آینہ کہانی
ایک بار کسی شہر سے کسی بزرگ کا گزر ہوا وہ شہر کے داخلی دروازے کےقریب خیمہ گا ڑ کر قیام پذیر ہوۓ
لوگوں کو خبر ہوئے تو جوق در جوق ان سےعلم حاصل کرنے کی غرض سے انکے خیمے میں آنے لگے مگر عجیب ماجرا ہوا جو آتا دروازے سے ایک چیخ مار کر واپس چلا جاتا لوگوں کو پتا چلتا تو کچھ ڈر جاتےکچھ تجسس میں کھنچے آتے
کسی زاہد کو خبر ہوئے تو فتویٰ دے ڈالا صرف صاحب اایمان ہی گزر سکے گا اس دروازے سے
کسی مہ نوش کو خبر ہوئی سوچا صاحب ایمان نہ سہی مگر کسی بزرگ کی صحبت سے شاید کچھ علم پا جاؤں کہ دنیا نہ سہی آخرت سدھر جایے
وہ مصمم ارادہ کر کے آیا دروازے پر دیکھا آیینہ لگا ہے جو انسان کو اسکا چہرہ دیکھا دیتا ہے
شرابی نے اپنا چہرہ دیکھا سوچا تو لوگ اپنا چہرہ دیکھ کرڈر جاتے ہیں
خیر اس نے دستک دے ڈالی
بزرگ جو قدمو ں کی آہٹ سے چوکنا تھے اور حیران تھے ابھی تک چیخ کی آواز کیوں نہ سنائی دی
جھٹ دروازہ کھول ڈالا کیا دیکھتے ہیں ایک مجذوب سا حال سے بے حال مہ نوش سامنے کھڑا ہے
کیا چاہیے ؟
بزرگ نے با رعب انداز سے پوچھا
مہ نوش گھٹنوں کہ بل جھکا مجھے علم کی پیاس ہے مجھے سیراب کیجیے
بزرگ نے کراہت سے دیکھا
عجیب شہر ہے اتنے دن سے یہاں ہوں کوئی با مراد انسان نہیں دیکھا یہاں کے لوگوں میں تو کوئی علم کی پیاس ہی نہیں کوئی علم کا متوالا آیا بھی تو اپنے اصل روپ کو دیکھ کر ڈر کر لوٹ گیا یہ آیینہ مجھے ودیعت ہوا تھا اس میں دیکھنے والا اپنآ باطنی روپ دیکھ سکتا یہ دروازے پر اسی لئے ٹا نگا
تھا احمق کہ اپنا روپ دیکھ پھر دستک کی ہمت کر مگر یہاں کے بے ہدایت لوگ خود کو بھی جھیل نہیں پایے کسی میں دستک کی ہمت نہ رہی
اور تو ڈھیٹ انسان اپنا اصل چہرہ دیکھ کر بھی ہمت کر ڈالی جا دور ہوجا میری نظر سے
بزرگ غیظ و غضب سے کانپ اٹھے
آدمی اتنی ذلت پر کپکپا اٹھا
سوچا یا خدا اتنا بڑا مجرم ہوں میں کہ ہدایت کہ بھی قا بل نہیں
سسکتا اٹھا آیئنے پر قصدا نظر نہ ڈالی سر جھکا کر روتا ہوا پلٹ گیا
بزرگ نے سانس برابر کی سر جھٹک کر واپس خیمے کی طرف مڑے
یونہی آیینہ پر نظر پڑ ی
بھیانک بد صورت چہرہ
بزرگ اپنی صورت دیکھ کر چیخ پڑے
از قلم ہجوم تنہائی
ایک بار کسی شہر سے کسی بزرگ کا گزر ہوا وہ شہر کے داخلی دروازے کےقریب خیمہ گا ڑ کر قیام پذیر ہوۓ
لوگوں کو خبر ہوئے تو جوق در جوق ان سےعلم حاصل کرنے کی غرض سے انکے خیمے میں آنے لگے مگر عجیب ماجرا ہوا جو آتا دروازے سے ایک چیخ مار کر واپس چلا جاتا لوگوں کو پتا چلتا تو کچھ ڈر جاتےکچھ تجسس میں کھنچے آتے
کسی زاہد کو خبر ہوئے تو فتویٰ دے ڈالا صرف صاحب اایمان ہی گزر سکے گا اس دروازے سے
کسی مہ نوش کو خبر ہوئی سوچا صاحب ایمان نہ سہی مگر کسی بزرگ کی صحبت سے شاید کچھ علم پا جاؤں کہ دنیا نہ سہی آخرت سدھر جایے
وہ مصمم ارادہ کر کے آیا دروازے پر دیکھا آیینہ لگا ہے جو انسان کو اسکا چہرہ دیکھا دیتا ہے
شرابی نے اپنا چہرہ دیکھا سوچا تو لوگ اپنا چہرہ دیکھ کرڈر جاتے ہیں
خیر اس نے دستک دے ڈالی
بزرگ جو قدمو ں کی آہٹ سے چوکنا تھے اور حیران تھے ابھی تک چیخ کی آواز کیوں نہ سنائی دی
جھٹ دروازہ کھول ڈالا کیا دیکھتے ہیں ایک مجذوب سا حال سے بے حال مہ نوش سامنے کھڑا ہے
کیا چاہیے ؟
بزرگ نے با رعب انداز سے پوچھا
مہ نوش گھٹنوں کہ بل جھکا مجھے علم کی پیاس ہے مجھے سیراب کیجیے
بزرگ نے کراہت سے دیکھا
عجیب شہر ہے اتنے دن سے یہاں ہوں کوئی با مراد انسان نہیں دیکھا یہاں کے لوگوں میں تو کوئی علم کی پیاس ہی نہیں کوئی علم کا متوالا آیا بھی تو اپنے اصل روپ کو دیکھ کر ڈر کر لوٹ گیا یہ آیینہ مجھے ودیعت ہوا تھا اس میں دیکھنے والا اپنآ باطنی روپ دیکھ سکتا یہ دروازے پر اسی لئے ٹا نگا
تھا احمق کہ اپنا روپ دیکھ پھر دستک کی ہمت کر مگر یہاں کے بے ہدایت لوگ خود کو بھی جھیل نہیں پایے کسی میں دستک کی ہمت نہ رہی
اور تو ڈھیٹ انسان اپنا اصل چہرہ دیکھ کر بھی ہمت کر ڈالی جا دور ہوجا میری نظر سے
بزرگ غیظ و غضب سے کانپ اٹھے
آدمی اتنی ذلت پر کپکپا اٹھا
سوچا یا خدا اتنا بڑا مجرم ہوں میں کہ ہدایت کہ بھی قا بل نہیں
سسکتا اٹھا آیئنے پر قصدا نظر نہ ڈالی سر جھکا کر روتا ہوا پلٹ گیا
بزرگ نے سانس برابر کی سر جھٹک کر واپس خیمے کی طرف مڑے
یونہی آیینہ پر نظر پڑ ی
بھیانک بد صورت چہرہ
بزرگ اپنی صورت دیکھ کر چیخ پڑے
از قلم ہجوم تنہائی
No comments:
Post a Comment