قسط 60
عزہ نے الف کو کندھے سے لگایا ہوا تھا وہ اس سے لپٹی چہکوں پہکوں رو رہی تھی عشنا دلاسے کیلئے کبھی اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتی کبھی دزدیدہ نگاہوں سے واعظہ کو دیکھتی مگر کچھ کہنے کی ہمت نہ پاتی خود میں۔ واعظہ سکون سے انکے مقابل دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹکا کر کندھے اچکائے آلتی پالتی مارے بیٹھی انکی حرکات ملاحظہ کر رہی تھی۔
ہم پتہ کرلیں گے اسکا نمبر رونا تو بند کرو۔ عزہ زچ ہو گئ چپ کراتے۔
کیسے وہ اپنی شناخت سب سے چھپا کے یہاں رہ رہا تھا کوئی نہیں جانتا کچھ بھی اسکے بارے میں ریڈیو تک پر جو پتہ اور نمبر ہے وہ بھی اب اسکے رابطے کا ذریعہ نہیں۔اس نے۔۔۔۔ الف کی آواز بیٹھ گئ تھی۔۔ ۔۔ہچکی۔۔۔ اس نےصرف مجھے اپنا کانٹیکٹ نمبر دیا تھا۔شاکی نگاہ واعظہ پر
کیوں بھئ؟ اپنے ملک میں ڈاکا ڈال کر نکلا تھا کیا؟ یا قتل ؟عشنا چونکی
قتل کرکے بھئ لوگ اس طرح دوسرے ملک روپوش ہو جاتے ہیں۔
اسکی قیاس آرائی پر بھنا کے الف نے گھورا
نہیں بھئ وہ یوریغ۔۔ کیا نام بتایا واعظہ۔ عزہ نام پر اٹکی ۔واعظہ نے بتانے کیلئے منہ ہی کھولا تھا کہ جلد باز لڑکی نے کہا۔۔
دفع کرو نام کو وہاں چین میں مسلمان جو چینی حکومت کے خلاف لڑنے لگے تھےاس کریک ڈائون کی وجہ سے اسے ملک سے بھاگنا پڑا۔ مجاہد ہے وہ ۔۔ ہے نا۔۔
اس نے تصدیق چاہی۔
ریاست کے خلاف اٹھنے والا مذہبی گروہ۔طالبان سمجھ لو۔
واعظہ نے غور سے الف کو دیکھتے چھیڑا جوابا وہ حسب توقع بھڑک اٹھی
کوئی نہیں۔مظلوم ہے وہ اس نے کہیں کوئی بم دھماکے نہیں کیئے الٹا اسکا پورا خاندان لا پتہ ہے کوئی نہیں جانتا چینی فوجی کہاں لے گئے انہیں۔۔۔۔ ہچکی۔ ۔۔ انہیں ڈھونڈتے ہوئے بھی کبھی اس نے غلط راہ اختیار نہیں کی۔ نا اسلحہ اٹھایا نا دھماکے کیئے۔ اور چین سے بھی بہت محبت کرتا ہے وہ۔
اچھا۔
واقعی طالبان تھا وہ چینی لڑکا۔
عشنا واعظہ کےپاس کھسک آئی۔اور سرگوشی میں پوچھنے لگی۔
الف کو دل میں درد ہوتا محسوس ہونے لگا تھا۔
عزہ نے اسے گھٹنوں میں منہ دیتے دیکھا تو گھبرا کر بولی
یار کال ملائو۔
نمبر تو ڈیلیٹ ہو گیا۔عشنا بھولپن سے بولی۔۔ واعظہ نے گہری سانس لی اور اپنا موبائل اٹھا کر نمبرملانے لگی۔
اوہو ایمبولنس کو 1122 کو یہ تو بے ہوش ہونے لگی ہے۔
عزہ کی پریشانی پر الف نے سر اٹھاکر گھورا۔ اس وقت کم از کم اسپتال جانا وہ افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔
1122 کونسا نمبر ہے۔۔ عشنا حیران تھی۔
پنجاب پاکستان کی ایمرجنسی سروس ہے بی بی تم کوریا میں بیٹھی ہو۔ یہاں 119 ملاتے ہیں
واعظہ نے یاد دلایا
ااوہ اچھا میں ملاتی ہوں۔عشنا نے اپنا موبایل اٹھایا۔۔
اوفوہ کسی کو فون مت کرو۔الف جھلا کر چیخی۔عشنا کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ گیا۔۔ کیا کرتی ہیں۔وہ اپنا دل سنبھالنے لگ پڑی۔۔
چلو رہنے دو۔اس نے منع کر دیا۔۔۔۔ عزہ کی رننگ کمنٹری ٹھیک ٹھاک گراں گزر رہی تھی۔ اسے
فون ایک۔طرف رکھ کر واعظہ سیدھی ہو کر بیٹھی
ایک۔بات تو بتائو۔۔۔ ایک دن کے بعد ویسے بھی اسکا یہ والا رابطہ نمبر بھی ختم۔ہو جانا تھا فیصلہ تم۔کر چکی تھیں پھر نمبر ڈیلیٹ ہونے پر یہ رونا دھونا کیوں۔۔۔
واعظہ کی بات میں دم تھا الف نے سر اٹھا کر دیکھا تینوں جواب طلب نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
میں فیصلہ ہی تو نہیں کر پارہی تھی۔ کل تک سوچنا چاہتی تھی اور۔ وہ بے بسی سے بولی
کل تک کیا سوچنا؟ ایک دفعہ ایک بار سوچو چینی لڑکا جس کا مستقبل کا کوئی پتہ نہیں اپنی شناخت چھپا کر دوسرے ملکوں میں چھپتا پھر رہا ہے نا اسکے ماں باپ کا اتا پتہ نہ دوست رشتے دار مکمل اجنبی ہے وہ تمہارے لیئے چند مہینے کی شناسائی پر اس پر مکمل بھروسہ کر سکتی ہو؟۔
واعظہ نے اسکے حالات کا تجزیہ کر ڈالا تھا۔ الف کا تو جانے کیا فیصلہ تھا۔ عزہ اور عشنا کو یہ سراسر گھاٹے کا سودا لگ رہا تھا۔
الف نے آنکھیں میچ لیں۔ کہیں مسکراتا کہیں بولتا کتنے خوبصورت پلوں میں اسکا چہرہ نگاہوں کے سامنے آن رہا تھا۔ اجنبی دیس میں اجنبی قومیت کے لڑکے کے ساتھ بھی جانے کیوں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
اس نے آنکھیں کھولیں۔
اتنا رونا دھونا مچانے کے بعد یوں بٹر بٹر واعظہ کو گھورتی الف کو دیکھ کر عزہ او رعشنا ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں۔
پھر بھی واعظہ تمہیں نمبر ڈیلیٹ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ کم از کم آخری بار گڈ بائے ہی کہہ لیتی۔
عزہ نے خود کو الف کی جگہ رکھ کر سوچا تو یہی خیال آیا اسے۔
