قسط 44
عزہ نے اوپر گیلری سے جھانک کر عمارت کے احاطے کا جائزہ لیا دور دور تک طوبی اور دلاور کے آثار نہیں تھے۔ عروج اور الف کا بھی دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ لے دے کہ وہ اکیلی اتنا بڑا فلیٹ اور دو بچیاں ایک نو عمر لڑکا۔
اس نے گہری سانس بھر گیلری کا دروازہ بند کیا۔ اور منے لائونج میں قالین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئ۔
تیجون صوفے سے ٹیک لگائے قالین پر بیٹھا تھا۔ گڑیا اور زینت اسکے دائیں بائیں بیٹھی تھیں۔ اسکے موبائل میں ڈوریمون لگا ہوا تھا ۔مزے کی بات وہ خود بھی انکے ساتھ بیٹھا مزے سے کارٹون دیکھ رہا تھا۔
عزہ نے جائزہ لیتی نگاہوں سے دیکھا اسے۔
وہ اس وقت عام سے جینز شرٹ میں ملبوس تھا۔ ہے جن کے جتنا ہی ہوگا بس۔ کیا پتہ ۔۔ اسکے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ چونک کر سیدھی ہو بیٹھی۔
کونسے اسکول میں پڑھتے ہو تم؟
دے۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا۔
میں پوچھ رہی ہوں کونسے اسکول میں پڑھتے ہو؟
عزہ کے انداز میں رعب تھا۔ وہ آبھی گیا رعب میں۔گڑبڑا کر بتایا
جی وہ کنگ ہیونگ جونگ ہائی اسکول میں۔
یہاں گرد و نواح میں کتنے ہائی اسکول ہیں جو کنگ نام سے شروع ہوتے ہیں۔
عزہ کی سنجیدگی عروج پر تھی۔
بہت سے ہیں کیوں۔؟
وہ حیران ہوا۔ مگر عزہ یونہی سوالیہ نگاہوں سے دیکھتی رہی تو جواب بدل لیا۔
وہ اس علاقے میں پیدل کی مسافت پر تین ہائی اسکول ہیں سرکاری۔ ان میں کنگ ہیونگ جونگ ہی ہے بس ایک باقیوں کے نام
وہ نام بتانے لگا تو عزہ نے مایوسی سے سر ہلا دیا۔
وہ تو بس میں جاتا تھا جانے کتنی دور اسکول ہوگا اسکا۔۔ وہ اردو میں بڑ بڑائی۔ تیجون حیرت سے اسے دیکھ کر رہ گیا۔
تم چائے پیئوگے؟
وہ بیزاری سے قالین پر سے اٹھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
دے۔ وہ بوکھلا سا رہا تھا۔ آندے۔
عزہ نے گھور کر دیکھا تو وہ گڑ بڑا کر اٹھا
مجھے آپ اغوا کار نہیں لگتیں نہ ہی انکے والدین کے فلیٹ کےبالکل مقابل رہتے ہوئے آپ کوئی ان بچوں کیلئے اجنبی غیر ہوں گی۔ مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے۔ میں انکو آپ پر چھوڑ کر چلتا ہوں۔ خدا حافظ۔
وہ تیز تیز بولتا جھک جھک کر سلام کرتا اتنی تیزی سے باہر لپکا۔ کہ عزہ کو اپنی شرافت پر شک ہونے لگا۔
میرا ارادہ اسکو ہراساں کرنے کا تو نہیں تھا۔ پھر کندھے اچکا کر باورچی خانے کی۔جانب بڑھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام سان ٹاور پر گرل سے بازو ٹکائے سیونگ رو نے سنجیدگی سے برابر کھڑی دلچسپی سے سیول کی بتیاں دیکھنے میں مگن عروج سے پوچھا ۔
تم نے مجھے بتایا نہیں کہ تمہیں ڈاکٹر عبدالقادر نے پروپوز کیا ہے۔ ؟؟؟
