قسط 62
وہ ابھی سب کام سمیٹ کر باورچی خانے سے نکلی تھی اپنے کمرے کا رخ ہی کیا تھا کہ اماں کی پاٹ دار آواز نے قدم روک دیئے
بہو ہم میلے میں جا رہے ہیں گھر کا خیال رکھنا خاور آتا ہوگا اسے چاء روٹی بھی پوچھ لینا۔اور مانو بھئ سپارہ پڑھ کر آنے والی ہوگی اسکا سبق سن لینا کل بھی مولوی صاحب نےشکایت بھجوائی ہے مانو کو سبق یاد نہیں ہوتام۔اماں نے ہدایات جاری کرنا شروع کی تو وہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئ۔ اس وقت تھکن سے دل کر رہا تھا کہ بس بستر پر جا پڑے۔ ۔اماں اور راحیلہ چادر اوڑھے تیار کھڑی تھیں۔۔
بھابئ آپ بھی چلو۔راحیلہ نے محبت سے کہا مگر اس سے قبل کہ وہ جواب دیتئ اماں نے جھڑک دیا
وہ کونسا لڑکی بالی ہے۔ شادی شدہ عورت ہے اب بچے سنبھالے گی یا تفریح کرے گی۔ ۔ تیری ضد نہ ہوتی تو تجھے
بھئ نہ لے کے جاتی۔ اماں کے گھرکنے پر وہ چپ کر گئ۔ ان دونوں کے جانے کے بعد وہ دروازہ بند کرکے کمرے میں آکر لیٹ گئ۔ زینت سو رہی تھی جب اسکے سونے کا وقت آنا تھا اس نے جاگ جانا تھا۔۔۔
بھابی بھابئ۔۔مانو دور سے پکارتی چلی آئی۔۔ مانو آگئ۔
دس گیارہ سالہ اپنی اس نند سے اسے بے حد محبت تھی۔ وہ بھی گھر آتے ہی بھابی کے آگے پیچھے پھرتی تھی ابھی بھی دروازے سے داخل ہوتے ہی پکارتی آرہی تھی۔ وہ مسکرا کر اٹھ بیٹھی۔ وہ شائد باورچی خانے گئ تھی وہاں سے سیدھا اس نے یہیں آنا تھا۔ بھابی۔
اس نے دروازے سے پکارا تو اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر آہستہ بولنے کا اشارہ کیا۔ وہ سمجھ کر قریب بھاگئ آئی
آتے ہی سپارہ تھما کر بولی۔
بھابئ اماں گئ تو نہیں میلے میں؟
وہ گڑبڑا سی گئ۔
چلی گئیں نا؟ مجھے چھوڑ کے میں نے کہا بھی تھا۔
سب احتیاط دھری رہ گئ اس نے خاصا دکھ سے چلا کر کہا اور زور زور سے رونے لگی۔
ارے روئو مت مانو۔ وہ اسے پیار سے ساتھ لگا کر چپ کروانے لگی مگر اسکے رونے کی آواز سے زینت اٹھ کر رونے لگی۔
ہمیشہ ایسا کرتی ہیں۔ میں نے کہا تھا مجھے نہیں جانا سپارہ پڑھنے آپ پیچھے سے چلی جائیں گئ۔۔۔
وہ اسکے سینے سے لگی بین کرکر کے رو رہی تھی۔
اچھا چپ کرو تمہارے بھائئ آئیں گے نا ان سے کہوں گی لے جائیں گے میلے میں رونا بند کرو۔
زینت بھی زور و شور سے رو رہی تھی اور مانو بھی لپٹی تھی۔وہ مشکل میں پھنس گئ۔
کیا ہوا بھابی زینت کیوں رو رہی ہے۔
خاور شائد ابھئ باہر سے آیا تھا دروازے کے پاس آکر دستک دے کر پوچھ رہا تھا۔
چلو خاور کے ساتھ بھیجتئ ہوں ابھئ تمہیں رونا بند کرو۔
اسکے اس بہلاوے پر اس نے آنسو پونچھے۔ خاور کمرے کے دروازے پر ہی کھڑا رہا۔ پورے گھر میں اگر کوئی اس تمیز کا مظاہرہ کرتا تھا کہ وہ کمرے میں ہو تو دستک دے کر اندر آئے وہ خاور ہی تھا۔ وہ زینت کو اٹھاکر چپ کراتے ہوئے مانو کا ہاتھ پکڑ کر باہر ہی چلی آئی۔ خاور باہر برآمدے میں لگے تخت پر بیٹھا جوتے اتار رہا تھا۔
خاور بہن کو میلے میں لے جائو۔ دیکھو رو رہی ہے۔اماں اسے لیئے بنا چلی گئئیں۔
اس نے کہا تو وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔
بھابئ ابھئ آیا ہوں اتنا تھکا ہوا ہوں۔
اس نے انکار کرنا چاہا۔ مانو کا منہ مزید اتر گیا شاکی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی
آپ لے جائیں اسے یہ دو گلی چھوڑ کر جو میدان ہے وہیں تو لگا ہوا ہے دو چار جھولے ہیں باقی کھانے پینے کے ٹھیلے اور عورتوں کے زیورات وغیرہ کے اسٹال ہیں۔
وہ کہہ تو رہا تھا مگر ابھی اماں وہیں تھیں اسکا جانا عزاب بن سکتا تھا۔۔اس نے زینت کو ہلا ہلا کر چپ کرادیا تھا۔
میں نہیں جا سکتی تم ایسا کرو کل پکا مانو کو سیر کرا لانا۔ اسکا بہت دل کر رہا ہے۔ اس نے اسکی تھکن کا احساس کیا اور مانو کے شوق کا بھئ مگر اسکا احساس کسے تھا؟ خود اسکا دل تھا میلے میں جانے کا یا نہیں اس بات کی اہمیت ہی نہیں تھی۔
کل ختم ہو جائے گا آج آخری دن تھا تین دن سے کہہ رہی تھی میں۔ مانو نے بے بس ہو کر دوبارہ رونا شروع کیا تو خاور کا دل پسیج گیا۔
اچھا روئو نہیں منہ دھو کر آئو میں لے چلتا ہوں۔
پکا۔ وہ ایکدم خوش ہوئئ تھی۔
پکا جائو جلدی سے منہ دھو کے کنگھئ کرکے آئو۔
اس نے کہا تو وہ خوشی خوش دوڑ گئ۔
آپ کو کچھ چاہیئے۔
نہیں۔ وہ نفی میں سر ہلا گئ۔ مانو تیار ہو کر آئی تو ایک لمحہ بھی رکنے کو تیار نہ ہوئی۔۔۔ ان کو جاتے دیکھ کر زینت نے بھی تان بلند کی۔ وہ تو منع کرنے لگی مگر خاور اسے گود میں اٹھا لیا۔
یہ بھی میلہ دیکھے گئ آج۔
اسکے پھولے پھولے گالوں کو چومتے اس نے پیار سے کہا تھا۔آٹھ نو مہینے کی زینت نے جیسے خوش ہو کر قلقاری ماری۔۔
چلیں نا بھائئ۔ مانو نے اسکا بازو کھینچا۔۔
اچھا بھابی دروازہ بند کرلو۔ تاکید کرتا مانو کے ساتھ گھسٹتا گیا وہ سچ مچ اسے گھسیٹ ہی رہی تھی۔ اسکی عجلت پر خاو رڈانٹ رہا تھا مگر اس نے پروا نہ کی۔ انکے باہر نکلنے کے بعد اچھی طرح دروازہ بند کرکے پلٹی ہی تھی کہ پھر دستک ہوئی۔
اس وقت وہی دونوں واپس آئے ہوں گے کچھ بھول کے۔
اس نے یہی سوچتے دروازہ کھولا اور ہنس کر بولی
مجھے پتہ تھا تم کچھ بھول گئے ہوگےگڈو۔ ۔ کہتے ساتھ ہی مقابل پر نظر پڑی تو اسکی ہنسی تھم سی گئ۔ سامنے دلاور کھڑے تھے۔
آپ۔۔ آج جلدی آگئے۔
اسکے منہ سے بلا ارادہ پھسلا تھا۔ جبھی گڑبڑا کر ایک طرف ہو کر راستہ دینے لگی۔
دلاور نے ایک نظر اسکی سمٹتی مسکراہٹ پر ڈالی پھر ازلی سنجیدہ سے انداز میں پوچھنے لگے
گھر میں بہت خاموشی ہے سب کہیں گئے ہیں؟
ہاں وہ میلہ لگا ہے نا وہاں گئے ہیں۔ اماں راحیلہ تو دوپہر سے گئے ہیں یہ مانو اور خاور ابھئ نکلے ہیں۔۔۔ ہم۔۔بھی۔۔۔
وہ آگے کہنا چاہ رہی تھی ہم بھئ چلیں۔۔؟؟؟
کھانے میں کیا ہے۔
اپنی آستین کے کف کھولتے انہوں نے شائد اسکی پوری بات سنی بھئ نہ تھئ ابھی بھی تیز قدم اٹھاتے کمرے کی جانب بڑھتے انہوں نے پوچھا ضرور تھا مگر جواب کا انتظار نہیں کیا تھا۔۔وہ بھی ہونٹ بھینچ کررہ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاور آج پھر ابھی تک نہیں آیا تھا۔ اسکی بارہ بجے کے قریب آنکھ کھلی تھی تو پانی پینے صحن میں آنا پڑا۔ خنکی اچھی خاصی تھی وہ بے خیالی میں اٹھ آئی تھی۔ باہر آکر احساس ہوا بنا شال باہر آکر غلطی کر لی ہے۔ پانی پی کر واپس جانے ہی لگی تھی جب صحن میں پڑی چارپائی چرچرائی
خوف کے مارے وہ جم سی گئ یقینا بھوت۔۔ اس نے صحن میں بکھری چاندنی میں ذرا سا آنکھیں سکوڑ کر اس چرچراہٹ کا منبع جاننا چاہا تو پتہ چلا کوئی لمبا چوڑا وجود آرا ترچھا پڑا ہے
خاور۔ اس نے دھیرے سے پکارا۔ جوابا وہ ایکدم چونک کر اٹھ کھڑا ہوا
بھابی آپ۔
تم اتنئ ٹھنڈ میں یہاں کیوں لیٹے ہو۔ ؟
وہ حیران ہو کر پاس چلی آئی۔
ایسے ہی۔ وہ کھسیایا۔۔ اور اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب پیچھے کرنے لگا۔
کیا چھپا رہے ہو۔ اسکی عقابی نگاہ سے چھپا نہ رہ سکا۔
کچھ نہیں۔ وہ جتنا سٹپٹایا تھا اسکے شک کو یقین میں بدلتے دیر نہ لگی۔ اس نے دائیں جانب سے جھپٹا مارا وہ جھکائی دے گیا۔ بائیں جانب سے اس نے جھپٹ ہی لیا۔ خاور نے
کان کھجایا
ڈائری ہے بھابی۔۔
اسکی بات سننے سے قبل ہی وہ کھول چکی تھی۔۔
جانے یہ رات ڈھلے یا نہ ڈھلے
ھمدمو ، ہمسفرو ، ہم تو چلے
روشنی چاہیے ،جس طرح بھی ہو
بجھ گئی شمع تو پھر دل ہی جلے
کتنے تاریک جہاں بستے ہیں
ہاں ان ہی چاند ستاروں کے تلے
ہم سے ہوگا نہ وفا کا سودا
ہم ہیں سودائی تو سودائی بھلے
غم دیا اس نے تو غم یارو
خار بھی پھول کے سائے میں پلے
جنس بے قدر وفا ، وقت کی بات
وقت کے ساتھ چلیں ہم نہ چلے
(از قلم زوار حیدر شمیم)
یہ یہ تم نے لکھی ہے؟ وہ حیران تھئ۔
خاور جھینپ کر مسکرا دیا۔
ہاں کوشش کی ہے۔ کیسی لگی کوشش۔۔
وہ جھجکتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
اچھی۔بہت اچھی۔۔ یہ تو بہت اچھی نظم لکھ دی ہے تم نے۔
اسے واقعی پسند آئی تھئ یہ نظم۔
تم تو چھپے رستم نکلے بھئ۔ پکا والا احمد فراز بننا ہے تم نے تو۔کیا تخلص رکھو گے گڈو
وہ چھیڑنے والے انداز میں بول رہی تھی۔
وہ سر کھجانے لگا۔
بھابئ بھائی کو نہ پتہ لگے۔ ماریں گے مجھے۔۔
وہ ڈررہا تھا۔
مگر تمہیں یہ انہیں دکھانا چاہیئے کیا پتہ وہ تمہارا ٹیلنٹ دیکھ کر تمہیں سائنس پڑھنے پر مجبور کرنا چھوڑ دیں۔۔
طوبئ نے سمجھانا چاہا مگر وہ نفی میں سر ہلا رہا تھا
کوئی نئیں سمجھے گا یہ بات۔
میں اردو لٹریچر پڑھنا چاہتا ہوں بھابی۔ یہ سائنس وائنس میرے بس کی بات نہیں۔۔
میں تمہارے بھائی سے بات کرتی ہوں۔ طوبی نے کہا تو وہ منتیں کرنے لگا
نہیں بھابی کسی کو مت بتانا یہ بس آپکے میرے بیچ کی بات ہے۔۔ پلیز بھابئ۔
اسکو اتنا ڈرا ہوا دیکھ کر وہ رک گئ۔پھر بات پلٹ کر بولی
اچھا یہ بتائو بس یہی لکھی ہے یا اور بھی لکھی ہیں۔
ایک دو ہیں مگر وہ اتنی اچھی نہیں۔۔
وہ دکھانا بھئ چاہ رہا تھا اور جھجک بھی رہا تھا
میں فیصلہ کروں گئ دیکھ کر ۔اس نے کہہ کر ڈائری اسکے ہاتھ سے لے لی۔ ابھی کھول کر دیکھ رہی تھی کہ اماں کی آواز نے اسے ڈرا دیا۔
کون ہے اتنی رات کو صحن میں۔۔ وہ سٹر پٹر کرتئ کمرے سے باہر جھانک رہی تھیں۔
دلاور نے برآمدے کی لائٹ جلا دی۔ وہ طوبی کی شال لپیٹے سکڑے ہوئے صراحی سے پانی نکال رہے تھے۔
میں ہوں اماں پانی پینے آیا تھا۔انہوں نے آواز دے کر اماں کو تسلی کرائی۔ خاور اور طوبئ گھبرا سے گئے۔ جانے کب دلاور اٹھ گئے انہیں پتہ نہ لگا۔۔
طوبی زینت رو رہی ہے دیکھو شائد اس نے کپڑے گیلے کر لیئے ہیں۔ وہ سرسری سے انداز میں کہتے واپس مڑ گئے۔
ببر شیر بنا دھاڑے غار میں واپس چلے گئے آج تو انہونی ہوگئ۔ ۔ خاور نے دعا مانگنے کی طرح اپنے اوپر سے ہاتھ وارا اور بلا ٹلنے پر شکر ادا کیا تو وہ اسکے کندھے پر مکا مار کر بولی
تم ہر وقت میرے میاں کی برائیاں مت کیا کرو بہت اچھے ہیں وہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات انہوں نے ساری باتیں سن لی تھیں۔۔۔۔ زینت کے ایکدم رو پڑنے پر انکی آنکھ کھلی تھی۔ وہ تو انکئے تھپکنے پر دوبارہ سو گئ مگر مسہری کے دوسرے سرے پر طوبی نہیں تھی۔ باتھ روم باہر صحن میں تھا اور وہ شال لیئے بنا ہی چلی گئ تھی۔ وہ اسکی لاپروائی پر بڑبڑاتے اٹھے تھے۔ بیڈ سے شال اٹھا کر صحن میں آئے تو انہیں باتیں کرتے دیکھ کر فطری تجسس سے سن بیٹھے۔جبھی صبح ناشتہ کرتے ہوئے سرسرئ سے انداز میں طوبی کو کہا۔
خاور سے کہو میٹرک کا داخلہ فارم لے آئے۔ اور سائنس میں تو فیل ہوئے جا رہا ہے اس سے کہو اس دفعہ آرٹس کے مضامین رکھ کر امتحان دے۔ مجھے ہر صورت اسکی ڈگری چاہیئے۔
جی۔۔ وہ اتنئ حیران ہوئی کہ بٹر بٹر دیکھتی رہ گئ۔
میں کہہ رہا ہوں۔ وہ گہری سانس لیکر دوبارہ بتانے والے تھے جوابا طوبی جس طرح ایکدم خوش ہوئی
سچی۔ میں ابھئ جا کے اسکو کہتی ہوں فارم لیکر آئے۔ وہ خوش خوش فورا اٹھ کر باہر جانے لگی
ابھئ سو رہا ہوگا ۔۔ اٹھے تب کہہ دینا۔ ابھی ناشتہ تو کر لو۔
وہ اسکا پرجوش انداز دیکھ کر مسکرا دیئے۔ انکی اور اسکی عمر کا بس یہی فرق انکی باتوں سے جھلکتا تھا۔ انکے سرہانے بم پھوڑ دو وہ مسکرا دیں اور طوبی پٹاخوں پر ااچھل پڑنے بے ساختہ خوش ہو کر اسکا اظہار کرنے کی ہی عمر میں تھی۔ صبح عموما وہ اکیلے ناشتہ کرتے تھے کیونکہ طوبئ کاموں میں الجھی ہوتی تھئ مگر جب سے زینت ہوئئ او ر انہیں اکثر پوچھنے پر طوبی کا یہ جواب ملنے لگا کہ آج تو ناشتے کا وقت نہ ملا وغیرہ تب سے انکے سختی سے کہنے پر وہ انکے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرتی تھی۔
ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔ وہ سر پر ہاتھ مارتی واپس بیٹھ گئ۔
بیوی کی سعادتمندی پر انہیں ہنسی آگئ تھئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دفتر سے تھکے ہارے ابھی گھر پہنچے تھےحسب عادت اماں کے کمرے میں سلام کرنے کی غرض سے چلے آئے۔ روبی راحیلہ اور اماں ایک پلنگ پر۔بیٹھی جانےکیا کھسر پھسر کر رہی تھیں کہ انکی شکل دیکھتے ہی گڑبڑا کر چپ ہوگئیں
آگیا میرا پت مانو اری مانو بھائی کے لیئے چاء پانی لیکر آ۔۔
امآں سب سے پہلے سنبھل کر ان کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں ساتھ ہی چھوٹی کو آواز بھی لگا دی۔
رہنے دیں امآں میں پہلے کھانا کھائوں گا۔ بھابی کہاں ہیں تم لوگوں کی۔
وہ وہیں انکے پاس بیٹھتے ہوئے برسبیل تذکرہ نہیں دل سے پوچھ رہے تھے گھر آتے ہی سب سے پہلے جسکی صورت دیکھنے کی خواہش جاگتی تھی اس سے سامنا سب سے آخر میں ہوا کرتا تھا۔
انکی بات جیسے تینوں نے سنی ہی نہیں۔۔ البتہ مانو انکی چھوٹی بہن کتاب اٹھائے دوڑی آئی۔۔
بھیا ایک سوال۔سمجھا دیں کل میرا ٹیسٹ ہے بالکل۔تیاری نہیں۔
بھائی کو سکھ کا ساہ تو لینے دے کلمونہی بڑی آئی۔ جا جاکے پانی لیکر آکر میرے پت کیلئے۔
اماں نے ڈپٹا تو وہ منہ بسورنے لگی۔ مانو میں انکی۔جان بند تھی فورا اماں کو ٹوک دیا
کوئی بات نہیں ادھر لائو میں سمجھا دیتا ہوں
انہوں نے اپنے پاس پلنگ پر اسے بٹھا دیا
راحیلہ اچک اچک کر باہر دیکھ رہی تھی۔ اماں اور روبی کی سرگوشیاں۔
جانے کیا کھچڑی پک رہی تھی وہ اٹھ گئے۔ اماں تیر کی۔طرح کمرے سے باہر نکلی تھیں۔
چلو ادھر چل کر بیٹھیں۔۔
کمرے کے انتہائی کونے میں لکڑی کی چوڑی کرسیاں موٹی گدیاں ڈال کے رکھی گئ تھیں ساتھ چوڑی سی میز بھی تھی۔ مہمانوں کی آمد پر اسے ہی گھسیٹ کر بیچ میں رکھ کر ناشتہ چن دیا جاتا تھا اور باقی وقت مانو کا بستہ پھیلا رہتا تھا اسے لیکر وہ یہیں آبیٹھے۔
حساب کا سوال سمجھاتے وہ مگن تھے جب اچانک اماں خاور کا ہاتھ پکڑکر کھینچتی اندر لے آئیں۔
یہ دیکھو اسکی حرکتیں میں اپنی بہو کو کیا کوسوں میری اپنی اولاد میرے منہ پر کالک ملنے پر تلی ہے۔
انہوں نے زور دار دھموکا خاور کی پشت پر لگایا۔۔
وہاں باورچی خانے میں پوچھ اس سے کیا کہہ رہا تھا بے غیرت ۔۔۔۔
یہ حساب کتاب ان سے ہی کرنے کو کہا جا رہا تھا اماں نے خاورکو انکے سامنے ہی کٹہرے میں لاکھڑا کیا تھا۔ دلاور کچھ نہ سمجھتے ہوئے گم صم سے کبھی خاور کو دیکھتے کبھی اماں کو۔
کچھ نہیں کہہ رہا تھا میں اماں بات کا بتنگڑ بنا رہی ہیں میں بس یہ دینے گیا تھا۔
خاورسٹپٹایا سا شاپر آگے کرکے بولا۔
یہ میری اولاد ہے۔۔ اماں نے شاپر اس سے چھین کر راحیلہ کی جانب اچھال دیا۔
میری ناک کے نیچے بھاوج کو ۔۔ یا خدایا میں کیا منہ دکھائوں گی تیرے ابا کو ۔۔ اماں نے دو ہتھڑ مزید خاور کے جڑے پھر اپنا سینہ پیٹ لیا۔
ہائے اللہ اماں کیا کہہ رہی ہیں یہ تو بچہ ہے میں تو پہلے ہی کہتی تھی شہر سے کڑی مت لائیں میری نند پانچ جماعتیں پاس کیسی میمنے جیسی معصوم لڑکی تھی مگر تب آپ پر اس ۔۔۔
بس کرو روبی باجی سب آگ تمہاری لگائی ہوئی ہے جانے اماں کو کیا پٹی پڑھائی ہے بھائی میرا یقین کریں میں بھابی کو صرف یہ چوڑیاں دینے گیا تھا۔
خاور انکے قدموں میں آبیٹھا انکے گھٹنے پکڑ کر گڑگڑاتا انکا بھائی صفائی کس چیز کی دے رہا تھا یہ بھی انکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا
کیا ہوا ہے امی کیا کردیا اس نے؟
دلاور نے سیدھا اماں سے ہی پوچھ لیا۔ اماں چمک کر راحیلہ کے ہاتھ سے چوڑیاں چھین کر بولیں جو وہ شاپر سے نکال کر دیکھ ہی رہی تھی
یہ دیکھو اپنی گھنئ میسنی بیوی کو دیور سے چوڑیاں منگوا رہی ہے کونسا یہ نمانا کماتا ہے ؟ ایسے ارمان تھے تو تجھ سے فرمیش کرتی دیور سےایسی فرمائشیں کرتے شرم سے ڈوب کیوں نہ مری۔۔۔
یہ نہ اماں کا لہجہ تھا نا انداز صاف لگ رہا تھا کسی نے ان پر خوب محنت کرکے بھڑکایا ہے۔ راحیلہ ششدر سی کھڑی تھی تو روبی کمر پر ہاتھ رکھے الرٹ سی۔
خدا کا۔خوف کریں امی بھابی ہے وہ میری۔ مجھ سے مانا دو تین سال ہی بڑی ہے مگر میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں مانو روبی جیسی بہن ہے وہ میری۔ قسم سے جھوٹ نہیں بول رہا اماں۔ بھائی اللہ کی قسم آپ کو تو یقین ہے نا مجھ پر۔
اٹھارہ سالہ خاور آواز بری طرح گھبرا گیا تھا۔ ۔
کمرے میں پنچائیت سئ لگی ہوئی تھی۔ اماں روبی انکی چھوٹئ شادی شدہ بہن ، راحیلہ جسکی منگنی ہوچکی تھی سب سے چھوٹئ مانو جو دو چوٹیاں گوندھے بیٹھی تو کونے میں انکے پاس ان سے حساب کا سوال سمجھنے تھی مگر اب گپ چپ سی ٹکر ٹکر سب کی شکل دیکھ رہی تھی۔ کمرے کے انتہائی کونے میں کرسی پر وہ ہارے ہوئے انسان کی طرح بیٹھے ہوئے تھے۔ سب دائرے کی صورت خاور کو گھیرے تھیں
کبھئ روبی کیلئے لائے چوڑیاں ؟ اماں تنک کر بولیں۔
ہاں تو اور کیا روبی نے چمک کر کہا
بھیا مجھے اللہ کی قسم ایسا کچھ نہیں ہے۔ مانو کیلئے کل چوڑیاں لایا تھا بھابی کو اچھی لگیں تو میں نے وعدہ کیا تھا کہ ویسی انکے لیئے بھی لائوں گا۔ یہاں گائوں میں سالانہ میلے سے لایا ہوں۔ یہ دونوں پرسوں میلے میں گئی تھیں اتنی چیزیں لائیں مگر نہ مانو کو لیکر گئیں نا بھابی کو بس اسلیئے بھیا۔۔۔۔
وہ صفائی دیتا روپڑا تھا۔۔۔وہ انکا ماں جایا تھا بچپن میں گودوں کھلایا تھا اسکی بات کا وہ کیسے یقین نہ کرتے یقینا اسکی جانب سے ایسی کوئی بات نہ تھی۔ مگر کیا طوبی۔۔ لمحہ بھر کو ہی سہی انکا دل تھم سا گیا تھا۔
ووہٹی ہے تو رج کے سوہنی مگر چھوٹی بہت لگ رہی ہے ثریا بہن۔۔
دلہا بنے ہوئے انکی سماعتوں سے یہ تبصرہ ٹکرایا تھا اور انہیں خبر بھی نہ تھی کہ اٹکا رہ گیا۔
بھیا کچھ تو بولیں۔ آپکو بھی مجھ پر شک۔ہورہا ہے۔
خاور بلک بلک کر رو پڑا تھا۔
اماں اپنی اولاد پر کون ایسے الزام لگاتا ۔۔ راحیلہ تڑپ کر بولی۔۔
ہاں اماں جس کا کیا دھرا ہے اسکو فارغ کرائو۔
روبی تنک کر آگے بڑھی۔
بھیا ابھی طوبی کو تین طلاق دیکر فارغ کریں ایسی تیز عورت بھائیوں میں پھوٹ ڈال رہی ہے نکال باہر کریں اسے۔
نہیں بھیا بھابی کو کچھ مت کہیئے گا انکا کوئی قصور نہیں
خاور تڑپ اٹھا
کیسے قصور نہیں چلتا کریں بھائی اس عورت کو کیا اثر پڑے گا دو جوان بہنیں ہیں ہماری ۔۔۔
روبی اماں خاور سب اکٹھے بول رہے تھے
کیسے حمایت کر رہا ہے اسکی ظاہر ہے ٹکوریں کرتی تھی اسکی چوٹوں کی دودھ ہلدی بنا بنا کر دیتی تھی مجھے کیا خبر تھی کہ
بس۔
وہ ایکدم سے چلا کر اٹھ کھڑے ہوئے
بند کرو یہ سب بکواس۔ خبردار جو اس بکواس کا ایک۔لفظ بھی اس کمرے سے باہر نکلا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ وہ میری بیوی ہے مجھے جو کرنا ہوگا فیصلہ میں خود کروں گا مجھے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے سمجھ آئی تم سب کو۔
انکے یوں پھٹ پڑنے پر کمرے کے جملہ نفوس کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ انکے گھٹنے سے لگا خاور بے دم سا ہو کر پیچھے ہوا تھا۔
بھیا ۔۔۔
آنسو بھری نگاہوں سے اس نے انکی جانب دیکھا تھا۔ سر تھامتے دلاور کو اپنے حواس مختل ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔ بھائی کی آنسوئوں سے بھری نگاہیں خود پرمحسوس ہو رہی تھیں مگر اسکی جانب دیکھنے سے انہوں نے دانستہ احتراز کیا تھا۔
مانو پانی لا کر دو۔
انہوں نے دھیرے سے مانو سے کہا تو وہ کتاب رکھ کر دوڑ گئ۔
بیٹھو بیٹا۔
انکا رنگ اتنا زرد ہو رہا تھا کہ اماں بھی گھبراگئیں
جلدی سے آگے بڑھ کر انہیں کرسی پر بٹھانے لگیں
راحیلہ اسکی جانب بڑھی تو روبی سر جھٹک کر پلنگ پر جا ٹکی
گڈو۔۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے اٹھانا چاہا۔۔
خاور نے خالی خالی نگاہوں سے راحیلہ کو دیکھا۔ راحیلہ لرز سی گئ۔
گڈو اٹھو اندر چلو۔ اپنے جوان توانا بھائی کو یوں پڑا دیکھ کر اسکا دل کٹ رہا تھا۔
بھائی کبھی تو آپ میرا یقین کرتے۔ دس لڑکوں کی مار نے مجھے اتنا درد نہیں دیا جتنا آج آپکے نگاہ چرانے نے۔۔
دلاور کو شاکی نگاہ سے دیکھتا وہ خود کھڑکی کا سہارا لیتا اٹھا۔۔
بھیا۔۔ میری ایک۔گزارش ہے بس۔ میری کسی بھی غلطی کی سزا بھابی کو مت دینا انکا کوئی قصور نہیں۔۔
اسکی آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی جاری ہوئی وہ کہہ کر ٹھہرا نہیں کمرے سے نکلتا چلا گیا۔
گڈو ۔ رکو۔ راحیلہ پکاری دلاور مانو کے ہاتھ سے پانی کا گلاس تھام رہے تھے اسکے جملوں پر ایکدم جیسے کسی نے انکا دل مسل ڈالا تھا۔ایکدم پانی کا گلاس رکھتے اسکے پیچھے لپکے۔۔۔۔۔
اندر جانے کس بات پر جھگڑا ہوا وہ تو باورچی خانے میں چولہے کے پاس بیٹھی تھی۔ جب اس نے تیزی سے خاور کو باہر نکلتے دیکھا۔
خاور کھانا گرم کردیا۔ اس نے وہیں سے پکارنا چاہا بے دھیانی میں تیزئ سے مڑی مگر وہ غیر معمولی طور پر تیز تھا۔اسکے پیچھے دلاور بھئ نکلے وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی ایک شعلہ سا لپکا تھا۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنا رکیک الزام بھی اس پر لگ سکتا ہے۔ وہ غم و غصے سے پاگل ہو چلا تھا۔ بنا سوچے سمجھے گھر سے نکلا تھا۔ اڈے پر آکر ویگن میں بیٹھتے اسکو بس یہی دھن سوار تھی کہ ایسے گھر میں اب اسے واپس نہیں جانا۔
اتنی رات کو کدھر کی تیاری ہے۔ ایک تو گائوں کے لوگ۔ اس نے سر جھٹکا۔ آخری ویگن سات بجے نکلتی تھئ سات بجے کے بعد گائوں سے کم از کم *بچے* شہر نہیں جاتے تھے سو کنڈکٹر نے کان سے پکڑا تھا اسے۔۔
جہاں بھئ جائوں تجھے کیا ۔۔ وہ بدتمیزئ کرکے نکل جانا چاہتا تھا مگر چاچا بھی اسی گائوں کا تھا۔ ایسے اتھرے بچوں کو جو معمولی باتوں پر گھر چھوڑ کر شہر بھاگنے کو تیار ہوتے تھے تقریبا روز ہی ایک دو کو تھپڑ مار کر بھگاتا تھا
بتائوں مجھے کیا؟ اس نے بلا لحاظ اسکی پشت پر ہاتھ جمایا
تیرے ابا کا سنگئ ہوں بد تمیزئ کی تو یہیں مار مار کر بھرتہ بنا دوں گا۔ چلو جائو گھر بھرجائئ پریشان ہو رہی ہوگئ۔ نکلو۔اسے حقیقتا اس نے کان سے پکڑ کر ویگن سے نکالا تھا اور دھکے دے کر کھیت کی طرف بھیجا پھر جب تک وہ مڑ کر گائوں کی طرف چل نہیں دیا چاچے نے ویگن نہ چلائی
کیا مصیبت ہے۔ وہ جھلا رہا تھا۔ یہ ذیلی سڑک تھی آگے بڑی سڑک تک پیدل جاتا تو مزید کوئی بس ویگن آرام سے مل جاتئ۔ وہ سر جھکا کے سڑک کنارے چلتا جا رہا تھا گھپ اندھیرے میں اسے ہلکا ہلکا خوف بھی محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے ٹارچ تک تو لی نہیں تھی۔ ذیلی سڑک بمشکل ختم ہوئی آگے جی ٹی روڈ تھئ۔بڑے بڑے ٹرک گزر رہے کچھ چھوٹی بڑی گاڑیاں بھی۔ اس نے آگے بڑھ کر لفٹ لینی چاہی مگر گاڑیاں اسکے لیئے رک نہیں رہی تھیں ٹرک کے آگے آنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ آخر ہمت کرکے وہ ایک ٹرک کے آگے آہی گیا۔ قریب آتے آتے۔ جانے وہ ٹرک ڈرائیور کو نظر ہی نہیں آیا کہ کیا جب ٹرک بالکل قریب آگیا تب اس نے چھلانگ لگا دی کچے میں ورنہ ٹرک کے نئچے ہی آجاتا۔ وہ کروٹ کے بل کچے راستے پر گرا تھا۔ سڑک کنارے لگا سنگ میل اسکے پائوں پر لگا تھا وہ کراہ کر وہیں بیٹھتا گیا۔۔۔۔۔۔سڑک پر ٹریفک رواں تھا۔ اسے اپنے پائوں پر کچھ گیلاپن محسوس ہو رہا تھا مگر اس سے ہلا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔۔۔ سردی میں تکلیف سے کراہتے جب اس کے حواس مختل ہونے لگے تب خیال آیا وہ تو گائوں کے واحد ذیلی سڑک پر پڑا ہے یقینا بھیا اسے ڈھونڈنے نکل پڑے ہوں گے۔ وہ انکو فورا ہی مل جائے گا بس تب تک اسے اپنے حواس قائم رکھنے تھے۔ اسکا ذہن یہی سوچتے بوجھل ہوگیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاور کو آکسیجن لگی ہوئی تھی ۔ دلاور اسکے سرہانے بیٹھے ایک ٹک اسے دیکھے جا رہے تھے۔ جیسے نظروں سے منتیں کر رہے ہوں کہ اٹھ جائو۔ وہ گہری سانس لیکر کمرے کا دروازہ بند کرکے باہر نکل آئی۔ دن چڑھ چکا تھا اب اسپتال میں خاصی چہل پہل تھی اسے یہاں کئی گھنٹے بیت چکے تھے۔ خاور کو کمرے میں شفٹ کروانےمیں وہ دلاور کے ساتھ ساتھ رہی تھئ۔ اب دن کے گیارہ بجے تک اسکو تھکن کے مارے چکر آرہے تھے۔ وہ ناشتہ کرنے کی نیت سے کینٹین جانا چاہ رہی تھی مگر لہرا کر وہیں لابی میں بنچ پر بیٹھنا پڑ گیا۔
طوبئ اور سیہون کے ساتھ آتی فاطمہ نے گھور کر دیکھا تھا اسکو۔ طوبی کو بتانے کا اسی نے فاطمہ کو کہا تھا۔
اب کیسا ہے خاور۔۔ طوبئ بے تابی سے اسکے پاس آکر پوچھ رہی تھئ۔
اسکا سر چکرا رہا تھا سو اشارے سے کمرے کی جانب اشارہ کیا
اسکو لیکر ذرا گھر جائو۔۔ فاطمہ نے دانت پیس کر سیہون کو کہا تھا خوداسے گھورتئ طوبئ کے ساتھ آگے بڑھ۔گئ
چلو گئ میرے ساتھ یا مجھے بھی ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیا ہے تم نے۔
اس نے طنز کیا تھا۔ ہنگل میں۔
مجھے چکر آرہے ہیں۔ واعظہ نے مسمسی سی شکل بنالی تھئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ہمیشہ لگا ہے تم میری دوست ہو مگر میں تمہارا دوست نہیں ہوں۔ میں نے ہمیشہ ہر موقعے پر سب سے پہلے تمہیں یاد کیا ہے مگر میں تمہارے لیئے دنیا کا آخری انسان ہوں جس سے تم کبھی پکاروگی بھی۔
دونوں ہاتھ اسٹئیرنگ پر جمائے وہ مکمل طور پر سڑک پر نگاہ جمائے فضیحتے کر رہا تھا۔ پسنجر سیٹ پر بیٹھی واعظہ پوری توجہ بن اور کافی ختم کرنے میں لگی ہوئی تھی۔
مجھے کوئی مسلئہ درپیش ہی نہیں ہوتا کیا کروں۔ کھاوا کی جگہ میں گاڑی کے نیچے آئی ہوتی اسپتال میں پڑی ہوتی تب تم یہ شکوہ کرتے جچتے۔
کھا پی کے طبیعت بحال ہوئئ تھئ شائد اسکی جبھی چڑ کر بولی
مجھے ایک بات بتائو۔ یہ عزہ فاطمہ وغیرہ تو چلو سہیلیاں ہیں تمہاری یہ دلاور صاحب کس خوشی میں تمہیں اپنے بھائی کے حادثے کی اطلاع دے رہے تھے؟ اور تم پہنچ بھی گئیں۔انکی بیوی بچوں کو خبر دیتیں کافی تھا الٹا پچھلے چار پانچ گھنٹوں سے اسپتال میں ہو۔کوئی حد ہے تمہارے اس سوشل ورک کی۔
وہ تائو کھا رہا تھا اسکی فکر میں
پڑوسی ہیں وہ ہمارے اور اسلام میں پڑوسیوں کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔
وہ مصنوعی معصومیت سے بولی
ایک تو یہ اسلا۔۔۔۔۔۔ وہ کہتے کہتے اسکے متوقع ردعمل کا سوچ کر زبان دانتوں تلے دبا گیا۔
بیان۔ معزرت بھئ کرلی۔واعظہ نے ترچھی نظر ڈالی اس پر۔۔
ویسے تم اسکارف نہیں کرتیں نماز پڑھتے مسجد جاتےبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔
وہ کہہ رہا تھا واعظہ نے بات کاٹ کر تصحیح کی
لڑکیاں مسجد نہیں جاتیں۔ اور میں نماز اللہ کیلئے پڑھتئ ہوں دنیا کو دکھانے کیلئے نہیں۔ اس نے دنیا پر زور دے کر کہتے گھورا۔۔
چلو۔ جو بھئ ہے۔ مزہب ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ ایک اچھا انسان ہونا کافی نہیں؟ کیا فائدہ انسان مزہبی ہو مگر انتہا پسند ہو دوسروں کو تکلیف پہنچاتا ہو دھوکا دیتا ہو۔۔
وہ موڑ کاٹتے ہوئے جواب طلب نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔۔
کہنا کیا چاہ رہے ہو۔۔ وہ بیزار ہوئی۔
جونگیا کو چھوڑنے کی بس ایک وجہ ہے تمہارے پاس کہ وہ تمہارا ہم مزہب نہیں مگر کیا وہ انسان بھی نہیں ہے؟ اسکے ذکر کو ٹال جاتی ہو اسکے بارے میں بات نہیں کرتی جبکہ وہ ابھی بھئ۔۔۔۔۔۔۔اور تم تم خود بھی تو۔۔۔۔۔
وہ بے دھیان ہوا تھا کہ کیا ایکدم سے گاڑی قابو سے باہر جانے لگی اس نے تیزی سے موڑ کاٹ کر گاڑی سائیڈ میں لگا کر روک دئ۔
جب ہم غلط جگہ غلط بات صحیح انسان سے بھی کریں تو کچھ نہ کچھ غلط ہو ہی جاتا ہے۔
واعظہ نے جتانے والے انداز میں اسے نو پارکنگ کا بورڈ دکھایا جہاں اب انکی گاڑی محو استراحت تھی۔
سیہون دانت پیسنے لگا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسومی منچھو جی آیانا نورا سنگا کھامیا گیبون جوہا۔۔۔۔
گٹار پر کم جونگ وون یہ گانا بجا رہا تھا۔ دھیمے سروں میں۔ اور واعظہ لہک لہک کر گا رہی تھی۔ ان کا یہ فری پیریڈ تھا سو کلاس بند کرکے یہ شغل جاری تھا۔
گانا گا چکنے کے بعد اس نے ایک ادا سے جھک کر سب سے داد وصولی تھی۔ اسکے سب ہم جماعت فراخ دلی سے اسکی گائکی کی تعریف کر رہے تھے۔
زبردست۔ تم آئڈل کیلئے آڈیشن کیوں نہیں دیتیں واعظہ۔
میری نے کہا تو سیہون نے بھی زبردست انداز میں تائید کی۔
ہاں واعظہ۔ ایس ایم انٹرٹینٹمنٹ والوں کے آجکل آڈیشن چل رہے ہیں تم وہاں جائو دیکھنا منتخب کر لیں گے تمہیں۔
سیہون کی بات پر وہ کبھی یقین نہیں کرتی تھی سو مکھی اڑا دی۔
اسکا اسلام خطرے میں پڑ جائے گا۔ ڈیوڈ نے قہقہہ لگایا تھا۔
کیوں گانے بجانے میں کیا ہے۔ سیہون کو اسکی بات سمجھ نہیں آئی تھی۔
ارے اسلام والے گانے بجانے سے دور رہتے ہیں۔ اسکو جنت نہیں ملے گی اگر اس نے کے پاپ میں ناچ گانا کر لیا تو۔
ڈیوڈ تمسخر بھرے انداز میں کہہ رہا تھا
ڈیوڈ اپنی زبان کو لگام دو۔ واعظہ ایکدم بھڑک اٹھی تھئ
ویسے جونگیا اپنی گرل فرینڈ سے پوچھو اسکا اسلام ایک بڈھسٹ سے ڈیٹ کرتے۔۔۔۔۔۔ وہ آگے جانے کیا کہنے والا تھا اس نے آئو دیکھا نا تائو میز پر سے کتاب اٹھائی اسکے سر پر سے ماری
ایک لفظ اور بولا تو سر توڑدوں گی۔
کتاب اسکی کنپٹی پر لگی تھیں۔ وہ وہیں کنپٹی پکڑ کر دہرا ہوگیا۔ اسکی کنپٹی سے خون نکل رہا تھا۔ کیونکہ اس نے جو کتاب پھینکی تھی اس میں پنسل رکھی ہوئی تھئ۔ پوری کلاس اسکی جانب بھاگئ ۔۔ واعظہ کو قطعی اندازہ نہیں تھا کہ کتاب اسے زخمی کردے گی۔۔ اس نے تو۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر تم کہتئ ہو مسلمان انتہا پسند نہیں ہوتے۔ زرا سا دائیں جانب لگتی پنسل تو اسکی آنکھ بھی ضائع ہو سکتی تھی۔
اسکول سےواپسی پر وہ اسکے ہم۔قدم چلتے ہوئے جتا رہا تھا۔
میں نے اسے ایک بنا جلد ہوئی ہلکی سی کتاب ماری تھی صرف چپ کرانے کیلئے۔ورنہ وہ اسلام کے بارے میں کتنی انتہاپسندی سے بات کرتا ہے تم جانتے ہو۔ مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اسکو یوں پنسل چبھ جائے گی۔ میں کل معزرت کرلوں گی اس سےاور۔ڈسپلن کمیٹی سے بھی
ڈیوڈ نے تمہاری شکایت نہیں کی۔۔۔۔۔ جونگیا نے گہری سانس لی
اسکی تیز چلنے کی وجہ سے سانس پھولنے لگی تھی۔ واعظہ نے اپنی رفتار کم کر لی۔
کر لیتا میں بھی پھرکرتی کہ وہ مستقل کوئی نہ کوئی بات نکال کر اسلام کے خلاف بولتا رہتا ہے۔
واعظہ نے مٹھیاں بھینچیں۔
اگر وہ بولتا ہے تو بولنے دو۔ تمہارا کیا جاتا ہے۔
جونگ وون نے بات آئی گئ کرنے کی غرض سے کہا تھا۔
میں اس وقت بڈھزم کا مزاق اڑائوں بدھا کا مزاق اڑائوں برداشت کر لوگے ۔۔ واعظہ رک کر اسکے مقابل آکر پوچھ رہی تھی۔
اڑالو۔ میں تمہاری طرح فالتو باتوں پر جزباتی نہیں ہوتا۔ اس نے کندھے اچکا کر چڑایا
مجھے سنجیدہ جواب دو۔ کہوں میں کچھ الٹا سیدھا تمہارے عقائد کے بارے میں؟
وہ سنجیدہ تھئ۔
کہو۔ اس نے گہری سانس لی۔
کیا کہو گی؟ بدھا نے کبھی ایسے کوئی اصول نہیں بنائے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کی جسکا مزاق اڑایا جا سکے۔ وہ برابری کے قائل تھے۔ امن کا درس دیتے تھے۔ انکے احکام مردوں اور عورتوں دونوں کیلئے ایک جیسے تھے۔اچھا کروگے اچھا ملے گا برا کرو گے برا ہوگا۔ اب ان باتوں کی سچائی سے تو انکار نہیں کرما وجود رکھتا ہے۔ آپ آج جو کچھ کہیں گے کریں گے کل کو اسی کا جواب ملے گا آپکو ۔۔۔
وہ رسان سے بول رہا تھا
تو اسلام نے ایسا کیا کر دیا ہے؟ یہ بھی دین ہے جو برائی سے روکتا ہے اچھائی کی تبلیغ کرتا ہے اور
واعظہ نے دلیل دینی چاہی۔
ہاں عورتوں کے لیئے کچھ مردوں کیلئے کچھ۔ خود کو دیکھو تم سے یہ سب احکام سہے جاتے ہیں اسکارف لیتی ہو کوئی؟
وہ جو لمبا چوغا ہوتا۔۔۔ وہ سوچ میں پڑا۔۔ واعظہ نے تلملا کر کچھ کہنا چاہا مگر وہ اشارے ہاتھ اٹھا کر ا سے روک گیا۔ وہ جو مسلم عورتیں پہنتیں ہیں باہر نکلتے تم سے بھی اتنی پابندی نہیں ہوتی۔ اسلام کے حساب سے تو ابھی میں اور تم باتیں کرریے یہ بھی گناہ ہے نا ؟ ڈیوڈ نے کیا غلط کہا تھا ؟
اتنی اچھی آواز ہے مگر تم کے پاپ کے لیئے آڈیشن تک دینے نہیں جا سکتی ہو تمہارے پیرنٹس الائو نہیں کریں گے۔
پورک نہیں تو دور عام گوشت بھئ نہیں کھا سکتیں ہمارے ساتھ ہم دن گن رہے ہیں کب 21 سال کے ہوں اور ہمیں شراب پینے کی اجازت سرکاری طور پر مل جائے تم تو 21 سال۔کے بعد بھی نہیں پی سکو گی اتنا مشکل مزہب ہے تمہارا ۔۔۔
تمہیں جس بارے میں معلومات نہیں مت بولو۔ مانا میں عبایا یا اسکارف نہیں لیتی مگرمیرا لباس اس وقت بھی مناسب ہے۔ اور۔۔۔
بس ۔۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ کونسا مزہب صحیح ہے کونسا غلط ۔ تم اپنے مزہب پر رہو جیسے مرضی مگر تمہیں یوں کسی پر اپنےنشانے آزمانے کا کوئی حق نہیں۔۔۔۔ اسکے الفاظ سخت مگر انداز خاصا نرم سا تھا۔
وہ چپ ہوگئ۔۔۔
چلو چلیں۔ اس نے اپنی طرف سے بات ختم کر دی تھی مگر بات یوں ختم ہوئی نہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج 14 فروری تھی۔ وہ سب اسکول میں خوب تیار ہو کر آئے تھے۔ ذیادہ تر نے یونیفارم کے کوٹ کے نیچے سرخ شرٹ یا سویٹر پہن رکھا تھا۔ اوریونیفارم پر ہونے والا جرمانہ بھی خوشی خوشی بھرا تھا۔۔۔۔
گیٹ کے قریب کھڑے منتظم استاد کی طبیعت جھک ہو چکی تھی۔ جب ایک کے بعد ایک سب سرخ ہی پہنے آتے نظر آئے تو وہ بھی تھک کے ایک دو کو ڈنڈے لگا کر ایک طرف بنچ پر بیٹھ ہی گئے۔
یا آگاشی۔۔ اب تم۔۔۔
وہ اپنی دھن میں بیگ لٹکائے اسکول گیٹ سے اندر آرہی تھی۔جب سر جان نے اسے آواز لگائی
جی سر۔ وہ وہیں سے پکاری۔۔
اچھا تم ہو۔ جائو جائو۔
انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کو کہا۔
وہ کندھے اچکا کر اندر کی۔جانب بڑھ گئ
یہ اسکرٹ تو نہیں پہنے وے ؟ پیچھے اسے کسی لڑکی کا اعتراض سنائی دیا
یہ مسلم ہے اس نے خاص اسکول سے اجازت لی ہے۔۔۔ بس یہی پینٹ پہن کر آتی ہے اسکو۔۔
اس نے ان آوازوں سے بچنے کیلئے قدم تیز کر لیئے۔۔
سارا دن تو پڑھائی میں مصروف گزرا مگر آدھی چھٹی کے بعد وہ سب پڑھنے کو تیار نہ ہوئے تو استاد بھی انکو انجوائے یور سیلف کہتے نکل گئے۔ وہ اسکول کینٹین سے کھانا نہیں کھاتی تھئ سو آرام سے گرائوںڈ وغیرہ میں کہیں بیٹھ کر لنچ کرتی تھی۔ آج تو گرائونڈ میں سب امڈے پڑے تھے کہیں لال غبارے لگا کر ویلنٹائن ڈے منا رہے تھے تو کہیں کوئی گھٹنوں کے بل بیٹھا پرپوز کر رہا تھا۔ وہ گرائوںڈ تک جاتی سیڑھیوں پر بیٹھی دلچسپی سے دیکھتے کھانا کھا رہی تھی جب میری اسکے بابر آن بیٹھئ
آج جونگ وون بہت بڑا سا شاپرلایا ہے یقینا اسکا ارادہ تمہیں آفیشلی پرپوز کرنے کا ہے۔
اسکی بات پر اسے ایکدم اچھو لگا تھا۔
ایویں ضرورئ تھوڑی میرے لیئے لایا ہو۔۔۔ اس نے ٹالنا چاہا
تو اورکس کے لیئے لائے گا۔ الٹا وہ حیران ہوئی
اس نے سیہون کے سامنے خود اعتراف کیا ہے وہ تمہیں پسند کرتا ہے۔ اور یقینا تم بھئ۔۔ تو آج تو پرپوز ہی کرے گا۔۔
ضرورئ نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی۔۔۔
وہ بتانا چاہ رہی تھی کہ وہ اسے پہلے ہی پرپوز کر چکا ہے
مگر تبھی میری کو سیہون نے آواز دے ڈالی تھی وہ اٹھ کر ہی چلی گئ۔ کھانا ختم کرکے وہ واپس کلاس روم میں آکر اپنے مخصوص ڈیسک پر آکر بیٹھئ ۔ اپنا بیگ کھول کر ڈیسک پر بکھری کتابیں رکھنے لگی۔۔ تبھی ڈیسک کی دراز میں اسے کوئی چیز محسوس ہوئئ۔ اس نے نکالا تو شاپر تھا۔ اندر کوئی ڈبے جیسئ چیز تھئ۔ اس نے نکال کر دیکھنا چاہا۔۔تو مشہور ریستوران کا ڈسپوز ایبل پیک تھا اس پر بڑا سا سور ہی بنا ہوا تھا اسپائسی پورک فیٹ۔ یقینا اندرپورک فیٹ تھے مصالحہ بھرے ٹرانپیرنٹ شیٹ سے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ ۔۔۔ اس سے قبل کہ وہ کوئی ردعمل دکھاتئ پیچھے سے ڈیوڈ نے آکر اس سے شاپر اچک لیا۔
بیان۔ میں یہاں بیٹھا تھا تو میں نے رکھ دیا تھا۔ وہ معصوم بن کے کہہ رہا تھا۔ یقینا اتنا معصوم تھا نہیں۔
آئیندہ میری نشست پر بیٹھو تو یہ ( Shit) گندگئ اپنے ساتھ لیکر اٹھنا۔۔
وہ بھڑک اٹھی تھی۔
گندگئ؟ وہ ہونق ہوا۔تبھی بستہ کندھے سے لٹکائے جونگ وون جماعت میں داخل ہوا تھا۔ اسکو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں چمک سی آگئ۔ زرا زور دار آواز میں بولا
کھانے کیلئے لایا ہوں۔ اسکو گندگئ کیسے کہہ سکتی ہو۔ جونگ وون کو بہت پسند ہیں یہ۔ اسکے لیئے لایا ہوں۔
جونگ وون۔۔
اسکے پکارنے پر جونگ وون سیدھا اسی کے پاس چلا آیا۔
یہ لو میں تمہارے لیئے لایا تھا۔ پورک ہیڈ۔ مسکرا کر اسے پیش کرتے ہوئے وہ کن اکھیوں سے بل کھاتی واعظہ کو ہی دیکھ رہا تھا
میرے لیئے۔ جونگ وون نے جھٹ نوالہ لیا تھا۔
جونگ وون تم نے وعدہ کیا تھا کہ پورک نہیں کھائو گے کبھی۔ وہ پیر پٹخ کر چلائی۔
اوہ ہاں۔ وہ لاپروائئ سے ہاتھ جھاڑنے لگا۔
کیوں جونگ وون پورک کیوں نہیں کھائوگے مسلمان ہو گئے ہو کیا؟ ڈیوڈ بھولپن سے پوچھ رہا تھا۔
ابے نہیں یار۔۔۔ اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
ہو جائو مسلمان سنا ہے مسلمان چار چار بیویاں رکھ سکتے۔۔
دوسرے ہم جماعت نے بھئ شرارتا ٹہوکا دیا۔
ایک مسلئہ ہوگا ویلنٹائن ڈے پر چار چار گفٹس خرید تے جونگ وون تو ہلکان ہو جائے گا۔
وہ سب پھر شروع ہی ہوگئے۔ ایک ٹھونک رہا تھا ایک بجا رہا تھا۔اس کو ان میں سے کسی کی کسی بات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا مگر جونگ وون۔۔ وہ بھی ان سب کے ساتھ ہنستا ان جیسا ہی لگ رہا تھا۔ اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور جھٹکے سے مڑ کر جانے لگئ۔
جونگ یون نے اسے یوں خفا ہو کر جاتے دیکھا تو فورا انکو ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھام لیا۔
دل لگئ کر رہے ہیں یہ سب جانے دو۔ موڈ نہ خراب کرو۔۔
اس نے مڑ کر جونگ وون کو دیکھا۔ آنکھوں میں نرم سا تاثر۔
وہ ہونٹ بھینچ کر رک گئ۔
تبھئ اسکے دوستوں نے انکے گرد دائرہ سا بنا لیا۔ ایک دو تین۔ سب کے ہاتھوں میں دل کی شکل کا کارڈ تھا جس پر ایک ایک حرف لکھا تھا پورا لفظ پڑھتے وہ پوری گول گھوم گئ تھی۔
آئی لو یو۔
اسکے گول گھومتے ہی پیچھے سے لڑکیوں نے اس پر پھولوں کی بارش کر دی تھئ۔ وہ نجانے کب اس سے پہلے کلا س میں آکر سب تیاری کر گیا تھا۔ خوشی اگر کوئی لمحہ ہوتی یے تو یقینا واعظہ کیلئے یہی تھی۔ اسکا چہرہ تمتما اٹھا تھا۔ جونگ وون گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکا ہاتھ مانگ رہا تھا۔
سارانگھئیے واعظہ۔ اسکے پاس چھوٹا سا خوبصورت بریسلٹ تھا۔ جگر جگر کرتی چندی آنکھیں اسکے چہرے پر اسکی نظریں جمی تھیں۔
ٹووں ں ں۔۔
واعظہ کا ذہن لمحہ بھر کو سن سا ہوا۔
لمحوں میں صدیوں کی سوچ آسمائی۔ اسکے بارے میں سیہون کہتا تھا وہ سوچتی بہت ہے۔ لوگ لمحوں کو جیتے ہیں اور واعظہ جیتے ہوئے سوچتی رہتی ہے۔ اس نے نگاہ اٹھا کر اپنے گرد کھڑے اس مجمعے کو دیکھا۔ سب اسکے ہم عمر ہم جماعت تھے مگر نہ ہم نسل تھے نہ ہم مزہب ۔ نہ یہ معاشرہ اسکا تھا۔ وہ تو ان سب کے درمیان یکسر اجنبی اکیلی تھی۔
اسکے چہرے سے مسکراہٹ تھمی پھر غائب ہی ہوگئ۔
اس منی سی تقریب کی پل پل کی ویڈیو بناتے سیہون نے چونک کر اسکی شکل دیکھی تھی۔۔۔۔
جونگ وون نے اسکا خود ہی ہاتھ تھام لیا اور بریسلٹ پہنانے ہی لگا تھا کہ اس نے چونک کر ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔
جونگ وون نے حیرانئ سے اسکا یہ ردعمل دیکھا ۔۔
یہ۔۔ یہ سب ٹھیک نہیں۔ بیان۔ مجھے نہیں لگتا ہمیں اپنی دوستی کو آگے بڑھانا چاہیئے۔ چھوا اے۔( میں پسند کرتی ہوں ) مگر تم بس میرے بہت اچھے شنگو ( دوست) ہو۔ ہم ہمیشہ اچھے دوست رہیں گے۔۔۔۔
پوری کلاس میں سناٹا چھا گیا تھا۔جونگ وون کو اپنی سانسیں رکتی سی محسوس ہوئیں۔
یہ کیا کہہ رہی ہو۔ اس سے کھڑا بھی نا ہوا جاسکا۔
پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہ گیا۔
بیان۔ اس کے لیئے بھی وہاں ان سب کی نظروں کے تیر سہنا مشکل ہو رہا تھا سو جلدی سے کہتی باہر نکل گئ۔ اسکے باہر نکلتے ہی کلاس کا سکتہ ٹوٹا تھا
یہ کیا یہ ایسے کیسے کر سکتی ہے۔
تمہیں اس سے پہلے بات کر لینی چاہیئے تھی پھر یوں سیلیبریٹ کرنا چاہیئے تھا۔ڈیوڈ اسکے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
ہاہ۔ کتنی بے عزتی کردی۔۔ بے چارہ جونگ وون۔
جتنے منہ تھے اتنی باتیں۔ ڈیوڈ نے جونگ وون کو سہارا دے کر اٹھنے میں مدد کی۔ سیہون نے کیمرہ بند کیا۔
میں بات کرتا ہوں۔ سیہون کہہ کر تیزئ سے واعظہ کے پیچھے بھاگا تھا۔ وہ لمحوں میں راہداری سے غائب ہو چکی تھی۔ وہ اسے ڈھونڈتا باہر آیا تو وہ گیٹ سے نکل رہی تھی۔
انکے درمیان کافی فاصلہ تھا مگر اس نے بھاگ کے اسکو جا ہی لیا۔ ایکدم سے اسکے آگے کر کھڑا ہوا تو واعظہ کو رکنا ہی پڑا۔
یہ کیا تھا ؟ اس نے بلا تمہید پوچھا تھا۔
جوابا واعظہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ پھر مزید کچھ نہ کہہ سکا۔
اسکی آنکھیں سرخ اور چہرہ آنسوئوں سے تر تھا وہ یقینا روتی آئی تھی سارا راستہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
وہ کہتی ہے تم دونوں میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ مزہب معاشرہ نسل ہر چیز کا فرق ہے۔ وہ مسلمان ہے ڈیٹنگ اسکے نزدیک غلط ہے۔ اور ویسے بھی وہ کسی کافر سے تعلق نہیں رکھنا چاہتئ۔ وہ محبت بھی نہیں کرتی تم سے محبت کرتی تو پھر شائد کوئی راستہ نکل آتا۔
سیہون نے اسے بالتفصیل بتاتے سمجھایا تھا۔ وہ دونوں ہاتھوں میں سر تھام کے رہ گیا۔وہ لوگ اس وقت کلاسز بنک کرکے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی چھت پر بیٹھے تھے۔
جھوٹ ہے یہ بات۔ اس نے جتنا ذور دے کر کہا تھا سیہون اسے دیکھ کر رہ گیا
وہ جھوٹ بھی اگر بول رہی ہے تو انکار ہی کر رہی ہےوہ تمہاری گرل فرینڈ نہیں بننا چاہتی ۔۔سیہون نے اسے کندھے پر ہاتھ رکھ کے سمجھانا چاہا وہ بےزاری اسکا ہاتھ جھٹک کر اٹھ کھڑا ہوا۔
میں اس سے خود بات کروں گا۔ وہ فیصلہ کرکے تیز تیز قدم اٹھاتا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا
ڈیوڈ اور اسکے دوست پارٹی کر رہے ہیں کلاس میں یقینا واعظہ اس وقت کلاس میں نہیں ہوگی گھر جا چکی ہوگی۔ اس نے پکار کر بتانا چاہا جانے اس نے سنا کہ نہیں
۔ سیہون نے گہری سانس لیکر آسمان کو دیکھا۔ بادل خوب گھر کر آئے تھے آج یقینا زوردار بارش ہوگی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلاس روم کینٹین اس نے ہر جگہ تلاشا تھا میری پانی کے کولر کے سامنے کھڑی ہاتھ دھو رہی تھی اس سے آکر پوچھا۔
وہ تو شائد گھر چلی گئ ہے ابھی گیٹ کی طرف جاتے دیکھا تھا۔
اسکا جملہ ختم ہونے سے قبل وہ دوڑ لگا چکا تھا۔۔ بادلوں نے گرجنا شروع کر دیا تھا۔ گیٹ سے آگے ذیلی سڑک پر وہ قدم بہ قدم دور جا رہی تھئ۔
اس نے آواز دی۔
وازیہ۔۔ وہ ٹھٹکی مڑ کر بھی دیکھا۔ مگر پھولی سانسوں کے ساتھ گھٹنوں پر ہاتھ رکھے ہانپتے جونگ وون کو دیکھ کر بھی رکی نہیں۔۔
برستی بارش میں چھتری کا سایہ کیئے آتئ گرمیوں کی خوشگوار سی ڈھل چکنے والی شام میں گھر کا راستہ ناپتی وہ مانوس راستوں پر تیز تیز قدم اٹھاتی گامزن تھی جب کوئی اسکے پیچھے صدیوں کا فاصلہ طے کرتا بھاگتا آیا تھا۔۔
وازیہ۔
مانوس آواز۔۔
پھولی سانسوں سے جان لگا کر پکارتا کوئی۔ اسکے قدموں کی رفتار دھیمی ہوئی مگر وہ رکی نہیں۔
وازیہ ۔۔ تم کو کیا ہوا۔ کیا برا لگ گیا تمہیں؟ ایسے کیوں چلی آئیں۔۔
اسکو رکتا نہ دیکھ کر وہ جان لگا کر بھاگتا ہوا ایکدم اسکے سامنے آگیا تھا۔ وہ بروقت رکی ورنہ ٹکرا ہی۔جاتی۔
گرے پینٹ سفید شرٹ والا مخصوص بیج والا یونیفارم بارش میں بھیگ چکا تھا۔ اسکول سے وہ یقینا بھیگتا ہوا بھاگتا آیا تھا۔ اسکے پاس صبح بھی چھتری نہیں تھی مگر اکثر صبح خود اسے چھتری شیئر کرکے اسکول تک بنا بھیگے پہنچانے والی وہ لڑکی اس وقت کٹھور سی ہوگئ تھی۔یکسر اجنبی نگاہوں سے کم جونگ وون کو دیکھتی وہ لڑکی ۔
اس نے سر جھٹکا۔
اپنی سانسیں بحال کرتا وہ جیب سے پمپ نکال رہا تھا۔ منہ میں انہیلر لیکر اس نے جلدی جلدی دوا حلق میں انڈیلی۔
ایستھما کا مریض برستی بارش میں بھاگ رہا تھا اسکی سانس بری طرح اکھڑ چکی تھی۔۔۔ کتنے لمحے وہ بات کرنے کے قابل نہ رہا۔ اتنے لمحے کسی کو خود کو سمیٹنے میں لگ گئے تھے
میرے لیئے تو پارٹی نہیں تھی نہ میں ٹریٹ دے رہی تھی۔ سو میرے رکنے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں تھا۔
لڑکی نے بے نیازی سے کندھے اچکائے۔
مگر میں نے کچھ پوچھا تھا تم سے۔۔۔۔۔ وہ چیں بہ چیں ہوا۔
جواب کا منتظر تھا ۔۔۔۔۔۔وہ سینے پر ہلکے ہلکے مکے مار رہا تھا۔ سانس پھولتی اٹکتی ۔ اسے یقینا بولنا نہیں چاہیئے تھا مگر وہ بول رہا تھا۔بے تابئ سے بے چینی سے۔۔
تم بنا جواب دیئے ایسے۔۔
کہا تو تھا آندے۔
لڑکی نے بے نیازی سے کندھے اچکائے اور ایک طرف سے ہوکر نکل جانا چاہا۔
جونگ نے اسکا بازو تھام۔کر روکا
سرعت سے اس نے بازو چھڑایا تھا۔ جونگ کی چندی آنکھوں میں حیرانی سی اتر آئی۔ وہ لڑکی آج لحاظ کرنے کو تیار نہ تھی کتنا بیمار تھا وہ۔زرا خیال اسکی آنکھوں سے نہ چھلکا۔
تم ۔۔ تم ایسے کیسے۔ ۔۔ میرا مطلب۔ ہاہ آہ۔ میں نے پرسوں پرپوز جو کیا اسکا جواب دو۔ کل بھی تم نہیں آئیں نا فون اٹھا رہی ہو۔۔ مجھ سے کوئی ناراضی یے۔۔
وہ پھر سانسیں بحال کرنے لگا۔۔
سوچ کے۔۔ جواب دینا چھے بال۔
وہ منت کرنے پر اتر آیا۔۔
میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی جونگیا۔
لڑکی نے پرسکون سے انداز میں اسکی بات سنی پھر ہموارلہجے میں کہتی وہ اٹھارہ سال کی ہائی اسکول کی طالبہ اس وقت جیسے جست لگا کر اسی سال کی بردباری دکھا رہی تھی۔
کیوں ۔؟ ویئو؟
وہ جیسے تڑپ سا اٹھا تھا۔
کیا مطلب کیوں ؟۔۔
وہ جیسے حیران ہوئی۔۔
میں اور تم اچھے دوست ہیں بس۔ اس سے ذیادہ اور کچھ نہیں۔
اس نے کندھے اچکائے۔
ہم بہت اچھے۔۔ بہت اچھے دوست ہیں۔ ہماری دلچسپیاں، عادتیں ،خیالات سب ملتے ہیں ۔۔ ہم جب اکٹھے ہوتے ہیں تو ۔۔
آکھوں ۔۔ وہ کھانسنے لگا تھا۔۔
میرے دلچسپیاں ، عادتیں خیالات ، کیتھرین سے بھی ملتے اسے ڈیٹ کرنے لگوں کیا؟
وہ ہنسی۔۔ ہنستے ہوئے جونگ کو وہ دنیا کی سب سے ذیادہ سنگدل اور کٹھور لڑکی لگی تھی۔
بارش تیز ہورہی ہے بھیگو گے تو طبیعت اور خراب ہوگی گھر جائو صبح ملاقات ہوتی ہے اسکول میں۔ آننیانگ
نرم سے انداز میں کہہ کر اس نے پھر اپنی راہ لی تھی۔
چھتری تیز ہوا سے اڑ رہی تھی مگر اس نے مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔
اسے جاتے دیکھ کر اسے لگا تھا جیسے وہ اس سڑک سے نہیں اسکی زندگی سے جارہی ہے
وہ پھر تیزی سے اسکی جانب بڑھا آگے بڑھ کر اسکو کندھے سے تھام کر اسکا رخ اپنی جانب موڑا
اور جیسے ساری توانائیاں لگا کر چیخا۔۔
سوائے ہم میں مزہب کے اور تو کوئی فرق نہیں اور تم خود کونسا مزہبی ہو۔ سیہون کہہ رہا تھاا۔۔ کھو کھو۔۔۔
اسکی سانس پھول گئ تھئ۔ واعظہ رک گئ تھئ۔
مجھے پتہ ہے مزہب کی بات نہیں۔۔۔
تم مجھ سے ناراض ہو کسی بات پرمگر مجھے میرا قصور تو بتائو۔۔
وہ بے چارگی سے کھڑا پوچھ رہا تھا
واعظہ گہری سانس لیکر کر مڑی۔
میں تم سے نہیں خود سے ناراض ہوں۔ اس بات پر کہ میں نے تمہیں پسند کیا اہم جانا دوست سمجھا اور۔
اسکی آواز ذرا سا ڈوبی تھی۔ جونگ وون ساکت سا کھڑا دیکھ رہا تھا۔
تمہیں یہ موقع دیا کہ تم میرے سامنے میرے مزہب میرے عقیدے کا مزاق اڑائو۔ میں کب کیوں تمہیں اتنی لبرل لگی کہ تم اپنے دوستوں کے سامنے میرے مزہب۔۔
وہ آگے بول نہ سکی۔ گلے میں پھندہ سا لگا تھا۔۔ برستی بارش انکے درمیان دھندلی دیوار سی بنا رہی تھی۔ وہ اس چند قدم کے فاصلے کو کم کرنے کیلئے آگے بڑھا۔
بیان۔۔ بیانئے۔بیانمنیتا۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا تم اتنا برا مان جائو گئ آئی سوئیر آئیندہ کبھی ایسا نہیں ہوگا۔۔ میں ڈیوڈ سے کبھی بات بھی نہیں کروں گا پورک کھانا چھوڑ دوں گا مجھے معاف کردو۔
وہ گڑگڑایا۔۔ اسے ہر صورت منا لینا چاہتا تھا۔۔
پرسوں جب تم سب مل کر ٹھٹھہ لگا رہے تھے ہنس ریے تھے میں غور سے سب کی شکل دیکھی تھی۔ تم سب ایک جیسے تھے۔ باتوں میں روئیوں میں۔ سوچ کا۔۔انداز ۔۔۔
اس نے اپنے چہرے کو ہاتھ کی پشت سے پونچھااور فیصلہ کن انداز میں بولی۔
تم سب کے بیچ کھڑے میں نے جانا تھا کہ چاہے میں ہنگل روانی سے بول لوں یا تم سب کے ساتھ گھل مل بھئ لوں مگر میں الگ ہوں ۔۔ میں تم سب میں اکیلی تھی۔۔۔ اکیلی مسلمان پاکستانی نژاد ۔۔ میں دیکھنے میں سوچنے میں ہر طرح سے تم سب سے الگ ہوں۔ اور ہم ایک جیسے کبھی نہیں ہو سکتے۔
نہیں وازیہ۔ ایسا نہیں ہے۔۔ اس نے اسکا ہاتھ تھامنا چاہا وہ سرعت سے پیچھے ہو ئی۔
اب تم سونے کے بھی بن جائو میرے لیئے پہلے جیسے نہیں رہے ہو۔ بہتر ہوگا یہ بات خود کو جلد باور کرا لو۔
وہ کٹھور سے انداز میں کہتی جانے کو مڑی
وازیہ۔ میری بات سنو چھے بال۔۔۔ وہ اسے جس طرح پکار رہا تھا۔ اسکے لیئے وہاں کھڑا ہونا ممکن نہیں تھا۔
اس نے اپنی چھتری اسکا ہاتھ پکڑ کر تھمائی پھر اسکی شکل دیکھے بنا بھاگتے ہوئے برستی بارش کی اس دیوار میں کھو گئ تھئ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پندرہ بیس دن بعد اسے ہوش آیا تھا۔ اس نے آنکھ کھولی تھی۔ سامنے نرس تھی۔
میں کہاں۔۔ اس نے فورا گھبرا کر اٹھنے کی کوشش کی۔
لیٹے رہیں ڈرپ لگی ہے۔ نرس نے فورا اسکا ہاتھ پکڑ کر کنولا کی سوئی چبھنے نہ دی تھی۔
یہ کونسی جگہ ہے۔
اس نے حوا س بحال کرکے ادھر ادھر نگاہ کی۔ کوئی سرکاری اسپتال تھا۔ اس کے ہاتھ پائوں ابھی سن تھے اس نے پھر بھی پائوں ہلانا چاہا تو کراہ کر رہ گیا۔ اسکے دائیں پائوں پر پنڈلئ سے نیچے تک پلستر تھا۔
گنگا رام اسپتال ہے یہ آپ لاہور میں ہیں۔
نرس کے کہنے پر وہ استعجاب سے چیخ پڑا
کیا۔۔
آپ شانت رہیئے۔ میں ڈاکٹر کو بلاتئ ہوں ذہن پرذیادہ بوجھ نہ ڈالیں پندرہ دن بعد تو ہوش آیا ہے آپکو۔۔ سیدھے لیٹے رہیں ابھی پیر کا زخم بھی بھرا نہیں ہے۔۔
نرس اسے ہدایت کرتی شائد ڈاکٹر کو بلانے چل دی تھی۔
پندرہ دن اسکے سر میں دھماکے سے ہوئے تھے۔۔ اس کی آنکھیں دوبارہ بوجھل ہو رہی تھیں۔۔
اس نے کوشش کرکے دوبارہ آنکھیں کھولیں۔۔ سامنے اب نرس کی جگہ کوئی اور لڑکی کھڑی تھئ۔
کھاوا کے بچے اٹھ بھی جائو۔۔۔ تین بار اٹھ کر جانے کس کس کو آوازیں دے چکے ہو۔ اب تو طوبی جی بھی رو رو کر تھک گئ ہیں۔ طبیعت بھئ ٹھیک نہیں انکی۔ دلاور بھائئ انکو باہر لیکر گئے ہیں۔ اور یہاں تم جو آوازیں دے رہے ہو سچ مچ ڈر لگ رہا مجھے۔
تیز گام کی طرح کتر کتر چلتی زبان۔ مانوس لب و لہجہ اس کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑی۔ آنکھیں دھندلا رہی تھیں مگر اس نے کوشش کرکے کھول کر دیکھنا چاہا۔
نظر وظر تو آرہا ہے نا؟ یہ کتنی انگلیاں ہیں۔۔
اس نے تیر کی طرح اپنی لمبی چار انگلیاں اسکی آنکھوں کے سامنے لہرائیں۔ لمبا ناخن آنکھ میں تو نہیں لگا مگر خوف کے مارے آنکھ بند ہوگئ اسکی۔
ہیلو ہاں۔۔ ہاں۔۔ نہیں جاگا تھا۔پھر بند کر لیں آنکھیں۔ کھاوا نے۔ نیند کی دوا تو ذیادہ نہیں ہوگئ۔۔ڈاکٹر سے پتہ کروں۔۔
اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ اب فون پر کسی کو بتانے میں مصروف تھی
پھر کھول لیں آنکھیں اسکو کیا ہو رہا ؟ پلکیں جھپکنے کا آٹومیٹک سسٹم خراب ہوگیا ہے لگتاہے۔
اسکی بات پر واعظہ نے دانت پیسے۔۔
آٹومیٹک سسٹم کی اماں آجی تھری( روبوٹ) کے پاس کھڑی ہو یا کھاوا کے۔
اٹھ گیا دیکھتئ ہوں کھاوا ہیلو؟ کھاوا۔ کھاوا
وہ اب اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکیاں بجا رہی تھی۔۔
میرا نام خاور ہے۔ فاطمہ۔۔۔ ان کورینز نے کھاوا بنا دیا تھا۔ آپ مجھے خاور کہہ سکتی ہیں
وہ نقاہت سے مگر ہموار لہجے میں بولا تھا۔۔
میرا نام یاد ہے اسے یاد داشت نہیں کھوئی اسکی لگتا ہے۔
فاطمہ کو اطمینان ہوا فورا واعظہ کو اطلاع دی۔
خاور بس دیکھ کر رہ گیا۔ سر پر درد بہت تھا ورنہ پکا گھورتا اسے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
ختم شد۔
جاری ہے
No comments:
Post a Comment