میں ان بوڑھی خاتون کی سانسیں اٹکی ہوئی تھیں۔ انکو دل کے دو دورے پڑچکے تھے۔ ساکت پڑے دھونکنی کی طرح سانس لیتے نحیف و نزاروجود ۔ انکو سکون آور ادویات دی جا چکی تھیں۔۔ وہ نرس سے تفصیل سنتے سرسری سا معائنہ کر رہی تھی۔
خاتون نے عروج کو اپنی نبض ٹٹولتے بڑے غور سے دیکھا تھا۔ انکی نگاہوں سے نگاہیں چراتے عروج سر جھٹک کے رہ گئ۔
ایسی اولاد سے بہتر بندہ بے اولاد رہے کتنا کچھ تو کیا اس غلط علاقے تک جاکے ڈھونڈ آئی مگر اب وہ ملنے کو تیار ہی نہیں تو کیا کروں۔
وہ بڑ بڑاتی اوور آل کے کوٹ میں ہاتھ ڈالتی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اسپتال سے باہر نکل آئی۔
آج اسکا ارادہ عیاشی کا تھا سو بس اسٹاپ کی جانب بڑھنے کی بجائے ٹیکسی کے انتظار میں سڑک کنارے آکھڑی ہوئی۔
سیونگ رو کی گاڑی اسکے قریب آن رکی تھی۔ڈرائیونگ سیٹ پر سے مسکرا کر دیکھتا سیونگ رو آننیانگ کہہ تھا۔ اس نے لمحہ بھر کو سوچا پھر دروازہ کھول کر اسکے ساتھ بیٹھ گئ۔
ایک کام کروگے؟
کالے لانگ کوٹ میں ملبوس سیونگ رو نے اثبات میں سر ہلادیا۔
جواب حسب توقع تھا۔ وہ فورا گاڑی سے اتر کر اسپتال کے اندر واپس بھاگی تھئ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی جس علاقے میں آئی تھی وہ تنگ سڑکوں گلیوں اور پرانے گندے مکانوں پر مشتمل تھا۔ سڑک کنارے ڈھابوں میں لوگ بے فکری سے بیٹھے تاش کھیلتے ہوئے مے نوشی کر رہے تھے۔ ایک دو لڑکیاں خوب تیار اتنی سردی میں بھی شارٹ اسکرٹ میں ملبوس لفٹ کا اشارہ کرر ہی تھیں مگر جب اس پر نگاہ پڑی تو پیچھے ہٹ گئیں۔
سیونگ رو کی مکمل توجہ سڑک کی۔جانب تھی۔
ایک چھوٹی سی گلی کے داخلی راستے پر اس نے ایک جانب گاڑی لگائی۔ سامنے سیڑھیاں تھیں سیڑھیاں سنسان اور اندھیری تھیں مگر سیڑھیوں کے نیچے روشنیوں اور لوگوں کی بہار تھی۔ تنگ گلی خوانچہ فروشوں اور تنبو لگا کے بنائے کھابوں سے سجی تھئ۔ چھوٹی چھوٹی دکانیں اور انکے آگے چھابڑی فروش۔ لوگوں کے ہجوم میں راستہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ ۔ عروج فورا گاڑی سے اتر کر تیز تیز قدم اٹھاتی سیڑھیاں اترنے لگی۔ سیونگ رو کو اسکی عجلت دیکھ کر جلدی جلدی گاڑی لاک کرکے پیچھے تقریبا بھاگنا پڑا۔
عروج ایک چینی قحبہ خانے کے سامنے جاکھڑی ہوئی تھی۔
سیونگ رو بھاگا بھاگا اسکے پیچھے آیا تھا مگر وہ بنا اسکا انتظار کیئے اندر منہ اٹھا کے گھس چکی تھی۔
