انوکھی کہانی
تیسری قسط
انوکھی تمہیں پرنسپل صاحب بلا رہے
وہ حسب معمول اکیلی آدھی چھٹی میں بیٹھی باقی بچوں کو کھیلتے دیکھ رہی تھی جب ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور اسے بتا کر واپس بھاگ گیا
وہ پیچھے پکار کر پوچھتی رہ گئی کیوں بلا رہے
خیر کیا ہو سکتا تھا وہ پرنسپل صاحب کے کمرے میں آگئی
بیٹا ادھر آؤ انہوں نے پیار سے اسے پاس بلایا
وہ حیران سی ان کے پاس چلی ای
ان کے پاس دو لوگ بیٹھے تھے جو حلیے سے کافی معتبر دکھائی دیتے تھے اور تھوڑے بیزار بھی دکھائی دیتے تھے
بیٹا ان سے کہو ہمارے اسکول کی رپورٹ اچھی بنائیں اور رشوت لے لیں آرام سے
انوکھی نے ان کے کہے الفاظ د ہرا دیے
.......................................
رات کو کھانا کھاتے اسے جانے کیا یاد آیا پوچھنے لگی
ابو رشوت کیا ہوتی؟
اگر آپکو کوئی کام کرنا چاہیے اپکا فرض ہے کرنا اور پھر بھی اس کام کو کرنے یا نہ کرنے کے آپ پیسے وصول کریں یا تحفہ کوئی بھی نا جائز فائدہ اٹھائیں تو اسے رشوت کہتے
ابو نے تفصیل سے بتایا
مگر کوئی کام آپکو کرنا ہی ہے اس کے کوئی پیسے کیوں دیگا ؟
اسے ابھی بھی صحیح سمجھ نہیں آیا
دیکھو
اس کے بھی نے چمچ پلیٹ میں رکھا اور اسے متوجہ کیا
مجھے امی نے کہا بازار سے چاول لے کر آؤ میں گیا لے آیا
میرا کام تھا اگر میں کہتا مجھے چاول لانے کے لئےقیمت سے تھوڑے سے پیسے زیادہ دیں تو یہ کام کرنے کی رشوت ہوتی
یعنی تم پہلے سے ہی رشوت خور ہو
آپی سمجھ گئیں
کیوں کیسے ... بھائی کو کافی برا لگا
ایسے کہ تم ہمیشہ مجھے کوئی بھی چیز لا کر دینے کے زاید پیسے وصول کرتے ہو رشوت خور
وہ غصے سے بولیں
کوئی نہیں میں نے کب کیا ایسا
بھائی صاف مکر گیا
امی اس دن
آپی کو کوئی پرانا جھگڑا یاد آگیا دونوں لڑنے بیٹھ گیے
خاموش ہو جاؤ دونوں اور کھانا کھاؤ
ابو نے ڈانٹا تب جا کے چپ ہوئے دونوں
پاپا رشوت لینا بری بات ہے ؟
انوکھی نے پوچھا
ہاں... ابو نے بلا توقف جواب دیا
رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں
ابو اگر کوئی رشوت نا لے رہا ہو اور کسی کے کہنے پر لے لے تب بھی جہنم میں جایے گا
انوکھی کسی خدشے سے ڈر کر بولی
ہاں ... کوئی غلط کام کرنے کو کہے تو ماننا نہیں چاہے نا بیٹا
خاموشی سے کھانا کھاتی دادی نے بھی باتوں میں حصہ لیا
اور اگر کوئی ایسا کہے جسکی بات ٹالی نا جا سکے تب بھی
اس نے کہتے کہتے سر جھکا لیا
ایسا کون ہو سکتا ناجائز تو والدین کی بھی ماننا منع ہے
امی نے کہا تو اس نے مزید سر جھکا لیا
انوکھی کی آنکھوں میں آنسو آگے
میں .... سب گھر والے کھانا چھوڑ کر اسکو دیکھنے لگے
..............................................
انوکھی نے میز پر سر رکھا رونا شروع کردیا
اب وہ دونوں انکل جہنم میں جائیں گے
ابھی تھوڑی جب مریں گے تب اور کیوں کے تم نے غلط کام کروایا انسے تو تم بھی جاؤ گی
بھی نے تمسخر اڑایا
ہیں ابو
وہ ڈر گئی
بری بات
امی نے بھائی کو گھرکا وہ منہ بنا کر چپ ہو رہا
یہ تو بہت غلط بات ہے پرنسپل صاحب نے انوکھی کی صلاحیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا
آپی شدید غصے سے بولیں
مجھے ان سے یہ امید نہیں تھی
ابو پر سوچ انداز میں کہنے لگے
پورا سکول انوکھی سے ڈرتا ہے کوئی بات بھی نہیں کرتا اس سے
سارا نے بھی بتانا ضروری سمجھا
کیا واقعی ایسا ہے؟
دادی کو صدمہ لگا
ہمیں انوکھی کا سکول تبدیل کروا دینا چاہیے اور اسکی خاصیت کو بھی چھپانا چاہیے اس طرح چلتا رہا تو لوگ اسکی خاصیت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے رہیں گے
ابو نے پر سوچ انداز میں کہا امی بھی متفق تھیں
از قلم ہجوم تنہائی
No comments:
Post a Comment