ابھی کل ہی تو کیا ہے میں نے تو جواب بھی نہیں دیا انہیں ۔۔۔۔وہ لاپروائی سے بولی پھر چونک گئ تیوری چڑھا کر سوال کیا
تمہیں کیسے پتہ لگا؟
خود ہی اندازہ لگالیا۔
یعنی یہ ڈاکٹر قادر اتنے چیپ ہیں سب کو بتاتے پھر رہے حد ہوگئ۔ انکی تو۔
وہ جیسے آستین چڑھا کر شروع ہی ہونے لگی تھی۔
ریلیکس۔ سیونگ رو نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا۔۔
انہوں نے کچھ نہیں کہا دراصل رات جب وہ تمہارے پاس آئے تھے بات کرنے تب میں کسی کام سے آیا تو اتفاق سے سن لیا۔
اس نے نگاہ چرائی۔۔
وہ کسی کام سے نہیں آیا تھا بلکہ ڈاکٹر کو عروج کے کائونٹر کی۔جانب بڑھتے دیکھ کر دانستہ پیچھے آیا تھا اور ان سے ایک کائونٹر پیچھے کیبن کی دیوار سے ٹک کر کان لگاکر سنی تھیں انکی باتیں۔
سچ کہہ رہے ہو؟ وہ مشکوک ہوئی۔
ہاں بھئ مگر سن بینم ( سینئر) نے ہی کچھ کہا ہے تو کیا انکار کردوگئ انکو شادی سے؟ اتنی سی بات پر۔
سیونگ رو نے چھیڑا
انکار تو میں کرنے ہی والی ہوں مگر اگر اس قسم کی باتیں وہ پھیلاتے پھر رہے تو چار باتیں بھی سنائوں گی۔ اب بتائو انہوں نے کوئی شیخی بگھاری ہےنا؟
اسکا انداز ایسا تھا کہ اگر وہ ہاں کہہ دے تو ابھی جا کے انکے بال نوچنے پہنچ جائے تو ستم ظریفی سے کم ہی رہ گئے تھے سر پر۔
سیونگ رو ہنس دیا۔ ایک بوجھ سا سرکا تھا دل سے
نہیں انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ بائی دا وے تم انکو انکار کیوں کرنے لگی ہو ؟ مسلمان ہیں ویل سیٹلڈ ہیں۔
مسلمان ہیں ویل سیٹلڈ ہیں تو کیا ہوا اتنے بڑے ہیں مجھ سے۔ اور مجھے بالکل پسند نہیں۔ اب سیول میں رہ کر بھی مجھے پاکستانی شکل کے مرد سے شادی کرنی تو پاکستانئ ہی ٹھیک کم از کم بات تو سمجھ آئے گی نا۔
اسکو فاطمہ کی۔بات یاد آئی تو کہتی ہنستی چلی گئ۔ سیونگ رو بھی اسکے ساتھ ہنس دیا۔۔۔
صحیح بات ہے۔ سیول میں کم از کم چندی شکل ہی پسند کرنی چاہیئے۔
سیونگ رو نے معنی خیز انداز میں کہا تھا مگر اس نے دھیان ہی نہیں دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے نظر اٹھا کر کیفے کا نام پڑھا پھر اچنبھے سے ژیہانگ کی شکل دیکھی۔ وہ ہنس دیا
کیا ہوا نہیں پسند بلیاں تمہیں؟
نہیں بلیاں تو پسند ہیں مگر بلیوں کا کیفے؟ یہاں کیا بلیاں پکائی کھائی جاتی ہیں؟ صاف بتا دوں تم شائد یونہی بنے ہوئے ہو مگر پکی مسلمان ہوں میں بلی تو کیا حلال نہ ہوئی ہو تو مرغئ بھی نہیں کھاتی۔
اسکا انداز فخریہ اور جتانے والا ہو چلا تھا۔ ژیہانگ کی مسکراہٹ غائب سی ہوگئ۔
نہیں یہ کھانے پینے کی جگہ نہیں ہے۔۔۔
وہ اسکی رہنمائی کیلئے خود ایک قدم آگے بڑھ کر اند رداخل ہو گیا تو اسے بھی تقلید کرنی پڑی۔