واعظہ نے سر پیٹنے والے انداز میں دیکھا اسے
جس گلی جانا ہی نہیں اسکے کوس کیا گننے۔ عشنا گنگنائی۔
تو تمہارا فیصلہ کل کی جگہ آج ہوگیا الف۔ تھینکس می لیٹر۔
واعظہ اپنا موبائل اٹھاتی اسے جتاتی نظروں سے دیکھتی اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگی۔
ہاں۔۔۔۔ الف نے ایکدم سے مضبوط آواز میں کہا تھا۔ واعظہ رک کر پلٹ کر دیکھنے لگی۔
میں اس پر مکمل بھروسہ کر سکتی ہوں۔ اس نے آنسو پونچھتے ہوئے مضبوط انداز میں کہا۔
مجھے وہ ہی چاہیئے۔۔۔۔۔ میں اسے کھونا نہیں چاہتی۔
واعظہ نے بغو راسکی شکل دیکھی۔ کچھ دیر پہلے والا تذبذب اسکے چہرے سے غائب تھا۔
اب تو کھو چکی ہو واعظہ نے نمبر ڈیلیٹ کر دیا ہے الف۔
عزہ نے یاد دلایا۔
وہ جاپان تو گیا ہے ٹوکیو کا ایک ہوٹل ہے جس میں ٹھہرا ہے میں اسکو ڈھونڈ لوں گی۔ کتنے کوئی ہوٹل ہوں گے جاپان میں۔ایک ایک کو کال کرکے پوچھوں گی۔
وہ ایک دم پرعزم ہوئی
ایک دن میں کتنوں کو کال کر لوگی
واعظہ ہنسی۔ الف چپ سی ہو کر اسکی شکل دیکھنےلگی۔
واعظہ نے اپنا موبائل انلاک کرکے کال ملائی
یہ لو بات کر لو اس سے۔۔
واعظہ نے اپنا فون اسکی جانب بڑھادیا۔ الف ششدر سی اسکی شکل دیکھ رہی تھی
نمبر دیکھ کر کے ہی ڈیلیٹ کیا تھا ۔۔ وہ مسکرائی۔۔۔ عزہ اور عشنا کا بھی منہ کھلا رہ گیا۔
فون کی بیل جا رہی تھی۔ ہلکی سی گڑگڑاہٹ کے بعد کسی کی نیند میں ڈوبی آواز آئی۔۔۔ جانی پہچانی آواز۔
ہیلو۔
۔ الف کا سکتہ ٹوٹا اس نے لپک کر فون اسکے ہاتھ سے لے لیا۔
ہیلو۔ ذکریہ۔۔۔۔ الف کی آواز تھی کہ جادوئی منتر۔وہ اچھل کر اٹھ بیٹھا۔
الف۔۔۔
الف نے سکھیوں کو پیٹھ دکھائی اور جھپاک سے کمرے میں گھس گئ۔
عزہ اور عشنا نے مڑ کر کمر پر بازو ٹکا کر واعظہ کو۔گھورا
حد ہے رات کے تین بجے یہ سب کیا کھڑاگ تھا بھئ؟
عزہ بھنائی۔
بیان۔واعظہ ہنسی۔
یہ الف کی بچئ سے فیصلہ ہو ہی نہیں رہا تھا سومجھے مدد کرنی پڑی۔ اور اس ڈرامے باز کو دیکھو مجھ سے وعدے لے رہی تھی کہ کسی کو بتانا نہیں اور تم سے لپٹ کر سب رٹو طوطے کیطرح رام کہانی سنادی ساری۔
واعظہ نے کہا تو عزہ تلملا کرکمرے کیطرف جانےلگی
کیا؟ہم سے سب رازچھپانے تھے ایک میں پاگل کندھے سے لگا کر تسلیاں دے رہی چپ کرا رہی پوچھتی ہوں ابھی اس سے۔۔
وہ آستین چڑھا کر کمرے کی طرف بڑھی تو عشنا نے بازو سے پکڑ کر روکا
جانے دو بعد میں نمٹ لینا ابھی اسکا مسلئہ حل ہونے دو۔
عشنا کے رسان سے کہنے پراس نے منہ پھلا کر واعظہ کو دیکھا جو منے صوفے پر اطمینان سے ںیم دراز تھئ۔
ویسے دو منٹ میں واپس آنے والی ہے یہیں میرے موبائل میں چارجنگ نہیں بالکل بھی۔
واعظہ الف کا موبائل لہراتی مسکرا کر بولی۔۔ اندر سے الف چیخی تھی
واعظہ کمینی فون بند ہو گیا تمہارا۔۔
اسکی پکار پرواعظہ تلملائی
اوئے گالی کس کو دے رہی ہو۔
تمہیں۔ الف کمرے سے نمودار ہوئی عزہ اورعشنا ٹھٹھہ مار کر ہنسیں۔۔ ان دونوں کے ہنس پڑنے پر واعظہ خود بھی ہنس دی۔
کیوں ہنس رہی ہو تم لوگ مزاق اڑا رہی ہو میرا
الف کو نیا دکھ لگ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ کی صبح آنکھ نہیں کھلی۔ وہ تو جاتے جاتے سیہون نے دروازہ بجایا تو مندی مندی آنکھوں کے ساتھ سر کھجاتی اٹھی کاہلی سے دروازہ کھولا سامنے سیہون نک سک سے تیار کھڑا تھا۔
آج چھٹی ہے کیا تمہیں؟ دفتر نہیں جانا۔۔ سیہون کے پوچھنےپر اس نے جمائی لیتے ہوئے سوچا پھر نفی میں سرہلایا
نہیں آج دفتر نہیں جانا۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا پھر ذرا سا چونکی۔۔
دفتر کیوں نہیں جانا؟؟؟؟ جانا۔۔ ہے۔۔ دفتر جانا ہے۔
انگریزی میں ہولہ خبطو کی۔طرح بولتی وہ سر پر ہاتھ مار کر پلٹی
کیا مطلب جانا ہے یا نہیں۔ سیہون کف بند کر رہا تھا اسکے انداز پر مصروف انداز میں ہی کمرے میں جھانک کرپوچھنے لگاجو الماری سے کپڑوں کا ڈھیر نکال کر بیڈ پر۔پھینک رہی تھی۔
نہیں جانا ، میرا مطلب پرانے دفتر نہیں جانا مگر جانا ہے ایک جگہ انٹرویو ہے میرا۔ نو بجےاف۔۔ میں نے تو کپڑےپریس بھئ نہیں کیئے۔شاور بھی لینا بہت کام۔۔
وہ ایک لانگ اسکرٹ بلائوز گولا بنا کر سینے سے لگائے باہر بھاگی مگر بیڈ سے الجھ کر گرتے گرتےبچی
لائو میں پریس کردوں۔ سیہون نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اس سے کپڑےمانگے
نہیں میں کر لوں گی۔۔ اس نے مروتا کہا
تم شاور لے لو میں پریس کر دیتا ہوں جلدی تیار ہو جائو تو میں گاڑی میں ڈراپ کردوں گا مجھے آج جلدی نہیں ۔۔
اس نے اصرار کیا وہ سچ مچ متامل تھی اچھا تو نہیں لگتا نا اس سے اپنے کام کروانا۔
دو نا، اب میں شاور تو نہیں لے سکتا تمہاری جگہ