سیونگ رو نے سر اٹھا کر قحبہ خانے کا نام دیکھا تو سر گھوم سا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندر کا ماحول کافی قابل اعتراض تھا۔ چھوٹی چھوٹی میزوں پر مشروبات اورناشتے کا سامان سجا تھا۔ تقریبا سبھی میزیں بھری تھیں لوگ خوش گپیوں میں مگن جام اڑا رہے تھے سامنے مختصر سے اسٹیج پر مختصر لباس میں ایک دوشیزہ مغربی گانے پر محو رقص تھی۔ عروج نے آئو دیکھا نا تائو سیدھا چڑھی دو قدم کی اونچائی پر بنے اس اسٹیج پر اور سیدھا اس لڑکی کی کلائی مروڑ کر کمر سے لگا دی۔
پورے قحبہ خانے میں سناٹا چھایا۔۔
سیونگ رو سٹپٹا کر داخلی دروازے سے چپکا کھڑا رہ گیا۔
چہرے پر ماسک لگائے عروج لہرا لہرا کر کوئی کارڈ دکھا رہی تھی۔
پولیس۔ یہ لڑکی اہم کیس کیلئے مطلوب ہے۔ فی الحال ہمیں سوائے اس سے ضروری معلومات لینے کے کچھ نہیں کرنا سو سب اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہیں۔۔
وہ سیونگ رو کے کالے لانگ کوٹ میں ملبوس تھی۔ اسکا ہیڈ اسکارف اس نے کورین انداز میں گردن سے پیچھے کر رکھا تھا۔ ماسک ناک پر چڑھائے دھڑلے سے اپنا پولیس کارڈ دکھاتی زرا سی بھی خوفزدہ نہ تھی۔۔۔
ایک منٹ سے بھی کم وقفے میں وہ اس لڑکی کو گھسیٹتی ہوئی باہر لے آئی تھی۔ لڑکی نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔بلکہ اسے یوں گھور رہی تھی جیسے نظروں ہی نظروں میں کھا جائے گی۔
اسکے باہر نکلتے ہی ساکت پڑے لوگوں میں جیسے جان سی آئی کھسر پھسر کوئی شائد انکے پیچھے بھی آتا
سیونگ رو نے لمحہ دیر نہ کی بلکہ جان کے ان کے پیچھے ہو لیا۔ ادھر ادھر محتاط نگاہوں سے دیکھتا۔ سیڑھیوں پار کرکے بجلی کی تیزی سے گاڑی نکالنے لگا۔۔
عروج نے اس لڑکی کو پچھلی نشست پر دھکیلا تھا اور اپنا بلکہ سیونگ رو کاکوٹ اتار کر اس کے منہ پر ہی مار دیا۔ اور خود اگلی نشست کا دروازہ کھول کے بیٹھ گئ۔
سیونگ رو کو ذیلی سڑک سے اہم شاہرہ تک آتے آتے بھی دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کوئی انکا پیچھا کر رہا ہوگا۔۔۔ دانت پیستے ہوئے اس لڑکی نے لانگ کوٹ چڑھایا پھر سیونگ رو کو دیکھ کر چٹخ کر بولی۔
کون آئے گا پیچھے اتنی اہم نہیں میں۔ الٹا اس جعلی کہہ سیکی پولیس والی کی وجہ سے میری لگی لگائی نوکری چلی جانی ہےاہم پولیس کیس میں میں مطلوب ہوں۔ لعنتی کہیں کی۔۔ وہ اس بار عروج کو گھور تے غرائی۔۔۔
۔تمہاری بڑھیا مرتے وقت مجھے بھی بھوکا مارے گی جسکی ہمدردی میں پاگل ہو رہی ہو۔
سیونگ رو اور عروج دونوں بھونچکا سے رہ گئے تھے اکٹھے مڑ کر اسے گھورا۔
تو ؟ پاگل سمجھ رکھا ہے مجھے؟ پتہ نہیں لگے گا مجھے کون ہو تم؟ سارا کوریا اسکارف پہن کر پھرتا ہے تمہاری طرح یا کوئی احمق پولیس والی بنا پستول اس دو نمبر جگہ پر اکیلے گھس آئے گی۔۔ میرے پیچھے میرے رہائشی علاقے تک پہنچنے والی ایک ہی گدھے جیسی بڑی آنکھوں والی لڑکی ہے جو مجھے تو نہیں مگر میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔۔
وہ اتنی زور سے چلائی تھی کہ عروج اور سیونگ رو دونوں کان دبا گئے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوبی نے کھچڑی پکائی تھی۔ بطور خاص انکے لیئے لیکر آئی۔۔ دروازہ عزہ نے کھولا تھا۔ اشتیاق سے اسی وقت پلیٹ پر ڈھکا کپڑا ہٹا کر دیکھا تو ارمانوں پر اوس سی گر گئ
اسکی کیا ضرورت تھی۔ بڑی سی ٹرے نما پلیٹ پکڑتے ہوئے عزہ نے تکلفا نہیں کہا تھا سچ میں منہ بن گیا تھا اسکا۔ اب بندہ کھچڑی بھی پڑوسیوں کو بھجواتا ہے بھلا۔
ہاں وہ تمہارے بھائی کا پیٹ خراب تھا تو بنا لی۔ اب سچی بات مجھے خود نہیں پسند اپنے اور بچوں کیلئے نگٹس بنائے مگر پھر دیگچی اتنی بھری تھی دلاور۔کتنا کھاتے سوچا تم لوگوں کیلیئے لیتی چلوں۔ طوبی مخصوص انداز میں کہتی اسکے پاس سے ہوکر اندر چلی آئی۔
الف منے صوفے پر گری ہوئی تھی۔ نور اسکے پاس ہی آلتی پالتی مارے قالین پر بیٹھی تھی۔ دونوں نیٹ فلیکس پر زندگی گلزار ہے دیکھ رہی تھیں۔
اس میں اسکی شادی اسی سے ہی ہوگی ۔۔
کشف کو یونیورسٹی میں زارون سے تھپڑ پڑنے لگا جب طوبی نے گوہر افشانی کی۔
بڑا اچھا ڈرامہ ہے لڑکا امیر ماں باپ کا بگڑا ہوا بیٹا ہوگا جبکہ یہ لڑکی کشف غریب سی ہوتی ہےانتہائی محنتی ہوتی ہے اپنا خرچ اپنی بہنوں کا تعلیمی خرچ برداشت کرتی ہے پڑھ لکھ کر سی ایس ۔۔۔۔
طوبی نور کے پاس بیٹھتے بیٹھے آدھا ڈرامہ بتا چکی تھی۔
الف نے گہری سانس لی۔ نور البتہ پوری طوبی کی جانب متوجہ ہوگئ ۔
پھر۔۔۔
پھر یہ کہ۔ طوبی دوبارہ شروع ہونے لگی تھی کہ عزہ نے بات اچک لی۔
یہ کھچڑی مزے کی بنی ہے میرے تو کھانے کا انتظام ہوگیا۔۔
وہ کچن میں چمچ کھڑکا رہی تھی
ادھر لے آئو میرا بھی آلو کی ترکاری کا موڈ نہیں ہو رہا۔
الف سر کھجاتے ہوئے اٹھ بیٹھئ۔
عزہ کو اندازہ تھا تین چمچ لیکر جب تک آئی تب تک نور نے منی میز کھینچ لی تھی تینوں اس میز پر ٹرے رکھ کر آلتی پالتی مار کر بیٹھتے شروع ہوگئں۔
عروج نہیں آئی ابھی تک۔ طوبی نے طائرانہ نگاہ اپارٹمنٹ پر ڈالی۔
نہیں آنے والی ہوگی کل سے نائٹ لگ جانی ہے اسکی ڈیوٹی لگتے ہی ایک تو سب کو اپنا شیڈول واٹس ایپ کر دیتی ہے۔ الف نے شکائت لگائی