اندر کا ماحول اسکی توقع سے بالکل برعکس تھا۔ پرتعیش لائونج تھا جس میں کئی جوڑے ایک ایک کونہ سنبھالے بلیاں گود میں لیئے خوش گپیوں میں مگن تھے۔ ایک جانب کئی منزلہ کیبنز سے بنے تھے جہاں بھانت بھانت کی بلیاں بنا جالی کے پنجروں میں بیٹھی سکون کر رہی تھیں۔ بلیوں کے شوقین ان بلیوں کے پاس جا کر بہلا پھسلا کر من پسند بلی کو گود میں لیکر بیٹھ جاتے انکو کھانا کھلاتے کوئی بلی شکر گزار ہوتی تو کوئی نخرا کرتی منہ پھیر کر آگے بڑھ جاتی۔ کچھ اتنی مانوس تھیں کے آرام سے اپنی پسند کے انسانوں کے پاس بیٹھ کر ان سے خود پر ہاتھ پھروائے جارہی تھیں۔ وہ بے حد دلچسپی سے کیفے کا جائزہ لے رہی تھی۔ ایک بلی پاس سے گزری تو اس نے بے ساختہ جھک کر اسکی کمر سہلا دی۔ جوابا اس نے ایک ادا سے اسے دیکھا پھر منہ پھیر کر آگے بڑھ گئ۔
۔ژیہانگ سیدھا دائیں جانب کے ایک کونے گلاس وال کے پاس آرام دہ نشست گاہ میں اسے لے کر آیا تھا۔ ایک نہایت سفید جھاگ جیسے بالوں والی۔بلی محو استراحت تھی۔ وہ وفور شوق سے اسکی۔جانب بڑھی۔۔ صوفے پر بلی کے برابر احتیاط سے بیٹھ کر پکارنے لگی۔ بلی نے سرموق حرکت نہ کی۔
مانو۔ اس نے اس پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو اس نے جوابا اپنی کنچوں جیسی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا پھر دوبارہ آنکھیں موند لیں۔ وہ دھیرے سے سہلاتی گئی تو بلی جیسے لطف لینے لگی آرام سے پیر پسار لیئے۔
تم سے ایک بات پوچھوں۔۔
وہ پوچھ رہا تھا جوابا اس نے مڑے بغیر نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ ہونٹ بھینچ کر صوفے پر ٹک گیا۔۔۔۔
وہ تھوڑی دیر بلی کے ساتھ کھیلنے کے بعد سیدھی ہو کر صوفے پر ٹک گئ۔ ژیہانگ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پھنسائے سرجھکائے بیٹھا گہری سوچ میں گم تھا۔
میں ایک بات پوچھوں؟
الف نے اسے غور سے دیکھا تو کافی پریشان سا نظر آیا۔ اسکی بات پر دھیرے سے نگاہ اٹھائی جیسے کہہ رہا ہو پوچھو۔
تم ذکریہ ہو یا ژیہانگ ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلیش بیک
وہ ملبوس سنبھالتی گھبرائی سی لڑکی سیدھا اسکے دل میں اترتی چلی آرہی تھی۔ وہ بے اختیار اسکی جانب بڑھنے کو تھا جب کسی نے اسے پکارا تھا۔۔۔۔
ژیہانگ۔
الف چونکی۔۔متلاشی نگاہوں سے ڈھونڈا تو وہ لڑکی بے تکلفی سے پکارتی جس لڑکے کی جانب بڑھ رہی تھی اس سے فاصلہ ہونے کے باوجود وہ پہناننے میں غلطی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ بے اختیار آگے بڑھی۔
گوری چٹی مغربی نقوش سنہری بالوں والی وہ حسینہ اسکو پکارتی اسکے پاس چلی آئی۔ اسکی چال میں لڑکھڑاہٹ تھی ہاتھ میں جام وہ یقینا ہوش کھو رہی تھی۔
کیسی ہو۔ ژیہانگ تکلف سے مسکرایا مگر لارا تکلفات میں پڑنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
وہ قریب آکر اس کے گال سے گال مس کرکے ملی تھی۔ بلکہ اسکے کندھے پر ہاتھ بھی رکھ کر بے انتہا قریب ہو کر حال احوال پوچھ رہی تھی