سیہون نے کہا تو اس پر گھڑوں پانی پڑا۔ کھسیا کر اسے کپڑے تھماتی باتھ روم کی۔جانب بھاگی۔
تیار ہو کر فائل اور پرس تھام کر باہر نکلی تو سیہون لائونج میں بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا۔اسے آتے دیکھ کر ٹی وی بند کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔
وہ پہلے اپارٹمنٹ سے باہر نکلی پیچھے سیہون سب لاک کرتا آیا اسکے ساتھ لفٹ میں داخل ہوتے ہی اسے پہلے جانے کا رستہ دیتا پیچھے جان کےرکا۔ گاڑی تک آتے اسکے لیئے دروازہ اپنی گاڑی کی چابی میں لگے آٹو میٹک بٹن سے پہلےکھولا۔ کیونکہ وہ اس کے ساتھ چلتے ایک قدم تیز ہو کر پسنجر سیٹ کی طرف بڑھ گئ تھی۔
گاڑی میں آکر بیٹھنے کے بعد بھی مروتا پہلے اس سے پوچھا
اب چلیں۔اسکے جوابا سر ہلانے پر ہی گاڑی اسٹارٹ کی۔
جانے لڑکے ان باتوں پر غور کرتے ہیں یا نہیں مگر یہ چھوٹی چھوٹی سی باتیں حرکتیں لڑکیوں کےلیئے کتنی اہمیت رکھتی ہیں۔ سلجھا ہوا انداز ساتھ چلتی خاتون کو یوں عزت دینا اہم سمجھنا اسکا ذرا سا خیال رکھ لینا۔۔۔۔ یہ سب لڑکیوں کو کتنا پسند آتا ہے اگر اسکو پتہ چلے تو۔۔۔ اس نے چور سی نگاہ سڑک پر مکمل توجہ دیئے احتیاط سے ڈرائیو کرتے سیہون پر ڈالی۔۔۔۔
وہ مکمل آفس بوائے والے حلیئے میں تھا گلابی شرٹ ٹائی آستینیں ذرا سا موڑ رکھی تھیں مگر مضبوطئ سے سٹئیرنگ تھامے بے نیاز بیٹھا وہ گورا چٹا چندی آنکھوں والا لڑکا جس کے چہرے کی جلد اسکے اپنے چہرے سے ذیادہ شفاف تھی۔
بے وقوف میری۔ اتنا ہیرےجیسا لڑکا ٹھکرا دیا۔
وہ بڑبڑا اٹھی
دے۔۔۔مجھ سے کچھ کہا۔سیہون چونک کرپوچھنےلگا۔
آنی۔۔ فاطمہ نے زبان دانتوں تلے دبا لی
شکر ہے اردو میں ہی بڑبڑائی۔ وہ دل ہی دل میں شکرادا کرنے لگی۔
اس نے مطلوبہ جگہ گاڑی روکی تو وہ شکریہ ادا کرکے اترگئ۔
واپس کیسے آئو گئ؟ سیہون کے پوچھنے پر وہ سوچ میں پڑی۔
سیول کے اس علاقے سے اسکی کوئی واقفیت نہیں تھی مگر میٹرو اسٹیشن تو سب جگہ ہوتے ہی ہیں اور کچھ نہیں تو بس ۔۔ ٹیکسی تھوڑی مہنگی پڑتی۔۔
یہاں ۔۔ اس نے گردن موڑ کر چاروں طرف دیکھا۔ دور کچھ فاصلے پر بس اسٹاپ نظر آگیا مطمئن ہو کر بولی۔
بس سے۔
سیہون نے اسے ایک نظر غور سے دیکھا پھر سر ہلا دیا
کرم۔۔ سر کے اشارے سے الوداع کہتا وہ گاڑی آگے بڑھا گیا۔۔
اکیڈمی لب سڑک تھئ اور خاصی بڑی عمارت تھی یقینا بڑا سیٹ اپ تھا انکا۔ وہ اللہ کا نام لیکر سیدھا اندر گھس گئ۔ ریسپشن پر اپنا نام بتا کر جیسے ہی اپنا سی وی نکالنا چاہا تو احساس ہوا کہ بس پرس ہی پاس ہے۔۔۔گاڑی سے مزے سے ہاتھ جھلاتی نکل آئی تھی۔
چندی آنکھیں منتظر تھیں۔۔
چھے سو ہمبندا۔۔ وہ جھک کر معزرت کرتی بھاگتی ہوئی باہر آئی۔ سیہون گاڑی لیکر نکل چکا تھا۔ سڑک رواں تھی۔ وہ پھولی سانسوں کو ہموار کرتی ہونٹ کاٹنےلگی۔
بنا سی وی کے آنٹرویو دوں؟ اس نے سوچا۔۔
میں ہوں فاطمہ احمد۔ دے بھئ سکتی ہوں انٹرویو خالی خولی۔
وہ عزم کرتی پلٹی سیہون سامنے کھڑا گھور رہا تھا۔فائل ہاتھ میں لیئے دانت کچکچا کربولا۔
حد ہوتی ہے لاپروائی کی بھی ویسے انٹرویو دینے آئی ہو اور اپنا سی وی ہی بھول آئیں۔ ۔ آگے یو ٹرن بھی اتنا دور ہے گاڑی وہ سامنے لگا کے بھاگتا ہوا آیا ہوں۔۔
اس نے دور سڑک کی جانب اشارہ کیا۔ فاطمہ کھلکھلا کر ہنسی
شرمندہ ہونا تو سیکھا ہی نا تھا۔سیہون اسے گھورتا رہا پھر اسکی ڈھٹائی پر خود بھی ہنس دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انٹرویو دینے جو لوگ آئے ہوئے تھےان میں غیر ملکی بس وہی تھی۔ آپس میں سب گٹ پٹ لگے جانے کیا کہانیاں سنا رہے تھے۔فاطمہ نے ایک ترچھی نگاہ ان سب پرڈالی۔ انٹرویو تین تین لوگ دینے جا رہے تھے۔جب اسکی باری آئی تو ایک پی ایچ ڈی اسکالر چالیس کے قریب تھا ایک لڑکی جو دیکھنے میں ہائی اسکول کی ہی لگتی تھی۔ ان دونوں کے آگے اسکا چانس پکا تھا سو خود بخود اعتماد آیا گردن میں سریا۔
پہلے بھائی جان بولے۔۔
گٹ پٹ گٹ پٹ۔۔
پھر باجی۔۔۔۔۔
گٹ پٹ گٹ پٹ۔۔۔
اب انٹرویو پینل میں بیٹھے وہ پچاس کیا اسی کے پیٹھے میں ناک چڑھائےبیٹھےانکل بلکہ دادا جی۔۔
گٹ پٹ گٹ پٹ۔۔
ٹون۔۔۔۔۔۔ اسکا دماغ سائیں سائیں ہوا۔
جانے کیا پوچھ رہے تھے اس نے گہری سانس لی۔پینل میں بیٹھے وہ تین مرد ایک خاتون اسکے ہمراہ انٹرویو دینےآئے دونوں امیدوارسب اسے دیکھ رہے تھے۔
اس نے اپنے اعتماد کے غبارے سے ہوا نکلتی دیکھی تو جھٹ سیدھی ہو کر بیٹھئ۔
ہائی آئی ایم فاطمہ احمد۔ ۔آگے طویل انگریزی بیان تھا جس میں اسکے بچپن سے آج تک قابلیت کے گاڑے گئے جھنڈوں کی تفصیل تھی۔لہجہ، اعتماد متاثرکن تھا یہ الگ بات اس بار اسکی گٹ پٹ ان سب کے سرپرسے گزری تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ انٹرویو دے کر نکلی ہی تھی کہ باس کی کال آئی۔ کافی چلا رہے تھے فورا سیٹ پر پہنچنے کی ہدایت۔ وہ حیران تو ہوئی مگر بھاگم بھاگ پہنچنا پڑا۔
