قسط 48
لفٹ پر بڑا سا نو سروس لکھا تھا۔اف۔ چار فلورز کی سیڑھیاں اترتے اسکا تیل نکل گیا تھا۔ پاکستان میں ہوتی تو آخری فلو رپر گر ہی جاتی مگر یہاں گرمی میں بھی خنکی تھی
اس نے چند لمحے سانس بحال کی پھر واٹر ڈسپنسر سے جا کر پانی پیا۔ تو جان میں جان آئی۔
اف ۔ ہوگی کوئی لڑکی جو اپنے ایکس سے ملنے کیلئے چار فلورز اتر کر جائے۔
وہ خود کو شاباش دینا چاہ رہی تھی مگر یہاں کوئی سراہنے والا نہیں تھا سو بڑ بڑا کر رہ گئ۔
تبھئ فون بجا۔اس نے پیغام کھولا
میں گارڈ کو لفافہ تھماکر جا رہا ہوں لے لینا۔
حد ہے۔۔۔ مطلب مجھے اس میں کوئی لو انٹرسٹ نہیں تب میں پچاس سیڑھیاں اترکر آرہی ہوں اور یہ دس منٹ گرائونڈ فلور پر انتظار نہیں کرسکتا۔ اس سے تو پاکستانی لڑکے اچھے لو انٹرسٹ کیا بس دیکھنےکے شوق میں کڑی دھوپ میں گرلز کالجز کے باہر کھڑے رہتے۔
وہ غصے میں بھر کر مٹھیاں بھینچنے لگی۔ پہلی بار پاکستانی لڑکوں کی خوبئ جسے آج تک اس نے خامی بلکہ برائی گردانا تھا آشکار ہوئی تھی۔
تن فن کرتی تیز قدموں سے چلتی باہر نکل آئی تو واقعی سیونگ رو پارکنگ سے گاڑی نکال رہا تھا۔
وہ وہیں رک گئ۔ سیونگ رو نے بھی شائد اسے دیکھ لیا تھا۔ جبھی وہیں گاڑی اسٹارٹ چھوڑ کر ہی باہر نکل آیا۔
اسلام و علیکم کیسی ہو۔
اس نے قریب آکر مخصوص انداز میں سلام جھاڑا۔
وہ سینے ہر بازو لپیٹ کر بغور دیکھتی رہی۔
ڈراموں فلموں کے برعکس اوپا نا تو بجھے تھے نا ہی ٹمٹما رہے تھے۔ تازہ شیو پر خوب تیار شیار جینز کوٹ ڈھیروں پرفیوم ماتھے پر بکھرے بال۔
اس نے سچ مچ محبت کا اظہار کیا تھا کہ شرارت۔ وہ سوچے بنا نا رہ سکی
اسے بغور اپنا جائزہ لیتے دیکھ کر وہ ذرا سا مسکرایا۔
میں تمہارے لیئے تحفہ لایا تھا۔ کل تو تم نے لیا نہیں مگر میں وہ تحفہ کسی اور کو دینا بھی نہیں چاہتا تھا سو اس گارڈ کے پاس چھوڑ دیا۔ اس سے قبل کہ تم آج بھی لینے سے انکار کردو۔ تھوڑا قیمتی ہے
وہ قیمتی پر آنکھوں میں جگنو سجا کے مسکرایا تھا۔
عروج چپ ہی رہ گئ۔ ماسک کے پیچھے اسکی بڑی بڑی آنکھیں۔ سیونگ رو براہ راست ان میں جھانکنے لگا۔
تم سے ویسے مجھے امید نہیں تھی کہ یوں صاف انکار کردوگی مگر میرے ساتھ ہمیشہ ہی کچھ غیر متوقع ہوتا ہے سو سہہ گیا۔۔۔ اس حلیئے سے یہ مت سمجھنا کہ مجھے کوئی دکھ نہیں ہوا تمہارے انکار سے۔ کافی ہوا ہے۔ سچ بتائوں تو رات کو رویا بھی تھا۔۔۔
عروج کی آنکھوں کی پتلیوں میں حیرت اتر آئی۔
وہ جیسے اسکی سو چیں حرف بہ حرف پڑھ رہا تھا۔
بہر حال جاتے ہوئے بس اتنا کہوں گا کہ خوب پڑھنا اسپیشلائزیشن کرنا اپنے سب خواب پورے کرنا اور کبھی مجھے یاد بھی کرلیا کرنا۔ چار سال کا ساتھ اتنی تو مروت کا متقاضی ہے۔۔ ہے نا؟
وہ مسکرادیا۔ عروج کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر سمجھ نہ آیا کیا کہے۔ کوئی نا پسندیدہ انسان پرپوز کرے تو انکار کرنا کتنا آسان ہوتا ہے مگر سیونگ رو کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا تھا اسکو دکھ دینے کا سوچ کے بھی برا لگ رہا تھا۔۔
میری مام مسلم تھیں۔ میرے آہپا اور انکے درمیان کبھی اسلام موضوع نہیں بنا تھا۔ مجھے لگا تھا میرے اور تمہارے درمیان بھی یہ موضوع بنے بنا بھی ہمارا تعلق قائم ہوسکتا تھا مگر تم نے۔۔۔۔
اس نے گہری سانس لی۔
شائد تم پاکستانی ہونے کی وجہ سے کٹر ہوہیں؟
وہ پوچھ رہا تھا۔عروج نے ترچھی نگاہ سے گھورا تو ہنس دیا