میں ہمیشہ سی خوش مطمئن۔ تم سنائو؟
میں بھی ٹھیک ہوں۔
وہ نا محسوس سے انداز میں اس سے ایک قدم پیچھے ہوا۔لارا آگے بڑھ کر اسکے کندھے سے جھول گئ۔
ابھی سیہون سے تمہارا ہی ذکر کررہی تھی۔ بہت غلطی کی تم نے ایکسو کے ساتھ ڈیبیو نا کرکے تمہاری آواز تمہارا ڈانس آج بھی ہم یاد کر رہے تھے۔ تم دوبارہ کیئریر کیوں نہیں شروع کرتے؟
لارا اس سے گفتگو کرنے کے موڈ میں تھی۔
الف اسکے قریب آچکی تھی جب لارا نے اپنی دھن شستہ انگریزی میں کہا۔۔
تم نے مجھے چھوڑا اور مزہب بھی۔ مزہب چھوڑنا تھا تو مجھے تو نہ چھوڑتے۔۔۔۔
ژیہانگ نے گھبرا کر الف کی۔جانب دیکھا۔۔
الف کے چہرے کے سب رنگ اڑ چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر نام کا پوچھ رہی ہو تو میں ذکریہ بھی ہوں ژیہانگ بھی۔
شناخت کا پوچھو تو ذکریہ مر چکا ہے۔ بہت سال پہلے۔۔ میں ژیہانگ ہوں۔۔
اس نے خلاف توقع بے حد ٹھہرے ہوئے لہجے میں سکون سے بتایا تھا۔
الف کے پاس پوچھنے کو کوئی سوال نہ رہا۔
ذکریہ مر چکا ہے ۔۔کون تھا کیسے مرا کب مرا کیا فائدہ جان کے۔ سامنے تو بس ایک ہی نام ہے ایک ہی شناخت۔۔ ژیہانگ سامنے ہے۔ وہی ژیہانگ جو کبھی ذکریہ تھا۔مگر فرق کیا پڑتا ہے ذکریہ ہو یا ژیہانگ۔
الف نے سر جھکا کر سفید بلی کو چھونا چاہا۔۔۔
دل میں درد کی ایک لہر سی اٹھی تھی۔
ژیہانگ ذکریہ ہے یہ جان کر انجانی خوشی ہوئی تھی تب بھی اور اب جب ذکریہ ژیہانگ ہے یہ جان کر دکھ سا ہو رہا تھا اسے فرق کیوں پڑ رہا وہ خود کو سمجھنے میں ناکام سی ہو رہی تھی۔
میائوں۔
بلی کی آواز ۔۔۔۔۔اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ تو وہ ایک سیامی بلی تھی جو ژیہانگ کے قدموں میں آکر بیٹھ گئ تھی۔
یہ بلی مجھ سے بہت مانوس ہوگئ ہے۔ میں یہاں آتا ہوں تو بس اسے لیکر بیٹھا رہتا ہوں۔ نا اسے مجھ سے کوئی امید ہوتی ہے کہ میں اسکے ساتھ کھیلوں گا نا مجھے اسکے نخرے اٹھانے پڑتے۔
ہم دونوں بس یونہی گھنٹوں ایک دوسرے کے پاس بیٹھے رہتے۔ وہ بر سبیل تذکرہ بتا رہا تھا۔
اس نے اسے اٹھا کر اپنے برابر بٹھا لیا تھا۔ بلی اسکی ران پر چہرہ رکھ کر سکون سے بیٹھ چکی تھی۔۔۔۔
دراصل یہ بوڑھی ہوگئ ہے نا اب چست نہیں رہی۔ لوگ یہاں بلیوں سے کھیلنے ہی تو آتے ہیں۔ مگر جو بلی ان کھیل۔تماشوں سے تھک۔چکی ہو اور مری بھی نا ہو وہ کیا کرے۔۔۔۔ اس میں اور مجھ میں یہی مشترک ہے۔ ہم دونوں تھکے ہوئے ہیں۔۔۔
چلیں۔
وہ ایکدم اٹھ کھڑی ہوئی۔
میں جا رہا ہوں الف۔۔۔۔ اس نے بلی کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔۔
کہاں۔ اسکے منہ سے بے اختیار نکلا۔ وہ کتنا پچھتائی تھی پوچھ کے۔
کل جاپان پرسوں کا پتہ نہیں۔ وہاں جا کر پتہ لگے گا کہ مجھے آگے کہاں جانا۔۔۔۔۔
کیوں جانا ہے ؟ الف کا انداز۔۔۔۔ وہ چونکا نگاہ اٹھائی تو اس کو ایک ٹک خود کو دیکھتے پایا۔