کہاں غائب ہیں آپ؟صبح سے شوٹ رکی ہوئی ہے کوئی اندازہ ہے آپکو ہمارا کتنا نقصان ہوا ہے۔ اب فوری۔طور پر سلمی اور عبداللہ کا سین ریڈی کروائیں۔۔۔ اسکرپٹ اسکے ہاتھ میں تقریبا پٹخا تھا۔۔ خوب بک جھک کر تن فن کرتے ہدایت کار صاحب سیٹ کیجانب بڑھ گئے
پر میں تو کھاوا کو سب سمجھا کے گئ تھی کہاں ہے کھاوا۔
اسے سخت غصہ آیا۔ ایک دن دو چار گھنٹے اسکی روپوشی کوراز نہ رکھ سکا۔
اس نے پاس سے گزرتے اسپاٹ بوائے کوروک کرکھاوا کا پوچھا۔
ٹوٹی پھوٹئ انگریزی میں اس نے اسےسمجھا ہی دیا
کھاوا کو پولیس پکڑ کر لے گئ ہے۔۔
وہ شاک کی کیفیت میں کھڑی رہ گئ۔
پر۔کیوں؟؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیٹ پر موجود سو ڈیڑھ سو بندہ خاموش اپنی اپنی جگہ کھڑا تھا۔ہدایت کار اس پر چلا رہا تھا عبد اللہ اسے شانت ہونے کا کہہ رہا تھا سلمی بے نیازی سے اپنی کرسی پر بیٹھی میک اپ ٹھیک کرتے ہوئے آئینے میں دیکھتے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈال دیتی تھی۔
وہ بیچوں بیچ سر جھکائے کھڑی سب سن رہی تھی۔
تم لوگ دو ٹکے کے آجاتے ہو منہ اٹھا کے کوریا اوپر سے فراڈ بھی کرتے ہو۔ ایک پاکستانی یہاں خفیہ کیمرے لگا رہا دوسری اسکی ساتھی یہاں جھوٹ بول کر نوکری کر رہی ہے۔ کام چور نکمی۔ کچھ اندازہ ہےمیرا کتنا نقصان ہوا ہے۔دل تو کر رہا۔۔
وہ شائد اسے مارنے کو دوڑتا مگر عبداللہ اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسے پکڑ کر کھینچ کھانچ کر لے گئے۔
مانا اسکی لمبی تقریر کا صرف حوالہ متن ہی سمجھ آسکا تھا اسے پھر بھی یوں سب کے سامنے اتنی بے عزتی اسکی اپنی ہی غلطی تھی مگر۔ اس سے نگاہ اور سر اٹھایا نا جا سکا۔ ستے ہوئےچہرے کے ساتھ پلٹتے بھی اسکو اپنی پشت پر سیکنڑوں نگاہوں کے تیر گڑتے محسوس ہو رہےتھے۔کندھےبھن بھن کےبوجھ سے جھک رہے تھے۔
واعظہ بھاگتئ ہوئی سیٹ کی طرف آئی تھی۔ اسے باہر آتے دیکھ کر رکی مگر وہ اسکے پاس سے گزر کر آگے بڑھ گئ۔۔واعظہ کچھ نہ سمجھتے اسکےپیچھے لپکی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفتیشی افسر نے گہری سانس لیکر اپنےساتھی کو دیکھا۔
وہ بالکل خاموش سر جھکائے بیٹھا تھا انکے مقابل۔۔
چہرے پر اتنا تنائو تھا کہ جیسے وہ دانتوں پر دانت جمائے بیٹھاتھا۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرےمیں پھنسائے۔۔ ایک ہاتھ میں بینڈج تھی شائد کوئی۔زخم رہا ہو اس وقت مٹھی کی سختی کی وجہ سے وہ سفید پٹی سرخ ہونے لگی تھی۔ مگر اسکے چہرے پر کوئی تکلیف نہیں تھئ۔۔
ہو سکتا ہے اسے ہماری زبان سمجھ نہ آتی ہو۔۔
اسکے ساتھئ نےخیال ظاہر کیا تو اس نے اپنےلیپ ٹاپ کا رخ اسکی جانب کر دیا۔
کھاوا احمد کا مکمل بائو ڈیٹا انکے سامنے تھا اسکا پاسپورٹ ویزا اسکا ورک پرمٹ ، عربی، انگریزی ، ہنگل کے ساتھ ویتنامی زبان بھی درج تھئ۔
تعلق پاکستان سے مگر۔۔ افسر نے الجھن بھرے انداز میں دیکھا۔۔ جب بات بھی سمجھ آرہی ہے تو یہ کچھ بولتا کیوں نہیں۔ بڑے سےبڑا مجرم بھی اپنی صفائی تودیتا ہے۔۔
پانی کا گلاس اسکے برابر رکھا تھا مگر پچھلے دو گھنٹوں سے اس نے گھونٹ نہیں بھرا تھا۔
آپ پیر کی دوپہر ڈریسنگ روم نمبر 7 میں کس کام سے گئے تھے؟
ہنگل میں پوچھا گیا سوال۔۔اسکے ذہن نے فوری تشریح کی مگر۔۔۔۔
افسر حیران تھا۔ جوابا اس لڑکے نے پلک بھی نا جھپکی۔
توں ایس ویلے ووہٹی دے کمرے وچ کی لین گیا سی؟
مشکوک لہجہ سوال اس بار پنجابی میں پوچھا
اس سوال کو وہ جھٹک نہ پایا تھا اس نے اپنے بالوں کو دونوں مٹھیوں میں جکڑ لیا۔
نہیں۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔
وہ وہاں نہیں تھا وہ اس وقت پاکستان کے ملتان سائیڈ کے چھوٹے سے گائوں میں تھا جہاں اس سے یہ گھنائونا سوال کرنے والے غیر نہیں تھے۔
وہ ان یادوں کو مٹا دینا چاہتا تھا جبھی ہذیانی انداز میں اپنا سر میز پر ٹکراتے بال نوچتے چلانے لگا تھا۔ پے در پے خود کو تھپڑ مارتے اس لڑکے نے ہتھ کڑی لگی ہونے کےباوجود خود کو ٹھیک ٹھاک زخمی کر لیا تھا۔ دونوں افسر بھاگے اس نے اپنے آپ کو کرسی سمیت گرا لیا تھا کرسی سے بھی وہ دیوانوں کی طرح سر مار رہا تھا۔۔دیکھتے ہی دیکھتے خون نکل آیا تھا۔ دونوں افسر اسکے ہاتھ پکڑ کر سنبھالتے ہوئے ہلکان ہو گئے۔۔ تو وہ انکے ہاتھوں میں ہی بے ہوش ہو کر ڈھیر ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چل کرو یار۔ اس بڈھے کی بھی حالت ٹائٹ ہوئی وی تھی اتنا نقصان ہوا ہے اسکا پاگل ہوا وا تھا جبھی اتنا بولا تم دل پر کیوں لے رہی ہو۔ اور کھاوا کا غصہ بھی اس نے تم پر نکال دیا۔ خود سوچو دوران شوٹ اسکو پولیس پکڑ کر لے گئ وہی ان سب کو ڈائلاگ یاد کرواتا تھا دو ایک گھنٹےشوٹ اس وجہ سے رکی رہی پھرتم کو بلایا تو تم نے بھی صاف صاف سب سچ بتا دیا کہ تمہیں عربی نہیں آتئ اب یہ تو اس دنیا کا اصول ہے اپنی غلطی مانو سچ بولو اور دنیارج کے ذلیل کرتی ہے۔ واعظہ نے فلسفہ جھاڑا۔ مگر فاطمہ ٹھس سی بیٹھی رہی
ہنگن دریا کنارے ہمیشہ کی طرح فاطمہ اپنا ڈپریشن دریا برد کرنے آئی تھی۔ اور اسکی مدد کو ای جی سے معزرت کرکے اس سے اپنے لیئے خوب ساری لعن طعن سن کر اپنا ڈپریشن بہانے واعظہ بھی پیچھے پیچھے آئی تھی۔ اس نے ریڑھی سے چھلی لی تھی ابلی ہوئی چیز میں ڈوبی اور ساتھ لال چٹنی سی تھئ۔ واعظہ چٹخارے لے کر کھا رہی تھی جبکہ فاطمہ کی پلیٹ ان چھوئی اسکے برابر رکھی تھی۔
ہنگن پر رات اتر چکی تھی۔ نمائشی بتیوں میں نیلا پانی ساکت تھا وہ دونوں بنچ پر بیٹھی اس پر نگاہ جمائے تھیں۔۔
مجھے نہیں لگتا کہ مجھے اکیڈمی میں نوکری ملے گی۔ وہاں سب اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ پی ایچ ڈی تو کوئی ایم فل میرا سادا ایم اے انگلش کسی کام کا نہیں۔۔۔ جوابا وہ بولی بھی تو کیا بولی۔
تمہیں اکثر غلط ہی لگتا ہے سو اپنے اندازوں پر مت جائو بالکل غلط ہوتے ہیں۔
واعظہ نے بھٹہ کھا کر ہاتھ جھاڑے۔۔
یہ نوکری بھی گئ۔ مجھے خدا واسطے سیہون رکھ بھی لے تو بھی اگلے چار پانچ سال میں میری زندگی کیا ہوگی واعظہ۔۔؟
پانی پر نگاہ جمائے وہ برابر بیٹھی واعظہ سے پوچھ رہی تھی
مجھے کیاپتہ مجھے کونسا کشف ہوتے۔۔واعظہ نے کندھے اچکائے۔
مجھے ہاتھ دیکھنا بھی نہیں آتا۔ اس نے منہ لٹکایا۔
میرے ہاتھ میں بنا دیکھے بھئ مجھے پتہ ہے ایک لکیر بے عزتی کی بھی ہےوہ بھی خوب گہری لمبی سی۔۔
فاطمہ نے استہزا سے اپنی سپید ہتھیلی نگاہوں کے سامنے پھیلائی۔۔
میرے ہاتھ میں بد قسمتی کی لکیر ایسی ہی لمبی گہری ہے۔
واعظہ نے بھی ہنس کر اپنی ہتھیلی اسکی ہتھیلی کے ساتھ ملائی یوں کہ دعا کی طرح اٹھے ہاتھ لگنے لگے۔
وہ دعا مانگنے ہی لگی تھی کہ۔واعظہ نے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
واعظہ۔۔ میں کیا کروں؟ میں پاکستان نہیں جانا چاہتئ۔
وہ بےبسی سے اسکی جانب رخ کرکے بولی۔۔واعظہ جو اسکی پلیٹ اٹھا چکی تھی گڑبڑا کر اسکی جانب بڑھانے لگی۔۔ مگر اسے کھانےمیں دلچسپی نہ تھی۔
کوریا بہت اچھا سہی مگر یہاں آپ بنا نوکری نہیں رہ سکتے۔۔ میں سیہون کی شکل دیکھتی ہوں مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ تمہاری شکل دیکھتئ ہوں تو ۔۔۔ وہ کہتے کہتے رک گئ
کیا میری شکل دیکھتی ہو تو کیا؟ واعظہ ایکدم الرٹ ہوئی۔یقینا کوئی الٹا کمنٹ کرنے لگی ہے کمینی ایک تو اسکی خاطر۔اس نے غصے میں بڑی چکھ مار لی بھٹے میں۔۔
سچ بتائوں۔ فاطمہ اسکی شکل غور سے دیکھتے ہوئئ بولی
ہاں سچ بتائو۔
وہ لڑنے کو تیار ہوئی۔۔ جلدی جلدی منہ چلا کر نگل کر خالی کیا۔
تمہاری شکل دیکھتئ ہوں تو مجھے تسلی سی ہوتئ ہے۔
فاطمہ نے کہا تو وہ سر ہلا کر بولی جیسے سمجھ گئ۔۔
ہاں یہی تسلی نا کہ کوئی اور بھی ایسا ہے جو تم سے ذیادہ منحوس ہے۔
فاطمہ نے رخ موڑ کر ہنگن دریا پر نگاہ جما دی۔۔پھر دھیرے سے بولی۔۔
مجھے تسلی سی ہوتی ہے کہ میں اکیلی نہیں ہوں۔کوئی ہے جو مجھے اس وقت بھئ میسر ہوگا جب دنیا میں کوئی میرے ساتھ نہ ہوگا۔
اسکا دھیرے سے کیا گیا اعتراف واعظہ کو حیرت میں مبتلا کر گیا۔
پتہ ہے تم دنیا کی وہ واحد انسان ہوجواگر کہے فاطمہ اس دریا میں کود جائو تو فاطمہ آنکھیں بند کرکے کود جائے گی اسے پتہ ہوگا کہ یقینا میرے لیئے کچھ اچھا ہی سوچا ہے تم نے۔
وہ مسکرا رہی تھی۔۔
محظوظ سے انداز میں۔ واعظہ کی حیرت بھری نظریں اسے خود پر جمی محسوس ہو رہی تھیں۔
میں مزاق میں بھی کودنےکو کہہ سکتی ہوں اتنی اندھی تقلید مت کرنا میری۔
واعظہ نے ہاتھ اٹھا کر وارننگ دی
فاطمہ ہنس کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
کیا ہوا کودنے جا رہی ہو۔
واعظہ نے جلدی سے بھٹہ پلیٹ میں رکھا۔
فاطمہ گھور کر رہ گئ۔۔ پھر خیال آیا
ویسے واعظہ یہ کھاوا کیا واقعی میں ایسا ہے؟واقعی ای جی آ کے روم میں کیمرہ اسی نے رکھا تھا؟
واعظہ نے کندھے اچکائے
پتہ نہیں۔۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں وہ بھی گیا تو ہے کمرے میں مگر ضرورئ تو نہیں کہ بس وہ ہی گیا ہو۔ کیمرہ کوڈ توڑے گی پولیس ڈیٹا ریکور ہو تو اصل مجرم سامنے آئے گا۔
تمہیں پتہ ہے مجھے وہ ایسا نہیں لگتا۔۔ فاطمہ نے پریقین انداز میں کہا۔