سب پاکستانی لڑکیاں تم جیسی ہوتی ہیں یا تم الگ ہی کوئی خاص نمونہ ہو۔۔۔ اسکی ترچھی نگاہ سے وہ خاصا محظوظ ہوا تھا جیسے۔
کچھ بولو گی یا بس آنکھوں کی بولی بولنی آج؟ جا رہا ہوں کوریا چھوڑ کر خدا حافظ ہی کہہ دو۔
وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر سر جھکا کر مڑگیا۔
کہاں۔ عروج کے منہ سے نکلا تھا۔۔۔ وہ یونہی گردن موڑ کر دیکھنے لگا جیسے پوچھ رہا ہو کوئی مطلب ہے کیا؟
میرا مطلب اچانک کہاں۔۔ کل تک تو کوئی ارادہ نہیں۔۔ یا۔۔
وہ گڑ بڑا کر چپ ہوگئ۔ میں وضاحتیں کیوں کر رہی خود کو ڈپٹ بھی لیا۔
جاپان وہاں اپنے انکل سے مل کر امریکہ۔۔۔۔مجھے اسپیشلائزیشن کیلئے اسکالر شپ مل گئ ہے۔۔۔ مجھے دو ہفتے بعد جانا تھا مگر یہاں رکنے۔۔۔۔۔۔
وہ یونہی مڑ کر بولتے بولتے چپ سا ہوگیا۔پھر گردن موڑ کر بولا۔۔
میری فلائٹ کا وقت ہو رہا ہے چلتا ہوں۔ بائے۔۔
وہ کہہ کر رکا نہیں۔ تیز تیز قدم اٹھاتا گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔اسکی آنکھوں سے پھسل آنے والے آنسو راہ دھندلا رہے تھے مگر وہ اب مڑ کر پیچھے دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔اتنی ہی تیزی سے بیٹھ کر گاڑی نکال کر لے گیا۔۔
عروج وہیں کھڑی دیکھتئ رہی گاڑی نگاہوں سے اوجھل۔ہوئی تو پلٹی
ٹپ۔ ایک بوند اسکے سر پر آن گری۔۔۔
اس نے سر اٹھا کر آسمان دیکھا تو کئی بوندیں اسکے تعاقب میں تھیں۔۔۔۔
کوریا میں یوںہی ایکدم ہی موسم بدل جاتا ہے۔ اسے کمپائونڈ کی۔جانب بھاگ کر جانا پڑا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروگرام ختم کرکے نکلتے ہی باہر چھاجوں مینہ برسنے لگا تھا۔۔
سب جیسے تیار تھے سوائے اسکے۔چھتری رین کوٹ۔ اسکی شفٹ کے سب لوگ تیزی سے باہر نکلنے لگے تو وہ تھوڑا ایک جانب ہوگئ۔۔۔
ایک وہ دن بھی تھا۔۔ جب کے بی ایس ایوارڈز فنکشن سے نکلتے ہوئے وہ بنا آسمان دیکھے نکل آئی تھی۔ فٹ پاتھ پر چلتے چلتے جب ایکدم بارش تیز ہونے لگی تو وہ سٹپٹا کر کوئی سایہ کوئی چھپر ڈھونڈنے لگی تھی کہ اچانک سر پر چھتری تن گئ۔
کوریا کے موسم کا اندازہ کرنا سیکھ لو اب۔ ہربار مجھے چھتری لا کردینی پڑتی ہے تمہیں۔
مانوس آواز وہ چونک کرمڑی۔سامنے چندی آنکھوں کے ساتھ مسکراتا ژیہانگ۔۔
ہر بار؟ پہلے کب ۔۔ وہ بولتے بولتے رکی۔
ریڈیو کے دفتر کے باہر۔۔ ژیہانگ نے یاد لایا تو اسے وہ اونچا لمبا سراپا بارش سے بچتا بھاگتا۔۔
اف۔ کتنی احمق ہوں میں اسکو کپڑوں سے بھی نہ پہچانا اردو میں بھی بولا تب بھی احمقوں کی طرح اسکے۔۔۔۔
اسے اپنی حماقت پر ٹھیک ٹھاک غصہ آن چلا تھا۔۔ اس کا چہرہ پہلے سوچ میں پڑا پھر دہک سا اٹھا۔ ژیہانگ بہت دلچسپی سے اسکے تاثرات دیکھ رہا تھا۔
تمہیں دیکھ کر مجھے بچپن میں سنی ایک کہانی یاد آجاتی ہے۔ سنائوں؟
نہیں۔۔اس نے فورا سر نفی میں بھی ہلایا ۔۔
کیوں۔ژیہانگ معصوم سا بنا۔
میں اجنبیوں سے کہانی نہیں سنتی۔۔ وہ کہہ کر مڑ کر جانے لگی
ذکریہ اجنبی تو نہیں۔۔ وہ ایکدم سے اسکے سامنے آیا۔
ژیہانگ تو ہے۔ اس نے جتایا۔ اور رخ موڑا۔۔
تم ذکریہ سے کہانی سن لو بھلے ژیہانگ سے منہ پھیر لو۔
میں کہانی سن کر بھٹک جائوں گی راستہ۔۔ اس نے دل میں کہہ کر قدم بڑھائے۔ مگر شائد دل میں۔ حقیقت میں تو وہ وہیں کھڑی رہ گئ تھئ۔۔
سڑک کنارہ برستی بارش گزرتے لوگ لڑکی خفا خفا سی لڑکا دنیا جہان کا اشتیاق آنکھوں میں سمائے دیکھتا۔۔۔ کوئی رک جاتا تو۔۔۔۔۔۔۔
اس کو احساس بھی نہ ہوا کہ ایک۔بارش اسکے چہرے پر بھی برسنے لگی ہےایسی کہ شیڈ میں کھڑے ہونے کے باوجود بھئ چہرہ تر ہوتا جارہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واعظہ اور فاطمہ بھیگی مرغیاں بنی جب فلیٹ میں داخل ہوئیں تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔
فلیٹ میں بیسن اور سوجی کی خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں۔ دونوں سیدھا کچن کی جانب بھاگی آئیں تو عزہ پکوڑے تل رہی تھی اور عشنا سوجی کا حلوہ بنا رہی تھی۔۔۔
آجائو واعظہ فاطمہ گرم گرم آلو پیاز کے پکوڑے اور واعظہ کیلئے ہری مرچ کے پکوڑے الگ سے بنا رہی ہوں یہیں آجائو۔
عزہ نے کڑاہی سے گرم۔گرم پکوڑے ٹرے میں نکال کر کائونٹر پر رکھے۔
دونوں کو بھر پیٹ سینڈوچ کھانے پر دلی افسوس ہوا۔
اف پاکستانیوں زندہ باد کس نے یہ ریت بنائی بارش میں پکوڑے کھانے کی اسکو سات سلام۔
فاطمہ چہکتی ہوئی آئی۔
ہم سینڈوچ کھا کے آئے ہیں۔ واعظہ کا انداز جتانے والا تھا
ہاں ہم سینڈوچ کھا کے آئے ہیں۔ فاطمہ نے اداسی سے کہتے ہوئے آلو کا پکوڑا منہ میں بھر لیا۔
ہم ایسے موسم میں کھچڑی بناتے ہیں۔
عشنا نے مسکرا کر بتایا۔
کیوں بھئ؟ وہ سب حیران ہو کر چیخ ہی تو پڑیں۔
ہماری والدہ سائوتھ انڈیا سے ہیں وہ ہمیشہ ایسے موسم میں کھچڑی بناتئ ہیں چکن کی۔ اس میں دالیں بھی ڈلتی ہیں آلو بھی
عشنا نے وضاحت کئ تو انکی حیرانی کم ہوئی
چکن والی کھچڑی ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ عزہ نے سند جاری کی
مجھے لگا تھا کہے گئ بارش کے بعد چونکہ سب بیمار ہوجاتے اسلیئے ایڈوانس کھچڑی پکتی۔
اپنی بات پر فاطمہ نے خود ہی حظ اٹھایا۔ واعظہ عزہ تیزی سے پکوڑے ختم کرنے میں لگی تھیں
چٹنی نہیں بنائی۔
عروج شان سے صوفے پر بیٹھی ٹی وی کے ریموٹ سے کھیل رہی تھی۔ وہیں سے آواز لگائی۔ جوابا منہ میں پکوڑے بھرے واعظہ عشنا فاطمہ نے اکٹھے مڑ کر گھورا تو اسے کھسیا کر اٹھنا پڑا۔
میں لہسن کی چٹنی بنا دیتئ ہوں۔
اس نے احسان دھرتے کہا۔ فریج کے پاس آئی اندر سے لہسن پیسٹ کا جار نکالا پلیٹ میں کئی چمچ بھر کر ڈالا اور اوپر سے نمک مرچ چھڑک کر چٹنئ گھول لائی۔
اتنا مہنگا آتا یہ پیسٹ سارے کو: منہ میں پکوڑا بھرنے کی وجہ سے عزہ جملہ مکمل نہ کر پائی۔
اوہو تو کل سالن بناتے وقت استعمال کرلینا نمک مرچ نہ ڈالنا سالن میں۔
مفت مشورہ حاضر تھا۔
عشنا کا حلوہ تیار ہو گیا تھا۔ وہ پلیٹ میں نکال کرچمچ لے آئی
سب نے پکوڑے کی ٹرے خالی کرلی تب خیال آیا واعظہ کو
الف کہاں ہے؟
سو رہی ہے۔بھیگی ہوئئ آئی تھی بس کپڑے بدل کر بستر میں گھس گئ۔ کھانے کیلئے اٹھانے گئ تو کہتی ہے بھوک نہیں بس سوئوں گی۔
عروج نے بتایا تو فاطمہ اور عزہ حیران سی ہوئیں۔
آج تو شو تھا نا اسکا ؟ اچھا نہیں ہوا ہوگا۔۔ جبھی۔ فاطمہ نے قیاس آرائی کی۔۔
امی کال نہیں کی نا اسکے شو میں آج؟
عزہ نے گھورا۔ تو واعظہ کو یاد آیا۔
میں نے تو کئی دفعہ سے کال نہیں کی اس نے تو کہا تھا کہ شو خوب چل نکلا ہے کوئی چینی لڑکا بھی ساتھ شو کرنے لگا ہے سنا تو کبھی نہیں مگر پچھلے کچھ دن سے خوش تو تھی۔۔
ہممم۔ ہو سکتا ہے آج ریٹنگ نہ آئی ہو تو ڈانٹ پڑ گئ ہو۔
عروج نے لاپروائئ سے بولتے ہوئے پورا پکوڑا چٹنی میں ڈبو کرمنہ میں رکھا۔ عزہ واعظہ فاطمہ ہیں ہیں کرتی رہ گئیں۔
وہ سوالیہ نگاہوں سے دیکھتی رہی پھر احساس ہوا۔۔ یہ پکوڑاتو ہری مرچ کا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاز نے جیسے ہی زمین کو چھوڑتے ہوئے اڑان بھری وہ بے چین سا ہو کر کھڑکی سے نیچے جھانکنے لگا۔
