نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ہتھیار کہانی .. hathyaar kahani

ہتھیار کہانی 
ایک تھا باد شاہ اسکی سلطنت بہت بڑی  تھی کئی  سلطنتوں  کے با دشاہ اس پر قبضہ  کرنا چاہتے تھے 
با د شاہ  بہت پریشان تھا اس نے اپنی فوج بڑھا لی مگر پھر بھی جنگ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا 
ایک دن بادشاہ اپنے سپاہ سالار سے اپنی  فوج کی صورت حال انکی مہارت اور طاقت کے حوالے سے تفصیلات سن رہا تھا کہ اسے خیال آیا کیوں نہ کوئی ایسا ہتھیار بنایا جایے جو بہت مہلک ہو اور اس کی سلطنت کی افواج کے سوا دنیا میں کسی کے پاس نہ ہو 
خیال آنا تھا کہ اس نے فورا ماہر ہتھیار ساز کو حکم دے ڈالا
دنیا کا سب سے مہلک اور انوکھا ہتھیار بنا لایے
ہتھیار ساز نے حکم سن تو لیا مگر پریشان ہو گیا
اپنی تمام تر صلاحیتیں آزما ڈالیں
سوچ کے گھوڑے دوڑ ایۓ ہر طرح کا ہتھیار بن تو چکا تھا تیر کمان سے لے کر تلوار تک چھری سے لے کر نیزے تک
آخر نیا کیا ہتھیار بنایے
سوچتا رہا خیر اسکے پاس وقت کم تھا اگر کوئی نیا ہتھیار بنایے بغیر بادشاہ کے حاضری دیتا تو آخری حاضری دیتا بادشاہ نے اسکا سر قلم کروا دینا تھا
کرتے کرتے وہ دن آ پہنچا جب اسے اپنا شاہکار ہتھیار پیش کرنا تھا بادشاہ کی خدمت میں
گھر میں حال سے بے حال سر پکڑے بیٹھا تھا جب سپاہی اسے لینے دروازے پر آ موجود ہوئے
ہاتھ میں لوہے کا ٹکڑا لئے بیٹھا تھا اسکو ڈھالنے کے لئے مگر کس شکل میں ڈھالے یہ سمجھ نہیں اتا تھا خیر سپاہی اسے اسی حالت میں لے کر بادشاہ کے پاس چلے آیے
ہتھیار ساز تھر تھر کانپ رہا تھا بادشاہ نے پوچھا بتاؤ کیا ہتھیار بنایا تو اس نے بے ساختہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کمر پر باندھ لئے بادشاہ نے اسکی حرکت کو تعجب سے دیکھا سپاہی کو اشارہ کیا
سپاہی بادشاہ کے ابرو کے اشارے کی تعمیل کرتا اسکے ہاتھ کھینچ کر بادشاہ کی نگاہوں کے سامنے پیش کر ڈالے
نوکدار تیر کی شکل کا لوہے کا ہتھیار دیکھ کر سخت برہم ہوا
اس تیر میں نیا کیا ہے ؟
ہتھیار ساز کا گلہ خشک ہوا
وہ یہ اتنا مہلک ہے کہ اشارے سے جان لے لیتا...
بادشاہ کو یقین نہ آیا
ٹھیک ہے اگر یہ واقعی مہلک ہے تو تم اسکو اپنی جانب نشانہ باندھ کر دیکھاؤ ...
ہتھیار ساز مایوس ہوا جانتا تھا یہ عام سا لوہے ٹکڑا ہے جو ابھی کسی شکل میں ڈھالا ہی نہیں گیا اس سے اشارہ کرنے سے کیا گھونپ لینے پر بھی بس زخمی ہی ہوگا مرنا تو دور کی بات ہے
خیر اس نے اپنی جانب اشارہ کیا اس ٹکڑے سے بلکہ گھونپ ہی لیا
اسکے کنارے بھی تیز نہ تھے گھونپنے پر بھی بس اسکے شکم پر نیل پڑ سکا خون تک نہ نکل سکا بادشاہ چراغ پا ہو گیا
تم انتہائی نالائق غبی اور بیکار انسان ہو ایک ہتھیار تک نہیں بنا سکتےماہر ہتھیار ساز بنے پھرتے ہو اس سے بہتر تھا تم لوہار کا کام سیکھ لیتے لوہے کے اس ٹکڑے کو کسی شکل میں تو ڈھال لیتے
ہتھیار ساز کی اس بے عزتی پر محل میں موجود افراد دبی دبی ہنسی ہنسنے لگے
ہتھیار ساز پر گھڑوں پانی پڑ گیا شرم سے ڈوب مرنے لگا
بادشاہ کے غیظ و غضب کی شہہ پا کر سب اسے سخت سست سنانے لگے
ہتھیار ساز کے پیٹ میں درد اتنا نہیں رہا جتنا دل میں اٹھ گیا
تڑ سے گرا گرتے ہی مر گیا
بادشاہ حیران رہ گیا
واقعی اس نے اتنا مہلک ہتھیار بنایا تھا کہ اسکے اشارے پر مر گیا ؟
محل میں بیٹھے دانش ور سے پوچھ بیٹھا
فلسفی مسکرایا اور بولا اس نے نہیں یہ ہتھیار عالی جاہ نے آزمایا تھا جو جان لیوا نکلا
نتیجہ : زبان کا وار کاری ہوتا ہے
از قلم ہجوم تنہائی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani

 د کھی رات کہانی... یہ ایک دکھی کہانی ہے... رلا دیتی ہے... پڑھننے والے کو... مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے... یہ جان کے کہ در اصل یہ ایک... . . . دکھی کہانی نہیں ہے...  :D :نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟  Dukhi raat kahani yeh ek dukhi kahani hay  rula deti hay perhnay walay ko magar likhne waala muskra raha hay yeh jaan k  dar asal yeh ek  . . . dukhi kahani nahi hay  moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log? by hajoom e tanhai  از قلم ہجوم تنہائی

گندگی کہانی.. gandgi kahani

گندگی کہانی ایک تھا گندا بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی  لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو گندہ مسکرا دیا میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں .. یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا .. نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. : gandgi kahani ek tha ganda bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya paas say koi gzra tu herat say use d...