تم اور تمہارے غلط اندازے۔ واعظہ نے مکھی اڑائی۔۔
نہیں یار لڑکیوں کو پتہ لگ جاتا ہے لڑکا انکو کس نظر سے دیکھ رہا ہے۔اسکی نظروں سادہ ہی ہوتی ہیں۔۔ وہ مجھے ایسا ویسا لڑکا نہیں لگتا۔۔
فاطمہ اپنی بات پر قائم تھی۔۔۔۔واعظہ نے اپنی بقیہ چھلی کو دیکھا پھر اسے ختم کرنے میں مشغول ہوگئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب جگہ پتہ کرلیا کوئی ہے جن نہیں ہے یہاں۔۔۔
تیجون نے کہا تو دونوں نے سر پیٹ لیا۔
ارے یہاں نہیں ہے وہ تو اپنے آبائی گائوں ہے ہمیں اس گائوں کا پتہ جاننا ہے وہ یہاں اسکے اسکول سے لیکر دو۔
طوبی بھنائی تو تیجون نے منہ پھلا لیا۔غصے سے بھی اور فرائی چکن سے بھئ۔دونوں بڑے صبر سے اسکے غبارے جیسے منہ کو خالی ہوتے دیکھنے لگیں۔
آپکو پتہ ہے گرد و نواہ میں کتنے ہائی اسکول ہیں سرکاری و غیر سرکاری اوپر سے ہے جن نام کےکتنے لڑکے ہوںگے۔اتنا بڑا سیول ہے۔ ۔۔ تصویر ہی کم از کم ہوتی تو ڈھونڈ دیتا میں۔۔
تیجون نے نہایت بے چارگی سے کہا تو وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں۔۔
یار۔ عزہ نے بے چارگی سے طوبی کو دیکھا۔ تیجون نے ایک نظر اس نقاب پوش لڑکی کو دوسری نظر طوبی کو دیکھا پھر اپنے برگر کی طرف متوجہ ہوگیا۔
وہ لوگ اس وقت مشہور فاسٹ فوڈ ریستوران میں بیٹھے تھے
ان دونوں نے تو یہاں سے کیا ہی چکن کھانا تھا اس موٹے تیجون کو ڈیل منگوا کر دی جسے۔ڈکارنے کے بعد اس نے یہ عظیم انکشاف کیا تھا۔ خود دونوں اپنی ڈرنکس کے اسٹرا ڈرنکس میں گھما گھما کے مدو جزر بنا رہی تھیں۔۔
تصویر ہوتئ تو مسلئہ کیا تھا ہم تصویر دکھا کے خود ڈھونڈ لیتے۔
طوبی چڑی تو تیجون کان دبا گیا۔
یار طوبی جی یہ تو واقعی مسلئہ ہے۔ہم ہے جن کو ہر۔جگہ اپنا فوٹوگرافر بنا لیتے تھے جہاں جاتے اس سے تصویر کھنچواتے کبھی اسکی تو تصویر کھینچی ہی نہیں ہم نے۔
عزہ کو اچھا خاصا گلٹ ہوا۔
واقعی۔ طوبی بھی شرمندہ ہوئی۔
میں بھی سارا دن اسکو جانے کیا کیا۔بتاتی سمجھاتی تھی۔بھائئ کہتی تھئ کبھی اسکی تصویر تک نہ لی۔۔۔ نگاہوں کے سامنے ہی تو تھا کیا۔خبر تھئ کبھی تلاشنا پڑ جائے گا اسے۔
وہ یاسیت سے بولی
آپ۔دونوں کی۔بات سمجھ تو نہیں آئی مگر لگتا ہے یہ لڑکا کوئی بڑا نقصان کرکے بھاگا ہے جو آپ۔اتنی دکھی ہیں۔میری مانیں تو پولیس میں شکایت لگائیں۔ایسے آپ دونوں جیسی غبی نظر آنے والی خواتین کو اکثر ہائی اسکولر الو بنا جاتے ہیں۔
الفاظ کا چنائو ٹھنڈی بستی وہ بھی انگریزی میں۔۔
تیجون کے الفاظ کا ہتھوڑا سر پر پڑا تو جوابا دونوں چلائیں۔۔
شٹ اپ۔
میں تو آپکے بھلے کیلئے کہہ رہا تھا۔
وہ ڈر ہی توگیا۔۔
ویسے آپ لوگ لڑکے ڈھونڈنے کے علاوہ اور کیا کام کرتے ہیں۔
اسکے سوال پر اچنبھے سے طوبی نے گھورا
مطلب۔
مطلب ایک لڑکا آپ ڈھونڈ رہی ہیں ایک لڑکا آپکے میاں۔۔
لڑکے اسمگل کرتے ہیں کیا آپ لوگ
کہتے ساتھ ہی وہ بروقت جھکائی دے گیا۔کیونکہ جہاں بیٹھا تھا وہاں طوبی کی بھری کولڈ ڈرنک والا پیپر کپ آن گرا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن لگے تھے پولیس کو تفتیش مکمل کرنے میں۔ کیمرہ لگانے والا کھاوا نہیں تھا بلکہ پروڈکشن ٹیم کا ایک عارضی ملازم تھا جو فوری طور پر منظر سے غائب بھی ہو چکا تھا۔
دو دن حراست میں رکھنے کے بعد اسکو گھر جانے کی اجازت ملی۔ سر پر پٹی بندھی تھی۔ہاتھ پر پٹی۔۔ کلائیوں پر نیل چہرے پر نیل۔ اور ان میں سے ایک زخم بھی پولیس والوں کا دیا نا تھا۔ تفتیشی افسر نے اسے نفسیاتی علاج کے ادارے کا کارڈ دیتے بڑے خلوص سے اسے وہاں جانے کا مشورہ بھئ دیا تھا۔ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا۔ اور باہر نکل آیا۔
اپنے ہر لڑکھڑاتے قدم کے ساتھ اسکی اپنی زندگی سے اچھی امید بھی ختم ہو رہی تھی۔ ایسے موقعے جب وہ دنیا میں خود کو اکیلا تنہا ناکارہ محسوس کرتا تھا وہ خود کو شراب کے نشے میں گم کر لیتا تھا۔ مگر آج اسے شراب بھی پینے کو دل نہیں کر رہا تھا۔۔بلکہ آج تو اسکا جینے کو بھی دل نہیں چاہ رہا تھا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ تو اپنے فلیٹ چلی گئ وہ جب گھر پہنچی تودلاور صارم کو گود میں لیئے کھڑے تھے۔
اسلام و علیکم۔ اس نے سلام کیا تو چونکے۔ شفقت سے جواب دیا پھرپوچھنے لگے
گھر میں کوئی تقریب ہے؟ میرا مطلب کوئی خاص پروگرام؟
جی؟ وہ سمجھ نہ پائی۔
وہ طوبئ کئی گھنٹوں سے آپکے گھر ہے۔ بچیاں بھی وہیں ہیں۔صارم سو رہا تھا تو اب جاگ کے ماں کو یاد کر رہا ہے۔میں بیل کر رہا ہوں ۔مگر اندر شور ہے کوئی سن نہیں رہا
وہ بیٹے کو تھپکتے بے چارگی سے بولے۔
اوہ۔ وہ یقینا کافی دیر سے کھڑے تھے۔ اس نے آگے بڑھ کر انلاک کیا۔۔