سیول انٹرنیشنل ائیر پورٹ کی جگ مگ کرتی بتیاں لمحہ بہ لمحہ دورہوتی جارہی تھیں اور وہ بھی۔
پہلا دن جب عروج کو دیکھا اور آخری دن جب عروج کو دیکھا دونوں دفعہ نقاب تھا چہرے پر۔ لوگ کہتے ہیں چہرہ اچھا لگنے لگتا ہے محبت میں اسے تو وہ وجود بنا چہرہ دیکھے بھی عزیز سا لگتا تھا۔۔
پریویس میں گھبرائی ہوئی وائیوا کی تیاری کرتی تو کبھی مریضہ کا ہاتھ تھامے تسلیاں دیتی کبھی سئنیر ڈاکٹر کو دیکھ کر اسکی پشت میں چھپتی کبھی آہجومہ کے ساتھ بھاری مرتبان اٹھا کر لاتی۔ ہنستے ہوئے چندھیاتی آنکھیں۔ غصے میں بھری تیکھی نظریں۔۔۔۔
کتنے روپ قید تھے اسکی یادوں میں۔۔
مگر ہر جگہ مضبوط نڈراپنا خیال خود رکھنے والی ایک سمجھدار پاکستانی باہمت ڈاکٹر لڑکی۔ اور میں ۔۔ روندو کہیں کا
اپنی آنکھوں میں در آنے والا پانی پونچھتے وہ خود پر استہزائیہ مسکرادیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی آنکھوں سے پانی آبشار کی طرح بہہ رہا تھا زبان جیسے جلتا انگارہ ۔۔
اسکو پہلے اچھو ہوا اب مستقل کھانسی ۔۔ عزہ نے سوجی کا حلوہ منہ میں ڈال دیا تو الگ آگ لگ گئ۔جھٹ روتی دھوتی سنک کی۔جانب بھاگی اور تھوک دیا۔
ارے یہ حلوہ میٹھا تھا ابھی جلن کم ہو جاتی۔
عزہ نے کہا تو وہ برستی آنکھوں سے چلائی
گرم بھی تھا میری اور زبان جل گئ۔
اسکی بات پر عزہ نے کھسیا کر سر کھجایا۔ عشنا نے پلیٹ کی جانب دیکھا تو اس میں سے ابھئ بھی دھواں اٹھ رہا تھا
پانی پی لو۔ فاطمہ نے بوتل بڑھائی اس نے جھٹ منہ سے لگا لی۔
واعظہ فریج میں گھسئ کچھ ڈھونڈ رہی تھی
یار وہ آئسکریم رکھی تھئ۔
اس نے پوچھ ہی لیا ۔۔ عشنا نے دھیرے سےرخ پھیر کر بتایا۔
وہ تو صبح میں نے کھالی۔
عروج آدھی بوتل پی کر بھی جلے پیر کی بلی کی طرح کچن میں چکر کھا رہی تھی
ہائے مر جائوں گئ آج میں۔ اسکے بین فاطمہ کوچڑا گئے
ایسا بھی کیا ہری مرچ کا پکوڑا سب کھاتے ہی ہیں۔
یہ کوئی عام ہری مرچ نہیں خالص بنگالی مرچ لے کر آئی تھی آج میں سپر اسٹور سے۔
عشنا نے اپنی کارگزاری جتائی تو فریج بند کرکے واعظہ اور بوتل بند کرکے عروج نے اکٹھے گھورااسے
ضرورت کیا تھی کوریا میں بنگالی مرچ امپورٹ کرنے کی۔ نرئ بیماری۔۔
عزہ نے کہا تو زبان باہر نکالے عروج کو دیکھ کر فاطمہ چڑانے لگی
خیر بنگالی بھئ سہی ایسی بھی کیا مرچیں لگ گئیں واعظہ نے بھی تو پورا پکوڑا کھایا اسے تو کچھ نہ ہوا۔
تمہارے خیال میں میں فریج میں آئسکریم عروج کے لیئے ڈھونڈ رہی تھی۔
وہ گائے کی شکل والے دہی کا ڈبہ پکڑے بھر بھر منہ میں چمچ انڈیلتے اطمینان سے بولی۔
ادھر دو۔ اسے دہی کھاتا دیکھ کر عروج نے لپک کر اس سے پیالا چھینا۔
تمہیں بھی مرچیں لگ رہی تھیں۔
عزہ کو یقین نہ آیا اتنے اطمینان سے بھی مرچیں لگ سکتی ہیں
مگر واعظہ کو ڈیڑھ لیٹر کی پانی کی بوتل آدھی خالی کیئے پکڑے دیکھا تو یقین کرنا پڑا۔
جلے پیر کی بلی کو اب کچھ سکون ہوا تھا سو اطمینان سے اسٹول گھسیٹ کر بیٹھ گئ
ان میں سے کوئی ایک بھی نارمل نہیں ہے کہے دیتی ہوں۔
فاطمہ نے ہاتھ جھاڑ کر فتوی دیا
خاموشی سے حلوے کا چمچ منہ میں رکھ کر عشنا ذرا ٹھٹکی نگلا ہھر واعظہ سے کہنے لگی
پانی دیجئے گا واعظہ۔ حلوہ گرم تھا منہ ہی جل گیا۔
۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں بارش ہو تو ۔۔۔۔
اس نے پردے ہٹائے کھڑکی کھولی پر سامنے کوئی کھڑا تھا۔وہ دہشت زدہ سی ہو کر پیچھے کو گر سی گئ۔
اسکی بھیانک چیخ سے فلیٹ کے درو دیوار ہل سے گئے تھے۔
یہ کیا۔۔۔۔
اسکی چیخ پر کمبل میں گھسی الف دہل کر اٹھ بیٹھی باتھ روم سے نکلتی عزہ بھاگ کر اسے اٹھانے آئی اور تو اور ساتھ والے کمرے سے واعظہ عشنا اور عروج بھی دوڑی آئیں۔
کیا ہوا۔
فق چہرہ تھر تھر کانپتی عروج کھڑکی کی جانب اشارہ کررہی تھی۔
بھو بھوت۔۔
نائٹ بلب کی مدھم روشنی میں ایک بڑا سا سایہ کھڑکی سے جیسے باہر نکلا چلا آرہا تھا۔
وہ سب بھی سنٹ سی ہو کر پیچھے ہوئیں۔
لاحول ولا قوت۔۔
الف زور سے بولی بھوت ٹس سے مس نہ ہوا۔۔
مگر اسے عقل تھی۔ جھٹ موبائل کی ٹارچ آن کرکے ڈالی۔ دھپ دھپ واعظہ عشنا اسی کے بیڈ پر آگریں اور فاطمہ عشنا کے اوپر ۔۔ الف نے کھسک کر جگہ دیتے ہوئے اٹھ کر سوئچ آن کیا۔۔ منظر واضح ہوا۔
وہ ایک بڑا سا شٹل کا برقعہ تھا عین کھڑکی کے بیچوں بیچ لٹک رہا تھا۔کھڑکی سے آتی ہوا اس میں بھرتی تو اسکا سارا گھیر پھول کر کیسپر کا ابا بن جاتا وہ بھی کالا سا
عزہ ہنسی ضبط کرتی بے حال ہو رہی تھی عروج کھا جانے والی نگاہوں سے گھور رہی تھی۔
اب یہ شٹل کاک برقعہ کہاں سے آیا۔ واعظہ تیر کی طرح کھڑکی کی جانب بڑھی۔۔ بڑے سے شامیانے جیسا گھیر دار کالا سیاہ شٹل کاک برقعہ ۔اسے سو فیصد یقین تھا اسکی برقعہ ایونجرز میں سے کسی کا نہیں تھا۔
دیکھوکوئی چیز تو ادھر ادھر نہیں ہوئی تم لوگوں کی۔
اسے نئی فکر سوار ہوگئی۔
اوہو یہ میرا ہے۔ میں نے دھو کر ڈالا تھا۔ یہاں سکھانے کیلئے۔
عزہ نے بمشکل ہنسی ضبط کرکے بتایا۔ عروج نے وہیں اسکی کمر میں دھموکا جڑا۔
تم شٹل کاک برقعہ پہنتی تھیں پاکستان میں۔ فاطمہ حیرت کے مارے بے ہوش ہونے کو تھی
اسکو پہنتے کیسے ہیں۔؟عشنا اسکو کھول کھول کر دیکھ رہی تھی۔
اس میں تو نقاب بھی نہیں۔۔ اس نے پونچو کی طرح اپنے کندھوں پر ڈال لیا تھا اب حیرت سے پوچھ رہی تھی۔
بہنا افغانستان سے تم لوگوں کی سرحد نہیں ملتی لہذا تم اس برقعے کو کیسے پہنتے یہ راز نہیں جان سکتیں۔۔
فاطمہ نے برقعہ کھینچ کر عزہ کے اوپر پھینک دیا تھا۔
پہلے تو کبھی تمہیں یہ برقعہ استعمال کرتے نہین دیکھا آیا کہاں سے یہ؟
واعظہ کو جانے کیا شک ہو رہے تھے۔
عزہ نے چاروں اطراف دیکھا سب سکھیاں اسے بری طرح گھور رہی تھیں۔ اس نے ٹوپی سر پر جما کر پورا برقع اوڑھ لیا۔
تھیبا۔ عشنا دنگ رہ گئ۔
یہ تو ننجا ٹرٹل بن گئ۔ مگر اسکو پہن کر چلتے کیسے ؟ دکھائی دینے کیلئے تو کچھ بھی نہیں اس میں۔ عزہ سانس آرہی ہے۔ ؟
اسکے پے درپے سوال۔
عروج واعظہ فاطمہ الف زچ ہو کراکٹھے چلائیں۔۔
عزہ کی بچی بتائو یہ برقعے کی کیا کہانی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے سب بتا کر سب کے تاثرات دیکھنے چاہے تھے۔ واعظہ کے حسب معمول سپاٹ فاطمہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا والےتاثرات سجائے تھی۔ عشنا سب سے بے نیاز سنگھار میز کے سامنے برقعہ پہنے گھوم گھوم کر دیکھ رہی تھی خود کو۔ الف رو رہی تھی۔ عروج نے جمائی لیکر اپنا تکیہ سیدھا کیا اور انکے ڈبل بیڈ پر پھسکڑا مار کر بیٹھنے کے باوجود اپنے پائوں سیدھا پھیلا کر فاطمہ کی گود میں رکھے اور سر پر بازو بھی رکھ لیا۔ مطلب سونے دو
اس نے گردن گھمائی۔ پھر چونک کر دوبارہ اسکی جانب نگاہ کی۔
اپنے سنگل بیڈ پر دیوار سے ٹیک لگائے وہ نیچے کسی نادیدہ چیز کو گھورتے بے آواز آنسو بہا رہی تھی۔
مت روئو ہم سب مل کر دلاور بھائی کو سمجھائیں گے۔باز آجائیں۔۔
عزہ نے تسلی دی تو فاطمہ واعظہ نے چونک کر گردن موڑ کر الف کو دیکھا۔ وہ گڑبڑا کر آنسو پونچھنے لگی۔
اتنی پیار کرنے والئ بہنیں ہیں طوبی کی ابھی دیکھتیں کہ کیسے انکے دکھ میں الف رو رہی ہے تو خوشی سے پاگل ہو جاتیں۔
عزہ کے انداز میں رقت بھرا رشک تھا وہ الف کی محبت پر سر دھن رہی تھئ۔
فاطمہ اسے گھور کر رہ گئ۔
تمہارے خیال میں یہ اتنی رقیق القلب ہے کہ طوبی کے غم میں رو رہی ہے۔ ؟ عروج نے بازو آنکھوں پر رکھے رکھے اضافہ کیا۔
اس نے تو تمہاری روداد سنی بھی نہیں اس سے پہلے سے چپکے چپکے روئے جارہی ہے۔
اس بار بازو ہٹا کر الف کو دیکھ کر کہا تھا۔
کیا ہوا ہے الف ؟ فاطمہ نے مڑ کر پیار سے پوچھنا چاہا مگر پوری نہ مڑ سکی عروج کے پیر پیٹ میں کھبے تھے۔
کک کچھ نہیں۔ الف عروج کو دانت پیس کر دیکھ کر رہ گئ۔
تو پندرہ منٹ سے رو کیوں رہی ہو۔
واعظہ اٹھ کر اسکے برابر آبیٹھی۔
خوامخواہ۔ وہ سٹپٹا کے سیدھی ہوئی۔
کس کی باتوں میں آرہی ہو آنکھیں بند کیئے پڑی تھی ایویں ہانک رہی بس وہ آنکھ میں چبھن تھی مسلی تو پانی نکل آیا۔
میں منہ دھو کے آتی ہوں۔
اس نے اپنی طرف سے تسلی بخش جواب دے کر رفو چکر ہونا چاہا تبھی فاطمہ کی گود سے پائوں اٹھا کر عروج نے اسکے بیڈ پر رکھ کر اسکے فرار کی راہ مسدود کی
یہ جو بازو رکھا تھا اس سے جھری بنا کر ایک آنکھ تم پر رکھی تھی میں نے۔
اس نے باقائدہ پوز مارا۔
سیدھی طرح بتائو کیا مسلئہ ہے؟ اسکے تیور کڑے تھے
کل نیچے لابی میں بھی اداس شکل بنائے بیٹھی تھی ابھی پکوڑے کے لیئے اٹھانے آئی تو موصوفہ کا رونے کا شغل جاری تھا آواز دئ تو سوتی بن گئ۔
یہ امی کو شکایت لگ رہی تھی۔
کیا ہوا ریڈیو کی نوکری ختم ہوگئ،
فاطمہ کا دل موم ہوا۔
نہیں یار۔ اس نے سر جھٹکا پھر دماغ کی بتی روشن ہوئی۔
ہاں وہ میرا شو بند ہوگیا۔ اگلا ویک اینڈ ہمارا آخری شو ہوگا ۔ میرا ساتھی آر جے چلا گیا تو مجھ سے آج شو بھی۔ نہ۔۔ ہو سکا۔۔ بس ۔ تو ۔۔۔ وہ بتاتے بتاتے پھر روپڑی۔
باقی جملے نارمل تھے مگر میرا ساتھی آر جے کے ساتھ رقت در آئی اور کسی نے کیا ہو نہ کیا ہو واعظہ نے نوٹ کیا تھا۔
اوہو یہ تو بہت برا ہوا۔ اگلے مہینے سے تو گھر کا بھی انتظام کرنا تھا تمہیں۔کوئی سیونگ وغیرہ ہے تمہاری؟
عروج کو بھی افسوس ہوا۔ اسکے جملوں پر الف اور زور وشور سے رودی۔۔
ظالم دنیا یہاں دل مسافرہو چلا ہے یہ ٹھکانے ڈھونڈنے پر اکسا رہی ہیں۔
کوئی بات نہیں واعظہ گھر سے نکالے گی تھوڑی۔
عزہ نے تسلی دینی چاہی۔ واعظہ ترچھی نگاہ سے دیکھنے لگی تو کان دبا گئ
میں گوشی وون لینے لگی ہوں تم میرے ساتھ چلنا ۔۔
عشنا برقعے کی ٹوپی سر پر چڑھانے میں کامیاب ہوگئ تھی سو مڑ کر تسلی دینے لگی
اس ہفتے ای جی اور سیہون آرہے مجھے اکیلے شو کرنا جانے کیسے کرپائوں گی۔
الف کا بین۔
ہر معاملے کا چٹکی بجا کے حل نکالنے والی الف کا بلک بلک کر رونا واعظہ کو اچنبھے میں ڈال رہا تھا۔۔
جو بندئ پلیٹ دھونے سے بچانے کیلئے پورا ڈونگہ سامنے لاکر رکھ دے کہ اسی میں کھائو کوئی اس سے یہ توقع کیسے رکھے کہ کسی معاملے کو سلجھانے کا طریقہ ڈھونڈنے کی بجائے وہ پھسکڑا مار کر بیٹھی رو رہی ہو۔
ارے روئو مت۔ہو جاتا ہے۔میں ہوں نا۔۔ میں کروں گی تمہارے ساتھ پروگرام۔۔۔۔
۔ فاطمہ جزباتی ہو کر اٹھ کر تسلی دینے اسکے پاس بیڈ پر آبیٹھی یہ بھول کر کہ گود میں عروج کی ٹانگ بھئ تھی نتیجتا اسکی ٹانگ مڑی دھپ سے وہ بیڈ سے نیچے آئی ۔۔
آآااہ۔
چیخ بھی درد کے مارے نہ نکل سکی ٹانگ سہلاتی وہ وہیں بیڈ سے ٹیک لگا کر رونے لگی
مار دیا آہ توڑ دی ٹانگ میرئ ظالم۔۔ ہائے امی۔۔۔۔۔
آہ سوری۔ الف کو کندھے سے لگائے فاطمہ معزرت خواہ تھئ
عزہ عروج کو اٹھنے میں مدد دینے لگی۔۔۔۔
فاطمہ کی بچی بدلہ لوں گئ میں۔ عروج نے چہرےپر ہاتھ پھیرا۔ فاطمہ نے لفٹ نہیں کرائی۔
بس طے ہوگیا پکی آرمی ہونے کے باوجود میں نہ صرف اس سئہون کے بچے کا انٹرویو لوں گئ تمہارے ساتھ بلکہ ایجی سے دبلا ہونے کا راز بھی معلوم کروں گی فکر نا کرو۔
فاطمہ کی یقین دہانی پر الف کو فکر ہونے لگی۔ اب آنسوئوں کو بریک لگانا ضروری ہوگیا تھا
شکریہ فورا آنسو پونچھ کر وہ الگ ہوئی
بس یہ بتا دو کس دن کس وقت شو ہوگا۔۔
فاطمہ پوچھ رہی تھی۔
جمعے کو شام سات بجے۔
واعظہ نے گہری سانس لیکر بتایا
مسلئہ ہی کوئی نہیں۔ فاطمہ نے چٹکی بجائی
تم نے کہہ دیا بہت ہے شکریہ فاطمہ ۔۔ بہت تسلی ہوگئ مجھے
الف نے کہا تو فاطمہ سمجھی ہی نہیں
ارے دوست اور کب کام آتے مسلئہ حل ہوگیا بس رونا بند کرو۔
فاطمہ اسے اب بھی ساتھ لگا کر بولی
یہ تو حل ہوگئا طوبی کا کیا کریں؟
عزہ منمنائی۔۔
عروج اب عزہ کی گود میں سر رکھے لیٹی تھی
ہم سب کل فارغ ہیں کل اس معاملے کی مکمل تحقیق کر ڈالتے ہیں۔
عروج جوش سے اٹھ بیٹھی۔۔
مثلا کیا؟ واعظہ کا انداز طنزیہ تھا
ہم سب کل صبح جلدی اٹھ کر دلاور بھائی کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتے ہیں۔ کہاں جاتے کیا کرتے۔ اور چونکہ بس دو بندے اس کام کو نہیں کر رہے ہونگے تو انکو شک بھی نہیں ہوگا۔
یہ عزہ کا آئیڈیا تھا۔ عروج کا جوش بھاپ بن کے اڑا
آج بھئ غالبا یہی کیا تم لوگوں نے کیا نتیجہ نکلا؟
فاطمہ نے جتایا۔۔
ہاں تو پتہ لگا لیا نا کہ وہ خاتون انکے دفتر میں کام نہیں کرتیں۔ عزہ کو اپنے کارنامے پر فخر ہو رہاتھا۔
میرا آئیڈیا بہتر ہے۔ ہم سب مختلف کام کرتے ہیں۔
ایک انکے موبائل کا ڈیٹا اپنے دوست سے کہہ کر نکلوائے۔
اس نے ایک کہتے ہوئے واضح طور پر واعظہ کو ہی دیکھا تھا۔وہ ٹھنڈی سانس لیکر رہ گئ
اور۔
عزہ کو دلچسپی محسوس ہوئی۔
اور۔ عروج نے ذہن کے گھوڑے دوڑانے چاہے مگر وہ ہنہنا کر رہ گئے۔
ایک انکا پیچھا کرے ۔ یہ الف تھئ۔
ایک انکے دفتر جا کر انکے معمولات پتہ کرکے آئے۔
فاطمہ بھی چاق و چوبند ہوئی۔
وہ تو ہم کر آئے۔
عزہ نے اپنی کارکردگی جتانا چاہی۔
ویک اینڈ ہے کل تو پکا وہ اپنی گرل فرینڈ سے ملنے جائیں گے۔
عروج نے کہا تو وہ سب اسے دیکھنے لگ گئیں
بھئ سب ویک اینڈ پر اپنی گرل فرینڈ سے ملنے ہی جاتے ہیں۔اس نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے دلیل دی۔
مجھے اور واعظہ کو تو فورا پہچان لیں گے الف کو بھی دیکھا ہوا ہے تم دونوں کو جانا پڑے گا ایک اور برقعہ چاہیے ہوگا۔۔
فاطمہ نے کہا تو عزہ تڑپ گئ
ہائے نہیں شٹل کاک برقعے میں گئے تو دلاور بھائی تو پہچانیں نا پہچانیں آدھا سیول پہچان جائے گا ہمیں کل جو ہماری ہوئی ہے نا ۔۔۔
عزہ نے کہا تو عروج نے بھی سر ہلایا
مجھے طوبی سے شدید ہمدردی سہی مگر ایک ہفتے مسلسل نائٹ کرنے کے بعد خود سے طوبی سے بھی ذیادہ ہمدردی ہے سو میری جانب سے معزرت۔۔
میرا خیال ہے ہمیں اس کام کو سنجیدگی سے باقائدہ منصوبہ بندی کرکے کرنا پڑے گا۔
واعظہ نہایت سنجیدگی سے بولی تو وہ سب متفق ہو گئیں
صحیح۔۔کہہ رہی ہو۔
صبح نو بجے سب اٹھ جانا کل۔۔
فاطمہ نے کہا تو سب کی نگاہیں سیدھا دیوار پر لگی گھڑی پر گئیں جو تین بجا رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسب معمول صبح نو بجے وہ کچن میں کھڑی پراٹھے بنا رہی تھئ۔ دلاور خوشگوار موڈ میں نہائے دھوئے ترو تازہ سے پیچھے چلے آئے
میں کوئ مدد کرائوں۔۔
انہوں نے پیچھے سے آکر اچانک کہا تو وہ بری طرح اچھل پڑی پراٹھا پلٹتے ہوئے ہاتھ بھی رکھا گیا فرائی پین پر۔
آہ۔ اس سے بھی برا برا جل چکی تھی۔تنور میں بازو گھسیڑ کر روٹیاں تھاپی تھیں سسرال میں سو ردعمل پھسپھسا سا تھا دلاور البتہ تڑپ گئے
اف دھیان سے کھینچتے ہوئے سنک کے پاس لے جاکر پورا نل کھول دیا
ٹھیک ہوں میں دلاور۔ پراٹھا جل جائے گا۔۔ وہ منمنا رہی تھی
اور تم جل چکی ہو۔ دلاور ڈپٹ کر بولے ۔
سرد پانی نے جلن کا احساس کم کیا تو وہ مطمئن ہو کر مڑے اور پراٹھا پلٹ کر اتار کر پلیٹ میں بھی رکھ دیا۔۔
اسلام و علیکم امی۔
زینت اور گڑیا آنکھیں مسلتی چلی آئیں۔
آجائو بچو ناشتہ کرو ۔۔ دلاو ر مسکرا کر ناشتہ میز پر رکھ رہے تھے۔ آمیزہ بنا تھا فرائی پان گرم ہی تھا بنا گھی ڈالے ہی آملیٹ کا آمیزہ ڈال دیا
ارے گھی تو ۔۔ طوبی نے کہنا چاہا مگر انہوں نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
نان اسٹک ہے۔ آج میرے ہاتھ کا آملیٹ کھاکر دیکھو انگلیاں چاٹتی رہ جائو گی۔
انہوں نے لہک کر کہا تھا۔ جوابا وہ سر جھٹکتی بچیوں کے سامنے دودھ کا گلاس رکھ کر چائے نکالنے لگی۔
آملیٹ بس ایک جانب سے سینک کر انہوں نے پلٹ دیا تھا اب ماہر شیف کی طرح لہرا کر میز پر رکھ رہے تھے۔
آجائو بھئ۔
وہ اسے بلا رہے تھے۔ ہاٹ پاٹ سے پراٹھا نکال کر خوب چٹخارے لیکر کھا رہے تھے۔
اس نے چائے کا کپ انکے سامنے رکھا دوسرا اپنے سامنے رکھ کر ناشتہ کرنے بیٹھ گئ۔
کیا خیال ہے آج پارک چلیں؟
وہ بچیوں سے پوچھ رہے تھے۔
دے۔۔ دونوں خالص کورین حامی بھر رہی تھیں۔
کہاں ہزار بار ضد کرنے پر لے جانے کو تیار ہوتے تھے کہاں اب خود پوچھ رہے۔ وہ کڑی نگاہ سے دیکھ رہی۔تھی۔۔
چلو ناشتہ کرو جلدی سے پھر ہم تیار ہونگے اور طوبی آج کچھ پکانے کی ضرورت نہیں ہم لنچ اور ڈنر باہر کریں گے پہلے پارک پھر ذو۔ ٹھیک۔۔ وہ بچیوں سے تائید چاہ رہے تھے
پاپا ایکوریم جانا فش والے۔
زینت نے فرمائش داغی۔
ٹھیک ہے ڈن۔ وہ بخوشی مان گئے
ہرے۔۔بچیاں خوشی سے اچھل پڑیں
خاموشی سے ناشتہ ختم کرو۔ طوبی کی چڑ کہیں تو نکلنی تھی سو ڈپٹ دیا
تم خود تو شروع کرو یہ کیا آملیٹ تو لیا ہی نہیں۔
اسے خالی پراٹھا پلیٹ میں رکھے دیکھ کر انہوں نے خود آملیٹ پلیٹ میں نکال کر دیا۔ طوبی کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی مگر وہ بے نیاز تھے
طوبی جی غصہ نہیں۔ عزہ نے کندھا تھپکا۔
اس نے غصے میں بڑا سا نوالہ بنا لیا۔ ڈھیر سارا آملیٹ پراٹھا۔ اور۔
اسے زور کی ابکائی آئی تھی۔
انڈا اندر سے بالکل کچا بساندھ بھرا اس سے نگلنا محال ہوگیا۔
آخ۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھتی سنک کی جانب بھاگی
سنک میں الٹ کر کلی کرتے جلے دل سے سوچ رہی تھی
ہیں تو وہی پھوہڑ پاکستانی مرد ایسا آملیٹ میں بنا کر دیتی نا تو ۔۔۔ اس نے انکا غصہ سوچنا چاہا۔ تو خیال آیا۔
شروع شروع میں کچا آملیٹ بھی دیا تھا مگر دلاور نرمی سے کہہ کر اٹھ جاتے تھے کبھی برا بھلا بھی نہ کہا تھا۔ اسکا دل موم سا ہوا۔ مڑ کر انہیں دیکھنا چاہا وہ پرسوچ نظروں سے اسی کو دیکھ رہے تھے نگاہیں ملنے پر تسلی دینے والے انداز میں بولے۔۔
ہم آج ڈاکٹر کے پاس بھی چلیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
جاری ہے۔۔
Desi-kimchi-episode-49.html
</>
No comments:
Post a Comment