نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قسط دو انوکھی کہانی


قسط دو انوکھی کہانی 

جلد ہی یہ بات سکول میں سب بچوں میں پھیلتی گئی 
انوکھی سے سب بچے ڈرنے لگے وہ اکیلی رہنے لگی 
وہ اکثر اکیلے بیٹھ کر روتی رہتی اور خدا سے شکوہ کرتی 
سب میری بات کیوں ماں لیتے اور اگر ماں لیتے تو اس میں میرا قصور کیا ہے 
اس کے امی ابو کافی خوش تھے اسکے بہن بھایئوں سے جو بات منوانی ہوتی انوکھی کے ذریے کہلاتے 
نتیجہ بہن بھی علیحدہ اس سے چڑنے لگے گھر میں جہاں یہ آ کر بہن بھائیوں کے پاس آ کر بیٹھتی وہ اٹھ کر چل دیتے 
انوکھی بچی ہی تو تھی اداس رہنے لگی 
اسکی دادی نے اسے پیار سے سمجھایا 
بیٹا یہ کوئی بری بات نہیں ہے اگر کوئی تمہاری بات ماں لیتا برا تب ہوتا جب تم اس بات کا غلط فائدہ اٹھاتیں بیٹا 
غلط فائدہ؟
وہ سمجھی نہیں 
ہاں جیسے تم لوگوں کو کچھ ایسا کرنے کا کہتیں جس سے انھیں نقصان ہوتا یا تم اپنے ذاتی کام کرنے کا کہتیں ٹیب بری بات تھی نا
دادی کو ایسا سمجھاتے ہوئے خیال بھی ذہن میں نہ آیا کہ انہوں نے نا دانستگی میں 
اسے نیی ترکیبیں اپنانے کا مشورہ دے دیا ہے 
...........
انوکھی یہ تمھاری لکھائی تو نہیں ہے 
اسکی استانی صاحبہ نے اسکی کاپی کے پچھلے صفحے پلٹ کر لکھائی کا موازنہ کیا 
میری نہیں ہے میں نے اپنی بہن سے اپنا گھر کا کام کروایا ہے 
کیوں ؟ 
استانی صاحبہ حیران ہویں 
میں تھک گئی تھی 
اس نے معصومیت سے کہا 
اچھا ٹھیک ہے ابھی یہ سب کام پانچ پانچ مرتبہ لکھ کر لاؤ 
انھیں غصہ آگیا تھا 
مت سزا دیں مس 
ٹھیک ہے آئندہ اپنا کام khud کرنا 
وہ فورا مان گیں 
انوکھی خوش ہو گئی
......
انوکھی لنچ باکس ویسے کا ویسا ہے کچھ کھایا کیوں نہیں؟
امی اسکا لنچ باکس دیکھ کر حیران رہ گائیں 
امی کھایا نا میری دوست آلو کا پراٹھا لائی تھی میں نے کہا مجھے دے دو اس نے دے دیا میں نے اسکا آلو کا پراٹھا کھایا نا 
انوکھی نے مزے سے بتایا 
اور اسنے کیا کھایا؟
امی حیران پریشان ہی تو رہ گیں 
اس نے کچھ نہیں روتی رہی آدھی چھٹی میں 
اس نے کندھے اچکا دے امی سر پیٹ کر رہ گیں 
تو تم اپنا لنچ اسے دے دیتیں بیٹا 
کل میں آپکو آلو کا پراٹھا بنا کر دوں گی وہ اسے دے دینا کل جا کر 
ٹھیک ہے؟
انہوں نے پیار سے اسکا سر سہلایا 
اس نے خوشی خوشی اثبات میں سر ہلا دیا 
.......
اگلے دن اس بچی کو اس نے آلو کا پراٹھا دیا اس نے خوشی خوشی اپنا لایا سند وچ اسے دے دیا 
اس نے سینڈوچ آدھا  ہی کھایا تھا اس کو اپنا دوسرا ہم جماعت نوڈل کھاتا دکھائی دے گیا 
........
ارے اس نے کوئی مار کر تھوڑی لیا تھا بچی ہے اسے لنچ پسند آگیا تھا اس نے کہا مجھے نوڈل دے دو آپ کے بچے نے دے دے اب میں اس بات پر بچی کو کیا ڈانٹوں؟
امی صاف مکر گیں 
ہاں عالیہ کو گھور کر دیکھا تھا عالیہ مسکرا دی تھی اس بار ڈری نہیں تھی امی حیران ہو کر رہ گیں  
اس وقت وہ پرنسپل کے دفتر میں موجود تھیں عالیہ کے علاوہ پرنسپل صاحب وہ بچہ منہ بسورتا ہوا اور اسکی امی غصے سے ناک بھنویں چڑھا ے بیٹھی تھیں 
 امی کو پرنسپل صاحب نے بلوا لیا تھا اس بچے کی امی  نے آ کر شکایات کی تھی کہ انوکھی ان کے بچے کا لنچ کھا گئی 
 کیوں بیٹا انوکھی نے آپکو مارا تھا؟
پرنسپل صاحب نے پیار سے پوچھا بچے نے نفی میں سر ہلا دیا 
 آپکو نوڈل نہیں دینے تھے تو آپ منع  کر دیتے نہ دیتے ؟
بچے نے سر ہلایا دوبارہ موٹے موٹے آنسوں سے رونے لگا 
دیکھے مسز فیروز بچے ہیں آپس میں کھلتے ہیں کھاتے پیتے بھی ہیں اس بات کو بڑھانے کا فائدہ نہیں آپ بچے کو منع  بھی کریں گی کہ آیندہ عالیہ کو اپنا لنچ نہ دے تو یہ بھی بری ہی بات ہوگی پھر بھی اگر آپ ایسا چاہیں تو ٹھیک ہے آپ کہ دیں اپنے بیٹے کو 
پرنسپل صاحب نے دھیرج سے سمجھایا وہ غصے سے اٹھ کھڑی ہیں عالیہ کو گھور کر دیکھا اور بولیں 
آیندہ میرے بچے کا لنچ کھایا تو بوہت بری طرح پیش آؤنگی
عالیہ نے کندھے اچکا دے 
مجھے اگر پسند آیا تو ضرور کھاونگی
وہ ذرا نہ ڈری 
عالیہ امی نے اسکی بدتمیزی پر گھورا 
یہ تربیت ہے آپکی مان کی امر کی ہوں اور یہ آگے سے مجھ سے بدتمیزی کر رہی ہے 
وہ خاتون بری طرح تپ گئیں تھیں 
میری امی سے تمیز سے بات کریں 
عالیہ نے گھور کر دیکھا انھیں 
سوری بولیں میری امی سے
ان خاتوں کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں 
سوری مسز شکیب 
وہ خاتون اب بیحد تمیز سے معذرت کر رہی تھیں 
پرنسپل صاحب اور امی منہ کھولے دیکھ رہے تھے 
کان پکڑ کر سوری بولیں 
عالیہ نے اطمنان سے سٹول پر چڑھ کر ٹانگ پر ٹانگ رکھ لی تھی 
ان خاتوں نے دونوں کان پکڑ لئے تھے 
...................................
عالیہ بیٹا یہ کیا حرکت تھی بیٹا؟
بڑوں کو ایسا نہیں کہتے کان پکڑ کر معافی مانگو 
امی نے گھر آ کر بڑے پیار سے سمجھایا 
مجھے مت سمجھائیں مجھے کھانا دن بھوک لگی ہے 
اس نے منہ بنایا تھا امی کھانا لگانے اٹھ گیں 
.........................................
سارا گھر اسکی خدمت میں لگا رہتا کوئی اسکے سکول کا یونیفارم استری کرتا کوئی اسکا سارا گھر کا کام کر دیتا اسکو کوئی ڈانٹ نہیں سکتا تھا وہ منع کر دیتی تھی دادی خاموشی سے اسکی حرکتیں دیکھ رہی تھیں 
اس دن صبح اٹھی سارا اس سے پہلے اٹھ کر باتھ روم جا رہی تھی 
سارا مت جاؤ مجھے پہلے جانا 
بیچاری دروازہ بند کرنے لگی تھی روتی روتی باہر آگئی
امی کچن میں تھیں جا کے رو رو کر انھیں شکایات لگی 
کیا کروں چندا مجھے بھی منع کیا ہوا ہے کہ اسے نا ڈانٹوں تم ہمارے کمرے کے باتھ روم میں چلی جاؤ 
وہ اور کیا کہتیں ویسے بھی ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں 
وہ منہ ہاتھ دھو کر باہر ائی تو امی نے اسکا آملیٹ اور پراٹھا لا کر سامنے رکھ دیا 
مجھے ہالف فرائی کھانا 
امی دانت پیس کر رہ گیں کوئی اور بچہ ہوتا تو ایک لگا کر یہی کھانے پر مجبور کرتیں ناچار اٹھ کر دوسرا انڈا بنا کر لائیں 
انوکھی اب دس سال کی ہو چکی تھی اسکو اب نہ صرف اپنی اس خاصیت کا پتہ چل چکا تھا بلکہ وہ اب اسکا صحیح غلط استمال بھی دھڑلے سے کرتی تھی 


........
سکول میں سپورٹس کمپیٹیشن ہوا 
ہر کھیل میں گولڈ میڈل لیا 
دوڑ کا مقابلہ ہوا اس نے بھاگتے بھاگتے اپنے سے آگے بھاگتے بچوں کو روک جانے کو کہا 
وہ تب تک رکے رہے جب تک وہ اختتامی لکیر تک نہ پہنچ گئی 
رسہ کشی کے مقابلے میں اس نے مخالف ٹیم کے بچوں سے کہا رسی چھوڑ دو سب ان کی ٹیم کے اپر آ کر گر گیے 
لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے اسکو مزہ نہ آیا جا کر منع کردیا مت کھیلو 
جب پرنسپل صاحب میچ دیکھنے آیے تو با یس بچے قطار سے بیٹھے انوکھی کا ملی نغمہ سن رہے تھے گا کر بولی سب تالیاں بجاتے رہو 
پرنسپل صاحب نے اسے بلا کر پوچھا یہ کیا کر رہی ہو؟
مجھے فٹ بال نہیں پسند میں نے گانا تیار کیا ہے سب کو وہ سنا رہی تھی 
پاکستان پاکستان 
پیچھے سب بچے تالیاں پیٹ پیٹ کر ہاتھ سرخ کر چکے تھے 
مگر بیٹا آپکو پسند نہیں اپ مت کھیلو آوروں کو منع تو نہ کرو 
وہ حیران تھے بچے رک بھی نہیں رہے تھے
وہ دو بار کہہ چکے تھے انھیں روکنے کو 
اس نے ایک نظر انکو دیکھا پھر بتایا 
آپ کے کہنے سے نہیں رکیں گے 
اس نے مڑ کر انہیں تالیاں بجانے سے رکنے کو کہا سب رک گیے 
اس نے سر کو مسکرا کر دیکھا اور آگے بڑھ گئی   
امتحان شروع ہوئے اس نے سارا پیپر اپنے ساتھ بیٹھی لائق لڑکی کا نقل کیا 
صاف کہا اسے مجھے دیکھو 
استانی صاحبہ نے آکر گھرکا تو انھیں خاموش کرا دیا مجھے مت ڈانٹیں 
چپ رہیں 
نتیجہ آیا تو اول آی تھی وہ پورے سکول میں 
اسکو پرائز دیتے ہوئے اسکی استانی صاحبہ کا منہ پھولا ہوا تھا 
اسکے پرنسپل صاحب بھی سنجیدہ سے کھڑے تھے 
اور تو اور وہ اسٹیج پر اپنا انعام لینے گئی کسی نے تالی تک نہیں بجائی 
وہ اپنا انعام لے کر امی ابو کے پاس ای اسکے اور کسی بہن بھائی نے پوزیشن نہیں لی تھی مگر وہ انکی پرسنٹیج دیکھ کر خوش ہوئے تھے اسنے اپنا انعام دکھایا تو امی نے ایک نظر دیکھ کر بنا خوش ہوئے ایک طرف رکھ دیا 
وہ بہت اداس ہو گئی تھی 
آپ سب مجھے مبارک باد دیں 
اس نے کہا تو سب کورس میں اسے پاس ہونے اور پوزیشن لانے پر مبارک باد دینے لگے 
وہ بجایے خوش ہونے کے مزید اداس ہو گئی اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پر اندھی لیٹ کر رونے لگی 
دادی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھیں 
چپکے سے اسکے پاس آ کر بیٹھ گیں پیار سے اسے سہلایا 
بیٹا کیوں رو رہی ہو؟
کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا کوئی مجھ سے خوش نہیں میں نے انعام لیا کسی نے تالی بھی نہیں باجی میرے بہن بھائی بھی خوش نہیں ہوئے کیوں دادی اماں ؟
وہ اٹھ بیٹھی اور سسکنے لگی 
دادی نے اسے پیار سے گلے لگایا 
ایسا اس لئے کہ تم نے یہ انعام اپنی محنت یا کار کردگی سے نہیں اپنے خصوصیات اپنی طاقت کا بیجا استمعال کر کے حاصل کیا ہے 
میں نے سمجھایا تھا نا بیٹا یہ طاقت آپکو اچھے مقصد کے لئے استمعال کرنی ہے اسکا غلط استمعال کروگی تو نقصان اٹھاوگی مجھ سے وعدہ کرو آئندہ کبھی کسی غلط فائدے کے لئے یا اپنے فائدے کے لئے اسے استمعال نہیں کرو گی؟
مگر دادی میں نے تو صرف 
اس نے ہچکچا کر کچھ کہنا چاہا 
بیٹا یہ طاقت آپکو دوسروں کی مدد کرنے کے لئے دی گئی ہے اسکا اپنے لئے بیجا استمال کروگی تو چھن جایے گی آپ سے آپ نے کسی اور کی محنت نقل کی اس سے آپ کے اپنے علم میں بھی اضافہ نہیں ہوا دوسرا کسی کی محنت چرا کر آپ نے اسکا بھی دل دکھایا جو پہلی پوزیشن لانے کے لئے سارا سال محنت کرتی رہی کسی کا دل دکھاؤ گی تو اسکی بددعا پیچھا کریگی پھر یہ خصوصیت جاتی رہی گی اب سمجھ ای 
دادی نے تفصیل سے سمجھا کر اسکا سر ہلایا 
تو اس نے آنسو پونچھ کر وعدہ کر لیا 
آئندہ میں کبھی کسی کو تنگ نہیں کرونگی
شاباش میری اچھی بچی 
دادی کو اسکے سمجھ جانے پر پیار آگیا تھا 


از قلم ہجوم تنہائی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani

 د کھی رات کہانی... یہ ایک دکھی کہانی ہے... رلا دیتی ہے... پڑھننے والے کو... مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے... یہ جان کے کہ در اصل یہ ایک... . . . دکھی کہانی نہیں ہے...  :D :نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟  Dukhi raat kahani yeh ek dukhi kahani hay  rula deti hay perhnay walay ko magar likhne waala muskra raha hay yeh jaan k  dar asal yeh ek  . . . dukhi kahani nahi hay  moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log? by hajoom e tanhai  از قلم ہجوم تنہائی

گندگی کہانی.. gandgi kahani

گندگی کہانی ایک تھا گندا بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی  لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو گندہ مسکرا دیا میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں .. یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا .. نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. : gandgi kahani ek tha ganda bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya paas say koi gzra tu herat say use d...