میں طوبئ کو۔۔ وہ کہنے لگی تھی کہ طوبی کو بھیجتی ہوں
آپ اسکو بھی اندر لے جائیں۔۔ کہہ کر انہوں نے اپنا گول مٹول بیٹا اسے تھما دیا۔ وہ۔ہڑبڑا سی گئ شکر ہے گرا نہیں۔۔
دراصل مجھے کہیں بہت ضروری جانا ہے طوبی کو بتا دیجئے گا مجھے دیر ہو سکتی ہے۔
وہ کہہ کر رکے نہیں معزرت کرتے لفٹ کیطرف بڑھ گئے۔
اس نے اب غو رکیا ان پر تو اپر اور جینز پہنے وہ تیار ہی کھڑے تھے باہر جانے کو۔۔ وہ دروازہ بند کرتی بچے کو اٹھائے اندر چلی آئی۔۔
گھرمیں میلے کا سماء تھا۔سب لائونج میں جمع تھیں۔ ٹی وی پر کورین موسیقی چل رہی تھی مگر دھیمی آواز میں۔ جانے بیل کیوں نہ سنائی دی۔ اس نے بیل چیک کی تو بیل ہی۔بند تھی۔مین ڈو رکا کیمرہ بھی بند۔وہ انکو گھور کر رہ گئ۔ عشنا الف عزہ طوبی لیپ ٹاپ منی میز پر رکھے اسکے گرد آلتی پالتی مارے بیٹھی تھیں سب کے ہاتھوں میں چاول کی پلیٹیں تھیں جس میں سے بریانی اڑائی جا رہی تھی۔ ۔بچیاں شائد کھا چکی تھیں کیونکہ انکے سامنے رکھی پلیٹیں خالی تھیں اور وہ ان تینوں کے موبائل میں گیمز کھیلنے میں مگن تھیں۔اسکی آمد کا نوٹس بس ان بچیوں نے لیا وہ بھی اتنا کہ اچٹتی نگاہ ڈال کر گیم میں مگن ہوگئیں۔
اس نے آگے بڑھ کر انکی دلچسپی کا منبع جاننا چاہا۔ لیپ ٹاپ پر جھانکا ابیہا سرخ ساڑھئ پہنےکانوں میں ہینڈز فری لگائے لہک لہک کر باتیں کر رہی تھیں۔ اسکو دیکھ کر وہی سب سے پہلے چلائی
واعظہ کی بچی فون کیوں نہیں اٹھاتی تم اتنی کالیں کی تمہیں۔
اسکے چلانے پر سب کئ گردنیں گھومیں۔
اس نے موقع غنیمت جانتے طوبی کو اسکا بیٹا تھمایا۔۔ اس نے جلدی سے اپنی پلیٹ ایک طرف رکھی۔
ویڈیو کال کر رہی تھیں میں گلی میں ویڈیو کال اٹینڈ کرتی کیا۔
اسکی بات میں دم تھا وہ کھسیائئ۔ پھر جوش سے کہنےلگی۔
اچھا سنو میں نے ان سے کہا ہے ہم ہنی مون پر کوریا آئیں گے۔ تم سب سے ملوں گی میں۔
تم ہنی مون پر ہی نہیں آئی ہوئی ہو ؟
عزہ کو حیرانی ہوئی
ہاں یہ تو اسلام آباد ہے نا ہم مری تک جائیں گے کاغان ناران کی بجائے میں نے ان سے کہا ہے وہ پیسے بچائیں اور کوریا گھمائیں مجھے۔
وہ اٹھلائی۔
شیفون کی سرخ ساڑھی پہنے وہ اسلام آباد کے کسی ہوٹل میں بیٹھی تھی۔ ہاتھ لمبا کرکےباتیں کرتی پیچھے لیپ ٹاپ پر کام۔کرتے اسکے سنجیدہ صورت گندمی رنگت والے میاں ذرا سا مسکرائے تھے۔ واعظہ کی طرح۔
ہیں سچی۔ عشنا عزہ طوبی خوش ہوئی تھیں۔
کاغان ناران جانا اور کوریا چلے آنے میں فرق نہیں؟ کوسٹ کی بات کر رہی۔
الف نے ذرا سا واعظہ کی جانب جھک کر سرگوشی کی۔
واعظہ نے ذرا سا نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ سمجھ کر چپ ہوگئ ابیہا خوش ہی اتنی تھی۔
ویسے اسکا میاں اچھا ہے سڑیل نہیں ہم سب سے ملوایا ہے سلیقے سے بات کی اس نے۔ طوبی کو بیٹا چین لینے نہیں دے رہا تھا تو اسے اٹھاکراٹھتے ہوئے اس نے واعظہ کو بتایا۔۔
ہاں طوبی دلاور بھائئ کہہ کر گئے ہیں وہ کسی ضروری کام سے جا رہے ہیں دیر سے آئیں گے۔
واعظہ کو یاد آیا تو فورا بتایا۔
طوبی جوابا سر ہلاتی کچن کی طرف بڑھ گئ۔صارم کو بھوک لگی ہوئی تھی اسکی پیٹ پوجا ضرورئ تھی۔۔۔
واعظہ تم نے میری شادی کی تصویریں دیکھیں ؟میں نے واٹس ایپ کی تھیں۔۔ابیہا کو جانے کیا یاد آیا۔
واعظہ کو وہ پونے چار سو تصویریں یاد آئیں جن کو کوریا کے تیز ترین انٹر نیٹ نے جھٹ پٹ ڈائونلوڈ کر دیا تھا اسکے فون میں رات کے چار۔بجےادھوری نیند سے جاگ کر انسان اپنی شادی کی تصویریں نہ دیکھے کجا کسی اور کی۔ مگر مروت بھی کوئی چیز تھئ۔
جھٹ اثبات میں سر ہلایا۔۔ طوبی نے چاولوں کی بھری پلیٹ اسے لا تھمائی جو اس نے شکریئے سے قبول کر لی۔
وہ جو ولیمے والی تصویر ہے ہماری اس کو دیکھ کر بتائو کونسے ہیرو لگ رہے۔۔پکا پہچان جائوگی میرے فیورٹ ہیرو کی جھلک ہے ان میں۔ اف سچی لگن تھی میری۔۔۔۔عزہ اور عشنا نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی۔
ٹھہرو دکھاتی ہوں۔اس نے پلٹ کر بیڈ پر پڑا میاں کا فون اٹھایا۔ اسکے وال۔پیپر پر اسکے ولیمے کی ہی تصویر تھی
گندمی رنگت لمبے چوڑے بھائی آلو ارجن سے مشابہت رکھتے تھے۔
بس تھوڑا ڈارک ورژن ہیں۔ اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکی وہ آواز دبا کر بول رہی تھی۔
نہیں تو اچھا خاصا گورا ورژن ہیں تو۔۔ الو ارجن تو بہت ہی کالا۔ہے۔۔
عشنا بول پڑی۔ ان سب نے گھور کر دیکھا تو کھسیا کر پلیٹ پر جھک گئ۔ابیہا نے شائد سنا نہیں ۔۔۔
لہرا کر پتہ نہیں کیا بتا رہی تھی مگر آواز کچھ ذیادہ ہی دبا لی تھی اتنی کہ انکو سنائی نہ دی۔
کیا کہہ رہی ہو سنائی نہیں دے رہا۔ عزہ نے بتانا چاہا وہ بد مزا ہوگئ۔
لو پورا قصہ سنا دیا۔ اب دوبارہ نہیں سنا رہی یہ پھول کر کپا ہو جائیں گے اتنی تعریفیں کر رہی ہے بیوی تو فداہے مجھ پر۔۔ وہ بات بات پر ہنس رہی تھئ۔۔
اچھا سنو میں بتا رہی تھئ ووکی۔۔
تعریفیں تھیں تو سن کر کیا کرنا تھا جبھی الف نے ٹوک دیا
نام کیا ہے دلہا بھائی کا جو انکو ان ان کہہ رہی ہو۔
نام تو انکا کبیر ہے۔ وہ مسکائی۔۔۔
میں نے بتایا انکو آپکی شکل میرے فیورٹ ایکٹر سے ملتی ہے۔۔
الو ارجن؟۔۔ عشنا نے جیسے انعام لینا تھا صحیح بوجھ کے۔۔
ارے نہیں الو۔ارجن بھی پسند ہے مجھے مگر یہ تو میرے فیورٹ ترین ہیرو کے ہم شکل ہیں۔بوجھو ذرا۔۔
ابیہا نے کہا تو وہ سب دیگر سائوتھ انڈین ہیروز کی شکل ذہن میں لانے لگیں۔
اوفوہ کیا ہوگیا ہے جی چھانگ ووک سے نہیں ملتی انکی شکل۔۔
اسکے کہنے پر ان سب کو با جماعت اچھو ہوا تھا۔ مگر ابیہا بے حد سنجیدہ تھی
میں توانکو وکی کہتی ہوں اب ووقی کہوں گی تو ایویں شک میں نہ پڑ جائیں۔ کل بھی ہنس رہے کہ کبیر نام کا یہ نک نیم دنیا میں میں پہلی لڑکی ہوں گی جس نے بنایا۔
اور پتہ ہے۔۔
ابیہا کوئی نیا قصہ شروع کر چکی تھی الف نےاپنے موبائل کی اسکرین کو دیکھا سیہون جگمگا رہا تھا مگر انلاک کرو تو اندر وال پیپر پر ژیہانگ کی تصویر تھی۔ دونوں چندی آنکھوں والے سہی مگر بالکل معمولی سی بھی شکل نہیں ملتی تھی۔ ایک اسے پسند تھا اپنی شکل کی وجہ سے دوسرے سے محبت ہوگئ تو شکل اچھی لگنے لگی تھی۔۔
اس نے مسکرا کر موبائل واپس لاک کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دوبارہ اسی نیم۔تاریک عمارت کے باہر لابی میں کھڑے تھے۔ انہیں لانے والا وہ۔چندی آنکھوں والا لڑکا بضد تھا کہ انکو۔صحیح جگہ لایا ہے۔
میں یہاں آچکا ہوں اوپر کے سب فلور دیکھے ایک ایک اپارٹمنٹ کا دروازہ کھٹکا کر پوچھا ہے۔ یہ پتہ ضرور آپ کھوج نکالتے ہیں مگر یہاں وہ لڑکا نہیں رہتا۔
دلاور بمشکل اپنی جھلاہٹ پر۔قابو پا رہے تھے۔ چندی آنکھوں والے کو انکی بے چینی نظر آرہی تھی اسے ہمدردی بھی تھی
دیکھیں بنا اتا پتہ دیئےوہ لڑکا یہاں کوئی مستقل توکیاعارضی نوکری بھی حاصل نہیں کر سکتا۔اگر وہ یہاں نہ بھی رہتا ہو تو جو شخص یہاں رہتا ہے وہ کم از کم اسے اتنا ضرور جانتا ہوگا کہ اسکی ضمانت دے رہا ہے کچھ نہیں وہ اسکا موجودہ پتہ بتا دے گا۔
اسکی بات انہیں سمجھ آگئ جبھی چپ کر گئے۔
دروازہ مستقل۔کھٹکانے پر بھی نہ کھلا تو وہ آگے بڑھ کر برابر والے فلیٹ کا دروازہ کھٹکا کر پوچھنے لگا ۔۔ دلاور پر امید تو نہ تھے مگر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصدق اسی دروازے سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔۔
گھسیٹ گھیسٹ کر چلنے کی آواز پر انہوں نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔
نیم تاریک راہ داری میں انسانی وجود کا احساس ہوتے ہی بلب روشن ہوتا تھا۔
گھسٹ گھسٹ کی آواز وہ واضح ہوتے ہیولے کو آنکھیں سکوڑ کر دیکھتے گئے۔ نووارد کے قدم جم گئے تھے۔
جسے وہ پچھلے دس سالوں میں ہر گلی کوچے ہر شہر۔ہر ملک میں ڈھونڈتے پھرے وہ انکی نگاہوں کے سامنے آن کھڑا ہوا تھا۔۔ کچی عمر کے نقوش اب پختہ ہو چکے تھے انہیں برسوں بعد بھی اپنے ماں جائے کو پہچاننے میں چند لمحے لگے تھے بس۔۔
انکے لب بے آواز ہلے تھے۔ انکے درمیان فاصلہ تھا اتنا کہ انکی آواز نہ پہنچ سکےقرب اتنا کہ انکے نقوش پہچانے جا سکیں۔
خاور۔۔
کھاوا نے آنکھیں سکوڑ کر دیکھا۔ آج وہ دنیا کے کسی بھی شخص کسی بھی انسان کا سامنا کرنا نہیں چاہتا تھا کجا کہ اسکا اپنا سگا بڑا بھائی۔ وہ پلٹا اپنی پوری جان لگا کر بھاگ کھڑا ہوا۔۔ دلاور لحظہ بھر ٹھٹکے ۔ انکا بھائی لڑکھڑا رہا تھا تیز بھاگ نہیں پا رہا ۔۔۔۔ انکے قدم چلنے سے انکاری ہوئے
خاور۔ انہوں نے اپنی پوری جان لگا کے آواز دی۔مگر وہ رکا نہیں۔۔ خاور۔ وہ پکارتے ہوئے اسکے پیچھے بھاگے۔ لمبا کاریڈور کاریڈور سے آگے احاطہ۔۔سامنے ذیلی سڑک۔ وہ اندھا دھ۔ند بھاگا تھا۔ شام کا وقت تھا رش نہیں تھا اگے چوراہا تھا بس وہاں پہنچ کر وہ ایک بار پھر کھو جانا چاہتا تھا مگر اسکا ماضی اسکے پیچھے دوڑتا آرہا تھا پکارتا۔۔ اس نے اپنی رفتار مزید بڑھائی سڑک پر چلتی ٹیکسی کو ہاتھ دیا مگر ذیلی گلی سے نکلتی وہ گاڑی سیدھی اس سے آن ٹکرائی تھئ۔ وہ بونٹ پر گرا کچھ زخم کھلے گاڑی کے ٹائر چرچرائے اور وہ دوسری جانب پکی سڑک پر گرا۔ نیم تاریکی میں بھی تازہ نکلتا سرخ سیال سڑک پر پھیلتا دور سے دکھائی دے رہا تھا۔۔ دلاور کھڑے کھڑے جیسے زندہ درگور ہو گئے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
جاری ہے۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment