قسط 36
وہ تینوں دکانیں کھنگالتی ہھر رہی تھیں۔
تین دکانوں سے صاف جواب دیا گیا چوتھی نے انکو نئی یو ایس بی بیچنی چاہی۔
ہمیں اسکے اندر جو مواد ہے وہ چاہیئے۔
نور نے اس انگریزی سے نابلد انسان کو سمجھانے میں جی جان لڑا دی۔ جوابا اس نے اپنا بڑا سا کدو جیسا سر ہلا کر نئی نکور یو ایس بی سامنے رکھ دی۔۔ تینوں بری طرح جھلاکر دکان سے ہی باہر نکل آئیں۔ سہ پہر ہورہی تھی۔ دھوپ ڈھل رہی تھی۔ وہ لوگ یونہی چہل قدمی کرتی مارکیٹ سے باہر نکل آئیں۔
عجیب جاہل لوگ ہیں کسی کو انگریزی سمجھ نہیں آتی۔۔
طوبئ نے ناک چڑھائئ۔
اب تو یہی حل رہ گیا ہے کہ آپ دلاور بھائی کو صاف صاف سچائی بتا دیں۔۔
عزہ نے کہا تو وہ بدک اٹھئ
ہرگز نہیں۔۔۔ اب تک انکے پانچ ہزار، پارکر پین وہ بھی سونے کی نب والا، انکے آفیشل وائوچر ، مائکروویو اوون کا اصل وارنٹی کارڈ ، ایک ٹائی پن دھو چکی ہوں۔ ٹائی پن تو جو جا کے واشنگ مشین میں اندر پھنسی تھی کہ مشین چل کے نہ دیمکینک کو بلوا کر مشین ٹھیک کروانی پڑی تھی دو ہزار لگے تھے جانے اندر کونسا پائپ توڑ ڈالا تھا۔ سب بدلنا پڑا تھا۔ اتنے نقصان دینے کے بعد یہ اعتراف کرنا کلہاڑی پر پائوں مارنے کے برابر ہوگا۔۔ اسکے فخریہ انداز میں کہنے پر دونوں منہ کھولے دیکھتی رہ گئیں۔۔
اتنا کچھ دھو لینے کے بعد تو آپکو بیس بیس دفعہ جیبیں چیک کرنے کی عادت پڑ جانی چاہییے تھی۔ نور نے کہا۔ تو عزہ نے تائیدئ گردن ہلائی۔
ہاں جب کبھی رات کو دیر سے آتے ہیں نا تو خوب باریک بینی سے چیک کرتی ہوں یہاں کتنا تو آزاد ماحول ہے ۔ کسی لڑکی کے چکر میں پڑ گئے تو میرے بچوں کا کیا ہوگا۔ میں تو جیب الٹ الٹ کر دیکھتی ہوں
طوبی نے کہا تو نور نے سر پیٹ لیا۔
میرا مطلب تھا دھونے سے پہلے بھی دیکھ لیا کریں لڑکی جیب میں تھوڑی لیکر پھرتے ہونگے دلاور بھائی۔
عزہ منہ پھیر کر کھلکھلا رہی تھی۔طوبی نے قائل ہونے والے انداز میں سر ہلایا۔
صحیح کہہ رہی ہو۔۔۔۔چلو کچھ کھاتے ہیں ۔ آج بچے ساتھ نہیں ہیں تو آرام سے پھر سکتے ہیں ہم۔ طوبی نے چٹکی بجائی۔
ہمارے ساتھ تو بچے کبھی بھی نہیں ہوتے
عزہ نے سادگی سے کہا تو نور وہیں سر پکڑ کر اکڑوں بیٹھ گئ۔
یہ کوریا میں آخری ہفتہ کچھ ذیادہ ہی لمبا نہیں ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسپتال کے باہر لان میں بنچ پر بیٹھی تھی۔ سیونگ رو نے کافی لا کر اسکے پاس بنچ پر رکھی۔ اس نے گہری سانس لیکر گھونٹ بھرا ۔ کمال اطمینان اور سکون تھا چہرے پر۔ سیونگ رو کا دل کیا اسکے چہرے سے یہ اطمینان نوچ لے وہ اسکے سامنے کھڑا کینہ توز نگاہوں سے گھور رہا تھا۔۔
اس نے گھونٹ بھر کر کافی رکھی پھر گہری سانس لیکر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
میں عروج کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔
اور کیسے نقصان پہنچانے کا سوچا جاتا ہے۔۔ وہ چٹخ کر بولا۔
تم کو عروج دوست سمجھتی ہے اور تم اسکے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکی شناخت استعمال کرکے یہاں پھررہی ہو۔ ؟ اوپر سے پولیس کارڈ چرا کر یوں کسی کو اغوا کرنا تمہیں کیا لگا تھا مجھے بھی دھوکا دے لوگی۔ عروج ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی جوتم اسکے نام کو استعمال۔کرتے ہوئے کرتی پھر رہی ہو۔ شرم آنی چاہیئے تمہیں۔ اتنے ایڈونچر کے شوق ہیں تو کہیں اور جا کے پورے کرو اس معصوم لڑکی کو استعمال مت کیا کرو۔
وہ بنا لحاظ چلایا تھا اسکی آنکھوں سے پھوٹتے شرارے ۔کوئی اور لڑکی ہوتی تو ٹپ ٹپ آنسو گرانے لگتی۔۔مگر سامنے بھی واعظہ تھی سکون میں ذرا سا جو فرق آیا ہو۔۔ بات سنی۔۔ سر کھجایا ۔ پھر بنچ پر رکھا کپ اٹھا لیا۔
دوست ہے وہ میری وہ میرے کام آئی تمہیں اتنی تکلیف کیوں ہے۔۔
انداز بڑبڑانے والا تھا مگر سیونگ رو کی سماعتیں قابل رشک تھیں۔ اسکی بات پر تپ اٹھا۔
حد ہوتی ہے ویسے۔۔ اس نے رخ موڑ کر اپنے غصے کو قابو کرنا چاہا۔ چند لمحے چپ رہ کر دوبارہ اسکی جانب رخ کیا اس بار نسبتا متحمل انداز سے کہنے لگا
مجھے نہیں پتہ پاکستان میں تم۔لڑکیاں کتنی آزاد ہو کیسے بلا خوف و خطر پھرتی ہو مگر یہ کوریا ہےہم بہت آزاد خود مختار سہی مگر یہاں کچھ ضابطہ اخلاق کی پابندی ہماری لڑکیاں کرتی ہیں محتاط رہتی ہیں پھر بھی۔ہر سال ہراسگی کے ہزاروں کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ یہ جو منہ اٹھا کے اس عجیب ماحول میں گھس گئ تھیں جانتی ہو وہاں۔۔
جانتی ہوں۔بچپن سے یہیں رہ رہی ہوں۔ اس نے بےزار ہو کر بات کاٹی۔
پھر بھی۔ اسکواسکی بات پر مزید غصہ چڑھا۔۔
یہاں رہتے ہوئے بھی تمہیں معلوم نہیں تھا اس علاقے کی شہرت کیسئ ؟
یہ میرا اور عروج کا معاملہ ہے۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
اسکے سچ مچ سر میں درد ہوگیا تھا۔۔ اسکی چخ چخ سے۔۔
یہ میرا بھی معاملہ ہے۔ تم عروج بن کر مجھے استعمال کر رہی تھیں تمہیں کیا لگا تھا میں پہچانوں گا نہیں؟ تم دو چار اور پردے بھی ڈال کر آتیں تو بھی تم میں اور عروج میں فرق کرنا مشکل نہیں میرے لیئے۔
سیونگ رو کے کہنے پر وہ کپ پٹخ کر اٹھ کھڑی ہوئی
کیوں؟بلکہ یہ بتائو کیسے۔ شکل تک جس لڑکی کی نہیں دیکھی اسکو پہچاننے کا دعوی کر رہے ہو۔۔۔
بالکل کررہا ہوں تم جیسی دس ہزار لڑکیوں میں بھی کھڑی ہو تو پہچان سکتا ہوں اسے کیونکہ۔
وہ جانے کیا کہنے جا رہا تھا کہ ایکدم زبان پر تالے سے پڑ گئے۔ لب بھینچ کر چند لمحے گھورتا رہا اسے۔ اسکا جملہ نامکمل رہ گیا۔ وہ ایکدم سرخ سے چہرے کے ساتھ اسے گھورتا پٹختا چلا گیا وہ حیرت سے اسے یوں جاتا دیکھ رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے بی شارک ڈو ڈو ڈو۔
ٹی وی پر شارکیں ناچ رہی تھیں۔ زینت اور گڑیا بڑے شوق سے ہتھیلیوں کے کٹورے میں چہرہ سجائے ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ الف صارم کو کندھے سے لگائے ٹہلتے ہوئے رو دینے کو تھی۔
فون کان سے لگائے ادھر سے ادھر ٹہلتے اس نے پہلی کال طوبی کو ملائی نمبر بند دوسری نور کو تیسری عزہ کو۔ چوتھی کال ملانے سے قبل بے بسی سے لائونج میں لگے وال کلاک کی سوئیوں کو دیکھا جو تیزی سے بھاگ رہی تھیں اسکے نزدیک۔
صارم اونگھ گیا تو اس نے چوتھی کال ملانے سے قبل اسے منے صوفے پر لٹانا چاہا۔ مگر جانے کوئی سوئچ لگا تھا اس بچے میں کہ کیا اونگھتا اونگھتا صوفے پرکا لمس پاتے ہی حلق کے بل چلا کر رو پڑا۔
کوئی سوئچ لگا ہے کیا تم میں کہ ادھر لٹائو جاگ کے رو پڑتے ہو۔
الف جھلائی نہیں بلکہ حیرانی سے پوچھ رہی۔تھی جوابا اس نے مزید تان بلند کی۔
اس نے دوبارہ گود میں لیا تو دو تھپکیوں پر چپ۔
یہ ایسا ہی کرتا ہے جبھی ممی سارا دن اسے گود میں لیئے رہتی ہیں۔
زینت نے بردبارانہ انداز میں اطلاع دی۔
اچھا۔ وہ روہانسی ہوئی۔
تمہارے بابا کب تک آئیں گے؟
اس نےلگے ہاتھوں معلومات اکٹھا کرنا چاہی جوابا زینت نے دونوں کندھے اچکا کر لاعلمی کا اظہار کیا اور دوبار شارکوں کو دیکھنے میں مگن ہوگئ۔
دو گھنٹے کا کہہ کر گئ تھیں اب ان بچوں کو ایسے اکیلے چھوڑ کر جا بھی نہیں سکتی۔ اف مجھے تیار بھی ہونا ہے۔۔
کونسا منحوس وقت تھا جو دو گھنٹے انکا خیال رکھنے کی حامی بھر لی۔ طوبی کو بھی دیکھو بچوں کا خیال ہی نہیں بازار میں گھوم پھر رہی ہیں۔
وہ ٹہل ٹہل کر بڑ بڑا رہی تھی۔ اس بڑ بڑاہٹ کو صارم لوری سمجھ کر جھپکی لے ہی گیا۔ اس نے شکر کا کلمہ پڑھتے اسے احتیاط سے دوبارہ لٹایا۔۔
اب اطمینان سے وہ فون پر کھری کھری سنا سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو آسان سا کام ہے۔
فاطمہ چہکی۔ وہ اس وقت ایک مشہو ر موبائل فون بنانے والی کمپنی کے آئوٹ لیٹ کے ریسیپشن کائونٹر پر کھڑی تھی۔ کام تھا دن بھر کی سیلز اور کسٹمرز کے ریکارڈ کائونٹر پر بیٹھ کر نگرانی کرنا ۔ ایک طرف ایل سی ڈی تھی جس میں اس آئوٹ لیٹ میں لگے کیمروں کا ڈسپلے تھا دوسری جانب کیش کائونٹر جسکی چابی اب سے اسکے پاس رہتی۔۔
اسکے چہکنے کا نوٹس لیتی وہ چندی آنکھوں والی لڑکی مسکرادی۔
یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے سیہون نے خاص سفارش کی تمہاری۔ تم سیہون کی وائف نہ ہوتیں نا تو کبھی اتنا ذمہ داری کا کام تمہیں یہاں غیر ملکی ہونے کی بنا پر نہ ملتا۔ اب تم خوب دل لگا کر محنت سے کام کرنا۔
کے سئ نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ اثبات میں زور و شور سے سر ہلا گئ۔
تم کل سے کام پر آسکتی ہو۔ یہاں ریسٹ روم ہے وہاں یونیفارم چینج کر لینا صبح آٹھ بجے یہاں تیار موجود ہونا ہوگا تمہیں۔۔
کے سی اور بھی ہدایتیں دے رہی تھی جسے وہ ہنسی خوشی سنتے سر ہلا رہی۔تھی
شکر ہے جاب تو ملی۔ پیش نظر بس یہی بات تھی۔ وہ خوب خراماں خراماں چلتی شاداں و فرحاں شاپ سے باہر نکلی جب اسکو الف کی کال آئی۔
اب یہ کیوں کال کر رہی ہے۔۔
اس نے حیران ہوتے ہوئے فون اٹھایا۔
فاطمہ۔ جوابا وہ اسکے فون اٹھانے پر ہی خوشی سے ناچ اٹھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کال ملی۔۔
تیجون انکے گھٹنے سے لگا بیٹھا تھا۔
ایک تو طوبی فون نہیں اٹھا رہی تھی انہیں پریشانی ہونے لگی تھی دوسرا تیجون نے الگ طبیعت جھک کر دی تھی
تیسری دفعہ کال ملانے پر بھی طوبی کی۔بجائے آپریٹر بولی تووہ بھنا گئے۔
ملی کال۔ تیجون نے کہا تو انکا دل کیا فون اسکے ہی سر پر توڑ دیں۔
ایک تو میری بیوی بچوں کی کوئی خبر نہیں۔ اوپر سے تم الگ دماغ خراب کر رہے ہو۔
آہجوشی۔ انہیں بھڑکتے دیکھ کر وہ ٹھنڈا پڑا۔
ریلیکس۔۔
گھنٹہ ریلیکس۔۔
وہ پریشانی سے اٹھ کر ٹہلنے لگے۔
آپ اپنی بیگم کی لوکیش تو دیکھیں کہاں ہیں آخر؟؟؟
تیجون نے کہا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گئے۔ کیا بتاتے ایسی کبھی نوبت ہی نہیں آئی تھی کہ لوکیشن وغیرہ سیٹ کرتے ایک دوسرے کے فون کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بچے تمہیں تنگ کر رہے تھے۔
فاطمہ نے کینہ توز نظروں سے اسے گھورا
زینت اور گڑیا دونوں معصوم سی شکل بنائے بیٹھی منی میز پر رکھے پیالوں میں سے چھوٹے چھوٹے چمچ سے تمیز سے آئسکریم کھا رہی تھیں
انکی اداکاری پر الف غش کھانے کو تھی۔
فاطمہ کو کال ملا کر بس ابھی فاطمہ ہی کہا تھا کہ زینت اور گڑیا کی چینل بدلنے پر لڑائی ہوگئ۔ زینت نے ریموٹ چھین کر گڑیا کو دھکا دیا۔ وہ چند قدم چل کر گری اور حلق پھاڑ کر روئی۔۔ الف دنگ رہ گئ۔
بیسٹ ایکٹریس ایوارڈ اسکو ملنا چاہیئے۔
نہیں بھئ مجھے جاب ملی ہے کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔ فاطمہ اسکی بڑ بڑاہٹ پر غلط فہمی دور کرنے لگی۔
بچوں شور نہ کرو بھائی اٹھ۔ جائے۔۔۔
جملہ مکمل بھی نہ ہوا صارم چیخ مار کر اٹھ بیٹھا
آنٹی زینت نے مارا۔ گڑیا روتی اسکی ٹانگوں سے چمٹی
آنٹی تو مت کہو۔ الف کراہی۔۔ کیونکہ وہ اسکے پیر پر ہی کھڑی تھئ۔
میں نے کب آنٹی کیا۔ فاطمہ خفا ہوئی
اوفوہ تمہیں نہیں کہہ رہی۔ چپ رہو۔۔۔الف جھلائی۔۔
میں نے کچھ نہیں کہا۔۔ زینت خفا ہوئی
مجھے بے بی شارک دیکھنا۔۔ گڑیا رودی
آپی دیکھیں کب سے کارٹون دیکھ رہی ہے مجھے وہ مچھلی والی لڑکی کا ڈرامہ دیکھنا۔۔
زینت ٹھنکی۔
اس نے فون کان سے لگائے لگائےصارم کو اٹھانا چاہا
بولو بھئ الف آواز نہیں آرہی۔ فون سے فاطمہ پکار رہی تھی۔
یار مجھے آج کے بی ایس کے شو میں جانا یہ طوبی وغیرہ آہی نہیں رہیں کب سے گئ ہیں میں ان بچوں کو اکیلے چھوڑ کر کیسے۔
آگے کی بات صارم کے شور میں دب گئ
آئسکریم کھانی ہے آپی۔
گڑیا نے باہر سے آتی ٹن ٹن سن کر نعرہ لگایا۔
میں نے چاکلیٹ۔۔ زینت ٹھنکی۔
فاطمہ گھر آجائو پلیز آئسکریم لیتی آنا۔۔
الف رو دینے کو تھئ۔ فاطمہ کو ترس آگیا تھا۔
نک سک سے تیار ہو کر اس نے رائل بلو لمبا سا ٹیل والا فراک پہنا جس کے گلے اور بازو پر ستاروں کا کام تھا۔ نیچے ٹائٹس تھیں مگر فراک میں چھپی ہوئی تھیں بڑا سا رائل بلو ہی دوپٹہ ستاروں والا بلیک اسکارف اس نے فراگی کی طرح لیا تھا۔آتشی گلابی لپ اسٹک آنکھوں پر ستاروں بھرا دھیما سا نیلا آئی شیڈو۔
وہ ٹھیک ٹھاک گلیمرس لگ رہی تھی۔
میں نے بھی جانا ہے ۔۔
فاطمہ کا دل للچا گیا۔
میرے کنجوس مکھی چوس باس نے بس ایک پاس دیا ہے مجھے ایک ژیہانگ کو کوئی مہمان نہیں لے جا سکتے ہم معزرت۔
وہ اونچی ایڑی کی کالی سینڈل پھنسا رہی تھی پائوں میں۔۔
فاطمہ نے منہ پھلایا۔
سچی اگر میں لے جا سکتی تو ضرور لے جاتی آج تو یوں بھئ تم پر پیار آرہا ہے مجھے اتنی بڑی مشکل سے نکالا ہے تم نے مجھے جیو ہزاروں سال۔
اس نے پرس کندھے پر لٹکاتے جھک کر اسکے گال کو چوم ہی تو لیا۔ فاطمہ پر کافی اثر ہوا مسکراہٹ آ ہی۔گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوبی ہم کچھ آئوٹ اینڈ آڈ نہیں لگ رہے یہاں۔
ارد گرد ماحول پر طائرانہ نگاہ ڈال کر عزہ منمنائی۔۔۔
وہ ایک مقامی بار تھا۔ ڈسکو لائٹس میں ناچتے نوجوان لڑکے لڑکیاں ڈانس فلور پر خوب ہنگامہ مچا تھا۔ ڈانس فلور سے فاصلے پر میزوں پر جام پر جام چڑھاتے لڑکے لڑکیاں۔ صرف ایک انکی میز پر وہ تین لڑکیاں بیٹھی تھیں وہ بھی مکمل عربی لبادے میں ملبوس چہرے پر نقاب کالے عبایا جنکی آستینوں پر ستارے لگے تھے ساتھ طوبی جو کھدر کا موٹاکرتا پاجامہ اوپر جیکٹ مگر سر پر اس نے بھی دوپٹہ لے رکھا تھا۔ آتے جاتے ویٹرز انکو ٹھٹھک کر دیکھ کر گزر رہے تھے۔
میں دلاور کو پہچاننے میں غلطی نہیں کر سکتی۔ وہ دلاور ہی تھے۔ چیک والے چیسٹر اور لانگ بوٹ میں۔ دیکھو نظر دوڑائو ۔۔ یہیں کہیں کسی لڑکی کے ساتھ ہونگے۔ آج تو رنگے ہاتھوں پکڑوں گئ۔۔طوبی پرعزم تھی
مجھے تو پیاس لگ رہی ہے۔ مینو کارڈ سے فروٹ کاک ٹیل شکل سے پہچان کر منگوانے لگی ہوں۔
نور مینو کارڈ کو کافی دیر سے پڑھ رہی تھی اور ناکام ہو کر تصویر ہر انگلی رکھ کر بولی۔
پکا یہ حلال ڈرنک ہے۔ عزہ کو شک تھا
نہیں ایک تو یی حرام پھلوں سے بنا ہے ۔ اوپر سےپھل کاٹتے وقت بسمہ اللہ اللہ و اکبر نہیں پڑھا انہوں نے۔ وہ چڑ گئ۔ عزہ کھسیا سی گئ
اچھی تو شکل سے یہ لگ رہی ہے۔
ادھر ادھر جائزہ لیکرطوبی زرا سی فارغ ہوئی تو مینیو کارڈ پر نگاہ ڈال کر اپنی پسندبتا دی۔
ایک صفر بھی ذیادہ ہے قیمت میں۔نور نے جتایا
پھر وہ اپنی والی ڈرنک ہی آرڈر کردو۔
طوبی نے فورا ارادہ بدل لیا۔
ویٹر۔
نور نے چٹکی بجا کر دور سرو کرتے ویٹر کو بلانا چاہا۔
ویٹر نے تو سخت ناگواری سے دیکھا ہی ارد گرد کی میزوں سے بھی کئی متاسفانہ نگاہیں اسکی جانب اٹھ گئیں
خیر ہے بھالا مار دیا کیا میں نے؟ نور سٹپٹا سی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون کی گھنٹی زور سے بجی۔ دلاور چونک کر میز پر رکھے فون کی۔جانب بڑھے مگر یہ انکے فون کی گھنٹی نہیں تھی۔ تیجون نے جیب سے فون نکالا نام دیکھ کر رنگ فق ہوگیا تھا اسکا۔
کیا ہوا کسکا فون ہے؟
دلاور نے آگے بڑھ کر نام دیکھنا چاہا مگر ہنگل میں لکھے اس نام میں انہیں کسی ڈریکولا کی شکل دکھائی نہ دی کہ وہ بھی تیجون کی طرح خوفزدہ وہ جاتے۔
یہ ۔۔۔ انکو یو ایس بی نہ ملی تو مجھے مار دیں گے جان سے۔
تیجون لرزتی ہوئی آواز میں بولا۔
کوئی اتنی آسانی سے جان نہیں لے سکتا۔ یہ ہائی اسکولر پدے دوست تمہارے ان سے ڈرتے ہو۔
یہ نہ ہائی اسکولر ہے نا دوست ہے میرا۔۔۔بلکہ۔۔۔۔۔۔
تیجون نے سر جھکا لیا۔
اسکی بتائی حقیقت انکا سر گھماگئ تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے پلائو دم دیا۔۔ منے لائونج میں میز لگا کر دونوں بچیوں کو کھانا نکال کر دیا۔صارم سوتے میں کروٹ بدل کر صوفے سے نیچے آگیا۔ فاطمہ کا دل اچھل۔کر حلق مین۔شکر ہے نیچے فلور کشن۔ تھا۔ سکھ کا سانس لیتئ وہ خود بھی آلتی پالتی مار کر بیٹھ کر کھانے لگی۔ کسی کی واپسی نہ ہوئی آٹھ بج چکے تھے۔
کہاں رہ گئیں یہ سب۔۔ اس اب تشویش ہونے لگی تھی۔
تبھی دروازے پر کھٹک ہوئی۔
عزہ نور اور طوبئ تھکی۔تھکی سی اندر داخل ہوئیں۔
مما آگئیں۔ زینت اور گڑیا پلیٹ چھوڑ چھاڑ طوبی سے جا لپٹیں۔ جوابا اس نے خالص پاکستانی ماں کی۔طرح جھڑک کر الگ کیا۔
کھانا کھائو۔آرام سے۔۔۔ دونوں منہ بناتی واپس اپنی اپنی جگہ آبیٹھیں۔
کہاں رہ گئ تھیں تم لوگ؟
فاطمہ نے پوچھا تو عزہ جواب دینے کی بجائے اسکی پلیٹ سے چمچ اٹھاکر بے تکلفی سے کھانے لگی۔۔
جائو ابھی دم دیا ہے پلائو اپنے لیئے بھی نکال لائو اور۔
فاطمہ کہہ رہی۔تھی جوابا عزہ نے اسکے ہاتھ سے پلیٹ ہی کھینچ لی۔ اس نے ابھی ایک آدھ نوالہ ہی لیا تھا سو دانت پیس کر خود ہی اٹھ گئ۔
نور اور طوبی صوفے پر۔گری ہوئی تھیں۔
ڈش میں پلائو نکال کر لائی تو طوبی نور بےتابی سے اٹھ آئیں۔۔۔
کدھر رہ گئ تھیں تم لوگ۔اور کچھ خریدا وریدا نہیں؟
فاطمہ نے کہا تو عزہ جو تھوڑا بہت پیٹ پوجا کرچکی تھی منہ بنا کر بولی
مت پوچھو کتنا خوار ہوئے ہیں۔
اسکی بات پر طوبی نے خطرناک تیور سے گھورا مگر وہ مکمل فاطمہ کی جانب متوجہ تھی۔
ایک یو اسی بی کا ڈیٹا ریکور کرنے نکلے آدھے سیول کا چکر لگا کر آئے ہیں۔ یہ۔۔طوبی جی کو ۔۔۔۔
آہم ہام۔
طوبی زور دار آواز میں کھنکاری کہ سچ مچ خراش آگئ حلق میں۔۔
اچھو لگ گیا کھانس کھانس کے برا حال۔ہوگیا
عزہ۔کو بات ادھوری چھوڑ کر پانی لانے اٹھنا پڑا۔ فاطمہ تفتیش بھول بھال کر اسکی کمر سہلانے لگی۔
نور کہہ رہی تھی۔۔
وہ دیکھیں اوپر چڑیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا ہے۔
نقاب کے نیچے سے اسٹرا لے جا کر گھونٹ بھرتے ہی نور نے بلبلا کر کہا تھا۔
آخ۔۔ عجیب سا ذائقہ ہے یہ تو۔
عزہ کے بھی کم و بیش یہی جزبات تھے۔
کیا ہوا لال شربت ہے انار کا ہوگا۔۔ تھوڑا ترش ہوتا ہے۔
نور نے تسلی دیتے ہوئے زرا بڑا سپ لیکر چکھنا چاہا۔
آخ۔۔
یہ تو کھانسی کا شربت ہے۔
طوبئ نے فورا پکڑ لیا تھا ذائقہ۔ اسے اتنا برا نہیں لگا تھا۔۔
مزا تھوڑا الگ ہے مگر اچھا ہے۔۔
کھانسئ کا شربت اور اچھا۔۔
عزہ کو حیرت ہوئی تھی۔
پانچ ہزار وون میں کھانسی کا شربت۔۔پاگل ۔۔کھو کھو کھو۔۔
نور کو گھونٹ بھرتے ہوئے ہی پھندا لگ گیا۔۔
یہ تو واقعی کھانسی کا شربت ہے۔
عزہ نے ایک اور گھونٹ لیکر طوبی کی بات کر مہر ثبت کی۔
طوبی نور کی پشت سہلانے لگی۔
یہ تو گلا پکڑاگیا میرا۔
نور کی آنکھیں ناک منہ سب سرخ ہوگیا تھا کھانس کھانس کے۔۔
یار ہر چیز چکھنئ چاہیئے۔ اب یہ پھل کھانسی کے شربت میں استعمال ہوتا کیا کہتے ہاں بیر یہ اسکا ذائقہ ہے۔ ہم تو بہت شوق سے بیر شہتوت وغیرہ کھاتے ہیں صحت کیلئے اچھا ہوتا ہے۔
طوبی نے تسلی دینی چاہی۔
ہاں لگ رہا ہے کہ اس میں کچھ اور بھی ملا ہوا ہے ٹھہرو چکھ کربتاتی ہوں۔
طوبی نے ایک اور گھونٹ بھرا۔۔
اس میں کارن فلور ملا ہوا ہے۔
طوبی نے پکڑ ہی لیا اجنبی زائقہ۔
کارن فلو ر شربت میں ؟ کیوں بھئی ۔۔
عزہ بھونچکا سی رہ گئ۔
گاڑھا کرتا ہے نا۔طوبی نے سمجھایا۔
کارن فلور نہیں ہوگا۔۔ نور کو یقین نہیں آیا۔
ہے کیا یہ۔ نور کو تجسس ہوا تو مینیو کارڈ پر دوبارہ جھک گئ۔
اس پر اجزا تھوڑی لکھے ہونگے۔۔
عزہ نے جتایا تو وہ گھور نے لگی۔
عقل بڑی کہ بھینس۔
اس نے مینیو کارڈ پر انگریزی میں لکھا نام پڑھا پھر اپنا موبائل نکال کر گوگل کر ڈالا۔
Hongchobulmak (Makgeolli + Blueberry Vinegar + Sikhye + Burn Energy Drink)
چاولوں کی شراب، چاولوں کا شربت جس میں بلو بیری کا سرکہ اور توانائی والا کولڈ ڈرنک ملایا ہوا ہے۔۔
نور کی آنکھیں تفصیل دیکھ کر کھل سی گئ تھیں۔
آخ۔۔۔
عزہ نے اسی وقت بڑا سا گھونٹ لیا تھا۔ اسے تو الٹی آنے لگی۔
کیا ہم نے شراب پی لی ہے؟ طوبی کا صدمے سے برا حال تھا۔۔ اسکا گلاس بس اب ختم ہونے والا تھا۔۔
مکمل شراب نہیں ہے۔
نور نے تسلی دینی چاہی
Mixture:
50% Makgeolli
25% Hongcho Blueberry Vinegar
20% Burn Energy Drink
10% Sikhye
میکگائولی شراب ہوتی یے چاولوں کی وہ صرف 50 % ہے
نور کی تسلی ہرگز تسلی بخش نہیں تھئ۔
اسکی جرائت کیسے ہوئی ہمیں شراب لا کر دینے کی صاف کہا تھا کہ ہمیں شراب نہیں پینی۔
طوبی جزباتی ہوتے ہوئے آستین چڑھا کر کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
طوبئ۔۔
نور عزہ دونوں اٹھیں روکنے کیلئے مگر طوبی واپس بیٹھ چکی تھئ۔
میں ابھی مزا چکھاتئ ہوں۔۔
وہ اس بار ایکدم سے کھڑئ ہوئی اور تیز مگر لڑکھڑاتے قدموں سے چلتی کائونٹر کی طرف بڑھ گئ۔
بھاگو۔نور اور عزہ اسکے پیچھے لپکی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہال کھچا کھچ بھرا تھا سب کی توجہ اسٹیج پر تھی۔ چاروں اطراف لوگوں کیلئے گول میزیں لگی ہوئی تھیں بیچوں بیچ میں بڑا سا گول اسٹیج بنا ہوا تھا جس پر سیلیبریٹیز ناچ رہے تھے۔ ٹیلنٹ ایجنسی سے منسلک تمام لوگ اور کے بی ایس کے ملازمین کی سب سے آگے نشستیں تھیں دور دور تک لوگ ہی لوگ میزیں ہی میزیں۔ اسٹیج پر موجود لوگ بس اچھلتے کودتے نظر آرہے تھے شکل وکل نظر نہیں آرہی تھی۔
ژیہانگ اور اسے کافی پیچھے جگہ ملی تھی یا یوں کہنا چاہیئے ژیہانگ الگ تھلگ جگہ ڈھونڈ کے دو لوگوں کیلئے لگی میز و نشست پر لایا تھا۔
ابھئ تو ہال میں داخل ہوئے ہیں ابھی سے بیٹھ جائیں؟
الف کو اعتراض ہوا ۔۔۔
ابھئ جب سب ناچ ناچ کے تھکنا شروع ہونگے تو سیٹوں کی شدید کمی ہو جائے گئ۔
ژیہانگ اپنے مخصوص دھیمے انداز میں بولا۔
پھر بھئ یہ تو بہت پیچھے ہے کیڑے مکوڑے کی طرح نظر آرہے ہیں لوگ تو۔
اس نے منہ پھلایا۔۔
تم نے آگے جانا ہے ؟ ژیہانگ نے پوچھا تو اس نے زور و شور سے سر ہلایا۔
اچھا میں ابھی آتا ہوں۔
ژیہانگ اپناکوٹ اتار کر کرسی پر ٹکاتا اسی رش میں گھس گیا۔
وہ بہت دلچسپی سے آتے جاتے سیلیبریٹیز کو دیکھنے لگی۔
یہاں سے داخلی دروازہ بالکل پاس ہی تھا۔ کوئی فنکار یا صنعت کار آتا تو تین چار انتظامیہ کے مخصوص یونیفارم میں ملبوس لڑکیاں لڑکے آگے بڑھتے اور انکو انکی نشست تک رہنمائئ دیتے۔ اسے کافی دلچسپ منظر لگ رہا تھاکہنیاں میز پر ٹکا کر وہ سہولت سے ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ ٹکائے تاڑ رہی تھی۔۔
تبھئ پارک بوگم اپنے مینجر کے ساتھ اندر داخل ہوا تو اسکا منہ سچ مچ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
پارک بوگم مخصوص کھلی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ طائرانہ نگاہ ڈالتا اسکے قریب سے گزر کر آگے بڑھ گیا۔ وہم تھا یا سچ مچ وہ اس پر نظر ڈالتا مسکراتا گزرا تھا۔ وہ پوری نشست پر گھوم سی گئ اسکو نگاہوں میں رکھتے رکھتے۔
کیا کوئی دیہاتی شہر کی بتیاں دیکھ کر خوش ہوتے ہوں گے جو وہ ہوئی تھی۔
کیمرے چل رہے تھے صحافیوں کے۔ اسے خیال آیا۔
ویڈیو ہی بنا لوں۔ اپنا موبائل فٹ سے نکال کر ویڈیو بنانی چاہی تو جانے کون موٹئ توند والے انکل اسی وقت داخل ہوئے۔ اس نے منہ بنایا۔
معاف کیجیئے گا یہ نشستیں انتظامیہ کیلئے مخصوص ہیں آپ آگے تشریف لے جائیے۔۔
انتظامیہ کے مخصوص یونیفارم میں ملبوس وہ لڑکی نہایت شائستگئ سے آکر کہنے لگی۔
جی،؟ الف کو سمجھ نہ آیا تو وہ اسکی مشکل سمجھ کر شستہ انگریزی میں بات دہرانے لگئ۔۔
اس نے مڑ کر دیکھا تو اسی یونیفارم میں ملبوس پیچھے ایک دو نشستوں پر لڑکیاں بیٹھی نظر آئیں۔ یقینا انکی۔باریاں لگی ہوئی تھیں۔ کیونکہ ابھی اسے یہی دو لڑکیاں سامنے متحرک نظر آئی تھیں۔
اچھا۔ وہ متذبذب سئ ہوئئ۔ مگراپنا بیگ سنبھالتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
یہ کوٹ۔ اسی لڑکی نے کرسی پر ٹکا ژیہانگ کا کوٹ اٹھا کر اسے تھما دیا۔
آپ سیدھا آگے چلی جائییے دائیں جانب نشستیں ہیں کچھ خالی۔
اس نے مزید تفصیل اسے بتائی۔۔
شکریہ۔
وہ اٹھ تو آئی تھی مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی میلے میں کھو گئ ہو۔
اسکے اسکارف کی وجہ سے اسے اپنے اوپر نظریں ہی نظریں اٹھتی محسوس ہو رہی تھیں۔ایک ہاتھ سے پرس سنبھالتی دوسرے سے کوٹ وہ سہج سہج کر قدم اٹھاتے ہوئے بھی وہ لڑکھڑا سی گئ۔
بے ہنگم موسیقی خوش گپیاں لوگ اجنبی زبان میں باتیں قہقہے برتنوں کی کھنک تصویریں کھنچنے کی فلیش لائٹس رنگ و بو کا سیلاب۔۔ سینڈریلا کو اچانک شہزادے کی پارٹی میں سج سنور کر آتے سب کی نظروں کا مرکز بن کرکیسا لگا ہوگا یقینا ایسا۔۔
الف کو بے وقت فیری ٹیل یاد آئی تھی۔
ٹاور کی اونچی عمارت میں اکیلی رہتی رپینزل نے جب پہلی بار اپنے گنبد سے نکل کر دنیا کی روشنیوں رنگینیوں کو دیکھا ہوگا تو یونہی متحیر سی گھبرائی گھبرائی سی کھڑی ہوگی۔
کسی اور کو بھی اسے دیکھ کر اس وقت دیو مالائی کہانیوں پر یقین آگیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔
جاری ہے۔۔
No comments:
Post a Comment