دیکھنے والی اسکے نگاہ چرانے کے انتظار میں تھی خود بھی نظریں چرا نہ سکی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے آرام سے بنچ پر اپنا بیگ رکھا۔ ڈس پوزایبل مگ رکھا ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر سہج کر بیٹھی یونہی سر اٹھا یا تو دونوں کو سر پر کھڑے ہو کر گھورتا دیکھ کر گڑ بڑا گئ۔
بیٹھیں نا آپ دونوں۔
اس نے کھسیا کر اپنا مگ اٹھا لیا۔ واعظہ اور فاطمہ نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر اسکے سامنے ہی آلتی پالتی مار کر گھاس پر بیٹھ گئیں۔
یہ واعظہ تھئ
یقینا اسکی ساری کہانی جاننے کو بے تاب اسے ذرا رعائیت دینے کو تیار نہیں تھی۔
اس نے گہری سانس لی۔
میرا نام عشنا نہیں ہے۔۔۔۔ عشنا تو۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے جلدی سے دروازہ کھولا نکلنا چاہا کہ بر ی طرح سر ٹکرایا کہ سامنے تین لڑکیاں کھڑی تھیں ایک اسکی طرح اپنا سر سہلا بھی رہی تھی۔
یہ کورین میں ہمارے لیئے بس انڈر ایج مال ہی دستیاب ہے کیا ؟
فاطمہ نے کہا تو عشنا سر ہلا کر بولی
یہ ہے جن نہیں ہے۔
اسکے انداز میں شک تھا۔ واعظہ اپنا سر سہلاتی بڑبڑا رہی تھی۔
میں واعظہ ہی ہوں نا؟ میرا سر گھوم رہا یادداشت کھونے والی ہے میری لگتا ہے۔
چھ چھے سو نگیئے ہو۔
اس نے فورا جھک جھک کر معزرت کی۔ آوازیں سن کر عزہ نے بھی گیلری میں جھانک لیا۔
آگئیں تم لوگ چائے پیئوگئ ؟
تمہیں کتنے بھائی چاہیئے ہیں عزہ ایک اور لے آئیں ہے جن گیا تو۔ ۔۔
فاطمہ نے ٹوک دیا۔ وہ تینوں دروازے میں راستہ روکے کھڑی تھیں
ہاں۔ عشنا نے زور سے کہا تو سب اپنی اپنی بات بھول اسے دیکھنے لگ گئیں۔
وہ عزہ۔چائے کا پوچھ رہی تھیں تو ہاں کہا ۔۔ میں نے پینی ہے چائے۔
اس نے صفائی دینے والے انداز میں کہا۔
اوئے عشنا کہاں چلی گئ تھیں؟ کیسی ہو؟ عزہ احوال پوچھ رہی تھی۔
یہیں تھی آج بس اسٹاپ پر مل گئ تو ہم گرفتار کر لائے۔ فاطمہ لہک کر بولی۔
وہ میں چلتا ہوں۔ اس نے نکل جانا چاہا مگر راہ میں حائل نازک دیواریں۔
واعظہ نے بازو پھیلا کر دیوار پر ہاتھ ٹکا کر راستہ روکا۔
کون ہے یہ؟ یہاں کیا کر رہا ؟
واعظہ نے جانچتی نگاہوں سے تیجون کو گھورا اسکی آنکھوں میں پہچان کے رنگ اترے پھر مزید رنگ اڑ گیا۔
عزہ یہ بھی بھائی ہے آپکا۔
یہ عشنا تھی۔ فاطمہ اور واعظہ نے مل۔کر گھورا اسے
کوئی نہیں بس ایک ہے جن ہی بھائی تھا میرا اور سنو تم لوگ یہ دو تین سال چھوٹے بھائئ نا بنادیا کرومیرے فورا بے رنگ داستان جا رہی میری دو تین سال کے فرق میں کافی مارجن ہوتا۔
عزہ بھی وہیں بولتی چلی آئی۔
نا کرو یہ للو پسند آرہا ہے تمہیں جو اسے بھائی لسٹ سے خارج کر رہی ہو۔
فاطمہ بھونچکا سی رہ گئ
تنگ راہداری اجنبی زبان لڑکیاں ہی لڑکیاں اوسان خطا ہو رہے تھے اسکے۔
وہ میں ۔۔۔۔
نہیں بھئی۔ عزہ نے اسکی ہونق ہوتی شکل دیکھ کر ریجیکٹ کردیا۔
مجھے جانے دیں پلیز۔
یہ طوبی نے بے بی سٹر منگوایا تھا ایسا لاپرواہ آدمی بچوں کو میرے پاس چھوڑ کر رفو چکر ہونے کو تھا۔ کان سے پکڑ کر اوپر لائی ، کوئی لچا ہی نہ ہو طوبی کے سامنے پیش کرتی مگر وہ گھر پر نہیں تھئں۔
عزہ نے اپنی کار۔گزاری جتلائی۔۔
آدمی ۔۔عشنا نے آنکھیں پھاڑیں۔۔
احمق طوبی گھر پر ہوتیں تو بے بی سٹر کیوں بلواتیں۔
فاطمہ نے سر پیٹا۔۔
وہ آپ۔ مجھے جانے دیں میں نے کچھ نہیں کیا ۔
تیجون روہانسا ہوچلا تھا۔
واعظہ اسکی شکل دیکھ کر ایک۔جانب ہوئی وہ گولی کی طرح نکلا باہر۔۔
یہ مجھے دیکھا دیکھا لگ رہا۔عشنا نے کہا تو فاطمہ ڈر سی گئ۔
کیا ؟ صحیح بتائو یہ اسی گینگ کا تو نہیں ؟ آآ۔۔۔۔
فاطمہ کی بات پر واعظہ اور عشنا دونوں نے اکٹھے اسکے پیر دبائے چونکہ دو ہی تھے سو وہ وہیں تڑپ کر بیٹھتی گئی۔
آہ ظالمو دونوں پیر کچل دیئے میرے۔۔
کونسا گینگ وہی جس نے نور کو پھنسوایا تھا
عزہ پوچھ رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام سان ٹاور سے سیول پر چھاتے شام کے اندھیروں اور پھر ان اندھیروں کو مدھم کرتی شہر کی روشنیوں کو دھیرے دھیرے اندھیرا نگلتے دیکھتے وہ مکمل اس منظر میں مگن تھی۔ نام سان ٹاور کی گیلری میں گرل سے بازو ٹکائے۔ وہ یوں مگن کھڑی تھی جیسے اکیلی کھڑی ہو۔
تمہیں سیول کیسا لگتا ہے؟
سیونگ رو نے اسکی محویت کو محویت سے دیکھتے پوچھا۔
بہت اچھا۔ بلکہ یوں کہوں کہ سیول میں رہنا مجھے اپنے شہر میں رہنے سے بھی ذیادہ اچھا لگتا ہے۔
عروج نے مگن سے انداز میں جواب دیا تھا۔
اور میرا ساتھ؟
سیونگ رو نے پوچھا تو وہ چونک کر اسکی جانب مڑی
مطلب؟
سادا سا سوال ہے۔ سیول پسند ہے ٹھیک ہے سیول میں رہنے والے بھی پسند ہیں یا نہیں۔؟
سچ بتائوں برا تو نہیں مانو گے؟
عروج نے لمحہ بھر کے توقف دے کر کہا
سیونگ رو نے ابرو اچکائی۔۔ جیسے کہہ رہا ہو بولو
مجھے سیول جتنا بھی پسند ہو یہاں کے باسی بالکل نہیں پسند۔ خشک سرد مزاج لاتعلق۔ اور غیر ملکیوں کو تو بالکل پسند نہیں کرتے ایسے گھورتے ہیں نظر انداز کرتے ہیں جیسے ہم سیول کو کھا جائیں گے یا چھین لیں گے۔
اس نے کندھے اچکا کر یوں دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو میرا منہ پھٹ انداز پسند تو نہیں آیا ہوگا۔سیونگ رو کے چہرے پر ہر دم کھلی رہنی والی مسکراہٹ مدھم سی ہوگئی۔ اس نے گہری سی سانس بھر کر سیول کی جگ مگ کرتی بتیوں پر نگاہ ڈالی پھر ہلکا سا رخ موڑ کر اسکی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔۔
اورمیں۔۔۔۔
تم تو خیر اب دوست ۔۔ عروج نے اسکی آنکھوں کی تحریر پڑھ لی تھی جبھی تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے بات ٹالنئ چاہی مگر سیونگ رو نے بات کاٹ دی
میں کیسا لگتا ہوں تمہیں؟ کیا تم مجھے نامجا کی طرح دیکھتی ہو؟؟؟ یا دیکھ سکتی ہو
اسکا جواب اسکی آنکھوں میں پڑھ کر بھی موہوم سی امید کے تحت اس نے پوچھ ڈالا
وہ۔۔ عروج کی بولتی بند ہوگئی تھی۔
سیول کی ہوا ایکدم سے پہلے سے ذیادہ خشک اور سرد ہوچکی تھی۔
نہیں۔ عروج نے فورا کہنا چاہا مگر نقاب کے پیچھے ہونٹ بس ہل کر رہ گئے۔ سیونگ رو آنکھوں میں ڈھیروں جگنو سجائے اسے تک رہا تھا۔
عروج میں جانتا ہوں ہمارے درمیان بہت تفرقات ہیں۔
ایک اجنبی ملک کی اجنبی مزہب کی لڑکی جسکی صورت بھئ شائد بس ایک آدھ بار دیکھی ہے مجھے اپنے دل سے قریب محسوس ہوتی ہے۔نجانے کیوں۔ بات عجیب لگتی ہے مگر سچ یہی ہے۔۔ مجھے تم سے تمہارے مزہب سے کوئی مسلئہ نہیں۔ تم جیسی ہو جیسے چاہے رہنا چاہو مجھے ہر وقت ماسک پہنو اسکارف پہنو تمہاری مرضی۔ تمہارے ایمان پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ مجھے بس اس لڑکی سے مطلب ہے جو میرے سامنے ہے۔
اس نے جیب سے ایک بے حد خوبصورت ریپر میں لپٹا چھوٹا سا تحفہ اسکی جانب بڑھایا۔
عروج میں تمہیں پسند کرتا ہوں۔ شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے۔
مجھ سے شادئ کروگی۔
نام سان ٹاور کی روشنیوں میں دمکتا وہ چندی آنکھوں والا سیونگ رو چہرے پر دنیا جہان کی سچائیاں سجائے تھا۔ وہ اس سے دو سمسٹر سینئیر تھا۔ ایم بی بی ایس کے دوران کتنی ہی مدد اس سے لی تھی تو ہائوس جاب میں کہاں کہاں نہیں وہ کام آیا تھا۔ پہلے مریض کے چیک اپ سے آج دوپہر تک۔ اس کی زندگی کا ایک حصہ اسکی نگاہوں کے سامنے تھا یہ بھی سچ ہے کہ اس نے اس سے ذیادہ سلجھا ہوا لڑکا نہیں دیکھا تھا ۔ ایک لڑکی ہونے کے ناطے اسکی آنکھوں کی گہری ہوتی چمک اسکے رویوں سے جھلکتی اپنائیت کیا اسے کبھئ نظر نہیں آئی؟ آئی ہمیشہ محسوس ہوئی۔
وہ ہی تو ابھی رات کو پوچھ رہی تھئ
اچھا واعظہ یہ تو بتائو جب میں نے بتایا کہ مجھے میرے کولیگ نے پرپوز کیا ہے تو تم نے فٹ سے سیونگ رو کا نام لیا تھا کیوں؟سیونگ رو کہاں سے آگیا؟
واعظہ کا جواب نپا تلا دوٹوک تھا۔
سیونگ رو بیچ میں آچکا ہے۔ آج نہیں تو کل۔ ڈاکٹر عبدالقادر کو کیا جواب دینا ہے یہ سوچنے کے ساتھ ساتھ سیونگ رو کو کیا جواب دینا یہ بھی سوچ کے رکھو۔ جلد جواب دینا پڑ جائے گا تمہیں۔
اور اس نے نہیں سوچا تھا۔ اگر سوچ لیا ہوتا تو۔۔۔
اس نے غور سے سیونگ رو کو دیکھا وہ منتظر نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
ایک واحد دوست اجنبی ملک میں کسی دن اس کا یوں ہاتھ مانگ لے گا اس اندازے کو جھٹلانے سے ذیادہ ٹالا تھا اس نے۔ سو آج وہ وقت آگیا تھا۔ یا تو یہ دوستی عمر بھر چلنے والی تھی یا آج اسکا آخری دن تھا اسے ابھی فیصلہ لینا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
جاری ہے۔۔
No comments:
Post a Comment