کیوں؟ طوبی حیران ہوئئ
ایسا اس لیئے کہ ہم اسکی روم میٹس اسکے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اپنے معمولات زندگی اسکی ڈیوٹی کے ساتھ ایڈجسٹ کر لیں۔
عزہ نے نوالہ نگلتے ہوئے تفصیلا بتایا۔
جیسے کہ صبح جب وہ آئے تو ہم اپنا ناشتہ بناتے ہوئے اسکو بھی ناشتہ کرادیں۔ پھر سارا دن جو جو آئےگھر آتے ہی چپ
شاہ کا روزہ رکھ لے بنا آہٹ کیئے کمرے میں داخل ہو جب تک وہ سو رہی ہو سانس تک اونچی آواز میں لینا منع ہو جاتا ہے اسکے روم میٹس پر۔
طوبی کی آنکھیں پوری کھل گئ تھیں۔
اتنا سخت پہرہ۔۔
بس اتنا سمجھیں کہ۔ہم سب کو جیل ہو جاتی ہے عروج کی نائٹ لگے تو۔
نور ہنسی۔
ویسے سچی بات جیل میں کوئی کسی کے آرام کا خیال نہیں رکھتا ایک سے ایک ہنگامہ مچتا ہے رات کو۔ شائد ہی کوئی رات میں سوئی ہوں۔ سردی اکیلا پن تنہائی ایک طرف رات کو روز ہی کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑا ہوتا ۔ بھانت بھانت کی عورتیں عجیب عجیب سے جرم میں قید تھیں۔ سب میں غصہ نفرت انتقام بھرا تھا۔ کوئی کوستی بیٹھ کے لوگوں کو کوئی چیخ چیخ کر اپنا دکھ بیان کرتی۔ کوئی رونے بیٹھ جاتئ۔
نور کو جیل سے جیل ہی یاد آگئ۔ تو انداز سنجیدہ سا ہوگیا
ایک عورت تھی رات ہوتی تھی تو زور زور سے روتی تھی اپنے بچے کو یاد کر کے۔ اسکا چھوٹا سا بچہ تھا دودھ پیتا تھا شائد۔ اسکا رونا دل ہلا دیتا تھا۔۔۔۔۔ گھنٹوں سسکیاں لیتی۔ایک آہجومہ تھیں انکو السر تھا۔۔ سارا دن سکون سے رہتیں رات کا کھانا کھا کر جو طبیعت بگڑتی گھنٹوں کراہتی تھیں۔ جیلر کہتی تھی مکر کر رہی ہے۔ کبھی کبھی لگتا تھا واقعی۔۔
وہ بولتے بولتے چپ ہو گئ۔
میں بھی کیا باتیں لے بیٹھئ۔ اس نے ہنس کر بات کی سنگینی ٹالنی چاہی۔ الف طوبی اور عزہ تاسف سے اسے دیکھ رہی تھیں
بہت مشکل وقت گزرا نا تمہارا۔جبھئ کوریا سے دل اٹھ گیا۔
طوبی نے کہا تو وہ ہنس دی
سچ کہوں تو کوریا صرف ضد میں آئی تھی میں۔ بھائی کو چین میں اسکالر شپ ملی تھی۔ ڈاکٹر بن رہا ہے وہ۔ ہم۔بس دو ہی بہن بھائی ہیں۔ مجھے ہمیشہ لگا تھا ماما بابا مجھ پر بھائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہر جگہ ہر بات میں۔ بھائی کی مثال بھائی ایسا بھائی ویسا۔ ۔ میں تو جیسے تھی ہی نہیں انکے لیئے انکے سب خواب بھی بھائی سے جڑے تھے۔ میں جلنے لگی تھی اپنے ہی بھائی سے شائد۔جب ماما نے کہا کہ میں بھی ایف ایس سی میں بھائی کی طرح میڈیکل رکھوں تو میں چڑ سی گئ یہاں بھی بھائی کی طرح۔ میں نے کہا میں انجینئرنگ پڑھوں گی۔ بھائی چین گیا تو امی بابا اسکے لیئے پہلے سے ذیادہ فکر و محبت کا اظہار کرنے لگے۔ اسکے فون کا انتظار اسکے لیئے تحفے بھجوانے ہوں بھائی کا بائک سے گر کر ٹانگ پر فریکچر آیا مجھے ماموں کے گھر چھوڑ کر اماں ابا چین گئے ان سے ملنے۔
کوئی سوچ سکتا ہے کتنا فالتو غیر اہم سمجھا میں نے خود کو۔ مجھے بھی لے جاسکتے تھے مگر۔۔۔۔۔
۔نور کی آواز بھرا سی گئ۔۔۔۔۔۔
طوبی الف اور عزہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی۔تھیں۔
میں نے بی ایس کمپیوٹر پڑھنے کی ضد کی۔۔۔ امی نے کہا کیا فائدہ اس ڈگری کا میں نے ضد پکڑ لی۔ یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا وہیں کورین اسکالر شپس کا سنا اپلائی کردیا بیٹے کو ہنسی خوشی چین بھیجنے والے والدین بیٹی کی فرمائش پر بر افروختہ ہو گئے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیلی لڑکی کو اٹھا کے کوریا بھیج دیں پاگل کردو گی کیا نور تم ہمیں۔ ہر وقت ضد ہر وقت کوئی الٹی فرمائش۔
امی نے بنا لحاظ لتاڑکے رکھ دیا
بھائی کو بھی تو بھیجا چین مجھے بھیجنے میں کیا مسلئہ؟
وہ غصے سے چلائی۔۔
زبان مت چلائو۔ وہ لڑکا ہے اسکا تمہارا کیا مقابلہ پھر وہ تمہاری طرح کوئی فالتو ڈگری نہیں لے رہا ڈاکٹر بن رہا ہے۔
امی نے ٹوکا تو وہ بھنا گئی
میری ڈگری فالتو نہیں ہے۔ اور اگر میں ڈاکٹر بن رہی ہوتی تب کونسا بھجوانے کو تیار ہوجاتیں آپ۔ بیٹے کو تو خوب پیسہ لگا کر باہر بھیج دیا بیٹی کی باری آئی تو صاف انکار۔جبکہ فل فنڈڈ اسکالر شپ ہے۔ ایک پیسہ آپکا فالتو نہیں لگنا مگر سچ تو یہ ہے کہ میں ہی فالتو ہوں آپکی نظر میں مجھ پر پیسہ لگنا آپکو فالتو لگ رہا۔
ایک تھپڑ لگائوں گی دماغ ٹھکانے آجائے گا تمہارا۔ امی غضبناک ہوگئیں
یونیورسٹی کی بھاری فیس کون ادا کر رہا ہے تمہاری؟ بولو جواب دو۔
جوابا وہ منہ پھلا کر دوسری جانب دیکھنے لگی۔ امی نے بھئ تھوڑا سمجھانا چاہا۔۔
دو سمسٹر گزارکر نئے سرے سے سال ضائع کرکے کوریا جا کر پڑھنے میں کتنے نفل کا ثواب ملے گا تمہیں؟اتنے تو اچھے نمبر آتے نہیں جس سے اندازہ ہو بہت پڑھنے کا شوق ہے تمہیں۔
ہمیشہ اے گریڈ آتا ہے میرا۔
اس نے جتایا۔ امی ان سنی کر گئیں۔
پھر لڑکی ذات باہر سو طرح کی اونچ نیچ منہ اٹھا کے کیسے بھیج دیں تمہیں۔ اتنی عقل مند تو ہو نہیں تم کہ خود کو سنبھال لو۔ اوپر سے عبایا کرتی ہو غیر مسلم ملک میں جانے کا شوق ہے کوئی اندازہ ہے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے باہر۔۔۔۔
کوریا میں ایسا کچھ نہیں ہے سب معلومات لی ہیں میں نے۔
امی۔۔
وہ سب بھول کر منانے والے انداز میں بولی
ایشیاء میں سب سے اچھا تعلیمی نظام انکا ہے۔ وہاں پر گنز کا نام و نشان تک نہیں۔ تیزی سے ترقی کرتی معیشت ہے انکی۔ سب سے ۔۔۔۔
ہزار دلائل تھے اسکے پاس جنکو بیان کرنے کا موقع امی ہرگز نہیں دینے والی تھیں
دو قدم کے بازار تک تو اکیلی جاتی نہیں ہو دوسرے ملک جائوگی ؟ کیوں پریشان کر رکھا ہے نور تم نے بیٹیاں ایسی ہوتی ہیں بھلا ہر دوسرے دن نئی ضد نیا مسلئہ لیئے کھڑی ہوتی ہو۔
امی ناراضگئ دکھانے لگیں تو وہ چٹخ سی گئ
کیسی ہوتی ہیں پھر بیٹیاں؟ ان ویزیبل؟ نہ دکھائی دینے والی خاموش چپ جنکی نا کوئی آرزو ہوتی نا فرمائش؟ ایسی بیٹی چاہیئے ہی کیوں ہوتی ہے جسکا ہونا نا ہونا برابر ہو؟
کیا بکواس کر رہی ہو۔ امی اسکے شکوے پر حیرت زدہ سی ہوگیئیں۔
صحیح کہہ رہی ہوں بچپن سے آج تک مجھے کبھی ایسا لگا ہی نہیں کہ میں بھی ہوں آپکی اولاد۔ سالگرہ ہو یا اسکول کا۔پہلا دن ، پہلا دانت نکلا ، آخری دانت ٹوٹا ، اسکول میں پوزیشن لی یا کسی مقابلے میں حصہ لیا ، اے گریڈ لیا تو بائک دلا دی ، اسکالر شپ لیا تو خاندان کی دعوت ہر یاد ہر اہم بات اس گھر کی بس آپکے بیٹے سے جڑی ہے۔ اسکی ہر کامیابی ہر ترقی کی یاد تصویر کی صورت ہر دیوار پر چسپاں ہے تو یاد کی صورت دل میں روشن۔اور میں۔
اونچا اونچا بولتے وہ رو پڑی تھی۔
میری سالگرہ بھی یاد ہے آپکو ۔ ؟ کوئی ایک بچپن کی تصویر میری اکیلی کی لی ہو آپ نے، کبھی میری کسی کامیابی کو منایا؟ بس ایک شاباش ملتی ہے مجھے وہ بھی دل میں جانے خوشی ہوتی بھی ہے آپ دونوں کو کہ نہیں پتہ نہیں۔۔۔۔
امی ساکت سی کھڑی اسے دیکھ رہی تھیں۔
مجھے کوریا جانا ہے ہر صورت۔ ایک پیسہ نہیں لگنے دوں گی آپ کا فکر نہ کریں مگر مجھے مت روکیں۔۔
باہر جاکر پڑھوں گی نظروں سے دور ہوں گی تو شائد آپکو احساس ہوکہ آپکی کوئی بیٹی بھی ہے۔ ورنہ تو یہاں وہاں فالتو سامان کی طرح رہتی ہوں میں اس گھر میں۔۔۔۔۔
اپنی آنکھیں بے دردی سے مسلتے وہ مڑی تھی جو دروازے پر پاپا فون لیئےکھڑے ہکا بکا اسے دیکھ رہے تھے۔ شائد بھائی کا فون آیا تھا جو امی سے بات کروانے لا رہے تھے۔ یہ سب کچھ نہ صرف امی نے سنا بلکہ ابو اور بھائی نے بھی۔۔۔۔
اور یہ اسکے بھائی کے سمجھانے کا اثر تھا جو وہ اسے یہاں بھیجنے پر مان گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
جاری ہے۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment